غریب خانہ
’’تو چلی جا غریب خانے۔‘‘ ہری بلبھ گماشتہ نے جھکی ہوئی مونچھوں کے بال منہ سے نکالتے ہوئے کہا، ’’یہاں سسک سسک کر کسے دکھا رہی ہے سالی؟‘‘
’’شام تک سوچ لے۔‘‘ گماشتہ نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے مونچھیں سنبھال کردوبارہ کہا، ‘‘ تیرے باپ کی جگہ ہوں سالی۔ پتھر کے بھگوان توبھوگ مانگتے ہیں۔ ہمارا بھگوان ساری عمر کے لیے نہال کردیے ہاں!‘‘ اورجاتے جاتے ہربلبھ نے چہرے کی بناوٹ سے ہنسنے کی کوشش کی۔ کچی پکی مونچھوں میں اس کے تین کالے کالے پیلے پیلے دانت ڈگمگاتے سے نظر آئے، جیسے دھوئیں سے گھٹی ہوئی بھڑیں اپنے چھتے میں دم توڑرہی ہوں۔
کامنی کو ان سسکتی ہوئی بھڑوں میں بڑا زہرنظرآتاتھااوروہ ہری بلبھ گماشتہ کی ہنسی دیکھ کر سہم جاتی تھی۔ جب وہ باپو سے لگان کاتقاضا کرنے آتا تو یہی گھناؤنی مسکراہٹ ان گندگی گندی گالیوں کا راستہ صاف کرتی تھی جنہیں سن کرکامنی کی ماں شرم کے بوجھ سے جھک جاتی اور بابو زورزور سے کھانس کرگماشتہ کی گرجتی ہوئی آواز کودھیما کرنے کی کوشش کرتا۔ بیگار کے روزتووہ مونچھیں اوربھی جھکتیں اوربھی گرتیں اور اس کی بھڑیں کچھ زیادہ پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ دم توڑنے کی کوشش کرتیں، کیوں کہ ہری بلبھ کے ہاتھ چھتے کی جگہ لاٹھی کے ساتھ زیادہ مصروف رہتے۔
اورپھر ایک دن جب کامنی نے دیکھا کہ اس کی چھوٹی سی جھونپڑی میں اتنا بڑا خلا ہوگیا ہے جتنا کہ آسمان کی افقی وسعتوں کو سمیٹ کربھی نہ ہوسکے تواسے یوں محسوس ہواکہ وہ ٹوٹے ہوئے جالے کے ایک تار سے لٹکی ہوئی لکڑی کی طرح اس بے پایاں خلامیں لٹک رہی ہے۔ اکیلی، بے سہارا، بے آواز۔۔۔ اوراس وقت ہری بلبھ گماشتہ نے زبان گھماگھماکر اپنے منہ میں سوئی بھڑوں کوجھنجھلادیا اورکامنی کے ہاتھ میں بھگوان کے سہارے کی ڈور تھمادی۔
’’رونے سے کیا ہوگا پگلی؟ باپو گیا، میاگئی، بھیاگیا، سبھی جاتے ہیں۔ کامنی! کون رہا اورکون رہے گا؟ سدا نام بھگوان کا۔۔۔ چل تیرے باپ کی جگہ ہوں۔ سوشیل ٹھاکر کے پاس رکھوادوں گا۔ سالی پتھر کے بھگوان توبھوگ مانگتے ہیں۔ ہمارا بھگوان۔۔۔‘‘
اکیلی، بے سہارا، بے آواز کامنی نے سہارے کی ڈور کوتھام لیا۔ سوشیل ٹھاکر بھگوان تھے۔ انہوں نے کھینچا۔ ہری بلبھ گماشتہ کے بھگوان نہیں۔۔۔ آٹھ گاؤں کے سکہ بند سندیافتہ ان داتا۔ انہوں نے ڈور کوکھینچا۔ ہولے ہولے۔۔۔ تیزتیز۔۔۔ وہ دیودا سی تھی، کھنچتی آئی، آنکھیں موندے بھرم لگائے پجارن کی طرح جومن کی لو سے موہ مایاکا جال کاٹتی ہوئی بڑھتی جائے۔ مایا کا جال! آنکھوں پرپردہ ہی تو ہے، موہ کا مایا کا۔۔۔ اوربچپن میں کامنی کے کان کتنی ہی بار اینٹھے گئے تھے اور اس کی بانہوں پرشہتوت کی چھڑیاں سٹاک سٹاک برسا کرتی تھیں، جب وہ پاٹھ شالہ میں گیتا کے اشلوک بھول جایا کرتی تھی۔ پنڈت جی کی لمبی سی چھڑی ہوا میں دائرے بناکر گھوماکرتی۔ آنکھوں پرپردہ ہے مورکھ موہ کا، مایا کا۔ پردہ اٹھا اوردرشن پایا۔
پنڈت جی اونچی اونچی لے میں پڑھاتے اورپھر چھڑی ہاتھ سے رکھ کراپنی ران کھجلانے لگتے اور پوپلے منہ سے گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح گایا کرتے۔ گھونگھٹ کے پٹ کھول ری تو ہے پیاملیں گے۔۔۔ گھونگھٹ۔۔۔ ہاں رے ہاں جی۔ گھونگھٹ کے پٹ کھول ری۔
اکیلی، بے سہارا، بے آواز۔ وہ ڈورمیں مچھلی کی طرح اٹکی ہوئی جارہی تھی۔ ہنسلی کا دوسرا سرا بھگوان کے ہاتھ میں تھا۔ ہری بلبھ گماشتہ کے بھگوان۔۔۔ آٹھ گاؤں کے بھگوان۔۔۔ کامنی کے بھگوان۔ اورسارے پردے ہٹ گئے ہوں۔۔۔ کیوں کہ اس نے دیکھا توسوشیل ٹھاکر ننگے کھڑے تھے۔۔۔ بالکل ننگے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکل کرآئے ہوں۔ بڑبڑاتے ہوئے بگڑے بھینسے کی طرح ڈکارتے ہوئے اوران کے منہ سے ایک تیزتیز سڑانڈھ نکل رہی تھی جوہرسانس کے ساتھ کمرے میں منتشر ہو جاتی تھی۔ کامنی گھبرائی، تڑپی اور ایک جھٹکے سے اپنے سہارے کا پھندا توڑتاڑ کر بھاگ گئی۔
چھی چھی چھی۔۔۔ اسے گھن آرہی تھی جیسے آسمان کے کسی سوراخ سے اس نے دیوتاؤں کوگندگی کھاتے دیکھ لیا ہو اورجھونپڑی میں آتے ہی سب سے پہلے اس نے تلسی کا پودا کٹاک سے توڑڈالا اورچبوترے پررکھے ہوئے بھگوان کوہوامیں زور سے گھماکر پچھواڑے کے تالاب میں دے مارا۔ غٹ، غٹ، غٹ، تالاب میں بلبلے اٹھے اورٹوٹ گئے۔ کامنی کوسکون ساہوا کہ اب مایا کے پردے پر گدلے پانی کا ایک ایک موٹا سا غلاف بھی چڑھ گیاہے۔
’’میں نے کہا توکتیا ہے کتیا۔۔۔‘‘ ہری بلبھ گماشتہ نے لاٹھی زمین پر مار کے کہا، ‘‘ چاردن سے بھوکی بلک رہی ہے، تجھے کاٹتا ہے سوشیل ٹھاکر کا گھر؟ چل اٹھ پھر سے لگوادوں گا ہاں۔۔۔ باپ کی جگہ ہوں سالی۔‘‘
’’نہیں چاچا۔۔۔‘‘ کامنی نے منت سے کہا، ’’میں وہاں نہ جاؤں گی۔‘‘
’’توپھر کہاں جائے گی بڑی رانی؟ غریب خانے۔‘‘
’’غریب خانے۔۔۔‘‘
’’توچلی جا غریب خانے۔‘‘ ہری بلبھ گماشتہ نے جھکی ہوئی مونچھوں کے بال منہ سے نکالتے ہوئے کہا، ’’یہاں سسک سسک کرکسے دکھارہی ہے سالی؟‘‘
کامنی کوڈربھی لگااورغصہ بھی آیا۔ میں توغریب خانے جاؤں گی ہی لیکن یہ کون ہے سالی کا باپ بیچ میں آنے والا؟ اس نے سوچا۔ اورجب ہری بلبھ گماشتہ اپنے چہرے کی بناوٹ سے ہنسنے کی کوشش کرتا ہوا چلاگیا تو کامنی نے اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں بسنے والے لامحدود خلاپرایک ویران سے نظرڈالی اور کسی اندرونی ہچکچاہٹ سے مغلوب ہوکر اس نے تلسی کے ٹوٹے ہوئے پودے کوبڑے زور سے جھنجوڑا اور سوکھی ہوئی پتیوں کے ذرے ہوامیں اڑاتی ہوئی غریب خانے کی طرف چل پڑی۔
غریب خانہ پانچ کوس تھا۔ تین کوس چل کر رقمن کی کٹیا آئی۔
’’اری کمنو! کہاں چلی؟‘‘ رقمن نے بکھرے ہوئے بال سمیٹ کرپوچھا۔
’’غریب خانے۔۔۔‘‘
’’پرچی لائی؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ کیسی پرچی رُقی؟‘‘
’’اری، تونہیں جانتی؟ سوشیل ٹھاکر یونین کے سرپنچ ہیں نا؟ ان کی پرچی بناداخل کیسے ہوگی؟‘‘
’دیکھو ں گی شاید ہوجاؤں۔‘‘ کامنی نے مایوسیوں کا سیلاب دباکرکہا۔
’’ہاں بابو اچھے ہیں۔ ہوہی جاؤگی۔‘‘ رقمن نے کامنی کے گالوں پر چٹکی لے کر آنکھ ماری، ’’ذرا بال سنوارتی جانا۔‘‘ اورپھررقمن نے ایک لال لال خوبصورت کمبل کی تہہ اٹھاکرکریم کریکر بسکٹوں کا یک ڈبہ نکالا، ’’بہت تھک گئی ہو۔۔۔ لویہ بسکٹ کھالو۔‘‘
’’تیرے پاس یہ بسکٹ کہاں سے آے رقمی؟ اوریہ کمبل؟‘‘
’’پگلی! کال تو چاولوں کاہے، بسکٹ کا کال تھوڑی ہے۔‘‘ رقمن نے مسکراکردھوتی کاپلوسینے پرکرلیا، ‘‘ یہ جوسڑک بنانے والے کاتنبوہے۔ کچھ سیدھا ساتو نام ہے۔ لوتھر، ہاں ہاں لوتھرصاحب، کیا بتاؤں کمنو۔۔۔ ہائے ہائے۔۔۔‘‘ رقمن آنکھیں گھماکر اپنے ہاتھ چومنے لگی۔
خی خی خی۔۔۔ کامنی کورقمن کے بدن سے گھن آنے لگی۔ کریم کریکر کاٹکڑا اس کے منہ میں تھالی سی بن کرحلق میں چپک گیا۔ اس نے پانی کے دولمبے لمبے گھونٹ پئے اور وہاں سے چل دی۔
رقمن، کمبل، بسکٹ اور سڑک بنانے والے صاحب کا تنبو۔۔۔ وہ ان مکڑی کے جالوں میں الجھتی الجھاتی چلتی رہی اور جب غریب خانے کے گیٹ کیپر نے اسے ڈانٹ کر روکا توگویا وہ کسی گہری نیند سے جاگ اٹھی۔
’’میں پوچھتی ہوں تم کون ہو؟ کہاں منہ اٹھائے جارہی ہو؟‘‘ گیٹ کیپر چلااٹھا۔
’’میں غریب خانے میں رہو ں گی بابو۔‘‘ کامنی نے سہم کرکہا۔
’’پرچی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’توجاؤ، پرچی لاؤ، پُوَرہوس نہ ہوا، باوا کالنگرخانہ ہواکہ جوآیاسو۔۔۔‘‘
’’اماں چھوڑویار۔‘‘ گلزارحسین سقے نے کامنی کے چہرے پر نظریں گاڑکے کہا، ’’بابو تک پہنچنے دو۔ سب پرچی ورچی نکل آئے گی، یار میرے۔۔۔‘‘
’’ہاں!‘‘ بھوپن باورچی نتھنے پھلاکر بولا جیسے بگھاری ہوئی دال سونگھ رہی ہو، ‘‘ مال برا نہیں۔‘‘
’’تازہ پٹھی ہے۔‘‘ سکھومہتر نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
غریب خانے کے سپرنٹنڈنٹ نے چشمہ اتارکرکامنی کوخوب غورسے دیکھا۔۔۔ آگے پیچھے نیچے اوپر۔۔۔ اورپھر کرسی پربیٹھ کرمسکرائے، ‘‘ اوکے ڈاکٹرتم بھی ٹسٹ کرلو۔‘‘
ڈاکٹر نے بھی ٹسٹ کیا۔
’’فٹ ہے! ’’دونوں مسکرائے اورجب کامنی نے غریب خانے میں قدم رکھا تو اس کی دائیں پسلیو ں میں ڈاکٹر کے انگوٹھے کے دباؤ سے ابھی تک درد ہورہاتھا۔ پہلے اس کا جی چاہا بھاگ جائے لیکن پھر اس کی نظر بیناپر پڑی جو مٹی کا ایک گندہ سا پیالہ اٹھائے اس کی طرف بھاگتی ہوئی آرہی تھی، ‘‘ تم آگئی ہو کامنی؟‘‘ بینا کے منہ پرخوشی کا جوار بھاٹا سا آیاکیوں کہ چارمہینے پہلے وہ بھی اسی طر ح آئی تھی۔ لیکن اس کے پاس پرچی تھی جوسوشیل ٹھاکر نے دی تھی۔ بینا کے ہاتھ میں ہری بلبھ گماشتہ نے سہارے کی ایک ڈورلاکر دے دی تھی لیکن وہ ایک سیدھی سی لڑکی تھی، بے حس نہیں۔ ایک سیدھی سی عام سی لڑکی جس کے شعوری احساسات پیٹ کی ٹکرکھاکر چورہوگئے تھے۔۔۔ اورجب سہارے کی ڈور اسے کھینچتی ہوئی مجاز کے پردوں کے پیچھے لے گئی تو بچاری کوکچھ بھی عجیب نظر نہ آیا، کیوں کہ اس کے دماغ میں سوشیل ٹھاکر نے کبھی دیوتا کا روپ نہیں لیا تھا۔
’’تونے سوشیل ٹھاکر سے پرچی نامانگی کامنی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’وہ توجھٹ سے دے دیتے۔ آؤ! ادھر ہمارے پاس بیٹھو۔‘‘
کامنی کادل بیٹھاجارہا تھا۔ اسے معلوم ہوتا تھا کسی نے گردن مروڑکر اسے ایک اندھیرے غارمیں دھکیل دیا ہے جس میں بھیانک بھیانک، ڈراؤنی ڈراؤنی روحیں ایک دوسرے پرچڑھی بیٹھی ہیں۔ غریب خانے میں چارسوپچاس روحیں تھی۔ ٹیڑھی ٹیڑھی ٹانگوں و الے ہڈیوں کے ڈھانچے، سسکتے ہوئے آدمی، سوکھی ہوئی لٹکتی ہوئی چھاتیوں والی، رینگنے والی بوڑھی عورتیں جن کے بال ان کی ہڈیوں کی طرح سوکھ کر جھڑگئے تھے۔ بے شمار چھوٹے چھوٹے بچے جن کے پیٹ پھولے ہوئے تھے اور ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں۔ ان کے دلوں میں ایک نامعلوم ارتعاش تھا۔ ایک چھپی ہوئی کپکپاہٹ جوڈراؤنا خواب دیکھ کررگ رگ میں لرزنے لگتی ہے لیکن زبان پرنہیں آتی۔
ان کی معصوم آنکھوں میں ایک اچٹی ہوئی سی وحشت تھی۔ سہمی ہوئی سی ویرانیاں جوان کی زندگی کے راستے میں خون آشام بھٹیوں کی طرح دانت نکالے کھڑی تھیں۔ بچوں کودیکھ کر کامنی کا دل تڑپ اٹھا اور اس کا جی چاہاکہ وہ ان تما م معصوم مجسموں کوسمیٹ کر اپنے سینے سے لگالے اور بھینچ کرکہے، میری جان تم کائنات کی ویرانیوں میں اڑتے ہوئے آوارہ ذرے ہو، جن کو نہ زمین نگلتی ہے نہ آسمان سنبھالتا ہے۔ تم میرے سینے سے چمٹ جاؤ۔
ان کے علاوہ پورہوس میں آٹھ دس جوان عورتیں تھیں، جن کے کپڑے ذراصاف تھے۔ چہروں پر رونق، آنکھوں میں چمک۔۔۔ جیسے اجڑے ہوئے قبرستان میں کلیوں کے بوٹے اگے ہوئے ہوں۔ ان میں بینا تھی، مالو، بسنتی، رحمن، فروزاں، شامولی۔۔۔ اور ایسی ہی بدنصیب جوانیاں جن کا اجڑا ہوا حسن ان پرچڑھاوے کے پھولوں کی طرح تھا جوقبر کے سرہانے پڑے پڑے مرجھاگئے ہوں۔ شاید اس چاردیواری میں آنے سے پہلے ہی ان کوسنبھالے ہوئے آبگینے چھلک چکے تھے، شاید وہ کسی ازلی انصاف کے ترازومیں تل چکی تھیں اور قدرت کے کسی درندانہ قانون نے ان کے جسم کوچارچھٹانک چاول کی قیمت پرچکا دیاتھا۔
لیکن جب وہ غریب خانہ میں داخل ہوگئیں تو گویاان کی زندگی کے چوردروازے اپنے آپ کھل گئے اور اب ان راستوں سے نئی نئی دھوتیاں، خوشبو دارصابن کی ٹکیاں، سسکتے ہوئے رینگتے ہوئے انسانی ڈھانچوں کے حصوں سے چرائے ہوئے گلوکوز ڈی کے ڈبے، وٹامن بی کے قرص، کاڈلورآئل، سہمے ہوئے بچو ں کے منہ سے چھنی ہوئی دال، کبھی دودھ، کبھی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کی چائے، کبھی ڈاکٹر کی الماریوں کے پیچھے رکھے ہوئے مصری کے کوزے۔۔۔ ان تھکے ہوئے دروازوں پریہ چھوٹی چھوٹی عشرتیں ان کی زندگی میں داخل ہورہی تھیں اورچھوٹے چھوٹے رومان بھی۔۔۔ جو را ت کی تاریکی میں غریب خانے کی فضا پرزبردستی چھاجانے کی کوشش کرتے، جس طرح قبرستان کے احاطے میں دولہا دلہن کی برات کھڑی ہوکرباجہ بجانے لگے۔۔۔
اورشاید یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت جب سسکتے ہوئے، کراہتے ہوئے ڈھانچے زندگی کے لق دق صحرا میں آخری کنارے کا کھوج لگانے کے لیے تڑپنے لگتے اورجب ننھے ننھے بچے خواب میں اپنے مرے ہوئے ماں باپ کی جھنجھناتی ہوئی کھوپڑیاں دیکھ کر چیخ چیخ کر اٹھتے تو اس وقت یکایک سپرنٹنڈنٹ صاحب کواپنے ادھورے رجسٹر کا فارم پرکرنایادآتا اوروہ بینا کو اپنے دفتر میں بلالیتے۔ ڈاکٹر کوگلوکوزکے ڈبے، کونین کی شیشیاں الماری میں سجانے کے لیے فروزاں کی فوری ضرورت محسوس ہوتی۔ گلزارحسین سقے کے مشکیزے میں سرشام ہی چھیدہوجاتے اوربسنتی کوٹانکے لگانے کے لیے جانا ہی ہوتا۔ مالواپنا آنچل سنبھال کربھوپن باورچی کے برتن منجھواتے جاتی۔ سکھومہتر کا ٹوٹا ہوا جھاڑورحمن کے سواکوئی نہیں بناسکتاتھا اورشامولی کوغریب خانے کی حفاظت اتنی پیاری ہوتی کہ وہ آدھی آدھی رات گئے گیٹ کیپر کوہشیار کرنے جایاکرتی۔۔۔ اوراس طرح غریب خانے کی بہت سی بیناؤں، بسنتیوں اورشامولیوں نے اپنے اپنے سہارے کی لڑیاں تھام رکھی تھیں اور ان کی زندگی کے چوردروازوں سے ابلی ہوئی دال اورچاول کے ساتھ ساتھ نئی نئی دھوتیاں، صابن کی ٹکیاں اور گلوکوز ڈی کی مٹھاس بھی رس رس کرآنے لگی تھی۔
’’کیاسوچتی ہوکامنی؟‘‘ بینا نے اسے ہلاکرکہا، ’’بابوپوچھتے ہیں رجسٹر میں نام لکھوادیاتو نے؟‘‘
کامنی چونکی، سپرنٹنڈنٹ صاحب عینک ہاتھ میں لیے کھڑے تھے۔
’’کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ وہ مسکرائے، ’’داخلہ پھرہوجائے گا، بیچاری بھوکی ہے۔ لے جاؤلنگرمیں بینا، ٹائم ہوگیاہے۔‘‘
گلزارحسین سقے نے مسکراکر ایک مٹی کی تھالی اور پیالہ اسے دیا۔ کامنی کو لنگرمیں جاتے ہی ایک دھکا لگا۔ ایک مدھم سے چراغ کی روشنی میں غریب خانے کی ساری آبادی مٹی کے پیالوں اور تھالیوں پر جھکی ہوئی سپڑسپڑکھارہی تھی۔ بچوں کے غول آپس میں لڑرہے تھے اور نیم جان ہڈیوں کے ڈھانچے کسی برقی قوت سے بیدار ہوکر چیلوں کی طرح بھوپن باورچی پرجھپٹ رہے تھے۔
’’ادھرآجاؤ، اس طرف۔۔۔‘‘ بھوپن باورچی نے سراٹھاکر آواز دی اوراپنے کندھے کارومال اتارکرپاس والی جگہ جھاڑنے لگا۔
کامنی چلتے ہوئے لرزتی تھی، اس کے بدن میں چھوٹے چھوٹے سانپ سے رینگ رہے تھے۔ کبھی کسی بڑھیا کی سوکھی ہوئی چھاتی اس کے ہاتھوں سے چھوجاتی اور کبھی کوئی ہانپتا ہوا بوڑھا بے تحاشہ اس کے کندھوں پر گرکے دم سیدھا کرنے لگتا اورپھراچانک اس کے پاؤں پرجیسے ابلتا ہوا پانی گرپڑا ہو اورایک خوفناک سی بڑھیا نے اس کی ناک پکڑکر منہ پرزور سے چانٹا مارا، ’’اندھی ہے رانڈ؟‘‘ بڑھیا کڑکی، ’’دال گرادی باپ کی کتیانے۔۔۔‘‘ اورجب تک کامنی بھوپن باورچی کے پاس نہ بیٹھی، وہ بڑھیا غضبناک آنکھوں سے اس کا پیچھا کرتی رہی۔
بھوپن نے اسے بہت سے چاول دیے، بہت سی دال اور جب وہ کھاچکی تواس نے ٹوکرے کے نیچے سے دودھ کاپیالہ بڑھایا اورکہا، ’’اپنے ساتھ لے جاؤ، چپکے چپکے پی لینا۔‘‘ اورپھر گلوکوز ڈی کی ایک مٹھی بھی کاغذمیں لپیٹ کر کامنی کودی، ‘‘ یہ شکر ہے۔‘‘ بھوپن نے ہونٹوں سے چس چس کرتے ہوئے کہا، ’’ولایتی ہے ولایتی۔۔۔!‘‘ اوراپنا ہاتھ پونچھنے کے لیے کامنی کی پیٹھ پر رگڑنے گا۔
’’اری ادھرسے جا۔‘‘ بینا نے کامنی کو دھکیل کرکہا، ‘‘ کسی نے دیکھ لیاتو شورمچ جائے گا۔ یہ کلموہے کسی کوکھاتے ہوئے دیکھ کرسہارتے ہیں۔‘‘ بینا نے سپڑسپڑ کرتی ہوئی آبادی کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن کامنی کے نکلنے سے پہلے ہی بچوں کے ایک غول بیابانی نے اسے گھیرلیا اور دودھ، دودھ کے ہلے کے ساتھ اس کی ٹانگوں، بانہوں اور کندھوں سے لپٹ گئے۔ اس ریل پیل میں ایک گرتے ہوئے بڈھے نے اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کرغٹ غٹ پی لیا۔
’’حرامی۔۔۔‘‘ بھوپن پھنکارکراٹھا۔
گلزارحسین سقے نے لاٹھی پھینکی۔ سکھومہتر جھاڑو چلانے لگا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب نے لاتوں، مکوں، طمانچوں کی بارش برسائی۔
’’سور کے بچے۔۔۔ بدتمیزحرام زادے۔۔۔‘‘ سپرنٹنڈنٹ صاحب گلفشانی کرنے لگے اور پھراندھیرے میں جاکر انہوں نے کامنی کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور پچکارکربولے، ’’کچھ نہیں گوری، دودھ اوربھی بہت ہے، لے آنا اسے میرے دفتر میں۔ فارم بھی توبھرناہے۔‘‘ وہ مسکرائے۔ بینا بھی مسکرائی اورکامنی کوچاروں طرف چھائے ہوئے اندھیرے میں ایسا نظر آنے لگا جیسے وہ دونوں اس کے سامنے کھڑے کھڑے ننگے ہوگئے ہوں۔
رات کے سناٹے میں جس وقت ڈاکٹر کی الماریوں کومددگارکی ضرورت ہوئی اورگلزارحسین سقے کے مشکیزے میں چھیدنظرآنے لگے جن کوبسنتی کے سواکوئی دوسرا مرمت نہ کرسکتا تھا اورسپرنٹنڈنٹ صاحب رجسٹر کاایک نیافارم بھرنے کے لیے بے تاب ہونے لگے، اس وقت کامنی اپنے گاؤں کی پگڈنڈی کی طرف تیز تیز بھاگی جارہی تھی۔ اسے غریب خانے کی چاردیواری سے ڈرلگنے لگا تھا اوریوں نظر آتا تھا کہ بہت سے ننگے بھوت اس کے گلے میں باہیں ڈال کرناچ رہے ہیں۔ اب فطرت کی وسیع فضا میں آکر اس نے گہرا اور لمبا سانس لیا اورسوچنے لگی کہ معلو م نہیں سہارے کی ہر ڈوری کے دوسرے سرے پر ایک ننگاوحشی ساحیوان کیو ں کھڑا ہوتاہے اور یکایک وہ کسی چیز سے ٹکرائی اور منہ کے بل گرپڑی۔
’’اندھا۔۔۔‘‘ ایک آدمی تڑپ اٹھا۔ جب اس نے محسوس کیاکہ اس پرگرنے والی چیز عورت ہے تو گرج دار آواز سے گرامردرست کرکے بولا، ’’اندھی۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘ دوسرے آدمی نے لیٹے ہی لیٹے خوابیدہ آوازمیں پوچھا۔
’’چھوکری ہے۔‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔ دونوں ہاتھوں سے ٹٹول کروثوق سے کہا۔
’’لے جاؤصاحب کے تنبومیں، شام سے منہ پھلائے بیٹھا ہے سالا۔ ’’تیسرا بولا۔
صبح کے دھندلکے میں کامنی پھرفطرت کی وسیع فضا میں سانس لیتی ہوئی جارہی تھی۔ ہولے ہولے ابھرتے ہوئے سورج دیوتا کے ہونٹوں پر ایک کھسیانی سی ہنسی تھرتھرارہی تھی۔ زندگی کی شاہراہ میں سہارے کی ڈوریوں کا تانا بانا الجھا ہوا تھا اوراس میں کالے کالے، سفیدسفید، ننگے ننگے بھگوان بھولے بھٹکے راہیوں کی دست گیری کے لیے ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے۔ کامنی کے دل میں نفرت کا لاوا ابل رہا تھا۔ اسے ساری دنیا سے گھن آنے لگی۔ خی خی خی۔۔۔ فطرت کی وسیع فضا سے، سورج کی اولین ناپاک کرنوں سے، اپنے بدن کی دکھتی ہوئی رگ رگ سے، لال کمبل سے جواس کے کندھے پر جلتی ہوئی چتا کے شعلے کی طرح دہک رہاتھا۔۔۔ بسکٹوں کے ڈبے سے۔ وہ ہاتھ میں بھینچتی ہوئی جارہی تھی۔۔۔ اورجب رقمن نے اسے واپس آتے دیکھا تو وہ ہنسی، ’’آگئی نا واپس۔ میں نے کہا تھا پرچی لے جاؤ۔‘‘
پھراس نے دیکھا کہ کامنی کے پاس تولال کمبل ہے اورکریم کریکربسکٹوں کاڈبہ بھی۔ رقمن نے تڑپ کر ہاتھ منہ پررکھ لیا جیسے کامنی نے اس کے منہ پر کھینچ کے جوتی ماردی ہو۔
’’رانڈ۔‘‘ وہ نتھنے پھلاکر غصے سے چلائی، ‘‘ میرے ساتھ جل کھیلتی ہے کنجری۔۔۔ غریب خانے کانام بدنام اورجاتی ہے اپنے یارلوتھر کے پاس۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.