Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گورکن

راجہ یوسف

گورکن

راجہ یوسف

MORE BYراجہ یوسف

    زندہ ون گاؤں کے بیچوں بیچ حیات ندی بہہ رہی تھی۔ ندی کا پانی زندہ ون گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے لئے آبِ حیات سے کچھ کم نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑی جھرنوں کا شفاف اور جھلملاتا پانی بل کھاتا گاؤں میں پہنچ جاتا تھا اور یہاں اس چشمے کے پانی میں مل جاتا تھا جو گاؤں کے متبرک اور تیرتھ استھاپن ’’ناگہ راد‘‘ میں ابلتا تھا۔ جہاں سے حیات ندی جنم لیتی تھی۔ ’’ناگہ راد‘‘ تمام دھرموں اور مذاہب کا تیرتھ اور مقدس مقام تھا۔ یہاں ایک طرف شیوجی کا پرانا مندر اور دوسری جانب میاں احمد صاحب کی زیارت گاہ تھی۔ بعد میں جدید طرز کا گوردوارہ بھی بنا گیا تھا۔ چشمے کے شفاف پانی سے میاں احمدصاحب کے مزار پر آنے والے زائرین وضو کرتے تھے اور مندر میں جانے والے یاتری اشنان۔ گاؤں کے سبھی لوگ خوشحال تھے۔ پریشان بس محمدرمضان تھا۔۔۔

    محمدرمضان زندہ ون گاؤں کا واحد گورکن جس کے پاس نہ کھیتی تھی اور نہ کوئی دوسرا کام۔ اس کے گھر میں اس کی بیوی کتج کے علاوہ ماں زون دید، دو چھوٹے بچے عبدال سلام اور سونی تھے۔ گذارے کا انحصار گاؤں والوں کی مہربانی پر تھا۔ مردوں کو دفنانے کا کام محمدرمضان کے ذمہ تھا۔ جب کہ کوئی عورت مر جاتی تھی تو اسے زون دید ہی نہلاتی تھی اور کفن پہناتی تھی۔ پہلے پہل جب کوئی گاؤں میں مر جاتا تھا تو محمد رمضان کے گھر میں عید ہوتی تھی۔ پندراہ دن تک تعزیتی کھانا گھر میں آ جاتا تھا۔ چوتھے پندریویں اور چالیسویں پر تو وازہ وان سے بھری ترامی ان کے ہاں پہنچ جاتی تھی۔ سبھی گھر والے مزہ لے لے کر رستہ، گوشتابہ اور کباب کھاتے تھے۔ جب ذیلدار کے گھر کا کوئی مر جاتا تھا تو اس کی برسی پر وازہ وان کے ساتھ ساتھ کچھ کپڑا، لٹھا اور نقدی بھی آجاتی تھی۔ زون دید اور کتج کے پاس مری ہوئی عورتوں کے کئی جوڑے کپڑے پڑے تھے۔ کبھی کوئی دیالو عورت مر جاتی تو اس کی گلٹ، تانبے یا پیتل کے جھمکے اور چوڑیاں بھی مل جاتی تھیں۔ وصیت کرتی تو اس کا قیمتی سوٹ اور چاندی کا چھلہ بھی مل جاتا تھا جبکہ مر دوں اور بچوں کے کپڑے محمد رمضان اور عبدال سلام کے حصے میں آجاتے تھے۔۔۔

    لیکن اب وقت بدل رہا تھا۔ زندہ ون کے گلاب لوگ اڑوس پڑوس کے ببول شہروں میں آنے جانے لگے۔ جہاں کسی طرح ان کے گلشن ذہنوں میں کیکر کے بیج ڈالے گئے جو یہاں کی پھلواریوں میں آہستہ آہستہ جڑیں پھیلانے لگے تھے۔ اب یہاں بھی لوگ اپنے ہی بارے میں سوچنے لگے تھے۔ اقربا پروری بڑھ رہی تھی۔ غریب پروری مفقود ہورہی تھی۔ ہاتھ پھیلانے والوں کو دھتکارا جا رہا تھا۔ نذرو نیاز، خیرات پر طرح طرح کے فتوے لگ رہے تھے۔ ’’ناگہ راد‘‘ جیسی متبرک جگہ پر قبضے کی سوچ بڑھنے لگی تھی۔ اب اگر کوئی مر بھی جاتا تھا تو لوگ زیادہ دنوں تک یاد نہیں رکھتے تھے۔ محمدرمضان کا حال دن بدن برا ہو رہا تھا۔ مردے کو دفنانے کے بعد اس کے ہاتھ پر سو دو سو روپے رکھ کر ٹرخایا جاتا تھا۔ چوتھے اور چالیسویں پر کھانا آنا بھی بند ہو گیا تھا۔ ایسے میں اب محمد رمضان کو خود ہی برتن لے کر لوگوں کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ جہاں سے اکثر وہ خالی ہاتھ ہی لوٹ آتا تھا۔ ایسے وقت پر زون دید اور کتج کی آنکھوں میں غصے اور نفرت کے آنسوں آ جاتے تھے اور بچوں کے چہروں پر یاس اور ناامیدی کا سوکھا پن جم جاتا تھا۔

    کئی دنوں سے سونی بیمار تھی۔ بخار سے برا حال تھا۔ محمد رمضان نے حکیم صاحب کے گھر کے گرد کئی چکر کاٹے مگر خالی ہاتھ ہونے کے سبب اندر جانے کی ہمت نہیں پڑرہی تھی۔پچھلی سردیوں میں جب زون دید کو کھانسی ہو گئی تھی تو اس کی دوائی کے پیسے ابھی تک حکیم صاحب کو نہیں دیئے تھے۔ کتج نے میاں احمد صاحب کے آستانے سے مٹی لائی تھی جس کا لیپ سونی کے ماتھے پر سوکھ بھی چکا تھا۔ مگر سونی کا بخار اتر نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آنکھ بچاکر شیو جی کے مندر سے دھول بھی اٹھا لائی تھی پر کوئی افاقہ نہ ہوا اور یوں بنا علاج کے ایک دن سونی بخار کے ہتھے چڑھ ہی گئی۔

    سونی کی موت نے جیسے زون دید کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ کتج گم سم رہنے لگی تھی۔ عبدل سلام ڈرا ڈرا اور سہما سہما لگ رہا تھا۔ محمدرمضان بے چین اور پریشان تھا۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو دیر سے لوٹتا تھا۔ زون دید خاموش لیکن مایوس نگاہوں سے بیٹے کو تکتی رہتی تھی۔ آخر ایک شام کچھ زیادہ ہی دیر سے گھر آکر محمدرمضانہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    ’’ماں میں یہ گاؤں چھوڑ کر شہر جا رہا ہوں۔ وہاں کوئی کام کروں گا۔ مزدوری کرکے کچھ کمالوں گا۔ یہ اپنی بےسرو سامانی اور تم لوگوں کی فاقہ کشی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ عبدل سلام دن بدن کمزور ہو رہا ہے کہیں سونی کی طرح۔۔۔‘‘ اس کے آگے محمد رمضان کچھ کہہ نہ سکا۔ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ کتج نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ وہ بھی شوہر کے ساتھ شہر جانا چاہتی تھی۔ شہر میں کچھ کام کرکے اپنے میاں کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی۔ زون دید کی خشک آنکھیں تر ہو گئیں۔

    محمد رمضان تیاریوں میں جٹ گیا تو زون دید زیادہ پریشان ہو گئی۔ وہ محمد رمضان کی منت سماجت کرنے لگی۔ گھر چھوڑ کر نہ جانے کے لئے ہاتھ جوڑنے لگی مگر محمد رمضان کے سامنے گھر کی افلاس کسی اژدرکی طرح پھن پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ زون دید کے پاؤں پڑا۔ اس کے ہاتھ چومے۔ وہ ماں کو بھی اپنے ساتھ شہر لے جانا چاہتا تھا لیکن زون دیدنے اس کی ایک نہ مانی۔۔۔ آج شام کے دھندلکے میں جب محمد رمضان اپنی بیوی اور بچے کو لیکر جانے لگا تو اچانک زون دید کی خشک آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے۔ ان آنکھوں کا پانی حیات ندی کے آب حیات سے بھی زیادہ متبرک، شفاف اور پاکیزہ تھا۔ اس نے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ جب اس کی نگاہیں لوٹ کر آ گئیں تو محمد رمضان اور کتج نے اس کی آنکھوں میں شعلے دیکھے، تپش دیکھی، نفرت سے بھراجوش و جلال دیکھا۔ وہ ایک عزم کے ساتھ اٹھی۔ قبر کھودنے والا پھاؤڑا اٹھایا اور قبرستان کی طرف بڑھنے لگی۔ محمد رمضان اور کتج بھی اس کے پیچھے پیچھے حیران و پریشان قبرستان پہنچے۔ زون دید قبرستان کے بیچوں بیچ حنظل کے پیڑ کے قریب کھڑی ہو گئی۔ محمد رمضان نے آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں تو اسے لگا پورا ’’ناگ راد‘‘ اندھیرے میں ڈوب رہا ہے۔ ماحول میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہو رہی ہے۔ اچانک بجلیاں کڑکنے لگیں، زور زور سے آندھیاں چلنے لگیں اور کچھ ہی پل میں بوندا باندی شروع ہو گئی۔ زون دید نے ایک نظر اپنے بیٹے محمد رمضان پر ڈالی، پھر آسمان کی طرف د یکھا۔۔۔ پھاؤڑا اٹھا کرسر سے بلند کیا اور پوری طاقت کے ساتھ حنظل کے درخت کے تنے پر دے مارا۔ پھاؤڑے کا تیز دھار والا پھل درخت کے سینے میں اندر تک گھس گیا۔۔۔ پھر جیسے ‘’ناگ راد’‘ میں چھپے بیٹھے سارے حشرات الارض جاگ گئے ہوں۔ جیسے میاں احمدؔ صاحب کے مزار کی ساری چادریں ہوا میں اڑ نے لگی ہوں۔ روحیں آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہوں۔ جیسے شیوجی کے مندر کی ساری گھنٹیاں ایک ساتھ بج اٹھی ہوں۔ ترشول آسمان کو چھید رہے ہوں۔ محمد رمضان ماں کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ چلا رہا تھا۔

    ‘’نہیں ماں نہیں۔۔۔ ایسا مت کر و ماں’‘ محمدرمضان دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ زون دید ہاتھ اٹھایئے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے سر کی چادر ہوا میں اڑ گئی تھی۔ الجھے سفید بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اب بارش تیز ہو گئی تھی۔ محمد رمضان بڑی مشکل سے زون دید کو گود میں اٹھا کر گھر لایا۔ کتج اور عبدال سلام بھی اندر آ گئے۔ وہ سارے بھیگ چکے تھے۔ محمدرمضان نے زون دید کو ایک پھٹی چادر پر لٹا دیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی، اس کا سینہ دھونکنی کی طرح اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ محمد رمضان نے ماں کا سر اپنی گود میں لے لیا اور اس کے الجھے بالوں میں انگلیا پھرنے لگا۔ کتج ساس کے پیر سہلا رہی تھی تو عبدل سلام نے دادی کا ہاتھ اپنے ننھے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ زون دید کی اترتی چڑھتی سانسوں میں ٹھہراؤ سا آ گیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ حسرت سے بیٹے کو دیکھا پھر بہو اور پوتے کو دیکھا۔ یاس اور ناامیدی اس کے چہرے کو مرجھا چکی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ بادلوں کی گھن گرج میں کتج کی چیخیں دب کر رہ گئیں۔

    زون دیدکی موت کوئی بڑا حادثہ یا کوئی تاریخی واقعہ نہ تھا، جو وہ حالات بدلنے کا سبب بنتی۔ شاید حالات کو بدلنا ہوتا ہے اور ایسے کئی واقعات ایک ساتھ مل جاتے ہیں، جو تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔ یا کبھی ایسے حالات بنائے جاتے ہیں جس سے پوری انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ یہ انسان ہی تو ہے جس نے ماحول میں تعصب کا زہر گھول دیا ہے۔ انسان کو انسان کے خلاف اکسانے کا ایسا نشہ اگایا ہے جس کا اثر صدیوں تک زائل ہونے کے آثارہی نہیں لگ رہے ہیں۔ پھر اس زہریلی ہوا سے زندہ ون کی صاف و شفاف فضا کیسے بچ پاتی۔

    یہاں کے برف سے ڈھکے پہاڑ جیسے اچانک آتش فشان بن گئے۔ ‘’ناگ راد‘‘ کے سُوتے نفرت اور تعصب کے فوارے ابلنے لگے۔ حیات ندی کا شفاف پانی سرخ ہو گیا۔ زندہ ون جیسے مرگ ون میں بدل گیا۔ مرغزار قبرستان بن گئے۔ روز ایک دو تین یہاں تک کہ کھبی کھبی دس بارہ لوگ مر نے لگے۔ سرسبز اور شاداب ’’ناگہ راد‘‘ تیزی کے ساتھ کیکروں کا جنگل بن رہا تھا۔

    محمدرمضان کے گھر پراب بھیڑ لگی رہتی ہے۔ دن تو دن رات کو بھی اس کے دروازے پر مرنے والوں کے رشتہ دار اور احباب منت سماجت کرتے رہتے ہیں۔ وہ قبریں کھود کر رکھنے لگا۔اور اپنی مرضی کی قیمت بھی وصول کر رہا ہے۔ اب وہ کسی کے چوتھے چالیسویں یا برسی پر کسی کے گھر نہیں جاتا ہے۔ نہ کھانا لانے والوں کو گھر آنے دیتا ہے۔ اس کے گھر میں ہر روز اچھے اچھے پکوان بنتے ہیں۔ کتج اورعبدال سلام کے لئے کپڑے بازار سے آتے ہیں۔

    گھر میں عیش و آرام کی ساری چیزیں تو آ گئیں لیکن زون دید اور سونی کی کسمپرسی والی موت یہ لوگ نہیں بھول پا رہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے حنظل کے پیڑ سے پھاوڈا نکالنے کی طرف ان کا ظن نہیں جا رہا ہے۔ جو ابھی بھی کسی مقدس نشانی کی طرح لٹک رہا ہے اور حنظل کی پیٹھ سے گاڑھا گاڑھا سبز مواد رس رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے