Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گوشت کا نوحہ

MORE BYکالندی چرن پانیگراہی

    جالی اور ڈورا بچپن کے ساتھی ہیں۔ ایک دوسرے سے پل بھر کے لیے جدا رہنا وہ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ جالی ایک بار بیمار ہو گئی، ڈورا رات بھر اس کی تیمارداری کرتا رہا۔ ساری ڈانٹ پھٹکار ناکام ہو گئی، آخر اس جگہ اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا پڑا۔ ایک بار ڈورا کا پیر زخمی ہو گیا تھا۔ جالی بخوبی واقف ہے کہ ڈورا لامحدود قوت کا حامل ہے لیکن سمجھ نہیں سکتا کہ اسے ایک ہی مقام پر اتنے دن اسیر کیوں رہنا پڑا۔ وہ منہ سے اس کا پیر چھوکر یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی کہ تکلیف کہاں ہے۔

    ڈورا ایک انگریزی گرے ہاؤنڈ ہے اور جالی ایک پہاڑی ہرنی۔ ڈورا مشہور شہر لندن سے آیا ہے اور اڑیسہ کے گھنے جنگل جالی کی جائے پیدائش ہیں۔ ڈورا ہر طرح گوشت خور اور جالی خالصتاً سبز ی خور ہے لیکن بہت چھوٹی عمرمیں ہی دونوں میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔

    ڈورا کی بیماری دور کرنے کی غرض سے جالی اس کے بدن کو چاٹ چاٹ کر تیمارداری کرنے لگی۔ آخرکار ڈورا قدرے صحت یاب ہوکر آہستہ آہستہ چلنے پھرنے لگا۔ اس کے بعد بسنت رت آئی، پھولوں کی مہک پھیلی تو دونوں دوست جنوب کی سمت ادھر ادھر دوڑ کر کھیلنے کودنے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ مسرت کی یہ لہر جس جانب سے بہتی آ رہی ہے، اس پراسرار ملک کو دونوں مل کر ایک لمحے میں تلاش کر لیں گے۔ دونوں کے دوڑنے کے انداز میں جہاں ایک خاص فرق ہے، وہیں ایک فنکارانہ حسن بھی ہے۔ ڈورا دوڑتا ہے تو زمین پر ایک لمبی لکیر سی کھنچ جاتی ہے۔ اس وقت اس کی آنکھ، کان، پیر، منہ وغیرہ کی شناخت ممکن نہیں۔ لیکن جالی کا انداز خرام مختلف ہے۔ وہ تو پیرس ڈانس کرتی ہے۔ اس کے پیر زمین پر نہیں پڑتے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے وہ محض ہوا میں تیرتے ہوئے رقص کر رہی ہو۔

    دونوں جانور زمیندار بابو کو بہت عزیز تھے۔ ولایت سے درآمد ہونے کے باعث اس کا انگریزی نام ڈورا رکھا گیا تھا۔ چونکہ جالی اس کو بےحد عزیز تھی، اس لیے اسی زبان کے ایک دوسرے نام سے اسے بھی منسوب کر دیا گیا۔ دن بھر کے کام کاج اور تکان کے بعد زمیندار بابو جب کچہری کے سامنے کے بڑے میدان میں شام کو ٹہلنے کے لیے نکلتے تو یہ دونوں جانور ان کے مصاحب کی حیثیت سے ساتھ ہوتے اور ان کے سامنے اچھل کود کر ان کی تکان میں جس بشاشت کی آمیزش کرتے تھے، وہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ شکار کے کام میں ڈورا کی کچھ ضرورت پڑتی ہے لیکن جالی قطعاً غیرکارآمد ہے۔ بایں ہمہ زمیندار بابو کی مصروف زندگی میں جالی کی قدرے اہمیت ہے کیونکہ وہ ان کی تفریح کا سرچشمہ ہے۔

    جب زمیندار بابو گوشت کے لیے نکلتے تو جالی ہاتھ چاٹ چاٹ کر پیروں سے لپٹی ہوئی چلتی۔ ڈورا اگر کبھی پیچھے رہ جاتا تو تیر کی طرح آکر ان کے سامنے اگلے پیر ملاکر بیٹھ جاتا اور دم ہلاتا، کبھی ان کے دونو ں پیروں کے درمیان گھس کر ان کی رفتار کو سست کر دیتا۔ اگر کوئی دوسرا کتا جالی کو للچائی نگاہ سے دیکھتا تو جالی خوفزدہ ہوکر بابو کے دونوں پیروں کے درمیان کسی بھی طرح ٹھیل دھکیل کر گھس جاتی۔ ڈورا سمجھ جاتا اور فی الفور آمادہ پیکار نظر آنے لگتا۔ دوسرے کتے پیٹھ دکھاکر لجاجت کے ساتھ غائب ہو جاتے کیوں کہ وہ ڈورا کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور ڈورا کو اپنے مرتبے کا لحاظ دوسروں سے بدر جہاز یادہ تھا کیونکہ اگر کوئی پیٹھ دکھا جاتا تو وہ اس کا تعاقب کرکے سطحیت کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔

    زمیندار بابو نے رائے پور میں تعلیم پائی ہے۔ خاصے جدید خیالات کے آدمی ہیں۔ گفتگو میٹھی ہوتی ہے اور آداب محفل سے خوب واقف ہیں۔ ہم وطنوں کے نزدیک آتے تو کرتی اور چادر میں خالص دیسی نظر آتے، غیرملکیوں میں بالکل صاحب معلوم ہوتے۔ تعطیلات میں بڑے بڑے صاحب زمیندار کے ہاں مہمان ہوتے۔ ان لوگوں کے لیے عمدہ انتظامات سے آراستہ ایک مہمان خانہ بھی بنا ہوا ہے۔ محض جالی اور ڈورا ہی ان کے پالتو جانور نہ تھے، ان کے علا وہ بھی متعدد چڑیاں، بندر، ریچھ، مچھلی وغیرہ ان کے گھر میں پلے ہوئے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زمیندار کا محل ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی تھا۔

    لیکن ڈورا اور جالی ان کے مصاحب خاص تھے۔ بالخصوص ان کی پیاری اکلوتی بیٹی جالی اور ڈورا کی عزیزترین دوست تھی۔ تقریباً ہمیشہ وہ ان دونوں کو ساتھ رکھتی تھی۔ جب وہ باغیچے میں آیا کی زیر نگرانی ملائم گھاس توڑتی، جالی بھانپ لیتی اور اپنا منہ اس کے پاس لے جاتی۔ ڈورا دوڑا آتا اور اپنی ننھی مالکن کے پاس اچھل کود میں مصروف ہو جاتا، پیار کے انداز دکھاتا اور ننھی مالکن، توکاٹے گا، تو کاٹےگا، کہتی ہوئی گھاس اس کے منہ میں ٹھونس دیتی۔ وہ بےالتفاتی نہ برتتا اور گھاس منہ میں لے کر اپنی فرماں برداری کا اظہار کرتا۔ برآمدے کی آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے زمیندار کی طبیعت اس تماشے کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی۔

    خواہ زمیندار بابو انگریزوں کے ساتھ کتناہی اٹھیں بیٹھیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے تئیں بےرخی یا تنفر کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی حاکم کی ان کے ہاں آمد پر اس کی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جاتا۔ رعیت میں سے بھی تعلیم یافتہ، معزز لوگوں کے سامنے مناسب عزت کا برتاؤ روا رکھتے تھے۔ اس کے باوجود رائے عامہ ان کے طرزبود و باش کے موافق نہ تھی۔ معمر لوگ اوباش اور مذہب کامخالف کہتے تھے اور بعض انہیں فضول خرچ اور رعایا کش سمجھتے تھے۔ لوگوں کی نگاہوں میں ان کا خاص جرم یہ تھا کہ وہ غیر ملکیوں سے رابطہ رکھتے تھے اور انہیں کے مطابق رہن سہن کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے خورد و نوش اور پوشاک وغیرہ میں غیرملکی چھاپ بہت گہری تھی۔ ان تمام باتوں میں جس توازن کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے بےنیاز تھے۔

    پولیس کے ڈی آئی جی نے زمیندار کو لکھا ہے کہ وہ اس بار تعطیلات سرما میں شکار کے لیے ان کے یہاں آئیں گے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ، لڑکا اور لڑکی بھی ہوں گے۔ ڈی آئی جی سے زمیندار کی پرانی دوستی ہے۔ اس بار پھر بیوی اور بچے بھی آ رہے ہیں۔ چار دن پہلے سے مہمان خانے کی صفائی اور انتظامات ہونے لگے اور جس مقام پر ہرن اور پرندوں وغیرہ کا شکار ہونے والا تھا، وہاں خیمے وغیرہ نصب کیے جانے لگے۔ ضروری اشیا کی خریداری کے لیے کچھ لوگوں کوکٹک بھیجا گیا۔ نوکر چاکر کارندے وغیرہ بڑے جوش وخروش سے انتظام میں مصروف ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کسی کو دم لینے کی فرصت نہیں ہے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی پیٹھ پیچھے زمیندار کو مغلظات سے خوب نوازا گیا۔

    صاحب کے آنے کا وقت ہوا تو ان کے استقبال کے لیے زمیندار بابو کچھ دور تک موٹر سے گئے۔ صاحب وقت معینہ پر آ گئے۔ ان کی بیوی، بیٹی وغیرہ سے مل کر زمیندار بابوجی کا خوش ہو گیا۔ آج کل زمیندار کے محل میں بڑی ہلچل ہے۔ کسی کو ایک منٹ کی فرصت نہیں ہے۔ سب دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ میزبانوں سے یہ طے ہوا کہ ا ٓج مہمان خانے میں استراحت فرمائیں، کل صبح کے کھانے سے فراغت پاکر سب شکار کے لیے چل دیں گے۔

    گھنے جنگل میں جائے شکار، زمیندار محل سے بارہ چودہ میل دور ہے۔ کوئی گھر گاؤں وغیرہ آس پاس نہیں ہے۔ نوکر، خانساماں، بیگار کرنے والے وغیرہ پہلے ہی سامان کے ساتھ جا چکے ہیں۔ ان کے پیچھے صاحب کا خاندان، زمیندار بابو، صاحب کے دو شکاری کتے نیز زمیندار بابو کے ڈورا اور جالی موٹرمیں روانہ ہوئے۔ جالی کی موجودگی بے مقصد ہوتے ہوئے بھی لازمی تھی کیونکہ ڈورا اس کے بغیر کہیں نہیں رہ سکتا، خواہ آپ اسے کہیں بھی لے جائیں، موقع پاتے ہی وہ جالی کے پاس پہنچ جائےگا۔ مجبوراً جالی کو بھی ساتھ لینا پڑتا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ننھی مالکن سے اجازت طلب کرنی پڑی۔ ان کا فرمان ہے کہ ڈورا اور جالی کو دو دن سے زیادہ باہر نہ رکھا جائے۔

    لیکن میری کرسمس MERRY CHRISMASS کی پر مسرت اور پرجوش تقریبات میں وقت کس طرح گزرا کہ پتہ ہی نہ چل سکا۔ شکار کی جگہ قیام کا پانچواں دن۔ اس جنگلی مقام پر صاحب کی ضرورت کی ہر شئے اس طرح فراہم کر دی جاتی ہے کہ انہیں دشواری تو کجا، شہر کی پر شور اور پرہنگامہ زندگی کے مقابلے میں جنگل کا قیام زیادہ پرطمانیت اور فرحت بخش معلوم ہو رہا ہے، اسی لیے دو دنوں کے ارادے سے آئے اور آج پانچواں دن ہو رہا ہے۔ صاحب کو واپسی کی فکر نہیں لیکن آج تمام سامان ختم ہو گیا ہے۔ کل صبح لوٹنا ہی پڑےگا۔

    دوپہر کا کھانا کھاکر صاحب کے ساتھ زمیندار بابو بھی شکار کے لیے نکل پڑے۔ سابقہ چار دنوں میں صاحب کے بیوی بچوں نے کھیل تماشے، ناچ گانے وغیرہ کاپورا پورا لطف اٹھایا ہے۔ آج وہ شکار میں ساتھ نہیں دے سکے۔ بےچارے نوکر چاکر بلی کاایک بچہ بھی نہ مارنے کے باوجود شکار میں معاونت کرتے ہوئے تھک کر چور چور ہو گئے ہیں پھر بھی ان میں سے دو تین لوگوں کو جانا پڑا۔ چڑیاں مارنے میں ایک دو بار نشانہ خطا ہونے کے باعث مزید نشانہ بازی ناممکن ہو گئی۔ چڑیوں کو دو بارہ بیٹھنے کا موقع دینے کے لیے نیز اس وقت کو ہرن وغیرہ کی تلاش میں صرف کرنے کی غرض سے دونوں شکاری قریبی جنگل کی طرف نکل گئے۔ کئی سمتوں میں گھومنے کے بعد بھی کسی طرف کوئی سراغ نہیں ملا تو نوکروں کو ہرن دیکھنے کے لیے جنگل بھیجا گیا لیکن معلوم نہیں کہ انہوں نے تلاش کی یا کہیں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہے اور بیڑی پیتے یا کھینی (تمباکو) کی پھنکیاں لگاتے رہے۔ دونوں شکاری چپ چاپ انہیں اس جنگل سے اس جنگل میں ڈھونڈتے رہے۔ وہ خیمے سے کس طرح تین چار میل دور نکل گئے، پتہ ہی نہ چل سکا۔

    رفتہ رفتہ شام کا جھٹپٹا پھیلنے لگا۔ سور ج پہاڑی کی اوٹ میں چھپنے لگا لیکن اس کی سرخی مغربی آسمان میں پھیلی ہوئی ہے۔ دونوں شکاریوں کی جوکسی جانور کا سرخ خون دیکھنا چاہتے ہیں، اس طرف نگاہ نہیں ہے۔ ان کی نگاہیں زمین پر لگی ہیں۔ آسمان سے بھلا کیا تعلق؟ تینوں نوکر اس بری ساعت کو دیکھ کر گپیں چھوڑکر شکاریوں کی تلاش میں نکل پڑے۔

    اس سنسان جنگل میں انہیں دن میں تلاش کرنا ناممکن ہے، تاریکی میں دونوں شکاری قطعی غائب ہو گئے۔

    برسات کی سرد ہوا جسم پر لگی تودونوں شکاریوں نے پلٹ کر دیکھا کہ اچانک بارش ہونے ہی والی ہے اور وہ خیمے سے تین چار میل دور نکل آئے ہیں، چنانچہ بارش ہونے سے قبل خیمے میں پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ مجبوراً دونوں دوستوں نے بندوقیں کاندھے پر رکھیں اور ملٹری کی ڈبل مارچ کرنی شروع کر دی۔ گولی کے سامنے ہرن کی تشنگی، بےچارگی اور لائق رحم حالت نیز شکاریوں کی پر مسرت کلکاریاں اور تعاقب اس وقت انہیں یاد نہیں آ رہا ہے لیکن اسی طرح بارش نے ہو ہو کرتے ہوئے خوشی کے ساتھ ان پر یورش کر دی۔ کہیں کوئی آسرا نہیں۔ چہار جانب گہری تاریکی، طوفان کے سبب گردوپیش جنگل میں ہولناک آوازیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بڑی دقتوں سے دونوں خوفزدہ ساتھی راستہ تلاش کرتے ہوئے بڑھے۔ کپڑے بھیگ کرمن من بھرکے ہو گئے ہیں، لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے جب وہ خیمے میں پہنچے تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔

    اب اس بات کی فکر پیدا ہو گئی کہ رات کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ شکار میں کچھ ملا نہیں۔ دوسرے صبح اس جگہ سے روانگی طے ہونے کی وجہ سے رات کھانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ اب کوئی راستہ۔ زمیندار صاحب کا محل یہاں سے بارہ چودہ میل کی دوری پر ہے۔ اس بارش میں وہاں جاکر سامان خوردونوش لانا بھی ممکن نہیں۔ موٹر کا راستہ تو پانی کی وجہ سے ناقابل سفر ہو گیا ہوگا۔ قرب و جوار میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں صاحب اور زمیندار بابو کے کھانے کے قابل کچھ مل جائے۔ گوشت کے بغیر تو کھانا چل نہیں سکتا پر آج تو ان لوگوں نے اتنی زحمت اٹھائی ہے۔ سبھی متفکر ہیں۔ زمیندار بابو پر ہر طرح منحصر ہونے کے باوجود صاحب کو بھی تشویش ہونے لگی۔ شکار کو جانے سے قبل زمیندار بابو ایک آدمی کو بھیج کر گوشت کا بندوبست کر رہے تھے لیکن صاحب نے یہ کہہ کر روک دیا کہ شکار ضرور ملےگا۔ اب کیا کریں؟ زمیندار بابو بلا وجہ نوکروں پر خفا ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر صاحب نے کہا،

    ’’ول، لٹ می ڈوائس سم مینس آف دی ڈنر۔‘‘

    (رات کے کھانے کا کچھ بندوبست میں کرتا ہوں)

    زمیندار بابو اس تبسم کا جواب تبسم سے دیتے ہوئے بولے، ’’ول؟‘’ (اچھا)

    صاحب نے کہا، ’’وونٹ یومائنڈ ٹو اسپیئر یور ہاٹ؟ اِٹ ول میک اے سمپچووس فیسٹ اینڈ یو کین ہیو اے لاٹ آف دم فرام دے جنگلس۔ ڈونٹ یو لائک دس آئیڈیا؟‘‘

    (آپ کو اپنی ہرنی دینے میں کوئی اعتراض تو نہیں؟ اس کا کھانا بےحد لذیذ بنےگا اور جنگل سے آپ کو اس طرح کی بہت سی مل جائیں گی۔ کہیے کیسا خیال ہے؟)

    زمیندار کچھ سوچ رہے تھے۔ صاحب کا جملہ ختم ہو گیا تو انہوں نے چونک کر جواب د یا، ’’اوہ! یس، اِٹ از اے فائن آئیڈیا‘‘ (اوہ۔۔۔ جی ہاں عمدہ خیال ہے۔)

    زمیندار بابو معزز دوست اور مہمان کی تجویز کو رد نہ کر سکے لیکن جالی کے بارے میں سوچ کر ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ جالی سے انہیں جو خاص انسیت ہے، اس کا ایک سبب ہے۔ اپنے ایک دوسرے ممتاز دوست کے روبرو اپنی شکاری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جالی مل گئی تھی۔ اس وقت ماں اسے دودھ پلا رہی تھی۔ زمیندار کی گولی کھاکر ماں لوٹ گئی لیکن معصوم ہرنی بے خطر کھڑی رہی۔ جب زمیندار بابو کے آدمی پکڑنے پہنچے توماں کے قریب وہ بے خوف کھڑی تھی۔ غیرملکی ساتھی سے اس مہارت کا ملہ کے لیے بھرپور داد ملنے کے باوجود اس ننھی ہرنی کی معصوم آنکھوں کو دیکھ کراس کی ماں کے قاتل زمیندار بابو کو نہ جانے کیوں اسی دن سے اس کے ساتھ ایک مخصوص قسم کی انسیت ہو گئی تھی۔

    انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ کسی دن جالی کو مارکر اس کا گوشت کھانا پڑےگا۔ اب یہ تجویز سن کر زمیندار بابو کا شکاری ضمیر بھی نہ جانے کیوں جھجک محسوس کرنے لگا لیکن کیا محض اسی بنا پر اتنے معزز اور بڑے مہمان کی بات رد کر دی جائے؟ زمیندار بابو کی رضامندی حاصل کرکے صاحب بڑی خوشی کے ساتھ خود ذبح کرنے پر آمادہ ہوئے۔ خود اپنے ہاتھوں سے کچھ شکار کیے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ جنگ میں سینکڑوں لوگوں کو مارنے کے باعث وہ بےحد مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دن شکار وغیرہ نہ ملے تو صرف خون بہانے کی غرض سے اپنے ہاتھوں سے مرغ وغیرہ کاٹتے ہیں تاکہ دماغ پرسکون رہے۔

    جالی اور ڈورا ایک دوسرے کی گود میں منہ چھپاکر بڑے آرام کے ساتھ محو خواب تھے۔ ایسے میں کسی اجنبی شخص کا ڈورا کے نزدیک جانا خطرے سے خالی نہ تھا، بطور خاص جب ڈورا اور جالی دونوں یکجاہوں تو زمیندار بابو کے نوکر مادھیا کے علاوہ کوئی دوسرا ان کے پاس بھٹکنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ زمیندار کا اشارہ پاکر مادھیا کو جالی لانے کے لیے جانا پڑا۔ اس کے قدموں کی چاپ سن کر ڈورا چونک پڑا اور بھونکنے لگا لیکن مادھیا کے چپ کرانے پر آواز پہچان کر خاموش ہو گیا لیکن جب مادھیا جالی کو اٹھاکر لانے لگا تو ڈورا ساتھ چلنے کے لیے بےچین ہو گیا۔ مجبوراً مادھیا کو جالی کے ہمراہ ڈورا کو بھی زنجیر پکڑکر لانا پڑا۔ ہرچند کہ ڈورا غیرمعمولی ذہانت کا حامل تھا لیکن اس وقت جالی کے اپنے پاس سے ہٹائے جانے کا سبب نہ سمجھ سکا۔ مادھیا نے خود ڈورا کو سنبھالے رکھا اور جالی کو خانساماں کے حوالے کر دیا۔ ڈورا کو شبہ ہوا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہا۔ صاحب اپنی ایذا رساں طبیعت کی تسکین کے لیے تیار ہوئے، چھری کی دھار روشنی میں چمک اٹھی۔

    دونوں خانساماؤں نے جالی کے پیر باندھ کر اسے ساکت کھڑا کرر کھا تاکہ چھری چلانے کے دوران کسی طرح تڑپ کر صاحب کے لیے دشواری نہ پیدا کر سکے۔ جالی کے جذبات کیا ہیں؟ وہ اپنی زندگی کے محافظ زمیندار بابو اور تمام رنج وآلام میں ساتھ دینے والے ہمجولی ڈورا کو دیکھ کر بےخوفی کے ساتھ کھڑی رہی اور دونوں پیر باندھے گئے تو ایک بار دکھ کے ساتھی اور بچپن کے جس مالک پر اسے ناقابل شکست اعتماد تھا، ان کی جانب باری باری سے دیکھتی رہی۔ زمیندار بابو مہمان کی بیوی اور بیٹی کے ساتھ پر لطف گفتگو میں غرق تھے لیکن ان کا دل جالی کی طرف ایک نگاہ ڈالنے کے لیے راغب کر رہا تھا۔ وہ دیکھ کر ان دیکھی کرتے ہوئے ہنسی مذاق میں مصروف رہے جیسے اس کی طر ف دیکھا تو وہ انسان کی زبان میں کچھ بول دے گی اور وہ مجرم ثابت ہوں گے اور ان کی نیک نامی پر دھبہ آ جائےگا۔

    صاحب کے ہاتھوں میں چھری دیکھ کر ڈورا کا شبہ یقین میں بدل گیا۔ جب صاحب چھری صاف کرکے کرسی سے اٹھے تو زمیندار بابو کی نظر نہ جانے کیسے اچانک جالی پر پڑ ہی گئی اور انہیں محسوس ہوا کہ جالی بڑی دیر سے اسی طرح رحم طلب نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے۔ زمیندار بابو کسی بہانے اپنی کرسی سے اٹھ کر خیمے کے اندر چلے گئے لیکن ڈورا نے جالی کی التجاسن لی۔ بچپن میں آسرا دینے والے مالک سے مایوسانہ نگاہ پھیر کر جب اس نے اپنی پیارے ساتھی ڈورا کو دیکھا تو وہ نگاہ ڈورا کی روح میں پیو ست ہو گئی۔ صاحب کے ہاتھوں میں ننی چھری دیکھ کربات کی تہہ میں پہنچتے دیر نہ لگی۔ اسی مقام پر کتنے ہی بکرے، ہرن کٹتے ہوئے وہ دیکھ چکا تھا۔ اس کی عزیز جان جالی بھی بلاشبہ اسی انجام کو پہنچنے والی ہے۔

    صاحب چھرا لے کر بڑھے تو دفعتاً ڈورا نے ایک جھٹکے کے ساتھ مادھیا کے ہاتھ سے رہائی پاکر جالی کو پکڑنے والے خانساماں پر حملہ کر دیا۔ صاحب، خانساماں، نوکر وغیرہ سبھی گھبراکر تتر بتر ہو گئے اور خیمے کے اندر جا گھسے۔ زمیندار بابو خیمے میں کچھ سوچ رہے تھے۔ صاحب کی یہ حالت زار دیکھ کر انہوں نے ان سے معافی طلب کی اور مادھیا پر برس پڑے۔ اس کے بعد ان کے اندر کی ناگفتہ ٹیس باتوں سے واضح ہو رہی تھی۔

    مادھیانے بدقت تمام خود ڈورا کے ہاتھوں زخمی ہوکر اسے ایک درخت کے ساتھ ا چھی طرح باندھ دیا۔ صاحب ہنستے ہوئے چھری ہاتھ میں لیے دوبارہ خیمے سے باہر نکل آئے۔ چڑانے کے لیے بندھے ہوئے ڈورا کو چھری دکھلاکر وہ جالی کی طرف بڑھے۔ زمیندار بابو نے دیکھا کہ پہلے کی مانند جالی ان کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتی ہوئی جان کی امان چاہتی ہے۔ وہ اچانک اٹھ کر اپنے صاحب دوست سے کچھ کہناہی چاہتے تھے کہ ’’کیا میں پاگل ہو گیا ہوں‘‘کہہ کر دوبارہ بیٹھ گئے۔ اس مقام سے اٹھ کر دور چلے جانے کی خواہش کے باوجود اس خیال سے نہ ہٹ سکے کہ کہیں صاحب کو برا نہ لگے۔ صاحب کو جالی کے قریب پہنچتے دیکھ کر زمیندار صاحب نے رومال نکال کر منہ ڈھانپ لیا۔ ڈورا کی مضطربانہ چیخ پکارا نہیں سنائی دے رہی تھی۔ اسی اثنا میں ایک رندھے ہوئے گلے کی دردناک آواز کان میں پڑی، جو صرف کانوں میں ہی نہیں سیدھے دل میں اتر گئی۔ یہ آواز جالی کی تھی۔ رومال ہٹاکر دیکھا۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔

    کھانے کی میز پر بیٹھ کر جالی کا گوشت تناول کرتے ہوئے زمیندار بابو کی روح تڑپ تڑپ گئی۔ انہوں نے انتہائی ضبط کے ساتھ اپنے دوست کا ساتھ دیا اور شدید کراہیت کے ساتھ تھوڑا ساز ہر مار کر لیا۔ ضمیر کے خاموش کرب سے وہ بےتاب ہو گئے۔ غنیمت ہوا کہ مہمانوں میں سے کسی کی نگاہ ان پر نہیں پڑی۔ سونے کے وقت مادھیانے مطلع کیا کہ ڈورا کو جو گوشت وغیرہ دیا گیا، اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔

    زمیندار بابو کچھ سوچتے ہوئے چلے گئے۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ بستر پر پڑے، نہ جانے کیا کیا سوچتے رہے۔ ادھر ادھر جنگلات میں بھٹک رہے ہیں، اچانک بارش نے آ لیا، ہرطرف گہری تاریکی، پھر وہی دوپہر، گولی کھاکر ماں کا ڈھیر ہو جانا اور معصوم بچی کا حیرت سے دیکھتے رہنا، ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں، خوشی کے ساتھ خود کو سپرد کر دینا وغیرہ۔ پھر وہی گھٹاٹوپ اندھیرا، دونوں دوستوں کا کندھے پر بندوق رکھ کرخیمے کی جانب بڑھتے آنا، چھری پکڑکر صاحب کا سنگدلانہ ہنسی ہنسنا اور اس ننھی ہرنی کا رحم طلب مایوس نگاہوں سے زندگی کی بھیک مانگنا اور آدمی کی زبان میں کہنا، ’’میں تو اپنی ماں کو چھوڑکر تمہاری پناہ میں آئی تھی۔‘‘ زمیندار بابو چونک کر اٹھ بیٹھے۔ کیا؟ خواب! دوبارہ نیند نہیں آئی۔ پھر وہی رحم طلب نگاہ، پھر وہی دلدوز چیخ۔ بار بار نیند ٹوٹ جاتی، گھوم پھر کر وہی خواب۔

    دوسرے دن سویرے ہی واپسی کی تیاری ہونے لگی۔ دوست اور ان کے اہل وعیال کے ساتھ زمیندار بابو موٹر میں پہلے چلے گئے۔ ہنسی مذاق میں انہوں نے جی بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کے اندر ہرن کے بچی کی رندھی ہوئی چیخ رہ رہ کر سنائی دیتی رہی۔ مہمان خاندان اسی دن الوداع کہہ کر چلا گیا۔

    ہانپتا ہوا مادھیا ڈورا کو بدقت تمام کھینچتے ہوئے زمیندار بابو کے پاس آکر بولا کہ ڈورا اس جگہ سے آنے پر رضامند نہیں ہے۔ زمیندار بابو اس وقت تنہا بیٹھے دل ہی دل میں کچھ سوچ رہے تھے۔ مادھیا مزید کچھ نہ کہہ سکا اور چپ چاپ چلا گیا۔

    زمیندار بابو کو انتہائی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ بڑے ضبط کے ساتھ انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پایا، ورنہ لوگ اب تک انہیں پاگل سمجھنے لگتے۔ کوئی اندر سے انہیں ترغیب دے رہا تھا کہ اس بےشعور کتے کے پاؤں پکڑکر معافی مانگیں کیونکہ وہ خود کو اس سے کہیں بدتر سمجھ رہے تھے۔ ’’کیا گوشت خور کتے سے بھی زیادہ بےرحم ہوں میں؟ چھی چھی۔۔۔ کیا دنیامیں زبردست، کمزور کو صرف پامال کرکے اپنا غلام بناکر بوقت ضرورت پیٹ بھرکر زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوا ہے؟ ایک کی زندگی کے لیے دوسرے کی موت کیا اشد ضروری ہے؟ انسان کرہ ارض کو نگل جانے پر آمادہ ہے، کیا اس کا جواز یہی ہے کہ وہ تمام جانداروں سے زیادہ ذہین اور باشعور ہے۔‘‘یہ آج کی حقیقت ہے۔ زمیندار بابو کے اندر خود سے نفرت اور دنیا سے بیزاری کے شدید جذبات پیدا ہو گئے۔ جس زبان نے جالی کے گوشت کا ذائقہ چکھا تھا وہ نہ جانے کیسے بےحس ہوتی گئی، جس حلق سے جالی کا گوشت نیچے اترا تھا، وہ نہ جانے کیسے متذبذب ہوکر رندھ سا گیا۔ اگر وہ زبان بےحس ہوکر کٹ کر گر جاتی تو ان کے اندرونی کرب میں قدرے کمی آ جاتی۔

    اسی وقت عقب سے کسی نے آوازدی، ’’جالی کہاں ہے؟‘‘ زمیندار بابو نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ سوال ان کی چار سالہ ننھی بچی نے کیا تھا۔ کوئی جواب سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے دفعتاً اٹھ کر بچی کو اپنے مضطرب سینے سے لگا لیا ا ور بولے، ’’ہے، بیٹی، ہے۔‘‘ان کی بات کو ان سنی کرتے ہوئے اس نے منہ لٹکاکر ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا، ’’جھوٹ۔ مادھیا بولا تھا، صاحب نے اسے مال ڈالا، میں صاحب کو مالوں گی۔‘‘بیٹی کا غصہ اور تمکنت دیکھ کر زمیندار بابو کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ بیٹی سے اپنی حالت پوشیدہ رکھنے کے لیے وہ اسے آیا کو دے کر چلے گئے لیکن دل کا ا ضطراب ناقابل برداشت ہو گیا اور وہ بستر پر گر کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے لیکن بیٹی کا وہ سوال۔ ’’جالی کہاں ہے؟‘‘ انہیں رہ رہ کر کچوکے لگاتا رہا۔

    خود اپنے آپ سے یہ سوال کرکے وہ اپنے اعضا دیکھنے لگے۔ ننھی ہرنی کے بدن کے گوشت کے ٹکڑے سے دلدوز چیخ ابھرکر ان کے روئیں روئیں سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ان کی رگ وپے میں یہ چیخ بجلی کی طرح دوڑ گئی۔ زمیندار بابو بیمار ہو گئے۔ دوہفتے پڑے رہے۔ کھانا کھائے بغی ربخارمیں تپتے رہے۔ سب نے سوچا زمیندار بابو اس بار نہیں بچیں گے لیکن وہ صحت یاب ہو گئے، البتہ اب وہ ایک نئے آدمی تھے۔ صاحبوں کے لیے بنا ہوا مہمان خانہ دھرم شالا میں تبدیل ہو گیا۔ زمیندار محل میں گوشت پکنا بند ہو گیا اور زمینداری کے اندر ہرن کا شکار ممنوع قرار دے دیا گیا۔

    لاکھ کوششوں کے باو جود ڈورا نے کھانا نہیں کھایا۔ دن بھر بھوکا پڑا رہا اور زمیندار بابو کی علالت کے پہلے دن ہی موقع پاکر وہاں سے غائب ہو گیا۔ مادھیا نے تلاش کیا تو وہ اسی خیمے کی جگہ جالی کی قتل نگاہ کو سونگھتے ہوئے پایا گیا۔ اسی جگہ اس نے اپنی عزیز دوست سے ہاتھ دھوئے تھے۔ کاش کسی طرح اس کا پتہ لگ جاتا۔ المناک آوازیں نکالتا ہوا وہ اسے تلاش کر رہا ہے۔ مادھیا اسے پکڑ کر لایا۔ بہت دیکھ بھال کی گئی لیکن سب اکارت گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ اسی خیمے کی طرف گیا ہے۔ جنگل سے لکڑی لانے والے لوگ کہتے کہ گھنے جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے ان لوگوں نے کئی بار کسی جانور کی رندھی ہوئی بین کرتی ہوئی آوازیں سنی ہیں لیکن کیا معلوم وہ جالی کی آواز ہے یا ڈورا کی؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے