گلاب کی جڑ
’’اس کی کیا ضمانت ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ سب صحیح ہے؟‘‘ جنید صاحب نے سنہری کمانی کی عینک کا زاویہ اپنی چمکتی ہوئی دبنگ سی نظر آنے والی خاصی صحت مند ناک پر درست کرتے ہوئے کہا۔ ان کے پکے جامنی رنگت چہرے پر سوالیہ سنجیدگی بڑی واضح تھی۔
‘’سوال یہ ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر آپ کوشک کیوں ہے؟‘‘ عباد صاحب نے ہلکا سا تعجب عیاں کرتی اپنی خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ بڑی نرمی سے پوچھا۔
‘’شک کرنا پڑتا ہے جناب‘‘ جنید صاحب کی قدرے کرخت آواز میں استقلال تھا اور قدرے جارحانہ لہجے میں استحقاق۔ ’’آپ کی دعاسے خاصہ تجربہ حاصل ہے اس خاکسار کو۔ اپنے وسیع و عریض تجربے کی بنا پرہی کہہ رہا ہوں کہ آج کل لوگ اپنے متعلق ہر بات کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں، صریحاً جھوٹ بولتے ہیں، متاثر کرنے کے لیے سینک کوبانس بناکر پیش کرتے ہیں۔‘‘
‘’بھائی میں ایک ذمے دار آدمی ہوں اور۔۔۔’‘
‘’یہ تو آپ کہہ رہے ہیں’‘ جنید صاحب نے عباد صاحب کی بات کاٹی ’’برا مت مانئے۔۔۔ دنیا کا کاروبار سب عیاں ہے اس ناچیز پر۔۔۔ دنیا دیکھی ہے میں نے۔۔۔ ایک سے ایک مکار اور دروغ باف بھرا پڑا ہے اس نامعقول دنیا میں۔۔۔ حقیقت ہوتی کچھ ہے، بتاتے کچھ ہیں۔۔۔ اب میں آپ کو بتاؤں۔۔۔ اسی سلسلے میں، یعنی جس سلسلے میں آپ سے گفتگو ہوتی رہی ہے، ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے دریافت کیا’’ آپ کے بیٹے کا مشغلہ کیا ہے؟ بولے: ’’اس کا اپنا بزنس ہے۔‘‘ میں سمجھاکچھ اکسپورٹ وغیرہ کابزنس ہو گا۔ تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ کالونیوں میں شام کو ہفتہ وار لگنے والی بازاروں میں فٹ پاتھ پر دری بچھا کر انگوچھے اور رومال بیچتا ہے۔۔۔ ایک شیخ صدیقی صاحب کی جرات ملاحظہ فرمائیے۔۔۔ اس نجیب الطرفین سیدزادے کی پری چہرہ بیٹی کا رشتہ مانگنے آ گئے۔ جی تو چاہا کہ جوتے مارکر گھر سے نکال دوں، مگر پشتینی شرافت آڑے آئی، دریافت کیا کہ صاحب زادے کرتے کیا ہیں؟ ‘‘فرمایا:’’ ریونیو ڈپارٹمنٹ میں افسر ہے۔ ‘‘وضاحت طلب کی تو معلوم ہوا کہ تحصیل میں پٹواری ہے۔۔۔ مطلب یہ کہ لوگ ہر معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ اس لیے شک کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو برا لگتا ہے تو لگے۔۔۔ میں ذرا صاف گو واقع ہوا ہوں۔۔۔ منھ پھٹ۔۔ لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ کیوں رکھوں؟ کسی کا دبیل تو ہوں نہیں۔‘‘
عباد صاحب بڑے تحمل اور بڑی متانت سے سن رہے تھے۔
‘’اور صاحب‘‘ ایک لمحے کے توقف کے بعد جنید صاحب نے سلسلہ کلام آگے بڑھایا ’’میں آپ کو بتاؤں، پتہ نہیں جے بی ایچ ہالڈین کا نام آپ نے سنا ہے کہ نہیں۔۔۔ ایک بڑا دانشور اور مضمون نگار گزرا ہے۔ اس نے ایک معرکہ آرا مضمون لکھا ہے Duty of Doubt ۔۔۔ یعنی تشکیک ازبس ضروری ہے۔ وہ کہتا ہے شک کو فرض بنا لو، تبھی کسی قسم کی ترقی ممکن ہے۔۔۔ یہ دنیا جو آج اس شکل میں ہمارے سامنے ہے یہ شک کا نتیجہ بھی ہے، ثمرہ بھی۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آئےگی۔ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ شک کرنے سے آدمی تفتیش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تفتیش کا اگلا قدم ہے تحقیق۔ تحقیق حقیقتوں کو عیاں بھی کرتی ہے اور بہت سے نئے زاویوں کو بےنقاب بھی کرتی ہے۔ تحقیق علم کے نئے دریچے وا کرتی ہے، نئے علوم، نئی ایجادات کی تحریک دیتے ہیں، نئی ایجادات بنی نوع انسان کی خوش وقتی و خوش بختی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے شک کرنا تو بےحد ضروری ہے۔۔۔ اس معاملے میں تو مجھے شک کرنے کا اور بھی حق پہنچتا ہے کہ میں ہیرے جیسی بیٹی کا باپ ہوں۔ خوب اچھی طرح ٹھونک بجا کر دیکھنے اور مطمئن ہونے کے بعد ہی میں اپنی بیٹی کا رشتہ طے کروں گا۔ اکلوتی اولاد ہے۔۔۔ آپ نے تو دیکھا ہے اسے۔۔۔ صبح دم کھلے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند خوب صورت ہے۔۔۔ انتہائی نازک طبع۔۔۔ کسی ایرے غیرے سے تومیں اپنی بیش قیمت بیٹی کی شادی کرنے سے رہا۔۔ خوب دیکھ بھال کر ہی کوئی قدم اٹھاؤں گا۔۔ بہت سے لوگ منھ پھیلائے کھڑے ہیں اپنے بیٹوں سے میری بیٹی کا رشتہ کرنے کے لئے۔ کوئی اپنے کو لکھ پتی بتا رہا ہے، کوئی خود کو کروڑپتی گنا رہا ہے؟ کوئی اپنا سلسلۂ نسب نادر شاہ درانی سے جوڑ رہا ہے، کوئی اپنا رشتہ احمد شاہ ابدالی سے بتا رہا ہے، کوئی اپنے خاندان کا سکہ اچھال رہا ہے، کوئی اپنے پردادا کا منصب ابال رہا ہے، کوئی اپنی شیخی بگھار رہا ہے، کوئی اپنی پٹھانی سینک رہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک سے ایک نامعقول اور جھوٹا شخص کھڑا ہے اپنے نام نہاد معقول بیٹے کو لیے۔ چنانچہ ناز و نعم سے پالی اپنی اس گل رخ و گل بدن بیٹی کی شادی کسی بھی جوان سے کرنے سے قبل اگر میں اس کے، اس کے والدین، اس کے خاندان، اس کے ماضی، اس کے حال اور اس کے مستقبل میں ترقی و بہبودی کے امکانات کے متعلق پوری طرح سے مطمئن ہو جانا چاہتا ہوں تو ایمان سے کہئے اس میں غلط کیا ہے؟‘‘
‘’قطعی غلط نہیں ہے’‘ عباد صاحب نے بڑے خلوص سے سر کو تائیدی جنبش دی ’’مکمل طورسے مطمئن ہونے کے بعد ہی ان معاملات میں پیش قدمی کرنی چاہئے۔‘‘
‘’چلئے بات جلدی ہی آپ کی سمجھ میں آ گئی، ورنہ توایسے ایسے احمقوں سے پالا پڑتا ہے کہ اب میں کیا کہوں؟ ایک سے ایک گدھا قدم قدم پر موجود ہے ہماری قوم میں۔۔۔ ذرا سا کچھ کہئے، دولتی چلانے لگے، دیر نہیں لگتی بھڑکنے میں۔ مگر مجھے کسی کے تڑکنے بھڑکنے کی نہ کبھی پروا رہی ہے، نہ اب ہے۔ میری بیٹی کے لیے رشتوں کی کمی توہے نہیں۔ وہ ہے ہی اتنی خوش خصال و خوش جمال کہ جو دیکھتا ہے فی الفور اس کا شیدا ہو جاتا ہے اور اسے اپنے گھرکی رونق بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے میں آگے بڑھنے سے قبل ہر اعتبار سے مطمئن ہو جانا چاہتا ہوں۔ تو کب آؤں آپ کے گھر؟‘‘
‘’جب جی چاہے’‘ عباد صاحب کی بڑی بڑی کچھ بھوری سی آنکھوں میں بھی خلوص تھا اور سرخ و سپید وجیہہ چہرے پربھی۔’’بس پہلے سے ذرا فون کر دیجئے گا تاکہ اس وقت میں گھر پہ موجود رہوں۔‘‘
‘’بہتر ہے۔۔۔ اور بلکہ فون کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔۔۔ معاملات جتنی جلد روشنی میں آ جائیں اتنا ہی اچھا ہے۔‘‘ جنید صاحب نے اپنی گول ٹوپی سرپہ رکھتے ہوئے کہا: ’’میں ریں ریں ٹیں ٹیں میں یقین نہیں رکھتا۔ جو کرنا ہے، کر گزرو۔۔ میں کل صبح ہی آ جاتا ہوں۔۔۔ وہ مکان بھی دیکھ لوں گاجسے آپ اپنا کہہ رہے ہیں اور آپ لوگوں کا رہن سہن، معیار زندگی اور سماجی حیثیت کا اندازہ بھی ہو جائےگا۔ یہ کارجس پر آپ آئے ہیں آپ ہی کی ہے یاکسی دوست وغیرہ سے وقتی طور پر عاریتاً لی ہے؟ اکثر لوگ رعب ڈالنے کے لئے یہ بھی کرتے ہیں۔‘‘
‘’جی نہیں’‘ عباد صاحب نے بڑے انکسار سے دھیرے سے ہنس کر کہا ’’کسی وغیرہ کی نہیں ہے، میری اپنی ہی ہے۔‘‘
‘’لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی ہوگی‘‘ جنید صاحب نے لاپروائی سے اپنا خیال ظاہر کیا۔
‘’جی نہیں، چار لاکھ کی ہے’‘ عباد صاحب نے پھر بڑے انکسارکے ساتھ بتایا۔
‘’کب خریدی تھی؟‘‘ جنید صاحب نے دریافت کیا اور شیروانی کی جیب سے رومال نکالنے لگے۔
‘’چار ماہ قبل‘‘ عباد صاحب نے بتایا۔
‘’نئی خریدی تھی یاسیکنڈہینڈ؟‘‘ جنید صاحب نے پوچھا تو رومال سے عینک کے شیشے صاف کرنے لگے۔
‘’نئی ہی خریدی تھی‘‘ عباد صاحب کے لہجے میں اب بھی انکسارتھا۔
‘’تب تو شو روم سے نکلوائی ہو گی؟‘‘ جنید صاحب نے عینک ناک پر جماتے ہوئے سوالیہ آواز میں اپنی رائے ظاہر کی۔
‘’جی ہاں۔‘‘
‘’پھر تو میں رسید بھی دیکھنا چاہوں گا۔‘‘ جنید صاحب نے کہا۔
‘’نو پرابلم‘‘ عباد صاحب نے متانت کے ساتھ سرہلایا۔
اگلے دن صبح دس بجے جنید صاحب، عباد صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ پندرہ بائی پچیس کا ڈرائنگ روم، سادگی لیکن قیمتی سامان سے آراستہ تھا۔ پورے فرش پر گہرے سبزرنگ کا قالین تھا، بالکل ماڈرن قیمتی صوفہ، ایک طرف پڑا ہوا دیوان بھی کافی قیمتی لگ رہا تھا، اس پر فوم اور کوائر کا گدا تھا اور ہلکے کاسنی رنگ کی بےداغ چادر اور دو گاؤ تکیے۔ دروازوں اور بڑی بڑی کھڑکیوں پر ساٹن کے جو پردے تھے ان کی زمین بھی کاسنی تھی اور اس پر میڈیم سائز کے ہلکے گلابی رنگ کے پھول اور ہلکے سبزپتوں والے پرنٹ تھے۔ ایک کونے میں اونچی چمکتی کینٹ پر ٹی وی رکھا تھا، دوسرے چھوٹی میز پر کمپیوٹر۔ چھت میں درمیان میں کانچ کا قیمتی جھاڑفانوس لٹکا تھا۔ ڈرائنگ روم میں اے سی لگا تھا۔
‘’جی ہاں۔‘‘ یہ مکان دراصل میں نے اپنے محکمے سے قرض لے کر بنوایا تھا۔ بیس برس تک اس کی قسطیں ادا کیں۔ ’’رٹائرمنٹ سے دوبرس قبل ساراقرض ادا ہو گیا اور مکان کی رجسٹری مجھے مل گئی۔‘‘ عباد صاحب نے بتایا۔
‘’میں دیکھنا چاہوں گا ریجسٹری‘‘ جنید صاحب نے کہا۔
‘’نو پرابلم‘‘ کہہ کر عباد صاحب نے سنٹرٹیبل پر رکھے اپنے بیگ سے مکان کی ریجسٹری نکال کر جنید صاحب کو پکڑا دی۔
جنید صاحب نے عینک کا زاویہ ناک پردرست کر کے ریجسٹری کوغورسے پڑھنا شروع کیا۔ تقریباً تین منٹ تک پڑھتے رہے، پھر ریجسٹری عباد صاحب کو واپس کر کے بولے ‘’یہ آپ نے بڑی عقلمندی کا کام کیا کہ ملازمت کے دوران ہی مکان بنوا لیا۔‘‘
‘’شکریہ‘‘ عباد صاحب نے بڑی متانت کے ساتھ سپاس گزاری کا اظہار کیا اور بولے ‘’مکان تو بنوانا ہی تھا۔ ایک ہی بیٹا ہے، تعلیم و تربیت کے علاوہ کچھ تو ہونا چاہئے تھا اسے دینے کے لیے اور۔۔۔’‘
‘’یہ بھی اچھا ہے کہ ایک ہی بیٹا ہے۔‘‘ جنید صاحب نے بات کاٹی ’’کل کو مکان کا کوئی اور حصے دار نہیں کھڑا ہوگا۔۔۔ صاحب، جائداد اس معاملے میں بڑی واہیات ہوتی ہے، سگے بھائیوں میں عداوت کی بنا و بنیاد بن جاتی ہے۔۔۔ مگر آپ کے یہاں اس کا کوئی امکان نہیں۔۔۔ وہ آپ فرما رہے تھے کہ آپ جوائنٹ سکریٹری کے عہدے سے رٹائر ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ذرا تشفی چاہوں گا۔۔۔ بات یہ ہے کہ رعب جھاڑنے کے لیے لوگ اکثر ان معاملات میں تو خاص طور سے دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ قانون گو اپنے کو نائب تحصیلدار بتاتا ہے،نائب تحصیلدار خود کو ایس ڈی ایم۔‘‘
‘’یہاں ایساکچھ نہیں ہے۔‘‘ عباد صاحب کے کھلے ہوئے چہرے پر متین تبسم تھا ’’میں مرکزی حکومت میں مختلف وزارتوں میں آٹھ سال تک انڈرسکریٹری، چھ سال تک ڈپٹی سکریٹری، چار سال تک ڈائریکٹر اور دوسال تک جوائنٹ سکریٹری رہا۔ اگلے پروموشن یعنی ایڈیشنل سکریٹری کے عہدے تک پہنچنے سے قبل ہی سبکدوشی کی عمر نے آ پکڑا۔ رٹائرمنٹ سے قبل میں نے اپنی سروس بک کی فوٹو کاپی کروا کے رکھ لی تھی۔۔ آج وہ کام آ گئی۔ یہ دیکھئے’‘ کہہ کر عباد صاحب نے اپنے بیگ سے سروس بک کی فوٹوکاپی نکال کر جنید صاحب کو دی۔ جنید صاحب بڑے انہماک سے اس کا جائزہ لینے میں مصروف ہو گئے۔
تقریباً پانچ منٹ کے بعد انھوں نے کاپی عباد صاحب کوواپس کی اور بولے ‘’ذرا بیٹے کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بھی مطمئن کر دیجئے۔ بات یہ ہے کہ عام طریقے سے لوگ اپنی اولادوں کی عمر چھپاتے ہیں، اسکول کے ریکارڈ میں کم کر کے لکھاتے ہیں۔۔۔ کم از کم دوسال کی ڈنڈی تو ہر شخص مار ہی دیتا ہے۔‘‘
‘’میرے ساتھ ایساکچھ بھی نہیں ہے’‘ عباد صاحب کی متانت قائم رہی۔ ’’میرا بیٹا صفدر جنگ ہاسپٹل میں پیدا ہوا تھا، وہیں سے اس کی پیدائش کاسرٹی فکٹ دیا گیا تھا۔ اس میں کسی ہیرا پھیری کا سوال ہی نہیں۔۔۔ سرکاری اسپتال ہے۔۔۔ یہ رہاسرٹی فکٹ۔‘‘
عباد صاحب کے ہاتھ سے سرٹی فکٹ لےکر اس کا جائزہ لینے اور جائزہ ختم کرنے کے بعد سرٹی فکٹ عباد صاحب کو واپس کرتے ہوئے جنید صاحب بولے ‘’اب ذرا صاحب زادے کی تعلیمی۔۔’‘
‘’یہ رہیں بیٹے کی ڈگریاں’‘ عباد صاحب نے ان کی بات کاٹی اور ڈگریاں بیگ سے نکال کر جنید صاحب کو پکڑا دیں ان کا مطالعہ کرنے کے بعد جب جنید صاحب نے ڈگریاں عباد صاحب کو واپس کیں تو عباد نے انھیں ایک اور کاغذ پکڑا کر کہا ’’یہ ہے لارسن فنانسز کا اپوائنٹ منٹ لیٹر جہاں بیٹا تین سال سے کام کر رہا ہے اور یہ ہے بیٹے کی تنخواہ کا گوشوارہ جو اپریل میں کمپنی اپنے ملازمین کو دیتی ہے۔ اس میں بیٹے کی تنخواہ مع تمام الاؤنسزکے درج ہے۔ آج بیٹا سترہزار روپیہ ماہانہ تنخواہ پا رہا ہے۔ دس ہزار روپیہ ماہانہ انکم ٹیکس مجرا ہو جاتا ہے۔۔۔ ساٹھ ہزار کا چک بیٹا ہر ماہ گھر لاتا ہے۔۔۔ سب کچھ اس گوشوارے میں درج ہے۔‘‘
بڑی باریکی سے ان چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد کاغذات عباد صاحب کوواپس کرتے ہوئے جنید صاحب نے کہا ’’وہ کار کے متعلق۔۔۔’‘
‘’جی جی۔۔۔’‘ عباد صاحب ان کا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی بولے اور بیگ سے نکال کر کار کے کاغذات بھی جنید صاحب کو دیتے ہوئے کہا ’’یہ رہے کاغذات۔‘‘
کچھ دیر بعد کاغذات عباد صاحب کو واپس کرتے ہوئے جنید صاحب نے کہا ’’میں مطمئن ہو گیا۔‘‘
عباد صاحب نے کہا ’’الحمد للہ۔‘‘
اسی وقت چائے آ گئی۔ چائے نوشی کے دوران ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔
چائے کے بعد جنید صاحب نے کہا ’’تواب اصل موضوع پر آیا جائے تاکہ شادی کے سلسلے میں پیش قدمی کی جائے۔‘‘
‘’قطعی پیش قدمی کی جائے۔۔۔ گی‘‘ عباد صاحب ‘’جائے’‘ اور’’گی‘‘ کے درمیان خاصہ وقفہ دے کر بڑے خلوص کے ساتھ بولے۔۔۔ ‘’مگر اس میں ابھی بھی کچھ وقت لگےگا۔۔۔ دراصل آپ کے مرشد و مقتدا حضرت جے بی ایچ ہالڈین کا وہ مضمون’’ ڈیوٹی آف ڈاؤٹ ‘‘میں نے بھی پڑھا ہے۔ واقعی کیسی کیسی نکتے کی باتیں نکال کر لائے ہیں موصوف! سب سے بڑے نکتے کی بات یہ ہے کہ اس مضمون نے مجھے بھی شک کرنے کی ترغیب۔۔۔ نہیں، ترغیب نہیں۔۔۔ تحریک۔۔ شک کرنے کی تحریک مجھے بھی عطا کر دی ہے، چنانچہ میرا بھی ایک شک دور کر دیجئے۔‘‘
‘’ضرور ضرور‘‘ جنید صاحب نے اپنی چھتری چھتری خضاب زدہ داڑھی پر بڑے وقار سے ہاتھ پھیرا۔
عباد صاحب نے کھکھار کر صاف گلے کو مزید صاف کیا اور بولے ‘’میں نے اس لڑکی کو دیکھا ہے جسے آپ اپنی بیٹی کہتے ہیں۔ بقول آپ کے اس کا چہرہ دیکھ کر واقعی گلاب کا پھول یاد آ جاتا ہے، مگر آپ کے چہرے کو دیکھ کر گلاب کی جڑ یاد آتی ہے۔ اس لڑکی کو دیکھنے کے بعد آپ کو دیکھ کریا آپ کو دیکھنے کے بعد اس لڑکی کو دیکھ کر شک پیدا ہوتا ہے کہ۔۔ کہ۔۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کیا شک پیدا ہوتا ہے۔۔۔ چنانچہ کوئی ایساپختہ ثبوت پیش کر دیجئے جس سے یقین کیا جا سکے کہ وہ لڑکی آپ کی ہی بیٹی ہے’‘ ۔۔۔ ‘’ہی‘‘ پر عباد صاحب نے خاصہ زور دیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.