گمراہ
کہانی کی کہانی
فکر معاش اور شہری زندگی میں الجھ کر انسان فطری حسن، قدرتی مناظر اور ماحولیات سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ زندگی کا مفہوم بہت سمٹ کر رہ گیا ہے، یہ کہانی اسی کی تذکیر کراتی ہے۔ رمیش ایک بارہ سال کا معصوم سا بچہ ہے، اس کے اسکول ٹیچر اس کے باپ سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ اکثر اسکول سے غائب رہتا ہے، اگر یہی غفلت رہی تو ان کا بچہ گمراہ ہو جائےگا۔ ایک دن تفتیش کی نیت سے جب رمیش کے پیچھے پیچھے اس کا باپ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ رمیش بازی گر کا تماشا دیکھ رہا ہے، سانپ اور سنپیروں کے بچوں سے کھیل رہا ہے، ندی کے کنارے بیٹھ کر شکار دیکھ رہا ہے، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ہر جگہ کے بچے، بڑے، بوڑھے اس سے مانوس نظر آ رہے ہیں اور اسے مسکرا کر دیکھ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے اور پھر وہ رمیش کے ساتھ دن بھر یونہی گھومتا رہتا ہے۔ گھر واپس آنے کے بعد رمیش اس کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے کا وعدہ کرتا ہے اور اپنے وعدہ پر قائم بھی رہتا ہے لیکن اسی دن سے رمیش کا باپ اس زندگی کی تلاش میں حیران و پریشان رہتا ہے۔
صبح کے وقت میں حجامت بنا رہا تھا۔ سامنے بڑا سا آئینہ، ہاتھ میں سیفٹی ریزر اور چہرے پر صابن کا جھاگ۔ کون نہیں جانتا کہ ایسے موقع پر چہرہ کیسی کیسی صورتیں اختیار کرتا ہے۔ معاً میرے منہ کا دہانہ ایک مخصوص انداز سے کھلا تو میرا سیفٹی ریزر والا ہاتھ ساکت ہو گیا۔ اپنے منہ کا واشگاف دہانہ دیکھ کر کسی بات کی یاد تازہ ہوگئی۔ خدایا۔۔۔! کیا بات تھی وہ! چند لمحوں تک میرا دماغ عجیب الجھن میں پھنسا رہا۔ میرے منہ کے اس انداز سے کھلنے کا کسی واقعے سے تعلق تھا۔۔۔ وہ واقعہ کیا تھا؟
رفتہ رفتہ ذہن کے دھندلکے میں مجھے ایک اور کھلا ہوا منہ نظر آنے لگا۔ وہ چہرہ مجھ سے زیادہ عمر رسیدہ تھا۔ ناک پلپلی سی، باچھوں کے دونوں طرف جھاڑ جھنکاڑ کی طرح الجھی ہوئی زردی مائل سفید مونچھیں لٹک رہی تھیں۔ منہ کے اندر دانت حاضر کم اور غائب زیادہ تھے۔ یہ ماسٹر جانکی داس جی کا چہرہ تھا۔ پچھلی شام جب میں نے ان کا منہ اس انداز سے کھلا ہوا دیکھا، تو قصہ علی بابا میں چالیس چوروں کے غار کا نقشہ کھنچ گیا۔ میرے سامنے ان کا منہ اس انداز سے تیسری بار کھلا تھا۔
ماسٹر جانکی داس مجھ سے چھ سات برس بڑے ہوں گے۔ وہ کتابوں کا کیڑا تھا اور میں فائلوں کا۔ عمر میں زیادہ تفاوت نہیں تھا اور نہ میری زندگی مصائب اور پریشانیوں سے مبرا تھی۔ پھر بھی ان کا چہرہ کہیں زیادہ تکان زدہ اور بوڑھا دکھائی دیتا تھا۔ غالباً مالی حیثیت سے جانکی داس کے حالات مجھ سے زیادہ خراب تھے۔۔۔ لیکن یہ موضوع کبھی زیر بحث نہیں آیا۔ ایک محلےمیں رہتے ہوئے بھی میں ان کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ رمیش کے کلاس ٹیچر تھے اور وہ محض یہ جانتے تھے کہ میں ان کے اس شاگرد کا باپ تھا۔ ماسٹر جانکی داس نے پچھلی شام مجھے تیسری بار اطلاع دی کہ رمیش اسکول سے اکثر غیرحاضر رہتا تھا۔ مصروفیت کے سبب میں اس مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دے سکا تھا۔ ماسٹر جی نے اسے میری غفلت سمجھا۔ چنانچہ تیسری بار یہ شکایت کرنے کے بعد آخر میں انہوں نے اپنا منہ اسی مخصوص انداز سے کھول کر گویا مجھے خبردار کیا، ’’جناب اگر یہی حالت رہے گی تو آپ کا لڑکا گمراہ ہو جائےگا۔‘‘
انہوں نے ’گم‘ اور ’راہ‘ پر الگ الگ زور دیا۔ یہ فقرہ کہتے وقت ان کے چہرے پر انتہائی اذیت کے آثار نمایاں ہو گئے۔ بات ادا ہو جانے کے بعد بھی ان کا منہ جوں کا توں کھلا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جب تک مجھے آنے والے المیہ کا پوری شدت سے احساس نہ ہو جائے تب تک ماسٹر جی اپنے کھلے ہوئے منہ کو بند نہیں کریں گے۔ لیکن مجھے ان کی شکل مضحکہ خیز سی لگی۔۔۔ یہی محسوس ہوا کہ مسئلہ کی نوعیت اتنی خطرناک اور اہم نہیں تھی جتنی کہ وہ اپنی صورت سے ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کل شام اور آج پھر مجھے محسوس ہوا کہ لفظ ’’گم راہ‘‘ کس قدر بھاری بھر کم تھا۔۔۔ یہی بات میں نے اپنی بیوی سے کہی۔ اس نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ماسٹر جی کی شکایت بجاتھی، لفظ ’گمراہ‘ کا استعمال بھی مناسب تھا، نیز مجھے جلد از جلد اس پر توجہ دینی چاہیے۔
آئینہ میں اپنی صورت کو خود میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’ابے گدھے کہیں کے! سوال یہ نہیں تھا کہ لفظ گمراہ ضرورت سے زیادہ بھاری بھرکم تھا یا نہیں، بلکہ سوال لڑکے کے مستقبل کا تھا۔ اولاد کی غلط روی کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘ شیو کے بعد نہاتے وقت میں نے تہیہ کر لیا کہ اس بات کی کھوج کروں گا کہ رمیش اسکول کے بجائے کہاں جاتا ہے۔ ناشتے کے بعد میں دفتر کو چلا تو اتفاق سے رمیش کتابوں کا بیگ کندھے پر لٹکائے جاتا نظر آیا۔ کچھ دور تک ہم اسی طرح آگے پیچھے چلتے رہے۔ پھر اسکول کی طرف جانے کے بجائے وہ ایک دوسری سڑک پر ہو لیا۔
سنی سنائی باتوں سے میں زیادہ متاثر نہیں ہوا، لیکن اپنی آنکھوں سے صاحب زادے کی یہ حرکت دیکھ کر میں طیش میں آ گیا۔ چنانچہ میں بھی دفتر کا راستہ ترک کرکے اس کے پیچے پیچھے ہو لیا۔ سڑک سے ہٹ کر شیشم کے اونچے انچے پیڑوں کے نیچے بازی گر کرتب دکھا رہے تھے۔ لمبے لمبے بانسوں کی دو قینچیوں کے درمیان ایک دبیز رسہ تنا ہوا تھا۔ بائیں سرے پر کالے رنگ کی ایک عورت مہا راشٹری ڈھنگ سے ساڑی پہنے کھڑی تھی۔ اس کے دبلے پتلے چہرے کے مقابلے میں اس کا جسم زیادہ بھربھرا دکھائی دے رہا تھا۔ سڈول پنڈلیاں دمک رہی تھیں۔ اس نے ایک بڑا سا تھال رسے پر ٹکایا اور اس میں دونوں پاؤں جما کر کھڑی ہو گئی۔ ہاتھوں میں لمبا سا بانس تھام لیا۔
توازن قائم رکھتے ہوئے اس نے اچھل اچھل کر تھال سمیت آ گے بڑھنا شروع کیا۔ تماشائی دم بخود کھڑے تھے۔ ایک بازی گر نیچے کھڑا زور ور سے تالی بجا رہا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ عورت رسہ پار کر کے دوسرے سرے پر پہنچ گئی۔ فضا تالیوں سے گونج اٹھی۔ لمحہ بھر کے لئے میری توجہ رمیش سے ہٹ گئی۔ گھڑی پر نظر ڈالی، دس بجنے میں آٹھ منٹ باقی تھے۔ سوچا، اب رمیش کو کان سے پکڑ کر اسکول کو جانے والے راستے پر ڈال دوں۔ نگاہ اٹھائی تو رمیش اپنی جگہ موجود نہیں تھا۔۔۔ کیا اس نے مجھے دیکھ لیا تھا؟
نہیں۔۔۔! وہ چالیس پچاس قدم کے فاصلے پر بڑے اطمینان سے چلا جا رہا تھا۔ اگر اسے میری موجودگی کا علم ہوتا تو اس قدر بے پروائی سے مٹر گشت کرتا ہوا نہ چلتا۔ پہلے آواز دینے کی سوچی، پھر یہ اراد ہ ترک کر دیا، کہ شایدوہ کسی دوسرے راستے سے اسکول کو رخ پھیر لےگا۔ میرا اندازہ غلط نکلا، وہ شہر کے باہر کی جانب جا رہا تھا۔ ہمارے شہر کے باہر کوٹھیوں اور بنگلوں والا علاقہ بڑا پر فضا تھا۔ ان سے پرے سرسبز و شاداب پہاڑیاں نظر آتی تھیں۔ ان پہاڑیوں سے بھی آگے اونچے اونچے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، نیلگوں غبار میں تیرتی ہوئی سی لگتی تھیں۔ زیادہ تر بنگلوں کے چاروں طرف ہری بھری باڑیں موجود تھیں۔ ان کے اندر لیچی اور آموں کے پیڑ، نیز رنگ برنگے پھول کی کیاریاں نظر آتی تھیں۔
رمیش ان تنگ لیکن صاف ستھری پکی سڑکوں پر بڑھتا جا رہا تھا۔ اب ساڑھے دس بجنے کو تھے۔ میں بھی دفتر نہ پہنچ سکا۔ بیٹے کا اس طرح مٹرگشت کرنا مجھے بڑا پراسرار سا لگ رہاتھا۔ میں مشہور جاسوس جیمز بانڈ (۰۰۷) کی طرح قدم ناپتا ہوا اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ لیکن میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا کرتا ہے، کس سے ملتا ہے، کہاں ہے اس کی منزل؟ وہ لال پیلی دھاریوں والی قمیص پہنے ہوئے تھا، پاؤں میں بے ڈول بوٹ اور ان میں سے بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے موزے باہر کو جھانک رہے تھے۔ اس کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ نیکر کے مختصر پائینچوں میں سے اس کی دبی رانیں، نیچے موٹے گھٹنے اور پتلی سی پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں۔ در اصل اس کا بدن بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ نہیں تھا، البتہ اس کی ہڈیاں موٹی اور قدلمبا ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے کندھے پھیلے ہوئے اور ریڑھ کی ہڈی سیدھی تھی۔ سر کے جھبے سے بال پھولے پھولے تھے۔ شاید ہوا بالوں میں داخل ہو کر انہیں غبارے کی طرح پھلا رہی تھی۔
اس نے ایک بار بھی پیچھے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ سیٹی بجاتا، کچھ بل کھاتا اور لہراتا ہوا بڑھا جا رہا تھا، کبھی کہیں رک کر پیڑوں پر بیٹھے بندروں اور پرندوں کو دیکھنے لگتا اور پھر کسی پتھر کو بوٹ کی ٹھوکر مار کر آگے بڑھ جاتا۔ سور کا بچہ! بھلا وہ کیا جانے کہ اس کے یہ بوٹ خریدنے کے لیے اس کے باپ کو صبح سے شام تک دفتر میں فائلوں سے کتنا ماتھا پھوڑنا پڑتا ہے۔
پیڑوں کے نیچے نرم و نازک گھاس پر اب بھی شبنم کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔ دور سے برساتی ندی کا خوب چوڑا پاٹ نظر آنے لگا تھا۔ ندی کے اس پار چائے کے باغات اور چیڑ کے جنگل تھے۔ آسمان پر بدلیاں جمع ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے نیلے پیلے، سبز، گلابی، اودے اور نہ جانے کیسے کیسے رنگ کے لباسوں میں ملبوس پر یوں کا میلا لگنے والا تھا۔ یگ بیت گئے۔ میں بھی کبھی لڑکپن میں ادھر مٹرگشت کے لیے آیا کرتا تھا۔ آگے سپیروں کا ڈیرہ لگا ہوا تھا، ان کے پھٹے پرانے خیموں کے آس پاس ان گنت کپڑے جو دھلنے کے بعد اور بھی غلیظ لگ رہے تھے، سوکھنے کے لیے یا تو گھاس پر بچھا دیے گئے تھے یا جھوپڑیوں پر لٹکا دیے گئے تھے۔ روکھے سوکھے بالوں اور لٹکی لٹکی مونچھوں والے سپیرے بے دلی سے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔
رمیش ان کے ڈیرے کے قریب پہنچا تو پانچ چھ کتے بڑے زور شور سے بھونکتے ہوئے اس کی طرف لپکے۔ میں ڈرا کہ کہیں اس کی ٹانگیں نہ نوچ ڈالیں۔ مگر نزدیک پہنچتے ہی کتے چپ ہو گئے اور دمیں ہلانے لگے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ حضرت سے مانوس تھے۔ سپیروں کے لڑکے بالے دوڑتے ہوئے آئے اور اسے حلقے میں لے لیا۔ میں پرے پیڑ کی اوٹ سے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ نہ جانے بچوں کے مابین کیا باتیں ہوتی ہیں۔ پھر دیکھتا کیا ہوں کہ ایک لڑکے نے چار پانچ سانپ رمیش کے گلے میں ڈال دیے۔ میرا کلیجہ دھک سے ہو کر رہ گیا۔ بےاختیاری کے عالم میں ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ لیکن بیٹے کو اطمینان سے ہنستے دیکھ کر میں پھر پیڑ کی اوٹ میں ہو گیا۔ دل زور زور سے دھڑکتا رہا۔ آخر سانپوں کا کیا بھروسا! رفتہ رفتہ سانپ اس کے گلے سے سرک کر بدن پر آ گئے اور پھر بل کھا کر نیچے گھاس پر لہرانے لگا۔
دس پندرہ منٹ اسی قسم کی چہلوں کے بعد رمیش۔۔۔ رمتا جوگی آگے نہر کی طرف بڑھ گیا۔ چھوٹی سی نہر تھی، بہ مشکل چار ساڑھے چار فٹ چوڑی اور ڈیڑھ فٹ گہری۔ دونوں کناروں پر تنگ پٹریاں۔ پانی کی چادر کے ساتھ ساتھ ایک انگل سے بالشت بھر اونچی گھاس کا گویا جنگل ساکھڑا تھا، جس میں پیپرمنٹ اور برہمی بوٹی کے پودے بھی موجود تھے۔ یہ نہر برساتی ندی کے اس پارے سے پل بناتی ہوئی ادھر پہنچتی ہے، پہلے سات فٹ اونچی جھال کی شکل میں نیچے گرتی اور پھر مدھر گیت کی لے کی طرح سنبھل سنبھل کر بہہ نکلی۔
اس وقت چند بنگالی اور گوانی کچھ کچھ فاصلے پر کیکڑوں کی تاک میں نہر کے کنارے بیٹھے تھے۔ ہاتھ میں لمبی مضبوط چھڑی جس کے ساتھ بندھی ڈوری کا دوسرا سرا کینچوے کا چارہ سنبھالے پانی میں ڈوبا ہوا۔ کبھی کبھی غڑاپ کی آواز سنائی دیتی۔ چھڑی ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے کو ہٹتی، ڈوری چابک کی طرح جھٹکا کھاتی اور ایک کیکڑا باہر آ گرتا۔۔۔ گرتے ہی وہ پانی کی طرف بھاگتا لیکن شکاری لکڑی سے اس کی ٹانگیں توڑ تاڑ کر اسے تھیلے میں ڈال لیتا۔
رمیش پٹری پر بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیکڑے کیوں کر باہر آکر گرتے تھے۔ تاہم وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے میرے قریب پہنچ جانے کی خبر تک نہیں ہوئی۔۔۔ شہر سے دور، گھر کی گہماگہمی سے الگ تھلگ پرسکون مقام پر مجھے رمیش یکسر اجنبی سا نظر آ رہا تھا۔ اس کی کچھ بے ڈول اور نکلتی ہوئی سی ٹانگیں، گول مٹول ہاتھ، سانولی لیکن انگور کی طرح شاداب گردن اور زعفرانی رنگ کے نرم نرم بال۔۔۔ معاً میرے دل نے زبان خاموشی میں پکار کر پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘
اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں کتنا تجسس تھا! وہ وہاں کی ہر چیز سے کس قدر ہم آہنگ تھا۔ ایک میں تھا جو برسوں سے اپنے آپ کو دنیا کی ہر شے سے اکھڑا کھڑا سا محسوس کر رہا تھا۔ زندگی جد و جہد کا نام ہے، کسی بزرگ نے نصیحت کی تھی۔۔۔ اور میں دنیا سے لڑتے لڑتے آخرکار اس سے بےگانہ ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس لڑکے نے ان چیزوں سے، اس فضا سے، اس گھاس پھوس سے دوستی قائم کی تھی۔ وہ ان سے پیار کرتا تھا اور یہ اس کو چاہتے تھے، اپناتے تھے۔
معاً۔۔۔ رمیش کی نظر مجھ پر پڑی۔ مجھ سے آنکھیں چار ہوتے ہی اس کا چہرہ اتر گیا۔ منہ پر دہشت کے ساتھ ساتھ عجیب سی مردنی چھا گئی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر خود میں بھی ڈر گیا۔۔۔ کیا میں اس قدر بھیانک تھا؟ رمیش کو اور کچھ نہیں سوجھا تو اس نے یونہی ہاتھ پھیلا کر کہا، ’’پپا، یہ لوگ کیکڑے پکڑ رہے ہیں۔‘‘ در اصل خود اسے اس بات کا کچھ احساس نہیں تھا کہ وہ کیا اور کیوں کہہ رہا تھا۔ میں بھی پسر کر اس کے پہلو میں بیٹھ گی اور سوال کیا، ’’جانتے ہو کہ کیکڑے ان کے ہاتھ لگتے کس طرح ہیں؟‘‘ اس کی موٹی موٹی آنکھیں تجسس کی وجہ سے اور بھی بڑی ہو گئیں۔ میں تفصیل سے اسے شکار کے رموز سمجھاتا رہا۔
اس کے اسکول کا ذکر ہوا نہ میرے دفتر کا۔ نہ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ وہاں کیوں چلا آیا تھا اور نہ اسے اس بات کی پریشانی رہی کہ میں وہاں کیسے پہنچ گیا تھا۔ چند منٹ میں اس کا سارا خوف دور ہو گیا۔ ہم دو دوستوں کی طرح بے تکلفی سے ادھر ادھر کی ہانکنے لگے۔ اس کا جی بھر گیا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ندی کی طرف ہاتھ پھیلا کر بولا، ’’آؤ پپا اس پار چلیں۔‘‘ میں فوراً اس پر آمادہ ہو گیا۔
میلوں دور اونچے اونچے پہاڑوں پر خوب بارش ہو چکی تھی، تاہم ندی بھر نہیں سکی۔ جابجا مٹیالے پانی کے چوڑے چوڑے خطوط دکھائی دے رہے تھے۔ کنارے پر پہنچے تو وہ اپنے بوٹوں کے تسمے کھولنے لگا۔ میں نے اسے روک کر کہا، ’’نہیں بیٹے! پاؤں اور ٹانگیں بھیگ جانے سے تمہیں زکام ہو جائےگا۔‘‘ کم سے کم میرے دل میں یہی ڈر بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے اپنے پمپ شو اتارنے میں دیر نہیں لگی، میں نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا، اس کی دونوں ٹانگوں کو بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ اس نے میرے پمپ شو ہاتھوں میں لے کر باہیں میرے گلے میں ڈال دیں۔ اس طرح میں اپنے شوکے چمڑے کی بو سونگھتا ہوا ندی پار کرنے لگا۔
اس کی جھجک بالکل دور ہو چکی تھی، وہ طوطے کی طرح بولے جا رہا تھا، ’’پپا! ندی کے اس پار ایک بوڑھا لکڑہارا رہتا ہے۔ وہ سارا دن کلہاڑے سے لکڑیاں پھاڑتا رہتا ہے۔۔۔ پپا! وہاں ایک سوامی جی بھی ہیں۔۔۔ جٹا دھاری اور پپا! چائے کے باغ کے پاس سکھوں کا گوردوارہ ہے، جہاں حلوہ کھانے کو ملتا ہے، کڑاہ پرشاد کہتے ہیں اسے۔۔۔‘‘ ندی پار لکڑہارا تو دکھائی نہیں دیا، البتہ سوامی جی موجود تھے۔ ان کی آنکھوں میں نور تھا۔ جسے دیکھ کر دل کو سرور ملتا تھا۔ ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر انہوں نے پوچھا، ’’یہ آپ کا بیٹا ہے؟‘‘
’’جی، سوامی جی۔‘‘
’’بڑا سیانا اور بھولا لڑکا ہے، بڑا ہوکر آپ کا نام روشن کرےگا۔‘‘ ان کی اس رسمی بات پر مجھے بےحد خوشی ہوئی اور اسکول سے بھاگے ہوئے بیٹے پر فخر سا محسوس ہونے لگا۔ گوردوارے سے آتے ہوئے داڑھیوں والے سکھوں کو دیکھ کر یوں لگا جیسے دور دراز ہمالہ کی گپھاؤں میں سے سادھو اور مہاتما قمیصیں اور پتلونیں پہن کر اچانک ہمارے سنسار میں آ گئے ہیں۔
اب ہم چائے کے باغوں میں پہنچ چکے تھے۔ بیچوں بیچ گہرائی میں وہی ندی سوئی سوئی سی بہہ رہی تھی۔ دائیں بائیں چائے کے بے شمار پودے تھے۔ کہیں کہیں چیڑ، دیودار اور سفیدے کے پیڑ بھی نظر آ رہے تھے۔ لمبی لمبی ٹوکریاں پیٹھ پر ٹکائے پہاڑی لڑکیاں چائے کی پتیاں توڑ رہی تھیں۔ ان کے کانوں سے چاندی کی خوب بڑی بری بالیاں لٹک رہی تھیں، ناک میں پھولدار کیلیں چمک رہی تھیں۔ وہ لڑکیاں بھی رمیش سے مانوس تھیں۔ جو بھی اسے دیکھتی مسکرا دیتی۔
ہمیں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں سے بھی گزرنا پڑا۔ باغ ختم ہوئے تو کھیت شروع ہو گئے۔ وہی نہر ان کھیتوں میں سے ہوکر گزر رہی تھی۔ کہیں کہیں جھونپڑے بھی بکھرے ہوئے تھے، انہیں میں سے ایک جھونپڑے میں رہنے والی تیس پینتیس سالہ کسان عورت رمیش کو دیکھ کر ہنس دی، ’’بہت دنوں بعد آئے۔‘‘ رمیش نے لاڈ سے میرے گلے میں باہیں ڈال کر کہا، ’’آج پپا بھی میرے ساتھ ہیں۔‘‘
عورت لجا گئی۔ شاید وہ سمجھی کہ میں بہ طور خاص اسے دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ میں نے اس کا اضطراب دور کرنے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ رمیش کی یہ سیدھی سادی موسی، ہمیں کچھ کھلانے پلانے پر مصر ہوئی تو میں بڑی مشکل سے معذرت کر کے آگے بڑھ گیا۔ آدھ میل آگے جاکر ہم نے وہ دو پراٹھے کھائے جو رمیش اسکول کو لے جایا کرتا تھا۔
رمیش راستے بھر اپنے قصے سناتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم دینا پور کے قصبے میں پہنچ گئے۔ یہاں سے شہر کو جانے والی بسیں مل جایا کرتی تھیں۔ چار بج چکے تھے، آسمان پرچھائی گھٹا یکایک برس پڑی۔ ہم نے قصبہ کی ایک دکان میں پناہ لی۔ بھوک پھر چمک آئی تھی۔ دکان سے بھنے چنےاور اندرکھی (چٹپاگڑ) کھاکر پیٹ کی بھوک کچھ کم کی۔ گرم گرم چائے کے دو پیالے لے کر ہم چسکیاں بھرنے لگے۔ میں نے سگریٹ منہ میں دبایا، اسے ماچس دکھا کر دھواں اڑاتے ہوئے بولا، ’’بیٹا! میں سگریٹ پیتا ہوں لیکن یہ بری عادت ہے۔‘‘ رمیش بولا، ’’ہاں پپا! اچھے آدمی سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘
یہ کہتے ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، فوراً ترمیم کرکے بولا، ’’پپا! اچھے لڑکے سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘ اس کی برمحل ترمیم پر میں نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا اور اس کے نرم گھنے بالوں میں انگلیاں الجھا دیں۔ سارا دن رمیش کو اسکول سے نہ بھاگنے کی نصیحت کرنے کی سوچتا رہا، لیکن ایسا کرنے کو جی نہیں چاہا۔ آخر طے کیا کہ پھر کبھی سہی۔
تیز بارش میں بھیگتی ہوئی کچھ جوان جہاں دیہاتی لڑکیاں بارہ سنگھوں کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی ادھر سے گزریں۔ مجھ پر نظر پڑی تو رخ پھیر لیا۔ میں بدمزہ نہیں ہوا، کیونکہ وہ میرے معصوم بیٹے کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہیں۔ بالآخر پانی تھم گیا، ہم اڈے پر پہنچے اور ٹکٹ کٹا کر بس میں پہنچ گئے۔ شہر میں پہنچے تو بادلوں کی وجہ سے پیش از وقت اندھیرا گہرا ہو گیا۔ سڑکیں اور ہمارے محلے کی گلیاں بھی بھیگی بھیگی تھیں۔ گھر پر پہنچے تو دیکھا میری بیوی دروازے پر پریشانی کے عالم میں کھڑی تھی۔ رمیش آگے آگے تھا۔ ماں کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی تو چلا کر بولی، ’’ارے کہاں تھا اب تک، میں نے سارا محلہ چھان مارا۔۔۔‘‘
رمیش ماں کی ڈانٹ سن کر پلٹا اور میری اوٹ میں ہو گیا۔ میں نے بیوی سے کہا، ’’اسے کیا کہتی ہو، یہ میرے ساتھ تھا سارا دن۔‘‘ وہ آنکھیں نکال کر بولی، ’’اوہو! پہلے تو بیٹا ہی بھاگا کرتا تھا، اب آپ بھی دفتر سے بھاگنے لگے؟‘‘
محلے کے بابو گوپی ناتھ میرے ہی دفتر میں کام کرتے تھے، انہیں کی زبانی میری غیرحاضری کا پتہ چل گیا ہوگا۔ ہم، باپ بیٹا، بیٹھک میں چلے گئے، باہر صحن میں بیوی کچھ دیر تک چلاتی رہی۔ اس کا غصہ بھی بےجا نہیں تھا، آج باپ بیٹا دونوں ہی سارا دن غائب رہے۔ سہما ہوارمیش میری گود میں بیٹھا رہا۔ لیکن اس انداز سے جیسے وہ مجھے اپنی گود میں لے لینا چاہتا ہو۔ وہ اس بات کو شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ اسی کی وجہ سے مجھے بھی ڈانٹ پڑ رہی تھی۔ نہ جانے کتنے طویل عرصے کے بعد وہ میری گود میں بیٹھا مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شاید میرے من کے اندر سوئے ہوئے بچپن کے جاگ جانے سے اس کے اندر خوابیدہ پدرانہ شفقت جاگ اٹھی تھی! اسے اور کچھ نہیں سوجھا تو اپنی پتلی پتلی باہیں میرے گلے میں ڈال کر مجھ سے لپٹ گیا اور پھر چند لمحوں کے بعد ذرا پیچھے ہٹ کر بولا، ’’پپا! میں آپ کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کروں گا۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
کئی مہینے گزر گئے۔ اب وہ باقاعدہ اسکول جانے لگا تھا۔ اسکول سے غیرحاضر رہنے پر اسے ماسٹر جی اور اس کی ماں نے کئی بار ڈانٹا تھا، اس پر اثر نہ ہوا۔ لیکن جب اس کی وجہ سے مجھے بھی ڈانٹ پڑی تو وہ بہت متاثر ہوا۔۔۔ اس روز سے وہ ہر رات میرے کمرے میں پڑھتا ہے۔ ماسٹر جی خوش ہیں، اس کی ماں خوش ہے اور میں۔۔۔ پہلے پہل مجھے بھی گہری مسرت کا احساس ہوا تھا، کیونکہ میری ڈانٹ کے بغیر وہ درست ہو گیا تھا۔۔۔ لیکن رفتہ رفتہ۔۔۔
رات کے نو بجے ہیں، بارش ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی کھڑکی میں سے بجلی چمکتی دکھائی دے جاتی ہے۔ رمیش مطالعہ میں محو ہے۔ اس کی ماں اطمینان سے بنائی کا کچھ کام کر رہی ہے۔ البتہ میں متردد ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر رمیش اسکول سےاور میں دفتر سے بھاگ کر ساری دنیا کو ٹھینگا دکھا کر، اسی دن کی طرح آوارہ گردی کریں۔۔۔ یہ بات اس سے کہہ نہیں سکتا۔ دل کی گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ پہلے وہ گمراہ تھا، اب میں گمراہ ہو رہا ہوں۔
سوچتا ہوں کہ میرا بیٹا صبح کے اجالے میں راہ راست بھول گیا تھا، اس لیے لوٹ آیا۔۔۔ جو رات کے اندھیرے میں راستہ بھول جائے وہ کیسے لوٹ سکےگا؟ نہیں، میں کبھی واپس نہیں لوٹ سکوں گا۔ میں ہمیشہ گمراہ رہوں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.