ہوا
پہاڑ کا نصف حصہ چڑھنے کے بعد ہم ایک بڑے پتھر کے سامنے سستانے کے لئے رک گئے۔ پو پھٹ گئی اور لمحہ بہ لمحہ صبح کا اجالا پھیلنے لگا۔ میں نے اپنے گاؤن کی طرف نظر ڈالی۔ ہرے بھرے ڈھلوان کھیت ‘چراگاہیں‘ پرانے قلعے کا کھنڈر ‘پہاڑی پر واقع مندر‘اسکول کی پرانی شکستہ عمارت جہاں میں نے پانچویں جماعت تک پڑھی تھی‘ چٹیل میدان ‘تنگ گلیاں جہاں ہم نے اچھے اور برے دن گزارے تھے۔
میری نظر بے ساختہ اپنے مکان پر پڑی جو سفیدہ اور بید کے درختوں کے درمیان چھپا ہوا تھا۔ چھت پر گھاس کے گھچے اور گوبر کے اپلے سکھانے کے لئے قرینے سے رکھے نظر آ رہے تھے۔ دودھیل جرسی گائے ناندمیں گھاس چر رہی تھی۔ باغیچے کے پاس سبز تلے پر گھوڑا پگے سے بندھا تھا۔
میری نظر چھچلتی ہوئی چھوٹے سے آبائی قبرستان پر پڑی جہاں میرے ابا اور اجداد مدفون تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو آئے۔
’’ابا‘ہم آج تمہیں چھوڑ کر اس گاؤں سے جا رہے ہیں۔ اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں۔‘‘
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں آخری بار اپنے گاؤں کو دیکھ رہا ہوں۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے گاؤں کو الوداع کہا۔
میری بیوی اور بیٹی کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ کچھ دیر تک سستا کر ہم دوبارہ چڑھنے لگے۔ سونم کے الفاظ ہمارے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ کوئی ڈھائی تین گھنٹہ پہلے دروازے پر ہلکی سی دستک دیکر چپکے سے میرے گھر میں داخل ہوا تھا۔ وہ سہما سہما سا لگتا تھا اور ننگے فرش پر اکڑوں بیٹھ کر سرگوشیانہ انداز میں کہنے لگا:
’’صدیق تمہارے لئے ایک بری خبر ہے۔‘‘
سہمے سہمے ہم اس کا منہ تاکنے لگے۔
’’تمہیں یہ گھر چھوڑ کر جانا پڑےگا۔‘‘
’’ابھے مذاق نہ کر۔‘‘ میں نے اپنے عزیز دوست سونم سے کہا۔
’’مذاق نہیں۔ میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔۔۔ ابھی۔۔۔ اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں چلا پڑا۔
’’اس کیوں کا اس وقت میرے پاس جواب نہیں ہے صدیق۔‘‘
یہ کہتے ہوئے آنسوکا ایک قطرہ اس کے رخسار پر ڈھلک آیا۔ میری بیوی اور بیٹی رونے لگے۔
’’آخر ہم سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ کون سا ہم نے جرم کیا ہے؟‘‘
’’قصور نہ تمہارا ہے اور نہ ہمارا۔ یہ ہوا شہر سے آئی ہے۔‘‘
’’تمہیں کس نے کہا؟‘‘
’’مجھے ٹشی نے کہا۔ ٹشی کو دورجے نے بتایا تھا۔ دورجے کو چھینگ نے اور چھینگ۔۔۔ ٹشی بتا رہا تھا کہ یہ بات تم کسی کو نہ بتاؤ ورنہ یہ لوگ اس کے مکان کو جلا دیں گے۔‘‘
’’یہ لوگ۔۔۔!‘‘
’’ہاں شہر سے آئے ہوئے یہی لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنا مذہب یا گاؤں دونوں میں سے ایک چھوڑ دو۔ صدیق ایسی ہوا انسان لاتا ہے۔‘‘
سونم کا انداز بیان بڑا پراسرار تھا۔ ہم حیران تھے کہ اچانک یہ کیسے ہوا۔ گاؤں والے کل تک ہم پر بڑے مہربان تھے۔ ہم تین پشتوں سے یہاں آباد ہیں۔ تنگ کرنا تو درکنار ‘ہر ایک نے ہمیشہ ہمیں پیار ومحبت دیا تھا اور ہمارے دکھ سکھ میں شریک ہوا تھا۔‘
’’مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا سونم۔‘‘
’’کاش ایسا ہوتا۔‘‘
پھر وہ میری بیوی سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’’بھابی، یہ وقت رونے دھونے کا نہیں ہے۔ ابھی نکلنے کی تیاری کرو۔‘‘
چند لمحے تو توقف کے بعد وہ پھر بولا۔ ’’پہاڑ سے نکل جاؤ صدیق اور پہنچ جاؤ۔‘‘
’’اس اندھیری رات میں کیسے پہاڑ سے جائیں!‘‘
’’رات سے جانے میں خطرہ ہے۔‘‘ سونم نے اٹھتے ہوئے کہا اور پیچھے غائب ہو گیا۔ وہ ایک چور کی طرح آیا تھا اور چور کی طرح نکل گیا۔
ہم نے بیوی کے زیورات، کچھ کپڑے اور چند ضروری چیزوں کی تین پوٹلیاں بنائیں‘کچھ سوکھی روٹیاں اٹھائیں‘ ناند کو گھاس اور چارے سے بھر دیا۔ گائے اور گھوڑے کو پگے سے باندھ دیا۔ بھیڑ بکریوں کے لئے باڑے میں گھاس ڈالی اور نالہ پار کرکے پہاڑ کی طرف بڑے۔
سورج کی زردکرنیں پہاڑ کی انچی چوٹی پر لرزنے لگیں اور کچھ وقفے کے بعد ایک پہاڑ کی اوٹ سے سورج نکل آیا۔ چوٹی سے ہم سو ڈیڑھ سو قدم نیچے رہ گئے تھے کہ ہم نے دماموں کی آواز سنی اور اس کے ساتھ مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح دھیما دھیما شور بھی سنا۔ ہماری ٹانگیں اپنی اپنی جگہ رک گئیں۔ چند ہی لمحوں میں درختوں کی جھنڈ سے لوگوں کی ایک بھیڑ نکلی۔ ہم ایک چٹان کی اوٹ میں چھپ گئے۔ بھیڑ آگے بڑھنے لگی اور نعروں کی آواز آنے لگی۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے چاروں طرف تیز و تند آندھیاں چل رہی ہیں۔ سونم ٹھیک کہتا تھا کہ ہوا انسان لاتا ہے۔
پانچ دہے پہلے شہر سے ایک ہوا آئی ‘جس نے اپنے ساتھ جیجک کی متعدی بیماری لائی۔ بیسوں چراغ بھج گئے‘ گھر اجڑ گئے۔ میری دادی اماں ‘باجی اور چھوٹا بھائی اس کے شکار ہوئے۔ پھر پرواتھی یا باد بہار‘ آزادی کا پیام لائی۔ دلکش جھونکے چلے‘تعلیم کا اجالا پھیلا‘بجلی آئی، پینے کا صاف پانی آیا۔
لیکن یہ ہوا بالکل مختلف تھی۔ باد سر سر اور باد سموم کی طرح۔ گاؤں میں ایسی ہوا کبھی نہیں چلی تھی۔ یہ ہوا اس ہوا سے بھی موذی اور زہریلی تھی جس نے چھوت کی بیماری لائی۔ اس ہوا نے انسان کی جانیں لی تھیں، لیکن انسان اور انسان کو جدا نہیں کیا تھا۔
بھیڑ آہستہ آہستہ میرے مکان کی طرف بڑھنے لگی۔ لوگ اکثر میرے لئے اجنبی تھے۔ بھیڑ میں میں نے اپنے ہمسایہ دورجے کو دیکھا۔
’’دورجے!‘‘میرے منہ سے بےساختہ نکلا۔
’’ابا، وہ دیکھو۔۔۔ جلوس میں سونم بھی ہے۔‘‘ میری بیٹی چلا پڑی۔
’’یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ سونم کبھی نہیں آئےگا۔‘‘میں نے کہا.
’’وہ دیکھو ابا۔۔۔ جس نے جھنڈا اٹھایا ہے وہ سونم ہی تو ہے۔‘‘
’’سچ مچ، جھنڈا اٹھانے والا سونم تھا۔‘‘
’’وہ دیکھو ابا، چچا چھینگ اور ٹشی بھی جلوس میں ہیں۔‘‘ میری بیٹی پھر چلائی۔
’’آہستہ بولو فاطمہ۔‘‘ میری بیوی نے سرزنش کی۔
اپنے جگری دوست چھینگ اور ٹشی کو دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔
جلوس مکان کے سامنے رک گیا اور اشتعال انگیز نعرے بلند کرنے لگا جو پہاڑوں سے ٹکرا کر خوف و ہراس کا سماں پیدا کرنے لگا۔ ہر نعرہ کے جواب میں سونم ‘دورجے‘ چھینگ اور ٹشی کے ہاتھ فضا میں بلند ہوتے تھے۔
جلوس میں حصہ لینے والے اکثر لوگوں کو غالباََ یہ خیال تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے مکان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جب مکان سے کوئی نہیں نکلا تو متعدد لوگ مکان میں گھس گئے، ان میں سونم ‘دورجے ‘ چھینگ اور ٹشی بھی تھے۔
کچھ دیر بعد جب یہ لوگ باہر نکلے تو ان کے ساتھ میرے کا لوٹا ہوا سامان تھا۔ سونم نے گیس سیلنڈر اور چولھا اٹھایا تھا۔ ٹشی نے بڑی دیگ اٹھائی تھی جو گاؤں کے ہر تہوار اور دعوت پر مجھ سے مستعار لی جاتی تھی۔ دورجے نے بغل میں کوئی چیز دبائی تھی۔ شاید قالین تھا۔ چھینگ نے ناند کے پگے سے باندھی رسی تڑائی اور گائے کو ہانک کر لے لیا۔ ایک آدمی نے گھوڑے کو سنبھالا، دوآدمی بھیڑ بکریوں کو باڑے سے نکال لائے اور ایک طرف لے گئے۔ ایک آدمی تنبو کے بوجھ تلے دبے دبے گزرنے لگا۔ دوسرا بھاری ٹرنک اٹھائے آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہیں آیا۔ میری بیوی اور بیٹی چٹان کی اوٹ میں چھپ کر آنکھیں پھاڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
کیا کل رات سونم نے ہمارے سامنے مگر مچھ کے آنسو بہائے تھے؟
کیا چھینگ، ٹشی اور دورجے نے مجھے گھر سے بے گھر بنانے کے لئے یہ سازش رچی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ دنیا کتنی بےوفا ہے اور دوست کیسے طوطا چشم ہیں۔ ابھی میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا کہ مکان کی ایک کھڑکی سے دھواں نکلا اور آن کی آن میں سارا مکان آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میری بیوی چیخ پڑی۔
’’خدا کا شکر کرو خدیجہ، ہماری جان محفوظ ہے۔ ‘‘
پھر بھیڑ آہستہ آہستہ منتشر ہونے لگی اور ہم چٹان کی اوٹ میں سے نکلے اور چھپتے چھپتے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے۔ تھکاوٹ اور بھوک نام کی چیز بالکل ختم ہو گئی تھی۔
دوسرے روز شام کے وقت شہر پہنچے جہاں ہم نے اپنے جیسے کئی اور پناہ گزیں دیکھے۔ ہمارا گاؤں سے بالکل رابطہ ٹوٹ گیا اور کچھ خبر نہیں ملی کی کھیت کھلیان، باغ اور مویشیوں کا کیا حشر ہوا۔ ایسے میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔
ایک روز میں نے سونم کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ میرے دل میں نفرت امنڈ آئی اور آنکھوں میں خون اتر آیا۔
’’اب کیا لینے آئے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنا منہ پھیر لیا۔
’’صدیق ‘مجھے افسوس ہے۔ ہم تمہارا مکان اور سارا سامان بچا نہیں سکے‘ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ لوگ تمہارے مکان کو آگ نہ لگائیں، لیکن ہماری کوشش بےکار گئی۔ البتہ تمہارا گیس سیلنڈر اور چولھا میرے پاس ہے۔ ٹشی کے پاس دیگ ہے۔ دورجے نے قالین بچائے ہیں۔ چھینگ نے تمہاری گائے پال رکھی ہے۔ اس رات ہم چپکے سے تمہارے نیم جلے مکان دیکھنے گئے۔ کچھ برتن بھانڈے اور اناج کی دو بوریاں بچائیں جو ہم نے حفاظت سے رکھی ہیں۔ یہ سب ہمارے پاس تمہاری امانت ہیں۔۔۔ ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب تم گاؤں لوٹ کر آ جاو۔ ہماری آنگنوں اور دورجے کی بیوی ڈولماں کہتی ہیں کہ فاطمہ اور خدیجہ کے بغیر گاؤں سونا سونا لگتا ہے۔‘‘
باد نسیم تھی یا باد صبا، ایک لمبی مدت بعد میں نے ہوا کا ایک دلکش جھونکا محسوس کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.