گرفت
نالی میں کچرا جمع ہو گیا تھا۔
اس جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ہر شخص اپنے گھر کا کچرا گھر کے سامنے ہی پھینک دیتا ہے یا نالی میں بہا دیتا ہے۔ گھر کے باہر خواہ کتنی ہی گندگی کیوں نہ ہو گھر صاف رہنا چاہیے۔ کہنے کو تو یہ مہذب لوگوں کا علاقہ ہے پھر بھی مسئلہ یہ تھا کہ نالی میں کچرا جمع ہو گیا تھا اور اس کا پانی اب سڑک پر آیا ہی چاہتا تھا۔ میں نے اس کام کے لیے ایک موٹا سا ڈنڈا رکھ چھوڑا ہے۔ جب بھی کبھی نالی میں کچرا جمع ہو جاتا ہے، میں اس سے نالے کو صاف کرتا ہوں اور پھنسے ہوئے کچرے کو باہر نکالتا ہوں، دو چار بالٹی پانی بہاتا ہوں اور اس طرح نالی صاف ہو جاتی ہے۔
دراصل اس علاقے میں ہر شخص کو اپنا مسئلہ خود ہی حل کرنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی یہ علاقہ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا ہے۔ ستر، پچھتر پلاٹوں کی اس کالونی میں ابھی مشکل سے بیس پچیس گھر بن پائے ہیں۔ ان میں سے کچھ ادھورے ہیں، چند ایک کی صرف بنیاد پڑی ہے، کافی حصہ میدان کی شکل میں خالی پڑا ہے اور لوگوں کی رہ گزر کا کام دیتا ہے۔ گرمی میں تو پورا میدان موسم سرما کے آسمان کی طرح صاف نظر آتا ہے لیکن برسات کے آتے ہی جگہ جگہ خود رو پودے اگ آتے ہیں اور آنے جانے کے لیے ایک چھوٹی سی پگڈنڈی بچ رہتی ہے۔ اس پگڈنڈی کے دونوں طرف آس پاس کے غیرمہذب لوگ گندگی بکھیرتے رہتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اس لیے اس کا حل ڈھونڈنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔
وہ برسات ہی کے دن تھے۔ میں دونوں طرف کی جھاڑیوں سے خود کو بچاتا ہوا پگڈنڈی پر گامزن تھا کہ سامنے سے ایک سیاہ رنگ کی گائے آتی دکھائی دی۔ اس کی آنکھیں بڑی چمکیلی اور سینگ لمبے اور نوکیلے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ گائے سے کیا ڈرنا، گائے تو بڑی سیدھی ہوتی ہے اور کتابوں میں بھی یہی پڑھا ہے کہ گائے ماں کی طرح ہوتی ہے۔مگر یہ میری خوش فہمی تھی۔ میں نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر اسے آگے بڑھنے کے لیے ذرا سا راستہ دیا مگر بجائے راہ راست پر چلنے کے اس نے اپنا رخ میری جانب کیا اور اس سے قبل کہ میں سنبھلتا اس نے اپنے نویلے سینگوں سے میرے سینے پر وار کر دیا اور میں جھاڑیوں میں بکھری گندگی پر چاروں شانے چت گر پڑا۔ مجھے زمین بوس کرنے کے بعد جیسے اس کا مقصد پورا ہو گیا اور وہ پگڈنڈی پر آگے بڑھتی چلی گئی۔
اس روز مجھے زندگی کا ایک بڑا تجربہ حاصل ہوا۔۔۔ اہنسا کی علامت خود ہنسا کر سکتی ہے اور یہ کہ جو جیسا نظر آتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اندر سے بھی ویسا ہی ہو۔ چنانچہ خود نگہ داری ایک ایسا اصول ہے جسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
بات چھوٹی سی تھی اور ہر بات مسئلہ بھی نہیں بن پاتی مگر نالی میں کچرے کا جمع ہو جانا واقعی ایک مسئلہ تھا کیونکہ اس سے پانی اوپر چڑھ آتا ہے اور سڑک پر بہنے لگتا ہے جس سے پڑوسیوں کو ایک موقع مل جاتا ہے اور میں اپنے پڑوسیوں کو کوئی موقع دینا نہیں چاہتا۔ دراصل میں جس جگہ پر رہتا ہوں وہاں اجتماعیت کا فقدان ہے۔ کوئی بھی کام متفقہ طور پر اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتا۔ البتہ ایک وقت ایسا آیا تھا جب اجتماعیت کا احساس ویا گہری نیند سے بیدار ہو کر ہم سبھوں کی رگ رگ میں سرایت کر گیا تھا۔ حالانکہ موسم سردی کا تھا مگر ہر جگہ کا ماحول گرم تھا۔ عدم تحفظ کا احساس۔۔۔ جان لیوا احساس کسی عفریت کی طرح ہمارے سروں پر سوار ہو گیا تھا اور شک کی پر چھائیں ہر چہرے پر سایہ کیے ہوئے تھی۔ ہنگامے کی ابتدا بازار میں لگائے گئے سیاہ پرچموں سے ہوئی۔ یہ ایک خاموش احتجاج تھا مگر شام کے سات بجتے بجتے یہ خبر جنگل کی آگ بن گئی کہ شہر میں ہنگامہ ہو گیا ہے۔ ہم سب گویا اس خبر کے پہلے ہی سے منتظر تھے کہ اس خبر کا منظر نامہ سالہا سال سے تیار ہو رہا تھا۔ دوسرا دن طلوع ہوا۔ حالات اب تک گرفت میں تھے لیکن جو آگ بھڑک چکی تھی وہ اپنے اندر صدیوں کی تپش اور جلن کو چھپائے ہوئی تھی، بھلا اتنی جلدی کیسے بجھتی۔ بات بگڑی تو پھر بگڑتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ پورا شہر کرفیو کی زد میں آ گیا۔ مگر حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ شام ہوتے ہی بم کے دھماکے سناٹے کو پارہ پارہ کر دیتے۔ کئی معصوم لوگوں کی جان لینے کے بعد حالات جب معمول پر آئے تو سبھی لوگ سر جوڑ کر بیٹھے، مشورے ہوئے، پہرہ کمیٹی بنائی گئی اور دس دس آدمیوں کی ٹکری باری باری سے پہرہ دینے پر مامور ہوئی اور تب ہم اپنے ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے تھامے اور کپڑوں میں ہتھیار چھپائے رات رات بھر پہرہ دینے لگے۔ ہم اپنے محلے کی آخری حد تک جاتے، زمین پر زور زور سے ڈنڈے بجاتے، کبھی اسے کسی پول سے ٹکراتے۔ ڈنڈے کی آواز رات کی خاموشی کو چیرتی ہوئی دور تک چلی جاتی ۔ہمیں یہ احساس تھا کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ’’وہ‘‘ بھی جاگ رہے ہیں اور اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے کہ ہم۔ یہ احساس ہمارے دلوں میں طمانیت بھر دیتا۔ ہم وہاں سے لوٹتے اور پھر ایک جگہ جمع ہو کر اپنے اپنے دلوں کو کھول کر بیٹھ جاتے۔ ہر شخص اپنے خول سے باہر نکل آتا۔ ایک دوسرے کے مسائل کو سنا جاتا۔ ان پر سنجیدگی سے بحث ہوتی اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی۔
پھر وقت بدلا۔ موسم گرم اور ماحول ٹھنڈا ہوتا گیا۔ زندگی اپنی پرانی راہ پر آ لگی اور یہ مسئلہ گرچہ اپنی جگہ برقرار رہا مگر اب اس میں وہ شدت نہیں رہی تھی۔ کچھ لوگوں کی نظر میں تو اب یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا تھا مگر نالی میں کچرے کا جمع ہو جانا واقعی ایک مسئلہ تھا کیونکہ اس سے پانی او پر چڑھ آتا ہے اور سڑک پر بہنے لگتا ہے جس سے پڑوسیوں کو ایک موقع مل جاتا ہے اور میں انہیں کوئی موقع دینا نہیں چاہتا کیونکہ ایک تاریک شب کو جب پانی نالی سے نکل کر سڑک پر بہہ رہا تھا تو میرا ایک پڑوسی اس میں پھسل کر گر پڑا۔ اس نے چیخ چیخ کر سبھی لوگوں کو جمع کر لیا۔ یہ ایک اجتماعی مسئلہ تھا۔ آج وہ گرا تھا کل کوئی دوسرا بھی گر سکتا تھا۔ چنانچہ سبھوں نے مل کر مجھ سے کہا کہ میں پابندی کے ساتھ اپنی نالی کی صفائی کرتا رہوں تاکہ نالی کا پانی سڑک پر نہ بہے۔ لہذا جیسے ہی نالی میں کچرا جمع ہونے لگتا ہے میں ہاتھوں میں ڈنڈا لے کر اس کی صفائی میں لگ جاتا ہوں اور اس سے پہلے کہ انی سڑک پر بہنے لگے میں اس کے لیے راستہ بنا دیتا ہوں۔
مگر آج ایک عجیب بات ہوئی۔ میں ڈنٖڈے کو نالی میں گھسیڑ کر کچرا نکالنے میں مشغول تھا کہ سامنے سے وہی گائے آتی دکھائی دی۔۔۔ سیاہ رنگ کی۔۔۔ جس کی آنکھیں چمکدار اور سینگ نوکیلے تھے۔ اس کی نگاہیں مجھ پر ایسے ٹکی ہوئی تھیں جیسے کسی شکاری کی شکار پر۔ وہ دھیرے دھیرے میری جانب بڑھتی چلی آ رہی تھی۔۔۔ اطمینان کے ساتھ۔۔۔ جگالی کرتے ہوئے۔ میں اپنے گھر کی دیوار سے چپک گیا۔ اب گائے مجھ سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔
اچانک۔۔۔
اچانک ایک احساس میرے رگ وپے میں سرایت کر گیا۔۔۔ ایک طاقتور احساس۔ مجھے جاڑے کی وہ سرد راتیں یاد آ گئیں جب ہمارے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوا کرتے تھے اور ہم بڑی بے خوفی کے ساتھ سڑکوں پر گشت کرتے پھرتے۔ اس وقت بھی میں نہتا نہیں تھا۔میرے ہاتھ میں ایک ڈنڈاتھا۔ میں نے ڈنڈے کو زور سے زمین پر پٹکتے ہوئے گائے کی آنکھوں میں جھانکا۔
گائے سیدھے راستے پر آگے بڑھتی چلی گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.