Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حمیدہ

MORE BYصغیر افراہیم

    حبو میاں رنگارنگ طبیعت کے مالک تھے۔ کالا رنگ، کسرتی بدن، گھونگرالے بال، اونچی ستواں ناک اور ہر پل لبوں پر رقص کرتا ہوا تبسم ان کی شخصیت میں عجیب نکھار پیدا کرتا تھا۔ وہ ساٹھ کے لپیٹے میں تھے مگر لگتے چالیس کے تھے۔ والدین کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی ہیرو بننے کا شوق پیدا ہوا۔ گھر کا اثاثہ بیچ بمبئی پہنچ گئے اور پھر چھ سات سال بعد فلم نگری کو ٹھکراکر کج کلا ہی شان سے وطن واپس آ گئے۔ ایسا وہ خود فرماتے تھے۔ متعلقین میں کوئی تھا نہیں۔ اس سے زیادہ کی روداد کا ذکر انہوں نے نہ کبھی خود کیا اور نہ ہی ان سے پوچھنے کی کسی کو ہمت ہوئی کیونکہ ان کے منھ پھٹ ہونے سے سبھی بخوبی واقف تھے۔ اس کے باوجود ان میں کچھ باتیں ایسی ضرورتھیں کہ جن کی بنا پر علاقہ کا ہر چھوٹا بڑا ان سے دلچسپی لیتا۔ سنجیدہ افراد بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے کیونکہ حبّو میاں ہر ایک کے آڑے وقت پر اپنی بساط سے زیادہ کام آتے۔

    بمبئی سے واپس آنے کے بعد اپنے ہی محلہ کی گلی میں انہوں نے دو کوٹھریاں کرایہ پرلے لیں۔ ایک میں وہ خود رہتے، دوسری میں جنرل مرچنٹ کی دوکان کھول دی، جو خوب چلتی۔ بیماری کی حالت میں بھی دوکان بند نہیں کرتے۔ شاید آرام کے لیے انھوں نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا تھا۔ اللہ کے گھر کی طرح ان کا در بھی صدا کے لیے کھلا تھا۔ لیکن پہلی بار دوکان اور کوٹھری میں دیر تک تالہ لگا دیکھ کرلوگ فکر مند ہوئے اورجیسے جیسے وقفہ بڑھتا گیا چہ مہ گوئیاں بڑھتی گئیں۔ تیسرے دن ڈاکیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ بمبئی سے تار آیا تھا، حمیدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ خاص معتقدین کو بھی حمیدہ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا کہ حبّو میاں کا ان سے کیا رشتہ ہے اور وہ اچانک اس طرح کسی کو کچھ بتائے بنا کیسے چلے گئے۔ یہ ان کے مزاج کے خلاف تھا کیونکہ چھوٹے چھوٹے واقعہ کا ذکر وہ کئی کئی بار کرتے ۔ کہیں جانے کے پروگرام کو باقاعدگی سے ترتیب دیتے۔ بیٹھنے والوں کو ترغیب دیتے بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ساتھ چلنے پر اکساتے اور اگر کوئی ہم سفر بننے پر رضا مند نہ ہوتا تو پھر حبو میاں اپنا پروگرام ملتوی کر دیتے۔ لیکن اس بار ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کانوں کان خبر نہ ہوئی اور وہ اتنے لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔ حمیدہ سب کے لئے معمہ بنی ہوئی تھی کہ ساتویں دن حبو میاں علی الصبح واپس آئے تو ان کے ہمراہ ایک دبلی پتلی جوان عورت اور دو لاغر سے بچے تھے۔ جسم کی ساخت بتا رہی تھی کہ عورت تیسرے بچے کو جنم دینے والی ہے۔ حبو میاں کوٹھری میں داخل ہوئے تو دوپہر تک باہر نہ آئے۔ لوگ منتظر تھے کہ وہ کوٹھری سے نکلیں یا دوکان کھولیں تو ان سے روداد معلوم کی جائے۔ آخر چند لوگوں نے مجبور اً دروازے پردستک دی۔ طویل وقفہ کے بعد حبو میاں سر جھکائے مجرموں کی طرح باہر آئے اور یکایک پھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔ لوگوں نے تسلی دی۔ چابی لے کر دوکان کھولی۔ صبر کی تلقین کی۔ مگرحبّو میاں گم صم بیٹھے، اشک آلود نظروں سے خلا کو گھورتے رہے اور پھر کہانی کے انکشاف نے سب کے حواس باختہ کر دیے۔ انہوں نے بتایا حمیدہ میری بیوی تھی۔

    میں اسے بہت پیار کرتا تھا مگر اسے دولت کی چاہ تھی۔ بمبئی میں مجھے اسی کے ڈھابے میں پناہ ملی تھی۔ فلموں میں جب کوئی چانس نہ مل سکا تو میں نے حمیدہ کے ڈھابے میں ملازمت اختیار کر لی جسے اس کی ماں اور ماموں چلاتے تھے۔ ہوٹل اچھا خاصا تھا۔ کئی تنگ رہائشی کمرے جن میں کھانے پینے کے انتظام کے علاوہ دوسری سہولیات بھی میسر تھیں۔ ماں ماموں دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے صفائی اور مالش کا کام کرتے تھے۔ آئے دن گالی گفتاری، لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی ایک ہنگامے میں حمیدہ کا ماموں مارا گیا جبکہ میں نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی۔ کئی غنڈوں کو اس نے ایسی پٹخنیں ماریں کہ ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں مگر چاقو کا ایک بھرپور وار حمیدہ کے ماموں کا کام تمام کر گیا۔ ماں بیٹی میرے کسرتی بدن اور جوانمردی سے بیحد متاثر ہوئیں۔ رکھوالی کے لئے انہیں شدت سے میری ضرورت محسوس ہوئی۔ حمیدہ میری طرف ملتفت ہوئی جبکہ میں بہت پہلے سے اس پر لٹو تھا۔ اچانک ایک دن حمیدہ کی ماں نے اس سے میری شادی کرا دی۔ میں نے پلک جھپکتے من چاہی منزل حاصل کر لی۔ شب وصل پتہ چلا کہ وہ جلدہی ماں بننے والی ہے۔ شرم، شرافت اور غیرت مجھے حمیدہ کے نزدیک جانے سے روکتی رہی۔ تین ماہ بعد اُس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ آپریشن کی جان لیوا تکلیف کے بعد زچہ بچہ کو صحیح سلامت دیکھ کر میں نے حمیدہ کی لغزشوں کو فراموش کر دیا مگرو ہ اپنے آپ کو بدل نہ سکی۔ اگلے سال وہ پھر ماں بننے والی تھی۔ میں یہ ذلت برداشت نہ کر سکا اور ہمیشہ کے لئے وطن واپس آ گیا۔ حبو میاں نے تمتماتا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا تو مجمع کو محو حیرت پایا۔ انہوں نے سوالیہ نظروں کو پڑھتے ہوئے بتایا۔ حمیدہ بیٹے کو جنم دینے کے بعد سنبھلی اور اس نے مجھ تک بہت سے پیغامات پہنچوائے مگر میں پلٹ کر نہ جاسکا۔ بیٹی، ریشما! جو میرے ساتھ آئی ہے، شوہر سے نباہ نہ کر سکی اور بیٹا اپنی گھناؤنی کرتوتوں کی بدولت جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے