حاصل کاروبار جہاں
دہلی سے ہم لوگ شوٹنگ کی غرض سے رضالائبریری، رام پور کے لیے نکلے تو میں راستے میں ان شعرا کے بارے میں سوچنے لگا جو دہلی سے رام پور گئے تھے، سب سے پہلے غالب کا خیال آیا، لیکن غالب کا تعلق رام پور سے محض مالی تعاون کا تھا، والئی رام پوران کے شاگرد تھے، وہ تھوڑے دن کے لیے رام پور گئے ضرور لیکن وہاں رکے نہیں۔ اس کے بعد داغ کا خیال آیا، اگرچہ ان دنوں میں بھی کچھ شعر کہہ لیتا تھا اور اس وقت میں بھی دہلی سے رامپور جا رہا تھا، لیکن خود اپنا خیال آنا نہایت گھٹیا حرکت تھی۔ میں نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کسی نے میرا ذہن پڑھ تو نہیں لیا۔ لیکن میرے ساتھی فلموں سے وابستہ لوگ تھے۔ ان کا دماغی باتوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ دماغ سے باہر در آئی ٹھوس چیزوں کے ہی سوداگر تھے۔ بہر حال ایک بار پھر میں نے پرانے سوال پر سوچنا شروع کیا، تو میری نظر انتخاب داغ پر ہی ٹھہر گئی۔ داغ کی رام پور سے وابستگی کے کئی واقعے ذہن میں ابھرنے لگے کہ تبھی میرے ایک ساتھی نے مجھ سے ایک سوال کیا، ’’رام پور ریاست کب اور کس نے قائم کی تھی؟‘‘
اس طرح میرے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ میں نے جواب دیا، ’’نواب فیض اللہ خاں نے ۱۷۷۴ء میں ریاست رام پور قائم کی تھی۔‘‘
میں نے ان کے سوال کا جواب تو دے دیا لیکن تھوڑی قباحت بھی ہوئی کہ مجھے کچھ بھی سوچنے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ بار بار میرے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ سچ پوچھوں تو ان کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی، مجھے ان لوگوں کے ساتھ لایا ہی اسی لیے گیا تھا کہ میں انھیں اس طرح کی جانکاری فراہم کرسکوں، اس کے علاوہ کچھ لوگوں کے انٹرویو بھی مجھے ہی لینے تھے۔
رضا لائبریری کے بڑے دروازے پر پہنچا تو اسے دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ہراینٹ گذشتہ رعنائیوں کا پتہ دے رہی تھی اور ہر شے بے نورسی ہو رہی تھی۔ دور دور تک پھیلے ہوئے سبزہ زار، ٹوٹے ہوئے کنگورے اور گنبد قصہ پارینہ کی داستان بیان کر رہے تھے۔ ان سب کو دیکھ کر ایک اداسی نے مجھے گھیر لیا، لیکن میں نے ایک بار پھر داغ کے رام پور کے قیام کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہاں رہتے ہوں گے۔ وہ اصطبل اب کہاں ہوگا؟ جہاں وہ داغ پیدا ہوئے تھے۔ لیکن ہمارے کیمرامین نے ایک بار پھر میرے خیالوں کا سلسلہ توڑتے ہوئے کہا۔ ’’واہ آج کتنی پیاری دھوپ ہے، یہ زردی مائل دھوپ تاریخی عمارتوں کی شوٹنگ کے لیے مثالی روشنی ہوتی ہے اور کبھی کبھی ہی میسر ہوتی ہے۔ قدیم عمارتوں کی شوٹنگ کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
تبھی مجھے خیال آیا، آج جو افسردگی کا احساس مجھے بار بار ہو رہا ہے، اس میں اس زردی مائل دھوپ کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے، اس دھوپ نے مجھ میں صدیوں کی اداسی اور زوال آمیز زندگی کا احساس اور بڑھا دیا تھا۔ بہر حال میرے ساتھیوں نے خوشی خوشی اس محل کی شوٹنگ شروع کردی۔ شوٹنگ کے دوران وہ لوگ مجھ سے بار بار اس شہر کی تاریخی اہمیت کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور میں ان سوالوں کے جواب دیتا رہا۔ میرا رام پور کا سارا علم کتابی تھا، میں اس سے قبل کبھی یہاں نہ آیا تھا۔ اس لیے کئی بار میں ان کے سوالوں کا تشفی بخش جواب نہ دے پاتا تھا کیونکہ وہ لوگ ہر شے کیمرے کی نظر سے پوچھ رہے تھے۔ اسی دوران لائبریری کے ڈائرکٹر بھی وہاں آگئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت کبھی شاہی محل ہوا کرتی تھی۔ آزادی کے بعد یہ محل کتب خانے کے لیے وقف کر دیا گیا تھا اور دوسرا محل جسے بے نظیر کوٹھی کہتے ہیں، اس میں نواب صاحب نے سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے اطلاع دی کی ہم لوگوں کے قیام و طعام کا انتظام اسی محل کے ایک حصے میں ہے۔ جسے اب کتب خانے کا مہمان خانہ بنا دیا گیا ہے۔ میرے ساتھی شوٹنگ سے بہت خوش تھے اور رات کے کھانے کے بعد انھوں نے مقامی تھیٹر میں ایک فلم دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے طبیعت کی خرابی کی وجہ سے فلم نہ دیکھ پانے کا بہانہ بنالیا۔ البتہ میں نے ان کو ایک مشورہ دیا کہ آپ لوگ گلی محلے کے راستے تو جانتے نہیں ہیں، اس لیے کار یہیں کھڑی کر دیجیے اور جہاں بھی جانا ہے، رکشے سے جائیے۔ رکشے یہاں ہر مقام کے لیے اور ہر وقت مل جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو مشورہ پسند آیا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد میں آرام کرنے کے لیے لیٹا تو ایک بار پھر داغ کی یاد آنے لگی۔ اب میرے تصور میں بے نظیر باغ کے میلے کے مناظر گھومنے لگے کہ تبھی ایسا لگا کہ کسی نے باہر زنجیر ہلائی ہے، میں نے دروازہ کھولا تو باہر گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ سامنے ایک بہت قدیم باغ تھا، تیز ہوا چل رہی تھی، سوکھے پتے کھڑ کھڑارہے تھے کہ اتنے میں کوئی آواز سنائی دی۔
’’تم پہلی بار رام پور آئے ہو، تمھیں شہر کے بارے میں کیا معلوم، چلو میں تمھیں شہر کی سیر کرادیتا ہوں، بے نظیر باغ گھمادیتا ہوں۔‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی، کہیں کوئی نظر نہ آیا۔ میں نے دروازہ بند کر لیا اور واپس اپنے بستر کی طرف بڑھنے لگا، میں تھوڑا گھبرایا بھی۔ ابھی میں پلٹا ہی تھا کہ لگا جیسے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اسی کے ساتھ وہ آواز پھر گونجی، ’’میں تمھیں سے مخاطب ہوں، گھبرائیے مت، یوں تو اس شہر سے روز ہی لوگ دہلی آتے جاتے ہیں، لیکن اب کسی کو داغ کا خیال بھی نہیں آتا۔ اب نہ کوئی خاقانی ہنداستاد ذوق کی بات کرتا ہے اور نہ کوئی مرزا نوشہ کی خبر لاتا ہے، نہ جانے اب قلعۂ معلیٰ کی کیا صورت ہے؟ خیر میں دہلی کی خیریت تم سے بعد میں پوچھوں گا۔ چلو پہلے میں تمھیں رام پور کی سیر کراتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس کے قدموں کی آواز مجھ سے دور ہونے لگی۔ میں بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر اس آواز کے پیچھے پیچھے ہو لیا، آگے آگے سوکھے پتوں پر کوئی چلا جا رہا تھا لیکن نظر کچھ نہیں آرہا تھا، پیچھے پیچھے میں چلا جا رہا تھا، تھوڑی دیر بعد پھر آواز آئی،
٭
میں تمھیں بے نظیرکوٹھی کی جانب لے چل رہا ہوں، وہیں نواب کلب علی خاں نے میلے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ادھر دیکھو! دور جو چراغاں سا نظر آرہا ہے وہی جائے میلا ہے۔ کہیں رقص و سرود کی محفلیں سجی ہوئی ہیں، کہیں پہلوان تال ٹھونک رہے ہیں، قصہ گو قصہ گوئی کر رہے ہیں، موسیقار سازندے سب اپنے اپنے فن کا جوہر دکھا رہے ہیں۔ میں ایک ایسی شب میں میلے کی سیر کر رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے آواز دی، ’’حضور، داغ صاحب! آپ کو حجاب صاحبہ نے یاد فرمایا ہے۔ انھوں نے درخواست کی ہے کہ جیسے بھی بنے، داغ صاحب کو میری محفل میں لائیے۔‘‘
میں نے عرض کیا، ’’حجاب؟ جب وہ صاحبِ حجاب ہیں؟ تو مجھ سے بے حجابی کیوں کر درکار ہے؟‘‘
’’یہ تو آپ انھیں سے دریافت فرمائیے گا حضور!‘‘
بہر حال میں اس کے ہم راہ چل دیا۔ جب محفل میں پہنچا تو اس نے مجھے محفل میں صدر مقام پر بٹھا دیا اور اس مغنی کے پاس جاکر کان میں کچھ بولا۔ مغنی گانا چھوڑ کر میرے پاس دوڑی چلی آئی۔ سازندے حیران کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ایسا تو کبھی نہیں ہوا، لیکن سازندے اس وقت مزید حیرت میں پڑ گئے جب حجاب میر ے پاس آکر میرے قدموں میں گرپڑی۔ اب سب کی نظریں مجھ پر تھیں۔ میں کبھی مغنی کو دیکھتا ہوں اور کبھی حاضرین محفل کو۔ میں ان سازندوں سے زیادہ حیرت میں پڑگیا اور حیرت سے زیادہ شرم میں ڈوب گیا۔ حاضرین میں سے بیشتر مجھ سے واقف تھے، میں بھی بہتوں کو جانتا تھا، تبھی ایک آواز گونجی، ’’حجاب! داغ صاحب بنفس نفیس تشریف لا چکے ہیں، اب داغ صاحب کی غزل جاری رکھی جائے۔‘‘
میں نے آواز کی طرف نظر دوڑائی، یہ آواز نواب حیدرعلی خاں کی تھی، جو نواب کلب علی خاں کے بھائی تھے۔ کچھ روز قبل انھوں نے مجھ سے ایک غزل لی تھی کہ اسے کوئی مغنی گانا چاہتی ہے۔ حیدر علی خاں کے حکم سے مغنی ایک بار پھر واپس اپنی جگہ پر آگئی اور سازندوں کی طرف بجانے کا اشارہ کیا، تو سازندوں نے پھر سُر چھیڑ دیے۔ اب حجاب نے گانا شروع کر دیا۔ اب جو غزل سنی تو معلوم ہوا یہ وہی غزل ہے جو حیدر علی خاں نے کچھ روز قبل مجھ سے لی تھی۔ حجاب نے اب جو گانا شروع کیا تو ایک بار پھر مطلع سے آغاز کیا:
ترے وعدے کو بت حیلہ جو نہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
آواز نہایت پر کشش تھی، میں پہلے اس کی آواز کی کشش میں ڈوبا، لیکن جلد ہی بات کانوں سے آنکھوں تک پہنچی، تو اس کے حسن اور اس کی ادائوں میں بھی غوطے کھانے لگا۔ دھیرے دھیرے میرے ہوش وحواس جاتے رہے، بات جب مقطع تک پہنچی، تب تک میں پوری طرح سے حواس باختہ ہو چکا تھا۔ وہ میرے بالکل قریب آکر میری جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر تکرار کے ساتھ گانے لگی،
جسے داغ کہتے ہیں دوستو اسی روسیاہ کا نام ہے
میرے اوپر حال آچکا تھا اور میں اس کے گرد پروانوں کی مانند رقص کر رہا تھا۔ جب ہوش آیا تو بڑی شرمندگی ہوئی، خوف بھی آیا کہ حجاب دراصل حیدرعلی خاں کی ایما پر کلکتے سے تشریف لائی تھی۔ کہیں نواب صاحب کو میری حرکتیں گراں نہ گزری ہوں، کہیں اس گستاخی پر نواب صاحب کا عتاب نہ نازل ہو جائے، لیکن جب میں نے نواب صاحب کی طرف دیکھا تو وہ میری اس گستاخی پر ہنس رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی تو میں نے حجاب سے اجازت چاہی، تو اس نے کل پھر آنے کا وعدہ مانگا۔ میں نے عرض کیا کہ تم مجھ سے کل آنے کا وعدہ چاہ رہی ہو اور میں یہ سوچ رہاں ہوں کہ یہ کل تک کا وقت کیوں کر گذرے گا؟ کیسے گذرے گا۔ یہ بار بار کل کیوں ہوتا ہے؟ یہ آج مسلسل کیوں نہیں چلتا رہتا ہے۔
بہر حال جیسے تیسے رات گزری، اگلے روز پورے شہر میں کل کے واقعے کے چرچے تھے، اس واقعے سے کچھ تو میری شہرت بڑھی لیکن یہ واقعہ میری بدنامی کا باعث بھی بنا۔ اگلی شب ملاقات کا تجسس تو زیادہ تھا لیکن ہم دونوں نے ہی بھری محفل میں احتیاط سے کام لیا۔ احتیاط اس لیے لازم تھا کہ حجاب نواب حیدر علی کی دعوت پر تشریف لائی تھی اور ان کی منظور نظر بھی تھی۔ محفل کے بعد ہم دونوں کی پھر ملاقات ہوئی، تو اس نے اپنی قیام گاہ پر آنے کی دعوت دی۔ اس وقت حجاب کی قیام گاہ اسی محل میں تھی، جہاں آج کی شب تمہارا قیام ہے۔
ہم دونوں جب اس رات ملے تو دیر تک عہدو پیماں ہوئے، دل لگی کی باتیں ہوئیں، جب میں نے عشق کا اظہار کیا تو وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگی، میں نے بڑی مشکل سے اسے چپ کرایا۔ اب وہ میرے زانو پر سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور قدرے سکون کی حالت میں تھی، میں اس کی زلفوں سے کھیل رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پیار کے ان لمحوں کو وہ اپنے دل میں بسا لینا چاہ رہی تھی اور بار بار جذباتی ہو جا رہی تھی۔ پھریکایک اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی، میں عرصے سے آپ کی غزلیں گاتی تھی لیکن ملنے کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی۔
حیدر علی خاں کی دعوت تو ایک بہانہ تھی، میں تو آپ سے ملنے آئی تھی۔ میں نے عرض کیا لیکن آپ نے تو مجھے پہلی ہی نظر میں لوٹ لیا۔ یہ کہہ کر میں نے اسے اپنی باہوں میں بھر کر بوسہ ثبت کرنا چاہا تو وہ ’’نہیں‘‘ کہہ کر جھٹکا دے کر دور ہٹ گئی۔ کچھ لمحوں بعد وہ پھر میرے قریب آئی اور میرے قدموں پر اپنا سر رکھ کر رونے لگی۔ رات گزرتی جارہی تھی، میں اسے رام کرنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ تھوڑا پگھلتی تھی اور پھر اچانک پتھر ہو جاتی تھی۔ اس بار جو میں نے پیش رفت کی تو مجھ سے دور ہٹتی ہوئی بولی، ’’آپ مرد بڑے بے مروت ہوتے ہیں، میں جیسے ہی رام پور سے جائوں گی آپ کسی اور کو چاہنے لگیں گے۔‘‘
میں اس کی زلفوں کو سہلانے لگا اور اسے یقین دلانے لگا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں تمھیں دل کی گہرائیوں سے چاہتاہوں۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی باہیں پھیلا دیں۔ وہ میری باہوں میں سمٹ آئی، میں نے کہا میں تمہیں ہمیشہ چاہتا رہوں گا تو وہ جذباتی ہوگئی، میں بھی جذباتی ہوگیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو کس کر باہوں میں جکڑ لیا، میں نے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔ ابھی لب رکھے ہی تھے کہ پاس کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آئی اور وہ ایک بار پھر مجھے جھٹک کر دور ہوگئی۔ اور اس نے کہا، اب ایک لمحہ بھی یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا، آپ فوراً سے پیشتر یہاں سے تشریف لے جائیے۔ نواب صاحب کسی بھی وقت تشریف لا سکتے ہیں۔ میں دل مسوس کر رہ گیا۔
دی شبِ وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
یہ شعر پڑھ کر داغ کی آواز کہیں گم ہوگئی، میں نے اپنے کو باغ میں ایک بڑے پتھر پربیٹھا پایا، چاروں طرف گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آیا، تو میں نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں اور تیز آواز میں چیخا۔
’’داغ صاحب۔۔۔ داغ صاحب۔ مجھے حیدرآباد کا بھی قصہ سنائیے، آپ جب حجاب سے اتنی محبت کرتے تھے، تو آپ نے حیدرآباد سے حجاب کو کلکتے واپس کیوں جانے دیا تھا؟‘‘
تھوڑی دیر میں داغ صاحب کی آواز پھر گونجی، انسان اپنے بہت سے اعمال کے بارے میں خود بھی نہیں جانتا کہ اس نے ایسا کیوں کر کیا؟ لیکن ایسا ہو جاتا ہے۔ ایک رات ایسی آئی کہ حجاب حیدرآباد سے کلکتے واپس چلی گئی۔ جس خواب کو میں نے بیس برس تک اپنی آنکھوں میں اور اپنے دل میں سجایا سنوارا تھا، جب اس کے تکمیل ہونے کا وقت آیا تو میں نے خود اسے توڑدیا۔ اس خواب کا ایسا انجام ہوگا؟ میں کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ آج بھی کف افسوس ملتا ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کر ہونے دیا؟ اگر میں اسے زور دے کر روک لیتا تو کیا وہ رک نہ جاتی؟ وہ ہمیشہ کے لیے میری بن کر حیدرآباد آئی تھی۔ اسی لیے تو کلکتے سے تمام تعلق قطع کر کے وہ میرے پاس آئی تھی۔ وہ حسّےؔ سے شادی کر کے پردہ نشین بن چکی تھی، پھر بھی میں نے کچھ اپنی موجودہ حیثیت اور رسوخ کے ذریعے اور کچھ پرانی بزم آرائیوں کا واسطہ دے کر اسے بلایا تو وہ سارے بندھن توڑ کر میرے پاس بھاگی چلی آئی۔ پھر یہ کیا ہوا کہ میں نے اسے جانے دیا۔ ہائے اب کف افسوس ملنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ بس ایک ہی بات تھوڑی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ بہت زیادہ مدہبی ہو گئی تھی، ایسے میں ایک شاعر سے نباہ شاید ناممکن تھا۔
یہ کہہ کر میں کچھ دیر تک روتا رہا، کچھ دیر تک رولینے کے بعد دل کچھ ہلکا ہوا تو بچپن سے اب تک کی نہ جانے کتنی تصویریں میرے ذہن میں ابھرنے لگیں۔ میں نے بچپن سے اب تک اپنے آس پاس ایسے لوگوں کو دیکھا تھا۔ جو عیش و آرام میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے والیٔ جھر کہ نواب شمس الدین کو دیکھا تھا، جو میرے حیاتیاتی والد تھے، لیکن ان سے مجھے کوئی حق نہ ملا۔ میں نے ولئی عہد مرزافخرو کو دیکھا تھا، وہ بھی والدہ کے شوہر تھے لیکن میرا والد کوئی نہ تھا۔ ان سب کو میں نے بہت قریب سے دیکھا تھا، ان سب کے لیے دنیا بھر کی تمام نعمتیں موجود تھیں لیکن میرے حصے میں کسی یتیم بچے کی طرح صرف محرومی تھیں، چاہے مجھے براہ راست کسی نے کچھ نہ کہا ہو لیکن سب کی آنکھوں میں میرے لیے ’حرامی‘ لفظ لکھا ہوا تھا۔ عمر کا بڑا حصہ اس صورت میں گزارنے کے بعد جب حضور والی حیدرآباد اور مہاراجہ کشن بہادر پرشاد کے طفیل سے مجھے دنیا بھر کی نعمتیں میسر آئیں تو میں نے اپنی تمام محرومیوں کو دور کرنا چاہا۔ اس وقت میں کسی اخلاقی قدر کا پاس نہ رکھ سکا، ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کہیں پھر مجھ سے یہ تمام نعمتیں کوئی چھین نہ لے، یہ سوچ کر میں اور بھی ہوس ناکیوں میں مبتلا ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد احساس ہوا کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر اس وقت وہ چیز نہ ملے تو ایک کسک رہ جاتی ہے، بعد میں اگر وہ شے مل بھی جائے تو وہ شے ’وہ‘ نہیں رہتی۔ اسی وجہ سے شاید میں نے حجاب کو جانے دیا۔ بے دلی سے روکا بھی اور بددلی سے جانے بھی دیا۔ میرے لیے حاصل کاروبار جہاں کچھ بھی نہیں، جو لمحے حاصل ہوئے وہ بھی داغ ہیں اور جو نہیں حاصل ہو سکے ان کا بھی داغ ہے۔
٭
اس کے بعد پتوں کی کھڑکھڑاہٹ کم سے کمتر ہوتی چلی گئی، محسوس ہوا کہ داغ صاحب ہم سے دور جا رہے ہیں، ساتھ ہی دور سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آوازیں بھی آرہی تھیں، میرے دوست فلم دیکھ کر واپس آچکے تھے اور میں مہمان خانے کی جانب چل دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.