گھر واپسی
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے، سرھانے، دھرے دھرے
میر تقی میرؔ
ماہ دسمبر کی اس ٹھٹڑتی سیاہ رات، اسلام آباد میں مینا المعروف بہ نوشابہ حسین کی شادی تھی۔
اس رات ایک عجب بات ہوئی کہ دلہن کے لئے، دولہاکے لئے اور حجلہء عروسی کے لئے، کسی کے لئے بھی پھول نہیں ملے۔
پھول نہ ملنے کی وجوہات پر غور کریں، تو چند وجوہات فوراً سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شاید پھول منگانے کا فیصلہ عین اس وقت کیا گیا ہو، جب مینا نے شادی کے لئے حامی بھری ہو اور تب تک اس بے حس شہر کے لوگ اپنی دکان بڑھا گئے ہوں۔ یہ بھی قرینِ قیاس ہے کہ کہ یہ فیصلہ عجلت اور بددلی سے کیا گیا ہو اور کسی کے ذہن میں نہ آیا ہو کہ اگر اس پانچ ستارہ ہوٹل کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جاتا تو وہ کمرے کو اپنی ماہرانہ سجاوٹ سےbridal- suite میں تبدیل سکتے تھے۔ یہ ان کے لئے بہت آسان کام تھا بشرطیکہ انہیں اس کے لئے رقم کی ادائیگی کی جاتی۔ اسکے علاوہ، اگر آپ کو سوچوں پر بدگمانی کے مہیب سائے ہر وقت منڈلاتے ہوں تو آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ پھول لانے والے کے لیے یہ ایک بہت معمول کی کاروائی تھی۔جس میں ایسے اقدامات احسن تو سمجھے جاتے ہیں لازم نہیں۔
دولہا، پیر اکبرشاہ کا ڈرائیور، جسے پھول لینے کے لئے بھیجا گیا تھاوہ ایک گھنٹے کی خجل خواری کے بعد، سردی کی اس رات منھ سے نسوار آلود بھاپ اڑاتا، بے نیل و مرام، پھول لائے بغیرہی پانچ سو روپے کا نوٹ لہراتا ہوا، واپس آگیا۔ مینا کی پھوپھی نازلی
(جو اس سارے پروگرام کی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز تھی) کا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔
پھوپھی نازلی اس کی عمر کا لحاظ کئے بغیر ہی، غصے سے برس پڑی اور کہنے لگی کہ ’’کمبخت پھول لینے کسی مزار پر ہی چلا جاتا۔ وہاں تو پھولوں کی دکانیں ہر وقت ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ کم از کم بچی کا دل ہی رہ جاتا’’۔ ڈرائیور اس وقت تک پھوپھی نازلی کے تیور بھانپ کر حفظِ ماتقدم کے طور ایک سستا تیز خوشبو والا سگریٹ سلگا کر پہلا کش لے چکا تھا۔ یہ بات سن کراپنی چھوٹی نیلی گلگتی آنکھیں سکیڑ کر کہنے لگا ‘’امارے صاحب کا آج آپ کے مطابق شادی ہے سوئم نہیں کہ ہم مزار سے پھول لے کر آتا’’۔
مینا کی پھوپھی نازلی، کا شمار اب سے پندرہ بیس برس پہلے تک تو شہر کی ہٹیلی، کٹیلی طوائفوں میں ہوتا تھا۔ شعیب اختر کے انگلینڈ اور آسٹریلیا کی پچوں پر پہلے اوور کی لہراتی، اچھلتی، حملہ آور گیندوں کی مانند خوف زدہ کرتی ہوئی جوانی۔ موسم سرما میں خلیج کی ریاستوں سے آئے ہوئے مہمان اس کی جسمانی رفاقت کو تلور کے گوشت کی اثر انگیزی اور اپنی مردانگی کا Forensic Test سمجھتے تھے۔
’’صبح وصال، دم رخصت ان جلیل القدر مہمانوں کی جانب سے ’الوداعی کلمات کا اختتام’ واللہی انتَِ رائعتہً جداً، واللہی انت حبیبتی روحی‘‘ (آپ بہت amazing ہیں اور آپ تو میری روح کی راحت ہیں) پر ہوتا تھا۔ ان کے جواب میں وہ بھی جلدی جلدی لباس بدن پر چڑھاتے ہوئے، مشکل سے سمائے ہوئے ہمالیہ اور کے ٹو کے مدور پہاڑوں کو گریباں سے تقریباً باہر انڈیلتے ہوئے ہندی پرنام اور جاپانی کورنش کے ساتھ عربی میں کہتی تھی ’’انا جاریہ و انت ملکً‘‘ یعنی (میں تو ایک لونڈی ہوں، بادشاہ تو آپ ہیں)۔
دھندے کے طور طریقے میں رقم کے لین دین کے زیادہ تر معاملات تو ان عیش کدوں میں آمد سے پہلے ہی طے ہوچکے ہوتے تھے مگر پرانی دہلی والیاں کہتی تھیں کہ’’ رنڈی کا جی، ہنڈی میں‘‘ تو اسی مصداق ’’انا جاریہ و انت ملکً‘‘ کے ورد بابرکت میں وہ ’’اکھ لڑے بدو بدی‘‘ کے ایکسٹرا ٹھمکے پر زیر لب پنجابی میں’’مینوں نوٹ وکھا تے میرا موڈ بنا کے‘‘ ساتھ بخشش مانگنا نہ بھولتی۔ وہ دن تو پچھلے چند برسوں سے لد گئے تھے۔ ان دنوں البتہ کچھ ایسا عالم تھا اب یہ وجود بے لطف، لٹی محفلوں کی بے پایاں بازگشت یا اوائل سردیوں کی ڈھلتی شام لگتا تھا۔
چند برسوں سے یہ بھی ہو چلا تھا کہ نائیکہ نازلی محافل مجرہ میں مفت کی شراب زیادہ ٹکا لیتی تو وہ سازندے جو اس سے پہلے صرف کبھی مالی فوائد اٹھا پاتے تھے اب اس کے عالم نیم خود آگاہی اور کامل مدہوشی میں جسمانی طور پر کبھی مدھیم تو کبھی پنچم ٹھاٹ کا راگ سمجھ کر ا سے برتنے سے باز نہ آتے تھے۔ رات کے یہ سریلے ہم سفر اس مسلک مفاہمت اور راضی بہ رضا کے پیروکار تھے کہ جہاں سے بھات ملے کھالو جہاں جگہ ملے وہاں لمبے پڑ جاؤ۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں سات سر ہوتے ہیں۔جنہیں آپ تو سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی کی آسان مختصر نشانیوں سے جانتے ہیں۔ وہ جو اصل گنیُ اور سر ساگر کے غوطہ خور ہوتے ہیں۔ وہ ہی جو نازلی بیگم جیسی ڈیرے دارنیوں کے آستانۂ ہائے ابلیسیہ میں شہوت و نغمگی کے چراغ روشن کیے رہتے تھے، وہ انہیں شد (سا)، ریشب (رے)، گندھار (گا)، مدھیم (ما)، پنچم (پا)، دھے وت(دھا) اور نشد (نی )کے سریلے ناموں سے پہچانتے تھے۔
سات آٹھ سال پہلے وہ یعنی مینا کی پھوپھی، نازلی جب ایک میمن سیٹھ کی ملازمت سے آزاد ہوئی تو اس نے رول تبدیل کر لیا۔ وہ اب اپنے بگلہ فاضلکہ گھرانوں میں نائیکہ کے مدار المہام (مرکزی مقام) پر پہنچ گئی تھی۔ ایسا نہ کرتی تو خلیج کے شکاری مہمانوں سے پاکستان کے خارجہ تعلقات میں ان۔ چاہی اڑچن پڑ سکتی تھی۔
اسے اپنی جوانی کے آغاز میں ہی مردوں کے جوابات میں حیلے بازیاں اور عیاریاں تلاش کرنے کا گر آ گیا تھا۔ گلگتی ڈرایؤر پر اس نے نفرت کی ایک نگاہ ڈالی، اپنی ناک کو ایک مشہور گلوکارہ کے انداز میں خاص انداز سے چڑھا کر، حقارت بھری 'ہوں' منہ سے نکالی اور اسے کمبخت کام چور، نکما کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ اس طرح کے بے شمار حیلۂ جو مرد، اس کی زندگی میں پولی تھین کی استعمال شدہ تھیلیوں کی مانند ادھر ادھر اڑتے پھرتے تھے اور وہ ان ناکامیوں کا دل پر زیادہ اثر نہیں لیتی تھی۔ان دنوں سرکار کی جانب سے تیس مائیکرون کی پولی تھین تھیلیوں کی خرید و فروخت اور استعمال پر کوئی پابندی نہ تھی لہذا ایسی تھیلیاں ہر جگہ خس و خاشاک کی مانند اڑتی پھرتی تھیں۔
پھول نہ ملنے میں قصورمینا کا بھی تھا جو بمشکل پندرہ برس کی تھی اور اس کے ساٹھ سالہ دولہا پیر اکبر شاہ کا بھی۔مینا نے اس شادی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ وہ بدن، عمر اور سوچ کے لحاظ سے کافی ایڈوانس تھی۔ جو کچھ اس رات اس کے ساتھ ہونا تھا وہ کوئی پوشیدہ امر نہ تھا۔ ہیرا منڈی کے کوٹھوں، چوباروں اور محافل شبینہ میں یہ روز مرہ کی داستان تھی۔ یوں بھی وہ قدرے سخت دل تھی۔قد اس کا پانچ فیٹ آٹھ انچ، بدن سپر ماڈلز جیسا مگرسموچا ہوا۔ ان فاقہ زدہ ماڈلز کی طرح کا لکڑی کے چھبتے ہوئے ہینگر پر لٹکے بےآباد ملبوس جیسا نہ تھا۔ بھرے بھرے دعوت نامے جیسے ہونٹ، سیاہ بڑی بڑی آنکھیں کہ جن کو سرمہ فروش بھی آہ بھر کے اور دشت آہو رم کرکے (ہرنوں کا جنگل میں خوشی سے کدکڑے لگانا) دیکھتے تھے۔ اس پر دوران رقص یا چال میں مستی کے عالم میں کولہے ایسے گھماتی تھی جیسے دنیا بھر کے ٹاپ اسپنرز پر مشتمل کی ایک ورلڈ الیون کے بالرز ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی گیندوں کو گھماگھما کر پھینک رہے ہوں۔ وہ میڈیا کی ڈارلنگ ارب پتی کم کر دیشیاں بہت بعد میں آئی ورنہ وہ جو اپنے سرجری یافتہ کولہوں پر اتنا اتراتی ہے وہ مینا کے کولہے دیکھ کر گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ ہی ترک کر دیتی۔
اس کے حسن میں، اس سے بھی بڑھ کر ایک عجب بات تھی۔ وہ اپنے احساسِ جمال سے بےگانہ تھا۔ اس کی یہ بے گانگی جوانی کے شعور اوراپنی دلربائی کی بے شعوری کے شاداب، چھتنار، مست ہوواؤں میں ڈولتے جنگل کی حدودمیں پہاڑی جھرنوں کی روانی سے قلقل کرتی بہتی تھی۔اسے دیکھ کر ناصر کاظمی مرحوم کا وہ شعر بےاختیار زبان پر آ جاتا تھا کہ
ہر ادا، آب رواں کی لہر ہے۔
جسم ہے کہ، چاندنی کا شہر ہے
پرانے کپڑوں کے بیوپاری کم بخت پیر اکبر شاہ سے کوئی پوچھے کہ بھئی یہ سب کچھ کرنا تھا تو لڑکی پر توجہ کرتے ۔شاہ صاحب جہالت کے ہاتوں مجبور ہونے کے باوجود، دل ہی دل میں مینا پر مر مٹے تھے۔ مروت کے مارے ہوئے بھی تھے ۔اپنی اس شادی کی قیمت انہوں نے نقد تین لاکھ روپے کی صورت میں ادا کی تھی۔ باہر کے لوگ اس سلسلہء جنسی وصال بالمعاوضہ کو رسمِ نتھ کشائی کہتے تھے۔ یہ کسی نوخیز طوائف کا با اصرار کنواری ہونے کا پہلا باقاعدہ مرد ہونے کا معاوضہ تھا۔ اندر والے یعنی اس پیشے سے متعلق لوگ اسے شادی کے بےضرر نام سے پکارتے تھے۔
ساری شام دولہا اکبر شاہ، وہ مینا کی پھوپھی نازلی اور والدہ، اور ایک ملازمہ کو لئے لئے کبھی پنڈی کے باڑہ بازار، کبھی شکر پڑیاں تو کبھی جناح سپر مارکیٹ گھومتا رہا۔ مغرب کی نماز سے پہلے وہ ایک مزار پر پہنچ گئے۔ پیر اکبر شاہ سے پیسے لے کر پھوپھی نازلی نے نیاز کی ایک دیگ بطور لنگر تقسیم کی۔ خادم سے سب کے لئے دعائے خیر کرائی۔ پھوپھی کا خضوع وخشوع دیکھ کر وہاں موجود ایک خادم نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر مزار کی جالی پکڑ کر سر جھکا کر بٹھا دیا۔ جب وہ مزار کی جالی پکڑ کر بیٹھ گئی اور ماتھا اسٹین لیس
اسٹیل کی جالی پر ٹکا دیا تو اس نے نا زلی کے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے اس کے سر پر زبردستی ایسے سرکا دیا کہ وہ شانوں کے پیچھے چلا گیا۔ اپنے ہاتھ سے اس کا سر یہ کہتے ہوئے جھکا دیا کہ ‘’ ادب، کڑیے ادب، پیر راضی تے رب راضی‘’۔ اس تکرار کے ساتھ اس کی نگاہیں نازلی کے کھلے گلے کے دھندلے آسماں میں بھٹکنے لگیں، جہاں پچھلی راتوں کے دو اداس چاند، آتی جاتی سانسوں کے تلاطم میں ہلکے ہلکے تھرتھراتے تھے۔
ایسا نہیں تھا کہ پھوپھی نازلی کو خادم کی نگاہوں کی آوارگی کا شعور نہ تھا، پر وہ اپنی ساری توجہ دعا اور آنے والے دنوں کے اندیشوں پر مرکوز کیے بیٹھی تھی۔ خادم اب آہستہ آہستہ اس کو مورچھل سے چھو رہا تھا، عود و لوبان کی لپیٹوں اورماحول کے تقدس سے اپنی بھابھی کو یعنی مینا کی امی کو بھی دوپٹے کی کنار سے دیکھ رہی تھی، جس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو رواں تھے۔
نازلی کی بھابی سعیدہ نے مینا کو پالا تھا۔ اس کی اصلی ماں، نیلوفر، جاتے ہوئے مینا کو اسی کے حوالے کرکے گئی تھی۔ اس لحاظ سے مینا اب اس کی بیٹی تھی۔
ویسے تو اس گھرانے میں اپنے مردوں کی اولاد سے پیشہ کرانے کا رجحان نہ تھا مگر مینا کو ایک تو بھابی سعیدہ نے پالا تھا وہ اس کی اپنی اولاد نہ تھی۔ پھر اس کے ا پنے بھی چھ بچے تھے۔ لہذا ان کی کفالت کا سار بوجھ بھی نازلی پر آن پڑا تھا۔ ان سب کا خرچہ اکیلے چلانا اس کے بس میں نہ تھا۔ اس کی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی۔ جسے وہ پیشے میں ڈالتی۔اسے اپنے بھائی کو سمجھانے میں تو کوئی مشکل پیش نہ آئی مگر بھابی سعیدہ کو سمجھانے میں کافی وقت لگ گیا کہ مینا کو پیشے میں ڈالنا ہے۔ مینا کے ماں کے آنسو جو مزار پر ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے اسی سلسلے کی آخری کڑی تھے۔
کراچی سے جب یہ قافلہ چلا تو یہ کل آٹھ افراد تھے۔مینا اور اس کی والدہ، پھوپھی نازلی، مینا کی دوکزن نمو اور تانی ایک بوڑھی ملازمہ اور ساٹھ برس کا دولہا پیر اکبر شاہ جس نے اپنی کار ڈرائیور کے ساتھ تین دن پہلے ہی کراچی سے روانہ کر دی تھی۔
پیر اکبر شاہ کے دو جگری دوست امجد خواجہ اور مناف تینوں دوستوں نے مل کر اسلام آباد کے اس مشہور ہوٹل میں پانچ کمرے لئے۔ کمرے حاصل کرنے کے لئے اسقبالئیے پر امجد خواجہ کو آگے کیا گیا۔ وہ اسلام آباد سے زیادہ واقفیت تھا۔ اس کا ماموں ان دنوں وہاں وزیر تھا۔وہ اپنی خود اعتمادی اور رکھ رکھاؤ کے باعث خود بھی اسمبلی کا ممبر یا کوئی اہم
شخصیت دکھائی دیتا تھا۔ جب ایسے اہم موقعے آتے تو وہ مناف کو دور بٹھا کر اپنے موبائیل فون پر کال کرنے کو کہتا۔ کال کے آتے ہی امجد خواجہ کہنا شروع ہو جاتا کہ ‘’دیکھیں آئی۔ جی صاحب یہ آپ کا ڈی۔ آئی۔ جی ملتان اپنی حد سے بڑھ رہا ہے، یا کبھی کہتا کہ ہوم سیکرٹری صاحب آپ فکر نہ کریں۔ آپ اس سپرانٹنڈنٹ جیل کے پوسٹنگ آرڈر آج جاری کر دیں۔میں نے چیف سیکرٹری کو بھی کہہ دیا ہے، چند دنوں میں وہ سی۔ ایم سے بات کرکے آپ کا وہ امریکہ کا دورہ بھی منظور کر دیں گے۔ ایسا کرتے ہیں اس ویک اینڈ پر بیٹھ جاتے ہیں کہیں سے ملاگرو کی سلورٹکیلا Milagro Silver Tequilla آئی ہے، مگر آپ تو سر کچھ بد ذوق ہیں، بس بڈوائزر کی بیئر پی کر خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ آپ اس انٹیلی جینس والے کو ساتھ مت لانا۔ وہ سالا اسمال کراکری ہے (یہ پنجابی کے محاورے نکا بھانڈا یعنی چھوٹا برتن جو جلد چھلک جائے کا انگریزی ترجمہ تھا)’’۔ دوسری طرف مناف بونڈ والا اس کا کاٹھیاواڑی دوست اسے گالیاں دے رہا ہوتا ‘’سالا حرامی !چور کا بچہ! اکیمکل کا کباڑی! سالے نقشہ دکھا رہا ہے، امپریشن مارتا ہے۔ ریسپشن والی ممانی کو، بتا دوں تیرے آئی۔ جی کی بہن دی سری، ہوم سیکرٹری نہیں تیرا باپ مناف بونڈ والا بول رہا ہے‘’۔
اس فراڈ میں ان تین نو دولتیوءں کے کام اکثر جگہوں پر آرام سے ہو جاتے تھے۔ پولیس کے جونیئر افسر، میونسپلٹی کے انسپکٹروں اور دیگر پرائیوٹ اداروں کے ملازمین اس نقشے بازی کی لپیٹ میں جلد آ جاتے تھے۔
امجد خواجہ نے استقبالیئے پر ضد کی کہ سارے کمرے ایسے ہوں کہ جن سے مرگلہ کی پہاڑیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہو Sir all rooms with the view ۔اس نے ریسپیشن پر ہوٹلوں میں مروج ایک مخصوص اصطلاح انہیں متاثر کرنے کے لیے استعمال کی تھی۔ ایسا نہ ہوا۔ بہت ہی ردوکد کے بعد ایسے صرف دوکمرے مل پائے جس میں ایک تو اس نے اپنے اور نمو کے لئے رکھ لیا اور دوسرا پیر اکبر شاہ اور مینا کو کو حجلۂ عروسی کے طور پر دے دیا۔ باقی تین کمرے مناف، تانی اور باقی لوگوں کے حصے میں آ گئے۔
جب پھوپھی نازلی، مینا کی والدہ اور دیگر افرادپیر اکبر شاہ کے ساتھ اسلام آباد کی سیر کو نکلے تو مینا کمرے میں سو چکی تھی، اسے جگانا مناسب نہ سمجھایا گیا، پھوپھی کو پتہ تھا کہ اسے رات کو جاگنا پڑےگا۔ انہیں یہ اطمینان تھا کہ پیچھے امجد، تانی، مناف اور نمو موجود ہیں۔ پھوپھی نے تانی کو ہدایت کی کہ اسے سونے دے مگر کچھ دیر بعد نمو نے ضد کی کہ اس نے بھوربن نہیں دیکھا، لہذا وہ اس کی سیر کرنا چاہتی ہے۔ پروگرام بنتے ہی یہ چاروں بھی چپ چاپ مینا کو سوتا چھوڑ کر چل دئیے۔ مناف کا کہنا تھا کہ ہوٹل سیف جگہ ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں اور تانی کو اطمینان ہو گیا۔
مینا کی سنیئے، وہ کوئی ساڑھے گیارہ بجے کے قریب نیند سے بیدار ہوئی۔ وہ اس طرح کے ہوٹل میں پہلی دفعہ ٹہری تھی۔ اسے نہ کسی کے کمرے کا نمبر یاد تھا۔ نہ ہی اسے پتہ تھا کہ ہوٹل میں بغیر پیسوں کے کھایا پیا کیسے جاتا ہے۔ اسے ایسا لگا کہ اس بہت بڑے ہوٹل میں وہ واحد مہمان ہے۔ روم کے منی بار میں رکھے سب چپس اور مونگ پھلی کے پیکٹ اور مشروبات وہ جلدی ہی ختم کر بیٹھی۔ ٹی وی کے چینل بدل بدل کر وہ تھک چکی تھی۔ تنگ آن کر وہ پردہ ہٹا کر وہ باہر کا منظر دیکھنے لگی اور موبائیل فون پر اس نے تانی کو کال کیا مگر اس نے جب بتایا کہ وہ بھور بن میں گھوم رہے ہیں تو مینا کو برا نہ لگا۔ اسے پھوپھی نازلی کے ہاں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ رشتوں اور بزنس کی حد کہاں شروع اور ختم ہوتی ہے۔
نمو اور تانی دونوں امجد خواجہ اور مناف کے خرچے میں تھیں۔ رسم و رواج طوائفاں کے حساب سے وہ اپنے مردوں کے ساتھ تھیں۔ انہیں ڈسٹرب کرنا نامناسب تھا۔ دوپہر کے ڈھائی بجے تک مینا کا بھوک سے برا حال ہو گیا تو وہ تیار ہو کر ہوٹل کے لابی میں آ بیٹھی۔ طبیعت میں چونکہ خود اعتمادی اور نگاہوں میں بے باکی تھی لہذا اس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی اثرات نہ تھے۔ حسنِ بےپرواہ کی اس تنہائی اور بے مدافعت جلوہ نمائی نے کافی لوگوں کو اکسایا کہ وہ اس کو لائن ماریں اور اس کی توجہ حاصل کر لیں۔ اسلام آباد میں لوگ ویسے بھی آدھی روٹی پر دال لیے، ہر وقت موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اسے گیم سمجھ کر بہانے بہانے سے اس کے گرد منڈلانے لگے اور اسے لبھانے کی سعئی ناکام میں لگ گئے۔ اپنی بھوک اور اس بےجا توجہ سے تنگ آن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کاؤنٹر پر چلی گئی جس پر بیٹھی ہوئی خاتون اسے نرم خو اور قابل گفتگو محسوس ہوئی۔ ارادہ یہ تھا کہ وہ اس سے اپنی الجھن بتائے گی کہ کے وہ بغیر پیسے کے کھانا کیسے کھائے۔ اس دوران اس نے یہ نہ دیکھا کہ یہ Rent-a-Car کا کاؤنٹر ہے۔ اس بی بی کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی محدود انگریزی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
Miss I want to eat (میں کھانا کھانا چاہتی ہوں)۔ اس نے بہت آہستہ سے کہا۔
کاؤنٹر پر بیٹھی بی بی مسکرائی اور کہنے لگی۔Go Ahead (دیر کس بات کی ہے؟) یہ مینا کے لئے دشوار مرحلہ تھا۔ وہ اردو بولنے پر اتر آئی، اس نے بتایا کہ وہ کس کمرے میں ٹہری ہے اور دشواری یہ ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں۔ اسے بہت بھوک لگی ہے۔کاؤنٹر والی بی بی نے اسے ریستوران میں کھانا کھا کربل سائین کرنے کا طریقہ بتایا۔
‘’ہو سکتا ہے ویٹر اس سے ثبوت مانگے تو وہ کیا کرےگی؟’’ یہ سوال اس نے محض مینا چھیڑنے کے لئے کیا تھا۔
‘’ثبوت تو میری پھوپھی کے ساتھ ہے‘’۔ مینا کی مرادپیر اکبر شاہ سے تھی مگر وہ بی بی یہ بات نہ سمجھی۔
‘’کمرے کی چابی کہاں ہے؟‘’ بی بی نے پوچھا۔
جب مینا نے چابی اسے دکھائی تو اس نے مشورہ دیا کہ ‘’اگر وہ ثبوت مانگیں تو یہ چابی دکھا دینا۔ ویسے وہ چاہے تو کمرے میں بھی کھانا بذریعہ فون بھی منگا سکتی ہے۔ جب وہ کمرے میں رکھے ہوئے فون کے اوپر لسٹ میں دیکھےگی تو ایک جگہ اسے روم۔ سروس لکھا ہوا بٹن نظر آئےگا وہ یہ بٹن دبا دے اور جو کھانا ہے، وہ فون پر منگا لے، وہ کھانا لے کر کمرے میں آ جائیں گے۔ مگر چونکہ وہ اکیلی لڑکی ہے لہذا یہ وہ نہ کرے’’۔
‘’وہ کیوں‘’؟ مینا نے پوچھا۔
‘’وہ اس لئے کہ وہ اکیلی ہے اور مردوں کا کوئی اعتبار نہیں’’ کاونٹر والی خاتون نے جو اپنا نام لائبہ بتاچکی تھی اسے سمجھایا۔
‘’اسے مردوں سے ڈر لگتا ہے؟’’ مینا نے پوچھا۔
‘’تمہیں نہیں لگتا ان سے ڈر؟’’ لائبہ تفریح لینے کی غرض سے پوچھنے لگی۔
‘’مجھے تو مردوں سے ڈر بالکل بھی نہیں لگتا، یہ تو بچپن سے ہی ہم سے مار کھاتے چلے آئے ہیں’’۔ مینا نے اپنی دانست میں ایک سیدھا سا جواب دیا۔ میری پھوپھو نازلی کہتی ہیں کہ ‘’لڑکے جب پیدا ہوتے ہیں تو خود سے سانس نہیں لے سکتے۔ دائی انہیں الٹا لٹکا کر ان کے باٹم (کولہوں) پر زور سے چپت لگاتی ہے، درد کی وجہ سے وہ رونے لگتے ہیں اور اس طرح ان کے سانس چل پڑتی ہے’’۔ رینٹ اے کار والی لائبہ کو محسوس ہوا کہ یہ لڑکی جسے یہ نہیں پتہ کے ہوٹل کے کمروں میں رہنے والے بغیر پیسوں کے کھانا کیسے کھاتے ہیں ناتجربہ کار تو ہو سکتی ہے پر نادان ہرگز نہیں۔
’’اب بتاؤ تمہیں ڈر لگتا ہے؟‘‘۔ مینا نے سراسر ایک طالب علمانہ تجسس کے تحت اس کی راہ فرار بلاک کرتے ہوئے پوچھ لیا۔
’’پیار کی پہلی غلطی کے بعد بہت دن تک لگتا تھا۔ اب لگتا ہے معاملہ غلطی کا نہیں گنتی کا ہے۔‘‘ لائبہ نے اپنی دانست میں بہت گہری بات اس پندرہ برس کی لڑکی سے کی۔ اسے توقع نہ تھی کی مینا کا اگلا سوال ایک ایسی وکٹ۔ شکن یارکر (وہ گیند جس کا گرتے وقت بیٹ، پیروں اور وکٹوں کے مابین بہت ہی کم فاصلہ ہو) ہوگی جس کسے لا کریز پر لڑکھڑا کر رہ جائےگی۔
’’تو پھر آپ نے غلطی ٹھیک کی یا گنتی؟‘‘ لائبہ اس سوال سے کچھ ہڑبڑا سی گئی ۔ممکن ہے سوال جواب کا یہ ٹینس میچ اور دیر تک جاری رہتا۔ وہ اس سے زندگی کے کچھ اور راز جان پاتی مگر اس کے کاؤنٹر پر کچھ لوگ آ گئے اور مینا یہ فیصلہ کرکے کہ وہ کھانا اپنے کمرے میں کھائے گی اسے’’می گو بائی‘’ Me Go. Bye. کہہ کر چل پڑی۔
کسی بڑے ہوٹل میں مینا پہلی اور آخری دفعہ پریشان ہوئی، چار برس بعد یعنی جب اس کا شناختی کارڈ بنے ایک سال ہو گیا تھا، اسے مختلف ہوٹلوں کے کمروں کے کرائے، سرکاری افسروں کو ملنے والے ڈسکاونٹس، کمپنی کو ملنے والے ریٹ، ان میں کام کرنے والی مختلف خواتین کے معاشقوں اور مختلف منیجروں کی گھریلو ناچاقیوں کا ایسا علم ہو گیا تھا کہ وہ ان ہوٹلوں کے بارے میں ایک رف گائڈ لکھ سکتی تھی۔ع ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی کمرے میں پہنچ کر مینا نے اپنے لئے کھانے کا آرڈر دیا اور ٹی وی لگا دیا۔ کسی چینل پر اس کا پسندیدہ گانا۔ ’’تال سے تال ملا’’ آ رہا تھا۔وہ ایشوریا رائے کے انداز میں ناچنے لگی، اسے ناچنے کا بہت شوق تھا، اس کی پھوپھی نازلی اور اس کی اپنی نیلوفر ماما، دونوں ہی اپنے زمانے کی مشہور ڈانسرز تھی۔ ہیرا منڈی میں ان کے پائے کی کوئی اور ڈانسر نہ تھی ۔یہ فارم ہاؤس مجروں پر کم کپڑے اور بیلے ڈانسرز والے لوازمات تو اب ذرا عام ہوئے ہیں۔ شیوخ العرب کی ناز پروری سے نازلی اور نیلوفر دونوں ہی سن ستر کے اواخر میں اپنے اماراتی مہمانوں کی خاطریہ اہتمام کیا کرتی تھیں۔ مہمان دلدار اور دلدادہ، جیب سے ٹپکنے والی دولت سے بےنیاز ہوں تو پھر یہ جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار جیسے مختصر کپڑے بھی ان کے بدن سے دور ہو کر مشتاقان دید و ہوس کی گود اور قدموں کی زینت بن جاتے تھے۔ مینا نے انہی کی زیر تربیت رہ کر اور ا نہی کو ناچتا دیکھ کرخود بھی بہت اچھا ناچنا سیکھ لیا تھا۔
’’اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے ٹی وی آہستہ کرکے پہلے تو دروازے میں نصب شیشے کی چھوٹی آنکھ سے باہر جھانکا۔ اسے برتن اٹھائے ایک ویٹر نظر آیا تو اس نے دروازہ کھول دیا اور جب وہ اندر آیا تو کہنے لگی سر! برتن ٹیبل پر رکھ دیں’’۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ویٹر کو کسی نے نہ صرف ’’سر’’ کہا تھا۔ جب اس نے بل اسکی طرف بڑھایا تو اس نے کہا کہ ’’اس کے پاس پیسے تو نہیں’’، ویٹر جس کے حوصلے ’’سر’’ پکارے جانے اور اس کی ناواقفیت اور معصومیت کی بنیاد پر یکلخت بغیر آکسیجن کے جرات کے ماوئنٹ ایوریسٹ پر چڑھ گئے تھے۔ کہنے لگا کہ ’’اس سے تو مشکل ہوگی۔ اگر وہ اجازت دے تو وہ فون سے اپنے منیجر سے بات کر لے’’۔ مینا نے کہا ‘’اس نے نیچے ریسپشن پر پوچھا تھا کہ کھانا کھانے کا کیا طریقہ ہے۔ انہوں نے یہ ہی طریقہ بتایا تھا’’۔ اس کی بات سن کر ویٹر کو یقین آ گیا کہ جسے وہ بھولی اور نادان سمجھے بیٹھا ہے وہ ایسی جھلّی بھی نہیں کہ اس کا حربہ کامیاب ہو جائے۔’’ کہنے لگا میڈم وہ ہی ہماری منیجر صاحبہ ہے۔آپ نے پوچھ لیا ہے تو پھر خیر ہے۔ بڑی سخت ہے ۔میں تو کچن سے کھانا لایا ہوں ممکن ہے انہوں نے کچن کو کہہ دیا ہو۔ مگر آپ کو پسینہ کیوں آ رہا ہے؟’’۔ مینا اس کے نظروں کو پڑھ رہی تھی۔ وہ اسکی باڈی لینگوج سے سمجھ گئی کہ ویٹر کمرے میں بلاوجہ رکنا بھی چاہتا ہے اور اس کی قربت کا بھی خواہشمند ہے۔اس نے کہا ‘’آپ اب جائیں ۔مجھے کھانا کھانا ہے۔ یہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔’’ اس نے بل خاموشی سے آگے کیا اور چپ چاپ تھینک یو کہہ کر ٹپ کی امید رکھے بغیر فرار ہو گیا۔
عورت، باڈی لینگویج سمجھنے میں بہت طاق ہوتی ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ایسا کیوں ہے؟ یہ اس کے بقا کا معاملہ ہے ۔ویسے بھی عورتوں کو بہت آغاز میں ہی کسی نہ کسی طور بچوں سے واسطہ پڑتا ہے۔بچوں پر ایک دور ابتدا میں ایسا ہوتا ہے۔ جب وہ باقاعدگی سے الفاظ کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں مگر اسکے باوجود ماں اور دیگر عورتیں جن میں تین سال کی بہنیں تک شامل ہوتی ہیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ Non-Verbal Communication (بغیر زبان کی گفتگو)سمجھنے میں ماہر ہو جاتی ہیں۔
ان سب مراحل سے فراغت کے بعد مینا کو ایک احساس تنہائی تنگ کرنے لگا۔ وہ جانتی تھی کہ رات اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ یہ خیال کہ وہ اب ایک ایسے مرد سے وابستہ ہو جائےگی جس کی عمر اس کے چھ بچوں کے باپ یعنی اپنے اصلی ماموں کے برابر تھی۔ مگر اسے یہ بھی پتہ تھا کہ یہ ساتھ بمشکل سال دو سال کا ہوگا۔ اس دوران اسے مجروں پر جانے کی اجازت بھی ہوگی۔
اپنے احساس تنہائی کو دور کرنے کے لئے اس نے باہر کے منظر کا جائزہ لینے کے لئے پردے کو جھٹکے سے جو کھینچا تو ایک چوتھائی پردہ کھونٹیوں کی قید سے آزاد ہوکر لٹکنے لگا۔ وہ گھبرائی کہ اب کیا ہوگا۔ اسی گھبراہٹ میں اس نے پھر روم سروس والوں کو فون کر دیا۔ وہ کہنے لگے فکر کی کوئی بات نہیں وہ کسی کو اوپر بھیجتے ہیں۔ اس نے بھی اپنی خود اعتمادی کو آزمانے کے لئے شوخی دکھائی اور کہنے لگی ’’اوپر تو اللہ میاں ہیں۔ آپ انہیں کمرے میں بھیجیں‘‘۔ روم سروس کے فون پر اسے لگا کہ وہی ویٹر ہے وہ کہنے لگا ’’آپ کی
خاطر وہ اور ہم دونوں اللہ میاں کے پاس بھی جانے کے لئے تیار ہیں‘‘۔ کچھ دیر بعد دو لڑکوں کی ایک ٹیم پردہ ٹھیک کرنے پہنچ گئی۔
اس ٹیم نے جو پردہ وہ پانچ منٹ کے اندر ٹھیک کر سکتے تھے اسے ٹھیک کرنے میں پورا پون گھنٹہ لگایا۔ کن انکھیوں سے وہ بھی دیکھتی رہی کہ یہ دونوں لڑکے اسے تاڑے جاتے ہیں۔ جب اس کے اندازے سے کچھ زیادہ ہی وقت صرف ہونے لگا تو اس نے ان کا گلا خشک کرنے کے لئے کہا کہ ’’یہ آپ لوگ مجھے دیکھنے آئے ہیں یا پردہ ٹھیک کرنے۔ اگر دیدے قابو میں نہ رہتے ہوں تو میں ریسپشن پر فون کرکے انہیں بتاؤں کہ آپ کیا مخول کر رہے ہیں؟‘‘۔ یہ سننا تھا کہ مینا کو لگا کہ اس دھمکی نے پردے اور لڑکوں دونوں کو ٹھیک کر دیا ہے۔ انہوں نے تسلی کی خاطر اسے دو تین مرتبہ پردہ آگے پیچھے کھینچ کر، چلا کر بھی بتایا اور ایک دفعہ خود مینا نے بھی ان کے سامنے اسے کھینچ کر دیکھا اس ٹیم کے جانے کے بعد اس نے کمرے کی آرائش کا جائزہ لیا۔ کسی اعلیٰ ہوٹل میں ٹہرنے کا یہ اس کا پہلا اتفاق تھا۔اسے اس کمرے کی سجاوٹ میں بڑا قرینہ دکھائی دیا۔ یوں ہی جائزہ لیتے لیتے وہ بےارادہ باتھ روم کی طرف چلدی۔ یوں تو اسے یہ پورا ہوٹل ہی اچھا لگا تھا پر باتھ روم دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔ چھوٹی بوتلوں میں شمپو، باڈی لوشن جانے کیا کیا بھرا تھا۔ مختلف سائز کے سفید اجلے تولئیے ایک سلیقے سے ٹنگے تھے۔ گول گول صابن کی ٹکیاں پنیوں میں لپٹی تھیں۔لش لش کرتے ٹائل، جگمگاتے تیزدھار نلکے اور فوارہ۔ سب ہی عین اس کی منشا کے مطابق تھے۔
پیر اکبر شاہ کے ساتھ وہ جب تین راتیں کمرے میں گزار کے روانہ ہوئی تو اس نے اپنے سستے سے چیک والے اٹیچی کیس میں یہ سب بوتلیں اور صابن کی ٹکیاں ڈال لیں۔ پیر اکبر شاہ تو فجر کی نماز کے بعد کمرے میں رات ہی کو آتا تھا۔ وہ انتظار کرتی رہتی تھی کہ کب وہ صفائی والے اور ان کی ٹرالی آئے اور وہ ان سے یہ ایکسٹرا سامان ہاتھ کرلے۔
اس قیام اولیں کے بعد جب کبھی وہ کسی کے ساتھ اس طرح کے ہوٹل میں آئی وہ رخصت ہونے سے پہلے اپنے کر م فرما کی اجازت سے یہ سارا سامان بطور نشانی کے ضرور اٹھا لیتی تھی۔ اب یہ نشانیاں اسکے اپنے میلے اندھیارے باتھ روم کے سمینٹ کی شیلف پر ’چن کتھے گزاری رات وے‘ کے مصداق سجی رہتیں۔
وہ جب بھی نہاتی۔ انہیں دیکھ کر یاد کرتی کہ اسے کون مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے۔ شیشے، پلاسٹک کی یہ بوتلیں اسے جتلاتی رہتیں کہ ان میں گزری ہوئی راتوں کی وارداتوں کے کون کون سے جن بند ہیں۔
ہوٹل کے باتھ روم کو دیکھ کر اسے اپنے گھر اور وہاں کاباتھ روم یاد آ گیا۔ گھر کیا تھا ہیرا منڈی کی ایک بلڈنگ میں بے ہنگم سے ڈھائی کمرے تھے۔ باتھ روم میں پلاسٹک کی جامنی بالٹی، لال پلاسٹک کا ڈونگا، پیتل کا نلکا، سیمنٹ کی سلیب پر رکھے اسکی ماں کے بنائے ہوئے منجن اور ابٹن کی بوتلیں، ٹوتھ پیسٹ، پرانے ٹوتھ برش، ٹوٹی ہوئی صابن دانی۔ لکڑی کی بنی ایک چوکی پر یہ سب بیٹھ کر ڈونگے سے نہاتے تھے۔ ایک دن نہاتے ہوئے مینا کے کولہے میں چوکی کی کیل چبھ گئی تو تین ہفتے تک وہ مجروں سے محروم رہی۔ ماں بھاگم بھاگ نیچے مارکیٹ سے پلاسٹک کی چوکی لے آئی۔ جب مینا کی بہن اس پر رکھ کر رکپڑے دھونے لگی تو میل اور صابن اس کی جھریوں میں یوں جم گیا۔ مینا کا دل اس پر بیٹھ کر نہانے سے اوب گیا اور وہ کھڑے ہوکر نہانے لگی۔ اس میں ایک دشواری تھی، ہر دفعہ اسے ڈونگا بھرنے کے لئے جھکنا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ وہ یوں ہی جھک کر ڈونگا بھر کر کھڑی ہونے لگی تو سر پر سلیب زور سے لگی۔کھوپڑی سے خون نکل آیا۔
مینا کو کسی مہربان نے بتایا کہ یوروپ اور امریکہ میں لوگوں کے اپنے ہوائی جہاز ہیں اور ان میں بھی بڑے خوبصورت کمرے اور باتھ روم ہوتے ہیں تو مینا نے اسے اپنے دل کی آرزو بتائی کہ کاش اس کا بھی اپنا ایک Dedicated باتھ روم ہو۔ اس میں ایک بڑا سا بےشرم آئینہ ہو۔ وہ لاکھ بدن چھپانے پر بھی اسے ندیدوں کی طرح دیکھنے سے باز نہ آتا ہو۔ اس آئینے کے اوپر جس پر جگ جگ کرتی لائٹیں لگی ہوں، نیک مردوں کے ضمیر کا سا سفید شفاف ٹب اور ٹائل ہوں۔ چمکتے نلکے اور فوارہ ہو، بوتلوں میں بھرے شیمپو اور خوشبویات ہوں۔شیلف پر ایک گلدان ہو جسمیں وہ نیچے گجرے والوں سے منگا کر تازہ پھول سجائے۔ جابجا لٹکے مختلف سائز کے تولیئے ہوں۔ وہ دیر تک ٹب میں لیٹ کر اس کی کناری پر پیر جماکر جھاگ سے کھیلے، کتابیں پڑھے، میوزک سنے۔
کچھ دیر بعد اس کی دونوں کزن نمو اور تانی ایک بیگ اور میک۔ اپ کا ونیٹی بکس لیے آ گئیں۔ نمو جس کا اصل نام نمرہ تھا وہ امجد خواجہ کی ملازمت میں تھی جو کیمیکل کا بڑا تاجر تھا۔ اس کی دکان بھی نئیپر روڈ کے ایک کنارے پر تھی۔ نمو نے ایک بڑے اسکول سے او لیول کیا تھا۔ والدہ کا پادری سے بہت اچھا سمبندھ تھا۔ انگریزی بھی قدرے روانی سے بولتی تھی۔ شکل اچھی تھی مگر ناچ گانے سے نابلد۔ طبیعت میں بھاؤ اور لبھاؤ دونوں ہی کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ گروپ مجروں میں جاتی تو جیسے تیسے ٹھمکے لگا لیتی تھی۔ گاہک دور پرے کا، دل کا اچھا اور بھاری جیب والاہو تو امجد خواجہ کو بتائے بغیر دوسرے کام کے پیسے بھی پکڑ لیا کرتی تھی۔
نمو کو یقین تھا کہ امجد خواجہ کی کزن بیوی کے والد کے مرتے ہی وہ اسے اپنی دوسری بیوی بنا لےگا۔ اس کا سسر یعنی ماموں ہی اس کاروبار کا روح رواں تھا۔ نمو نے امجد کو باور کرایا تھا کہ ان کا واحد بیٹا بیوی کے کزن ہونے کی وجہ سے Down Syndrome کا شکار ہے۔ ایک رات عالم وحشت و وصال میں اس نے خواجہ جی کے بستر میں دماغ میں آئندہ پروگرام کا اسٹاک ایکسچینج کھول لیا۔ وہ اسے بتانے لگی ہر انسان میں 46 کروموسوم کے 23 جوڑے ہوتے ہیں اس میں21 نمبر کروموسوم کی تیسری کاپی بھی اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ کزن کی شادی میں بچہ جسمانی اور ذہنی پسماندگی کے ساتھ پیدا ہوسکتا ہے۔ کاروباری امجد خواجہ ان لمحات لطف و نوازش میں نمو کی اکیس تئیس چھیالیس والی نمبروں کی اس گردان سے زچ ہوکر کہنے لگا ’’چپ کر سالی ایک تو دکان پر حساب کتاب سے فرصت نہیں ملتی اور تو بستر میں بھی نیوٹن کی پھوپھی بن جاتی ہے‘‘۔جس پر روہانسی ہوکر کہنے لگی ’’جانو میں تو آپ کے بھلے کی کہہ رہی تھی۔ بستر بھی اپنا ہے، میں بھی آپ کی ہوں، قدافی اسٹڈیم کا گراؤنڈ بھی تیار ہے۔ ہمارا پیار کوئی لمیٹڈ اوور کا میچ تو ہے نہیں کہ اننگ ختم۔ پرواہ نشتہ، اگلی باری پھر میرے سر دے سائیں میرے مفاہمت کے بادشاہ میرے اپنے زرداری کی ہی ہوگی‘‘
ارے یہ تو ہم دوسری جانب نکل گئے۔ بات تھی مینا اور پیر اکبرشاہ کی شب عروسی اور دلہن کی تیاری کا ذکر تھا۔ نمو کا خیال تھا کہ مینا کو شادی کی جوڑے کے طور پر ساڑھی جو اس نے یہاں آنے کے لیے خاص طور پر خریدی تھی۔ وہ پہنا دیں۔ اسے پہننے کے لیے پرنسس کٹ والے بلاؤز کے ساتھ دی مگر جب مینا نے کہا کہ اس کے پاس کوئی نئی برا نہیں تو نمو بہت ہنسی ’’ارے چنگڑی (پنجابی میں بھنگن) یہ کمر پر بندھنے والی ڈوریوں والے بلاوز کے نیچے برا کون پہنتا ہے‘‘۔جب مینا نے ساڑھی بلاؤز پہنا تو یہ دنوں بھی اسے تکتی رہ گئیں۔ مانو دیپکا پڈکون فلم گولیوں کی رام لیلا کے سیٹ سے اٹھ کر چلی آئی ہو۔ معلوم نہیں یہ مینا کے سراپا کا حسد تھا یا لمحات وصل اور اور قطب ا کبر شاہ کی وحشتوں کے اندیشے، یہ بھی ممکن ہے کہ نمو کو ان دونوں کی دھینگا مستی میں اپنی قیمتی ساڑھی کے مسک جانے کا ڈر ہو۔ اس نے مینا کے لیے ساڑھی کا بطور لباس عروسی کا خیال یکسر منسوخ کر دیا۔ تانی کو کوئی وجہ بتائے کہنے لگی ’’اے ساڑھی نوں پرے سٹ ۔توں دس تانی مینو نوں کی پہوانا (پہنانا ) ہے؟‘‘۔ تانی اپنے ساتھ نیٹ کا دوپٹہ اور ایک برائڈل غرارہ سوٹ دبکے کی ہاتھ کی کشیدہ کاری والا، مینا کے دلہن کے پہناوے کے طور پر لائی تھی۔ ایسے ملبوسات کا مناف بہت دیوانہ تھا۔ اس کے یارمناف بونڈ والے اورمنی چینجر میمن کو لکھنؤ کی طوائفوں سے اس وقت ناقابل یقین حد تک عشق ہو گیا جب پہلے پہل اس نے اداکارہ رانی کی اور بعد میں اداکارہ ریکھا کی امراؤجان والی فلمیں دیکھیں۔
اپنی داشتہ تانی کو جو ریڈیو اور ٹی وی پر چھوٹے موٹے رول بھی کرلیتی تھی وہ کلکتہ کی گوہر جان اور لکھنو کی امراؤ جان سمجھتا تھا۔ اس نے سختی سے ممانعت کی تھی کہ وہ پنجابی میں گفتگو سے حتی الامکان گریز کرے۔ اس سے تو خصوصی طور پر اردو معلی میں گفتگو کرےگی۔ مناف نے جتایا تھا ہم لوگ پہلے رہتے بھی بابائے اردو کے مزار کے پاس تھے۔
تانی نے لکھنوی تہذیب اور اردو سے اس بے پایاں محبت کا پوچھا تو بہت پہلے تھا مگر کچھ دنوں بعد ایک دن لمحات بے خودی میں بتانے لگا کہ ہم لوگ کا مپھت (مفت) کا پیلا سرکاری اسکول تھا۔اب ہم میمن لوگ کا اردو جبان (زبان) کا، خ، ف، قاف سالا کاہے کو ٹھیک ہونے کا۔ اردو کا ماسٹر ایسا مارتا تھا کہ نیم کی بید سے چڈی پینٹ کے نیچے سے سالے ڈھیکے (میمنی میں کولہے) کی چمڑی اتر جاتی تھی۔ اس کی وجہ سے میں نے اسکول چھوڑا ورنہ میرا بھی نام ڈاکٹر عطا الحق قاسمی کی طرح مشہور ہوتا۔ اب تو ملی ہے تو میں نے بولا ماسٹر کی روح کو تیری اردو سے ایصال ثواب کا بندوبست کر لوں۔
یہ عاشق معشوق دونوں ساتھ ہوتے تو دوران گفتگو امیر مقام، والا حضرت، کنیز، ماحضرتناول فرمائیےگا جیسے شستہ کلمات لب لعلیں سے ادا ہوتے تھے۔ جون ایلیا کے اشعار کثرت سے پڑھے جاتے۔ یہ عجیب معاملہ تھا کہ یہ دونوں کزن اپنی انگریزی اور اردو کی وجہ سے اپنی ہم عصر دیگر طوائفوں میں بدیسی سنتا بنتا کہلاتی تھیں۔ تانی کی مرضی تھی کہ مینا شب عروسی میں امراؤ جان کی طرح کا لباس پہن لے۔ وہ مناف بونڈ والے کے لب و لہجے کی نقل کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’جان بہار آج پیار کی اوس میں بھیگتی اس رات میں گرارا (غرارہ) کرتی جیب( زیب) تن کیجئے۔ واللہ ہمارے اکبر بادشاہ تو آپ کے جلووں کی تاب نہ لاکر بھک سے تور دال کا ڈھوکلا (گجرات کی مشہور ڈش ) بن جائیں گے، ایک دم چکاس‘‘۔ تانی مناف کی طرح کندھے اچکا کر کہنے لگی ’’سالی تہ جیب(تہذیب) تو ان لوگ پر کھتم (ختم )ہے۔ تم پنجابی اور ہم میمن تو چوکھے ڈھگے، گدھیڑے(خالص، بیل، گدھے) ہیں۔
مینا نے غرارہ کرتی پہن لی تو لگا کہ فلم مغل اعظم کے سیٹ سے مدھوبالا اٹھ آئی مگر نمو ایک دفعہ پھر مخل ہوئی اور کہنے لگی لنڈا کے کپڑوں کا پٹھان تاجر قطب اکبر شاہ بہت Basic سا مرد ہے۔ Keep it Simple، Baby، اسے لباس سے زیادہ اپنے پیسے وصول کرنے میں دل چسپی ہوگی مینا کو Lube اور درد کی گولیاں دے دے اور گھر کا کوئی ریشمی شلوار سوٹ پہنادے۔
مینا کو سوپ اور سینڈوچ، مانع حمل گولی کھلاکر، کچھ ہلکا میک اپ کرکے اور سر پر لمبا سا دوپٹہ تان کر وہ رخصت ہوئیں تو پیر اکبر شاہ آ گیا۔ اسے مسواک کرتے ہوئے باتھ روم میں آتے جاتے ہوئے، سر نیہوڑائے دلہن بنی پلنگ پر ٹیک لگائے مینا کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ان کے آپس کے آئندہ کے تعلقات پر موٹی موٹی چند باتیں بتائیں۔ مینا کو مجرے پر جانے کی اجازت ہوگی۔ دوسرے مردوں کے بستر سے دور رہےگی۔ تعلقات توڑنے ہوں تو اسے بتا دے۔ یہ زبر دستی کا سودا نہیں۔ مہینے کا حساب کرکے اس کے باقی پیسے واپس کر دیں۔ جہاں وہ رہے گی وہ بلڈنگ اس کی اپنی ہے۔ اس وجہ سے پڑوسیوں سے تعلقات نہیں رکھنے۔ عورت لوگ ادھر کا بات ادھر کرتا ہے۔ ہاتھ خرچے کے اسے ہر مہینے پانچ ہزار روپے ملیں گے۔ سامنے کوئیٹہ بنگل زئی ہوٹل والے کو بتا دے کا کھانے میں کیا بھیجنا ہے۔ اس کے رشتہ داروں کو اس سے ملنے کی کوئی رکاؤٹ نہیں۔ اکیلے آنے جانے پر پابندی ہے۔وہ فون کرےگی تو ڈرایؤر آن کر اسے والدین کی طرف لے جائےگا۔ وہ پڑھنا چاہے توکوئی رکاوٹ نہیں ۔ہر قسم کے نشے کو سوائے نسوار اور کبھی کبھار چرس سگریٹ کے علاوہ ہر نشے کو وہ حرام سمجھتا ہے۔ بچہ پیٹ میں آئے تو فوراً بتاؤ، ام یہ خود فیصلہ کرےگا کہ اس کو رکھنا ہے کہ ہے کہ باہر کرنا ہے۔۔۔ تم روم سروس کو فون کرکے پوچھو ادھر فجر کا اذان کا آواز آتا ہے۔ ہم نے ہوٹل کی مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نہیں دیکھا تھا۔
عجلت کی بوسہ بازی کے بعد اس نے مینا سے پوچھ لیا کہ لباس وہ خود اتارےگی کہ یہ مقدس فریضہ پرانے کپڑوں کا ساٹھ سالہ بیوپاری پیر اکبر شاہ خود ہی انجام دے۔ مینا نے ایک فیک تمسخرانہ لہجے میں فلمی ڈائیلاگ مارا کہ ’’آپ تو میرے سرتاج ہیں، میری تمنا کا مرکز، میرے ماتھے کا سیندور‘‘۔ جسے ادھ سنا کرکے شاہ صاحب نے یہ پوچھ لیا کہ ’’باتھ روم والا بتی کافی ہے کہ اور لائٹ جلانی ہے؟ وہ بدستور شرارت کے لہجے میں کہنے لگی’’ آپ تو میر ے شاہ رخ خان ہیں، میں جی بھر کے دیکھ نہ لوں، آپ کو ‘‘جس پر شاہ جی فرمانے لگے کہ ایک تو تم اردو امجد خواجہ اور تانی سے بھی مشکل بولتا ہے۔ لباس کی زپ ڈھونڈنے میں اسے اس لیے بھی مشکل ہوئی کہ مینا اسے اپنے بائیں بازو کی آڑ میں چھپائے بیٹھی تھی۔ تنگ آکر اس نے مینا سے یہ کام کو خود کرنے کا مطالبہ کیا تو مینا نے بھی جواب میں دو فرمائشیں داغ دیں۔ ایک تو سلامی مانگ لی۔وہ کرسی پر پڑی واسکٹ سے پیسے نکالنے کے لیے بستر سے اٹھا تو ازار بند کی قید سے ڈھیلی ہوکر آزاد ہوئی شلوار اس کے پیروں پر جا پڑی۔ سوچئے ساٹھ سال کا لنڈا کا پٹھان بیوپاری اور امریکی رسالے پلے بوائے کے سینٹر فولڈ کی طرح ہالینڈ میں ٹیولپ کے لہلاتے باغات جیسی دور تک دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے چلے پندرہ سالہ عریاں نسوانی وجود کا مرقعۂ حسن مینا۔ قدرت نے کیا مذاق کیا تھا۔ وہ اس بےتاب و بےقرار مرد کا کرسی تک اور وہاں سے واپسی تک کا سفر نگاہ جماکر دیکھتے دیکھتے مینا ہنستے ہنستے دہری ہو گئی۔
بڑے حادثے ہوں تو جنہیں انگریزی میں Trauma کہتے ہیں تو اس کے شکار افراد کے ذہن پر کوئی ایک آواز، کوئی ایک منظر، ایسا پتھر پر لکیر کی مانند جم کر رہ جاتا ہے کہ مدتوں نہیں بھولتا۔ ساٹھ سال کے مرد کا یہ سفر اس شب عروسی ایسا ہی ایک Trauma تھا اور یہ سفر برائے سلامی اس کا Trigger۔اسی ہنسوڑ میں اس نے لگے ہاتھوں Lube کے استعمال کی اجازت بھی مانگ لی۔
جس پرپیر اکبر شاہ نے صرف اتنا پوچھا کہ یہ لیوب، شیوب کوئی حرام شے تو نہیں اور اس میں سور کی چربی کا استعمال تو نہیں ہوا؟
ارے نہیں یہ تو صرف چکنائی کا مرہم ہے۔ مینا نے اس کے انجانے پن پر حیر ت کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔یہ سن کر شاہ صاحب نے کہا یہ انگریز لوگ کھانے پینے کی ہر چیز میں سور کی چربی استعمال کرتے ہیں۔ مینا نے اسے اپنا وصال کا منترہ بنا لیا۔
تین چار سال بعد میں جب بھی وہ کسی ایسے مرد سے ملتی جس نے شب وصال شلوار قمیص پہنی ہوتی اور ایسا اکثر ہوتا تھا تو وہ ان دو مطالبات کا اعادہ اپنے وصال طلب مرد سے ضرور کرتی کہ وہ سلامی پیش کرنے کے لیے شلوار قدموں پر گراتا ہوا کرسی تک ضرور جائے دوسرے وہ پرس سے لیوب کی ٹیوب نکال کر وہی تمسخر بھری ہنسی خود پر طاری کرکے مرد مقابل سے ضرور پوچھتی کہ میں یہ Lube استعمال کر لوں۔ یہ لیوب، شیوب کوئی حرام شے نہیں اور اس میں سور کی چربی کا استعمال بھی نہیں ہوا۔ یہ صرف چکنائی کا مرہم ہے۔ سچ پوچھو تو اب مراحل وصال طے کرنے کے لیے اسے اس طرح کی اضافی امداد ہرگز درکار نہ تھی۔
بیس پچیس منٹ پیار محبت کے جیسے تیسے دورانیے کے بعد مینا نے غسل کیا، درد رفع کرنے کی گولیاں کھائیں اور اکبر شاہ کے خراٹوں کی دھن پرخود بھی نیند کی وادیوں ناچتی ناچتی گم ہو گئی۔
۲
پیر اکبر شاہ نے اسے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں خیابانِ بدر کے کمرشل ایریا کے جس فلیٹ میں مینا کو رکھا اسمیں نہاتے وقت اب چوٹ لگنے کا تو کوئی خدشہ نہ تھا۔آئینہ بھی اس نے بدلواکر قد آدم سائز کا لگا دیا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پیر اکبر شاہ کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ دیگر لوازمات جو اس نے کبھی بطور خواہش ظاہر کئے تھے یا ہوٹل کے اس باتھ روم میں دیکھے تھے وہ اب بھی اس کے اس آبی راحت کدے سے مفقود تھے۔ مینا نے فیض احمد فیض کا گو بہت احترام کرتی تھی مگر وہ یہ ماننے پر تیار نہ تھی کہ راحتیں اور بھی ہیں غسل کی راحت کے سوا اکبر شاہ والی بلڈنگ میں نیچے غلام محمد مرغی فروش کی دکان ضرور تھی، جس کی وجہ سے فلیٹ میں بے شمار مکھیاں، کھڑکیوں پر جالی نہ ہونے کی وجہ سے اندر آ جاتی تھیں۔ مینا جو اکیلی اس فلیٹ میں رہتی تھی ۔بس سارا دن Fly Swatter سے مکھیاں مارتی رہتی تھی۔
اس سے ایک دن مجرے کے وقفے میں کسی مہربان جس کا نام علی شاہوانی تھا اس نے پوچھا کہ وہ سارا دن کیا کرتی ہے تو اس نے بتایا کہ وہ مکھیاں مارتی ہے یا آج کل شہاب نامہ پڑھتی ہے۔ یہ مہربان جو خود بھی شہاب نامہ پڑھ چکا تھا اس کا امتحان لینے کے لئے پوچھ بیٹھا کہ وہ شہاب صاحب نے جس موچی کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اس کا تعلق کس شہر سے تھا تو مینا نے بتایا کہ جھنگ سے۔ جواباً مینا نے جب اس سے پوچھا کہ شہاب صاحب جس ہندو لڑکی کو سائیکل پر لے کر گھومتے تھے اس کا نام کیا تھا، تو وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ مینا نے اسے بتایا کہ وہ شہاب نامہ اب تک بایئس دفعہ پڑھ چکی ہے۔
اگلی دوپہر جب وہ اپنے ماں کے پاس پرانے فلیٹ پر آئی ہوئی تھی ایک لڑکا نیچے سے ایک کتاب لایا کہ کوئی کار آئی تھی جس میں سے ایک صاحب نے یہ کتاب اوپر پہنچانے کو کہا ہے۔ مینا نے کھڑکی سے جھانکا تو اس لڑکے کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق ایک کار کوئے ملامت سے باہر جا رہی تھی۔ یہ کتاب ممتاز مفتی کی الکھ نگری تھی۔ لگتا تھا کہ کتاب پہلے سے کسی نے پڑھ رکھی ہے کیوں کہ اس کے اوراق پر جابجا پنسل کے نشانات تھے۔ کتاب کھولتے ہی ایک سشتہ تحریر میں درج تھا۔
‘’امتحان میں فیل ہونے کا جرمانہ۔ شہاب نامے کا مطالعہ اس وقت تک نامکمل رہتا ہے۔ جب تک آپ یہ کتاب نہ پڑھ لیں۔ کتاب دراصل شروع ہی اس وقت ہوتی ہے جب ممتاز صاحب کی ملاقات شہاب صاحب سے ہوتی ہے۔ ابتدائی ابواب غیر ضروری ہیں۔ اس لئے کہ یہ ان کی آپ بیتی علی پور کے ایلی سے جا کر جڑ جاتے ہیں جو میری سمجھ سے باہر ہے’’۔۔۔ علی شاہوانی تحریر پڑھ کر کر مینا دھیرے سے مسکرائی کہ یہ حضرت اپنی سمجھ کو اب بھی حرف آخر سمجھے بیٹھے ہیں۔
رات جب پیر اکبر شاہ اس کے پاس آیا تو اس نے فرمائش کی کہ وہ اسے ’’علی پور کا ایلی‘‘ منگوادے۔ پرانے کپڑوں کا بیوپاری اس سے نادانی میں پوچھ بیٹھا کہ یہ کوئی پرفیوم ہے کہ کپڑا۔ اس کے خیال میں عورت کی دنیا ان دو چیزوں سے آگے نہ تھی۔
مینا نے جب اسے بتایا کہ یہ ایک کتاب ہے تو وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ اس کا کتاب سے کیا واسطہ۔ مینا کو دل میں یہ بات بہت چبھی اور اس نے کہا کہ اگر وہ اس بات کے حوالے سے ایک جوک سنائے تو وہ برا تو نہیں مانےگا۔ ’’نئیں برا کیوں مانےگا، بس پٹھان کا جوک نہ ہو وہ ام کو اچھا نہیں لگتا۔ کوئی پنجابی یا مہاجر امارے پٹھان کا جوک سنائے تو امارہ کھوپڑی کہتا ہے کہ اس کو کو کلاشنکوف کر برسٹ مار کر ختم کر دے’’۔ پیر اکبر شاہ نے تمسخر کی حدود متعین کر دیں۔
مینا کہنے لگی ’’ارے نہیں شاہ جی! جوک میں سب کے سب ساڈے اپنے پنجابی ہیں اور جوک بھی ایک ٹھیٹ پنجابن سنا رہی ہے’’۔
‘’ایسا ہے تو ہم دو دفعہ سنےگا’’۔ قطب اکبر شاہ اٹھلا کر کہنے لگا۔
مینا نے پوچھا کہ ‘’دو دفعہ کیوں؟’’
‘’ایک مرتبہ ام ہنسے گا ایک مرتبہ تو ہنسنا، تیرا ہنسنا ام کو اپنے ہنسنے سے زیادہ اچھا لگتا ہے’’۔ اس نے یہ پیار بھری وضاحت کی مینا نے اپنے بھرپور سینے سے پیر اکبر شاہ کے بھاری بھرکم سر کو ایک طرف لڑھکا کر یہ جوک سنانا شروع کر دیا۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سرگودھا میں ایک لڑکی اپنی بیوہ غریب ماں کے ساتھ رہتا تھا (مینا نے پیر اکبر شاہ کے حوالے سے مذکر، مونث کی گردان آسان کر دی)، وہ بہت شوخ، بڑا ہی چنچل تھا۔ اس کا نام تھا تو شاہدہ مگر ماں اس کو پیار سے شادو بلاتا تھا۔ شادو جب بہت شیطانی کرتا اور ماں کو غصہ آتا تو وہ اس کو بولتا تھا کہ ’’اللہ کرے شادو تیر ا ویاہ کسی سور نال ہووؤے’’۔ اس پر پیر اکبر شاہ گھبرا کر کہنے لگا ‘’مینا جان یہ تو کالی بددعا ہے۔ وہ ایسا کیوں بولتا تھا’’۔
مینا اس مداخلت پر چڑکر کہنے لگی کہ ‘’ام اس کا ماں نیءں۔ اس کا ماں تم کو مل جائے تو اس سے پوچھ لینا وہ ایسا کیوں بولتا تھا اپنی چھوکری کو’’؟؟؟؟!!!
سدا کا معصوم، پیر کبر شاہ اس کی چڑچڑاہٹ کو نظر انداز کرکے کہنے لگا ‘’ام اس کی ماں کو ڈھونڈنے کدھر جائےگا۔ پتہ نہیں وہ کدھر رہتا ہے’’۔ اسے کراچی اور اپنے گاؤں میاں دم (سوات )کے علاوہ صرف راولپنڈی اور لاہور کی معلومات تھیں کیوں کہ وہ یہاں کے تاجروں کو تجارت کے لئے مال بھیجتا رہتا تھا۔
مینا مصنوعی غصے سے کہنے لگی ‘’اس کی ماں کو نئیں ڈھونڈنا تو امارہ جوک سنو’’۔
اس پر پیر اکبر شاہ نے اس سے سگریٹ پینے کی اجازت مانگی جس پر مینا نے اس سے کہا ‘’ابھی نہیں’’۔
اس کی اس تنبہیہ پر پیر اکبر شاہ نے مینا کے شانے پر سے قمیص ذرا سرکا دی اور گورے تندرست کاندھے پر ایک واضح سیاہ تل کو چومتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’تیرے تل میں بھی اللہ ایمان، امارے مردان کی f/16 نسوارکا نشہ ہے، غصہ چھوڑو، تنگ مت کرو۔ ام کو اپنا پنجابی جوک سناؤ‘‘۔
مینا جوک جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی اللہ کا کرنا کیا ہواء کہ شادو کے لئے فیصل آباد کے ایک اناج کے آڑھتی رمضان بھٹی کا رشتہ آیا۔ رمضان سیٹھ کے پاس تمہاری طرح بہت دولت تھا، مگر اس کا پہلی بیوی مرچکا تھا اور اسکا عمر بھی لڑکی کے باپ اور ہمارے پیر سرتاج یعنی آپ جتنا تھا۔
’’ایک منٹ ‘‘قطب اکبر شاہ نے پھر سوالات کا وقفہ مانگا اب کیا؟ مینا تنک کر کہنے لگی۔
’’وہ شادو لوگ تیرے سے دیکھنے میں اچھا تھا‘‘؟ قطب اکبر شاہ نے پوچھا۔
مینا اس کے سوال کا لطف لیتے ہوئے کہنے لگی ‘’ام کو نئیں پتہ تم کو ملے تو ام کو چھوڑ کر اس کو خرچے میں ڈال لینا ‘’مگر تم تو بولتا ہے کہ اس کا شادی ہو گیا’’۔۔۔ قطب نے اسی معصومیت سے پوچھا۔
‘’تم کو جوک سننا ہے کہ نہیں بولو’’۔۔۔۔مینا چڑ کر کہنے لگی۔
‘’جوک سننا ہے مگر ام کو وہ تیرا تل نہیں مل رہا’’۔ پیر اکبر شاہ نے مینا کی قمیص سرکاتے ہوئے پوچھا۔
یہ تل اب اسکی برا کے اسٹریپ کے نیچے چلا گیا تھا۔ جو مینا نے اس کے سوالات کے دوران واپس اپنی جگہ پر سیٹ کرلی تھی۔ ‘’ام اس کو ڈھونڈتا ہے تم جوک سناؤ’’۔ اس نے اپنی دلچسپ مصروفیت کا جواز بتاتے ہوئے کہا۔
’’شاہ جی آپ کو اس کی ماں کی دعا یاد ہے نا‘‘۔۔۔ مینا نے اسکے ہونٹوں اور ڈاڑھی کی گدگدی اپنے کاندھے پر محسوس کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’جی میناجان اس کا ماں کالی بددعا دے کر بولتا تھا کہ اس کی شادی کسی سور سے ہو جائے‘‘۔ اکبرشاہ نے اپنی توجہ اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا۔
ماں نے سوچا کہ عمر زیادہ ہے تو کیا۔ لڑکی اس کے ساتھ خوش رہےگا۔ مسلمان تو ہے نا۔شادو کا شادی ہو گیا۔ اس کو لڑکی لوگ نے سمجھایا کہ آج کا رات شرافت سے رہنے کا ہے۔ وہ جو کرے کرنے دینا ہے۔ آج اس کا مرضی چلےگا تمہارا نہیں۔ آگے پھر پی ٹی آئی ہے۔ صرف عمران خان یعنی تمہارا مرضی چلےگا۔ سمجھو۔تم بس خاموش پلنگ پر بیٹھنا وہ جو پوچھے اس کا جواب دینا۔ جو کرے کرنے دینا۔ آج تم میاں کو فوج سمجھو۔
پیر اکبر شاہ کو ایسا لگا کہیں دور سے بالنگ اسٹارٹ لے کر مینا اس کو ریورس سوئینگ کرائے گی ۔مینا کو چھیڑتے ہوئے پوچھ بیٹھا کہ ’’اس نے بھی سلامی اور Lube ا ستعمال کرنے کی اجازت بھی مانگی۔ اس نے۔‘‘
’’وہ شادو پرانا کھلاڑی تھا امارے جیسا نیا کنوارہ نہیں تھا‘‘۔ اس جواب میں اداسیوں کے کئی رنگ تھے جنہیں پیر اکبر شاہ بھانپ کر کہنے لگا۔ ’’جوک بول نا مینا جان‘‘
رمضان سیٹھ کمرے میں آیا تو شادو لمبا سا گھونگٹ نکال کر دلہن کا پوز بنا کر پلنگ پر بیٹھا تھا۔ رمضان سیٹھ نے اس پوچھا کہ کوئی تکلیف وغیرہ تو نہیں۔ ام تم کو خوش رکھےگا یہ گھر بھی تمہارا ہم بھی تمہارا اور ہمارا دولت بھی۔مگر ذرا اپنا یہ گھونگٹ تو ہٹاؤ، شادو چپ چاپ تمہارے لنڈا کا پرانے کپڑے کا گٹھڑی بنا بیٹھا تھا۔ سیٹھ نے سوچا لڑکی لوگ زیور سے خوش ہوتا ہے۔ اس نے اپنا پرانی بیوی کا بڑا سا سونے کا لاکٹ نکال کر شادو کا مہندی والا ہتھیلی پر رکھ دیا اور اس کا گھونگٹ ہٹا دیا۔
شادو نے اپنا اسٹڈیم جتنا بڑا بڑا آنکھ کھول کر سیٹھ رمضان کو دیکھا اور پھر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔رمضان سیٹھ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات ہے۔ پہلے وہ سمجھا شاید اس نے شیروانی الٹا پہن لیا ہے۔مگر شیروانی تو بالکل ٹھیک تھا۔ شلوار دیکھا پھر۔وہ بھی تمہاری طرح پیروں پر سلامی دیتے وقت نہیں گرا تھا۔ بہت دیر کے بعد جب شا دو کا ہنسی رکا تو اس نے پوچھا کہ ‘’جندڑئیے گل کی ہے پہلے تو تو اننی خموش سی۔ ہن تیرا ہانسا ہی نئیں رکد’’ (جان میری کیا بات ہے پہلے تو اتنی چپ چپ تھی اب کیا ہوا کہ تیری ہنسی ہی نہیں رکتی) شادو نے ایک دفعہ اور اس کو آنکھ بھر کر دیکھا اور بولا ’’لگدا اے بے بے دی دعا قبول ہو گئی ہے’’ (لگتا ہے میری امی کی دعا قبول ہو گئی ہے)
جب مینا جوک کے خاتمے پر زور سے ہنسی تو پیر اکبر شاہ نے کہا ‘’اس میں ہنسنے کا کیا بات ہے’’۔ جس پر مینا اور بھی ہنسی۔ اب شاہ جی نے اس کی اجازت کے بغیر ہی واسکٹ کی جیب سے چرس بھری سگریٹ نکال کر سلگائی اور لمبا سا کش لے کر کہنے لگا۔ ’’یہ تیرا ہنسنے کی خوشی میں ام پی رہا ہے’’۔
سگریٹ ختم ہونے سے پہلے ہی پیر اکبر شاہ جذباتی ہو گیا۔ کھوئے ہوئے تل کو برا کے اسٹریپ کے پیچھے تلاش کرنے کی کوشش میں مینا کو بالکل برہنہ کردیا مگر اکبر شاہ کی یہ شہوت و وحشت بہت مختصر اور اسٹاک مارکیٹ کی مانند بے اعتبار ہوتی تھی۔ ذرا سی دیر میں اپنی ہی کوششوں سے نڈھال ہوکر ایسا گرا کہ فجر کی اذان کی آواز سے ہی اٹھنا ممکن ہوا۔ مینا کو لطف و کرم کے ان مراحل کا بہت سا علم تو انٹرنیٹ اور سہیلیوں کے ذریعے ہوا تھا۔ پیر اکبر صاحب کے ساتھ معاملہ کچھ یوں تھا کہ مکتوب الیہ کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈاکیہ خط پھینک کر جا چکا ہوتا۔ یوں وہ اس سے لمحات وصال میں دور کہیں اپنے خیالات میں بھٹک رہی ہوتی تھی۔
پیر اکبر خراٹے لینے لگا تو وہ اٹھی، غسل کرکے ساتھ والے کمرے میں عشا کی نماز پڑھی۔ وہاں صوفے پر دراز ہوکر بتیاں گل کرکے مینا اپنی ماں نیلوفر یاد کرنے لگی۔ وہ حساب لگانے لگی۔ آج اسے گھر چھوڑ کر گئے پانچ سال سے اوپر ہو گئے تھے۔ نیلو جب شادی ہوکر گئی تو کوئی خوش نہ تھا۔وہ اس وقت نو سال کی تھی۔
وہ اپنے ماموں سلیم کے گھر میں پلی بڑھی۔ اس کے چھ بچے تھے۔ ساتویں مینا کو سمجھ لو، جو سب سے بڑی تھی۔ سلیم کو صرف درزی کا کام آتا تھا۔ کثرت شراب نوشی، کمر کی تکلیف اور کاہلی کی وجہ سے وہ ٹک کر کام نہ کرتا تھا۔ اس گھرانے کا سارا خرچہ پہلے نازلی کی آمدنی پر چلتا تھا اس کے بعد اس کی چھوٹی بہن نیلوفر نے آفس کا کام سنبھال لیا تھا (ان طوائفوں کی زبان میں کوٹھے کو آفس کہتے ہیں۔) اس کی آمدنی اچھی خاصی تھی مگر پھر نیلوفر کی شاد ی وہاڑی پنجاب کے کسی زمیندار باسط شاہ سے ہو گئی تو حالات کچھ تنگ ہو گئے تھے۔ اسی کی آمدنی سے سارا گھرانہ پلتا تھا۔
زمیندار باسط کو مناف بونڈ والے کے بڑے بھائی حمید کی رفاقت میں تھائی لینڈ کے ساحلی مقام پتایا بیچ Pataya-Beach پر مساج کراتے ہوئے ایک نجومی ملا تھا اس نے پیشکش کی تھی کہ وہ اسے اگر دس ڈالر دے تو وہ اسے کچھ باتیں ایسی بتائےگا جس سے وہ خوش ہو جائے۔ ڈیل ہونے پر اس نے بتایا کہ اس کی شادی کسی ایسی لڑکی سے ہوگی جس کا نام ’’N’’ سے شروع ہوگا۔ شادی کے تین سال کے اندر وہ طاقت ور بن جائےگا۔ سیاست میں بھی نام کمائےگا اور کمائی بھی ڈالروں میں ہوگی۔ وہ عورت بہت خوبصورت، چالاک اور بھاگوان بھی ہوگی۔
باسط شاہ نے نجومی سے کہا اگر وہ تین اور ایسی باتیں بتائے جس اس کا دل اور خوش ہو جائے تو وہ اسے دس ڈالر مزید دےگا۔ جس پر نجومی کہنے لگا ’’اسے صرف دو ایسی باتیں دکھائی دیتی ہیں ایک بات بیوی کے حوالے سے ہے جو ذرا ناخوشگوار ہے ۔اس بات کے لئے چارج کرنا نامناسب ہوگا۔ باسط شاہ اب مساج چھوڑ اٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔ مساج کے دوران چونکہ ویٹنگ چارجز نہیں ہوتے لہذا مساج کرنے والی پریشان تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ باسط شاہ نے نجومی سے کہا Dont worry . You tell all. I pay all. (تم فکر مت کرو، مجھے سب بتاؤ، میں رقم پوری دوں گا)۔ نجومی نے جب مساج والی کے وقفے کی طرف اشارہ کیا تو باسط شاہ کہنے لگا۔ Is she your auntie. Why you worry? you go get three beers . i pay. tell her to massage my hot head (یہ کیا تمہاری خالہ ہے، تم کیوں پریشان ہو؟تم جاؤ، تین بیئر لاؤ، میں پیسے دوں گا اور اس سے کہو میرے گرم سر کا مساج کرے)۔ جب تک وہ بئیر کے تین ڈبے لے کر آتا مساج والی اپنا کام ختم کرکے جا چکی تھی۔ باسط شاہ پہلا ڈبا تو ایک ہی گھونٹ میں پی گیا، دوسرا اس نے کھول کر نجومی کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ وہ کہنے لگا کہ وہ صرف تھائی لینڈ کی بنی ہوئی وہسکی پیتا ہے وہ بھی رات میں۔جس پر باسط شاہ کہنے لگا۔ No night now. No whiskey therefore. Now my heart cold.Tell me all your secrets( چوں کہ ابھی رات نہیں لہذا تمہیں وہسکی نہیں مل سکتی۔ میرے دل میں بئیر پی کر ایک ٹھنڈک آ گئی ہے اس لئے تم مجھے سب اپنے راز بتا دو)۔ بدذوق نجومی نے اس کی انگریزی کا لفظی مطلب نکالا تھا سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا۔ Siryour secrets. Not for me. If my secret . I lie for massage and other tell my secret) (جناب والا یہ آپ کے بھید ہیں، میرے نہیں۔ اگر میرے ہوتے تو میں آپ کی جگہ مساج کرا رہا ہوتا اور راز کوئی اور بتا رہا ہوتا) جس پر باسط شاہ کچھ خفگی سے کہنے لگا کہ Take whiskey in night and your wife massage you. Now tell me secrets( رات کو تم وہسکی پینا، تمہاری بیوی تمہارا مساج کرےگی ۔اب سب راز بتاؤ)۔۔۔چونکہ نجومی کے پیشے کا تقاضا تھا کہ وہ گاہکوں سے نہ الجھے، لہذا اس نے باسط کو راز نمبر ایک تو یہ بتایا کہ وہ کسی ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ دن تک اپنا بندھن باندھ کرنہ رکھے۔ دوسرا جتنا جلد ممکن ہو سرکار کے ٹھیکوں میں ہاتھ ڈالے۔ ٹھیکہ آگے بیچے اور خود نکل جائے۔ آخری مگر ناخوشگوار بات یہ ہے کہ اس کی شادی ایک طوائف سے ہوگی۔ باسط شاہ نے اسے یہ تینوں باتیں سن کر دس ڈالر پکڑائے اور کہنے لگا۔ You listen mr. Najomi. In my Pakistan we all change parties. They are not our mother, father. Second one is good secret. And marriage is by luck.All pairs are made in heaven اگر آپ باسط شاہ کی انگریزی کا صحیح لطف اٹھانا چاہتے ہیں تو جان لیئجے کہ اس نے کہا جناب والا نجومی صاحب، میرے پاکستان میں ہم سب سیاسی پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، وہ ہمارے ماں، باپ تھوڑی ہیں کہ انہیں بدلنے میں مشکل ہو۔ دوسری بات اچھی بتائی۔ تیسری بات یہ ہے شادی نصیب کا کھیل ہے ۔جوڑے جنت میں بنتے ہیں۔ پنجاب کے علاقے وہاڑی کا وجیہہ جاگیردار باسط شاہ جو مناف بانڈ والے کے بڑے بھائی عبدالحمید کا جگری دوست تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اسی کے ساتھ پہلی دفعہ ملک سے باہر نکلا تھا۔
نازلی اور نیلوفر کا یہ گھرانہ طرحدار ڈیرے دار طوائفوں کا تھا۔ بنگلہ فاضلکہ، جو فیروزپور، مشرقی پنجاب کے پاس کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، وہاں سے یہ ہجرت کرکے پاکستان چلا آیا تھا۔ یہ سب اپنا حسب نسب راجپوتوں رانوں سے جوڑتی تھیں۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ کچھ محدود تھا ورنہ وہ اترانے اور بھاؤ بڑھانے کے لیے یہ کہہ سکتی تھیں کہ وہ میواڑ کے مہارانا سنگرام سنگھ (جسے سب رانا سانگا کے نام نامی سے جانتے ہیں) کی رانی کرناوتی کی اولاد تھیں۔ رانا سانگا کے گھر کی ان عورتوں کو سن1527ع میں بھرت پور کے پاس کھانوا کی جنگ میں مہارانا سانگا کو شکست ہوئی تو ان راجپوتانیوں کو بع مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے حرم میں داخل ہونا پڑا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنا آبائی دھرم تو چھوڑ دیا پر راجپوت حسن کو ویسے ہی سینت سینت کر رکھا۔
پے در پے جنگوں اور قیام پاکستان کی ہجرت کے بعد بہت سوں کا حسب نسب کا دعویٰ کچھ گڈمڈ ہو کر رہ گیا تھا۔ ان رسمساتی طوائفوں کی جو اپنا حسب نسب راجپوت رانوں سے جوڑتی تھیں۔ ان کا حسن و دلکشی دیکھ کر لگتا تھا کہ انہوں نے اپنا Gene-Pool بہت احتیاط اور سمجھداری سے سینچا تھا۔ یہ صرف خوش حال، نجیب الطرفین اور وجیہہ مردوں کے بچے پیدا کرتی تھیں۔ اس Pedigree سے حسین طوائفوں کی ایک اعلیٰ نسل (Super- Breed) اب کراچی، لاہور اور حیدرآباد کی ہیرا منڈیوں میں اپنا کاروبار چلاتی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے ان کے حسن کی دھمک، بمبئی، کلکتہ، لدھیانہ، پٹیالہ اور لاہور تک سنائی دیتی تھی۔ ہجرت کے بعد انہوں نے بہت جائداد بنائی۔ سونا یہ تولہ دو تولہ نہیں بلکہ کلو کے حساب سے خریدتی تھیں۔
نیلوفر جب باسط شاہ سے بیاہ کر جانے لگی توبڑی بہن نازلی نے جیسی ان رنڈیوں کے ہاں کا ریت رواج ہے، مینا کو اپنے پاس روک لیا۔انہیں اپنی لڑکیوں کی شادی جس میں لڑکی ان سے کٹ کر بالکل علیحدہ ہو جائے بالکل قابل قبول نہیں ہوتی۔کبھی ایسا مرحلہ آبھی جائے تو وہ بچوں کو روک لیتے ہیں۔ اولاد کا پیار بہت دیرپا اور گہرا ہوتا ہے اور جب شادی ناکام ہو جاتی اور پیار وغیرہ کا بھوت اتر جاتا تو وہ ان کی طرف واپس آجاتی اور پیشے سے دوبارہ جڑ جاتی۔ گویا یہ غیر حاضری کا وقفہ ایک طرح کاکسی خوب صورت یا دلچسپ یا المیہ انگیز ٹی وی ڈرامے کا commercial -break تھا۔
باسط شاہ کے ساتھ جاتے جاتے، اس نے اپنا ایک سربستہ راز بھی مینا کے حوالے کیا۔ اس کے اصلی باپ کا نام مینا کو بتا دیا۔ جب نیلو کی شادی ہوئی تو مینانو برس کی تھی۔ اسے نیلو سے پیار بھی بہت تھا اور وہ اسے نیلو ماما کہتی تھی۔ جس شام نیلو بیاہ کر رخصت ہوئی مینا کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔رخصتی چونکہ ان کے گلشن اقبال والے گھر سے ہوئی تھی لہذا سب سے چھپ کر رخصت ہونے تک گلے لگ کر رونے کا معاملہ بھی ان دونوں کے یعنی نیلو اور مینا کے درمیان رہا، نیلو نے اپنے ہاتھوں سے مینا کا میک اپ اس تقریب کے لئے کیا تھا۔ قیمتی سرخ غازے کی جو تہہ مینا کے چہرے پر جمی تھی اس پر نیلو کے وقتِ جدائی مینا کے گالوں پر آنسوؤں کے دو خشک دریا اپنا نشان چھوڑ گئے جنہیں دس برس کی مینا نے صبح تک دھویا بھی نہیں۔ ماں کی جدائی پر روتے روتے ہی سو گئی تھی۔
مینا دیر تک، گیٹ کو تھامے، دلہن بنی، نیلو ماما کی موٹر کو جاتا دیکھتی رہی۔ پورے گھر میں اسے کسی نے اسقدر رونے اور غمزدہ ہونے سے نہیں روکا۔ یہ سب لوگ جانتے تھے کہ
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔
زندگی کے کچھ پچھتاوے، کچھ دکھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یک بارگی جم کر رو لینے سے اپنی شدت کھو بیٹھتے ہیں، آنسووں کے طوفان میں ایک ایسا تیزابی نمک بھی ہوتا ہے جو سرزمین دل پر ایک خاص نوعیت کے غم کی روئیدگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتا ہے۔ ان دکھوں پر وقت کی مناسبت سے آنکھ بھرکر، سب سے چھپ کر، جی بھر کر، کوئی رو لے، تو پھر دل کے کعبے میں اس غم کے صنم پھر مڑ کر نہیں آتے۔ شائد اسی لئے کسی نے یہ شعر کہا تھا کہ جانے والے، دل کو پتھرکرگئے۔ پھر کسی کے نام پر، دھڑکا نہیں۔
نیلوفر کے عشوۂ و ناز، دل فریبی اور دلداری کا سارے بازارحسن میں چرچا تھا۔ وہ ناچتی بھی بہت اچھا تھی۔ باہر کے مجرے جنہیںیہ فنکشن کہتے تھے۔ ان میں نیلو کے ساتھ اس کا بھائی پھوپھی نازلی کے ساتھ جاتا۔ اب وہ مینا کو بھی ساتھ لے جانے لگے تھے۔ یہ نازلی کی ہدایت کے تحت ہوتا تھا۔ اس کا ایک مقصد تو مینا کو ماحول سے آشنا کرنا تھا۔ دوسرے اس کے دل سے مردوں کا خوف بھی دور کرنا تھا۔ دراصل یہ ایک Horse-Breaking Exercise تھی۔ اگر آپ کو گھوڑوں کی ریس کے شوقین ہیں تو مینا آپ کی اصطلاح میں ایک Green Horse تھی، یعنی ایسا گھوڑا جسے اب تک ریس میں دوڑنے کی اور کسی کو بطور اپنے اوپر سوار کرنے کی تربیت نہ ہو۔ بعد میں اسے تربیت دینے والے اسے ایک دائرے میں لے کر دوڑتے ہیں اور جب اس کی توانائی کم ہوتی ہے تو اس پرسواری کا آغاز کرتے ہیں۔ ریس میں دوڑانے کا مرحلہ بہت بعد میں آتا ہے۔ اس تربیت کا آغاز اس وقت ہوا جب نیلو پہلی دفعہ منشیات کے مشہور اسمگلر یوسف خان کی ملازمت میں آ گئی۔ یوسف ان دنوں جیل سے رہا ہوکر باہر آیا تھا۔
سنٹرل جیل میں اس کے بہت عیش تھے۔ اس سے ملاقات کرنے والے اس کے کمرے پر لائے جاتے تھے۔ ملاقاتی دیکھتے تھے کہ کمرے میں ائیر کنڈیشنر بھی لگا تھا اور ایک قطار سے شہر کی مشہور لانڈری سے کلاسیک کے دھلے ہوئے اس کے سفید شلوار قمیص پلاسٹک کی بڑی تھیلیوں میں ٹنگے رہتے تھے۔ وہ روز آنہ صبح شام جوڑے تبدیل کرتا تھا۔
نماز وہ جیل کی مسجد میں جماعت سے پڑھا کرتا تھا۔ جیل میں قرآن سیکھنے والوں کو قید کی رعائیت ملتی تھی۔ یوسف خان کو جیل سے رہا ہونے کی کوئی جلدی نہ تھی۔ لہذا اس نے قرآن سزا میں تخفیف سے زیادہ اپنی بخشش کے لئے پڑھا اور اپنے وقت پر ہی رہا ہوا۔
نیلوفر کو اس نے کسی مجرے میں دیکھا اور ایک سال کے لئے اسے اپنے خرچے میں بٹھا لیا۔ خرچے میں بیٹھنے والی طوائف کو مجروں کی اجازت تو ہوتی ہے مگر وہ تعلق اور وابستگی صرف اس ایک اپنے مرد سے رکھتی ہے۔ بعض مرتبہ وہ رہتی بھی اسی کی دی ہوئی رہائش گاہ میں ہے۔ یوسف خان کو خیبر پختون خواہ وطن واپس لوٹنا پڑا۔ اب وہاں منشیات کی نسبت افغان جنگ کی وجہ سے دیگر کاروباری مواقع ایسے آ گئے تھے۔ منشیات کا کام ایک نیا رخ اختیار کر گیا تھا جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ جاتے وقت وہ زمزمہ بلے وورڈ ڈیفنس کراچی میں نیلو کو اپنی ایک بلڈنگ میں، ایک فیلٹ اور دکان بھی تحفے میں دےگیا ساتھ ہی نیلو کو شادی کے بندھن سے آزاد کر گیا۔ اسی رنڈی رونے میں تسلی کی خاطر وہ نیلو کو بتا کر گیا کہ اجمل خان میکنک اس کے اس فلیٹ سامنے والے گیرج کا مالک اس کے اپنے گاؤں رزمک کا ہے۔جب اسے لگے کہ اس کو کبھی اس کی ضرورت ہے اور یوں لگے کہ کہیں سے کوئی مدد دستیاب نہیں تو اجمل خان کو بتا دے۔ وہ خود رابطہ کرےگا۔ اب وہ ادھر امریکہ اور طالبان کے ساتھ کاروبار کے لیے جا رہا ہے۔
باسط شاہ سے شادی کی شرائط طے کرتے وقت کل چار لوگ ان کی طرف کے شامل تھے، ایک وکیل جس کی نازلی سے بہت دوستی تھی اور وہ ان کا سارا کام پیار محبت میں مفت بھی کرتا تھا اور بہت دل لگا کر بھی۔ خودپھوپھی نازلی جو اصل میں تو مینا کی بڑی خالہ تھی۔ نیلوفر اور باسط شاہ۔شریک تو اس محفل میں مناف بانڈ والے میمن کے بڑے بھائی عبدالحمید کو بھی ہونا تھا، مگر وہ عین وقت پر غائب ہو گیا اس کی مرضی نہ تھی کہ باسط شاہ نیلوفر سے شادی کرے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جواپنی زندگی ٹرکوں پر لکھے اس سنہرے اصول کہ 'بچ ذرا موڑ توں' کے حساب سے گزارتے ہیں اور ان کے لئے کسی شاعر نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔
دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جی کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ، مشغلہء دل نہ بنا
شادی کے معاہدے کے طے ہوجانے کے بعد نیلوفر تو واپس بھائی کے فلیٹ پر نئپئر روڈ پر آ گئی، یہ سب اسے بڑا گھر کہتے تھے۔ باسط شاہ اگلی فلائٹ سے واپس لاہور لوٹ گیا۔ اگلی صبح اس کی سیاسی پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کا اجلاس تھا جس میں آنے والے انتخابات کے لئے ٹکٹوں کا فیصلہ ہونا تھا۔ یہ سیاست کا نازک ترین مرحلہ تھا کیوں کہ اس میں انتخابی گروپ بندی کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ نیلو نے سازندوں کو کہلا بھیجا کہ شہر کے ہنگاموں کی وجہ سے گاہک بھی نہیں آئیں گے لہذا وہ بھی آرام کریں۔ شہر کے اس علاقے پر گو ہنگاموں کا کوئی خاص اثر نہ ہوتا تھا۔ شادی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے مینا کی وجہ سے وہ کچھ اندر سے تڑخ سی گئی تھی۔
کمرے میں ٹیلی ویژن پر کسی ہندوستانی ڈرامے کی ایسا موڑ آ گیا تھا کہ وہاں موجود گھر کے دیگر افراد میں سے کسی کی آنکھ اسکرین پر سے ہٹ نہ رہی تھی۔ خود مینا بھی انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ نیلوفر نے کھڑے ہوکر ساری بتیاں بجھا دیں تو مینا سمیت سب بچوں نے شور کیا مگر نیلو نے بتایا کہ ساری بتیاں جلیں گی تو یو۔ پی۔ ایس اور ٹی وی بند ہو جائےگا اور وہ ڈرامہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔ مینا کو اس نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے گھسیٹ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور چپ چاپ روتی رہی۔ مینا یہ سمجھی کہ ماما پر ڈرامے کی کہانی کا اثر ہو گیا ہے۔ اس نے نیلو ماما کے کان میں بھی کہا کہ ’’ماما یہ تو ڈرامہ ہے سچی کی بات تھوڑی ہے کہ آپ رو رہی ہیں‘‘۔ مینا جب اس کی گود میں سو گئی تو وہ چپ چاپ اسے لے کر بستر پر دراز ہو گئی اور دیر تک اسے آنسوؤں سے دھندلائی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ ٹی وی والے کمرے میں اب خبر نامہ چل رہا تھا۔ سب بچے سو چکے تھے، بس بھائی اور بھابی بیٹھے تھے۔پہلے اس کے دل میں آئی کہ وہ فرج سے برف نکال کر باسط شاہ کی لائی ہوئی ایک بوتل سے کچھ وہسکی پی لے شاید اس سے کچھ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے مگر اس کے دل میں آنے والے دو خیالات نے اسے روک دیا۔ ایک تو اگر مینا جاگ گئی تو وہ اسے کیا بتائےگی، دوسرے ٹی وی والے کمرے میں بھائی اور بھابھی بیٹھے تھے۔ ان کی موجودگی میں شراب پینا رشتے کے احترام میں مانع آتا تھا۔ بھائی البتہ اپنے ٹھرے کی بوتل سے گلاس چڑھائے جا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور کمرے میں آن کر اپنی بھابی سے لپٹ کر رونے لگی۔ بھائی سلیم نے اس پر بہت آہستہ سے کہا۔۔۔ ’’ہن کی ہوسکدا اے، جا چپ کرکے سوجا، تینوں میں اوس ویلے بھی کننا سمجھایا سی کہ باز آجا۔پر تو نئیں مننی، اوس ویلے تیرے تے او منڈے فرقان دے عشق دا بھوت چڑھیا سی’’۔۔۔ ( اب کیا ہو سکتا ہے۔ تجھے اس وقت بھی میں نے کتنا سمجھایا تھا، مگر تو نہیں مانی تجھ پر تو اس لڑکے فرقان کے عشق کا بھوت سوار تھا۔) اس کی بھابھی نے اس پر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ‘’تو چلی جا تیرے بعد مینا دی ماں میں بن کے و خاواں گی’’ ( تو چلی جا، تیرے بعد میں مینا کی ماں بن کر دکھاؤں گی)
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ مینا، فرقان اور نیلوفر کے پیار کاحسین شاخسانہ تھی۔
بچپن کا پیار بھی عجب ہوتا ہے۔ آپ عمر کے کسی حصے میں بھی ہوں اس کی یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے قریب کی نظر کی طرح قریب کی یاداشت بھی خراب ہوتی جاتی ہے۔ دور کی باتیں جنہیں بیتے ہوئے بہت دن گزرے ہوتے ہیں وہ زیادہ آسانی سے یاد آ جاتی ہیں۔ آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ نماز پڑھ لی کے نہیں، دوائی کھائی کے نہیں، چشمہ ابھی ابھی آپ کہاں رکھ کر بھول گئے۔ لیکن یہ یاد رہتا ہے کہ فلاں موقعے پر آپ کے محبوب نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے، کونسی خوشبو لگائی تھی۔ اوکاڑہ کا مہاجر زمیندار ہمارا جگری دوست راحیل بخاری اس پیار کو ویسے ہی پیار سے کتے لاڈیاں دا پیار’’ کہتا تھا جو انگریزی کی اصطلاحPuppy -Love کا بےباک پنجابی ترجمہ تھا۔
۳
تھے کچھ ایسے بھی نقشِ پا، جن سے
خاک سی چیز، مسکراتی تھی
نیلوفر، یعنی مینا کی امی جب چھٹی جماعت میں تھی تو اسے پھر کان احمد سے پیار ہو گیا۔ شدید پیار۔ آپ کہیں گے بھلا پھر کان احمد بھی کوئی نام ہوا۔ نام تو اس کا اصل میں فرقان احمد تھا مگر خود اسے اسکول کے زمانے تک یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اسے ٹھیک سے فرقان کہہ سکے۔ کراچی میں ہیرا منڈی جسے سندھ کے فاتح کے نام پر نیپئر روڈ کہتے ہیں اس کے پاس ہی میمن جماعت کا ایک اسکول تھا جہاں قرب و جوار کے بچے تعلیم کی خاطر جاتے۔ نیلوفر کی اقسام کے بچوں کی تعداد ان میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ آپ نے اگر کبھی یسی روٹی، پراٹھا یا پلاؤ کھایا ہے جس میں نمک شامل ہونے سے رہ گیا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل ذائقہ اسی نمک کا ہوتا ہے۔
اسکول میں باقی بچے پاس پڑوس کے گھروں کے میمن اور گجراتی بچے تھے، ہیرا منڈی ہمیشہ شاہی محلات اور کاروباری مراکز کے قلب میں ہوتی ہے، وہ چاہے لاہور کی ہو کہ بمبئی کا فارس روڈ ہو کہ کلکتہ کا سونا گاچی، لندن کا سوہو کا علاقہ ہو کہ پیرس کا پگال یا اب کچھ کچھ اجڑی نیویارک کے کاروباری مرکز مین ہیٹن کی گلی نمبر بیالیس۔ کراچی میں کبھی کیوں کہ آمد شاہاں نہ ہوئی نہ انہوں نے یہاں کوئی قلعے بنائے لہذا یہ ہیرا منڈی صرف کاروباری مرکز کے وسط میں بطور ایک کاروباری مرکز کے قائم رہی۔ اس کا رنگ رس حیدرآباد میں موجود تھا۔ بھٹو سے پہلے سندھ کے زمیندار کراچی سے کنی کتراتے تھے لاہور کے بعد سب سے رسیلا چکلہ حیدرآباد کا تھا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی چند مشہور اداکارائیں اور موسیقار اور گلوکار یہیں سے اٹھ کر آئے تھے۔ جن میں ایک تو آج بھی صوفی موسیقی میں بہت بڑا نام ہے۔
ان دنوں میمن گجراتی بھی فوج کی طرح زیادہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھتے تھے۔راستے اور ترقی کی رکاوٹ۔ ان کے بچوں کے نام احتیاطاً ایسے رکھے جاتے تھے کے انمیں اردو کے حروف ف۔ ق۔ش۔خ اور ض کی چلت پھرت نہ ہو۔ اس سے ان کا گلا اندر سے چھل جاتا تھا۔ میمنی اور گجراتی سندھی، عربی، اردو اور پشتو کیے بجائے ہندی کے کومل سروں سے کولہے جوڑ کر چلنے والی زبان ہے۔
میمن اور گجراتی پر اسی لیے ہندی زبان بہت بری طرح غالب تھی اور ہندی میں اس طرح کی آوازوں کو سخت مانا جاتا تھا۔ اگر کھبی کوئی بھولے سے ایسا نام رکھ لیتا جس میں یہ حروف تہجی استعمال ہوں تو خالدہ ساری عمر کھالدہ، شمیم ساری عمر سمیم اور فواد ساری عمر کے لئے پھواد ہی رہتا تھا۔
پھرکان احمد کا نام فرقان، مولوی صاحب نے تجویز کیا تھا۔ مولوی صاحب فرقان کی بہن کو گھر پر قرآن کریم کی تعلیم دینے آتے تھے۔ اسے پیدا ہوئے چار دن ہو چکے تھے والدہ بھی ہسپتال سے گھر آ گئی تھیں مگر بچہ کا نام اب تک نہ رکھا گیا تھا۔ مولوی صاحب جب درس دینے آئے تو معصوم طالبہ نے ان سے پوچھا کہ ہم اپنے بھائی کا نام کیا رکھیں، تو انہوں نے سامنے کھلے ہوئے قرآن المجید کی مناسبت سے فرقان الحمید تجویز کیا مگر ان کے چلے جانے کے بعد گھروالے اس کے نام فرقان احمد رکھنے پر رضامند ہو گئے۔
ان کے ہاں مولوی صاحب کی بڑی عزت تھی۔ فرقان احمد کا باپ جو کپڑے کی دلالی کرتا تھا اسے یہ نام رکھنے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ جب بہن نے بتایا کہ یہ مولوی صاحب کی وضاحت کے مطابق قرآن الحکیم کی صفاتی نام بھی ہے کیوں کہ وہ سچ اور جھوٹ، حق اور باطل کی تمیز سکھاتا ہے تو سب بڑے خوش ہوئے۔
فرقان کی دوستی نیلوفر سے تیسری جماعت سے اس وقت شروع ہوئی جب وہ اس کی جماعت میں فیل ہونے کی وجہ سے بھیجی گئی۔ نیلو کو پڑھائی میں بالکل دل چسپی نہ تھی پرفرقان پڑھنے میں بھی اچھا تھا اور استاد صاحبان اسے ذہین بھی سمجھتے تھے۔صبح صبح فرقان جلدی گھر سے نکل پڑتا ایک پورا چکر لگا کر نئپیر روڈ کی اس بلڈنگ کے نیچے کھڑا ہو جاتا تھا۔ جہاں نیلوفر رہتی تھی ان بچوں کو اس گلی میں اور اس کے کوٹھوں چوباروں کے اندر جانے کی گھروالوں کی طرف سے شدید ممانعت تھی۔
ساتھ ہی اسکول جاتے اور دونوں ہنستے کھیلتے ساتھ ہی واپس آتے تھے۔ فرقان احمد اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سڑک کراس کرتے۔ یہاں سے ٹرک پورٹ کا سامان لے کر شہر کے سب سے بڑے ٹرک اڈے ماری پور پر آتے اور پھر کہیں آگے نکل جاتے۔ نیلو کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنا ایک مرحلہ ہوتا۔اس سے سامنے سے آنے والی ٹریفک کی اسپیڈ اور اپنی رفتار کی ہم آہنگی میں بڑی دشواری ہوتی۔ جب اسے فرقان گھیسٹ کر دوسری طرف لے جانے کی کوشش کرتا تو وہ عین سڑک کے درمیان رک جاتی اور ٹرک والوں کو بریک لگانا پڑتا۔ اس بات کی شکایت ایک دو دفعہ اس کے باپ کے جاننے والے دکانداروں نے کی تو فرقان نے ماں کے ذریعے باپ کو قائل کر دیا کہ لڑکی نیم نابینا ہے۔ ماں نے باپ کو سمجھایا کہ نابیناؤں کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے۔ فرقان البتہ اسے خوب ڈانٹتا کہ سالی چمگادڑ کی اولاد تیرے سے ٹھیک سے سڑک نہیں پار ہوتی ہم دونوں ایک دن دیکھنا ٹرک کے نیچے ہوں گے۔ بےنیاز نیلوفر نے جس کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اچھا ہے اگلے دن اسکول کی چھٹی ہوگی۔
بچوں میں موت کا خوف نفسیات کے حوالے سے Reversible Process یعنی آسانی سے الٹ جانیوالا عمل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے زندگی میں Stakes بڑھتے ہیں مرنے اور دنیا چھوڑنے کا خوف بڑھ جاتا ہے اس لیے دولت مند معاشرے میں موت کو بہت بڑا حادثہ یا ٹریجڈی سمجھا جاتا ہے۔
نیلو کو گھر سے چیز کھانے کے لئے ہمیشہ پیسے کم ملتے تھے۔ جب کے فرقان کے لیے یہ مسئلہ نہ تھا۔۔جیسے ہی وہ گولا گنڈا قلفی یا گڑیا کے بال candy floss خریدتا نیلو فوراً مطالبہ کرتی ’’ وے پھرکان مینوں ایک چک دے(مجھے ذرا سا چکھاؤ)
یہ چک کیا ہوتا آدھی قلفی یا گڑیا کے بال آدھے غائب ہوتے۔اسکول سے واپسی پر فرقان پہلے خود کھانا کھاتا اور پھر ماں سے ٹفن لے کر اپنے والد کی ایجنسی پر چلا جاتا جہاں اس کا بڑا بھائی اور ماموں اس کھانے کے منتظر ہوتے۔ وہ اسے ایک دو کام اور بتاتے جن کی رپورٹ اسے شام تک گھر آنے پر دینی ہوتی تھی۔یہ دو تین گھنٹے اس کی آوارگی کے ہوتے وہ سیدھا نیلو کے پاس چھپتا چھپاتا اس کے فیلٹ پر پہنچ جاتا۔
یہ وقت ان کے ہاں رقص کی تربیت حاصل کرنے کا ہوتا۔ سمراٹ جی یعنی ڈانس ماسٹر کو دیر ہو جاتی تو اس کا رول نیلو سنبھال لیتی تھی اور فرقان کو شاگرد کا رول نبھانا پڑتا تھا۔ کھیل کھیل میں فرقان بھی اچھی خاصی نرت کاری سیکھ گیا۔ کچھ مدد وی سی آر نے بھی کی۔کئی گانوں پر یہ دونوں مل کر بھی ناچتے تھے۔ سمراٹ صاحب کھبی خود بھی اسے نیلو کے ساتھ ناچنے کا کہتے اور اس کے قدموں کی جنبش اور موسیقی کے بھید بھاؤ کے سبھاؤ سمجھ پر داد دیتے تھے۔
چھٹی جماعت میں دونوں کے سیکشن بھی علیحدہ ہو گئے اور اسکول کی بلڈنگ بھی جدا تھی۔ پر ان کی رفاقت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک دن اسکول جاتے وقت جب پھر کان کی نظر نیلو کی اسکول یونی فارم کے گریباں سے جھانکتے برا کے چمکتے ہوئے کالے اسٹریپ پر پڑی تو وہ اسے گھسیٹ کر ایک گودام والی بلڈنگ کی اندھیری راہداری میں لے گیا اور چومتے ہوئے ادھر ادھر ہاتھ مار کر کہنے لگا ’’یار !نیلو تو بڑی ہو گئی ہے، دکھانا’’۔جس پر نیلو شرما گئی۔ عین ممکن تھا وہ اس کی ضد پر ان نئے اضافوں سے اسے بھی دیدار، درشن کراتی مگر بلڈنگ کے باہر سامان کا ٹرک رکا تو یہ دونوں علیحدہ ہوکر چل دیے راستے میں نیلو کہنے لگی ‘’تم بھی بڑے ہو جاؤ ہم کہیں بھاگ جائیں گے شادی کر لیں گے۔ ہمارا گھر ہوگا بچے ہوں گے۔ بچوں میں اسطرح کی باتیں عام ہوتی ہیں’’۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ جن بچوں کو عمدہ گھریلو ماحول نہیں ملتا، وہ ایسے خیالات کا جلد شکار ہو جاتے ہیں جن میں موقع ملتے ہی بلا سوچ بچار کے اپنا گھر بسانے کا خیال غالب ہوتا ہے۔ ان کا یہ احساس محرومی انہیں دامن دامن بانٹ دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خبر آئی تھی جرمنی کے سہر ہنوورکہ ایک چھ سالہ لڑکے میکا اور اس کی سات سالہ محبوبہ اینا نے وہاں کی سردیوں سے تنگ آن کر پلان بنایا کہ وہ دھوپ کے علاقے افریقہ بھاگ جائیں اور شادی کر لیں۔ انہوں نے ایک تھیلے میں اپنے سمندری غسل کا لباس، دھوپ کے چشمے اور کچھ خوراک رکھی اور اینا نے اپنی پانچ سالہ بہن ک لینا کو شادی پر گواہ بننے کے لئے ساتھ کر لیا۔ دونوں کے گھرانے جب ایک ساتھ نئے سال کی تقریبات منا رہے تھے یہ ٹرین میں جا کر بیٹھ گئے مگر اگلے اسٹیشن پر پولیس نے انہیں جالیا۔بڑی مشکل سے انہیں قائل کیا کہ ان کے منصوبے میں کوئی برائی نہیں بس وہ کچھ جلدی کر رہے ہیں۔اچھی پولیس ایسی اچھی ہوتی ہے۔
کراچی میں ایک نئی سیاسی پارٹی نے سر اٹھایا ہوا تھاجس کا سکہ رائج الوقت اور منشور سیاست، اعلانیہ دہشت گردی و تشدد تھا۔ پھر کان کے والد کو فکر ہوئی کہ باقی چار بیٹے تو بہت لگے بندھے رجحانات کے مالک ہیں مگر پھر کان میاں جن کی آمد و درفت بھی ایسے مقامات پر رہی ہے جہاں ان کے بڑوں نے کبھی قدم رکھنے کابھی نہیں تھا لہذا ان کا کچھ بندوبست کیا جائے۔ انہیں ماموں بھی ان کی ان اپنی مرضی کے خلاف اپنا داماد بنانا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے ممکن ہے یہ آمادۂ بغاوت ہوکر اپنی دوستیوں کے بل بوتے اس پارٹی سے روابط استوار کر لیں لہذا ان کی دماغی اپچ کو سامنے رکھ کر انہیں ایک ایسے کالج میں لاہور بھیج دیا جہاں رؤسا اور امرا کے بیٹے بھی آتے تھے۔ ان کے دوستی بھاولنگر کے ایک جاگیر دار گھرانے کے چشم و چراغ سے ہو گئی۔ یہ دونوں وہاں سے فارغ ہوکر لندن پڑھنے چلے گئے۔ دونوں کی دوستی بہت گہری تھی۔
لندن روانگی سے قبل اس پورے عمل میں فرقان کا قیام کراچی میں سال بھر رہا جہاں نیلو اس سے ملتی رہی اور مینا بھی اسی دوران اس کے پیٹ میں آئی۔ مینایوسف خان کے بندھن سے آزاد ہوکر کسی کی ملازمت میں نہیں داخل ہوئی تھی ۔یہی ایک سال کا قیام ایسا تھا کہ لندن جانے کا سن کر ماموں نے ضد کی کہ فرقان کا بیاہ ان کی بیٹی زینب سے ہو جائے۔ وہ بیمار رہتے ہیں۔ کم از کم ایک بچی کی خوشی تو دیکھ کر مریں۔ شادی ہوگی تو زینب کی وجہ سے فرقان وہاں لندن گوری، کالی کشمیرن، سکھنی یا ہندوانی کے چکر میں نہیں پڑےگا۔
بڑی بہن نازلی کونیلو اور فرقان کے مفت کے تعلقات پر اعتراض تھا چہ جائیکہ کہ وہ اس کا بچہ برداشت کرتی۔ نیلو کے معاملات کی وہی نگران تھی۔شوکت عزیز ان دنوں وزیر خزانہ تھے۔ اسٹاک مارکیٹ میں ان کی وجہ سے بہت اتھل پتھل تھی۔ نیلو نے جب نازلی کے اس حوالے سے کاروباری خدشات کا اظہار کیا تو فرقان نے ماموں سے پانچ لاکھ روپے لے کر اسٹاک میں لگائے۔ اسے اپنے جاگیر دار دوست کی وجہ سے سرکار تک کچھ رسائی تھی، کچھ Inside Trading بھی ہوئی۔ اس کے خریدے ہوئے پانچ لاکھ کے اسٹاک ہفتے بھر میں بیس لاکھ کے ہوئے تو اس نے بیچ دیے اور ان میں سے بارہ لاکھ یک مشت نیلوکے ہاتھ میں پیکیج ڈیل کے طور پر رکھ دیے۔نازلی کو اب کوئی اعتراض نہ تھا۔ ان کی ملاقاتیں یوسف خان کے عطا کردہ زمزمہ والے فلیٹ پر ہوتی تھیں۔
فرقان نے ماموں کو بتایا جس دن مارکیٹ کریش ہوئی اس نے اپنے شئیرز اس لیے بیچ دیے کہ سینت کر رکھنے کی صورت میں بقایا ایک لاکھ ملنا بھی ممکن نہ تھا۔ماموں کا ارادہ تھا کہ وہ اسے شادی میں سلامی پر بطور داماد ایک کار اور پاٹیک فلپ کی گھڑی دیں گے۔ اسی نقصان کو انہوں نے یاد رکھا اور سلامی میں صرف پاٹیک فلپ کی گھڑی دی۔ ایسا لگتا ہے نیلو اور زینب ایک ساتھ حاملہ ہوئیں۔ زینب نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔زینب کو جب ان دو باتوں کا علم ہوا کہ اس کا میاں اسے چھوڑ کر لندن جا رہا ہے اور اس کی یہاں ایک متوازی معشوقہ بھی ہے تو بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس میں ایک ایسی نفسیاتی بیماری کا ٹریگر دب گیا۔
یہی بیماری اس کی ماں کو بھی ایک دبے دبے نچلے لیول پر تھی اس کا نام بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔ زینب میں یہ درجہ دوم کی بیماری تھی اور والدہ میں درجہ اول کی۔ اس کے موڈز بھی بہت اوپر نیچے ہوتے تھے۔ حقیقت اسے مسخ حالت میں نظر آتی تھی۔ سب پر وہ الزامات کے طومار باندھتی تھی۔ اپنے بیٹے عفان کو وہ دھڑلے سے نیلورنڈی کا بیٹا کہتی تھی۔ ماموں یعنی سسر سے فرقان کے تعلقات مزید بہتر ہو گئے اس نے انہیں اپنی دس فیصد شراکت سے پام آئل کی امپورٹ کا لائسنس اپنے بھاولنگر والے جاگیر دار دوست کی مدد سے دلا دیا۔
وہ لندن چلا گیا تو کچھ ماہ بعد نیلو بھی دنیا کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی ۔چار برس بعدوہ لندن سے لوٹا تو آنکھوں پر موٹے موٹے چشمے، ہاتھ میں ہروقت ایک چھوٹا سا چرمی تھیلا اور پان آلودہ دانت۔ باپ سے ہٹ کر اس نے پورٹ کا کام شروع کیا اور بعد میں آبی جہازوں کی بکنگ جیسا منافع بخش کام اپنا لیا بہت دولت بھی کمائی۔
دوستوں کی محفل میں جب کبھی مجرے گرم ہوتے۔ اس وقت بھی رقاصاؤں کی موجودگی میں بھی پہلے مجرے کی فرمائش پھرکان سے ہی کی جاتی۔ لکھنؤ میں جہاں شرفاء اپنی اولاد کو تربیت اور آداب کے لئے کوٹھوں پر بھیجتے تھے۔ جب یہ طوائفیں رقص کے لئے بلائی جاتی تھیں تو شرکاء محفل میں موجود بزرگوں سے باقاعدہ اجازت طلب کرکے ناچنے کا آغاز کرتی تھیں۔ اسی لئے ان کو مجرے یعنی لفظ اجرا کی رعائیت سے کسی چیز کا جاری ہونا کہتے تھے۔فرقان احمد ایسے موقعوں پر اپنا چمڑے کا چھوٹا سا بستہ بانہوں میں لٹکا لیتا۔ منظر سوچئے تو ہنسی آتی ہے کہ ہاتھ میں ہر وقت سلگتا سگریٹ، موٹے شیشوں کی سادہ سی عینک، منہ میں تازہ پان کی گلوری اور گوروں جیسی بےداغ انگریزی۔ کسی کو پہلے پہل تو یقین نہ آتا کہ یہ درمیانہ قد کے ورزشی جسم کا مالک ایسا ناچے گا کہ پیشہ ور رنڈیاں بھی دانتوں میں انگلیاں دبا لیں گی۔ اسی کی طرح کا کوئی سیٹھ محفل کے آغاز میں اعلان کرتا کہ پھرکان بھائی، مجرا بجایا جائے۔ کچھ ردوکد کے بعد وہ کھڑا ہوتا۔ اپنی کمر پیٹی ٹائٹ کرتا اور کورنش بجاکر کہتا کھاکسار (خاکسار)کا مجرا قبول ہو۔ اس پر کوئی نہ کوئی سیٹھ کچھ نوٹ ہوا میں اچھال کر اس پر نچھاور کرتا اور رقص شروع ہو جاتا، چونکہ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ کچھ عرصہ استنبول اور بیروت میں بھی رہا تھا لہذا اس نے وہاں کی بیلی ڈانسرز کو دیکھ دیکھ کر سر پر گلاس یا شمع دان رکھ کے اور ہاتھ میں واکنگ اسٹک لہراکر ناچنا سیکھ لیا تھا جو یہاں بہت کم طوائفوں کو آتا ہے۔
ایسے کسی مجرے میں اس کی ملاقات نہ تو مینا سے ہوئی نہ نیلو سے۔ماموں کی وفات کے بعد وہ اب ان کا آئل پام کے کاروبار کا بھی نگران تھا مگر اب اس کی پارٹنر شپ کا حجم دس سے بڑھ کر ستر فیصد ہو گیا۔ کوالالمپور میں اس کا دفتر اور گھر بھی تھا کہ جہاں پاکستان سے جرائم میں مفرور چند اہم مطلوب لڑکوں کی بھی بہت آوک جادک رہتی تھی۔ایک رات ایسی ہی محفل میں اس کی ملاقات جن لڑکوں سے ہوئی وہ بتانے لگے کہ کراچی میں ڈینسو ہال کے پاس ایک کار پر فائرنگ میں کراچی کی ایک طوائف زادی ماری گئی ہے۔فائرنگ ان کی پارٹی کے لڑکوں نے پنجاب سے ملنے والی ایک بڑی سپاری (قتل کی رقم) پر کی ہے۔ اصل نشانہ تو ایک طوائف نیلو تھی مگر عین وقت پر پروگرام بدل گیا۔ وہ طوائف زادی چونکہ برقعے میں تھی لہذا لڑکوں کو پتہ نہیں چلا کہ یہ نیلو کی بجائے اس کی کزن ہے۔
معلومات فراہم کرنے والے اس کے احسانات کے زیر بار تھے انہوں نے چند دن بعد اس کے اصرار پر بتایا کہ یہ سپاری وہاڑی کے ایک ایم پی اے باسط شاہ نے دی تھی۔ نیلو اس کی بیوی تھی۔ وہ سیاست میں کامیابی کے تناظر میں اس ازدواجی بندھن کو بدنامی کا ایک طوق سمجھتا تھا۔ سیاسی عزائم بڑے تھے صوبائی اسمبلی کی ممبر شپ مل جانے کے بعد سیاست میں اگلامنصوبہ صوبائی وزیر بننے کا تھا۔
فرقان نے پاکستان جانے کے بعد نیلو کو ڈھونڈ نکالنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس سے پہلے کراچی آئی ہوئی نیلو نے میکنک اجمل خان کے ذریعے یوسف خان سے رابطہ کیا جس نے بدلہ لینے کے لیے ہفتہ کا ٹائم مانگا مگر تیسرے دن ہی چار لڑکے جو اس حملے کے ذمہ داراور ان کا ماسٹر مائنڈ لیاری میں دھوبی گھاٹ پر میانوالی کالونی کے تین لڑکوں سے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ یہ یوسف خان کا کام تھا۔
لاہور کے کسی فارم ہاؤس پر اپنے بھاؤلنگر والے دوست کی دعوت پر شرکت کی تو اس کی ملاقات باسط شاہ سے بھی ہوئی۔ فرقان نے جب مجرے کے دوران باہر نکل کر باسط شاہ کے ڈرائیور سے رابطہ کیا۔ اسے اپنے جیسا ایک جیالا ڈرایؤر کراچی خود کے لیے بھیجنے کا کہا۔ اس درخواست کے ساتھ ہی اس نے پانچ ہزار کا ایک نوٹ ڈرائیور کو تھمایا تو وہ اس کی غلامی میں آ گیا۔ اس نے نیلو کو اس کا سیل فون نمبر بھی دے دیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ باسط کی کزن جو اس کی بیوی ہے۔وہ نیلو کو طلاق دینے کے لیے بضد ہے مگر نیلو جان نہیں چھوڑ رہی اور باسط اس درک میں ہے کہ نیلو کو کراچی میں کسی طور کھڑکا دے۔
کراچی واپس آن کر اس نے باسط شاہ کو ٹھکانے لگانے کے لیے نئے سرے سے منصوبہ بندی کر دی۔ سہراب گوٹھ میں ایسا گروپ اس کے رابطے میں آ گیا جس کے جنوبی پنجاب میں دہشت گردی کے حوالے سے روابط تھے۔ نیلو کو اس نے کراچی آنے کا کہا اور بڑی خاموشی سے وہاں سے اپنی اکاؤنٹنٹ بنا کر ملائشیا بھجوا دیا۔ وہاں اب ان کی ملاقاتیں بےخوف و خطر ہوتی تھیں۔ ایک پارٹی میٹنگ میں جب باسط شاہ نے لاہور جانے کا منصوبہ بنایا تو اسے اس دہشت گرد گروپ نے اس کی روانگی کے معمولات کو سامنے رکھ کر چیچہ وطنی پر گھاس سے لدی ایک گدھا گاڑی میں بم رکھ کر بالکل ایسے مارا جیسے بہت بعد میں کراچی کے ایک بدنام ایس پی چوہدری اسلم کو اس کے راستے میں گارڈ کی مخبری پر سوزوکی میں بارودی مواد رکھ کر اڑا دیا تھا۔
نیلو کا اگلا مطالبہ اس سے باقاعدہ شادی اور مینا کے حصول کا تھا۔ پیر اکبر شاہ کی ملازمت میں اسے کل تین ماہ ہی گزرے تھے۔ مناف کے ذریعے معلومات اکھٹی کی گئیں تو اس کا ارادہ مینا کو چھوڑنے کا نہ تھا۔ یہ دشوار گزار مرحلہ تھا۔ نیلو کے لیے یہ صبر بہت جان لیوا تھا مگر فرقان ان معاملات میں رازداری اور جلد بازی سے گریزاں تھا۔ ملائشیا کے لڑکوں نے بتایا کہ اس کام کی منصوبہ بندی یوں کرتے ہیں کہ پیر اکبر شاہ کی جس مارکیٹ میں دکان ہے وہاں کے ایک ونگ کی پانچ دکانوں کو آگ لگانے کی ذمہ داری لڑکوں کی لگاتے ہیں۔انہیں معاوضہ دینا ہوگا کیوں کہ یہ کام پارٹی کی منظوری سے ہوگا۔ اس کی بلڈنگ میں ایک فلیٹ پر قبحہ خانے چلانے والے ایک گھرانے کو چھاپہ لگواکر پیر اکبر شاہ کو گرفتار بھی کرا دیتے ہیں۔ پولیس میں ہمارے بہت کارکن ہیں۔ بلڈنگ میں یہ فلیٹ اور اکبر شاہ کا فیلٹ چھاپے کے بعد سیل کرا دیتے ہیں۔
ان منصوبوں پر عمل ہوا تو مناف نے پیر اکبر شاہ کو مینا سے جان چھڑانے کا کہا ۔فرقان نے نازلی کو مینا اور نیلو سے دست برداری کے عوض یوسف خان والا زمزمہ کا فلیٹ اور پچاس لاکھ روپے نقد ادا کیے۔
دونوں نے باقاعدہ شادی کی اور وہ ملائشیا میں آباد ہو گئے۔ مینا ان دنوں سنگا پور کی ایک جامعہ میں ایڈورٹائزنگ کی ڈگری کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ گھر واپسی کی یہ کہانی یہاں ختم ہوتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.