Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہماری گلی

احمد علی

ہماری گلی

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    میرا مکان چیلوں کے کوچہ میں تھا۔ میر ے کمرے کے دروازہ پر دوپٹ تھے۔ نیچے کاحصہ بندکردینے سے صرف اوپرکاحصہ ایک کھڑکی کی طرح کھلا رہتاتھا۔ یہ کھڑکی پتلی سڑک پرکھلتی تھی۔ سامنے مرزادودھ والے کی دکان تھی اورمیرے مکان کے دروازے کے برابرصدیق بنئے کی اوراس کے برابر عزیز خیراتی کی اور اس کے پاس کہاروں کی دکانیں، عطار کی دکان،پان والے کی اوردوچار اوردکانیں تھیں۔ مثلاً قصائی کی،بساطی کی،حلوائی کی۔

    ہمارے محلے میں سے ہوکرلوگ دوسرے محلوں کو جاسکتے تھے، اس لیے سڑک برابر چلاکرتی تھی اورطرح طرح کے لوگ راستہ بچانے کے لیے میری کھڑکی کے سامنے سے گذرتے۔ کبھی کوئی سفیدپوش گرمی کی چلچلاتی ھوپ میں چھتری لگائے ہوئے چلاجاتا، کبھی شام کوکوئی ولایتی منڈاپہنے،انگریزی ٹوپی لگائے، چھڑکاؤ کے پانی سے بچتا ہوا، اپنے کپڑوں کوچھینٹوں سے بچاتا، بچوں اور لڑکوں سے کتراتاہوا یا ان کے گھورنے پر غراتا اور آنکھیں نکالتاہواگذرجاتا۔ کبھی کبھی راہ گیرعاجز آکر لڑکوں کو مارنے کے لیے لکڑی یا چھتری اٹھاتا،دوربھاگ کرلڑکے چلاتے، ’’لولوہے بے،لولوہے۔‘‘

    پھرمرزادودھ والے کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دیتی،’’اے لڈو،کیا کرتے ہو! تم کوگھروں میں کچھ کام نہیں؟‘‘اوراگر کوئی پاس بیٹھا ہوتا تو مرزا اس سے کہنے لگتا،’’ان کی ماؤں کودیکھو، لونڈوں کوچھوڑرکھاہے کہ سانڈبیلوں کی طرح گلیوں میں رولامچایاکریں۔ حرام زادوں کوگالی گلوج اور دھینگامشتی کے علاوہ اورکچھ کام ہی نہیں۔‘‘اورمرزا کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں چمکنے لگتیں اوروہ اپنی سفیدتکونی داڑھی پرایک ہاتھ پھیرتا اور کسی خریدار کی طرف مخاطب ہوجاتااور کونڈے میں سے دہی یا کڑھاؤ میں دودھ نکال کر ملائی کا ٹکڑا ڈالتا اور خریدار کی طرف بڑھادیتا۔

    لوگ کہتے تھے کہ مرزا کی رگوں میں شریف خون دوڑا کرتاہے۔ لڑکپن میں سبق یاد نہ کرنے پراس کے باپ نے اس کوگھرسے نکال دیااور کچھ روزمارا مارا پھرنے کے بعد اس نے دکان کرلی۔ اس کے بعداکثر اس کے باپ نے اس سے معافی بھی مانگی اور خوشامدبھی کی لیکن مرزا نے گھر واپس جانے سے انکارکردیا۔

    پھرمرزا نے شادی کرلی اور اس کا کام چل نکلا۔ اس کی دکان کے چھوٹے چھوٹے ملائی کے پیڑے شہربھرمیں مشہورتھے اوراس کا دودھ بہت لذیذ ہوتا تھا۔ رات کوجب کوئی دودھ لینے آتا تو وہ اس کوآب خورے اورلوٹیامیں خوب اچھالتا، یہاں تک کہ اس میں سے جھاگ نکلنے لگتے۔ پھر کھپچے سے ملائی کا ٹکڑا اس صفائی سے توڑتاکہ دودھ ہلنے تک نہ پاتاتھا۔ اکثر اس کی بیوی دکان پربیٹھتی تھی۔ وہ بوڑھی ہوگئی تھی، اس کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں،اس کی کمرجھک گئی تھی اورمنہ میں دانت باقی نہ تھا۔ اس کی اونچی پیشانی اوراس کے گورے رنگ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی اچھے گھرانے کی عورت ہے۔

    لیکن اب ان کاکاروبار کم ہوگیاتھا، کیوں کہ ضعیفی کی وجہ سے وہ زیادہ محنت نہ کرسکتے تھے۔ ان کا اکلوتا بیٹا مرچکا تھا اوراب ان کاہاتھ بٹانے والا کوئی نہ تھا۔ ترکِ موالات کے زمانے میں جب آزادی کا خیال ملک میں ادھرسے ادھرتک ہلچل مچائے تھا، مرزا کا لڑکا اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس میں شریک ہوا۔ گاندھی جی کی جے اوربندے ماترم کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ گھنٹہ گھر پرگوروں کی فوجیں مسلح کھڑی تھیں۔ کپتان پولس ڈپٹی کمشنر اورچند اورانگریز کھڑے لوگوں کے ہجوم اور قومی غصہ کوپریشانی سے دیکھ رہے تھے۔ لوگ آگے جانا چاہتے تھے لیکن فوجیں ان کوگذرنے سے روک رہی تھیں۔ لوگوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور ڈپٹی کمشنر نے گولی چلانے کاحکم دے دیا۔ گولیوں کی بوچھار میں بہت لوگ کام آئے اور مرزا کابیٹا بھی مرنے والوں میں تھا۔ بڑی دیرکے بعد جب لاش لے جانے کی اجازت ملی تو لوگ مرزا کے لڑکے کی لاش کواس کے گھر لے آئے۔

    ساری دکانیں بندتھیں اور محلہ میں سناٹاچھایا ہوا تھا۔ جاڑوں کی دھوپ مردہ اور سردمعلوم ہوتی تھی۔ نالیوں میں صفائی نہ ہوئی تھی اوران میں سڑاندپھوٹ رہی تھی۔ جب لاش گھرمیں آئی تومرزا اوراس کی بیوی سکتے کے عالم میں رہ گئے۔ ان کو کسی طرح یقین نہ آتا تھا کہ ان کا بیٹا جوابھی ابھی زندہ تھا، ہنس بول رہا تھا، جس نے صبح ہی کوپیڑے تیارکیے تھے، کڑھاؤ مانجھا تھا، جوکپڑے بدل کراپنے کسی دوست سے ملنے گیاتھا، اب زندہ نہیں ہے بلکہ مرچکا ہے۔ وہ باربارخون میں لتھڑی ہوئی لاش کودیکھتے تھے اور مرزا کی بیوی لاش سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔ لوگوں نے اس کو الگ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک منٹ کے لیے لاش سے علاحدہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ ’’ہے ہے میرالال‘‘ کہہ کہہ کر روتی تھی اورکبھی کبھی اس کے منہ سے چیخ نکلتی اوروہ چلاتی،’’ان فرنگیوں کوخداغارت کرے۔ میرے لال کومجھ سے چھین لیا۔ خدا کرے یہ غارت ہوں!‘‘

    مرزا پاگلوں کی طرح کبھی گھرکے اندر کبھی باہر بولایاہواپھرتاتھا۔ صدیق بنئے نے اپنی دکان کھول لی تھی اورمرزا جوبال بکھیرے ہوئے ادھر سے ادھر گذراتو صدیق نے آواز دی اورپوچھا، ’’بھائی بڑاافسوس ہوا۔ حادثہ کیا پیش آیا؟‘‘ مرزا کی آنکھوں میں ایک آنسوباقی نہ تھالیکن اس کے سارے چہرے پرکرب کی حالت تھی۔

    ’’تقدیرپھوٹ گئی،میرا پلاپلایالڑکا جاتا رہا۔‘‘یہ کہہ کر مرزا پھرگھر کی طرف چلا گیا۔

    گاہک جوکھڑے ہوئے تھے، پوچھنے لگے کیاہوا۔ صدیق نے جھک کردیکھا۔ اسی وقت ہوا کاایک تیز جھونکا آیا اورسڑک پرگردوغبار اڑنے لگا۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوا میں اٹھا اورکچھ دور اوپرجاکے الٹتا پلٹتانیچے کی طرف گرنے لگا۔ مرزا کے پٹے بال ہوا میں اڑرہے تھے، اور وہ گلی میں غائب ہوگیا۔

    ’’ہواکیا۔ ترک موالات کرنے گیاتھا، گولی لگی اور مرگیا۔ نہ جانے اپنے کام میں دل کیوں نہیں لگاتے۔ سرکار کے خلاف جانے کا نتیجہ یہی ہے۔ تگڑاجوان تھا، ان دوزخ کے چٹیوں اورکھدرپوشوں کا شکارہوگیا۔‘‘ یہ کہتے کہتے صدیق نے ایک مٹکے کے منہ میں کفگیر ڈالا۔ بہت سے مٹکے برابر دیوار میں گڑے ہوئے تھے اورکابک کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ کفگیر میں دال نکال کرصدیق نے گاہک کی طرف بڑھائی۔ گاہک جوبے غوری سے صدیق کی باتیں سن رہا تھا، دال کواپنے کپڑے میں باندھنے لگا۔ یکایک اس کی نگاہ دال پرپڑی اوروہ بولا،’’وامیاں باشا، یہ کون سی دال دے دیے ہو؟ میں نے تو ارہر کی دال مانگی تھی۔ ذری پھرتی کرو۔ مجھے دیرہورہی ہے، بیو ی بکے گی۔‘‘

    گھر میں مرزا کی بیوی سردے دے ماررہی تھی اوربیان کرکرروتی تھی اور انگریزوں اور گاندھی کو کوستی تھی۔ یامین کی ماں کو جب اس حادثہ کی خبر ملی تو وہ پرسے کے لئے آئی۔ اس کاجوان لڑکابھی ایک دیوار کے نیچے دب کر مرگیاتھا اوروہ اس کے ننھے ننھے بچوں کو سلائی کرکے پالتی تھی۔ دونوں گلے مل مل کر خوب روئیں اورمرزا کی بیوی کوتسلی ہوئی۔ آخر کار لڑکے کودفن کرنے لے گئے۔ رات اندھیری تھی اوربے بسی تاریکی کی طرح سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہواسرد تھی اورمحلے میں سیل کی وجہ سے جاڑا اورزیادہ معلوم ہوتاتھا۔ لیمپوں کی دھیمی روشنی میں محلہ بھیانک اور ڈراؤنا معلوم ہورہا تھا اورسڑک پرکوئی جاندار چیزنہیں دکھائی دیتی تھی۔ صرف مرزا کی دکان کے اندرکئی ایک بلیوں کے غرانے اورکھڑبڑکی آواز آرہی تھی۔

    اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد تک اکثرمرزا کی بیوی کے گانے کی آواز آیا کرتی تھی۔ ع

    گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کومیرے قرارہے

    لیکن پھر وہ خاموش رہنے لگی اور کام کاج میں مشغول رہتی۔

    میرے مکان کی ڈیوڑھی میں ایک پرانا کھجورکا درخت تھا۔ ایک زمانے میں اس میں پھل لگاکرتے تھے اور شہد کی مکھیاں غذاکی تلاش میں نیچے اترآتی تھیں۔ اس کی بڑی ڈالیوں پراکثر جانور آکربیٹھتے تھے اوربھولے بھٹکے کبوتر راتوں کو بسیرا کیاکرتے تھے لیکن اب اس کے پتے جھڑگئے،ڈالیاں گرچکی تھیں اوراس کا تنا سیاہ اوربدہیئت رات کی تاریکی میں اس بانس کی طرح کھڑا رہتا جوکھیتوں میں جانوروں کوڈرانے کے لیے گاڑدیاجاتاہے۔ اب نہ اس پرجانورمنڈلاتے تھے، نہ شہد کی مکھیاں اس طرف آتی تھیں۔ کبھی کبھی صرف کوئی کوا اس ٹھنٹھ پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرتا اور اپنا گلا پھاڑتا، یا کوئی چیل اس پر ذرادیرکوبیٹھ کرچلاتی اورپھر اڑجاتی۔

    صبح کی بڑھتی ہوئی روشنی میں تناآسمان پر چمک اٹھتا تھا لیکن شام کوفضا کی بڑھتی ہوئی تاریکی میں وہ آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا اور رات میں مل جاتا۔ رات کو اکثر گھرمیں داخل ہوتے وقت میری نگاہ اس کے موٹے اوربھیانک تنے پرپڑتی، پھراس کے ساتھ ساتھ اٹھتی ہوئی آسمان پرجاتی۔ تارے چمکتے ہوتے تھے اورٹھیک اس کے سرے پربنات النعش کا آخری ستارہ مجھ کودکھائی دیتالیکن وہ تنامیری نگاہ اور آسمان کے درمیان حائل ہوجاتا اورمیں تاروں کے پھیلاؤ کونہ دیکھ سکتا تھا۔

    ٭

    محلہ میں اکثرایک پاگل عورت آیاکرتی تھی۔ کسی نے اس کے بال کاٹ دیے تھے اور اس کا سراس کے توانا اور بھاری جسم پرایک اخروٹ کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ خدا ترس لوگ کبھی کبھی اسے کپڑے پہنادیاکرتے لیکن چندہی گھنٹوں کے بعد وہ پھر ننگی ہوجاتی تھی۔ یاتوکوئی کپڑوں کواتارلیتا یا وہ خود ان کوپھاڑ کرپھینک دیتی تھی۔ اس کے منہ سے ہمیشہ رال بہاکرتی تھی اوراس کے ہاتھ اکڑے ہوئے رہتے۔ وہ اکثر مٹک مٹک کرسڑک پرناچتی اورتھرکتی اورگونگوں کی طرح گن گن کرتی۔ جیسے ہی وہ محلے میں داخل ہوتی، لڑکوں کا ایک غول اس کے پیچھے تالیاں بجاتا اور ’’پگلی‘‘ کہہ کہہ کر پتھرپھینکتا اورمنہ چڑاتا۔ عورت ’’ایں،ایں‘‘ کرتی اور کونوں میں چھپتی۔ جب کبھی مرزا کی دکان کے سامنے یہ واقعہ ہوتاتو مرزا لڑکوں پرچیختا،’’اے سسروں تمہیں مرنا نہیں ہے۔ بھاگویہاں سے دورہو!‘‘ لیکن ذرادیر کے بعد لڑکے پھرجمع ہوجاتے۔

    اکثربڑے آدمی بھی اس سے مذاق کرتے۔ وہ بدصو رت ضرورتھی لیکن اس کی عمرزیادہ نہ تھی۔ اس کاپیٹ بڑھاہواتھااوراکثر منوجوکھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا لیکن اب بدمعاشوں میں مل گیاتھا، اس کے پیٹ پرہاتھ رکھ کرکہتا،’’کیوں، تیرے بچہ کب ہوگا؟‘‘

    اورپگلی ایک دردانگیز وحشیانہ آواز نکالتی اوراپنے ہاتھ آگے بڑھا کے جوڈھیلے اورلج لجے رہتے،کسی راہگیر یادکان دارسے مخاطب ہوکر منوکی طرف اشارہ کرتی۔ اس کی کریہہ آوازمیں ایک منت ہوتی تھی، ایک بے کس و بے بس شخص کی وہ التجا جو اپنے حاکم یا اپنے سے زیادہ طاقتور انسان سے کرتا ہے کہ مجھے بخش دو اور بچالو، مگراور لوگ بھی مذاق کرنے میں شریک ہوجاتے اور زور زور سے قہقہہ لگاتے۔

    ہندستان میں ہزارہا لوگ ایسے ہیں جن کوسوائے کھانے پینے اورمرجانے کے کسی بات کا احساس نہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں، کمانے لگتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا کی کسی بات سے کوئی واسطہ نہیں۔ انسانیت کی بو ان میں نہیں ہوتی۔ زندگی کی عظمت کاان کوکوئی احساس نہیں،جیسے غلام، جو کام کرنے اور مررہنے کے علاوہ کوئی دوسری حقیقت نہیں جانتے۔ زندگی کا طلوع اورموت کا غروب ان کے لیے دونوں یکساں ہے۔ ان کے لیے دن کام کرنے اور راتیں سورہنے کے لیے بنی ہیں۔ بس یہی ان کی زندگی ہے اوریہی زندگی کی حقیقت ہے اور صرف موت ان کوزندگی سے نجات دلاسکتی ہے۔

    اکثرکوکھجلی تھی اوران کی کھال میں سے گوشت نظرآتاتھا۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں کو نکوس کروہ اپنے پٹھے کھجلاتے تھے یاقصائی کی دکان کے سامنے ایک ہڈی کے پیچھے ایک دوسرے کونوچتے اور لہولہان کردیتے۔ وہ اپنی دُمیں ٹانگوں کے بیچ میں دبائے نالیوں میں سونگھتے دبے دبے آتے تھے اورقصائی کی دکان کے سامنے چھیچھڑوں پرجھپٹتے لیکن اکثرجیسے ہی ان کوکوئی گوشت کا ٹکڑا یا ہڈی دکھائی دیتی توچیلیں اوپر سے جھپٹامارتیں اوران کے سامنے سے گوشت کواٹھالے جاتیں۔ پھر وہ ایک ایسے آدمی کی طرح جوخفیف ہوگیاہو،اپنی دم دبائے ہوئے سڑک کوسونگھا کرتے یااپنی جھینپ آپس میں لڑائی لڑکے ایک دوسرے کا خون بہاکرمٹاتے۔

    صبح کوبہت سویرے شیرا چنے بیچنے والے کی آواز آتی تھی۔ وہ اپنی جھولی میں گرم گرم تازے بھنے ہوئے چنے گلی گلی اورکوچے کوچے بیچتا پھرتا تھا۔ اس کی عمر کوئی چالیس سال کے قریب تھی لیکن وہ دبلا اورسوکھا ہواتھا۔ اس کے چہرے پرجھریاں ابھی سے نمایاں ہوگئی تھیں اور اس کی خشخشی ڈاڑھی میں سفید بال آگئے تھے۔ اس کی آنکھیں ایک بیمار کی آنکھوں کی طرح تھیں جن کے نیچے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے اورجن میں بھوک اورغربت رنج اورمصیبت صاف جھلکتے تھے۔ ان کے ڈھیلوں میں باریک باریک سرخ رگیں دور سے دکھائی دیتی تھیں جیسے یا تو نشے میں یا دنوں کے فاقے اوربخار کے بعد پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کے سرپرایک کپڑے کی میلی ٹوپی ہوتی تھی۔ گلے میں پھٹاہوا قمیص اور اس کی اٹنگی دھوتی میں اس کی پتلی پتلی ٹانگیں دکھائی دیتی تھیں۔

    عرصہ ہوا وہ ہمارے شہر میں کسی نزدیک کے ضلع سے کام کی تلاش میں آگیاتھا۔ وہ رات کوایک مسجدمیں پڑرہتا اور دن بھرشہر کی سڑکوں پر ماراماراپھرتالیکن شہروں کی حالت روزگارکے معاملے میں گاؤں اور قصبوں سے کسی طرح بہترنہیں! اورشیرا کوکوئی کام نہ ملا۔ مسجد میں میرامان اللہ نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔ شیرا نے ان کواپنا قصہ سنایا۔ میرصاحب کواس کی حالت پرترس آیا اور وہ اسے اپنے گھر لے گئے۔ شیرا نیک اور دیانتدار آدمی تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرصاحب نے اسے پانچ روپے دیے اورکہا،’’اس سے کوئی کام شروع کردینا،اس لیے میں یہ روپے دیتاہوں۔ جب تمہارے پاس پیسے ہوں تو یہ رقم واپس کردینا،ورنہ کوئی فکرکی بات نہیں ہے۔‘‘

    شیرا نے دال سیو اور کابلی چنوں کاخوانچہ لگایا۔ کچھ عرصے میں شیرا کو بہت سے محلے والے جان گیے اور اس کا سودا خواب بکنے لگا۔ سال بھر کے اندرہی اس نے میرصاحب کے روپے واپس کردیے۔ اپنے بیوی بچوں کوبلالیا اور ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگااوربہت خوش تھا۔

    اسی دوران میں عبدالرشید کوسوامی شردھانند کے قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کاحکم ہوگیا۔ سارے شہر کے مسلمانوں میں پھا نسی والے روزجیل کے باہر ہزارہا آدمیوں کا ہجوم تھا۔ وہ سب دروازہ توڑکراندرگھس جاناچاہتے تھے لیکن جب پولس نے عبدالرشید کی لاش کودینے سے انکارکردیاتو لوگوں کے جوش اور غصے کاکوئی ٹھکانا نہیں رہا۔ ان کا بس نہیں چلتاتھا کہ کس طرح جیل کومسمار کردیں اور اس غازی مردکی لاش کوایک شہیدکی طرح دفن کریں۔

    اس دن شیرا کسی کام سے جامع مسجد کی طرف گیاہوا تھا۔ آسمان پرغبار چھایاہوا تھا اورسڑک ایک شہرخموشاں کی طرح سنسان اور اجاڑمعلوم ہورہی تھیں۔ اس کوکئی ایک بھوکے کتے پڑے ہوئے دونے چاٹتے دکھائی دیے۔ ایک نالی میں ایک مراہوا کبوتر پڑا تھا۔ اس کی گردن ایک طرف مڑگئی تھی، اس کی ٹانگیں سخت اورنیلی،اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے پرپانی میں بھیگ گئے تھے اوراس کی ایک آنکھ کریہہ معلوم ہورہی تھی۔ شیرا کھڑا ہوکراس کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں سامنے سڑک کے موڑسے کلمے کی آواز زور زور سے آنے لگی۔ لوگ ایک جنازہ لیے چلے آرہے تھے۔ جو جنازہ شیرا کی طرف آتا گیا، پیچھے بھیڑ اورزیادہ نظر آتی گئی، یہاں تک کہ دور دور آدمیوں کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دیتا تھا۔ خلقت عبدالرشید کے جنازہ کو کس طرح لے بھاگی تھی۔

    شیرا بھی جنازے کی طرف بڑھا اورکندھے دینے میں شریک ہوگیا۔ اتنے میں سامنے سے پولیس نمودار ہوئی اورانہوں نے جنازے کوآگے بڑھنے سے روک دیا اورکئی ایک آدمیوں کوگرفتارکرلیا۔ ان لوگوں میں شیرابھی تھا اوراس کواس بلوے میں شرکت کرنے کی بدولت دوسال کی سزا ہوگئی۔

    اب وہ قیدبھگت چکاتھا لیکن اس کے گاہک اب اس کی آواز سے ناآشنا ہوچکے تھے اوراس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ دوبارہ خوانچہ لگاسکے۔ کچھ لوگوں نے چندہ کرکے اسے دوروپے دے دیے اوران سے شیرا نے پھر کام شروع کیا اوراب چنے بیچتا پھرتا تھا لیکن اب اس کی آوازمیں پچھلاکرارہ پن باقی نہ تھا اورمصیبت اور تکلیف اس کی ہرپکار میں سنائی دیتی تھی، تاہم بچے اس کی آواز سن کرچنے لینے کودوڑتے تھے اور وہ مٹھی سے نکال نکال کر چنے تولتا اور ان کو دے دیتاتھا۔

    ایک اورشخص جوہمارے محلے میں ہرروز رات کوآیاکرتا تھا، وہ ایک اندھا فقیرتھا۔ اس کا قدبہت چھوٹا تھا اوراس کی چگی داڑھی پرہمیشہ خاک پڑی رہتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹا ہوابانس کاڈنڈا رہتاتھا جسے ٹیک ٹیک کروہ آگے بڑھتا تھا۔ وہ بالکل حقیر اور ناچیز معلوم ہوتا تھا جیسے کوڑے کے ڈھیر پرمکھیوں کا غول یاکسی مری ہوئی بلی کا ڈھنچر،لیکن اس کی آواز سارے میں بے بسی پھیلاتی ہوئی دورتک نکل جاتی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ اثررکھنے والی آواز نہیں سنی تھی۔ اورابھی تک وہ میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ بہادرشاہ کی غزل اس کے منہ سے پھرپرانے شاہی زمانے کی یاد تازہ کردیتی تھ،ی جب ہندوستان اپنی نئی بندشوں میں نہیں جکڑ گیاتھا۔ اس کی آواز سے صرف بہادرشاہ کے رنج کا ہی اندازہ نہیں ہوتا تھا بلکہ ہندوستان کی غلامی کا نوحہ سننے میں آتاتھا۔ دور سے اس کی آواز آتی تھی،

    نہ کسی کی آنکھ کا نور ہو ں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

    جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

    لیکن محلہ کے شرفا اس کو پیسے دینے سے گھبراتے تھے، کیوں کہ وہ غالباً چرس پیتاتھا۔

    ایک را ت میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ گرمیوں کی رات تھی اور کوئی دس بجے کا وقت۔ زیادہ تر دکانیں بند ہوچکی تھیں لیکن کوابی اورمرزا کی دکانیں اب تک کھلی ہوئی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ اپنی اپنی چارپائیوں پرلیٹے ہوئے تھے۔ کچھ توسوگئے تھے اورکچھ ابھی تک باتیں کررہے تھے۔ ہوامیں خشکی اورگرمی تھی اورنالیوں میں سڑانڈپھوٹ رہی تھی۔ مرزا کی دکان کے تختے کے نیچے ایک سیاہ بلی گھات لگائے بیٹھے تھی جیسے کسی شکار کی فکرمیں ہو۔ ایک شخص نے ایک آنہ کا دودھ لے کرپیا اور آبخورے کوزمین پر ڈال دیا۔ بلی دبے پاؤں تختے کے نیچے سے نکلی اور آب خورے کوچاٹنے لگی۔ اسی وقت میری کھڑکی کے سامنے سے کلو گذری اوراس کے پیچھے پیچھے منوتیز قدم رکھتاہوا۔

    کلوجوان تھی۔ ا س کا رنگ سیاہ تھا لیکن شباب نے اس کے چہرے پرایک رونق اورخوبصورتی پیدا کردی تھی۔ اس کی چال میں ایک بیباکی اور اکھڑپن تھا اوراس کا جسم زندگی کے ابھارسے توانا اور سبک تھا۔ وہ منصف صاحب کے یہاں ملازم تھی، جن کی بیوی نے اس کوچھٹپن ہی سے پالاتھا۔ اب وہ بیوہ ہوگئی تھی اوراسے بیوہ ہوئے بھی تین سال گذر گئے تھے لیکن محلے کے نوجوانوں کی نگاہیں اس کی طرف گڑی رہتی تھیں۔ جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچی تومنو نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔ کلوجھنجھلاکرچلائی،’’موامسٹنڈاکہیں کا، تجھ پر خدا کی سنوار! ایک عورت کواکیلا دیکھ کرہاتھ ڈالتاہے۔‘‘

    منوبولا، ’’تیری جوانی پھرکس دن کام آئے گی؟‘‘

    ’’ہٹ دورہوموئے، میرا ہاتھ چھوڑ۔‘‘

    برابر ایک مکان کی چھت پردوبلیوں کے لڑنے کی آواز آئی۔ اسی وقت کلونے زور سے جھٹکادیا اور اپنا ہاتھ چھڑالیا۔

    ’’جھاڑوپیٹے، جوانامرگ سمجھتا ہے مجھ میں دم نہیں۔ اتنا پٹواؤں گی، عمر بھریاد کرے گا۔‘‘

    مرزا جوایک خریدار کودودھ دینے کے بعد ذرادیر کے لیے گھرمیں چلاگیاتھا، اسی وقت واپس آیا اور کلو کا آخری جملہ اسے سنائی دیا اور وہ بولا،’’کیا بات ہے کلو؟ کیاہوا؟‘‘ لیکن کلوبغیر پیچھے مڑے تیزی سے گلی کے اندرداخل ہوگئی۔

    عزیز خیراتی جواپنی دکان کے سامنے سورہاتھا، شورسے اٹھ گیا۔ منو کوکھڑا دیکھ کر پوچھنے لگا،’’ابے منو کیا بات ہے؟‘‘ منومایوسی اورغصہ سے بھراکھڑا تھا۔ اس کامنہ خشک ہوکرستاہوامعلوم ہورہاتھا۔ اس کی آنکھیں ایک سانپ کی آنکھوں کی طرح زہریلی اور تیز ہوگئی تھیں۔ کوڑے کے ڈھیر پرایک بلی کی آنکھیں ذرا دیر چمکتی ہوئی دکھائی دیں لیکن پھر غائب ہوگئیں۔ منو نے جھینپی ہوئی،ناامیدی کی آوازمیں جواب دیا،’’کچھ نہیں یار، کلوتھی۔‘‘

    ’’اے کچھ سودا بھی پٹا؟‘‘

    ’’نہیں میاں، ہتے نہیں چڑھی۔ ہاتھ جھٹک کر بھاگ گئی، لیکن سسری جائے گی کہاں؟‘‘

    اوپربلیاں ابھی تک لڑرہی تھیں۔ وہ ایک بھیانک طریقے سے غرانے کے بعد زور زور سے چیختی تھیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو کھاجائیں گی۔ پھرمیاں میاؤں کرکے ایک بھاگ نکلی اوربلا غراتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔

    عزیزخیراتی نے منو کو اپنے پلنگ پربٹھالیااور سرہانے سے بیڑی نکال کراس کی طرف بڑھائی لیکن منو نے اپنی قمیص کی جیب سے ایک چاندی کا سگریٹ کیس نکالااورعزیز سے کہا،’’لومیاں تم بھی کیا یادکروگے، میں تمہیں بڑابڑھیا سگریٹ پلاتا ہوں۔‘‘ اورایک سگریٹ نکال کرعزیز کودیا۔

    ’’ارے یارمیں نے کہا اب کے کس کا مارلایا؟‘‘

    ’’میاں یاروں کے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ جس کونہ دے مولا،اس کودے آصف الدولہ۔ اگراللہ میاں کے بھروسے پررہتے تو کام چل لیاتھا۔‘‘

    ’’میاں ہوش کی لو۔ وِس سے ڈرو۔ دوزخ میں جلوگے۔ توبہ کرو۔‘‘

    ’’جایار۔ یہ بھی کیاگدھوں کی باتیں کرتاہے۔ میں تو یہ جانتاہوں کھاؤ پیو اور مزے کرو۔ اس سے زیادہ استاد نے سکھایانہیں۔ میں تومونچھوں کوتاؤدیتا ہوں اورپڑے پڑے اینڈتاہوں۔ کہاں کی دوزخ لگائی۔ اگرہوئی بھی توبھگت لیں گے۔ اب کہاں کا روگ پالا؟‘‘

    ’’بس یاربس۔ کیوں خراب باتیں منہ سے نکال ریاہے۔ سب آگے آگے آجاتاہے۔ ساری اکڑدھری رہ جائے گی۔‘‘

    ’’اچھایار تو تواس طرح کی باتیں کرنے لگا۔ میں اب چل دیا۔‘‘

    ’’ذری سن لویار۔ ایک بات مجھے دنوں سے حیران کررہی ہے۔ قسم کھابتادے گا۔‘‘

    ’’اچھا جاکیا یادرکھے گا۔ اللہ قسم بتادوں گا۔‘‘

    ’’یہ بتاتو آخرچوری کیوں کرتاہے؟‘‘

    ’’بھئی اس کی نہیں بدی تھی۔‘‘

    ’’دیکھ قول دے چکاہے۔‘‘

    ’’اچھا جاتو جیتا میں ہارا۔ جو سچ پوچھو توبات یہ ہے کہ میں کبھی چوری نہ کرتا۔ توجانتا ہے کہ میرے رشتہ دار کافی امیرلوگ ہیں۔‘‘

    ’’جدھی تومیں اوربھی حریان ہورِیاہوں۔‘‘

    ’’میرا ایک بھائی لگتا تھا۔ لونڈا نمکین تھا۔ یہ کوئی دس برس کی بات ہے۔ تومیری کچھ اس سے چل گئی تھی۔ ہم دونوں مدرسے میں ساتھ پڑھتے تھے۔ اس نے ماسٹر سے میری شکایت کردی اور بینتیں لگوائیں۔ میرے اوپربھوت سوارہوگیا۔ میں نے کہا اگرسالے بدلا نہ لیا ہوتو پیشاب سے مونچھیں منڈوادوں گا۔ ایک روز موقع پاکر میں نے سالے کا بستہ چرالیا۔ اس کے اندر بڑی بڑھیا بڑھیا چیزیں تھیں۔ اس سے شروعات ہوئی۔ پھر ایک مرتبہ مجھے ماموں کا سگریٹ کیس پسند آگیا۔ میں ان سے مانگ توسکتا تھالیکن میں نے پارکردیا۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ ان حرام زادوں کے پاس روپے بھی ہیں اوراچھی اچھی چیزیں بھی، کیوں نہ اڑالیا کرو۔ اورپھر تومیراہاتھ خوب صاف ہوگیااور یارسچ پوچھو تو یہ لوگ کبھی غریب کومرکربھی کوئی نہ دیں۔ ان سے توبس اسی طرح چیزیں وصول ہوسکتی ہیں۔‘‘

    ’’لیکن اگرکدھی پکڑے گئے تو؟‘‘

    ’’پھر تونے وہی فضول کی باتیں شروع کردیں۔ اچھا اب میں چلا،نہیں توگھرمیں توتومیں میں ہوگی۔‘‘یہ کہہ کر وہ اٹھا اور عزیز کی کمرپرتھپڑمارکرروانہ ہوگیا۔

    ٭

    ہمارے محلے کی مسجد میں حسان الرحمن اذان دیا کرتے تھے۔ یہ قوی ہیکل اورمضبوط تھے۔ ان کا رنگ بالکل سیاہ تھا اور ان کی داڑھی مہندی سے سرخ رہتی تھی۔ ان کا سرتامڑاتھالیکن پہلوؤں میں گدّھی پران کے پٹھے بال پڑے ہوئے تھے۔ ان کے ماتھے پرٹھیک بیچ میں ایک بڑا سا گٹاپڑگیاتھا جس کا رنگ راکھ کا ساتھا اور الگ دور سے چمکتا تھا۔ اکثروہ میری کھڑکی کے سامنے سے کھنکارتے ہوئے گذرتے تھے۔ وہ گاڑھے کا ڈھیلی موریوں کا پاجامہ اورگاڑھے کاکرتا پہنے رہتے تھے اوران کے کندھے پرایک بڑا سرخ رنگ کا چھپاہوارومال پڑارہتا تھا۔ ان کی آوازمیں ایک ایسا کرارپن، گرمی کے ساتھ ساتھ وہ نرمی تھی جو انسان کوکم عطا ہوتی ہے۔

    ان کی اذان دوردور مشہورتھی اوراس کی آوازکئی محلوں میں پہنچتی تھی۔ اذان سے پیشتر ان کی کھنکار بھی بہت دور سے سنائی دیتی تھی۔ شروع شروع میں ان کی آواز سے ان کی پکارکی شان ٹپکتی تھی جومسلمانوں کو نماز کے لیے بلاتی ہے۔ پھراختتام کے قریب آواز کی جھنکار میں کمی ہوتی اور ان کے جملے بل کھاتے ہوئے ایک سناٹا اورخاموشی پیدا کرتے ہوئے فضا میں کھوجاتے تھے۔ لوگ حسان الرحمن کوحضرت بلال حبشی کہتے تھے اوراس مقابلہ میں بہت سی باتیں دونوں میں مشترکہ تھیں۔ ان کی شاندارآوازیں اوران کا سیاہ رنگ۔

    ایک مرتبہ میں اپنے مکان کی چھت پراکیلابیٹھاتھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور سورج کی روشنی ان پر پیچھے سے پڑرہی تھی اوران میں ہلکی سی پھیکی روشنی نمایاں تھی،کیوں کہ مطلع صاف نہ تھا اور شہر کا گردوغبار، دوردور ملوں کی چمنیوں کا دھواں ہوا میں پھیلا ہوا تھا۔ شہر کے شوروشغب کی جھنکار مکھیوں کے بھنبھنانے کی طرح آرہی تھی اورساری فضا میں ایک دلکش مایوسی تھی۔ وہ تکلیف دہ کیفیت جوہمارے شہروں کی خاص پہچان ہوتی ہے جس میں غربت اور غلاظت،زندگی کی حقارت اور بے بسی کا احساس ہوتاہے۔

    گردوغبار سے میلے اورپھیکے بادلو ں میں ایک جنگلی کبوتر اڑتا ہوا گذرا اوران کے ملگجے رنگوں میں غائب ہوگیا۔ دور سے ملوں کی سیٹیوں اورریل کے انجنوں کی آواز آرہی تھی۔ شہر کی اونچی ممٹیوں اور میناروں سے کبوتر اڑتے تھے یا منڈلامنڈلاکر ان پربیٹھ جاتے تھے۔ دور دور جدھرنگاہ دوڑتی تھی، گندی اوربدنما میلی کچیلی عمارتیں اوران کی چھتیں دکھائی دیتی تھیں۔ دور دور جدھرانسان دیکھ سکتاتھا، زندگی کی سردمہری اوربیکاری کا احساس ہوتا تھا۔ کہیں کہیں دومنزلہ یاتین منزلہ مکان بن رہا تھا اوراس کی پاڑیں آسمان اور نگاہ کے درمیان سدراہ ہوتی تھیں،لیکن بانسوں اوربلیوں کے رنگ نگاہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچاتے تھے اوربادلوں کے رنگوں میں مل کر مدہم اورہلکے دکھائی دیتے تھے۔

    اسی وقت حسان الرحمن کے کھنکارنے کی آواز سنائی دی اور پھر ان کی اٹھتی ہوئی سنہری آواز فضا میں پھیل گئی۔ یہ آواز کچھ ایسی مایوس کن لیکن تسکین بخش تھی کہ میری کوفت ایک خاموش رنج سے بدل گئی۔ اس آوازمیں کوئی عظمت اور بڑائی نہ تھی بلکہ اس سے زندگی کی بے ثباتی کا احساس ہوتا تھا۔ اس بات کا کہ دنیا مردار ہے اور اس کے چاہنے والے کتے۔ اس بات کاکہ زندگی حقیر اورناچیز ہے، اسی طرح جیسے بادلوں کے چہرے پرگرداور دھواں اورغباراپنے موہوم خیالات کاشکارہیں۔

    اذان کوسنتارہا۔ یہاں تک کہ وہ اختتام کے قریب آگئی اورحی علی الصلوۃ،حی صلی الصلوۃ کی خاموشی پیداکرنے والی آواز کانوں میں گونجنے لگی۔ پھرحی علی الفلاح، حی علی الفلاح کی آواز سناٹاچھاتی ہوئی،دنیا کی بے ثباتی کا یقین دلاتی ایک لمبی تان کے دھیمے سروں میں ہوتی اس آہستگی اور دلبستگی سے ختم ہوئی کہ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ آواز رک گئی ہے یا ساری دنیا پرخاموشی طاری ہے۔ ایک گہری اورعمیق خاموشی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ دنیا سے پرے کہیں بہت دور ایک اوردنیاہے جس میں ازل اور ابد دونوں ایک ہیں اوریہ دنیا ہیچ اورموہم ہے۔ آواز اس طرح فضا میں کھوگئی جس طرح افق پرزمین ختم ہوتی ہے اورآسمان شروع ہوجاتاہے اورتمیز نہیں ہوسکتی کہ زمین ختم بھی ہوگئی یا ہرجگہ آسمان ہی ا ٓسمان ہے۔ اسی طرح آواز اس آہستگی سے رک گئی اور خاموشی میں امتیاز نہ ہوسکتاتھا۔ آواز کانوں میں گونج رہی تھی لیکن یہی شبہ ہوتا تھا کہ صرف خاموشی کانوں میں ہیجان بپاکیے ہے۔

    اورمیں سوچتا رہا کہ یہ اذان ہماری زندگی کی حقیقت کوکس خوبی سے ظاہرکرتی ہے۔ وہی بے بسی اور مایوسی جوہماری رگ رگ میں پیوست ہوگئی ہے، وہی ناامیدی اورخارجی حقیقت کا خوف جوہم کوایک داخلی زندگی بسر کرنے پرمجبور کردیتاہے، اس اذان میں موجودتھے۔ ہم دنیا کوچھوڑکر ازل اورابد کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ آدمی کوبھلاکرخدا کی تلاش میں مشغول رہتے ہیں اور ہماری زندگی کی ہرچیزہم کو اس بات کی ترغیب دلاتی ہے، ہمارا ہرگیت ہمیں یہی لوریاں سناتاہے۔ ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں لیکن ہم ان کی رگڑکے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ وہ ہم کوایک خارجی حقیقت نہیں معلوم ہوتیں۔

    ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہیں، ہمارے گلوں میں طوق ہیں،ہماری زبانوں میں قفل ڈال دیے گئے ہیں لیکن ہم کوکسی بات کا احساس نہیں۔ ہمارا جسم سن ہوچکاہے، ہماری روح سوگئی ہے اورہم اپنی بے بسی میں مگن ہیں اورلاپروائی اوربے حسی کی زندگی گذارتے ہیں، حتی کہ موت اپنے پنجے بڑھاتی ہے اورہم کواپنے تاریک آغوش میں کھینچ لیتی ہے۔ ہماری نیک نامی اوربدنامی دونوں برابرہیں۔ ہماری زندگی اور موت دونوں یکساں ہیں اوراذان کی آواز کی طرح ہم اس طرح زندگی سے موت میں بدل جاتے ہیں کہ کوئی تمیز نہیں کرسکتا کہ ہم کبھی زندہ بھی تھے یایہ سب محض ایک وہم وگمان تھا اورہم موت کے دلارے ہمیشہ سے اس کی لوریوں سے مخمورخواب غفلت کی نیند سویا کرتے تھے۔

    ایک رات کومرزاصاحب کی دکان پر تین چارآدمی بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ ان میں سے ایک توعزیز تھا،ایک کوابی اورایک آدھ اورجمع ہوگئے تھے۔ ان کے سامنے حقہ رکھا تھا اوروہ باری باری کش کھینچ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہہ رہاتھا،’’میں تویارہرایک چیزمیں وس کی شان دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    اس پرمیرے کان کھڑے ہوئے اورمیں غور سے سننے لگا۔ اتنے میں ایک گاہک آیا اور اس نے مرزا سے پانچ پیسے کا دودھ مانگا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ مرزا نے ایک آبخورہ اٹھایا اور دودھ نکالنے کے لیے لٹیا کڑھاؤ کی طرف بڑھائی۔ اس آواز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،’’پرلے دن میں چاندی چوک میں سے جارِیا تھا کہ سامنے سے ایک بچھیا آرہی تھی۔ وہی جگہ ایک بچہ پڑا تھا۔ گائے بچہ کے پاس آن کے رک گئی۔ میں نے سوچا کہ دیکھو اب کیا کرتی ہے۔ وتے میں صاحب وِس بچھیا نے اپنے چاروں پیر جوڑکر ایک قلانچ ماری،بچہ کوصاف لانگ گئی۔ مجھ کوتو وِس جناور کی عقل میں وِس کی شان نظر آگئی۔‘‘

    مرزا کاایک ہاتھ کڑھاؤ کے پاس تھا، دوسرے میں آبخورہ تھا اوروہ بولنے والے کی طرف گھوررہاتھا۔ عزیز بولا،’’واہ۔ کیا وِس کی شان ہے۔‘‘

    مرزا نے لٹیا میں دودھ لیا اور اس کواچھالنے لگا۔ اتنے میں ایک دوسرا شخص بولا،’’ہاں میاں وِس کی شان کا کیا پوچھ رہے ہو۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان کوحکم ملا کہ محل بناؤ۔ توبس صاحب ونہوں نے تیاریاں شروع کردیں۔ جناتوں نے آناًفاناً بڑے بڑے فتّراورسلیں لاکرجمع کردیں اورمدت لگ گئی۔ تم جانتے ہو جناتوں کا کام کتنی فُرتی کا ہوتا ہے۔ آج اتنا کل وتنا۔ تھوڑے ہی دن میں محل آسمان سے باتیں کرنے لگ گیا۔ حضت سلیمان روزوس جنگہ جاکے دیکھا کرتے تھے کہ کوئی کام میں سستی تو نہیں کررہاہے۔ توبس صاحب ایک دن محل کھڑا ہوگیا۔

    اب صرف وِس کے اندر کی قتلیں اور فتّر صاف کرنے رہ گے۔ دوسرے روز پھرحضرت سلیمان اپنی لکڑی ٹیک کے کھڑے ہوگئے اور ملبہ باہرپھینکنے کا حکم دے دیا۔ لیکن وتے میں وہاں سے کچھ اورہی حکم آچکاتھا۔ اب دیکھئے وِس کی شان کہ یہاں تومحل کی صفائی ہورہی ہے اوروہاں وِس لکڑی میں گھن لگنا شروع ہوگیا لیکن وہ ڈٹے کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ گھن لگتے لگتے مونٹھ تک پہنچ گیا لیکن ون کوذری بھی خبرنہیں ہوئی اور لکڑی راکھ کی طریوں جھڑگئی اور وُن کاخودکادم نکل گیا۔ لیکن میں تو اس بات پرحریان ہورِیاہوں کہ ون قتلوں اورفتروں کوکون صاف کرے گا۔‘‘

    عزیزکے ہاتھ میں حقہ کی نلی اس کے منہ کے برابر رکھی ہوئی تھی اوروہ بولنے والے کی طرف گھوررہا تھا۔ مرزا کا ایک ہاتھ جس میں لٹیاتھی اوپرتھا اورآبخورہ والا نیچے، اور وہ قصہ میں محوتھا۔ میں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا، لیکن پھر سوچ میں کھوگیا کہ واقعی آخران ’’قتلوں اورفتروں‘‘ کوکون صاف کرے گا۔

    ہوا کا ایک جھونکا زور سے آیا اورمٹی کے تیل کا لیمپ گل ہوگیا اور سڑک پراندھیراتھا اوراسی وقت لوگ مرزا کی دکان سے اٹھ کر روانہ ہونے لگے اورمیں بھی گھرکے اندر چلاگیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے