حیرت آباد سے بےدخلی پر
---------O کوشش بسیار کے باوجود وہ لفظ گرفت میں نہ آ سکا جو اس کی آنکھوں کا عیب بیان کرتا۔ وہ جو قدیم عبادت گاہ رہی تھی، اس کا نام کیا تھا۔؟
ڈلفی کا مفہوم کیا تھا۔ وہ، اس کی پیشانی پر کیا رقم کیا گیا تھا؟
وہ۔۔۔
اس کی معنویت ہنوز فہم سے بالاتر ہے۔۔۔
مجھے ان لوگوں میں شمار نہیں کیا جانا چاہئے جو دلوں کا بھید جانتے ہیں۔۔۔
میں مر سی کلنگ (Mercy killing) کا قائل نہیں ہوں۔
میں جان کنی کے عالم میں مبتلا کرداروں سے حیات جاودانی کے موضوع پر بحث نہیں کر سکتا۔
میں اپنے نام کی مجبوری سے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔
اگر ہاتھ پر آنچ آتی ہے تو میں اسے زندگی کے نام پر مسلط کر دہ حو اس کے سپرد کر دوں گا۔۔۔
اس کر دار کو میں ہی وہ مصیبت کا مارا نظر آیا، جسے یہ بپتا سنائی جا سکتی تھی ۔۔مگر اسے بپتا کون کہےگا اور سنانا کون سنےگا۔۔۔
وہ تو۔۔۔
جیسے کچھ حرکات و سکنات کا ایک سلسلہ سا تھا۔۔۔
محض ایک نشان۔۔۔
ایک آواز، ایک موہوم سا۔۔۔
ادھورا سا۔۔۔ اشارہ ۔۔۔۔۔
اس کے پاس کیا جواز ہے؟
وہ اس حد تک ضدی کیوں ہے کہ دوسرا رشک کرنے لگے اس کی استقامت پر۔۔۔
اس صورت حال کو ’’دلچسپ‘‘ کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔؟
اگر کوئی وہ تمام سوالات ہی بھلا بیٹھے جو خارجی دنیا کی پیدا وار ہیں، تو پھر کیا ہو؟؟؟
اس امر سے کسے انکار ہے کہ زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیئے چند ایک سوالات کا سہارا بےحد ضروری ہے، یہ مجبوری ہے۔۔۔
یہ وہی سوالات ہیں جو زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے پر اکساتے رہتے ہی۔۔۔
انہی سوالات کی بدولت ذہن کو مہمیز ملتی ہے۔۔۔
ملتی ہے یا ملتی تھی، بہر حال جو بھی سمجھا جائے۔۔۔
اس بےمعنی دنیا میں سر گرم عمل رہنے کیلئے چند ایک سوالات کا جواز ناگزیر ہے۔
وہ سوالات جو خارجی دنیا کی پیداوار ہیں، اکژ و بیشتر ذہن میں وہ تحرک پیدا کر تے ہیں۔۔۔
جو دماغ کو گرم رکھنے کیلئے شاید ضروری ہوتا ہے۔۔۔
اور دماغ گرم ہو تو اس بےمعنی دنیا میں یوں سر گرم عمل ہونا پڑ تا ہے، جیسے ’’یوں‘‘ کی ماہیّت سے بےخبر۔۔۔
کوئی باخبر متحرک رہتا ہے۔۔۔
تا وقتیکہ یہ سوالات جواپنی گنتی میں سات سے زیادہ کیا ہوں گے، صرف ایک سوال کی صورت آ موجود ہوں۔
صرف ایک سوال بھی کیا۔۔۔ محض ایک ہیجانی سی کیفیت، ایک ابھار، ایک نشان۔۔۔ خواہش۔۔۔ کو قرینے کا بدل تو نہیں کہا جاسکتا۔ دانتے (Dante ) کی بیٹرس (Beatrice ) ایک خیالِ محض ہی تو ہے۔
کیسی تر تیب۔۔؟ میں اس تربیب کو ۔۔۔ اس ترغیب کو تر تیب کیسے سمجھ لوں۔۔۔
فردوسی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔۔
تب اسے انعام و اکرام کا حق دار گر دانا جاتا ہے۔۔۔
گوئٹے (Goethe) کا ’’فاؤسٹ‘‘ اس کی زندگی میں تو نامکمل ہی رہ گیا۔۔۔
اس کی تکمیلیت (completion) اس کی موت کے چھبیس سال بعد واقع ہوتی ہے۔۔۔
یہ ’’واقعیت‘‘ ہے کیا۔۔۔؟ یہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں۔۔۔
جیکب بائیڈر من(Jacob Bidermann) کی آمدو رفت کی تواریخ تک تو بتاتی نہیں ہیں۔۔۔
یہ صدیو ں پر محیط مریکل پلیز (miracle plays )نفءئی ضبط کی واضح مثال نہیں ہیں۔۔۔؟
موت تو میرے قریب ہی کہیں رقص کر رہی ہے۔۔۔
رقص کیسا؟
موت سفر کر رہی ہے۔
کہیں پر خود کلامی ہے، تو کہیں پتھروں کی بات چیت سنی جا رہی ہے۔
کبھی ریت پر کچھ تحریر کیا جا رہا ہے اور کبھی مٹی پر لکھی تحریر کو پانی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
وہ بھی ایک عام سادن نکلا جس کا خاتمہ ایک معمول کے عبوری دور کے خاتمے کا سبب بنا۔۔۔
وہی عام سی باتیں۔۔۔
وہی عمومی سے اعمال اور وہی معمول کی سر گر میاں۔۔۔
نہ ہی تو کوئی چونکنے کی بات تھی اور نہ ہی چونکا نے کی۔۔۔ کون جانتا ہے، دو چار انگڑائیوں کے بعد حیرت دوبارہ سو گئی ہو۔۔۔
کون تردید کر سکتا ہے کہ اس روز بھی نو زائیدہ چوزوں کی تعداد گزشتہ روزکی تعداد سے کچھ کم نہ تھی۔۔۔
یقیناً اس خبر پر بھی کسی کو متعجب ہونے کی ضررورت نہں ہے کہ محب وطن شہریوں نے ضروری کار روائی کے بعد پہیہ جام ہڑتال کو کامیابی سے ہمکنار کر نے میں کلیدی کر دار ادا کیا۔
وہ بھی ایک عام سی رات تھی۔۔۔
عام شہریوں میں اس امر پر بحث جاری تھی کہ آئین پاکستان کی عام شقوں کی معطلی کے اگلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا جائے گا یا نہیں۔
عام سے شہریوں کو ابھی تک اس تقریر کو سننے میں تاخیر کا سامنا تھا، جس میں ان کے ان بنیادی حقوق کے معطل کیئے جانے کے احکامات شامل تھے، جن کی بنیادی حقیقت کا علم انہیں شاید ہی تھا۔۔۔
وہ بھی ایک عام سی رات نکلی۔۔۔
اور اس کا منتظر ایک اور معمول کا دن۔۔۔
بس یہی ایک غیر معمولی بات تھی کہ معمول کے واقعات تسلسل سے رونما ہوتے رہے تھے۔۔۔
اور ان کے بیان میں طول طویل جملے، جملہ مقاصد حاصل کر نے میں ناکام رہے تھے۔۔۔
بلکہ ان کا کار آمد ثابت ہونا تو در کنار، بے کار ہونا بر محل ہو گیا تھا۔۔۔
وہاں کا باوا آدم ہی نرالا نہیں تھا۔۔۔
شیر اور بکری ایک کھاٹ پانی نہیں پیتے تھے۔۔۔
کبھی کے دن بڑے، نہ کبھی کی راتیں۔۔
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور نہ دکھانے کے اور۔۔۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ ہی نہیں پکڑ تا تھا، ہاتھی کے دانت جو کھانے کے، وہی دکھانے کیے۔۔۔
دل کو دل سے راہ نہیں تھی۔۔۔
سنو اپنی، کرو سب کی!!
جو بویا جاتا تھا، وہ کاٹا نہیں جاتا تھا۔۔۔
قبر کا حال مردہ نہیں جانتا تھا،
جس پر گزرتی تھی، وہ کہاں جانتا تھا۔۔۔
ساون کے اندھے کو بھی ہری ہری سوجھتی ہے؟
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل؟
اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی، آج مرے کل دوسرادن ہوا۔۔۔
وقت ایک سا ہی رہتا ہے۔۔۔
زمانہ کبھی بدلتا نہیں۔۔۔
گڑے مردے کون اکھاڑ سکتا ہے؟
مرے کو کیوں مارے شاہ مدار۔۔۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟
چور کی داڑھی میں تنکا کہاں؟
جس کی لاٹھی اس کی بھینس!!!
بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔۔۔
وہ جادو ہی کیا جو سر چڑھ کر بولے۔۔۔؟
جو تین میں، وہی تیرہ میں۔۔۔
مٹی کا مادھو کون ہوتا ہے؟
دل کبھی پتھر کا نہیں ہو سکتا۔۔۔
سب کو ایک آنکھ سے کون دیکھتا ہے؟
وہاں دیکھنے کو دو آنکھیں بھی کم تھیں، پر سُوہُو کا عالم نہیں تھا۔۔۔
بس یہ تھا کہ وہ تھا۔۔۔
پہلے بو لا جاتا، پھر تولا جاتا۔۔۔
خامی کہاں تھی، خوبی جہاں تھی۔۔۔
میرے کان پر جوں نہیں رینگتی۔۔۔
میرے دماغ میں چیوں ٹیاں سی نہیں رینگتیں۔۔۔
وہ دوسرا پہر تھا۔۔۔
وہ دوسرے پہر کا وقت تھا۔۔۔
وہ دوپہر تھی؟
میرے کان کی جوں نے شاید جون بدل لی تھی۔۔۔
دوپہر گزر چکے تھے۔۔۔
تیسرا پہر آ رہا تھا۔۔۔
ڈونٹ وش می اے کوالٹی لائف (Don`t wish me a quality life )۔۔۔
میرے حصے کی چیونٹیاں کہیں چلی گئی ہیں۔۔۔
خس کم جہاں پاک۔۔۔
ایم اے مین آف اسٹرا (Am a man of straw )۔۔
میں توہین آمیز اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتا۔۔۔ میں ان اصطلاحات کو خاطر میں نہیں لاتا۔۔۔
یہ تفاخر۔۔۔
یہ اطمنان، خود فریبی کے سوا کیا ہے۔۔۔
یہ اصطلاحا ت بھی تو توہین آمیز کلمات (contemptous remarks )کے ذیل میں آتی ہیں۔۔۔
یہ انسانی تفکر ہے یا توہین؟
یہ کس معاشرتی حالت پر دلیل کر تی ہیں۔۔۔
میں اسے یہ جو میگنم اوپس (magnum opus ) کا تصور ہے۔۔۔
نہیں تسلیم کرتا۔۔۔
یہ کس تخلیقی حالت کی دلالت ہے۔۔
میں اس تعلق سے کسی سوفٹ امیج کو نہیں مانتا۔۔۔
یہ تو ابتری کی صورت ہے، آئی ڈونٹ ہیو اینی آئی کیو ز۔۔۔
میں انٹیلی جنس کو شنٹ (intelligence quotient) کی گردان سے محفوظرہنا چاہتا ہوں۔
آ ئی ڈونٹ ہیو اینی ڈیزائرز ٹو کریئیٹ اینی میگنم اوپس (I don't have any desires to create some magnum opus)۔۔۔
اس کی خبر یا تو اس جھیل کو تھی یا اس پانی کو جس نے کبھی انہیں چاٹنے کا قصد کیا ہوگا۔ میں کس گمان پر۔۔۔؟
کس زمین پر؟؟
کس آسمان پر۔۔۔
خود کو فاتح سمجھوں؟
البتہ ایک حالت میں۔۔۔
آئی ہیو ٹو بی پراؤڈ ٹو بی نتھنگ۔۔۔
ایک ترجمہ کارابھی ایک ابتدائی زبان کے ہجے کر نے میں مصروف ہے۔۔۔
میں ارینجمنٹس (arrangements) کی اس دنیا کو ڈوگمیٹک (dogmatic) حد تک اپنا کر گر دنیں اڑائے جانے کے مناظر پر تالیاں نہیں پیٹ سکتا۔۔۔
اب سر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔
میرے دماغ کی چیونٹیاں تو نکل بھا گیں۔۔۔
یقیناً ان کے پر نکل آئے تھے اور وہ یوں اڑ گئیں، جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔۔۔
جب دلستان دماغ سے چیونٹیاں چلیں، تو متر جم کے خلوص کو بھی کائی لگ گئی اور ظاہر ہے کہ اس کا جذبہء خیر سگالی ایک بیمار مگر مچھ کے منہ میں چلا گیا، البتہ چیونٹیاں کہاں ہجرت کر گئیں، اس کی خیر یا تو اس جھیل کو ہوگی جس کے ایک کنارے کی نرم مٹی میں ان کا بسیر ا رہا ہوگا۔۔۔
یا پھر اس پانی کو جس نے کبھی انہیں نگلنے کا قصد کیا ہوگا۔۔۔۔
اس زبان درا ز کو کیا خبر کہ ایک زیبرا، ایک زبان کا نام ہے اور ایک زبان ایک ایسے عمل کا نام ہے جس کا ایک مترجم ابھی جہازرانی کے فوائد اور نقصانات کے کھیل سے باہر نہیں نکلاہے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.