ہوا کی ماری کوئل
پچھلے سال رواپٹیل کو بونے کے لیے اچھے اور کافی بیج نہ ملے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی چار بیگھے زمین میں گنے کے دو ددو جوڑوں والی قلمیں لگادی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاتال پھوڑ گہرے کنویں میں چلتے ہوئے رہٹ کی تکونی مشک سے پانی کھینچ کھینچ کر ’’ناڈاں‘‘(۱) کی دو جوڑوں کا پلیتھن نکل گیا لیکن ’’نورتاں‘‘(۲) ختم ہوتے ہوتے تو گنے کی ایسی فصل تیار ہوگئی کہ ان کا منڈوا ہی چھاگیا چار بیگھوں میں، مٹھی برابر موٹے گنے ایک دوسرے کو بھینچے ڈال رہے تھے اور اپنے ہی بوجھ سے یون جھکے پڑے تھے کہ انہیں آپس میں ستلی سے باندھنا پڑا۔
تاجروں نے اور گاؤں والوں نے بھی روا پٹیل کو لاکھ لاکھ سمجھایا کہ ایسے گنوں کو، جو مٹھی میں نہیں سماتے، پیلنے کا خیال ترک کردو اور انہیں کاٹ کر شہر کی سبزی منڈی میں لے جا کر بیچ دو تو سچ مچ ہن برس پڑے گا۔ لیکن رواپٹیل اپنی بات پر اڑے رہے کہ چاروں بیگھوں کے گنے پلواؤں گا اور ان کا میٹھا میٹھا رس نکلواؤں گا۔
شہر کی منڈی میں گنے فروخت نہ کرکے اور چوکھے منافع کی طرف سے آنکھیں موند کرچار چار بیگھوں کے گنوں کو گھر آنگن میں کولھو میں پلوادینے کی ضد کے پیچھے رواٹیل کی ایک آرزو مضمر تھی اوریہ تھی روا پٹیل کے اندھے دادا نینسی بھگت کا ایک ارمان پورا کرنا۔ رواپٹیل کے علاوہ نینسی بھگت کے اور کوئی اولاد نہ تھی اورروا پٹیل کی عمر بھی پکنے آئی تھی اور تین تین شادیاں کرچکے تھے۔ تب بھی پہلی کے پیٹ سے صرف ایک لڑکی تھی۔۔۔ سنتی۔ چنانچہ اس سنتی کو ہی سات لڑکوں اورلڑکیوں کی کسر پوری کرنے والی سمجھ کر ہی انہیں شکر کرنا پڑاتھا۔
نینسی بھگت کی دونوں آنکھیں اندھے کنویں بن گئیں اور پورے جسم میں بڑھاپا داخل ہوگیا، تب بھی اپنے اکلوتے بیٹے کے گھر سنتی کے ’’گھوڑیا (۳) لگن‘‘ کے بعد کوئی مبارک موقع آیاہی نہ تھا۔ چنانچہ جس گاؤں کی مٹی سے وہ پیدا ہوئے تھے اور جس گاؤں کے لوگوں نے اور سماج نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایاتھا، انہیں ایک بلند مقام اور رتبہ دیاتھا اور جس کے احسانوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہاتھا، ان لوگون کو، ان گاؤں والوں کی کوئی خدمت کرنے کا، کوئی کاج کرکے انہیں مدعو کرنے کا اب تک موقع نہ ملا تھا، اور یہ خیال ان کے لیے سوہان روح بنا ہواتھا۔
عین اس وقت روا ٹیل نے گنے لگادیے اور نینسی بھگت نے بیساکھ میں سنتی کی ’’بیداگری‘‘(۴) کے خوشی کے موقع کو گنے کی کٹائی اور پلائی کے جشن سے ملادیا اور بیٹوں سے محروم رواپٹیل کے گھر ایسی دھوم مچی کہ کسی کے پہلوٹھی کے بیٹے کی شادی میں بھی کبھی نہ مچی ہوگی۔
چار بیگھے میں پھیلے گنجان گنّوں کے سبز منڈے میں جب پوربی ہوائیں گھس کے سنسناتیں تو یوں معلوم ہوتا جیسے دریا کے نیلے رنگ کے پانیوں میں لہریں اٹھ رہی ہوں۔ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو ایک طرح کی فرحت نصیب ہوتی اورکہنے والے سر ہلاکر کہتے، ’’اوہو۔۔۔ دھرتی نے بھی سونا ہی اگلا ہے نا۔ کیا پیٹ نکالا ہے کہ نظر نہیں ٹھہرتی۔ دھرتی کو کنواری کہاہے تو غلط نہیں کہا ہے۔‘‘
روا پٹیل نے بھی مہمانوں کو مدعو کرنے میں بڑی فراخ دلی کا ثبوت دیاتھا اور سگے سمبندھیوں سے تو کہہ دیاتھا کہ وہ دو دو بیل ساتھ لے کرآئیں کیوں کہ انھوں نے کولھو ایسا زبردست بنوایاتھا کہ اس میں چار بیل ایک ساتھ جوتے جائیں تبھی وہ ’’چوں چر‘‘ کرکے گھومنے لگے اور اس میں سے دو موٹی دھاروں کے روپ میں برستے ہوئے گنے کے میٹھے میٹھے رس کا گڑپکانے کے لیے دور دور تک مشہور بنے ہوئے گودانامی جوان گڑیارے کو منہ مانگا روزینہ دے کر بلوایاتھا۔
گودا میں صرف جوانی کی مستی اور رنگینی ہی نہ تھی۔ اس نے اس عمر میں گڑ پکانے میں وہ کمال حاصل کیا تھا کہ اس فن کے اچھے اچھے ماہر بھی دانتوں میں انگلیاں دبا جاتے تھے۔ وہ رس کی کڑھائی میں رس کے گھڑے انڈیل رہاہوتا یا کسی وقت چول میں پھنسے ہوئے ریشے نکال رہا ہوتا یا چکی میں جمے ہوئے گڑ کو کھرچے سے اٹھارہا ہوتا، چھڑا رہاہوتا، اس کی ہرادا، ہر ترکیب ایسی منظم اور ماہرانہ ہوتی کہ دیکھنے والوں کے منہ سے واہ نکل جاتی اور پھر وہ حیرت سے بت بن جاتے کہ گودا نے یہ فن سیکھا کہاں سے اور پھر کہتے، ’’بھگوان کی دین ہے بھائی۔ جسے دیتا ہے ایسے ہی دیتا ہے۔‘‘
قریب ہی ایکھ کی کیاریوں میں دونوں آنکھوں سے اندھے نینسی بھگت ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر چوبیسوں گھنتے بیٹھے یا پڑے رام نام کی مالا پھیرا کرتے۔ گاؤں کے لوگ آ آکر ان سے کہتے، ’’بھگت! دھرتی نے تو سولہ آنے دھن دے دیا، لیکن اگر گودا جیسا گڑیّا نہ ملتا تو دھن کی دھول ہوجاتی۔‘‘
’’تو یوں کہو کہ گڑیّا بہت اچھا مل گیا ہے۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا۔۔۔ اور اچھا بھی کیسا کہ اس کے ہاتھ کا گڑکھا کر لوگ میسو کو بھول جائیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے بھائی۔ لوگ کھا کر دعا دیں گے۔ کھاؤ پیو اور مزے کرو۔ جے سیتارام، جے سیتارام۔‘‘
سنتی بچپن سے ہی بڑے میاں کی خدمت کرنے کی عادی تھی۔ بھگت بھی اس کی خدمتوں کے ایسے عادی بن گئے تھے کہ اب سنتی کی رخصتی کاوقت آیا تو اندھے بھگت کو اپنی جپ کی مالا، جوتیاں، چھڑی اور افیون کا انٹا گھونٹنے کی کٹوری کی تلاش کرنے میں ابھی سے دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سنتی کو بھی رواپٹیل نے بیٹی کے بجائے بیٹا سمجھ کر بڑے لاڈ پیار سے پالاتھا، چنانچہ اکثر دفعہ تو وہ ضرورت سے زیادہ گستاخ بن جاتی یا آزادی کا مظاہرہ کرتی تو کوئی اس پر نہ تو اعتراض کرتا اورنہ ہی کوئی اسے ٹوکتا۔ اس کی بچپن کی ضدیں اور شرارتیں دیکھ کر لوگ کہتے کہ سنتی کو روا پٹیل اپنی ہتھیلی میں تھکواتے اور اس کی ہر ضد پوری کرتے ہیں۔
کوئی بات سنتی کے منہ سے نکلی نہیں کہ روا پٹیل نے پوری کردی، لیکن لڑکی ذات کو ایسے لاڈلڑائے جائیں تو آگے چل کر اس کے حق میں برا ہوتا ہے۔ سنتی کو رواپٹیل نے جو آزادی دے رکھی تھی، وہ اکثر آدمیوں کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی اور ان میں سے کوئی ہمدرد بن کر جب رواپٹیل کو اس سلسلے میں کوئی مشورہ دیتا یاٹوکتا تو رواپٹیل بے پروائی سے جواب دیتے، ’’سنتی میری بیٹی نہیں ہے۔ وہ تو ہوا کی ماری کوئل ہے۔ کسی پچھلے جنم میں کوئی کسر رہ گئی ہوگی کہ اس نے میرے یہاں جنم لیا۔ اب بلاوا آئے گا اور رخصتی ہوگی تو میری یہ پیاری کوئل پھر سے اڑجائے گی۔‘‘
رواپٹیل آسمان کی طرف دیکھ کر آخری الفاظ کہتے تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں لیکن ہوا یوں کہ گاؤں کے لوگ رواپٹیل کی اس تلمیح کی نزاکت کو سمجھ نہ سکے اور گاؤں کے کتنے ہی دل پھینک جوانوں نے جو سنتی کہ دیکھ کر دل تھام تھام لیتے تھے، روا پٹیل کے لفظوں میں سے صرف ’’کوئل‘‘ کا لفظ اٹھا کر سنتی کے نام کے ساتھ لگادیا، ’’سنتی کوئل۔‘‘
گاؤں کے یہ نوجوان شاعر نہ تھے تاہم یہ کہنا ناانصافی ہوگی کہ انھوں نے سنتی کا جو یہ نام رکھا تھا اس میں شاعروں کی روح کروٹیں بدل رہی تھی۔ علی الصبح کھیت جانے نکلی ہو یا دوپہر کے وقت کھانا لے کر جارہی ہو یا شام کو سر پر خشک لکڑیوں کا گٹھا رکھے واپس آرہی ہو، اس کے پیروں کی چاپ سے گاؤں، کنارے کی جوانی جاگ اٹھتی۔ اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑتی ہو ئی جوانی سے فضا انگڑائیاں لینے لگتی اور عطر جوانی سے مہک مہک اٹھتی۔
چیت مہینے کی ایک شام کو جب آم کے درخت اپنے ہی پھلوں سے لدے کھڑے تھے اور پھلوں کے بوجھ سے ٹہنیاں جھک آئی تھیں اور جھنڈ میں چھپی ہوئی کوئل اپناگیارہ مہینے کا ’’چپ کا روزہ‘‘ توڑ کر ’’کو۔ کو۔ کو‘‘ کررہی تھی اور تب سنتی نینسی بھگت کے لیے افیون کا انٹا لیے واپس آرہی تھی تو آموں کے جھنڈ میں گزرتے ہوئے وہ بے اختیار ہوکر گانے لگی،
’’چیترچمپولہوریو نے مہورپال دادم داکھ
کوئلڈی ٹہو کا کرے کائیں بیٹھی انباڈال(۶)
اور آموں کے جھنڈ میں چھپ کر کوکتی ہوئی کوئل کوچڑانے کے لیے خود سنتی نے کوئل کی آواز نکالی تو اس کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا، گاؤں کنارے سے ہی چھپ کر ا س کے پیچھے آتا ہوا گاؤں کا بدنام ترین بدمعاش لڑکا ویرا یہ بات گاؤں کے خارش زدہ کتے تک پہنچادے گا اور گاؤں کے جوانوں نے جو اسے ’کوئل‘ کا خطاب دیاتھا، اسے سچ ثابت کرے گا۔
کولھو جب سے چلنے لگاتھا، تقریباً اسی وقت سے کھیت کی فضا مہک اٹھی تھی اور عجب مسرت بھرے جشن کا سا سماں بندھ گیا تھا۔ عجب چہل پہل نظر آتی تھی۔ چار چھپر تو پہلے ہی سے کھیت میں بنے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ پانچ چھوٹے بڑے منڈوے اور دوسائبان کھڑے کرنے پڑے تھے۔ تگڑے اور عمدہ نسل کے بیلوں کی دس گیارہ جوڑیاں آگئی تھیں۔ چنانچہ کولھو ایک منٹ بھی تھمے بغیر اپنی ’چوں چر‘ کی آواز کے ساتھ بس چلاہی کرتا تھا۔
نینسی بھگت شروع سے ہی ’’روئلاں (۷) پہولاں‘‘ کے نام سے مشہور تھے ہی، تو ان کا بیٹا رواپٹیل ان سے چار قدم آگے ہی تھا۔ رواپٹیل کی فراخ دلی اور ملنسار طبیعت نے انہیں گاؤں کے لوگوں سے ’’دولہ (۸) راجہ‘‘ کا خطاب دلوایا تھا۔ اگر کوئی ایساآدمی بھی، جس سے کبھی برسوں پہلے صاحب سلامت ہوئی تھی، رہٹ چلتے وقت ذرا سستا نے کی غرض سے کھیت میں آجاتا تو روا پٹیل اسے حسب موسم دھان یا جوار کا پونگ یا گنا کھلائے بغیر اپنے کھیت سے جانے نہ دیتے۔ نینسی بھگت اور رواپٹیل کی یہی مہمان نوازی اور فراخ دلی تھی کہ جب گنے تیار ہوئے اور کولھو لگا تو رواپٹیل کی باڑی اور کھیت ’’آلوبھائی‘‘(۹) کے دربار عام کا منظر پیش کرنے لگے۔ تو جا میں آتا ہوں کا سلسلہ چلا۔
رس لینے آنے والوں سے منڈوا کھچاکھچ بھرگیا۔ مہمانوں کے لیے رواپٹیل نے پلنگ اور بے شمار چارپائیاں ڈلوا دی تھیں۔ اسی پر بس نہ کرتے ہوئے گنوں کی گنڈیریاں کاٹنے کے لیے بڑے بڑے سروتوں کا بھی انتظام کردیاتھا۔ چنانچہ اب مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ انہیں صرف یہ کرنا تھا مٹھی برابر موٹے گنے کی کھال کھینچ کر گنڈیریاں بنائیں اورمنھ چلاتے رہیں۔ جن لوگوں کے دانت نہ تھے اور جو گنے چھیل نہ سکتے تھے، گنوں کا تازہ اور میٹھارس جی بھر کر پینے کے لیے لوٹے اور تونبیاں اورتلّے حاضر تھے۔ رس بادی نہ کرجائے، چنانچہ اس پر بھربھرانے کے لیے سونٹھ کا مسالہ بھی تیار تھا۔
منڈوے میں جب ’’چس چس‘‘ گنڈیریاں چبائی جارہی ہیوں اور لوٹوں سے رس غٹاغٹ پیاجارہاہو اور لوگ رس کی مٹھاس کی تعریف میں سرہلارہے ہوں تو یہ منظر دیکھ کر روا پٹیل کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آجاتی اور روح وجد میں آکر جھوم جھوم جاتی۔ نینسی بھگت بینائی سے محروم تھے، اس کے باوجود جیسے وہ اپنے من کی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہوں، یوں وہ سرہلاکر کہتے، پیومیرے دوستو، جی بھر کر پیو، پیٹ بھر کر پیو۔ یہ سارا کرشمہ دھرتی کی کوکھ کا ہے۔ دھرتی کے لال اس کا دودھ نہ پئیں گے تو اور کون پیے گا؟ دھرتی جتنا پلاسکتی ہے پی لو میرے بزرگو! کل کی خبر کس کو ہے۔
اور یوں کہہ کر نینسی بھگت اپنے دائیں بائیں کی دوانگلیاں، شہادت کی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی اپنے نتھنوں کے قریب لے جاکر سونگھتے اور یوں پوری فضا کی خوشگواری اور مسرت پہچان کر ’’رام نام‘‘ کی مالا پھیرنے لگتے۔
کتنے ہی تجربہ کار دنیا دیکھے ہوئے لوگ بھگت کو پہنچا ہو ا آدمی مانتے تھے۔ دنیا میں ہوتے ہوئے وہ ایک سادھو کی زندگی کی سی زندگی بسر کررہے تھے اس لیے اکثر لوگوں کو یقین تھا کہ وہ ضرور کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی، اس کے باوجود اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں سونگھ کر آدمی پہچان لینے کے بھگت کے اس کمال نے کئی ایک ناستکوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا۔
اس سال موسم گرما میں زمین تپ کر جہنم کا نمونہ پیش کرچکی تھی۔ اسی طرح بارشیں بھی اندھا دھند ہوئی تھیں اور اس دفعہ کے موسم سرما میں سردی بھی یوں ٹوٹ پڑی تھی کہ ہڈیوں کا گودا تک منجمد ہوجائے لیکن رواپٹیل کے کھیت انسانوں کی چہل پہل اور گرماگرمی سے ایسے ہی گرم رہے کہ مکر سنکراتی کے کاندھے ٹھنڈے کرنے کے لیے پالا پڑا تو لوگوں نے اس کی بھی پروا نہ کی۔
سنتی کو بلانے کے لیے اس کے سسرال والے پانچ نہ دس پورے بیس آدمیوں کا ٹولہ لے کر آئے تھے۔ چنانچہ سنتی کا دوڑ دوڑ کر کھیت میں جانا بند ہوگیاتھا۔ کوئی بے حد ضروری ہی کام ہوتا تو وہ وہاں جاتی۔ یا تو بھگت کی پیالی میں افیون گھولنے کے لیے جاتی یا پھر شام کا کھانا دیر سے تیار ہوا ہو اورکھانا دینے والا جلد چلا گیا ہو۔ اس وقت سنتی غم و مسرت کے دو مختلف جذبات کے ہنڈولوں میں جھول رہی تھی۔ اپنے گھر، باپ دادا، اور سہیلیوں سے جدائی کا غم اور پیا ملن کی مسرت!
روا پٹیل آج رسم کے مطابق رخصتی کی کتھا کروانے والے تھے۔ چنانچہ آج رات کولھو بند رہنے والا تھا۔
شام ہوئی تو رواپٹیل کو یاد آیا کہ آج انٹا منگوانا تو وہ بھول ہی گئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ایک آدمی کو دوڑا دیا۔ دھندلکا ہوچکا تھا جب سنتی بڑے میاں کو افیون دینے آئی ہے اور اسی وقت کولھو بند ہونے کی تیاری میں تھا۔ ایک کیاری کے نصف گنے پیلے جاچکے تھے اور نصف باقی تھے۔ چنانچہ، یوں بھی دیر سویر اور ووں بھی دیر سویر، سوچ کر اس کیاری کے گنے پورے ہی کرلینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ ’’ڈانڈیوں‘‘(۱۰) نے اپنے کام میں جھپٹ کر کے تیزی سے ہاتھ چلانے شروع کردیے۔ ایک طرف کیاری میں سے کھٹاکھٹ گنے کٹ رہے تھے اور دوسری طرف ڈھیر میں سے اٹھا اٹھا کر گنوں کے سروں پر کے لانبے لابنے پتے کاٹے جارہے تھے اور تیسری طرف تیار کیے ہوئے گنوں کو موگریوں سے کوٹ کوٹ کر نرم کیا جارہا تھا کہ کولھوں میں آسانی سے داخل ہوسکیں۔ سنتی بھی اپنا گھاگرا گھنٹوں سے اوپر تک سمیٹ کر گنے کوٹنے بیٹھ گئی۔
اس کے قریب ہی کام کرتی ہوئی ایک مزدور ن نے سنتی سے کہا، ’’اوہو۔ ہو۔ سنتی بون! آج تو نیا، کورا اور کڑکڑتا واگھا گھراپہن رکھا ہے نا؟‘‘
بشاش اور کھلنڈری سنتی نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ایک گیت اٹھایا،
پھول پھگر نوگھاگھرو شیوڈا دیو شکر دار
پہریوں نے وڑی پہریشوں کائیں ساسرنے دربار
کہہ آٹاں آؤ یاں رے موراں (۱۱) رے
عجب جذباتی انداز میں اور عجب لہک کر گاتے ہوئے اس نے چولھے پر سے کڑھائی اتار کرچکی میں گڑانڈیلتے ہوئے گوداگڑیارے کے کان کھڑے کردیے۔ اس نے سر اٹھا کر سنتی کی طرف دیکھا اور اس جوانی کی تازگی سے دمکتے ہوئے رخساروں کو غروب ہوتے ہوئے سورج کی کرنیں، پیپل کے پتوں میں سے چھن چھن کر آتی ہوئی چوم رہی تھیں۔ گووا جیسے رسیلے جوان کے لیے یہ منظر بے قابو کردینے والا تھا۔ اس نے بھی اسی طرح لہک کر گایا،
’’مارا واڑ اماں گل چھوڑ دو کوئلڈی رنگ بھینی
ای تھوپھالیو لچکالوڑ کوئلڈی رنگ بھینی(۱۲)
سورج مغرب کے ٹیلوں کے عقب میں غروب ہوچکاتھا اور گنے کاٹنے والے مزدور دیر ہوجانے کے سبب افراتفری میں وہاں سے چلے گئے تھے اور گودا ہاتھ میں کرچھالیے گڑچکی میں پھیلا رہا تھا۔
سنتی کے دماغ میں ’’کوئلڈی رنگ بھینی‘‘ کے الفاظ گونج رہے تھے۔ دھندلکے نے فضا کو مست اور ماحول کو روحانی بنادیاتھا۔ اس فضا اور اس ماحول سے بے خود ہوکر سنتی اٹھی اور رہٹ کی دیوار پر جا کھڑی ہوئی اور پھر اس نے گایا،
’’کواپنے کانٹھے اُگیو کیوڈوگڑ یارا
کیوڈو مہر کے مسٹھیو، گڑیارا
کیوڈو لڑی لڑی جائے رے گڑیارا (۱۳)
گودا کے ہاتھ میں کرچھا تھم گیا۔ یادوں کی کھڑکیاں چوپٹ کھل گئیں، شام کی دھوپ کی طرح یادوں کا سیلاب دھنس آیا۔ اپنا آبائی وطن، اپنا گھر جو کالے کوسوں تھا، اپنی جوان بیوی۔ یہ سب کچھ اسے یاد آگیا اور اس کی جگہ یہ پرایا گاؤں، یہ پرائے کھیت، پرائی باڑیاں اور یہ غیرلوگ۔۔۔ وہ گھڑی بھر کے لیے سب کچھ بھول گیا اور اس نے بھی بے اختیار ہوکر اپنے جذبات کی باگیں چھوڑ دیں،
رنگ بھنیارے! امے پردیسی پوپٹا
رنگ بھینارے! تمے ڈھڑکتاں، ڈھیلدی
رنگ بھینارے! میں کڑائیل مورلا
رنگ بھینارے! تمے چھو سرورنپر
رنگ بھینارے! امے پردیسی پنکھیڈاں
رنگ بھینارے! پنکھیڈاں اُڑی اُڑی جائے
رنگ بھینارے! اُڑے ایناں نہ ہوئے اور (۱۴)
دور کھیت کے کنارے پر چارپائی میں لیٹے ہوئے نینسی بھگت نے سنتی کو یکے بعد دیگرے تین چار آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ ملا تو وہ بے قرار ہوگئے اور حسب عادت اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں سونگھنے لگے۔
سنتی اتنے قریب نہ تھی کہ بڑے میاں کی آواز سن سکتی اور اگر قریب ہوتی بھی تو گیت گانے کی دھن میں وہ شاید ان کی آواز نہ سن سکتی۔
چاس یٹے چڈی نے رے میں ٹویاں پنکھیڈاں
گنٹھیل گو فنئے رے میں ٹویاں پنکھیڈاں (۱۵)
سنتی یوں گیت گاتے گاتے ایک عالم بیخودی میں گودا کے منڈوے کے قریب پہنچ گئی تھی اور خود گودا کا یہ عالم تھا کہ شفق اڑائے ہوئے گلال میں وہ مسحور کھڑا تھا۔
سنتی نے منڈوے کے تمبوکا ایک سرااٹھا کر اندر جھانکتے ہوئے کوئل کی سی کوک میں کہا، ’’اکیلے ہی اکیلے گڑپکارہے ہو؟ ایکل پیٹے کہیں گے۔‘‘
گودا نے پیچھے دیکھا اور بت بن گیا۔ کیا جواب دے اس کی سمجھ میں نہ آرہا تھا۔ اس وقت سارے مزدور گنے کاٹنے والے اور ساتھی وغیرہ کھانا کھانے کے لیے جاچکے تھے۔ کچھ ہی دیر پہلے میلے کا نظارہ دکھاتا ہوا کھیت ویران پڑا تھا۔ البتہ صرف کھیت کے کنارے کی طرف سے کھانسی کے دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ گودا نے اخلاقاً پیار بھرے لہجے میں جواب دیا، ’’اکیلا آدمی تو ایکل پیٹاہی ہوگانا! دوسرا پیٹ کہاں سے لائے۔‘‘
یہ سن کر سنتی تو ایسی شرمائی کہ اس کا جی چاہا کہ بھاگ کر دور چار پائی پر لیٹے ہوئے دادا کے پاس پہنچ جائے۔
اس کی جوان چھاتی دھڑ دھڑ کرنے لگی۔ چوکڑیاں بھرتی ہوئی ہرنی اچانک اپنے سامنے شکاری کو دیکھ کر گھبراجائے، یوں سنتی گودا کے سامنے گھبراگئی۔ وہاں سے فوراً چلے جانے کے ارادے سے وہ اپنا گھاگھر اسمیٹ کر چولھے پر چڑھی ہوئی کڑھائی اور اس کے قریب کھڑے گودا کے درمیان سے بدن چرا کر نکلنے لگی تو ایک ہاتھ میں لمباکر چھالے کر کھڑے ہوئے گودا کا ہاتھ سنتی کی کمر کے کھلے ہوئے حصے سے چھوگیا اور سنتی کانپ گئی۔ اپنی اس کپکپی اور گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے وہ سامنے چکی میں جمتے ہوئے گڑ کی طرف دیکھ کر محض کچھ نہ کچھ کہنے کی خاطر بولی، ’’گڑ تو تم نے سونے کی انگوٹھی جیسا خوبصورت بنایا ہے نا!‘‘
کھیتوں میں اندھیرا اتر آنے کے بعد سامنے کی سمت سے دوڑ کر آتے ہوئے چاند کی دھندلی چاندنی سنتی کے برہنہ بازو اور چہرے پر کھیلنے لگی تھی۔ گودا نے گویا نشے میں جھوم جھوم کر جواب دیا، ’’کھانے والے کہاں کم خوبصورت ہیں۔‘‘
سنتی چار انچ یوں پیچھے ہٹ گئی جیسے بجلی کا ننگا تار غلطی سے پکڑ لیا ہو۔ ایک عجیب قسم کی سرد، نم اور شدید سرد لہر اس کے پیٹ کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ گودا کے الفاظ سن کر خود بخود اس کی نظریں اپنے برہنہ بازو کے گودنوں پر جا پڑیں۔ کلائی سے لے کر کہنی تک اس کے بازو پر گودنے کے نقوش تھے۔
’’کاہے کاہے کی تصویریں بنوائی ہیں گود کر؟‘‘ گودا کی نظریں اس کے سڈول بازو پر جم گئیں۔
ایسا متوقع سوال سن کر سنتی کے سینے کی پھڑپھڑاہٹ اور پیٹ کی گہرائیوں میں تیرتی ہوئی سرد لہریں یکایک تھم گئیں اور اس نے بڑے بھولے پن اور معصومیت سے جواب دیا، ’’میں چھوٹی سی تھی ناتب چار آدمیوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا اور گودنے والی واگھرن اپنے بھالے جیسی تیز سوئیاں خچاخچ میرے ہاتھ میں کوچ کوچ کر یہ تصویریں بنارہی تھی۔ اور ایسی تکلیف محسوس کررہی تھی میں کہ۔۔۔ سی۔۔۔ ہائے۔‘‘
سنتی کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکل گئی۔
اس کی اس سسکی سے گودا نے ایک عجیب طرح کے نشے میں جھوم کر بے تکلفی سے کہا، ’’سوئی کی نوک کی ذرا سی چبھن بھی برداشت نہ کرسکے ایسی کبوتری کہاں سے پیدا ہوگئی۔‘‘
سنتی نے کھلے دل سے کہا، ’’ہاں بھئی، ہم تو گھر میں ایسی ہی نازک کبوتری رہے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی چیز کی چبھن محسوس کی ہوتو برداشت بھی کرسکیں۔ گود نے والی خچاخچ سوئی گھونپے جارہی تھی اور میں نے تو اپنی آنکھیں ہی بھینچ رکھیں۔ جب میرے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے گئے تو آنکھیں کھول کر دیکھاکہ سارے ہاتھ پر لہو کے قطرے پھوٹ آئے تھے۔ ہاتھ دھوکر خون صاف کیا توبھئی واہ واہ! اس کے نیچے سے ایک بے حد خوبصورت تصویر نکل آئی۔‘‘
سنتی نے قریب جاکر گودا کو اپنے ہاتھ پر گودنے کی تصویر دکھائی۔
گووا نے پیار سے ہاتھ پکڑ لیا اور چاندنی میں اس پر بنی تصویر غور سے دیکھنے لگا۔
سردی کو بھی ٹھٹھرا دینے والا مکرسنکراتی کا پالا پڑنے لگاتھا۔ چاند ابھی ابھی نکلا تھا۔ لیکن یہ سردیوں کی بے انتہا طویل رات تھی۔ چنانچہ سناٹا ایسا تھا جیسے آدھی رات گزر گئی ہو۔ گودا اپنے ہاتھ پیر کے گودنے سنتی کو دکھارہا تھا۔ ایک ترسول بنا ہوا تھا اور ایک ترازو۔
ادھر بھگت کا افیون کا وقت گزر چکا تھا، چنانچہ ان کا بدن ٹوٹ رہاتھا اور سر گھوم رہاتھا۔ وہ سنتی کو کئی آوازیں دے چکے تھے لیکن کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔ کھیت کے رکھوالے رات گئے آنے تھے لیکن کھیت میں ہمیشہ رہنے والے مقامی لوگ بھی رات کے کھانے سے فارغ ہوکر اب تک نہ لوٹے تھے۔ بھگت کے دل میں سنتی کی طرف سے ایک خوف اتر گیا۔ ایک فکر دامن گیر ہوگئی اور انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر اس کی دو انگلیاں اپنے نتھنوں تلے رکھ لیں اور پوری فضا اور ماحول کو پرکھنے لگے۔
روا سیٹھ کے ہاں شام کے وقت گیہوں چکی میں ڈال دیے گئے تھے، چنانچہ دلیہ تیار ہونے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیااور پھر کھانے والے بھی بہت تھے اور پھر سنتی کی سسرال والے بھی تھے اور ان کے کھانے کا الگ انتظام کرنا تھا۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ ہوا کہ اس شام کھانا دیر سے تیار ہوا اور جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تو کافی رات گزر چکی تھی۔ لیکن اب ان چھکڑے والوں کو کھانا دینا تھا جن کے چھکڑوں میں براتی آئے تھے، چنانچہ یوں دیر پر دیر ہوگئی۔
جوتشی نے بتایا تھا کہ ’’رخصتی‘‘ کی مبارک گھڑی صرف ایک ہے اور پو پھٹتے ہی پڑتی ہے، اس لیے روا پٹیل سمدھی کے لیے چھکڑوں اور یکوں وغیرہ کے انتظام میں لگ گئے۔ علی الصبح بیٹی سے جدائی کا غم ابھی سے ان کے بشرے سے ظاہر تھا۔ چھکڑے والوں کو کھلا چکنے کے بعد ان کے لیے گلی میں بچھائی گئی چار پائیوں میں سے ایک پرروا پٹیل کمر سیدھی کرنے کی غرض سے لیٹ گئے تھے۔
ادھر گھر میں سنتی کی رخصتی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ رخصتی کے کپڑے تہہ کر کے صندوق میں بھرے جارہے تھے۔ ایک خاص، سرخ اور بھری ہوئی قیمتی اوڑھنی الگ رکھ دی گئی تھی کیونکہ سنتی کی سہیلیوں نے کہا تھا کہ سویرے سویرے چھکڑے میں سوار کرواتے وقت یہ اوڑھنی اس کے سر پر ڈال دی جائے گی۔ عین اس وقت کسی نے سنتی کی غیر موجودگی محسوس کرکے پوچھ تاچھ کی تو کھیت کے ایک مزدور نے بتایا کہ وہ بھگت کے لیے افیون لے کر گئی ہوئی ہے۔
یہ سن کر سب نے سر ہلا کر حیرت کا اظہار کیا تو روا پٹیل نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، ’’گھر میں سنتی سب سے زیادہ آتا (دادا) کو چاہتی ہے۔ آج بچاری کو جی بھر کر آتا ہے، مل لینے دو۔ کل اس وقت تو میری کوئل اڑ کر جانے کہاں جا بیٹھی ہوگی۔ ارے وہ تو میری ہوا کی ماری کوئل ہے۔‘‘
یہ سن کر سنتی کی جوان سہیلیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر معنی خیزی سے مسکرائیں۔ ایک شوخ نے تو روا پٹیل کو سنانے کی غرض سے اونچی آواز میں کہہ دیا، کل اس وقت تو وہ کوئل اور اس کا وہ نر۔۔۔ اور۔۔۔ بس مزے ہی مزے۔۔۔ اس وقت تو سنتی کو کوئی یاد نہ آئے گا۔
یہ سن کر روا پٹیل نے بڑی ہوشیاری سے فوراً ہی بات کا موضوع بدل دیا اور رات بھر کھیت میں رہنے والے کو کھیت کی طرف چلتا کردیا اور اسے تاکید کردی کہ وہ جاتے ہی سنتی کو گھر بھیج دے۔
’’وسواتی (رات کو کھیت میں رہنے والا) حسب معمول گوداگڑیارے کا کھانا لے کر کھیت کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔
جاڑے کی چاندنی کھیت میں بکھری ہوئی تھی اور چاروں طرف سناٹاتھا۔ سنتی کو آوازیں دے دے کر بھگت بھی تھک کر خاموش ہورہے تھے اور بار بار اپنے دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیاں ناک تک لے جارہے تھے۔ شام کے وقت شور مچاتے ہوئے پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں دبک گئے تھے۔ شام کو مرچوں کی کیاریوں میں پانی انڈیلنے کے بعد رہٹ کا تکونا چرمی ڈول بھی جیسے تھک کر کنویں کی دیوار پر نڈھال سا پڑا تھا اور اس سے ٹپکتے ہوئے پانی کے قطروں کی ’’ٹپ، ٹپ‘‘ کی آواز بھی اب خاموش تھی۔ جھینگر بھی جیسے کہیں دبکے ہوئے تھے۔ سردی سے ٹھٹھری ہوئی دنیا جیسے دم سادھے پڑی تھی۔
مشرقی باڑ کی طرف سے کسی کے کھنکھارنے اور پھر پیروں کی چاپ سنائی دی تو سنتی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور اس طرف دوڑ پڑی جس طرف بھگت کی چار پائی تھی۔ اب اسے ہوش آیا کہ افیون جودہ دینے آئی تھی، وہ اس کی چولی میں ہی رہ گئی تھی۔ اس نے فورا افیم کی پڑیا نکال کر انٹاپیالی میں رکھا اور بھگت کو دینے کے لیے قریب پہنچی۔
اندھے بھگت نے سنتی میں ایک عجیب، فوری او رناقابل فہم تبدیلی محسوس کی، جس میں سے بٹ موگرے اور پہلی بوچھار کے بعد پیاسی دھرتی سے اٹھتی ہوئی سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی، اسی جسم سے آج پسینے کی کھٹی کھٹی بدبو کیوں آرہی تھی۔
بھگت نے ایک بار پھر اپنے نتھنوں تلے انگلیاں رکھ لیں اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔
اپنا راز فاش ہوتے وقت ایک گنہگار جس طرح کی پریشانی، پشیمانی اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے، اسی قسم کی پریشانی، پشیمانی اورگھبراہٹ اس وقت سنتی محسوس کررہی تھی۔ میکانکی طور پر وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
افیون لینے کے لیے بھگت نے ہاتھ بڑھایا لیکن سنتی وہاں نہ تھی، انھوں نے ایک بار پھر دونوں انگلیاں نتھنوں کے نیچے رکھ لیں۔
سنتی کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے پیٹ میں مروڑیاں سی اٹھنے لگیں جیسے کوئی اس کی آنتیں گھسیٹ رہا ہو۔ بڑے میاں کے سامنے وہ خود کو ذلیل محسوس کرنے لگی۔
بھگت نے ذرا آگے بڑھ کر افیون کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن سنتی چند قدم اور پیچھے ہٹ گئی۔ بھگت آج الجھن میں پڑ گئے تھے۔ وہ پھر انگلیاں سونگھنے لگے۔
سنتی کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ چارپائی کے پائنتی رکھی ہوئی صراحی میں سے سنتی نے کٹوری میں تھوڑا سا پانی انڈیلا اور افیون کا انٹا اس میں گھول دیا۔ چند ثانیوں بعد بھگت نے پوچھا۔ بیٹا افیون لائی ہے نا۔
سنتی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی، ناقابل فہم چمک آکر بجھ گئی۔ اسے نجات کی راہ، ذلت سے بچنے کی راہ مل گئی تھی۔ اس نے جواب دیا، ’’آتا، افیون لانا تو میں بالکل ہی بھول گئی۔‘‘
اور پھر اس نے وہ پیالی، جس میں ابھی ابھی اس نے افیون گھولی تھی، اپنے ہونٹوں سے لگائی اور ایک ہی سانس میں خالی کرگئی اور پھر خالی پیالی ایک طرف پھینک کر کچھ بھی کہے بغیر گھر کی طرف تیز تیز قدموں سے چل دی۔
دوسرے دن گاؤں والوں کے لیے ایک نہیں، دو بلکہ تین تین اچنبھے تیار تھے۔
لوگوں کا خیال تھا کہ علی الصبح سنتی اپنی سرخ اوڑھنی اوڑھے، سجے ہوئے چھکڑے میں سوار ہوکر سسرال جانے کے لیے گاؤں کے دروازے سے نکلے گی۔ اس کے بجائے گاؤں والوں کی حیرت زدہ آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ چار کندھوں پر سوار سنتی کا جنازہ مرگھٹ کی طرف جارہا تھا۔ سنتی کی لاش سرخ اوڑھنی میں لپٹی ہوئی تھی۔
دوپہر ڈھلے کھیتوں میں کھانا پہنچا کر واپس لوٹتی ہوئی عورتوں نے حیرت سے ناکوں پر انگلیاں رکھ کر اور دیدے مٹکا کر گاؤں والوں کو مطلع کیا کہ کسی منحوس ساعت میں نینسی بھگت کا دماغ گھوم گیا ہے اور وہ ساری رات سوئے نہیں۔ بس ’’کھی۔ کھی‘‘ ہنساکرتے اور اندر لوک کی اپسراؤں کی باتیں کیا کرتے اور دیوی دیوتاؤں کے متعلق جانے کیااول فول بک رہے ہیں۔ قریب کے کھیتوں کے وسواتی بھگت کے پاس سنتی کی تعزیت کو آئے تو چلے ہوئے دماغ کے اندھے نینسی بھگت نے اپنی سنک میں ہی ان سے کہا، ’’اس فانی دنیا میں راجہ اندر کی اپسرا اپنے ساتھ جوگینوں کو لے کرتفریح کے لیے اتری۔ کم کم کی پتلی جیسی اپسرا کا مخملی اور جگر مگر کرتا جسم دیکھ کر اس ذلیل دنیا کا کوئی ذلیل انسان اپنی سدھ بدھ کھوبیٹھا اور اپنے اندھے پن میں اپسرا کے جسم کو غلطی سے چھو بیٹھا۔ اس کے چھوتے ہی کم کم کی وہ پتلی راکھ کی دھیری بن گئی۔ کھی۔ کھی۔ کھی۔ ایک دم سفید راکھ۔ بس بھبھوت ہی دیکھ لو۔ شمشان میں جسم اور مانس او رہڈیاں اور سب کچھ جل جانے کے بعد راکھ باقی رہ جاتی ہے نا۔ بس ویسی ہی راکھ۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ سفید راکھ ہو۔ ہو۔ ہو۔ ایک دم روگی راکھ۔ کھی۔ کھی۔ کھی۔‘‘
بڑے میاں کی یہ سن کر گاؤں کے عقلمندوں اورتجربہ کار بزرگوں نے مشترکہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شام کے رتھ کے پہیے گھوم رہے تھے اور چوگھڑیلے تبدیل ہورہے تھے تب بڑے میاں کا دماغ بھی گھوم کر اپنے مرکز سے ہٹ گیا۔
اس دوسرے اچنبھے سے ابھی گاؤں کے لوگ سنبھلے نہ تھے کہ تیسری حیرت انگیز خبر نے سب پر سنسنی طاری کردی کہ،
جوان گوداگڑیارے کا کہیں پتہ نہ تھا۔
حاشیہ:
(۱) ناڈاں، کاٹھیاواڑ کے بیلوں کی ایک عمدہ ذات، یہ بیل تگڑے اور طاقتور ہوتے ہیں۔
(۲) دسہرے کے پہلے نو دن ’’نوڑیاں‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس کے ٹھیک بیس دن بعد دیوالی پڑتی ہے۔ گجرات میں اس کا حساب رکھنے کے لیے جو گوشوارہ بنایا ہے وہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ سولہ شراد، نونورتاں، دس دسہرہ، اور بیس دیوالی، چنانچہ شراد اور دسہرے کے درمیان دن، نورتان، کہلاتے ہیں۔
(۳) گھوڑیا بہ معنی پنگھوڑا اور لگن بہ معنی شادی۔ چنانچہ وہ شادی جو شیرخوارگی میں ہی کردی جاتی ہے۔ کاٹھیا واڑ گجرات میں گھوڑیا لگن کا عام رواج تھا۔
(۴) بیداگری، یعنی رخصتی جو لڑکی کے جوان ہونے پر کی جاتی ہے اور یہی جشن کا موقع ہوتا تھا۔ کیونکہ شادی تو شیر خوارگی میں ہی کردی جاتی تھی جب کوئی دھوم دھام نہ ہوتی تھی۔
(۵) گڑیا رہ، یعنی اس قوم کا آدمی جس کا پیشہ گڑپکانا ہو۔
(۶) چیت میں چمپا کھلی، انار پکے اور انگور کے خوشے بھی لگے پھر یہ کوئل صرف آم کی ٹہنی پر بیٹھی کیوں کوک رہی ہے۔
(۷) وسیع دسترخوان والا۔ مطلب سخی، فراخ دل، کھلا پلا کر خوش ہونے والا۔
(۸) لغوی معنی تو شہنشاہ کے ہوتے ہیں لیکن یہاں، ’’سخی داتا‘‘ کے ہیں۔
(۹) ایک روایتی راجہ جس کے دربار میں بلاروک ٹوک اور بلا بھید بھاؤہر ایک کو آنے کی اجازت تھی۔
(۱۰) گنے کاٹنے والے مزدور
(۱۱) پھولدار اور رنگدار گھاگھرا میں نے شکروار (جمعہ) کو سلوایاتھا۔ آج پہنا ہے اور سسرال میں جاکر بھی پہنوں گی کیونکہ میرا بلاوا آیا ہے وہاں سے۔
(۱۲) اے رسیلی رنگیلی کوئل تو اس طرح کہاں جارہی ہے۔ ادھر تو دیکھ کر میرے باغ میں گلوں کے پودے جھوم رہے ہیں، اور یہ پودا تو دیکھ کس قدر شاداب ہے، اے رنگیلی کوئل تو اس طرف آجا۔
(۱۳) اے گڑیارے! کنوئیں کے کنارے کیوڑے کا پودا لگاہے۔ دیکھ اس کیوڑے کی خوشبو کتنی میٹھی ہے۔ اور وہ ایسا نازک اور بھرپور ہے کہ (اپنی ہی بھرپور جوانی کے بوجھ سے) لچک لچک جاتا ہے۔
(۱۴) اے رنگیلی ہم تو پردیسی توتے ہیں، تم ناچتی ہوئی مورنی ہو اور ہم پر پھیلائے ہوئے مور۔ تم تو ہو اپنے سرور میں، لیکن ہم ہیں پردیسی پرندے، لیکن اے رنگیلی پردیسیوں سے پریت نہیں کی جاتی کیوں کہ پرندے تو اُڑ اُڑ جاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے۔
(۱۵) (کھیت میں بنے ہوئے) چھپر پر سے میں نے پرندوں کو اڑا دیا، اپنے ہاتھ سے بٹی ہوئی گوپھن سے میں نے پرندوں کو اڑادیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.