گرنتھی
کہانی کی کہانی
طاقت و ہمت کی دہشت اور اثر پذیری کی کہانی ہے۔گاؤں کے گرودوارے کا گرنتھی صرف اس لئے زیر عتاب ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی نے ثروتمند لوگوں کے گھر مفت کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔گرنتھی پر ایک عورت لاجو کو چھیڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اسے شنکرات کے اگلے دن گاؤں چھوڑنے کا حکم ملتا ہے، گرنتھی گرونانک جی کا سچا عقیدت مند ہے، اسے یقین ہے کہ اس کی بے گناہی ثابت ہوگی اور اسے گاؤں نہیں چھوڑنا پڑے گا لیکن جب شنکرات والے دن اس کا حساب کتاب کر دیا جاتا ہے تو اس کی رہی سہی امید ختم ہو جاتی ہے۔ اتفاق سے اسی دن گاؤں کا بدمعاش بنتا سنگھ ملتا ہے جو ایک دن پہلے ہی ڈیڑھ سال کی سزا کاٹ کر آیا ہے، وہ گرنتھی کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور اسے گاؤں نہ چھوڑنے کے لئے کہتا ہے۔ یہ خبر جیسے ہی عام ہوتی ہے تو گاؤں کے باشندے لاجو کو لعن طعن کرنے لگتے ہیں کہ اس نے گرنتھی پر جھوٹا الزام لگایا۔
’’ست نام۔‘‘ یہ الفاظ حسب معمول گرنتھی جی کے منہ سے نکلے اور ان کے قدم رک گئے۔ لیکن ان کے کچھے کا لٹکتا ہوا ازاربند گھٹنوں کے قریب جھولتا رہا۔
’’گرنتھی جی! تم کو سو مرتبہ کہا ہے کہ یوں دندناتے ہوئے اندر نہ بڑھے آیا کرو۔ ذرا پرے کھڑے رہا کرو۔ کسی وقت آدمی نامعلوم کیسی حالت میں ہوتا ہے۔۔۔‘‘ نل کے قریب بیٹھی ہوئی عورت نے اپنی پنڈلی شلوار کا پائنچا کھسکا کر ڈھانپ لی اور ایڑیاں رگڑنے لگی۔ گرنتھی کب کا پیچھے ہٹ چکا تھا۔ عورت نے مفت میں رامائن چھیڑ دی۔ اس کا منہ اوپر کو ہوا تھا۔ منہ اوپر اٹھائے رکھنے کی بھی اسے عادت سی ہو گئی تھی۔ اس کی داڑھی بہت گھنی تھی۔ ٹھوڑی کے نیچے گردن کے قریب بال پسینہ سے تر رہتے۔ گردن کا وہ حصہ اس کو ہمیشہ بے چین رکھتا۔ غیرشعوری طور پر منہ اوپر رکھنے سے ہوا کا کوئی نہ کوئی بھولا بھٹکا جھونکا آتا اور اس کو ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا۔
وہ بیوقوفی کی حدتک سیدھا سادا ضرور تھا۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ بالکل احمق ہی تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ آج اس عورت نے وہ بات کیوں کہی۔ پنڈلی، آخر پنڈلی میں کیا رکھا ہے۔ اگر کوئی دیکھ بھی لے تو۔ ’’یہ سو مرتبہ‘‘ کی بھی خوب رہی۔ حالانکہ یہ بات اس کو پہلی مرتبہ کہی گئی تھی۔ وہ ہرگز اس طرح دندناتا ہوا اندر داخل نہ ہو، اگر باہر کھڑا رہنے پر اس کی مدھم آواز سن لی جائے۔ اس کی آواز اچھی خاصی تھی لیکن زور سے آواز دینے پر اس کو ٹوکا گیا تھا۔ ’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔ اس قدر حلق پھاڑنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔‘‘ اگر وہ کھڑا ان کی من پسند آواز میں بڑے ترنم کے ساتھ صبح سے شام تک ’’ست نام ست نام‘‘ کہتا رہے تو کوئی اس کی آواز نہ سن پائے اور نہ اس کو روٹی دے۔
گور دوارے کے مسافر بھی ایک مصیبت تھے۔ نہ وہ روز روز آویں نہ اس کو روٹیاں مانگنی پڑیں۔ اپنے واسطے تو وہ کبھی بھی روٹیاں مانگنے نہ آئے۔۔۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پاؤں دھونے والی کی صورت تو دیکھو۔ یہ تو خیر! اس آفت کی پر کالہ کی صورت بھی قابل دید تھی جس نے اس پر بدنیتی کا الزام تھوپ رکھا تھا۔ سب سے احمقانہ بات جو اس کی بابت کہی جا سکتی تھی، یہ تھی کہ اس نے فلاں عورت کی طرف بری نیت سے دیکھا، لیکن وہی الزام اس پر لگا کر وہ طومار باندھا گیا تھا کہ توبہ ہی بھلی۔ اتنے میں فتح سنگھ چوکیدار صحن میں داخل ہوا۔
عورت نے بے تکلفی سے پوچھا، ’’آپھتیا! کیا بات ہے؟‘‘ چوکیدار پھتے نے گرنتھی کی طرف چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ ’’وہ سردارجی گھر پر نہیں؟ وہ آئیں تو کہنا کہ رات کو کنویں پر آ جائیں۔‘‘ لسی کا کٹورا پیش کیے جانے پر وہ اسے ایک ہی سانس میں چڑھا گیا۔ کرنتھی کے کندھے سے کندھا بھڑا کر باہر نکل گیا۔۔۔ عورت کی پیشانی ناہموار ہو گئی۔ گرنتھی ان سب باتوں کا مطلب سمجھتا تھا۔۔۔ آج اس کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا ملنے والی تھی۔
اس رات گاؤں کے بڑے کنویں پر گاؤں بھر کے سرکردہ اشخاص جمع ہوئے۔ گرنتھی پر جرح کی گئی اور اگر کوئی بات اس کے حق میں نکل آتی تو جھلاتے۔۔۔ سب لوگ اس سے خفا تھے۔ کسی کو اصلی شکایت یہ تھی کہ وہ ان کے گھر والوں کو پرشاد ہمیشہ کم دیا کرتا تھا۔ کسی کے بچوں کو اس نے گوردوارے کی پھلواڑی اجاڑنے سے منع کیا تھا۔ کسی کے گھر میں جا کر کچھ کام کرنے سے اس کی بیوی نے انکار کر دیا تھا لیکن اس پر الزام یہ تھا کہ لاجو ایک دن گوردوارے میں ماتھا ٹیکنے کے لیے گئی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
لاجو کو گاؤں کے تین سگے بھائی کہیں سے بھگا لائے تھے۔ وہ برائے نام پردہ داری کے ساتھ تینوں کی بیوی تھی۔ وہ تینوں بیکار تھے۔ جو داؤں لگتا، کر گزرتے۔ ایک بھائی نے پنساری کی دکان کھول رکھی تھی۔ کبھی جلیبیاں نکال لیتے۔ کبھی ایک تانگہ تیار کر لیتے۔ موقع پڑنے پر اچھے پیمانے پر چوریاں بھی کرتے، کبھی کسی راہ گیر کی گھوڑی چھین لاتے۔ ’’کیوں لاجو! کیا یہ بات درست ہے کہ گرنتھی نے تمہارا ہاتھ پکڑا؟‘‘ لاجو نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ کیونکر گرنتھی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو گلے لگانے کی کوشش کی۔
’’گرنتھی جی تم کو کچھ کہنا ہے؟‘‘
’’میں نے اس کا ہاتھ نہیں پکڑا۔‘‘
لاجو چمک کر کچھ کہنے کو تھی کہ اس کو روک دیا گیا، ’’تو گرنتھی جی آج تم نے لاجو کا ہاتھ پکڑا۔ کل کسی اور کا آنچل کھینچوگے۔ گاؤں کی بہو بیٹیوں کی عزت تمہارے ہاتھوں محفوظ نہیں۔‘‘
’’میں نے اس کا ہاتھ نہیں پکڑا۔۔۔‘‘
’’تم نے کام تو وہ کیا ہے کہ تم کو۔۔۔ خیر کل شنکرات کا کام بھگتا کر پرسوں یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
گرنتھی واپس آکر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ نیند نہ آتی تھی۔ ایک عرصہ تک ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ اس گوردوارے میں گرنتھی مقرر ہوا تھا۔ یہاں اس کو ہر طرح کا آرام میسر تھا۔ ایک طرف تواریخی عمارت، دوسری طرف نئی عمارت بن رہی تھی۔ چک ۳۵ اور ۳۶ کا یہ مشترکہ گوردوارہ تھا۔ یہ گاؤں چونکہ ایک دوسرے کے بالکل قریب قریب تھے، اس لیے علیحدہ علیحدہ گوردوارے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ چڑھاوا بھی زیادہ چڑھتا تھا۔
تھوڑی دیر تک اس کی بیوی اس کے قریب بیٹھی رہی۔ وہ اداس تھی لیکن اس کو اپنے خاوند پر بھروسہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے خاوند پر جو الزام دھرا گیا تھا وہ سراسر بے بنیاد تھا۔ وہ دونوں اس آفت کا اصل سبب بھی جانتے تھے لیکن لاچار تھے۔ اگر اس جگہ رہنے کا مطلب یہ تھا کہ بات بات میں بے عزتی برداشت کی جائے، اس کی بیوی دوسروں کے گھروں میں جا کر نہ صرف کام کرے بلکہ ان کی خوشامد بھی کرے تو اس سے بہتر یہی تھا کہ وہ اس غلامی کو خیرباد کہہ کر اپنے گاؤں کو چلے جائیں۔۔۔ لیکن آئندہ وہ کیا کرےگا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
گرمیوں کی چاندنی رات میں وہ کھلے آسمان تلے چارپائی پر بیٹھا صحیح معنوں میں تارے گن رہا تھا۔ اس نے تاروں کی طرف کبھی دھیان نہ دیا تھا۔ ورنہ تاروں کی دنیا بھی کس قدر خوبصورت اور انوکھی تھی۔ کتنی دور تک پھیلے ہوئے بےشمار تارے اور بادلوں کی صورت کے وہ تارے، جن کی بابت کہا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد انسان کی روح اسی راستہ سے ہوکر جاتی تھی۔ نامعلوم وہ راستہ کیسا ہوگا؟ کیسی جگہ ہوگی؟ درخت ہوں گے یا ریت کے ٹیلے۔ جب روح تھک جاتی ہوگی تو اس کو دم لینے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ یہ راستہ آخرکار کہاں ختم ہوتا ہوگا؟
اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب جاگا تو تارے جھلملا رہے تھے۔ ہوا میں خنکی تھی۔ باڑے میں بوڑھا بیل سینگ ہلا رہا تھا اور اس کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ گوردوارے کے اندر اس کے چھوٹے سے مکان کے صحن میں اس کی بیوی دہی بلو رہی تھی۔ دہی بلونے کی آواز اس بات کا یقینی ثبوت تھی کہ اب صبح ہونے والی تھی۔ وہ اٹھا۔ کلہاڑی پکڑ کر ببول کے درختوں کی طرف چلا گیا۔ ایک نازک سی شاخ کاٹ کر اس نے تین داتونیں بنائیں۔ اپنے لیے، اپنی بیوی کے لیے اور اپنی نو سالہ بچی کے لیے۔ ایک جھاڑن کاندھے پر ڈالے، وہ کھیتوں میں سے ہوتا ہوا باڑے میں واپس آیا اور بیل کی رسی کھول کر رہٹ کی طرف بڑھا۔
پرانی طرز کا یہ رہٹ سطح زمین سے بہت اونچا تھا۔ ایک اونچا گول چبوترا جہاں سے گوبر ملی مٹی نیچے گرتی رہتی تھی۔ چبوترے کے دونوں طرف گارے کی بے ڈول سی ٹیڑھی میڑھی دو دیواریں کھڑی تھیں۔ ان پر درخت کاٹ کر ایک طویل لٹھ ٹکا دیا گیا تھا۔ اس کے بیچوں بیچ چرکھڑی کی لکڑی گھسی ہوئی تھی۔ پاس ہی دوسری چرکھڑی اس میں دانت جمائے کھڑی تھی۔ نچلی چرکھڑی کے پاس لکڑی کا کتا جو اس کے پیچھے کی جانب گھومنے سے روکتا تھا۔ جب بیل کو جوت دیا گیا اور چرکھڑیاں گھومنے لگیں تو کتا کٹ کٹ بولنے لگا۔ کنویں والا بڑا چرکھڑا بھی گھوما، رسیوں سے بندھی ہوئی ٹنڈیں پانی کی طرف لپکیں۔ جو ٹنڈیں رات کی بھری بیٹھی تھیں انہوں نے پانی انڈیل دیا۔ جھال میں سے پانی کی دھارا تیزی سےنکلی۔ کنواں عجیب سروں میں روں روں کی آواز نکالنے لگا۔ کبھی ایسا جان پڑتا جیسے گا رہا ہو۔ کبھی رونے کی سی آواز نکلنے لگتی۔ کبھی اس میں سے دل سوز چیخ کی سی آواز پیدا ہوتی۔۔۔ تاریکی میں یہ عجیب وغریب آوازیں، چھوٹی بڑی گھومتی ہوئی چرکھڑیاں یوں دکھائی دیتی تھیں جیسے کوئی عجیب الخلقت جانور رینگ رہا ہو۔
شوروغل سے فضا میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ ادھر ادھر سے دو چار کتے بھی بھونکنے لگے۔ گرنتھی نے جھال کی طرف تختہ لگا کر پانی روک لیا تاکہ یہ ٹونٹیوں کی طرف چلا جائے۔ جب کھیتوں کو پانی دینا ہوتا تو پانی کا رخ جھال کی طرف کر دیا جاتا۔ چاردیواری پر بیٹھ کر اس نے دانتون کی۔ دانتون کی کونچی سے دانت اور مسوڑے صاف کیے، پھر دانتون بیچوں بیچ پھاڑ کر اسے کمان کی صورت گھمایا اور زبان پر رگڑا۔ منہ میں انگلی پھیر پھیر کر وہ کھانستا اور تھوکتا رہا۔ کنویں پر جھکے ہوئے شہتوت کے پیڑ پر پرندے پر پھڑپھڑانے لگے۔ دانتون پھینک کر اس نے کپڑے اتارے۔ ٹونٹی کے منہ سے لکڑی ہٹا دی۔ منہ اور داڑھی دھو کر واہگورو واہگورو کا ورد کرتا ہوا پانی کی دھارا کے نیچے بیٹھ گیا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ کل وہ اس جگہ کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔ اس وقت یہ بات کس قدر ناقابل یقین تھی۔ کچھا نچوڑ کر اس نے بغل میں دبایا۔ پانی سے لبریز بالٹی اٹھا کر وہ گوردوارے کے اندر چلا گیا۔ بڑے صحن میں اس کی بیوی جھاڑو دے رہی تھی۔ کچھا جھٹک کر رسی پر ڈالنے کے بعد اس نے فرش پر پانی چھڑکنا شروع کیا۔
آج شنکرات تھی۔ صفائی اور چھڑکاؤ کے بعد ٹاٹ فرش پر بچھایا گیا۔ گرنتھ صاحب پر سلک کے رومال ڈال دیے گئے۔ چوری بھی صاف کر کے قریب رکھ دی گئی۔ پھر وہ اندر سے ہارمونیم، ڈھولکی، چمٹا، چھینے وغیرہ گانے بجانے کےساز اٹھا لایا۔ اس کی بیوی پاس کھڑی دانتون کر رہی تھی۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں کو اس بات کا احساس تھا کہ جب ان کو وہاں رہنا ہی نہیں تو اس کی بلا سے، وہ کام بھی کیوں کریں۔ لیکن یہ گورو گھر کا کام تھا۔ یہ تو گوردوارے کی سیوا تھی۔ کسی پر کیا احسان تھا۔ اپنی ہی آخرت کا سوال تھا۔۔۔ اور دونوں کے دلوں میں ایک مبہم سا احساس بھی تھا کہ ممکن ہے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ ان کا جانا منسوخ ہو جائے۔
لڑکی آج اچھے اچھے کپڑے پہنے پھولی نہ سماتی تھی۔ کتنی پیاری بچی تھی۔ دھوپ نکل آئی۔ اس کی بیوی چہرے پرچھڈی مل کر گھڑی کی گھڑی دھوپ میں جا بیٹھی۔ گرنتھی نے بڑے بڑے مٹکوں میں پانی بھرنا شروع کیا تاکہ سنگت کو پیاس لگے تو پانی کی دقت نہ ہو۔ گوردوارے کا بوڑھا بیل کمزور ہو چکا تھا۔ کام کم کرتا اور آرام زیادہ۔ یہ تو ہو نہ سکتا تھا کہ سنگت کو پانی پلانے کے لیے وہ بیل کو شام تک کنویں کے آگے جوتے رکھے۔
سنکھ ہاتھ میں لیے وہ گودوارے کی ٹوٹی پھوٹی چاردیواری سے باہر نکل آیا۔ دروازے کے قریب درخت کا ایک بھاری بھرکم تنا پانی کے گڑھے میں دھنسا پڑا تھا۔ اردگرد گوردوارے کے وہ کھیت تھے جن میں اس نے خود ہل چلایا تھا، بیج بویا تھا۔ چاندنی اور اندھیری راتوں میں پانی سے سینچا تھا۔ نلائی کی تھی۔ ان کھیتوں سے اس کا کتنا گہرا تعلق تھا۔ اس کا پسینہ ان کھیتوں کی بھربھری مٹی میں جذب ہو چکا تھا۔ اب وہ اپنی امانت کسی صورت میں بھی واپس لینے کا حق دار نہ تھا۔ قریب ہی بڑ کا ایک بوڑھا درخت تھا، جس کی بابت ایک روایت مشہور تھی۔ گوروؤں کے زمانے میں ایک نہایت پاکباز شحص اس گوردوارے میں سیوا کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی عمر اسی جگہ گورو کے چرنوں میں بتادی۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوگیا۔۔۔ لیکن اس کی محنت میں فرق نہ آیا۔
اس کا دل اسی جوش اور خلوص سے لبریز تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ گرمیوں کی دوپہر میں وہ کھیتوں کی نلائی کر رہا تھا۔ اس کی پگڑی کے اندر اس کے الجھے ہوئے بال پسینے میں تر ہو رہے تھے۔ اسے پیاس محسوس ہوئی۔ اس نے ٹنڈ میں پانی بھر کر رسی کا بگنا باندھ کر اسے بڑے درخت کی ٹہنی سے لٹکا رکھا تھا۔ جب اس نے ٹنڈ کو چھوا تو وہ اس قدر ٹھنڈی تھی جیسے برف۔ کس قدر ٹھنڈا پانی ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ گورو صاحب سچے پادشاہ اسی طرف کو آنے والے ہیں۔ کیوں نہ پانی انہیں کے لیے رہنے دوں۔ وہ اس میں سے پانی پی لیں گے تو باقی پانی سے میں اپنی پیاس بجھا لوں گا۔۔۔
بیشک گورو صاحب دورہ کرتے ہوئے اس طرف کو آنے والے تھے لیکن ان کے آنےمیں ابھی بہت دیر تھی۔ اس وقت وہ اطمینان سے دربار میں بیٹھے سنگتوں کو درشن دے رہے تھے۔ یکایک گورو صاحب اٹھ بیٹھے اور فی الفور کوچ کا حکم صادر فرمایا۔ سب حیران کہ آخر اس میں بھید کیا ہے۔ یہ بیٹھے بٹھائے ایک دم اتنی عجلت کیوں؟ گورو صاحب سچے پادشاہ نے فرمایا، میرا ایک سکھ منتظر ہے، وہ پیاسا ہے۔ جب تک میں وہاں جاکر پانی نہ پیوں گا وہ پیاسا ہی رہے گا۔۔۔ گورو صاحب گھوڑا سرپٹ دوڑاتے ہوئے اس جگہ پہنچے۔ جاتے ہی پانی مانگا۔ بوڑھے سکھ نے وہ ٹنڈ آگے بڑھا دی۔۔۔ وہ کس قدر خوش تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
گرنتھی درخت کے تنے پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس نے سنکھ منہ سے لگایا تو دل میں سوچنے لگا۔ گوروصاحب دلوں کا حال جانتے ہیں۔ وہ میری بے گناہی سے واقف ہیں۔ وہ یہاں سے نہیں جائے گا۔ اس کو یقین تھا کہ ضرور کوئی ایسی صورت نکل آئےگی۔ سنکھ پورنے کے بعد وہ دیر تک گاؤں کی طرف دیکھتا رہا، جیسے وہ بھی کسی کی آمد کا منتظر ہو۔ کتنی تیز دھوپ ہو گئی تھی اور لوگ ابھی گھر سے بھی نہ نکلے تھے۔ مٹیالے مٹیالے مکان۔ مکانوں کے بیچ میں سے سر اٹھائے ہوئے سرسبز درخت۔۔۔ کچی سڑک سے آگے ڈھلوان پر بھنگیوں کے کالے کلوٹے ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے۔ دو تین بچھڑے ادھر ادھر قلانچیں بھرتے پھرتے تھے۔
وہ گوردوارے کے چھوٹے سے باغ میں گیا۔ انگور کی بیلیں آڑی ترچھی لکڑیوں پر سے گر پڑتی تھیں۔ ایک کونے میں سے اس نے الجھی ہوئی رسیاں اٹھائیں۔ بیلوں کو لکڑیوں کے ساتھ لگا کر رسیوں کے ٹکڑوں سے، کچھ ڈھیل دے دے کر باندھنے لگا۔ اس کی موٹی موٹی انگلیاں اپنے کام میں ماہر تھیں۔ قریب ہی ہرے دھنیے اور مرچوں کی کیاری تھی۔ وہ اس کے کنارے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ بیچ بیچ میں کھٹ میٹھی بوٹی کے چھوٹے چھوٹے پودے بھی تھے۔ اس نے احتیاط سے ان کو اکھاڑنا شروع کیا۔ بچے ان بوٹیوں کو شوق سےکھاتے تھے۔ انار کے پیڑ خاموش سمادھی میں بیٹھے ہوئے درویشوں کی مانند نظر آتے تھے۔ ہوا بند تھی۔ پیڑوں کی پتیاں تک نہ ہلتی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا جیسے پرماتما سے اس کی لو لگی ہوئی ہو۔ باغ کا کتنا حصہ بیکار پڑا تھا۔ اس کا خیال تھا، وہ جھاڑیوں اور مدار کے خودرو پیڑوں سے وہ حصہ صاف کر کے وہاں سبزیاں لگائے۔ مٹر، ٹماٹر، گوبھی۔۔۔
ہر پیڑ اور پودے کو دیکھتا ہوا وہ باہر نکلا۔ پھر اسی تنے پر کھڑے ہو کر اس نے دوسری مرتبہ سنکھ بجایا۔ کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ مرد تو خیر کھیتوں پر کام کر رہے تھے لیکن عورتیں گھروں میں گھسی پڑی تھیں۔ بیوی سے کہنے لگا، ’’دو مرتبہ سنکھ پور چکا ہوں کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ کم از کم عورتوں کو آ جانا چاہیے۔‘‘ اس کی بیوی چپ رہی۔ عورتوں کی بابت وہ جانتی تھی۔ اول تو ہر عورت کے چار چار پانچ پانچ بچے تھے۔ ان کو نہلانا دھلانا۔ پھر ہر عورت کو بناؤ سنگھار بھی تو کرنا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں اپنے کپڑوں اور گہنوں کی نمائش کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کی باتیں یہیں کی جاتی تھیں۔ کئی پیچیدہ مسائل یہیں بیٹھ کر سلجھائے جاتے تھے۔
چھوٹی بچی نے خوشی میں ڈھولکی دھپ دھپانی شروع کی۔ گرنتھی چمبیلی کے پودوں کے گرد اینٹوں کے اکھڑے ہوئے جنگلوں کی مرمت کرنے لگا۔ کہیں کوئی اینٹ گری پڑی تھی۔ کہیں کوئی ٹہنی اینٹوں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ کسی جگہ پودے اس قدر پھیل گئے تھے کہ جنگلے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
لوہے کے ڈول بھر بھر کر اس نے پھولوں کو پانی دینا شروع کیا۔ بچارے گیندے کے پھول تو نرے یتیم ہی تھے۔ کوئی ان کی خبر گیری نہ کرتا تھا۔ بچارے خشک اور سخت زمین میں ہی نشوونما پاتے۔ کوڑا کرکٹ بھی انہیں پر پھینک دیا جاتا۔ اس کے باوجود جب پھول آتے تو ہر طرف پیلا ہی پیلا نظر آتا۔ پھولوں کے ہار گوندھے جاتے، بچے جھولیاں بھر بھر کر گھروں کو لے جاتے۔ کچھ گرنتھ صاحب کے سامنے چڑھا دیے جاتے، بڑی درگت ہوئی بچاروں کی۔ وہ جب کبھی گیندے کے کسی کھلے ہوئے پھول کی طرف دیکھتا تو اس کو اس کے یتیم ہونے کا خیال آنے لگتا جیسے کہ وہ خود یتیم تھا۔ وہ پودے کے قریب بیٹھ جاتا۔ پھول ہوا میں اِدھر اُدھر جھومنے لگتا۔
وہ پھول کو پیار سے دونوں ہاتھوں میں لے لیتا جیسے وہ کسی بچے کا چہرہ ہو۔ اس کو ایک بات یاد آ جاتی، ایک مرتبہ (غالباً) گورو ارجن دیوجی کے لبادہ کی جھپٹ میں آکر پھول کی ایک پنکھڑی خاک پر گر پڑی تو گورو صاحب کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے نامعلوم جذبہ کے زیر اثر گرنتھی پر رقت سی طاری ہو جاتی۔ وہ کتنی کتنی دیر تک دم سادھے بیٹھا رہتا۔ وہ کچھ سمجھ نہ سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی عقل موٹی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایک ناقابل فہم کیفیت میں ڈوب جاتا۔
بھٹی کے قریب اس نے کڑاہ پرشاد کا کل سامان اکٹھا کر دیا۔ لکڑیاں اور موٹے موٹے اپلے بھی ایک طرف ڈھیر کر دیے اور سنکھ لے کر پھر درخت کے تنے پر جا کھڑا ہوا۔ تیسری مرتبہ سنکھ پور کر وہ دیر تک اسی جگہ کھڑا رہا۔ دھوپ چلچلا رہی تھی۔ آنکھیں دھوپ میں تپی ہوئی ہوا کی گرمی کو برداشت نہ کر سکتی تھی۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر گاؤں پر نظر جمادی۔ شاید کوئی صورت نظر آ جائے۔ اس کو فکر تھی کام ختم کرنے کی۔ چند ایک نیلے پیلے دوپٹے ہوا میں لہرائے۔ کچھ نوعمر لڑکے اور لڑکیاں اٹھکھیلیاں کرتے دکھائی دینے لگے۔ رنگ برنگ کے رومالوں سے ڈھکی ہوئی تھالیاں ہتھیلیوں پر رکھے زاہد صورت بوڑھی عورتیں پیچھے پیچھے چلی آتی تھیں۔ رفتہ رفتہ دونوں گاؤں کے لوگ چیونٹیوں کی طرح رینگتے ہوئے نکلے۔ اور چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں گوردوارے کی طرف بڑھے۔
گرنتھی نے ہاتھ پاؤں دھوکر پگڑی کو درست کیا۔ گلے میں زرد رنگ کا طویل سا کپڑا ڈالے واہگورو واہگورو کہتا گورو گرنتھ صاحب کے پاس جا بیٹھا۔ گرنتھ صاحب سے رومال ہٹا کر ان کو احتیاط سے لپیٹ جلد کے نیچے دباتےہوئے متبرک کتاب کو کھولا اور آنکھیں موند کر چوری ہلانے لگا۔
لمبے لمبے گھونگھٹ نکالے عورتیں چاردیواری کے اندر داخل ہوئیں۔ ان میں سے بعض نئی نویلی دلہنیں تھیں، جنہوں نے کہنیوں تک چوڑیاں پہن رکھی تھیں۔ سرخ رنگ کی قمیص اور شلوار میں گٹھری سی بنی ہوئی وہ بیربہوٹیوں کی مانند دکھائی دیتی تھیں۔ گوروگرنتھ صاحب کے سامنے پیسے، بتاشے، پھول، تھالیوں میں دالیں، چاول، آٹا وغیرہ رکھ کر وہ ماتھا ٹیکتیں اور ایک طرف بیٹھ جاتیں۔ لڑکوں میں بعض نے ہارمونیم پکڑ لیا۔ ایک لڑکا پچھلے تختے کو ہلا ہلا کر ہوا دینے لگا۔ دوسرا اپنی انگلیوں سے لکڑیوں کے سیاہ و سپید سروں کو بے تحاشہ دبانے لگا۔ ایک نے ڈھولکی بجانی شروع کی۔ دو لڑکے بڑے چمٹے کو بجانے لگے۔ چھینے بھی چھناچھن بولنے لگے۔ ادھر عورتیں آپس میں تبادلہ خیال کرنے لگیں۔ ان کی آوازیں ہر پابندی سے آزاد دور دور تک سنی جا سکتی تھیں۔
کچھ لڑکوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کیا۔ نئی عمارت کے اینٹوں کے چکے لگے ہوئے تھے۔ لڑکوں نے اینٹوں کی ریل گاڑی بنائی۔ ایک لمبی قطار میں اینٹ کے پیچھے اینٹ کچھ کچھ فاصلے پر رکھ دی گئی۔ پھر ایک کو جو ٹھوکر لگائی تو ساری اینٹیں دھڑادھڑ گرنے لگیں۔ لڑکے اچھل اچھل کر شور مچانے لگے۔ ان کی ڈھیلی ڈھالی پگڑیاں کھل گئیں۔ انہوں نے از سرنو باندھنے کے بجائے پگڑیوں کو بغلوں میں دبایا اور باغ کے دورے پر نکل گئے۔ آج وہ نڈر ہو رہے تھے۔ وہ اپنی ماؤں کے ہمراہ تھے۔ گرنتھی کا اول تو آج کچھ خوف بھی نہ تھا، دوسرے وہ اس وقت آنکھیں بند کیے گرنتھ صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔
اب مردوں کی آمد شروع ہوئی۔ موٹے کھدر کے تہبند باندھے، گھٹنوں تک لمبے کرتے پہنے، سروں پر آٹھ آٹھ دس دس گز کلف لگی پگڑیاں لپیٹے، ہاتھوں میں لوہے اور پیتل کی شاموں والی مضبوط لاٹھیاں تھامے اور اپنی داڑھیوں کو خوب چکنا کیے ہوئے آئے اور ماتھا ٹیک ٹیک کر وہ ادھر ادھر بیٹھنے لگے۔ ان میں سروقد مضبوط نوجوان بھی تھے، جن کے تہبند رنگ دار تھے۔ تہبند کے پچھلے حصے ایڑیوں میں گھسٹتے آتے تھے۔ بعض جو شلواریں پہنے ہوئےتھے، ان کے رنگین ریشمی ازاربند خاص طور پر گھٹنوں تک لٹک رہے تھے۔ پگڑیوں کے شملے خوب اکڑے ہوئے۔ ایسے چھیل چھبیلے بھی تھے جنہوں نے پگڑی کا آخری سرا گھما پھرا کر پگڑی کے اگلے سرے پر آن ٹھونسا تھا جیسے کسی پلے ہوئے مرغ کے سر پر اس کی شاندار کلغی۔
مردوں کے پہنچ جانے پر کارروائی شروع ہوئی۔ چند نوجوانوں نے بڑھ کر ساز سنبھالے۔ ایک ایک الائچی اور لونگ منہ میں ڈال کر ساز بجانے شروع کیے، ہارمونیم کے ساتھ تال پر ڈھولکی بجنے لگی۔ چمٹے والے نے جھوم جھوم کر چمٹا بجانا شروع کیا۔ ادھر چھینے بھی ٹکرائے، ہارمونیم والے نے منہ کھول کر ایک طویل ’’ہو‘‘ کی آواز نکلنے کے بعد گایا۔
ایتھے بیٹھ کسے نہیں رہنا میلہ دودن دا اتنا کہہ کر وہ مسلسل منہ ہلانے لگا۔ ڈھولکی والے کی گردن ہلتی تھی تو چمٹے والے کا دھڑ۔ جب ایک مرتبہ کارروائی شروع ہو گئی تو سرکردہ اصحاب نے کانا پھوسی شروع کردی۔ کئی مسائل زیر بحث تھے۔ شبد کیرتن کے بعد سری گوروگرنتھ صاحب کی پوتر بانی پڑھ کر حاضرین کو سنائی گئی۔ اس کے بعد گرنتھی چوکی پر سے اترا اور ارداس (دعا) کے لیے گوروگرنتھ صاحب کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ حاضرین نے بھی اس کی پیروی کی۔ سب لوگ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ گرنتھی نے آنکھیں بند کر لیں اور ارداس شروع کر دی۔
’’پرتھم بھگوتی سمر کے گورونانک لئی دھیائے
پھر انگد گورتے امرداس رامدا سے ہو سہائے۔۔۔‘‘
اس طرح دسوں گوروؤں کے نام دہرائے گئے اور پھر، ’’پنج پیارے، چار صاحب زادے (صاحب اجیت سنگھ جی، صاحب جہجہا سنگھ جی، صاحب جور اور سنگھ جی، صاحب فتح سنگھ جی) چالیس مکتے، شہیدوں، مریدوں، صدق رکھنے والے سکھوں کی کمائی کا دھیان دھر کے خالصہ جی، بولوجی واہگورو۔۔۔‘‘ گرنتھی کے واہگورو کہنے پر حاضرین اس کے واہگورو واہگورو کہتے۔ ادھر حاضرین کی آواز گونجتی، ادھر ایک بڑے طبل پر چوب پڑتی اور طبل کی آواز حاضرین کی آواز کے ساتھ گھل مل کر دیر تک لرزتی رہتی اور دلوں پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی۔
’’جن لوگوں نے دھرم کے لئے جانیں قربان کیں، چرکھڑیوں پر چڑھے، (بدن کے) جوڑ جدا کروائے، جن کی کھالیں کھینچ لی گئیں، جنہوں نے کھوپڑیاں اتروائیں، لیکن اپنا دھرم نہیں چھوڑا، جنہوں نے سکھی صدق اپنے سر کے پوتر کیسوں (بالوں) اور اپنے آخری سانسوں تک نبھایا، ان سنگھوں (شیروں) اور سنگھنیوں (شیرنیوں) کی کمائی کا دھیان کر کے خالصہ صاحب بولو جی واہگورو۔۔۔‘‘
’’واہگورو واہگورو۔‘‘
’’جن گورمکھوں نے گوردواروں کے سدھار کی خاطر سری ننکانہ صاحب جی میں اور سری ترن تارن کے سلسلے میں اپنے جسموں پر تکالیف برداشت کیں، جیتے جی تیل میں ڈال کر جلایے گئے، دہکتی بھٹیوں میں جھونک دیے گئے اور وہ اس طرح شہید ہو گئے، ان گورو کی صورت رکھنے والے سکھوں کی کمائی کا صدقہ خالصہ صاحب بولو جی واہگورو۔۔۔‘‘
’’ واہگورو واہگورو۔‘‘
’’جن ماؤں، بیبیوں نے اپنے بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے کروا کر اپنی جھولیوں میں ڈلوائے، ان کی کمائی کا صدقہ خالصہ صاحب بولو جی واہگورو۔‘‘
’’ واہگورو واہگورو۔‘‘
طویل دعا کے آخر میں، ’’(اے گرو صاحب) ہم کو نفسانی خواہشات، غصہ، لالچ، محبت اور غرور سے بچایئے، آپ کے حضور امرت دینے کی ارداس۔ اگر بھول چوک میں کوئی لفظ کم و بیش ہو گیا ہو تو اس کے لئے ہم معافی کے خواستگار ہیں۔ سب کے کام سنواریے، گورو نانک نام چڑھدی کلا تیرے بھانے سب کا بھلا۔‘‘ سب نے جھک کر پیشانیاں فرش پر ٹیک دیں۔ گرنتھی نے دل ہی دل میں کہا، ’’واہگورو سچے پادشاہ سے دلوں کا حال چھپا نہیں۔‘‘ پھر کھڑے ہوکر ’’جو بولے سو نہال ست سری اکال‘‘ کے تین نعرے لگائے گئے۔ اس کے بعد کڑاہ پرشاد (حلوا) بانٹا گیا۔ رفتہ رفتہ پرشاد ہاتھوں میں چھپائے یا کٹوریوں میں لیے رخصت ہو گئے۔ چند سربرآوردہ اشخاص بیٹھے رہے۔ جب تنہائی ہو گئی تو انہوں نے گرنتھی سے کہا کہ اگر پرشاد باقی ہو تو لایا جائے۔ گرنتھی نے پرشاد ان کو بانٹ دیا۔ چہروں کو اپنے چکنے ہاتھوں سے ملتے ہوئے انہوں نے بہی کھاتہ سنبھالا۔ پون گھنٹے کے بحث مباحثے کے بعد سب حساب صاف ہوا۔ گرنتھی سے کہہ دیا گیا کہ دوسرے دن رخصت ہونے سے پہلے وہ چابیاں سردار بگاّ سنگھ نمبردار کو دے جائے۔
ان کے چلے جانے کے بعد گرنتھی کی سب امیدیں ختم ہوگئیں۔ اس کی بیوی نے گھر کا سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ گرنتھی کے دل میں اب تک کچھ خلش سی تھی۔ وہ اضطراب میں ادھر ادھر گھومنے لگا۔ اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے وہ تالاب کے قریب کھڑے ہو کر اس کے سبزی مائل پانی کو دیکھنے لگا۔ اس کے کنارے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ ایک دو جگہ سے سیڑھیوں کی اینٹیں بھی اکھڑ گئی تھیں۔ کائی جمی ہوئی تھی۔ اس تالاب میں کوئی نہ نہاتا تھا۔ نہ معلوم اس میں کب سے برسات کا پانی جمع تھا۔ ببول کے پیلے پیلے پھولوں کی تہہ سی جمی ہوئی، برگد کے بڑے بڑے زرد رنگ کے پتے پاش پاش ہو جانے والے جہاز کے شکستہ تختوں کی طرح تیر رہے تھے۔
اس کے قریب پرانی سمادھ تھی جس کی دیواروں پر سے جابجا چونا اکھڑا ہوا تھا۔ اس کی دیواروں پر پرانے زمانے کی رنگ دار تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ کئی جگہ سے رنگ اکھڑے ہوئے ضرور تھے لیکن جہاں کہیں بھی موجود تھے، کس قدر چمک دار اور دل کش نظر آتے تھے، خاص کر گورونانک صاحب کی تصویر۔ درخت کی چھاؤں تلے بابا نانک جی بیٹھے تھے۔ ایک جانب بھائی بالا اور دوسری طرف بھائی مردانہ۔ درخت کی شاخ سے پنجرا لٹک رہا تھا۔ جس میں ایک سرخ چونچ والا طوطا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اسی حجرے میں ساتویں گورو صاحب پرماتما کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔ تین چار برس پہلے کی بات تھی ایک سکھ اسی حجرے میں بیٹھ کر بلاناغہ بھگتی کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ رات کے وقت حجرہ منور ہو گیا۔ ذرہ ذرہ دکھائی دینے لگا۔ اتنے میں ایک نورانی صورت نظر آئی۔۔۔ لیکن وہ سکھ جلوے کی تاب نہ لا سکا۔ وہ بھاگ کر باہر نکل آیا۔ اور فی الفور گونگا ہو گیا۔ اس کے بعد کسی نے اس کو بولتے نہیں سنا۔۔۔ گرنتھی نے حجرے کا دروازہ کھول کر اس کے نمدار فرش پر اپنا ننگا پاؤں رکھا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں اس کی بیوی وہاں آئی اور اس کی متغیر صورت دیکھ کر کچھ پریشان سی ہو گئی۔ وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی۔
صحن میں دستی چرکھڑی والے چھوٹے سے کنویں کے اردگرد بنے ہوئے چوڑے چبوترے پر نیلے رنگ کی لمبوتری پگڑیاں باندھے نہنگ سکھ پتھر کے بڑے کونڈے میں شروائی گھونٹ رہے تھے۔ پگڑیوں پر لوہے کے چکر، گلے میں آہنی منکوں کی مالا، لمبے لمبے چغے۔۔۔ وہ لوگ باری باری بادام، چاروں مغز، کالی مر چیں اور قدرے بھنگ والی شروائی کی گھوٹائی کر رہے تھے۔ ایک شخص نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کونڈے کو دونوں طرف سے جکڑ رکھا تھا۔ اور دوسرا گھونٹنے کا ایک لمبا چوڑا ڈنڈا، جو نیچے سےکم موٹا اور اوپر سے بہت زیادہ موٹا تھا، ہاتھوں میں لیے گھما رہا تھا۔ ڈنڈے کے اوپر گھنگھرو بندھے ہوئے تھے جو چھناچھن بول رہے تھے۔ گرنتھی کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا۔
سورج غروب ہو چکا تھا، ہوابند تھی۔ جب اس کی بیوی دودھ دوہ کر گھر کے اندر جا رہی تھی۔ اس نے حسب معمول اپنی چارپائی باڑے کے قریب ڈال دی۔ جوتے اتار دونوں گھٹنوں پر کہنیاں ٹیک چارپائی پر ہو بیٹھا۔ کوؤں کے جھنڈ کے جھنڈ کائیں کائیں کرتے گاؤں کے چکر لگا رہے تھے۔ چھوٹی سی نہر کی اونچی مینڈ چکر لگاتی افق میں گم ہو رہی تھی۔ دور چند اونٹ بے مہار ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
گرنتھی کھوئی کھوئی نظروں سے افق کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ کسی کا منتظر ہو۔ جیسے آسمان سے کوئی نورانی صورت نمودار ہوگی۔۔۔ تاریکی بڑھ رہی تھی، پورا چاند بلند ہو رہا تھا۔ اتنے میں بنتا سنگھ کندھے پر پھاوڑا رکھے آ نکلا۔ بنتا سنگھ کسی عورت کو اغوا کرنے کے جرم میں ڈیڑھ برس قید بامشقت بھگت کر کل ہی اپنے گاؤں میں واپس آیا تھا، جیل کی سختیوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہ ہوا تھا، وہ بدستور ہٹا کٹا تھا۔ جب اس کو سزا ہوئی اس وقت گرنتھی گوردوارے میں آیا ہی تھا۔ قریب پہنچ کر بنتا سنگھ نے بلند آواز میں ست سری اکال کا نعرہ لگایا۔ چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کے پھاوڑے سے گاڑھا گاڑھا کیچڑ ٹپک رہا تھا۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے پوچھا، ’’گرنتھی جی! سنا ہے کچھ آپ کے خلاف جھگڑا کھڑا کیا گیا ہے۔۔۔ میں تو کل رات واپس آیا تھا۔ آج صبح سے میں چک ۱۵۶ میں ماموں سے ملنے چلا گیا تھا۔ اب میں سیدھا کھیتوں کی طرف چلا آیا۔ آخر ماجرا کیا ہے؟‘‘ بنتا سنگھ کانہ صرف اپنے گاؤں میں دبدبہ تھا بلکہ علاقہ بھر میں لوگ اس سے خم کھاتے تھے۔ جب گرنتھی نے اس کو بتایا کہ اس کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو چکا تو وہ جھلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کس کی مجال ہے کہ تم کو یہاں سے نکالے۔ گرنتھی جی! تم اسی جگہ رہوگے اور ڈنکے کی چوٹ رہوگے۔ میں دیکھوں گا کون مائی کا لال تم کو یہاں سے نکالنے کے لیے آتا ہے۔‘‘ یہ سن کر گرنتھی نے، جو اب تک بے حس سا بیٹھا تھا آنکھیں جھپکائیں، اس کی بھوؤں کو حرکت ہوئی۔ وہ مسکین آواز میں بولا، ’’اور سردار بنتا سنگھ واہگورو جانتا ہے، میں نے لاجو کو چھوا تک نہیں۔‘‘
سردار بگا سنگھ کے دو آدمی ادھر سے گزرتے ہوئے یہ باتیں سن رہے تھے۔ بنتا سنگھ ان کو سناکر بلند آواز میں للکار کر بولا، ’’گرنتھی جی! تم یہ کیوں کہتے ہو کہ تم نے اس کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ تم ہزار مرتبہ لاجو کا ہاتھ پکڑ سکتے ہو۔۔۔ میں بگا سنگھ کو بھی دیکھ لوں گا۔ بڑا نمبردار بنا پھرتا ہے۔۔۔ اور جن لوگوں نے تمہارے خلاف پنچایت میں حصہ لیا تھا، ان میں سے ایک ایک سے نبٹ لوں گا۔۔۔‘‘
اپنی بھرپور آواز میں اس نے یہ موٹی موٹی گالیاں بھی سنائیں۔۔۔ یہ خبر دونوں گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی۔۔۔ سب لوگ لاجو کو گالیاں دینے لگے۔ حرام زادی! مفت میں بچارے گرنتھی پر الزام دھر دیا۔
حاشیہ
(۱) ٹنڈ۔ مٹی کا بڑا آبخورا۔
(۲) چوری۔ مکھیاں جھلنے کے استعمال میں آتی ہے۔
(۳) چھڈی۔ چھاچھ کپڑے میں چھاننے کے بعد جو تلچھٹ سی رہ جاتی ہے اس کو چھڈی کہتے ہیں۔
(۴) دنیا کا یہ میلہ عارضی ہے۔ کوئی شخص بھی یہاں دائمی طور پر نہ بیٹھا رہےگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.