Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گم گشتہ ورق

صبیحہ انور

گم گشتہ ورق

صبیحہ انور

MORE BYصبیحہ انور

    ایک عورت کی دنیا ہوتی ہی کتنی بڑی ہے۔ دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ بھر بھی نہیں۔ زندگی کے چند پڑاؤ، کچھ خاص واقعات اور اردگرد کے اہم اور غیراہم کردار، جن میں ہر ایک کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ امید، کامیابی، محرومی، انتظار، تعجب، شوق اور بے یقینی کے رنگوں کے امتزاج سے پوری زندگی کی تصویر بہ آسانی پینٹ کی جاسکتی ہے۔ صبح سے شام اور شام کو صبح کرنے میں پوری زندگی کیسے گزرتی چلی جاتی ہے کہ اس کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ یہ خیال تو رہتا ہے کہ اردگرد بہت کچھ اہم ہے جو چھوٹ رہا ہے۔ کیا چھوٹ رہا ہے، یہ دیکھنے کی ہمت اپنے اندر نہیں ہوتی۔

    یہ بات کہاں سے نکلی ہے، اس کے لیے یہ بھی بتانا ہوگا کہ میرے گھر میں جہاں بہت سی آرائشی اشیا سلیقے سے سجی ہیں، میرے گھر آنے والے لوگ میرے سلیقے کی تعریف کرتے ہیں، ان کی داد بھری نظریں میری خوش ذوقی کو تسکین د یتی ہیں، ایسے میں میرے بیڈروم میں سرہانے شیلف پر رکھا ہوا یہ پرانا مٹی کا تیل کا لمپ جس کا روشنی کو پیچھے پھیلنے سے روکنے والا شیڈ عقاب کے پروں کی طرح پھیلا ہوا ہے، لمپ کا درمیانی حصہ عقاب کا گول پیٹ ہے جس میں تیل بھرا جاتا ہوگا۔ عقاب کے پروں کی نقاشی سیاہ ہوچکی ہے۔ جب اس باریک نقاشی میں رنگ بھرے ہوں گے تو یہ یقینا ً بہت خوب صورت ہوگا۔ رنگ نکل جانے کے بعد آج اس عقاب کی بے نور سیاہ آنکھ اور نوکیلی چونچ کی بدصورتی ہی دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے۔ پیتل کے اس سیاہ لمپ کی(طرح) لوگوں کے سوالیہ اشارے مجھے اکثر ملتے رہتے ہیں۔

    مجھے معلوم ہے کہ ماضی سے الگ ہوجانے کا خوف انسانی ذہن کی ایک نفسیاتی گرہ ہے۔ یہ عدم محفوظ کا احساس ایک طرح کا فوبیا ہے کہ وہ جس دنیا میں رہتا ہے اس کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ پرانی یادوں کے بغیر تو اس کی دنیا اجڑ جائے گی۔ وہ چاہ کر بھی اس سے الگ ہونے کی ہمت نہیں کرپاتا ہے۔ میں نے یادوں کو اپنے اندر اپنی دادی اماں کے آبنوس کے صندوقچے کی طرح پایا ہے۔ دادی اماں کے تختوں کے پاس والی الماری کے خانے میں رکھا صندوقچہ، جو ضرور کبھی سنگھار دان کی طرح استعمال کیا جاتا ہوگا کیونکہ اس کے اوپری کھلنے والے پٹ میں آئینہ لگاتھا۔ صندل کی مخصوص مہک والے صندوقچے میں بے شمار خانے تھے۔ چھوٹے، بڑے لمبے، چوکور سب خانے پیتل کی کمانی کے ساتھ اوپر اٹھ آتے تھے اور ان کے نیچے سے پھر دوسرے خانے نمودار ہوجاتے۔ کچھ خانوں میں ایسے پھول بنے تھے جن کے دبانے سے دوسرے خانے نکل آتے۔ صندوقچے کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس صندوقچے میں حیرت کی پوری دنیا گم ہے۔

    اس صندوقچے کی تفصیل کے ساتھ یہ خلش بھی یاد ہے کہ د ادی ا ماں نے ہمیں کبھی اپنے صندوقچے کو اطمینان اور یکسوئی سے د یکھنے کا موقع نہیں دیا۔ کھلے صندوقچے سے ہماری دلچسپی دیکھ کر دادی اماں جلدی سے پٹ بند کرکے چابی گھمادیتیں۔ انہیں اپنی ر یزگاری او ر چھوٹے موٹے زیور اور یادداشت کی پرچیوں کے گم ہوجانے کا خیال رہتا اور ہماری توجہ ان چھوٹے چھوٹے خانوں پر ہوتی جو پل بھر میں غائب ہوجاتے ہیں۔۔۔ موجود ہوتے ہیں مگر نظر نہیں آتے ہیں۔ صندوقچے کی صندلی مہک اور کمانی کے کھٹکے کی اٹھنے والی آواز یادداشت میں آج بھی پرانی نہیں ہوئی۔۔۔ آج پتہ نہیں وہ صندوقچہ کیا ہوا؟ کہاں گیا؟

    جگہ جگہ سے سیاہ اور اس بدقطع سے لمپ پر نظر ڈالتے ہوئے آج کے زمانے کی طرح تیز رفتار اور موقع شناس میری بیٹی نے ایک بار عقاب کی نوکیلی چونچ اپنی انگلی میں چبھوتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پتہ نہیں ایک زندگی میں آپ لوگوں نے کتنی زندگیاں گزاری ہیں۔ آپ کی زندگی میں کتنے لوگ، کتنے قصے، کتنی چیزیں ہیں! اتنے چہروں، اتنے رشتوں کے ساتھ زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ ہماری تو بھئی یہی ایک زندگی ہے، ہم اسی میں خوش رہتے ہیں۔ زندگی اکہری ہونا چاہیے، کتنی لیئرز ہیں۔ پتہ نہیں نانی کے اس لمپ میں آپ کو کیا خوبصورتی نظر آتی ہے۔ ارے بھائی تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔ یہاں شیلف پر کیوں بیٹھا ہے؟‘‘

    اس نے اپنی عادت کے مطابق کندھے جھٹکے تھے اور داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا تھا۔ اقبال کا مصرعہ برمحل جو پڑھا تھا۔ اس کی بات سن کر میں مسکرادی اور رشک سے اس پر نظر ڈالی۔ ایک زندگی میں ایک ہی زندگی گزارنے والے کتنے ہلکے پھلکے رہتے ہیں۔

    اس لمپ کی سیاہی میں کہیں کہیں سے دکھتی ہوئی سنہری چمک مجھے کسی گم گشتہ کہانی کی یاد دلاتی، وہ کہانی جس کے شروع اور آخر کے اوراق گم ہوگئے ہوں مگر درمیانی صفحات اتنی خوبصورت کہانی سنا رہے ہوں کہ بار بار اس ا مید سے پڑھنے کو دل چاہے کہ کہیں اس کا کوئی سرا مل جائے اور کہانی مکمل ہوجائے۔ لمپ کی طرف دیکھتی ہوں تو بہت کچھ یاد آتا ہے۔

    گرمیوں کے دن تھے۔ کئی سال بعد میں نے چھٹیوں کے فرصت بھرے دن اماں کے ساتھ گزارے تھے۔ پوری دوپہر اماں کی مسہری کے پاس تختوں کے چوکے پر میں نے گاؤ تکیے کے سہارے نیم دراز ہوکر باتیں کرتے ہوئے گزاردی تھی۔ میری کم سخن اماں نے اس دن مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کی تھیں۔ باتوں کے درمیان وہ اکثر گلوگیر بھی ہوجاتی تھیں۔ آنکھوں سے نکلنے والے آنسو آنکھوں کے سرے پہ ٹکے رہنے کے بعد کان کی گلابی لو سے ہوتے ہوئے دوپٹے پر گرکر گم ہوجاتے۔ جولائی کا مہینہ شروع ہوچکاتھا۔ میرے اور بچوں کے اسکول کھلنے والے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے دن شام کو بارش کا تیز چھینٹا پڑتا اور راتیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ آموں کی کھٹی میٹھی مہک ہروقت فضا میں رچی رہتی۔

    اس دوپہر کو اماں نے اپنے بچپن کی بہت سی یادیں دہرائیں۔ اپنے ان دوستوں، عزیزوں اور ہم عمر ساتھیوں کو یاد کیا جو ملک کی تقسیم اور پھر زمینداری کے خاتمے کے بعد روزگار کی تلاش اور سیاست کی پیچیدگیوں میں گم ہوگئے تھے۔ تقسیم نے ملک کو ہی نہیں خاندانوں اور دلوں کو تقسیم کردیا، دور یوں نے انسانوں اور ان کی محبتوں کونگل لیا۔

    میں چپ چاپ بیٹھی اماں کا منھ دیکھ رہی تھی کہ ہر بات انہیں اتنی تفصیل سے یاد ہے۔ خاموش طبیعت کم آمیز اماں کو میں نے اتنی دیر تک باتیں کرتے کم ہی دیکھا تھا۔ اماں کاہم سب سے الگ بھی کچھ ہے، اس کا اندازہ پہلی بار مجھے جولائی کی اس السائی ہوئی دوپہر میں ہوا۔ اماں نے باتوں کے درمیان نانا ابا کے گھر کا نقشہ دہراتے ہوئے بتایا کہ ابا کے یہاں بڑے کمرے میں جہاں دیوار سے لگا تخت بچھا تھا وہیں پہلے دیوار پر ایک کھڑکی تھی۔ کھڑکی کے نیچے لگی چمیلی کی جھاڑی باہری میدان میں تھی مگر چمیلی کی خوشبو شام سے گھر بھر میں بس جاتی۔ اماں جب کھڑکی کو یاد کر رہی تھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے چمیلی کی ڈالوں کے بیچ کھڑکی کھل گئی ہو اور کھڑکی سے پھاٹک تک سارا منظر دکھائی دے رہا ہو۔

    اماں نے بتایا کہ ہمارے کالج کا تانگہ ہم کھڑکی سے ہی دیکھ لیتے تھے۔ تانگے میں اپنی دوستوں کو دیکھ کر ہم پہلے کھڑکی سے ہاتھ ہلاتے اور کتابیں لے کر باہر بھاگتے۔ پھر رفتہ رفتہ گھر میں لوگ کم ہوتے گئے۔ رونقیں کم ہوتی گئیں۔ سناٹا پھیلتا گیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد تنہائی اور حفاظت کے خیال سے ایک دن وہ کھڑکی بند کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ کھڑکی چنوائے جانے کا ذکر کرکے اماں خاموش ہوگئیں اور خود ہی موضوع بدل دیا اور ملک کے بٹوارے، بٹوارے کے بعد ہونے والے فسادات اور گاندھی جی کی شہادت کے دن کے واقعات دہرانے لگی تھیں۔ ان کو اس دن کی ایک ایک بات تفصیل سے یاد تھی۔

    اماں دھیرے دھیرے بول رہی تھیں کہ صبح گیارہ بجے کے قریب سب لوگ ناشتے کے بعد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، وہ دن بہت بے چینیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا کہ اماں کی ایک پھوپھی جو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد اپنے میکے میں ابا یعنی اپنے بھائی کے پاس رہتی تھیں، بہت سادہ لوح، عبادت گزار بیوی تھیں، خلاف معمول اپنے کمرے سے نکل کر باہر دروازے تک آئیں۔ وہیں دروازے پر سب سے باتیں کرتے کرتے اچانک جیسے انہیں کچھ یاد آیا۔ کہنے لگیں ’میں نے رات خواب میں دیکھا کہ گاندھی جی کو کسی نے گولی ماردی۔ انہوں نے اپنے سینے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ ’گاندھی‘وادی ابا کھانے کی میز پر اخبار پھیلائے بیٹھے تھے۔ اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ ’’باجی آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ارے بھائی کوئی ان کو سمجھاؤ۔‘‘ گھبراہٹ میں اخبار ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر ہوا میں پھڑپھڑانے لگا۔ روز کی خبروں سے بوکھلائے ابا کچھ زیادہ گھبراگئے مگر پھوپھی اپنی رو میں کجھ سمجھی نہیں۔

    اپنی بات پوری کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بھارت ماتا ان کو یوں اٹھائے تھیں۔‘‘ انہوں نے اپنے دونوں بازو آگے کردیے۔ اماں نے کہا، سب نے ان کو غور سے دیکھا۔ ان کے منہ سے ’بھارت ماتا‘ سن کر بڑا عجیب لگا۔ مگر پھوپھی ایک عالم خواب میں بول رہی تھیں۔ ابا نے مجھ سے اشارے سے کہا، ’ان کو اندر کمرے میں لے جاؤ اور پانی پلاؤ۔۔۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئی۔ پھوپی بہت دیر تک خلا میں گھورتی رہیں۔ وہ گہرے صدمے میں تھیں۔ دوگھنٹے بعد ہی ریڈیو پر گاندھی جی کے قتل کی خبر سے پورا گھر سکتے میں آگیا۔

    پھوپھی کئی روز تک شرمندہ اور چپ رہیں۔ بار بار کہتیں، ’’مجھے خواب بتانا نہیں چاہیے تھا۔ بڑا غضب ہوگیا، بھیا کو بہت رنج ہوا۔‘‘ امی نے کہا سب کوحیرت تھی کہ دنیا کے معاملات اور واقعات سے بے نیاز پھوپھی نے یہ خواب کیوں دیکھا۔

    میں یہ واقعہ اس سے پہلے بھی سن چکی تھی مگر اماں کی تکلیف اور رنج سے اس دن اندازہ ہوا کہ ملک کے بٹوارے اور اس کے ساتھ ہونے والے واقعات نے ان سے متعلق زندگیوں پر کتنی دور تک خراشیں ڈال دی تھیں۔ بٹوارے کے پچاس سال سے زیادہ گزرنے کے بعد میری ماں نے دونوں ہاتھ آپس میں اس طرح ملے تھے جیسے زندگی بھر کا سرمایہ اسی وقت ہاتھوں سے نکل گیا ہو۔ اماں نے میری طرف حسرت سے دیکھا اور ٹھنڈی سانس لے کر بولیں، ’’پھر تو جیسے زندگی بدلتی ہی چلی گئی۔ گھروں کی رونقیں، بور یے بستر کی شکل میں بندھ کر آئے دن روانہ ہونے لگیں۔ جس کو دیکھو بھرے گھر میں تالا ڈال کر دوستوں رشتہ دارں کو چھوڑ کر چل دیا۔ ہر ایک چلتے وقت یہی کہتا، ’’بہت جلد واپسی ہوگی، ہمارے گھر کا خیال رکھنا۔‘‘ لیکن واپس کوئی نہیں آیا۔۔۔ گھروں کی رہی سہی زندگیاں زمینداری ابالیشن کی نذر ہوگئیں۔ اماں بول رہی تھیں اور میں اماں کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ماضی دھند میں چھپے ہوئے کنارے کی طرح نظروں سے اوجھل ہوتا ہے مگر غائب کبھی نہیں ہوتا۔

    شام کو جب میں کمرے کی دھیمی روشنی میں صبح کی روانگی کے خیال سے اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی اور اماں آتے جاتے مجھے ہدایتیں دے رہی تھیں کہ میرا کوئی ضرروری سامان چھوٹنے نہ پائے، تبھی اماں نے مجھے کپڑے میں بندھی ایک پوٹلی تھمائی۔ میں نے چونک کر پوچھا، ’’یہ کیا ہے اماں!‘‘

    ’’کھول کر دیکھ لو۔‘‘ ان کے دوسرے ہاتھ میں اخبار میں لپٹی ہوئی کوئی چیز تھی۔ میں نے کپڑے کی تہیں کھولیں۔ پیتل کا یہی دھندلا یا ہوا لمپ تھا۔ عقاب کی شکل کا۔ اس کے دونوں بازوؤں پر نقاشی کی گئی تھی۔ نقاشی کے رنگ نکل گئے تھے۔ عقاب کا گول شیشے کا پیٹ تیل بھرنے کے لیے تھا عقاب کے نوکیلے پنجے نیچے سے لمپ کا توازن بنانے کے لیے تھے۔ ’’اماں میں اس کا کیا کروں گی۔ میں نے ہمیشہ اسے آپ کے کمرے میں دیکھا ہے، اسے وہیں رہنے د یں۔‘‘

    ’’نہیں یہ تمہارے پاس محفوظ رہے گا۔ میں چاہتی ہوں تم اسے اپنے پاس رکھو۔‘‘ اماں نے ایسے عجیب لہجے میں کہا جیسے اگر اس لمپ کی حفاظت نہ کی گئی تو عالمی جنگ چھڑجانے کا اندیشہ ہو۔ میرے سوٹ کیس میں جگہ نہ تھی مگر اماں کی حکم عدولی کرنے کا دل نہ چاہا۔ اپنا سامان باہر نکال کر لمپ کی پوٹلی اور چمنی کا پیکٹ کپڑوں کے بیچ حفاظت سے رکھ لیا اور غور سے اماں کو دیکھا۔ ان کا چہرہ آج کچھ زیادہ تھکا اور اترا ہوا تھا۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’اماں آپ آج بہت تھک گئی ہیں۔ میری باتوں میں دوپہر کو بھی آرام نہیں کرپائیں۔ آئیے آپ ذرا دیر یہاں لیٹ جائیے۔‘‘ میں مسہری کا سامان ایک طرف کرنے لگی۔ نہیں میں تھکی نہیں ہوں، کہہ کر وہ باہر چلی گئیں۔ اماں میرے جانے کے خیال سے پریشان ہیں، یہ سوچ کر میرا دل اور اداس ہوگیا۔

    یہ میری اور اماں کی آخری ملاقات تھی۔ اس کے ایک ہفتے بعد میں نے اماں کو شیشے کی دیوار کے اس پار اسپتال کے آئی سی یو کے نیم تاریک کیبن میں خاموش لیٹے ہوئے د یکھا۔ خاموشی میں صرف مشینوں کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔ اس کے بعد نہ اماں نے آنکھ کھولی نہ بات کی۔

    آج ان سے جدا ہوئے برسوں گزر گئے۔ ان بیتے ہوئے برسوں میں زندگی اور تیز رفتار ہوگئی۔ پیچھے چھوٹنے والی زندگی اور زیادہ تیزی سے پیچھے جانے لگی۔ ایک روز اپنے ایک رشتے دار کے ڈرائنگ روم میں دیوار پر لٹکے بہت سے گروپ فوٹوگرافس دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بادامی رنگ میں تبدیل ہوتے ہوئے ایک گروپ کی تصویر میں خاندان کے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کا جھنڈ تھا۔ تصویر کسی سجے سجائے دیوان خانے کی تھی۔ کچھ لوگ صوفوں پر بیٹھے تھے، کچھ پیچھے کھڑے تھے، کچھ بڑے اسٹائل سے صوفے کے بازوؤں پر ٹکے تھے۔ ایک ہم عمر لڑکی کے کاندھے پر دوستانہ انداز سے ہاتھ رکھے ہوئے اماں بھی تصویر میں تھیں۔

    میں نے ہر چہرے کو غور سے د یکھا۔ تصویر میں صوفے کے پیچھے والے آتشدان پر چمکتا ہوا عقاب کی شکل کا لمپ رکھا ہوا تھا، جس میں چمنی کے گرد دوپر پھیلے ہوئے تھے۔ لمپ تو میرے پاس حفاظت سے ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ڈرائنگ روم کے گروپ فوٹو میں مسکراتے ہوئے نوخیز چہروں میں زیادہ تر اب اس دنیا میں نہیں ہوں گے کیونکہ دنیا کی ہر شے فنا ہونے کے لیے بنی ہے۔ مگر مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ لوگ جنہیں اکہری زندگی گزارنے کا فن نہیں آتا وہ اپنی یادوں کی ذمہ داری کس کو دیں!

    میں، جس کی یادیں دادی اماں کے آبنوس کے صندوقچے کی طرح ہیں، جہاں ہر خانے کے نیچے ایک اور خانہ چھپا ہوتا ہے، کبھی کبھی تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کون سی چیز کس خانے سے نکل آئے۔ ایسے میں میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ اس بدشکل سیاہ پیتل کے لمپ کی ذمہ داری کس کو دوں۔ کاش کہ صندوقچے کی طرح یہ لمپ بھی وقت کے ساتھ کہیں گم ہوگیا ہوتا۔ ٹوٹے ہوئے جہاز کے ٹکڑوں کی طرح سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانے والی یادیں کتنی اچھی ہوتی ہیں۔ موجود رہتی ہیں مگر نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔

    مجھے اکہری زندگی گزارنا نہیں آتا۔ میرے لیے اس لمپ کی حفاظت بہت مشکل کام ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے