Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حضرات و خاتون

ترنم ریاض

حضرات و خاتون

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    انہوں نے داہنی اور بائیں جانب نظر ڈالی۔ پھر سامنے کھڑکی کے باہر کی طرف دیکھا۔ ملحقہ غسل خانے سے بہتے نل کے شور میں سے سلمان صاحب کے ناک سڑکنے کی آواز ابھری تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مسہری سے اٹھ کر پیروں کے انگوٹھوں کو نرم سے سلپروں کے اوپر لگے کسی مخمل نما سیاہ رنگ کپڑے کی قوس میں پرویا اور اندر کی جانب چل دیں۔ اس سے پہلے وہ بیدار ہوتے ہی برآمدے میں نکل کر آسمان کی جانب ایک نظر دیکھا کرتیں تھیں اور پھر سیاہی مائل سبز روشنی میں نیم عیاں سی ہریالی کے اندر جھانکتے چھپتے طیور کو دیکھنے اور سننے کی کوشش کیا کرتیں۔ مگر آج وہ دونوں بیٹوں کے کمروں کے دروازوں کے دستوں کو باری باری چھو کر لوٹ آئیں۔ دستے برف ہو رہے تھے۔ یعنی ائر کنڈیشن کی ٹھنڈک میں وہ دونوں اطمینان سے سوتے رہے ہیں اور خواب جھوٹا تھا۔ کہیں کوئی میڈیا والا کیمرے کے توپ خانے، شانے پر دھرے ان کے شوہر کی گاڑی کے درپے نہیں تھا۔ نہ ہی ان کے بیٹوں کے دوست آنکھوں میں شرارت بھرے سوالات لئے گھر کے پھاٹک کے باہر اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں منتظر کھڑے تھے۔عاصمہ بیگم نے مطمئن ہو کر شب خوابی کی آدھی آستین والی ریشمی عبا میں چھپے شانے سے اپنا رخسار سہلایا۔ انہیں بے سبب ہی ایسا محسوس ہوا تھا جیسے وہاں پسینے کا قطرہ ہو۔

    باورچی خانے سے لگے احاطے میں رکھی کھانے کی میز والی ایک کرسی کھسکا کر وہ اس پر ٹک گئیں اور اپنے لئے چائے بنانے لگیں کہ پیالہ لے کر وہ برآمدے کی طرف جانے والی تھیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال تھا کہ سلمان باہر آئیں تو وہ چائے کی کشتی باہر منگوا لیں۔ مگر دماغ کا باقی حصہ سوچوں میں غرق تھا۔ ان کے پاس وقت بہت کم تھا۔

    ’’مین ساب (میم صاحب)۔۔۔‘‘ کرسی کھنچے جانے کی آواز سے سندری باورچی خانے کے اندر سے نکل آئی۔

    ’’تاجی گڑ مل گئی مین ساب۔۔۔‘‘ اس نے چھوٹی سی سفید بےداغ کشتی میں رکھی شفّاف کانچ کی کٹوری میں گڑکی ڈلی کو چور کر رکھا تھا اور چمچماتی ہوئی کسی دھات کے منقش چمچ میں بھرکر اس نے یہ چورا عاصمہ بیگم کی پیالی میں انڈیل دیا۔

    ’’ابھی چھوڑ دو یہ نقلی چینی کھانا مین ساب۔۔۔ ساب بولے تھے نا۔ ہڈی کا بیماری ہوتا ہے اس سے۔‘‘ اس نے شکر دان اٹھا کر دوسری جانب رکھ دیا۔ وہ عاصمہ بیگم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے۔۔ سنو تم۔۔میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔ وقت بہت کم ہے۔۔۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں تو سندری جو جھک کر ان کے پیالے میں چمچہ چلا رہی تھی، پیالہ ہاتھ میں لئے سیدھی ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔ عاصمہ بیگم باہر برآمدے کی طرف چلیں اور سندری ان کے پیچھے پیچھے۔

    ’’وہ جو اس طرف کا راستہ ہے نا۔۔۔ وہ ادھر سے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے باہر کی طرف راستے کے رخ پر بانہہ پھیلائی۔

    ’’تم ادھر۔۔۔ او۔۔۔ دھر دوسری اور مڑ جانا۔۔۔ بالا جی ٹینٹ ہاؤس کے۔۔۔ سامنے۔۔۔ وہی جس کے بورڈ پر سہرا باندھے دولہے کی تصویر بنی ہے نا اور لکھا ہے کہ۔۔۔ او فو۔۔۔ تم پڑھ بھی تو نہیں سکتیں نا۔۔۔ اچھا تو اس کے سامنے جہاں پولیو کے ٹیکے کا اشتہار۔۔۔ بھئی جہاں ایک چھوٹے سے بچے کے منہ میں دوائی کا قطرہ ٹپکا۔۔۔‘‘

    ’’جانتی ہے مے پونیو۔۔۔ مین ساب۔۔۔ میرے کو بچپن مے ہوئی تھی نا تو۔۔۔‘‘ سندری نے پرچ پیالی پتھریلی سفید میز پر رکھ دی۔ عاصمہ بیگم اپنے دادا بزرگوار کے ز مانے سے گھر میں پی جا نے والی ’ارل گرے‘ چائے کی سحر انگیز سی خوشبو کو بمشکل تمام نظر انداز کر کے جلدی سے بولیں۔

    ’’اچھا؟۔۔۔ اچھا اچھا۔ تو پہلے میری بات سن۔۔۔ اسکے پاس ایک ریڈ کراس۔۔۔ میرا مطلب ہے سرخ رنگ کا ایسا نشان بنا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی پر شہادت کی انگلی آڑی رکھ کر سندری کی آنکھوں کو دیکھا۔

    ’’ایسا۔۔۔ کچھ سمجھی بھی کہ میں یوں ہی۔۔۔ وہاں پر نچلی منزل میں ہی۔۔۔‘‘

    ’’ہاجی مین ساب مے سب سمج گیا۔۔۔‘‘

    ’’خاک سمجھ گیا۔۔۔ بیس بار بھی بتائیں جب بھی بھول جاتی ہے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم بید کی تیلیوں سے بنی گئی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

    کوئی سال بھر پہلے ایک شام گھریلو ملا زمین مہیا کرنے والے ایک ادارے کی طرف سے ایک ملازمہ کو بھجوایا گیا تھا۔ لڑکی کی عمر کا کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا، تاہم وہ نو جوان ہی معلوم ہوتی تھی۔ چھوٹا سا دبلا پتلا جسم،گہرے سے کچھ کم سانولا رنگ، نمایاں ہڈیوں والا لمبا چہرہ،چھوٹی آنکھیں جن کی پتلیاں دو زاویوں سے دیکھتی تھیں۔ سیاہ بالوں میں کچھ سفید بالوں کی لکیریں بھی تھیں اور دانت کچھ بڑے اور لمبے تھے۔

    ’’کہاں رہتی ہے۔۔۔؟عاصمہ بیگم نے ساتھ لانے والے آدمی سے پوچھا اور لڑکی کی جانب ایک نظر ڈال کر اپنے دو سال پرانے باورچی کی طرف دیکھا۔ کمل نے سیکنڈ بھر سے بھی کم وقفے میں آنکھیں پھیلا کر شانے اچکائے اور ناک سکیڑ کر منہ دوسری طرف موڑا یعنی وہ لڑکی سے خوف زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناپسندیدگی بھی ظاہر کر رہا ہو۔

    یہ تاثرات دیکھ کر عاصمہ بیگم نے دوبارہ لڑکی کی جانب نظر اٹھائی۔ برابر کے صوفے پر کچھ دن کے لئے آئی عاصمہ بیگم کی بزرگ والدہ بیٹھی تھیں۔ اپنے موٹے سے چشمے کے عقب سے انہوں نے سب کی طرف باری باری دیکھا۔

    ’’کیا نام ہے بیٹی۔‘‘ انہوں نے نرم سی نگاہ لڑکی کی طرف ڈالی۔ لڑکی کے لئے غالباً باورچی کے تاثرات اور عاصمہ بیگم کی سوچتی ہوئی نظروں جیسی چیزیں اجنبی نہ تھیں۔ وہ اس ساری فضا کے زیر بار کچھ منمنائی جسے کوئی نہ سمجھ سکا۔

    ’’اچھا اچھا۔۔۔ ماں باپ ہیں۔۔۔؟‘‘ اماں نے گویا نام کی تعریف میں سر ہلایا۔

    ’’میرا ماں نہیں ہے۔۔۔ سوتیلا ماں ہے۔‘‘ اس دفعہ لڑکی کی آواز واضح تھی جسے سن کرلانے والے شخص سمیت سب لوگ چونکے تھے۔

    ’’اوہ۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔ کوئی بات نہیں جا ہاتھ منہ دھو لے۔‘‘ والدہ صاحبہ نے برآمدے کی بائیں جانب اشارہ کیا۔

    ’’پہلی بار سہرآ ئی ہے نا تو اسکو بھاسا نہیں آتا۔۔۔‘‘ سا تھ لانے والے شخص نے کہا۔

    ’’آپ کو بہت اچھا بھاشا آتا ہے۔۔۔‘‘ کمل آنکھوں میں شرارت چھپائے سنجیدگی سے بولا۔ عاصمہ بیگم نے اسے جیسے کہ تنبیہاً دیکھا۔

    ’’مگر سیکھ جائےگی۔۔۔‘‘ وہ جلدی سے بولا۔ غالباً کمل کا طنز جس کی زبان اس عرصے میں خاصی صاف ہو گئی تھی، اس کی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

    ’’میں بھی پچھلے سال آیا تھا جھار کھنڈ سے۔۔۔ میں نے بھی ادھر ہی سیکھا ہے بھاسا۔‘‘ وہ مسکرایا

    ’’تم لوگ اس کی صورت کی وجہ سے اس بن ماں کی بچی کو۔۔۔‘‘ والدہ صاحبہ نے کمل کی طرف جیسے کہ افسوس سے دیکھا ہو۔

    ’’نہیں اماں جی۔۔۔ میں تو۔۔۔‘‘ وہ کچھ شرمندگی سے بولتا ہوا پچھواڑے کی طرف گیا۔

    ’’اور تم میری بیٹی۔۔۔ اکیلی ہو دیکھا جائے تو۔۔۔ اللہ نے تمہیں بیٹی نہیں دی۔۔ اسے اپنا لو۔ تمہارا ساتھ دےگی۔۔۔‘‘

    ’’جی امّی مگر اسے کام بھی نہیں آتا۔۔۔ زبان بھی اچھی طرح نہیں سمجھتی۔۔۔‘‘

    ’’سیکھ جائے گی۔۔۔ پہلی بار شہر آئی ہے۔۔۔ غریب۔۔۔ یتیم بچی۔۔۔‘‘ والدہ صاحبہ کی آواز میں درد سا بھر آیا تھا۔ وہ کچھ کہنے جا رہی تھیں کہ کمل جیسے کہ تیزی سے اندر داخل ہوا۔

    ’’میم صاب جی۔۔۔ میں باہر الگنی سے کپڑے اٹھا نے گیا نا جی تو۔۔۔ وہ بال بنا رہی تھی۔۔۔ دو سرے دروازے کے پاس۔۔۔‘‘

    ’’تو۔۔۔ ؟۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ بال نہیں بنانے چاہئیں اسے۔۔۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ کچھ اندھیرا سا ہے نا جی تو۔۔۔ میں تو ڈر گیا جی۔۔ ایکدم بھوتنی کے جیسی لگ رہی تھی جی۔۔۔‘‘ والدہ صاحبہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔

    ’’چپ۔۔۔ اللہ نے بنایا ہے اسے۔۔ سوتیلی ماں ہے اسکی۔۔۔ جانے بھر پیٹ کھانے کو ملتا بھی ہو اسے۔۔۔ کمزور سی ہے بیچاری، کھائے پئے گی ٹھیک ہو جائےگی۔۔۔ ایسی تکّبر کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘’

    والدہ صاحبہ کچھ خفگی سے بولیں اور دیوار پر آویزاں گھڑی کو بغور دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں پھر صوفے کے بازو کا سہارا لئے جھرّیوں والے گورے ہاتھ کی پتلی پتلی انگلیوں سے تسبیع کے دانے گھماتیں کھڑی ہوئیں اور اندر کی طرف مڑ گئیں۔ رومن ہندسوں والی اس گھڑی پر انہیں وقت دیکھنا نہیں آتا تھا اور گھڑی کی جانب دیکھ کر وہ وہاں پر موجود کسی سے بھی وقت پوچھا کرتیں۔ اس وقت انہوں نے کسی سے کچھ نہ پوچھا اور خاموشی سے اندر چلی گئیں۔

    لڑکی کو ملازم رکھ لیا گیا۔

    اسکا نام سندری تھا۔ زبان ہی جانتی تھی نہ کام۔مگر والد ہ صاحبہ جب تک رہیں اس نے ان کے سارے کام کرنے کی بھر پور کوشش ضرور کی۔ ان کے معمول میں رات گئے تک عبادت کرنا شامل تھا اور سندری اکثر دیر رات تک انکے فارغ ہونے کا انتظار کر کے ہی سوتی کہ اگر انہیں کچھ ضرورت ہو تو وہ پریشان نہ ہوں۔ ملازمین کے کمرے گھر کے پچھواڑے تھے اور والدہ صاحبہ کے کمرے کا ایک دروازہ پچھلے برآمدے میں بھی کھلتا تھا۔ سندری اس دروازے پر دستک دیتی ۔والدہ صاحبہ کی زبان اکثر وظیفے میں مصروف ہوتی اور ہاں ہوں کی آواز سے کلام کا کام لیا جاتا۔ جس میں اشارے بھی شامل ہوتے۔ چٹکی کی شکل میں انگلیاں دہانے کی جانب لے جانا چائے کے لئے اور ہتھیلی کے قریب کلائی کا حصہ ٹھوڑی سے چھو لینا پانی کا اشارہ تھا ۔وہ پانی گرم پیا کرتی تھیں ا ور اکثر یہی دو چیزیں انکو ضرورت ہوا کرتیں۔ کبھی کبھار سر دی لگنے کی صورت میں گرم پانی کی تھیلی کا اشارہ شانے سکیڑ کر، دانتوں کو بجا کر کیا جاتا۔

    ’’کہا تھا نا۔۔۔ سب سیکھ جائےگی۔۔۔‘‘

    والدہ صاحبہ ا س کی تعریف کرتیں تو کمل ان کی غیرحاضری میں عاصمہ بیگم کی طرف جیسے کہ بے بسی سے دیکھتا۔

    ’’یہ کام تو کوئی گوں گا بھی کر سکتا ہے نا میم صاحب جی۔‘‘

    ’’تمہارا ہر بات میں بولنا ضروری ہے کیا۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کرتی دھیرے سے کہتیں۔

    ’’نہیں جی میں تو۔۔۔‘‘

    سندری ایماندار تھی اور صاف ستھری رہا کرتی تھی۔ اس کے سیاہ فام پیروں کی ایڑیاں سفید ی مائل نظر آتیں اور چپل چم چم کرتے۔

    مخصوص دلچسپ تاریخ کے حامل اپنے علاقے کے بارے میں وہ بڑی دلچسپ باتیں سنایا کرتی۔

    ’’مے چوہا اچھا پکاتا ہے معلوم۔۔۔؟‘‘ اس نے ایک دن کمل سے کہا تھا۔

    ’’کیا۔۔۔؟ کیا پکاتا ہے؟‘‘ پنیر بھونتے ہوئے کمل کے ہاتھ سے کڑھائی میں چمچہ چھوٹ گیا تو تیل کے گرم

    چھینٹوں سے وہ بلبلا اٹھا تھا مگر اس بات میں اس کی دلچسپی جب بھی کم نہ ہوئی تھی۔اس نے کلا ئی بہتے ہوئے نل کے نیچے چھوڑ دی۔

    ’’ کیا کہتی تھی تو۔۔۔ پھر بول۔۔۔‘‘وہ اس کی طرف گردن موڑے بولا۔

    ’’چوہا۔۔۔ بولا تھا۔۔۔ چوہا پکاتا ہے۔۔۔ مے۔۔۔ ہمرا گاؤں میں ایکدم موٹا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ وہ سر جھکائے پالک کے ساگ سے پتے الگ کرتی رہی۔

    عاصمہ بیگم نے کھلے نل کی مسلسل آواز سنی تو باورچی خانے میں آ گئیں۔

    ’’کیوں پانی ضائع۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ اوہ۔۔۔ ہاتھ جلا لیا۔۔۔‘‘ وہ جلدی سے نل کے قریب گئیں۔

    ’’آبلہ تو نہیں پڑا۔۔۔ نا۔۔۔‘‘

    ’’نہیں میم صاب۔۔بچ گیا میں تو ابھی مر جاتا جی۔۔۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔کیا ہوا۔۔۔‘‘

    ’’آپ میم صاب اس سے پوچھئے نا۔۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

    ’’کیا تم ہر وقت اس کی جان کے پیچھے لگے رہتے ہو۔۔۔ کیا ہوا تھا سندری۔۔؟‘‘

    ’’کچو نہی مین صاب۔۔مے کچو نہی کیا ہوں۔۔۔‘‘ وہ بےخبر سی کمل کو دیکھ کر بولی۔

    ’’جرا بتانا میم صاب کو تو کیا پکاتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا وہ۔۔مے چوہا بوت اچھا پکاتا ہے۔۔۔ میرا نانی کھا تا تھا۔۔۔ اسی نے سکھایا تھا اور کیا پکاتا۔ ادھر پشوپکھشی تو کھتم ہو گیا ہے نا۔‘

    عاصمہ بیگم اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئیں۔

    ’’تو بھی کھاتا ہے۔۔۔؟‘‘ کمل جلدی سے بولا تو عاصمہ بیگم زور سے ہنس پڑیں۔

    ’’مے نہی کھایا۔۔۔‘‘ سندری سر اٹھا کر دونوں کو باری باری دیکھ کر مسکرائی اور دوبارہ کام میں مشغول ہو گئی۔

    ’’چکھا تو ہوگا نا پکاتے وقت تو نے کبھی۔۔۔‘‘کمل چھوٹے سے تولئے سے ہاتھ پونچھتا ہوا بولا تو عاصمہ بیگم مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوتی باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔

    کمرے میں پہنچ جانے کے بعد تک ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی رہی۔

    سلمان صاحب نے اس خطے کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بتائیں تھیں۔

    ہندوستانی جزیرہ نما کے چھوٹا ناگ پور کی سطح مرتفع میں وسطی بھارت کا یہ حصہ ہمیشہ سے دلچسپیوں کا حامل رہا تھا۔ برِصغیر کے مختلف جغرافیائی خطوں سے ہجرت کر کے اس ایک جگہ پر جمع ہونے والے قبائل کی موجودگی کے سبب یہاں کئی طرح کی زبانیں، تہذیب، جسمانی خد و خال وغیرہ یکجا نظر آتے۔ مگر انسانی تہذیب کے محققوں اور سیاسی تجربوں نے ان کی اصل تہذیب کو کافی حد تک متاثر کیا۔

    برطانوی حکومت نے یہاں بھی لوگوں کو اپنا وفادار بنانے کی غرض سے عیسائیت کو متعارف کرایا تھا جس کی شروعات وہاں کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے جرمنی کے چار پادریوں نے۔۔۔ اپنا گرجا گھر قائم کر کے کی تھی۔ رفتہ رفتہ دوسرے اعتقادات کے گرجے بھی جن میں ’اینگلی کنز‘ اور رومن کیتھولک‘ شامل تھے اپنے قدم جمانے لگے اور یہاں کے باشندوں میں اکثر کے معبد جو ’سارانا‘ کہلاتے تھے۔ گرجا کہلانے لگے۔ کہ پادری بپتسمہ کے وقت انکے نام کی طرز بدلتے تھے اور نہ رہن سہن کے طور طریقوں کو تبدیل کرنے پر زور دیتے تھے۔ اس لئے بظاہر تبدیلی کچھ ایسی نمایاں اور اچانک معلوم نہیں ہو تی تھی۔

    روزگار کا واحد ذریعہ زمینیں تھا جو انگریزی قانون کے تحت سرکار کی ہو گئی تھیں اس لئے روزگار کے متبادل وسیلے پیدا کرن والی سرکار کے مذہب کو اپنا لینا رعائتوں کا باعث ہونے سے رجحان بھی بڑھا۔

    ان سب باتوں کو سمجھنے والوں کی بھی کچھ ایسی کمی نہیں تھی بلکہ برسا منڈا نے جسے قبائلی عقیدت سے برسا بھگوان کہتے تھے، عیسائیت کے اس طرح اطلاق کے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی جو بعد میں وہاں قومی آزادی کے لئے بغاوت کے دوران نعرے کے طور پر ابھری۔ آگے چل کر کچھ حد تک تعلیم و تربیت کی طرف بھی رجوع کیا گیا۔ جو اہم بات تھی۔

    باورچی خانے سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو عاصمہ بیگم کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

    سندری کام سنجیدگی سے کرتی تھی۔ مگر غلطیوں کی تعداد کام سے زیادہ ہو جاتی۔اس کے الٹے سیدھے کاموں سے عاجز عاصمہ بیگم کمل کو بلاتی تو سندری برتن دھونے والے صابن سے لتھڑے ہاتھ لئے حاضر ہو جاتی۔

    ’’کمل بھیا باجار گئی۔ مے برتن دھوتا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ جا۔۔۔ دھو برتن۔۔۔ دھو چکے تو یہاں آ جانا۔‘‘ عاصمہ بیگم سر خم کر کے اسے دیکھتیں۔

    ’’کیا توڑا سندری۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ٹوٹ پھوٹ کی صدا پر چونک کر کہیں سے پکار اٹھتیں۔۔۔

    ’’او اکلا گلاس چھے میں سے بچا تھا نا۔۔۔ او ای ٹوٹا۔۔۔‘‘ سندری عاصمہ بیگم کے باورچی خانے میں پہنچ جانے پر ٹوٹے گلاس کا پیندا حاضر کرتی ہوئی اطلاع دینے کے انداز میں کہتی کچرے کے ڈبے کی جانب لپکتی۔

    ’’کیوں سندری۔۔۔ تیرے ہاتھ کیا کانپتے ہیں۔۔۔ کچھ نہ کچھ توڑتی رہتی ہے۔‘‘

    ’’وہ مین صاب۔۔۔ میرے کو چھوٹے میں پونیو ہو گئی تھی نا۔۔۔ میں چلتا نہی تھا ایک دم۔۔۔ پھر دوائی کھایا۔۔۔ تب ٹھیک ہوا۔۔۔‘‘

    ’’اوہ ہاں۔۔۔ پولیو ہوا تھا۔۔۔ اب تو ٹھیک ہو نا۔۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتیں۔

    ’’ٹھیک اے ہوں۔۔۔ نیکِل (لیکن) کبھی کبھی۔۔۔‘‘

    ’’اور۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم نے برتنوں کی الماری کے قریب اپنی پسندیدہ نیلے گلابی پھولوں والی نہایت باریک چینی کی رکابی کے بیل کی ساخت میں ترشے سنہرے کنارے کا کونا ٹوٹا دیکھ کر حسرت سے پوچھا۔

    ’’او۔۔۔ یہ۔۔۔ جانتا نہی۔۔۔ کمل بھیا توڑی ہوگی۔۔۔ مے نہی کیا۔۔۔‘‘ اس نے برتن دھوتے گردن موڑ کر بڑے بھول پن سے جواب دیا تو ہاتھ میں پکڑے دھل رہے گلاس کا کنارہ نل سے ٹکرا یا۔

    ’’اوہ۔۔۔ سنبھل کے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ہاتھ ہلا کر رہ گئیں۔

    ’’سوری مین صاب۔۔۔ میں آپ کو ایک بات بتانا بھول گیا تھا۔۔۔‘‘ اس نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر ٹوٹے کنارے پر انگلی پھیری۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ ہاتھ کٹ جائےگا۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے گلاس اس سے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اس کی زبان سے ’سوری‘ سن کران کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ کمرے میں لوٹ آئیں۔

    ’’سندری کتنی بار سکھایا ہے۔۔۔ چادر سیدھی بچھا یا کر۔۔۔‘‘

    ’’سیدھے ای ہے نا مین صاب۔۔۔ اے دیکھو۔۔۔ آپ۔۔ ادھر سے۔۔۔ زرا سا۔‘‘ وہ بڑے یقین سے کہتی اور چادر کا کونہ ہلکے سے کھینچتی۔

    اس کی خود اعتمادی سے عاصمہ بیگم کو مسّرت سی ہوتی۔

    ملک کے آزاد ہوتے وہاں کے مختلف گرجا گھروں میں الگ الگ قبائل کے مقامی پادری بھی چن لئے گئے تھے اور ۱۹۴۹؁ میں علیحدہ جھار کھنڈ ریاست کی مانگ کرنے والے تقریباً سبھی لیڈر مقامی عیسائی تھے۔

    ۲۰۰۰؁ میں اسے بِہار سے علیحدہ کر دیا گیا۔

    سوائے حقِ رائے دیہی کے عام طور سے یہاں کے باشندوں کے لئے حالات کچھ زیادہ نہیں بدلے۔مختلف سیاستیں کبھی مذہب کا رنگ چڑھا نے کے نعرے سے وفاداری طلب کرتی ہیں کبھی مذہب کا رنگ اتارنے کی اہمّیت پر زور دیکر ساتھ مانگتی اور روزگار کا مسئلہ وہیں کا وہیں۔

    اس مسئلے سے سندری جیسے لوگ بھی دوچار تھے۔

    سلمان صاحب نے بتایا تھا۔

    سندری کمرے سے جاچکی تھی مگر عاصمہ بیگم کی آنکھوں میں اس کا چہرہ گھومتا رہا۔۔۔ اچھی غذا سے اس کے رخساروں میں چربی بڑھ گئی تھی جس کے سبب چہرے کی جلد کچھ کھچی جانے سے اس کا رنگ ذرا صاف نظر آنے لگا تھا۔ ہنستے ہوئے اس کے صاف ستھرے دانت اب بھرے سے چہرے کے تناسب میں زیادہ بڑے نظر نہیں آتے تھے۔ دو زاویوں سے دیکھتی ہوئی آنکھیں جیسے کہ اس کے نادانی کی حد تک پہنچے بھول پن میں اضافہ کرتی معلوم ہوتیں۔ عاصمہ بیگم باورچی خانے میں لوٹ آتیں۔

    ’’ہم تم کو آنکھوں کی کثرت سکھائیں گے۔۔۔‘‘ انہوں نے سندری کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔

    ’’آنکھ کو کیا ہو گا مین صاب۔۔۔‘‘

    ’’آنکھیں سندر ہو جائیں گی۔۔۔ بس جب بیٹھا کرو تو۔۔۔ ہاتھ کی پہلی انگلی کے ناخن کو دیکھتے ہوئے ناک کی سیدھ میں آنکھ کے قریب لانا اور دور لے جانا۔‘‘

    ’’مین صاب مے آپ کو ایک بات ۔۔ بتانا تھا۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔کون سا بات۔‘‘

    ’’میں جب چھوٹا تھا نا۔۔۔ تو اندھی ہو گیا تھا۔۔۔‘‘ وہ خوش خبری سنا نے والے انداز میں ہنستی ہوئی بولی۔ میرا موسا جی بولا باجا ( ریڈیو) ادھر دو۔۔۔ تو میں ان کے اوپر گر گیا۔۔۔ وہ میرے کو ڈانٹا کہ دیکھتا نہی۔۔۔‘‘ وہ کچھ سنجیدگی سے بولی۔

    ’’دلکھو نا مین صاب۔۔۔ وہ مجھے کیوں نہیں بتایا کہ مے گلتی چل رہا تھا۔۔۔ مے تو اندھا ہو گیا تھا۔۔۔ اس کو تو بولنا تھا نا کہ توا ندھی ہو گیا ہے۔۔۔ میرے کو ای بولتا رہا۔۔۔ میرا گلتی تو نہیں تھا۔۔۔‘‘

    وہ عاصمہ بیگم کے چہرے پر اپنی بات کا ردِ عمل تلاش کر نے کی غرض سے مزید سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگی تو عاصمہ بیگم کا مارے ہنسی کے بر ا حال ہو گیا اور انہیں ہنستا دیکھ کر وہ بھی ہنسی میں شامل ہو گئی۔

    ’’پھر۔۔۔ ٹھیک کیسے ہوئیں۔۔۔‘‘ انہوں نے قہقہے کو بمشکل تمام روک کر پوچھا۔

    ’’پھر۔ پھر ٹامن (وائٹامِن) دوائی دیا ادھر دور کا گاؤں میں دوائی والا ( سرکاری دوا خانہ) بیٹھتا ہے نا۔۔۔ او ای دیا۔۔۔ ایک ہی مہینہ کھایا۔۔ مے ٹھیک ہو گیا۔۔‘‘

    کمل کے گھر سے فون آیا کہ اس کے ہاں بچہ ہوا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی اس سال کی چھٹّیاں گزار آیا تھا۔ مگر اسے چھٹّی دینا پڑی۔ بلکہ اس کے لوٹنے کے بارے میں بھی کچھ غیریقینی والی صورتِ حال تھی کہ پچھلے سال اس کا پہلا بچہ بچ نہیں پایا تھا۔ دوسرے ملازم کا انتظام کیا جانے لگا۔سندری تنِ تنہا سارا کام سنبھالنے کی بھر پور کوشش کرتی رہی۔

    عاصمہ بیگم نے دیکھا اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔ انہوں نے اس کی کلا ئی ٹٹولی۔

    ’’بخار تو نہیں ہے تجھے۔۔۔ پیلی پڑ گئی ہے۔۔۔ کیوں؟ کام زیادہ ہو گیا نا تیرے ذمے۔۔۔‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا۔

    ’’کام تو ٹھیک اے ہی ہے مین صاب۔۔۔ نیکل۔۔۔ جب سے شام بھّیا گئی ہے۔۔۔ مے۔۔۔ کچو کھانے نہی سکتا۔۔۔‘‘ وہ اداس سی آواز میں بولتی کام میں مصروف رہی۔

    کچھ دن بعد بڑے چوڑے جبڑوں، پھیلی ناک، بھدی آواز اور چہرے پر بےشمار دانے لئے ایک اور آدی واسی ملازم آیا، کوئی بیس بائیس سال کا۔ اس کا نام فلتوش تھا اور وہ بھی شہر پہلی بار وارد ہوا تھا۔ سندری بڑے اعتماد سے اس پر حکم چلانے لگی۔ اس نے سندری سے سندری کی طرح کام کرنا اور بولنا سیکھا۔

    سندری کے مصروف ہونے کی صورت میں وہ بڑی چستی سے حاضر ہو جاتا۔

    ’’میں ابھی کرتی ہوں جی۔۔۔‘‘ وہ پلکیں تیزی سے جھپک کر کہا کرتا۔

    وہ بھی ادارے کی طرف سے گیارہ ماہ کے معاہدے پر آیا تھا۔ کام بھی سمجھ جاتا تھا مگر ایک دن دوپہر کے بعد جب وہ کافی دیر کمرے سے نہیں آیا تو سندری اسے بلانے گئی۔

    ’’مین صاب وہ میرے کو بولتی ہے۔۔ تیرے کو کاٹ دوں گا۔۔۔‘‘ سندری فوراً لوٹ آئی۔

    ’’کیا۔ کون۔۔۔‘‘

    ’’مجھ سے بولا ا ہے فلتوش بھیا۔۔۔؟‘‘

    ’’۔۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم حیرت سے اس کا منہ تکتی رہ گئیں۔

    ’’مے کچو نہی بولا تھا مین صاب۔۔۔ وہ کپڑا کا رسی کاٹنے کو چاقو لے گیا تھا نا او۔۔۔ ہاتھ میں تھی۔۔۔ چاقو آگے کیا میرا منہ پاس۔۔۔ بولی چپ کر کاٹ دوں گا۔۔۔ وہ بوت گو صّہ والا ہے۔۔‘‘

    ’’تجھے لگتا ہے وہ ایسا کر سکتا ہے۔۔۔‘‘عاصمہ بیگم آئے دن اخباروں میں نوکروں کے حملوں کی خبروں کو یاد کرنے لگیں۔

    ’’مالوم نہی مین صاب۔۔۔ نیکل۔۔۔وہ بوت گوصّہ والا ہے۔۔۔میرے کو آج پتہ چلی کہ اس کے اندر بوت ہئی گوصّہ ہے۔۔۔‘‘

    فلتوش کو چھ ماہ ہوئے تھے۔ عاصمہ بیگم نے شوہر کو روداد سنائی۔ وہ قانون کی عزت کرنے والے قانون دان اور راست باز سے آدمی تھے۔ مسئلے حل کرنے کے معاملے میں جلد باز بھی واقع ہوئے تھے۔

    ’’ہم نہ کہتے تھے احمق ہے۔ فوراً اسے نکال باہر کیجئے۔۔خطر نا ک مجرم ہو سکتا ہے۔ فون کیجئے پلیسمینٹ والوں کو۔ کسی کو بھی پکڑ لائیں گے کیا۔ ہونہہ۔۔‘‘

    وہ ایک ہاتھ میں ذیابیطس کی گولی اور دوسرے میں پانی کا گلاس لئے عاصمہ بیگم کو دیکھتے رہے۔عاصمہ بیگم نے ان سے جیسے جواب کی توقع کی تھی ویسا ہی پایا۔ سلمان صاحب نے بیگم سے نظریں ہٹا کر گلاس کی طرف دیکھا اور ٹکیا نگل لی۔ اس کے بعد باہر جانے کی بجائے صوفے پر بیٹھ گئے اور ڈرائیور کو اندر کے دروازے تک بلوایا۔

    ’’پہلے اسے پلیسمنٹ چھوڑ آئے۔۔۔ کہہ دیجئے۔۔۔ ہم بعد میں جائیں گے۔‘‘

    کچھ روز پھر سندری کو اکیلے کام چلانا پڑا۔ ضرورت پوری ہو جاتی تھی لیکن سلیقہ نا پید رہا۔ مگر جلد ہی نیا ملازم آ گیا۔

    بھولی سی صورت والا اٹھارہ انّیس برس کا لڑکا جو سریلا گاتا تھا اور فلمی اداکاروں کی نقل کرتا تھا۔ یہ اطلاعات سندری نے عاصمہ بیگم کو بہم پہنچائی تھیں۔

    ’’اچھا ہے۔۔۔ نیکل۔۔۔ میرے سے چھوٹا ہے۔۔۔میرے کو دیدی کہتا ہے۔۔۔‘‘ سندری نے سنجیدگی سے کہا تو عاصمہ بیگم نے اسے چونک کر دیکھا۔

    ’’تو کیا ہوا۔۔۔ تم اس سے بڑی ہو تو دیدی بلائے گا نا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں عمر تو میرا جادہ ہے۔۔۔ دوائی سے بال بھی پک گیا ہے۔۔۔ نیکل مے کلر کرتی ہے نا۔۔۔تو میرا بال اچھی لگتی ہے۔۔۔ میرے کو پسند نہی دیدی بولنا۔۔۔ مے اس کو بولے گی میرے کو نام سے بلائے۔۔‘‘

    عاصمہ بیگم نے اس کی بات کو سمجھنے کی جیسے کہ کچھ کوشش سی کی۔

    اچھا۔۔۔ جو تیرا جی چاہے کر۔۔‘‘انہوں نے سر جھٹک کر کہا اور اندر کی طرف گئیں۔

    اب کام کچھ بہتر طرح ہونے لگا تھا۔ سندری سے اس کے نئے شاگرد چمن نے خاصی تربیّت حاصل کر لی تھی۔ چمن کام خوش اسلوبی سے کرتا اور اس کا فی الحال چھٹی لینے کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ عاصمہ بیگم اس خوش انتظامی سے مطمئن ہوا ہی چاہتی تھیں کہ ایک صبح سندری حواس باختہ سی تھکے تھکے چہرے پر پریشان سی آنکھیں لئے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

    ’’مین صاب۔۔۔ میرے کو۔۔ میرے کو مہینہ نہیں ہوئی۔‘‘ اس نے عاصمہ بیگم کے چہرے کی جانب نظر ڈال کر سر جھکا لیا اور مسہری کے پاس فرش پر دھپ سے بیٹھ گئی۔

    ’’تو اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ ہو جائےگا۔۔۔ ایک دو دن اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘

    ’’نہی مین صاب کل چار دن ہو گیا۔۔۔ آج بھی نہیں ہوا۔۔۔ پانچ دن ہو گیا۔‘‘ اس نے ہا تھ کی انگلیاں پھیلا کر دکھائیں۔ اس کے چہرے پر گہری تشویش صاف عیاں تھی۔

    ’’کیا۔۔۔ مطلب تو نے۔۔۔ تو نے کچھ۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم فوراً بولیں۔

    ’’جانتی ہے نا تو۔۔۔ غلطی کرنے سے مہینہ نہیں ہوتا بچہ ہو جاتا ہے۔۔۔ تو کہیں ماں۔۔۔‘‘

    مین صاب۔۔۔ او چمن میرے کو پکڑ لیا تھا۔۔۔‘‘ اس نے ایک نظر اوپر دیکھا اور سر جھکا لیا۔

    ’’کیا بک رہی ہے۔۔۔ کب۔۔۔؟‘‘

    ’’پچھلے ہفتے۔۔‘‘

    ’’تو۔ تو نے مجھے بتایا ہی نہیں اتنے دن۔۔اس بد تمیز کو میں۔۔۔ میں پو لیس میں۔۔۔‘‘عاصمہ بیگم کچھ کہتے کہتے رکیں۔

    ’’کتنی بار پکڑا تھا اس نے تجھے۔‘‘

    ’’تین بار۔۔۔ میر ا مرجی نہیں تھا۔۔۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔ تیرا مرجی نہیں تھا۔‘‘ عاصمہ بیگم نے گہری سانس لی۔

    ’’اس فلتوش نے بھی کبھی ایسا کیا تھا۔۔۔‘‘عاصمہ بیگم نے کچھ حیرت اور بےیقینی سے پوچھا۔

    ’’ہاں جی بہت بار۔۔۔ میرے کو ایسے ہی بوت چنتا لگتا تھا۔۔۔ مگر وہ کہتا تھا میرے کو پتہ ہے کِچو نہی ہو گا۔۔۔ نیکل پھر مہینہ ہو جاتی تھی۔۔۔‘‘

    ’’اور کمل نے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم ہکا بکا بولیں۔

    ’’ہاں جی اور کیا۔۔۔ مگر وہ سمجھدار تھا۔۔۔ اس کو پتہ تھی کہ کیسے کیا کرنا ہے۔۔۔ باجار میں کدھر کیا ملتا ہے۔۔۔ لاتا تھا۔۔۔، میرے کو ایک دم چنتا نہیں ہوتا تھا۔۔۔‘‘

    ’’بد تمیز۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کا ہاتھ بےاختیار اس کے چہرے کی طرف اٹھا مگر انہوں نے اسے ٹھپڑ نہیں لگایا اور دانت پیس کر رہ گئیں۔

    تُو۔۔۔ تُو بھّیا بلاتی تھی۔۔۔ اسے۔۔۔ اور۔۔۔ اور وہ کمبخت کہتا تھا کہ بال بناتے وقت تو۔۔۔ ایکدم۔۔۔ ایکدم۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کا سانس بے ترتیب سا ہو گیا۔

    تو میری پرہیزگار ماں کو۔۔۔ ناپاک۔۔۔‘‘عاصمہ بیگم کانپتی آواز میں بولیں۔

    ’’نہی مین صاب مے نہاتا تھا۔۔۔‘‘وہ جلدی سے بولی۔

    عاصمہ بیگم کا سر چکرا گیا۔۔۔ انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے کنپٹیاں تھام لیں۔ کئی پل ایسے ہی گزر گئے۔

    ’’اچھا۔۔۔ وہ۔۔۔ فلتوش نے تجھے پھر کیوں کہا تھا مار ڈالےگا؟‘‘

    ’’میرے کو مہینہ نہیں ہوئی تھی نا۔۔۔ مے اس کو بولی نہی ہوئی تو مے مین صاب کو بولے گا تو میرا شریر کو چھوا ہے۔۔۔ اسے گوصہ آ گیا تھا۔۔۔‘‘

    عاصمہ بیگم کچھ لمحے سن سی اسے تکتی رہ گئیں۔

    ’’پچھلی دفعہ کب ہوا تھا۔۔۔‘‘

    ’’جس دن آپ صاب اور بھیّا لوگ کھا نے پر گیا تھا نا باہر۔۔۔ مے چوڑی دار پہنی تھی۔۔۔ جو آپ لوگ انمیسری (اینیورسیری) کے دن ’ٹِپ‘ دیا تھا نا ۔۔تو میں منگل باجار سے۔۔۔‘‘

    ’’بکواس بند کر۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کی آواز اچانک اونچی ہو گئی۔

    ’’مہینہ کب ہوا تھا۔۔۔ تاریخ بتا۔‘‘ انہوں نے آواز دھیما کرنے کی شعوری کوشش کی۔

    ’’او۔۔۔ مہینہ۔۔۔ جس دن مین صاب آپ سے بولی تھی نا۔۔۔ آج باجار سے سودا مے لائےگی۔۔۔ میرے کو نیپکی (نیپکن) لانا ہے۔۔۔ اس کا دوسرا دن ہو ئی تھی۔۔۔‘‘

    ’’تاریخ بھی تو ہو گی نا کچھ۔۔۔‘‘

    ’’میرے کو یاد نہیں مگر بہت دن ہو گیا۔۔‘‘

    عاصمہ بیگم نے ذہن پر زور دیا۔ وہ اس دن اپنے بڑے بیٹے کی دوست کو دوپہر کا کھانا کھلانے میریڈئن لے گئی تھیں۔ لوٹنے پر غالباً اسی دن سندری نے نیپکن لانے کی بات کہی تھی۔ مگر وہ اسے دو بار لے گئی تھی۔ ایک بار بیٹے کے کہنے سے دوسری دفعہ خود عاصمہ بیگم کا دل اس سے ملنے کو چاہا تھا کہ ا سکے گھر میں بیٹی کی کمی کے احساس نے ا س کے دل میں ہمیشہ کسی بیٹی جیسے تعلّق کی خواہش کو سیراب کیا تھا۔

    جب انہوں نے دیبا کے لئے اپنے سنگھار دان سے نازک سی زنجیر والا پینڈنٹ اور اس سے ملتے جلتے کرن پھول ڈھونڈ کر پرس میں رکھے تھے۔ عاصمہ بیگم کو دیبا کا نازک سا گلا یاد آگیا جس پر ہوٹیل میر یڈئین کے ر یستوراں میں بیس سے بھی کم سیلسیس پر ٹھہرے ہوئے درجۂ حرارت میں پسینے کی بوندیں چمک اٹھی تھیں۔ بےسبب ہی۔۔۔ اسے کیا معلوم کہ۔۔۔

    عاصمہ بیگم کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہی تھی کہ انہیں موجودہ حالات کی نزاکت کا تیزی اور شدّت سے احساس ہوا۔

    انہوں نے سر جھٹک کر سندری کو دیکھا۔

    ’’کیا کروں اب بتا۔۔۔ سوائے اس کے کہ تمہیں تمہارے گھر بھیج دوں۔۔۔‘‘ کچھ دیر فضا پر خاموشی طاری رہی۔

    ’’مگر تم پریگنینٹ ہو بھی یا۔۔۔‘‘

    ’’کیا مین صاب۔۔۔‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔متم۔۔۔ تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔‘‘

    عاصمہ بیگم فرش کی طرف دیکھتی رہیں، اسی مقام پر بیٹھی بیٹھی، کتنی ہی دیر تک۔

    بڑا بیٹا جوان ہو گیا تھا۔۔۔ دوسرے کا قد بھی نکل آیا تھا۔۔شوہر بھی خیر سے جوان لگتے ہیں۔ سچ مچ امید سے ہوئی کمبخت تو۔۔۔ لوگ۔۔۔ جانے کیا سوچیں گے۔۔۔ چمن کل چھٹی مانگ رہا تھا۔۔۔ اور دو مہینے کی تنخواہ بھی۔۔ایک مہینے کی تنخواہ پلیسمنٹ والا لے گیا۔

    سرخ کنارے اور قوسِ قزح جیسے رنگوں کے مہین پھولوں والے کشمیری ریشمی قالین کے درمیان سمندری نیلے رنگ کی زمین پر بنی گہری سبز بیل پر بیٹھی خوش رنگ بلبل کے تاج پر سے نظریں ہٹا کر عاصمہ بیگم نے دریچے سے باہر نظریں گاڑ دیں۔ ہرے ہرے درخت کے گھنے پتوں میں اٹکی ایک پھٹی ہوئی پتنگ بہت بری لگ رہی تھی۔

    ۔۔۔بھاگ ہی نہ جائے کہیں مردود پیسے ملتے ہی۔۔۔ اور۔۔۔ یہ لڑکی۔۔۔ بھاڑ میں جائے بےشرم۔۔۔ دفع کر دوں گی اس کو بھی۔۔۔ کیا کیا گل کھلاتی رہی اور ہم۔۔ ہم ہیں کہ۔۔۔ بےوقوف بنتے رہے۔۔۔ گاؤں میں کرے ان کالی کرتوتوں کی نمائش۔۔۔ بےحیا کہیں کی۔۔۔ سلمان صاحب سے سب کہنا پڑےگا۔۔۔ ہاں۔

    عاصمہ بیگم نے کچھ مطمئن ہو کر کھڑکی سے نظریں ہٹا لیں اور دو صوفوں کے درمیان شیر کے پاؤ ں کی ساخت کے پایوں والی پتھر کی میز پر رکھا کرسٹل کے شفاف کانچ کا بنا چوکڑیاں بھرتا ہرن ہاتھ میں لے لیا۔

    ۔۔۔مگر سوتیلی ماں۔۔۔ اس کا جینا اور مشکل کر دےگی۔ اسے سارے گاؤں میں بدنام کرےگی۔۔۔ اسے کسی نے سمجھایا ہی نہ ہو گا۔۔۔ اچھا برا کیا ہے۔ ماں ہی جب۔۔۔ اور سوتیلی ماں کھانا اپنی مرضی سے نکالنے پر کڑچھی سے مار نے والی، اسے کھلے عام مارنے کا جواز حا صل کر لےگی۔۔۔ اسے ا س کے باپ کے سامنے ذلیل کرےگی۔۔۔ گاؤ ں میں جا نے کیسے اس کا حمل گرایا جائےگا۔۔۔ ان چاہا حمل۔۔سو تیلی بیٹی کا۔۔۔ کسی بھی سستی سی نا تجربہ کار دائیہ سے۔۔۔ اس کا جانے کتنا خون بہہ جائےگا۔ لاپرواہی ہو جائےگی۔۔۔ زیادہ بہہ گیا تو۔۔۔

    شا دی کے دو ماہ بعد خود اس کے سا تھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اسے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا اس کی ڈاکٹر نے کہ شاید اس سے اس کی امید ٹوٹنے سے بچ جائے۔۔۔ اور وہ کم عمری کے باعث ناداں اور بلاوجہ شرم کے سبب خاموش بستر پر پڑی رہی۔ امید تو جاتی رہی، نسوں سے بھی خون نچڑ تا گیا۔ ربر کے دبیز بیس اونچے گدّے سے ہوتا جب پلنگ کے تختے کو نم کر چکا تو اسے اچانک محسوس ہوا تھا کہ اس کے ہاتھ برف ہو گئے ہیں۔ امید کے دنوں میں اس کے پیر ٹھنڈے رہا ہی کرتے تھے۔ معاً اسے خیال آیا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ ہسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو پیاری ہونے ہی والی تھی۔

    جب اس پر۔۔۔ شہر کی سب سے مشہور ڈاکٹر کی نگرانی میں یہ ستم ہو سکتا تھا تو۔۔۔ کہ امید ختم ہونے کے ساتھ جینے کی امید بھی ختم ہونے کو تھی۔۔۔ تو۔۔۔ اس۔۔۔ اس غریب کا کیا ہوگا۔۔۔ اسے تو نجات مطلوب ہے اس سے۔۔۔ جانے کتنا خون بہہ جانے کے بعد یا جب بھی اسکے جسم سے الگ نہ ہو تو۔۔۔ جب تک ،کہ ماہر ہاتھوں سے اسے الگ نہ کیا جائے۔۔۔ اور ماہر ہاتھ۔۔۔ اس کے نصیب میں۔۔۔

    باورچی خانے سے زور زور سے برتن دھوئے جانے کی آواز آ رہی تھی۔

    عاصمہ بیگم باورچی خانے کی طرف گئیں۔

    ’’سندری۔۔۔ میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’جی مین صاب۔۔۔‘‘ اس کی تشویش ناک سی اداس آواز ابھری۔ اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

    ’’اوہ۔۔۔ ادھر تو دیکھ۔۔۔ رو رہی ہے تو کیا۔۔۔‘‘

    ’’مے کیا کروں گا جی۔۔۔ میرے کو گاؤں والا لوگ۔۔۔‘‘ وہ ہچکیاں لینے لگی۔

    ’’ارے پاگل میں تھوڑے ہی بھیجوں گی اس حال میں تجھے گاؤں۔۔۔ جو ہو گا دیکھیں گے۔۔تم فکر نہ کرو۔۔۔ میں خود دیکھتی ہوں۔۔۔ ابھی تو تمہیں دنوں کے بارے میں ہی کنفیوژن ہے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تھا مگر ایسا نہیں کیا۔

    ’’چار دن اور نہیں ہوا تو میں ہسپتال لے جا کر تمہارا یورین ٹیسٹ کرواؤں گی۔ میرے خیال سے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا ہے۔۔۔ بھوک تو لگتی ہے نا اچھے سے۔۔۔‘‘

    ’’ہا جی۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’اور متلی وغیرہ۔۔۔ ابکائی۔۔۔؟‘‘

    ’’نا جی۔۔۔‘‘

    ’’بس باقی اوپر والے پہ چھوڑ دو۔۔۔ اور مجھ پر بھرو سہ رکھو۔۔۔ اب جو ہونا تھا ہو چکا۔۔۔ اس۔ اس مصیبت میں تمہیں۔۔۔‘‘ وہ اسے دیکھتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے بولیں۔

    ’’اکیلے نہیں چھوڑیں گے تجھ کو۔۔۔‘‘

    سندری نے رضا مندی میں گردن کو خم دیا۔

    عاصمہ بیگم کمرے میں لوٹ آئیں۔

    لےکر۔۔۔ کیسے جاؤں گی ہسپتال اسے۔۔ سکینڈل بن سکتا ہے۔۔۔ اس بات کا۔۔۔ اکیلے بھیجوں۔۔۔ راستے کہاں آتے ہیں اسے۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ بھیج دوں اسے۔۔۔ کوئی جرم تو رہا نہیں اب۔۔۔ اب۔۔۔ اب تو لڑ کیوں سے شادی کے بارے میں ہی پوچھتے ہیں نہ فی ٹس (foetus) کے باپ کے بارے میں۔۔۔ قانوناً جائز قرار دے دیا گیا ہے ایبارشن۔۔۔

    سلمان صاحب تھکے ہوئے لوٹے تھے۔

    ان سے بات کرنا مناسب بھی نہ تھا۔۔۔

    پریشان ہو جائیں گے۔۔

    ان سے بات کرنا مناسب تھا بھی۔۔۔؟

    پریشان کر دیں گے۔۔

    اپنے بیتابانہ ردِّ عمل سے۔۔۔ اس کی پریشانی میں بھی اضافہ کر دیں گے۔ عاصمہ بیگم انہیں بے خیالی میں دیکھتی رہ گئی۔

    رات عاصمہ بیگم سو تو گئیں مگر پریشان کن خوابوں نے انہیں اپنے نرغے میں لئے رکھا۔اور صبح کے تازہ خواب نے انہیں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا تھا۔

    برآمدے میں پہنچ کر انہوں نے پلٹ کر سندری کی طرف دیکھا۔

    وہ۔۔۔ وہ دیکھ۔۔۔ اس گلی کے اس طرف۔۔۔ جہاں سڑک نظر آ رہی ہے نا۔۔۔؟ مدر ڈیری تک تو تو جاتی ہی ہے۔ ادھر سے داہنی جانب جاکر چھوٹی سی سڑک سے بائیں اور مڑ جانا۔۔۔ سامنے بالا جی ٹینٹ والے کا بڑا سا بورڈ لگا نظر آئےگا۔۔۔ اس کے سامنے جہاں ننھے سے بچے کے منہ میں ڈاکٹر دوائی کی بوند ٹپکا رہا ہے نا۔۔۔ ایک دم ادھر ہی ۔۔بس سیدھی چلی جانا۔۔۔وہی سرکاری ہسپتال ہے۔۔۔ دس منٹ کا ہی تو راستہ ہے۔۔۔ گھبرا نا بالکل نہیں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم نے رخ اس کی طرف موڑا تو سندری ادھ کھلا منہ لئے ان سے کچھ کہنے کو بیقرار سی نظر آئی۔

    ’’ہو گئی میرے کو مین صاب۔۔۔‘‘ وہ سر ہلا کر مسکرائی۔

    ’’مطلب۔۔۔ تو۔۔۔ تیرا مطلب ہے کہ تو۔۔۔‘‘عاصمہ بیگم کے چہرے پر بے قراری مسکرانے لگی۔

    ’’ہا جی۔۔۔ مین صاب۔۔۔ مہینہ ہو گئی میرے کو،۔۔‘‘

    ’’کب۔۔۔؟‘‘ انہوں نے اس کے شانے تھام لئے۔

    ’’رات ہئی کو۔۔۔‘‘

    ’’سچ۔۔۔؟ شکر ہے۔ عاصمہ بیگم نے آسمان کی طرف نظر ڈال کر واپس اس کی طرف دیکھا پھر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے رکھے اسے اپنے سے ذرا دور کھڑا کیا اور اس کے چہرے پر نظریں ٹھہرا دیں۔

    ’’اب دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا۔۔۔ نہیں تو میں تجھے سچ مچ ہی گاؤں بھیج دونگی۔۔۔‘‘

    ’’کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔۔ اب نہی کروں گا۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی۔

    ’’مین صاب چمن چلا گیا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ کب۔۔۔؟‘‘

    ’’معلوم نہی۔۔۔ مے سویرے جاگا تو کمرے میں نہیں تھا۔‘‘

    ’’تو اس کے کمرے میں کیا لینے گئی تھی۔۔۔‘‘

    ’’گئی نہیں تھی۔۔۔ کمرہ کھلا تھی تو۔۔۔ نجر پڑ گیا۔۔۔ سب سامان لے گیا۔۔۔‘‘ وہ بغیر کسی تاثر کے بولی۔

    ’’ابی ساراکام کھُد ای کرنا پڑےگا۔۔۔‘‘

    ’’چلو۔۔۔ بھاڑ میں جائے۔۔۔ بد تمیز کہیں کا۔۔۔ دوسرا آ جائےگا۔۔۔ تجھے کیوں کرنا پڑےگا۔۔۔ ایک دو دن کی بات ہے۔۔۔ سارا کام تیرے بس کا نہیں اور بچوں کے زیادہ تر کام کے لئے لڑکا ہے بھی ضروری۔۔۔ خیر۔۔۔ تو ذرا۔۔۔ ان لوگوں سے کہوں گی کوئی سمجھدار سا لڑکا بھیجیں اور۔۔۔ تو بھی۔۔۔‘‘

    اور دوسرے دن سمجھدار لڑکا آ گیا۔

    ’’مین صاب وہ آ گیا۔۔۔‘‘دروازے کی گھنٹی سن کر سندری نے اسے گھریلو ملازمین مہیا کرنے والے شخص کے ساتھ دیکھا تو دوڑتی ہوئی آئی۔

    ’’درواجا کھول دوں مین صاب۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں کھول دے نا۔۔۔‘‘

    لڑکا دیکھنے میں پہلے تینوں سے بہتر تھا۔فیشن کے مطابق اس نے بال بھی بڑھا رکھے تھے۔ عاصمہ بیگم نے لڑکے کی طرف سے نظر ہٹا کر سندری کی جانب دیکھا جو مبہوت سی اسے دیکھ رہی تھی۔وہ سامان رکھنے پچھواڑے کی طرف گیا تو سندری مسکراتی ہوئی باورچی خانے کو پلٹی۔اور عاصمہ بیگم اس کے پیچھے پیچھے اندر آئیں ۔

    ’’کام کرنے والا نہیں لگتانا مین صاب۔۔۔؟ بھیا لوگ اور ان کا دوست جیسا لگتا ہے نا۔۔۔‘‘ وہ فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے بولی۔

    ’’اب جو بھی ہے سندری۔۔۔ تو خدا کے لئے باز آ جا۔۔۔ اس کو بخش دے۔۔۔ ورنہ سچ مچ میں اب کے تجھے۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم سمجھانے کے انداز میں بولیں تو سندری ہنسنے لگی اور اپنے دونوں کان پکڑ لئے۔

    ’’کان پکڑ تا ہوں مین صاب۔۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا اور زور سے کان کھینچے۔ عاصمہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

    وہ کان پکڑے پکڑے ہنسی۔ عاصمہ بیگم اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہیں۔

    اسکی معصوم سی ہنسی۔۔۔ نادان سی ہنسی۔۔۔ پرسکون سی۔۔۔ بےخبر سی ہنسی۔۔۔

    ’’نہیں سمجھی نا تو۔۔۔دیکھ سندری۔۔۔ ادھر دیکھ۔۔۔ اب پلیز تو۔۔۔ کچھ مت کرنا۔۔۔‘‘ عاصمہ بیگم کے چہرے پر التجا ہی التجا تھی۔

    ’’ ہاتھ جوڑوں کیا۔۔؟‘‘ عاصمہ بیگم نے ہاتھ جوڑ دئے۔

    ’’نہی نہی مین صاب۔۔۔ میں کسم کھاتا ہوں۔۔۔ جس کا قسم مر جی لے لو۔۔۔‘‘ وہ کان پکڑے بولتی رہی۔۔۔ اور ہنستی رہی عاصمہ کے جڑے ہاتھ دیکھ کر بھی اس کی ہنسی نہیں رکی تھی مگر آنکھیں کچھ پھیل گئی تھیں۔

    ایک آنکھ کا رخ داہنی جانب تھا اور دوسری کا بائیں اور۔

    ’’نہ نہ مین صاب۔۔۔ ایسا مت کرو۔۔۔ مے سچ مچ سے کسم کھاتا ہوں۔۔۔‘‘ وہ عاصمہ کے ہاتھوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔

    ’’میں بھگوان کا کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔۔ میں اپنا مرا ہوا ماں کا کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔۔ اب ایسا نہی کروں گا۔۔۔‘‘

    اس نے قہقہوں کے درمیان رک رک کر کہا اور بڑے ہی خلوص سے عاصمہ بیگم کو دیکھتے ہوئے اس نے نہایت عاجزی سے گردن کوخم د یا اور ایک قدم ان کی طرف بڑھی۔

    ’’مے۔۔۔ مے۔۔۔ آپ کا کسم کھاتا ہوں مین صاب۔۔۔ آپ میرے کو ماف کر دو۔۔‘‘ اس نے دھیمی سی آواز میں کہا اور مسکراتی رہی۔

    عاصمہ بیگم نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے