Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غریب لاڈلہ

شہاب اللہ خان

غریب لاڈلہ

شہاب اللہ خان

MORE BYشہاب اللہ خان

    رات کا انتظار کر تے کرتے نہ جانے کب اچانک سے آنکھ لگ گئی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے نیند سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے سبکدو ش ہو ا تھا اور سو چاتھا کہ دن میں سونا غفلت اور بے برکتی کی علامت ہے لیکن عیش وعشرت کی حرکات وسکنات سے میرا پورا جسم تھکا ن اور آلس کی وجہ سے مختلف ٹکٹروں میں بنٹ چکا تھا جس میں سے ہر ٹکڑا شیطانی وسوسہ کا متراوف تھا جو کہ مجھے بندکی گود میں ہم آغوش ہوجانے کا وسوسہ کر رہا تھا لیکن میں بھی اپنی پوری طاقت سے اس کے خلاف احتجاج اور مذمت سازی میں مبتلا تھا ہر کیف اس پنجہ آزمائی اور مقابلہ آرائی سے تھوڑا ہٹاہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قدموں میں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہے جو کہ اپنی پیشانی پر شکن اور ہونٹوں پر کیکپاہٹ لئے کچھ بولنے کی کوشش کررہا ہے جس کی حرکات وسکنات ڈرو خوف کی نشاندھی کر رہی ہیں اور آنکھیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ اگر اب نہ جاگا تو کبھی جاگنے کے لا ئق نہ رہوں گا۔ اس بوڑھے آدمی کی غیر معمولی حرکات کی وجہ جب آنکھیں کھولیں تو احساس ہو ا کہ یہ میرا باپ ہے اور مجھے آگاہ کر رہا ہے کہ بیٹا بادل سخت ہے لگتا ہے بہت تیز بارش ہونی والی جاجلدی سے کہی سے جا کر ایک ترپال کا انتظام کر لے ورنہ بارش میں بھیگ جائیں گے اور ایک وقت کے فاقہ کی بجائے دو وقت کا فاقہ کر نا پڑے گا میں یہاں پر اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے چلوں میرا نام عبدالعلیم ہے اور میرا گھر شہر ممبئی کی کسی سٹرک کے کنار ہ اور سٹرک کا کنارہ اس لئے خاص نہیں ہے کیوں کے کوئی بھی سٹرک میرے ساتھ وفانہیں کرتی ہے با مشکل ایک ہفتہ کسی سٹرک کے کنارگزر پاتا ہے پھر نہ جانے اس کے بعد ہم سٹرک پر بوجھ بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ ہمارا سامان آکر پھنک دیتے ہیں پھر ہم نئے کنارہ کی تلاش میں لگ جاتے ہیں میرے باپ کا نام عبدالرحمن ہے جن کی عمر تقریباً 70برس ہوگی وہ اپنے زمانہ میں حولداہوا کرتے تھے ایک بار ترقی کا موقع ملا تھا لیکن میری عیش وعشرت اور فضول کے خرچوں کو ی برتری دیتے ہوئے وہ گھوس نہیں دے پائے اور زندگی بھر حولدا ہی رہے اب لے دے کر کچھ رقم پینشن کے طور پر ملتی ہے جو کہ میری والدہ شفیقہ کی دوائیوں کے نذر ہوجاتی ہے میں بڑی تیزی سے ہڑبڑاتے ہوئے اٹھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر ایک وقت کا کھانا بھی ہمیں میسّرنہ ہوا تو کیسے جی پائیں گے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ خالی پیٹ اپنی ماں کو دوائی مت دینا یہ ساری چیزیں سوچتے اور اپنے ذہن کو جنبش دیتے ہوئے سٹرک کے کنارہ ایک بے کار پلا سٹک کے تکڑے کے لئے چلے جارہا تھا اور میرا ذہن میری فکر کو اُبالے درہا تھا کہ جلدی سے کچھ تلاش کر ورنہ تیری ماں اور بوڑھا باپ بھیگ جائنگے اور تیرے اوپر ایک اور داؤائی نامی ذمہ داری جڑجائے گی یہ ساری چیزیں سوچتے ہوئے سٹرک کے کنار ہ چل رہا تھا کہ اچانک سے ایک کار کا تیزی سے گذرہوا اور سٹرک پر پڑا پانی پورا میرے اوپر آگیا جس سے میر ی نیند اور کھل گئی اور میں اپنے ہدف کی طرف تیزی بڑھنے لگا تقریباً پانچ سے دس میل چلنے کے بعد ایک پلاسٹک کا ٹکڑ نظر آیا اس ٹکٹر ے کو دیکھتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسوں جھلک آئے اور سکونی لمحہ کا احساس ہوا کہ اب بارش بھی میری ایک وقت کی روزی نہیں چھین سکتی ہے اور اب میں میرے بوڑھے ماں باپ کو بارش میں بھیگنے سے بچالوں گا جیسے ہی میں اس ٹکڑے کو اٹھانے کے لئے بڑھا اچانک ایک بہت ہی تیز آواز ہوئی لگا کہ کوئی بڑا دھماگا ہوا اور آسمان گرپڑا۔ خوفناک آواز کے بعداحساس ہو اکہ یہ تو بجلی کڑکنے کی آواز تھی بہر کیف دوبارہ سے اس منظر کو سیکھ کر مجھے میرے ضعیف اور لاچار والدین کی فکر ستانے لگی اور میں بادل کے مزاج کو بھاپنے لگا مانوکہ وہ کہ رہا ہو اکہ علیم جلدی کر جلدی اپنے بوڑھے والدین کے پاس جا اب میں اور اس پانی کے بوجھ کو برادشت نہیں کرسکتا۔ خیال میں آسمان کی رحم دلی کو سوچتے سوچتے اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا ایسا لگ رہا تھا کہ کبھی سر ذمین پر سورج کی کرنوں نے قدم نہیں رکھا ہر چیزتاریک کی حکومت میں غرق تھی اس قدر اندھیرے تھا کہ دن میں بھی موڑ گاڑیوں کی لائیٹ جل رہی تھی دکاندار اور نجارت کرنے والے اپنی غلہ اور سامان کو بارش کی تابنا کی سے بچانے کی کوشش کررہے تھے اور سٹرک پر موجود لوگ بارش شروع ہونے سے پہلے اپنے گھر تک پہنچے کی کوشش کر ہے تھے پرند ے بھی اپنی ٹھکانوں اور آشیانوں پر لوٹ رہے تھے نیز اتنا آفرا تفری کا عالم تھا کہ نہ تو دکاندار کو اپنی گاہک کی قدر تھی اور نہ تو چھوٹے کو اپنے بڑے کی ہر کوئی کسی نہ کسی صورت سے اپنے مقصد اور ٹھکانے پر پہنچنے کی کوشش میں لگا تھا جس کی وجہ سے شہر میں گاڑیوں اور لوگوں کی آوازوں کا شور وغل میزید بڑھ گیا تھا۔ میں بھی اپنے راہ پر گا مزن تھا اور شہر کی اس صورت کو دیکھنے کہ بعد میرے پاؤں بھی تیز حرکت کرنے لگے تھے۔ ابھی آدھے ہی راستہ پہنچا تھا کہ اچانک آندھی شروع ہوگئی جس سے میری فکر خوف میں بدلی گئی اب میں اور تیز اپنی منزل کو بڑھنے لگالیکن جیسے ہی میں نے اپنی رفتار میں اضافہ کیا ویسے ہی آندھی بھی اپنے تیور بدلنے لگی اور مجھ سے شانہ بشانہ ہوکر چلنے لگی ایسا لگ رہا تھا کہ صرف میرے لئے ہی اس کا نزول ہوا ہے اس کمبخت دنیامیں اگر کچھ بھی ہو بس غریب ہی پریشان ہوتا ہے بڑے بابولوگ تو اپنے پکے اینٹوں والے گھروں میں بیٹھ کر بارش کو چائے کی چُسکیوں کے ساتھ انجوایئے کرتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ انجوئے کرنے کے بجائے اس سے بچنے کی تجاویز کرنے میں لگ جاتے ہیں یہ سب سوچتے سوچتے میں روڈ کے کنارے چلا جارہا تھا کچھ دیر چلنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ شور وغل ختم ہو چکا ہے اور ہر طرف ایک سکون کی چارر بچھی ہے تھوڑی دیر بعد جب نظر اٹھا کر دیکھتا ہو ں تو گویا اب لگتا ہے کہ واحد اس سر زمین پر میں باقی رھ گیا ہوں کہ نہ کوئی آدمی دیکھتا اورنہ کوئی جانور جدھر دیکھتا ہوں تاحدنگاۃ سنسان سڑک اور ساری دکان ومکان بند گویاہر چیز کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ برسوں سے انسان کا یہاں سے گذر نہیں ہوا ہے ہر چیز ویرانی اور بے ترتیب پڑی ہوئی خوفناک کے اس منظر کو دیکھتے ہوئے میں بھی خوفزدہ ہوگیا اور مجھے میری تنہائی کاٹنے کو دوڑنے لگی اس کے کچھ ہی وقفہ کے بعد بیک وقت موسلہ دھا ر بارش شروع ہوگئی اور میں آنن فانن میں بارش سے بچنے کی کوشش میں لگ گیا۔

    با مشکل ایک جگہ گھر کے برابر میں نالے کے کنارہ نصیب ہوئی ابھی بیٹھا ہی تھا کہ نالے میں بہنے والا پانی گھورنے لگا اور اس کا ساتھ طرح طرح کے مینڈک اور برساتی کیڑے دے رہے تھے وہ شاید میری موجوگی اور حالت سے گہن کھارھے تھے اور شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ دور ہٹ غریب آدمی مجھے تیری اندرے سے بو آتی ہے لیکن میں بھی بے حس بن کر ویہی بیٹھا رہا اور دیکھتارہا کہ یہ نالے بھی مجھے میری لاچارگی اور محتاجی گی کا احساس دلا سکتا ہے کہ نہیں کچھ ہی وقت گذرا تھا نالے نے بھی اپنے صبر کے باند ہ کو توڈدیا اور ساری کیچڑ میرے پاؤں میں آکر جم گئی اس کیچڑ کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے کیڑے مکوڑے بھی میرے پاؤں سے آکر چمٹ گئے اور مجھے کائٹ شروع کردیا۔ میں حیران پریشان تھا کہ اب جاؤں تو کہاجاؤں یاتو بارش کے قہر سے ہم آغوش ہوجاؤں یا ان کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاؤں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے میں اپنی تکلیف کو بیان نہیں کر سکتا تھا ایسا لگتا تھا کہ کسی نے خنجر پیرکے آرپارکیا ہو روتا بلکتا چیخیں مار تا رہا تھا اس امید سے کہ کوئی آکر مدد کردیے لیکن کوئی آتا تو اس گندی کیچڑ اور گندے آدمی کے پاس کون آتا ہر کوئی دور سے تماشا دیکھ رہا تھا اور میرے احوال کو دیکھ کر واپس ہورہا تھا کچھ لمحہ بعدجب قدر ت کو میرے حال پر ترس آیا تو ایک تیز آندھی کے جھونکے کا نزول ہوا اور میں اس کیچڑکے دلدل سے نکل کر ایک گھر کے دروازہ پر جالگا کچھ دیر یوں ہی سکتہ کے عالم میں پڑارہا جب تھوڑی دیر بعد اپنے ہدف کی یاد آئی تو سوچا اٹھ کھڑ اہوں لیکن جیسے ہی کھڑے ہونے کی کوشش کی تو دیکھا پاؤں میں تکلیف کے ساتھ پلاسٹک کے ٹکڑے اور کیچڑلگی ہیں سامنے ایک دروازہ نظر یا اور دل میں ایک مدد کی کرن اٹھی سوچاکہ دروازہ کھٹکھٹا کر تھوڑی مدد لیتا ہوں اور اپنے پیروں پر لگی گندگی کو دور کر لیتا ہوں تاکہ گندگی کے ساتھ ساتھ زخم بھی دھل جائے اور اس زخم میں سیپٹک نہ ہوں۔ ڈرتے سہمتے دروازہ نوک کرتا ہوں۔

    اندر سے آواز آتی ہے ارے کون ہے؟ شاید کہ کسی بوڑھی عورت کی آواز تھی یہ سوچتے ہوئے میں اپنی پہنچان بتا نے کی کوشش کر تا ہوں لیکن نہیں بتا پاتاہوں اتنے میں دوبارہ سے آواز آتی ہے ارے کون ہے بھئی؟ میرے منھ سے اچانک سے نکلتا ہے کہ میں ہوں۔ میں کون؟ کوئی نام نہیں ہے تمہارا کیا؟ کیاپہنچاں ہے تمہاری؟ کیا کرتے ہو؟ ارے دھوبی ہوکیا؟ میں جوابی راہ میں چل ہی رھا تھا کہ اچانک سے دروازہ کھلتا ہے اور بوڑھی آنکھیں اوپر چڑھاتے ہوئے پوچھتی ہے کیا چاہئے؟ میں پریشان حال ہوں تکلیف میں ہوں اورمیں گندا بھی ہوگیا ہو۔ مجھے تھوڑا صاف پانی چاہئے جس سے میں اپنی گندگی صاف کرسکوں میں نے ہکلا تے ہوئے کہا۔ پیچھے سے آواز آئی کملاکون ہیں دروازہ پر؟ میڈم کوئی غریب پریشان حال ہے بارش کے قہرسے بچتے بچتے گندا ہوگیا ہے۔ بوڑھی عورت نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ اندر گھسنے مت دینا ایسے لوگ پہلے کسی بہانے گھر دیکھنے آتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنے تام جہام کے ساتھ آتے ہیں اور پورا گھر لوٹ کر چلے جاتے ہیں۔ میڈم نے چلاتے ہوئے کہا کملانے اپنی میڈم کا کہا مانتے ہوں اور مجھے دہتکا رتے ہوئے جلدی سے دروازہ بند کر نے کی کوشش کی آنن فانن میں روکنا چاہے لیکن میرے روکنے کی وجہ سے دروازہ کا کھٹکا سر پر لگا میرے سر سے خون جاری ہوگیا اب میں جاؤں تو کہا جاؤ کروں تو کیا کروں یہ سوچتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میرے سر سے نکلنے والے خون کی مقدار بڑھتی جاری ہے اور جسم میں کمزوری پیدا ہوری ہیں اس حالت نزاع مجھے کچھ سمجھ نہ آیا درد کی وجہ سے ادھر ادھر ہاتھ مارے تو مٹی ہاتھ لگی اور اسی کو اللہ شافی اللہ کافی پڑھتے ہوئے لگا لی اسی کے بعد آنکھ لگ گئی اس حالت میں نے لمباوقت گذار دیا کچھ دیر بعد جب آنکھ کھولی تو احساس ہو ا کہ میں ابھی اسی جگہ ہوں۔ نالے سے آنے والی بڑے بڑے مینڈ کوں کی آواز مجھے کاٹ رہی تھی اور مجھ میرے غریب ہونے پر پچھتا وا دلا ری تھی کہ آج اگر میرے پاس اپنا گھر ہوتا تو یوں میں اتنے خوفناکی کے عالم سے نہ گذرتا اور نہ ہی قدرت کی کوئی چیز مجھے تکلیف دے پاتی دل میں دعائیں کر تے کرے ایک دو گھنٹے یوں ہی گذر گئے اب ایسا لگ رہا تھا کہ اب بارش کبھی نہ روکے گی اور مینڈکوں کی سخت ترین آواز یوں ہی آتی رہی گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایسا لگا کہ قدرت کو میرے احوال پر تھوڑا ترس آیا اور بارش نے اپنی تیزی میں کچھ کمی کر دی۔ اور پھر میں دوبارہ اپنی راہ پر چلنے لگا راستہ میں پانی بھر ے رہنے کی وجہ سے منزل بہت دور لگنے لگی ہر جگہ اتنا پانی بھر ا تھا کہ پہنچاننا مشکل ہو رہا تھا کہ یہاں گڈھا ہے یا سٹرک ہے۔ ہر طرف کیچ کان اور پانی بھر اہے بادل کھلنے سے ایسا لگ رہا تھا کہ شہر میں موجودہ لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے کوئی کسی کو ہارن بجاکر ہٹنے کو بول رہا ہے اور کوئی کسی غریب رکشہ والے کو گالی دے رہا دوبارہ سے وہی شور وغل والی کیفیت شہر میں پیدا ہورہی تھی چلتے چلتے یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا ابھی تھوڑی ہی دور پہنچا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ لوگوں کی بھڑ جمع ہے تقریباً 20-15لوگ ایک جگہ گولہ بنا کر کھڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے اجنبی لہجہ میں سوال کر رہے ہیں کہ تم جانتے ہوں دوسرا بولتا ہے معلوم نہیں ہم نے بھی آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اتنے میں ایک آواز آتی ہے کہ روکوں میں Municipalityکوفون کرتا ہوں وہ آکر خوددیکھ لیں گے۔ میں یہ سب ماجر ے کو سمجھنے کی کوشش سٹرک کے اس کنارہ سے کررہا تھا سوچا آس پاس معلوم کروں کہ کیوں بھیڑ لگی ہے لیکن اس کنارہ پر مجھے کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ آخر میں سوچا کہ چل کر خود احوال معلوم کرلیتا ہوں کہ کیاماجراء ہے پہنچتے ہی جب حالت کا جائزہ لیا تو میری روح کا نپ اٹھی پتہ چلا کہ میرے بوڑھے ماں باپ کی بارش میں ڈوبنے کی وجہ سے موت ہوگئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے