گمنام آدمی کی کھوج میں
کوئی بات واضح نہیں تھی۔ رنگ اسیر کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک خط آیا تھا اور اسے پڑھتے پڑھتے اسیر نے گھر سے باہر قدم رکھا اور پھر لوٹنے کا نام نہ لیا۔ اسیر کے ایک دوست کا کہنا تھا کہ خط پڑھتے ہی اسیر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ اس کی حالت غیر ہوگئی تھی۔ پھر وہ غصے کی کیفیت میں دیر تک کچھ بڑبڑاتا رہا تھا۔اس نے کہا تھا کہ وہ سب کو دیکھ لےگا۔ اور یہ کہ وہ ڈاکٹر رفیع الدین خان کی اکلوتی اولاد ہے۔ کوئی ایرا غیرا نہیں ہے وہ تو اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ اسے کسی نے جوہڑ سے نہیں اٹھایا تھا۔
بہرحال جو کچھ بھی تھااس بار اسیر اچانک ہی کسی دور پرے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اس کا اب تک لوٹ کرنہ آنا اس کے سب دوستوں کے لیئے باعث تشویش بن گیا تھا۔
اس کے ایک اور دوست نے دعویٰ کیاکہ اس کی ملاقات اسیر سے ہوئی تھی۔ وہ بہت جلدی میں تھا اور اس دوست کے استفسار پر اس نے اتنا کہا تھا کہ وہ اس بار اپنی ہی تلاش میں جا رہا ہے۔ بقول اس دوست کے وہ پوچھتا ہی رہ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور اس کے لوٹنے کا ارادہ کب تک تھا۔ مگر بقول اس دوست کے اسیر نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے تھے اور کہا تھا کہ یہ تو اسے خود بھی خبر نہیں کہ کب وہ خود سے ملتا ہے اور کب تک لوٹتا ہے۔
اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ اسیر اس طرح کی باتیں تو کیا ہی کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ جب بھی غیرممالک کے دوروں پر روانہ ہونے لگتا تو قہقہے لگاتا ہوا کہتا ’’میں زندگی کی تلاش میں روانہ ہو رہا ہوں بس جونہی ملےگی۔ دونوں ہاتھوں سے تھام لوں اور اسے ساتھ لے کر لے ہی لوٹوں گا‘‘۔ اچھنبے کی بات یہ تھی کہ وہ تا حال لوٹ کر نہ آیا تھا۔
کبھی کبھی تو ایسے یوں لگتا جیسے میرے فن کار دوست رنگ اسیر میں کوئی آمر چھپا ہوا ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتا۔ ہر ایک معاملے میں اپنی رائے کو حتمی خیال کرتا۔
دوسرے لفظوں میں اس کا حلقہء احباب ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اس کی رائے کو بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا کرتے تھے۔ لوگ شاید اسیر سے قطع تعلق کرنایوں بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ اسیر سماجی اور ثقافتی، ہر دو سطح پر اپنا ایک اثر رکھتا تھا اور اپنے احباب کے کام بھی آتا رہتا تھا۔ ہاں وہ لوگ جو رنگ اسیر سے اختلاف کرنے کی جرائت کرتے، اس کے حلقہء احباب سے جلد یا بدیر خارج ہو جاتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ راحیلہ بھی اپنے شوہر کی اس عادت سے پریشان رہتی تھی کیوں کہ اسیر اس کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ راحیلہ اس کے حلقۂ احبات کو بتا بھی چکی تھی کہ اسے اپنے شوہر کا حاکمانہ انداز فکرپسند نہیں ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی رنگ اسیر کے حلقے کی جو بہرحال فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں کی دنیا تک محدود تھی۔ یہی لوگ کہیں نہ کہیں اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتے تھے۔ یا اسیر ان کی زندگیوں پر اپنا ایک اثر رکھتا تھا۔ کچھ بھی کہہ لیجیئے رنگ اسیر فن میں یکتا تھا اور احباب اس کی اسی یکتائی کی وجہ سے بھی بس یہی لوگ اس کے گرد حلقہ کئے رکھتے تھے۔ وہ بلا شبہ ایک اچھا اور کامیاب مصور تھا۔ ایک ایسا مشاق فن کار جو جس کردار اور جس ماحول کو تصویر کرنے کا فیصلہ کارتا، رنگ اسی مناسبت سے اس کی آنکھوں کے سامنے بقول شخصے رقص کرنے لگتے۔ وہ خود کہا کرتا تھا ’’یار میں جب بھی کچھ پینٹ کرنے کا سوچتا ہوں، رنگوں کا ایک ہجوم ہے جو میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتا ہے اور جب یہ ہجوم میری آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتا ہے تو پھر میں برش اٹھا لیتا ہوں۔‘‘
وہ اکثر کہا کرتا تھا ’’رنگ مجھے کہتے ہیں کہ رنگ اسیر ہمیں اسیر کرو۔ ہمیں کہیں چھپا لو، ہمیں اس ظالم دنیا سے بچا لو اور اپنے پاس محفوظ کر لو۔‘‘
کبھی کبھی تو اسیر کی اس طرح کی باتیں اس کے دوستوں کو بہت عجیب سی لگتیں۔ مگر وہ اس سے الجھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ میں اس سے بہر حال مذاق کر لیا کرتا تھا اور دو ایک بار تو میں نے کھل کر کہا بھی تھا کہ میرے پیارے دوست اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کرو۔ میری ان باتوں پر وہ ہنس دیا کرتا اور کہتا ’’بس یہ تمہاری غلط سوچ ہے میرے بارے میں ورنہ اگر میں ایسا ہوتا تو کوئی تو مجھے بھی خبردار کرتا۔ کبھی کسی نے میری معقول بات کو رد نہیں کیا۔‘‘
لوگ جب رنگ اسیر کے بنائے ہوئے نقش و نگار اور خوبصورت تصویریں شہر کی خوبصورت آرٹ گیلریوں میں منعقدہ نمائشوں میں دیکھتے تو بےساختہ داد دیتے اس فن کار کو جو خود بھی کہتا کہ ’’میں رنگ ہوں اور کچھ نہیں۔‘‘ رنگ اسیر شاید اپنے تخلص کی رعائت سے ایسی باتیں کرتا تھا۔ وہ اکثر اپنے مداحوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتا ’’جی میں اگر مصور نہ ہوتا تو کسی جوہڑ کا کیڑا ہوتا۔ ایک لاوارث رہ جانے والا کیڑا یہ مجھے پسند نہیں تھا۔ اس لئے میں نے رنگوں کو اپنی زندگی بنا لیا۔۔۔ میں رنگوں کا حصہ ہوں۔ رنگ مجھ میں ہیں اور میں رنگوں میں ہوں۔‘‘
رنگ اسیر کہیں چلا گیا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں گیا تھا اور کیوں گیا تھا۔ اس کی اس غیر متوقع گمشدگی نے اس کے دوستوں کو حیرت زدہ اور پریشان کر دیا تھا۔ کوئی دوست ایسا نہیں تھا جس نے اپنے طور پر اسیر کا پتہ لگانے کی کوشش نہ کی ہو۔ مگر اسیر تھا کہ کہیں مل کر نہ دیا۔
اسیر کی بیوی راحیلہ نے بھی اسے تلاش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ اس کی کھوج میں کہاں کہاں نہ بھٹکی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، دوسرے سے تیسرے گئی اور پھر شاید کچھ بیرونی ممالک بھی گئی تھی اس کی کھوج میں۔ مگر اسیرکہیں نہ ملا۔ یہاں تک کہ راحیلہ کے بارے میں کہا جانے لگا کہ اس کے والدین بضد ہیں کہ اب اسے دوسرا بیاہ کر لینا چاہیئے۔
ہاں ایک بار یہ اطلاع بھی آئی تھی کہ اسیر لوٹ آیا ہے۔ مگر وہ غلط فہمی تھی۔ وہ اسیر نہیں تھا۔ محض اسیر سے مشابہت رکھنے والاایک شخص جو نہ تو اسیر کے دوستوں کو پہچان سکا اور نہ اسیر کے احباب اسے ۔وہ کوئی اور تھا۔
اسیر کے دوست البتہ اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ اصل رنگ اسیر کو یا تو کھوج لیں گے یا وہ خود بخود لوٹ آئے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.