گھونگھٹ
سفید چاندنی بچھے تخت پر بگلے کے پروں سے زیادہ سفید بالوں والی دادی بالکل سنگ مرمر کا بھدا سا ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ جیسے ان کے جسم میں خون کی ایک بوند نہ ہو۔ ان کی ہلکی سرمئی آنکھوں کی پتلیوں تک پر سفیدی رینگ آئی تھی اور جب وہ اپنی بے نورآنکھیں کھولتیں تو ایسا معلوم ہوتا، سب روزن بند ہیں۔ کھڑکیاں دبیز پردوں کے پیچھے سہمی چھپی بیٹھی ہیں۔ انہیں دیکھ کر آنکھیں چوندھیانے لگتی تھیں جیسے ارد گرد پسی ہوئی چاندی کا غبار معلق ہو۔ سفید چنگاریاں سی پھوٹ رہی ہوں۔ ان کے چہرے پر پاکیزگی اور دوشیزگی کا نور تھا۔ اسّی برس کی اس کنواری کو کبھی کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
جب وہ تیرہ چودہ برس کی تھی تو بالکل پھولوں کا گچھا لگتی تھیں۔ کمر سے نیچے جھولتے ہوئے سنہری بال اور میدہ شباب رنگت۔ شباب زمانہ کی گردش نے چوس لیا صرف میدہ رہ گیا ہے۔ ان کے حسن کا ایسا شہرہ تھا کہ اماں باوا کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ ڈرتے تھے کہیں انہیں جنات نہ اڑا کے لیے جائیں کیونکہ وہ اس دھرتی کی مخلوق نہیں لگتی تھی۔
پھر ان کی منگنی ہماری اماں کے ماموں سے ہوگئی۔ جتنی دلہن گوری تھی اتنے ہی دولہا میاں سیاہ بھٹ تھے۔ رنگت کو چھوڑ کر حسن و مردانگی کا نمونہ تھے کیا ڈسی ہوئی پھٹارا آنکھیں، تلوار کی دھار جیسی کھڑی ناک اور موتیوں کو ماند کرنے والے دانت مگر اپنی رنگت کی سیاہی سے بے طرح چڑتے تھے۔
جب منگنی ہوئی تو سب نے خوب چھیڑا۔
’’ہائے دولہا ہاتھ لگائے گا تو دلہن میلی ہوجائے گی۔‘‘
’’چاند کو جانو گرہن لگ جائے گا۔‘‘
کالے میاں اس وقت سترہ برس کے خود سر بگڑے دل بچھڑے تھے۔ ان پر دلہن کے حسن کی کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ رات ہی رات جودھپور اپنے نانا کے ہاں بھاگ گئے۔ دبی زبان سے اپنے ہم عمروں سے کہا، ’’میں شادی نہیں کروں گا۔‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب چوں چرا کرنے والوں کو جوتے سے درست کر لیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ منگنی ہو جائے تو پھر توڑنے کی مجال نہیں تھی۔ ناکیں کٹ جانے کا خدشہ ہوتا تھا۔
اور پھر دلہن میں عیب کیا تھا؟ یہی کہ وہ بے انتہا حسین تھی۔ دنیا حسن کی دیوانی ہے اور آپ حسن سے نالاں، بدمزاقی کی حد۔
’’وہ مغرور ہے‘‘، دبی زبان سے کہا۔
’’کیسے معلوم ہوا؟‘‘
جب کہ کوئی ثبوت نہیں مگر حسن ظاہر ہے۔ مغرور ہوتا ہے اور کالے میاں کسی کا غرور جھیل جائیں یہ ناممکن۔ ناک پر مکھی بٹھانے کے روادار نہ تھے۔
بہت سمجھایا کہ میاں وہ تمہارے نکاح میں آنے کے بعد تمہاری ملکیت ہوگی۔ تمہارے حکم سے دن کو رات اور رات کو دن کہے گی۔ جدھر بٹھاؤگے بیٹھے گی اٹھاؤگے اٹھے گی۔
کچھ جوتے بھی پڑے اور آخر کار کالے میاں کو پکڑ بلایا گیا اور شادی کردی گئی۔
ڈومنیوں نے کوئی گیت گادیا۔ کچھ گوری دلہن اور کالے دولہا کا۔ اس پر کالے میاں پھنپھنا اٹھے۔ اوپر سے کسی نے چبھتا ہوا ایک سہرا پڑھ دیا۔ پھر تو بالکل ہی الف ہوگئے۔ مگر کسی نے ان کے طنطنہ کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ مذاق ہی سمجھے رہے اور چھیڑتے رہے۔
دولہا میاں شمشیر برہنہ بنے جب دلہن کے کمرے میں پہنچے تو لال لال چمکدار پھولوں میں الجھی سلجھی دلہن دیکھ کر پسینے چھوٹ گئے۔ اس کے سفید ریشمی ہاتھ دیکھ کر خون سوار ہوگیا۔ جی چاہا اپنی سیاہی اس سفیدی میں ایسی گھوٹ ڈالیں کہ امتیاز ہی ختم ہو جائے۔
کانپتے ہاتھوں سے گھونگھٹ اٹھانے لگے تو وہ دلہن بالکل اوندھی ہوگئی۔
’’اچھا تم خود ہی گھونگھٹ اٹھا دو۔‘‘
دلہن اور نیچے جھک گئی۔
’’ہم کہتے ہیں۔ گھونگھٹ اٹھاؤ‘‘، ڈپٹ کر بولے۔
دلہن بالکل گیند بن گئی۔
’’اچھا جی اتنا غرور!‘‘ دولہا نے جوتے اتار کر بغل میں دبائے اور پائیں باغ والی کھڑکی سے کود کر سیدھے اسٹیشن، پھر جودھ پور۔
اس زمانے میں طلاق ولاق کا فیشن نہیں چلا تھا۔ شادی ہو جاتی تھی۔ تو بس ہو ہی جاتی تھی۔ کالے میاں سات برس گھر سے غائب رہے۔ دلہن سسرال اور میکہ کے درمیان معلق رہیں۔ ماں کو روپیہ پیسہ بھیجتے رہے۔ گھر کی عورتوں کو پتہ تھا کہ دلہن ان چھوئی رہ گئی۔ ہوتے ہوتے مردوں تک بات پہنچی۔ کالے میاں سے پوچھ گچھ کی گئی۔
’’وہ مغرور ہے۔‘‘
’’کیسے معلوم؟‘‘
’’ہم نے کہا گھونگٹ اٹھاؤ، نہیں سنا۔‘‘
’’عجب گاؤدی ہو، اماں کہیں دلہن خود گھونگٹ اٹھاتی ہے۔ تم نے اٹھایا ہوتا۔‘‘
’’ہرگز نہیں، میں نے قسم کھائی ہے۔ وہ خود گھونگھٹ نہیں اٹھائے گی تو چولہے میں جائے۔‘‘
’’اماں عجب نامرد ہو۔ دلہن سے گھونگھٹ اٹھانے کو کہتے ہو۔ پھر کہو گے وہ آگے بھی پیش قدمی کرے اجی لا حول و لا قوۃ۔‘‘
گوری بی کے ماں باپ اکلوتی بیٹی کے غم میں گھننے لگے۔ بچی میں کیا عیب تھا کہ دولہا نے ہاتھ نہ لگایا۔ ایسا اندھیر تو نہ دیکھا، نہ سنا۔
کالے میاں نے اپنی مردانگی کے ثبوت میں رنڈی بازی، لونڈے بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی غرض کوئی بازی نہ چھوڑی اور گوری بی گھونگھٹ میں سلگتی رہیں۔
نانی اماں کی حالت خراب ہوئی تو سات برس بعد کالے میاں گھر لوٹے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر پھر بیوی سے ان کا ملاپ کرانے کی کوشش کی گئی۔ پھر سے گوری بی دلہن بنائی گئیں۔ مگر کالے میاں نے کہہ دیا، ’’اپنی ماں کی قسم کھا چکا ہوں گھونگھٹ میں نہیں اٹھاؤں گا۔‘‘
سب نے گوری بی کو سمجھایا۔ دیکھو بنو ساری عمر کا بھگتان ہے۔ شرم و حیا کو رکھو طاق میں اور جی کڑا کر کے تم آپ ہی گھونگٹ اٹھا دینا۔ اس میں کچھ بے شرمی نہیں وہ تمہارا شوہر ہے۔ خدائے مجازی ہے۔ اس کی فرمانبرداری تمہارا فرض ہے۔ تمہاری نجات اس کا حکم ماننے ہی میں ہے۔‘‘
’’پھر سے دلہن سجی سیج سجائی پلاؤ زردہ پکا اور دولہا میاں دلہن کے کمرے میں دھکیلے گئے۔ گوری بی اب اکیس برس کی نوخیز حسینہ تھیں۔ انگ انگ سے جوانی پھوٹ رہی تھی۔ آنکھیں بوجھل تھیں۔ سانسیں بھری تھیں۔ سات برس انہوں نے اسی گھڑی کے خواب دیکھ کر گزارے تھے۔ ہم سن لڑکیوں نے بیسیوں راز بتاکر دل کو دھڑکنا سکھا دیا تھا۔ دلہن کے حناآلودہ ہاتھ پیر دیکھ کر کالے میاں کے سر پر جن منڈلانے لگے۔ ان کے سامنے ان کی دلہن رکھی تھی۔ چودہ برس کی کچی کلی نہیں ایک مکمل گلدستہ رال ٹپکنے لگی۔ آج ضرور دن اور رات کو مل کر سرمگیں شام کا سماں بندھے گا۔ ان کا تجربہ کار جسم شکاری چیتے کی طرح منہ زور ہو رہا تھا۔ انہوں نے اب تک دلہن کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ بدکاریوں میں بھی اس رس بھری دلہن کا تصور دل پر آرے چلاتا رہا تھا۔
’’گھونگٹ اٹھاؤ‘‘، انہوں نے لرزتی ہوئی آواز میں حکم دیا۔
دلہن کی چھنگلی بھی نہ ہلی۔
’’گھونگٹ اٹھاؤ‘‘، انہوں نے بری لجاجت سے رونی آواز میں کہا۔
سکوت طاری ہے۔
’’اگر میرا حکم نہیں مانوگی تو پھر منہ نہیں دکھاؤں گا۔‘‘
دلہن ٹس سے مس نہ ہوئی۔
کالے میاں نے گھونسہ مار کر کھڑکی کھولی اور پائیں باغ میں کود گئے۔
اس رات کے گئے وہ پھر واپس نہ لوٹے۔
ان چھوئی گوری بی تیس سال تک ان کا انتظار کرتی رہیں۔ سب مرکھپ گئے۔ ایک بوڑھی خالہ کے ساتھ فتح پور سیکری میں رہتی تھیں کہ سناؤنی آئی دولہا آئے ہیں۔
دولہا میاں موریوں میں لوٹ پیٹ کر امراض کا پلندہ بنے آخری دم وطن لوٹے۔ دم توڑنے سے پہلے انہوں نے التجا کی کہ گوری بی سے کہو آجاؤ کہ دم نکل جائے۔
گوری بی کھنبہ سے ماتھا ٹکائے کھڑی رہیں۔ پھر انہوں نے صندوق کھول کر اپنا تار تار شہانہ جوڑا نکالا۔ آدھے سفید سر میں سہاگ کا تیل ڈالا اور گھونگٹ سنبھالتی لب دم مریض کے سرہانہ پہنچیں۔
’’گھونگٹ اٹھاؤ‘‘، کالے میاں نے نزع کے عالم میں سسکی بھری۔
گوری بی کے لرزتے ہوئے ہاتھ گھونگٹ تک اٹھے اور نیچے گر گئے۔
کالے میاں دم توڑ چکے تھے۔
انہوں نے وہیں اکڑوں بیٹھ کر پلنگ کے پائے پر چوڑیاں توڑیں اور گھونگٹ کی بجائے سر پر رنڈاپے کا سفید دوپٹہ کھینچ لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.