Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلاس

MORE BYپیغام آفاقی

    ایک دن وہ آفس میں آکر اطمینان سے بیٹھا تو اسے پیاس کا احساس ہوا۔ اس نے سامنے رکھے گلاس کا پانی پی لیا اور پھر چپراسی سے ایک گلاس پانی لانے کے لئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سکریٹری مانسی بھی آئی تھی جو میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی۔ مانسی کی نظر قلمدان پر لگے ایک قلم پر بیٹھے ایک پیلے رنگ کے اڑنے والے کیڑے پر پڑی۔ مانسی اس کو اڑانے کے بہانے انگلی سے چھونے لگی۔ ’’اس کو انگلی سے نہ چھوؤ، یہ کاٹ لےگا۔ زہریلا ہوتا ہے۔‘‘ اس نے مانسی کو منع کیا اور پھر اس نے ایک قلم کی نوک سے اس کیڑے کو چھیڑا۔

    کیڑا اڑنے کے بجائے قلمدان سے اتر کر میز کے شیشے پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ کچھ دور چلنے کے بعد وہ اڑ گیا لیکن اس کے بعد وہ دوبارہ شیشے پر ہی آکر بیٹھ گیا۔

    اتنی دیر میں چپراسی پانی لے کر آ گیا۔ اس نے پانی کا ایک گھونٹ اور پیا اور ابھی پیاس باقی ہی تھی کہ پانی پینے کے دوران وہ کیڑا اڑ کر ٹھیک اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ایک وقفے کے بعد ادھر ادھر چلنے لگا۔ اس نے کیڑے کو شیشے کے گلاس سے دبایا کہ وہ اس میں دب کر مر جائے لیکن وہ گلاس کے پیندے کی خالی جگہ میں صرف قید ہو کر رہ گیا۔ یہ گلاس بھی عجیب انداز کا تھا کہ اس کے پیندے میں گھونٹ بھر پانی کے برابر جگہ تھی۔ اب اس کیڑے کے پاؤں کے نیچے میز کا شیشہ تھا اور اوپر گلاس۔ وہ اس کیڑے کو دیکھنے لگا۔ بار بار اس کا جی چاہتا تھا کہ گلاس اٹھا کر پانی پی لے لیکن وہ گلاس نہیں اٹھا پا رہا تھا کیونکہ اس کیڑے کی قید و بند کی کیفیت کو دیکھ کر اسے خود اپنے اندر ایک عجیب سا درد محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ موازنہ کرنے لگا۔

    ‘وہ طبعی پیاس جس کو مٹانے کے لئے وہ گلاس میں رکھے پانی کو پینا چاہتا تھا وہ زیادہ طاقتور ہے یا اذیت میں مبتلا کیڑے کو دیکھنے کی لذت جس کو وہ بہت گہرائی سے محسوس کر رہا تھا۔’

    ان لمحوں میں گلاس میں رکھا پانی اس کے لئے زندگی کے اجنبی نظام کے نقوش کو واضح کر رہا تھا اس لئے وہ چاہتا تھا کہ وہ کیڑے کو تب تک آزاد نہ کرے جب تک اس پر گزر رہی کیفیت اس مکمل علامت کو کھول نہ دے جو اتفاقاً اس وقت اس کے سامنے نمودار ہوئی تھی۔ وہ اس کیڑے کی اس کیفیت کو، اس کے امید و بیم کے اس تناؤ کو کہ وہ اس قید سے نکل پائےگا یا نہیں اور اس کے اندر موجود بےیقینی کو گہرائی سے محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر وہ کون سی بات ہے جو اس کی اپنی پیاس سے بھی زیادہ اہم ہے اور جو اس کو گلاس نہیں اٹھانے دے رہی ہے۔ اب تک جو اس کا خیال تھا کہ خیال کمزور اور دکھائی دینے والی چیزیں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور اس نے جو گذشتہ دنوں کسی اخبار کے کالم میں پڑھا تھا کہ یاد یں اور ناسٹلجیا تاریخ اور جغرافیہ سے زیادہ با معنی نہیں ہوتیں یہ بات غلط ثابت ہو رہی تھی اور وہ اس مشاہدے کے دوران یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ انسان اندر اندر اس کائنات کی چیزوں اور انسانوں سے جو رابطہ محسوس کرتا ہے وہ حقیقی اور کافی مضبوط ہوتا ہے۔ گلاس اب بھی سامنے تھا اور اس کے نیچے کیڑا چل رہا تھا۔ قید اس کیڑے کو جیسے بھیا نک لگ رہی تھی۔ وہ نکلنے کے لئے تیزی سے دوڑ بھاگ کر رہا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ چکا تھا کہ ‘اگر یہ سب کچھ ایسا ہی رہا تو اس کی زندگی کو باقی رکھنے کے ذ رائع منقطع ہو جائیں گے۔‘

    ‘وہ پریشان کیوں ہے؟؟‘ وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جس طرح یہ قید اچانک آ گئی ہے اسی طرح یہ اچانک ختم بھی ہو جائےگی۔ لیکن وہ کیسے جانے کہ یہ ختم ہو بھی جائےگی؟ اگر نہیں ختم ہوئی تو یہ جو قید تھی وہ مستقل قید کی صورت میں تو اس کی موت بن کر آئی ہے۔ ‘وہ شیشے کے باہر جھانکتا رہا۔ چاروں طرف وہی سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ وہی قلمدان، وہی چھت، وہی پنکھے، وہی الماریاں، وہی پردے۔ وہی کلنڈر، وہی میز پر پڑا ہوا پلاسٹک کے پھولوں کا گلدان، وہی کھڑکیاں جن سے باہر درختوں کی پتیاں دکھائی دے رہی تھیں اور وہی لڑکی جو اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی اور وہی شخص جو سامنے کرسی پر بیٹھا تھا اور جس کے چہرے پر رحم کا شائبہ تک نہیں تھا۔ جو بار بار گلاس کو دیکھتا تھا اور پھر اس کو دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ میں ڈوب جاتا تھا۔ وہ دیکھتا رہا اور شیشے کے اندر ہی اندر چکر لگاتا رہا۔

    اسے بار بار دھوکا ہوتا کہ وہ جدھر بڑھ رہا ہے ادھر کھلی ہوا ہے اور کچھ اور نہیں ہے لیکن جیسے ہی وہ بڑھتا ویسے ہی آگے ٹکرا جاتا۔ اور تب اسے لگتا کہ وہ خالی دکھنے والی سمت تو کوئی ٹکرا جانے والی شے تھی جو اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن جو وہاں مضبوطی سے موجود تھی۔ اور پھر اسے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی تمام چیزوں پر شک ہو جاتا کہ ہو نہ ہو ہر طرف ویسا ہی کوئی ٹکرا جانے والا منظر ہو یا چیز ہو یا حد یں ہوں۔ اس شخص کی پھیلائی ہوئی جو اسے دیکھ رہا تھا۔ اس خیال کے آنے کے بعد تو اس نے ایک جگہ باقاعدہ اپنی ٹانگیں اٹھا کر اس دیوار سے زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور پھر وہاں سے چلا اور دوسری جگہ پر زور آزمائی کی اور پھر کئی جگہوں پر کی اور پھر جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس سے کوئی راستہ نکلتا ہے نہ اس محنت سے اس کے ذ ہن میں کوئی نیا سوال پیدا ہوکر کوئی اور تد بیر دکھاتا ہے تو اس نے یہ محنت بند کر دی۔ اب وہ یونہی کھڑا ہو کر سوچنے لگا گویا سوچنے سے کوئی فائدہ تھا اور پھر چکر لگانے لگا۔ اس بار وہ صرف چلتا رہا۔ دیوار کے سہارے، دیوار کو چھو چھو کر اور دیوار کے کنارے کنارے کہ جہاں دیوار ختم ہوتی ہے اس کا اس کو اندازہ ہو جائے اور پھر اس نے دیکھا کہ پورا گلاس آگے کھسک رہا ہے اور پیچھے سے شیشہ اس سے ٹکرایا تو وہ آگے بڑھا اور اس کی ایک ٹانگ اس شیشے میں دب کر ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔

    دراصل وہ کیڑے کی صورتحال میں کچھ مزید جہات کا اضافہ کرنے کے لئے گلاس کو کھسکا رہا تھا۔ اب کیڑا اس سمت کو بڑھنے لگا جس سمت میں گلاس اسے دھکا لگا رہا تھا۔ چلتے چلتے ایک جگہ دھکے کی رفتار کچھ کم ہوئی اور دوبارہ پھر تیز ہو گئی۔ وہ چاروں طرف اور اوپر کی جا نب نگاہیں گھما کر اور اپنے جسم کو بچا بچا کر دیکھتا رہا کہ یہ سب کچھ جا کدھر رہا تھا کہ وہ اس کے مطابق ہی چل سکے اور جب اس کے جانے کی سمت کا اس کو کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی خود اعتمادی کچھ کچھ بحال ہوئی اور چلتے چلتے جب سب کچھ تھما تو وہ بھی تھم گیا۔ اب وہ نئے امکانات کی تلاش میں ادھر ادھر جھانکنے لگا اور جب جھانکتے جھانکتے تھک گیا تو ایک کنارے کھڑا ہو گیا۔ اور تب اس نے دیکھا کہ اب وہ لڑکی اس آدمی کو انگلی کے اشارے سے بتا رہی تھی کہ کہ اب وہ تھم گیا ہے۔ پھر جیسے دونوں اس کے تھم جانے کی اس حرکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کا تھم جانا اتنا معنی خیز تھا یہ اسے معلوم ہی نہ تھا۔ اور پھر وہ ایک کونے میں کھڑا حیرت سے اس شخص کو دیکھتا رہا جو اب کچھ لکھ رہا تھا۔

    اسے اپنے اوپر کچھ لکھے جانے میں ہزاروں اسرار دکھائی دینے لگے۔ وہ شخص بار بار اسے اور اس کے اوپر کے گلاس کو دیکھے جا رہا تھا اور لکھے جا رہا تھا۔ اتنی ہی دیر میں اس کے لئے چائے بھی آ گئی۔ لیکن وہ چائے پینے کے بجائے لکھتا ہی رہا حتی کہ چائے ٹھنڈی ہو کر شاید خراب ہو گئی کیونکہ لڑکی نے کچھ دیر بعد اپنے سامنے کی پیالی سے چائے پینی شروع کر دی اور جلد ہی خالی کر کے ایک طرف رکھ بھی دی۔ کیڑے کو یہ بات بہت پریشان کر رہی تھی کہ وہ شخص کیا سوچ رہا تھا۔ نہ جانے اب اس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ اتنی دیر میں وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ جب تک وہ اس گلاس میں ہے تب تک محفوظ ہے۔ ایک جگہ اسے شیشے میں اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے اور اپنے پیلے پیلے پنکھوں کا عکس دکھائی دیا تو اسے صاف صاف معلوم ہوا کی وہ شیشوں میں قید ہے۔

    مانسی کی متجسس نظروں کو اپنے چہرے پر تھامے ہوئے اور قلم ہاتھ میں لئے ہوئے وہ اس کیڑے کو مسلسل دیکھ رہا تھا اور تب اسے محسوس ہوا جیسے ایک روح اس شیشے کے قید خانے میں گھری ہوئی لاچار نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی اور وجود کے عناصر سے نبرد آزما تھی کہ کس طرح اس میں آزادی کی سوراخ کھود سکے اور عناصر تھے کہ اپنی جگہ سخت، بےحس اور بےجان تھے اور پھر بھی اس کو گھیرے ہونے میں پورا پورا انہیں کا رول تھا اور اس رول میں وہ مستعد تھے۔ جامد اور خاموش، لب سلے ہوئے۔ جیسے کہتے نہ ہوں لیکن جانتے ہوں کہ صرف وہی شخس ان کو اٹھا سکتا ہے جو سامنے بیٹھا ہوا ہے اور اس روح کو اگر کسی کی تلاش ہے، اگر وہ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرنا چاہتی ہے کہ وہ کتنی شقی القلب ہے اور کیسے اس میں نرمی آئے گی تو وہ یہ جان لے کہ یہ چیز خود اس شخص کی اپنی روح تھی جو سامنے بیٹھا تھا۔

    وہ تحریر کر چکا تھا: میں تمہیں اس وجہ سے آزاد نہیں کر رہا ہوں کہ تم متحرک ہو اور میں مردہ ہوں۔ تم مجھے اپنی کوششوں کو دیکھتے دیکھتے ان کے زیر اثر متحرک ہو جانے دو۔ اپنی مایوسیوں کے مواد سے میرے اوپر جو موٹی موٹی پرتیں جم گئی ہیں انہیں پگھل جانے دو کہ میں بھی ان سے آزاد ہو کر تمہاری طرح متحرک ہو جاؤں، ان دیواروں کے خلاف، ان دیواروں کے روبرو جو دیواریں مجھے گھیرے ہوئی ہیں کہ مجھے بھی تو تمہاری ہی طرح کسی نے زمین وآسمان کے بیچ ڈال دیا ہے۔ تم چاہتے ہو کہ میرا دل پسیج جائے اور میں تم کو چھوڑ دوں۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔

    میں تمہیں اس شیشے میں گھرا ہوا رکھ کر، تمھارا دم گھٹاکر، ترسا ترسا کر اور تمہاری کوششوں کو بےمعنی ثابت کرتے ہوئے تمہیں اسی میں ختم کر دوں گا اور اس میں سے صرف تمہاری بےجان لاش نکلےگی۔

    تم سمجھتے ہو کہ یہ گلاس میں نے تمہارے اوپر رکھا ہے؟ یہ تو محض اتفاق کی بات تھی کہ تم یہاں گرے اور اس وقت میں پانی پی رہا تھا اور میں نے تمہارے اوپر یہ گلاس تم کو مار ڈالنے کے لئے رکھا تھا لیکن تم مرنے کے بجائے اس میں قید ہو گئے۔ یہ میری منشا نہیں تھی۔ یہ تو یونہی ہو گیا اور تمہارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یونہی ہو رہا ہے اور تم اس ہو جانے میں قید ہو۔ اس نے کیڑے کی ان بڑی بڑی آنکھوں سے جو اس لمحے ٹھہر کر اسی کو دیکھ رہی تھیں، نظریں ملائیں۔ اگر میرا خاتمہ قید میں ہو سکتا ہے تو تمہارا خاتمہ قید میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس کے چہرے پر پاگلوں جیسا تاثر ابھرا۔ کیڑا بچارہ کسی بکری کے بچے کی طرح معصومیت سے دیکھ رہا تھا، اس امید میں کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اب اس کی مدد کرےگا۔

    اس نے چاہا کہ وہ کیڑے کو مار دے لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ اس کے لئے اسے گلاس کو اٹھانا پڑتا اور گلاس کو اٹھاتے ہی کیڑا اڑ سکتا تھا۔ میں تمہیں اس گلاس کے نیچے ہی چھوڑوں گا جب تک تم مر نہ جاؤ۔ اسے محسوس ہوا کہ اس نے کیڑے کے نام موت لکھ دی ہے لیکن موت اس کے ہاتھ میں بھی نہیں تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ اس کی دی ہوئی موت کیسے ہے جبکہ وہ کیڑے کو مار نہیں سکتا۔ وہ کیڑا اب اس کی طرف سے نا امید ہو کر منھ پھیر چکا تھا اور از سر نو دیواروں کے معائنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ اسے اپنے خدائی کا زعم مسمار ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اگر وہ گلاس کو اٹھاتا ہے تو کیڑا اڑ جائےگا۔ اگر گلاس کو یونہی چھوڑ کر چلا جائے تو چپراسی ٹیبل کو صاف کرتے وقت گلاس اٹھائےگا اور کیڑا اڑ جائےگا۔ وہ گلاس کو اسی طرح چھوڑے رہنے کا حکم بھی نہیں دے سکتا کہ لوگ اسے اس کے دماغ کا خلل سمجھیں گے۔

    کیڑا بار بار گلاس کے شیشے کے اوپر کسی سرکش مکڑے کی طرح پاؤں پھینک کر کھڑا ہوتا رہا اور زور پر زور لگا تا رہا۔ اس نے عاجز آکر پانی سے بھرا گلاس پینے کے لئے اٹھا لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے