ہجرت
سورج نے افق کی ہتھیلیوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے ایک نگاہ درختوں کی شاخوں اور پتوں پہ ڈالی، دانہ دنکا چگنے میں محو پرندوں کے کانوں میں سرگوشی کی،سورج مکھی کے پھولوں کی پھولی ہوئی اداس گالوں پہ آخری بوسہ دیا اور شام کے آنگن میں جا اترا۔ شام ایسی شرمائی کہ اس کے چہرے کی سرخی افق کی حویلیوں کے اس پار تک دیکھی گئی۔ مگر جدائی کاگیت گاتے پرندے ہوا کے سینے پہ نوحہ خوانی کرنے لگے۔ بوجھل ہوا بادلوں سے گلے ملتے ہوئے غم سے نڈھال ہو گئی۔ روتے روتے بادلوں کی آنکھیں سوج گئیں اور ٹپ ٹپ برسنے لگیں۔ پرندے غول در غول اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹنے میں جلدی کرنے لگے۔ ایک فاختہ جو اپنے نونہالوں کو ساتھ میں لائی تھی، واپسی کی تلقین کرنے لگی، مگر ننھے پرندے واپسی کا سن کر خوش ہونے کی بجائے اداس ہو گئے۔ ماں نے ایک بار پھر تازہ دانہ بچوں کے منہ میں دیا اور اپنے ساتھ اڑانے لگی:
’’ اگر جانے میں جلدی نہ کی تو اندھیرے میں بھٹک جائیں گے اور جہاں رہتے ہیں شاید اس سے بھی بد تر جگہ میں جا پھنسیں۔ گھبراؤ نہیں میں جلد ٹھکانہ بدلنے کی کوشش کروں گی‘‘
اس نے دونوں بچوں کو آگے کیا اور ان کی راہنمائی کرتے ہوئے خود ان کے پیچھے پیچھے اڑنے لگی۔ کبھی وہ ساتھ ساتھ رہتی ،کبھی دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے۔ بچوں کے ننھے ننھے پر ہوا کے جھولے میں جھولتے منزل کو رواں دواں تھے۔ ابھی کچھ دور ہی گئے تھے کہ انھوں نے دیکھا ایک بوڑھا کوا ہانپتا ہوا، ہوا میں غوطے کھاتا جا رہا تھا جو شاید اپنے غول کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے پایا تھا۔ کوا اکیلا بھی تھا اور باتونی بھی۔ اس نے فاختہ کو بچوں کے گرد دائرہ سا بنائے محوِ پرواز دیکھا تو اس سے خاموش نہ رہا گیا اور قریب آتے ہوئے کہنے لگا:
’’لگتا ہے دن بھر بہت مصروف رہی بی فاختہ!‘‘
مگر فاختہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔ کوا بھی کہاں چپ رہنے والا تھا۔ وہ ہمت کر کے ایک بار پھر قریب ہوا اور پوچھنے لگا:’’ کہاں رہتی ہو تم!‘‘
اب کے بھی جواب نہ پا کر وہ بچوں کے قریب ہوا اور ان کو خوش کرنے کے لیے گلے سے عجیب مضحکہ خیز قسم کی آوازیں نکالنے لگا۔ فاختہ سے رہا نہ گیا اور آخر کو بول اٹھی:
’’وہ سامنے شمال مشرق کی جانب ہمارا ٹھکانہ ہے‘‘ یہ کہہ کر فاختہ نے ایک بار پھر خاموشی اختیار کر لی۔ کوا بھی مزید کچھ کہنے سننے کی بجائے فاختہ کے ننھے منے بچوں سے اٹکھیلیاں کرنے لگا۔ فاختہ نے جب دیکھا کہ بوڑھا کوا بے ضرر ہے تو اس نے بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کوے سے بات چیت شروع کر دی:
’’کیا پوچھتے ہو بڑے میاں ! کہنے کو تو اپنا گھونسلا ہی ہے مگرہے جہنم سے بھی بدتر۔ دن رات ایک حشر بپا رہتا ہے۔ سرشام تو گویا ہر روز ایک قیامت سی آ جاتی ہے ‘‘
اب کے کوا بچوں کی بجائے فاختہ کے قریب آیا اور تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگا:
’’ سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟ کہاں ہے تمھارا گھونسلہ؟‘‘
’’بتایا تو ہے شمال مشرق میں واقع اس جھنڈ کی جانب جہاں دو ٹانگوں پہ رینگتی مخلوق اکٹھی ہوتی ہے انھیں ہر روز سرشام پاگل پن کا دورہ پڑنے لگتا ہے، دیوانوں کی طرح ایک دوسرے پر چیختے چلاتے اور کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ کبھی کبھی توآگ کے گولے برساتے ہیں اور کبھی محض آنکھوں کے شعلوں سے ایک دوسرے کو بھسم کر دینے والی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ سر سے پا تک کانپ اٹھتے ہیں مگر ہر روز یہی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نہ اکتاتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ اپنی بلا سے۔۔۔ جئیں یا مریں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ وہی وقت بچوں کے آرام کا ہوتا ہے۔ قدموں کی دھمک اس قدر شدید ہوتی ہے کہ کئی بار تو بیچارے سوتے میں گر پڑے۔۔۔ ایک بچہ توگر کر مر بھی گیا تھا۔۔۔ اور جو انڈے ٹوٹے سو الگ۔۔۔ ایسے ماحول میں بھلا کوئی کب تک رہے۔۔۔ ‘‘
’’اوہ اچھا! تو تم سرحد والے درختوں میں رہتی ہو‘‘
کوے نے فاختہ کوبات مکمل کرنے کا موقع دیے بغیر بیچ میں بولنا شروع کر دیا:
’’تم نہیں سمجھ سکو گی ایسا کیوں ہے۔ وہاں بارڈر نامی لکیر دو ملکوں کو جدا کرتی ہے۔ یہ لکیر صرف زمین کے اس ٹکڑے پر نہیں بلکہ ان کے دلوں پر بھی ہے‘‘
’’سر حد کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘‘
فاختہ نے معصومیت سے پوچھا۔ کوے کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کی باتیں سننے والا کوئی مل گیا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے اس نے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا:
’’یہاں دو ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے کو جدا کرتی ہیں۔ دونوں جانب کے شیر دل جواں اپنے اپنے وطن کے گیت گاتے ہوئے خود پر فخر کرتے ہیں۔ یہاں کے باشندے دیوار کے اس پار قدم نہیں رکھ سکتے اور وہاں کے باسییوں کو یہاں پاؤں دھرنے کی اجازت نہیں۔۔۔‘‘
کوے کا لیکچر ابھی جاری تھا کہ بیچ میں ایک بچہ بول اٹھا:
’’میں سمجھا نہیں، ایسا کیونکر ممکن ہے۔۔۔ ہوا کو تقسیم نہیں کر سکتے ،دھوپ دونوں جانب برابر پڑتی ہے۔ برسات بھی سرحد کی تمیز کیے بغیر ہر ایک ذرے کو مساوی طور پر بھگو دیتی ہے۔ یہاں تک کہ گلاب بھی دونوں جانب کے آنگنوں کو ایک جیسی خوشبو سے مہکاتے ہیں۔۔۔ تو رینگتی مخلوق کے لیے ایسی پاپندی کیوں؟ کیا زمین ان کے پاؤں پکڑ لیتی ہے؟‘‘
کوا اب کے چکر کاٹ کے سوال کرنے والے بچے کے قریب آیا اور پیار سے چمکارتے ہوئے کہنے لگا:
’’میاں برخوردار! تم تو ابھی شیر خوار ہی ہو، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘
’’مگر سرحد بنائی کیوں گئی تھی؟‘‘ بچے نے کوے کو ٹوکتے ہوئے کہا
’’میری سمجھ میں تو کوئی خاص بات نہیں آتی‘‘ کوا کہنے لگا: ’’ سرحد کا اور تو کوئی خاص مقصد نہیں۔ سوائے ایک دوسرے پہ چیخنے چلانے،زورِ بازو دکھانے یا پھر دوقوں، میزائلوں اور بموں جیسی شرلیاں بنانے کے‘‘
کوا دیر تک تقسیمِ کے وقت ہونے والے فسادات فاختہ اور اس کے بچوں کو سناتا رہا جووہ اپنے آباؤ اجداد سے سنتا آیا تھا۔ لاشوں کے انبار کے انبار یاد کرتے ہی اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور دادا پردادا کی بتائی ہوئی باتوں کو ہو بہو دہرانے لگا:
’’صدیوں قبل جب آدم کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو ہماری برادری کے ایک سیانے مگر باغی کوے نے گِدھوں اور دیگر گوشت خور پرندوں کو دعوت دینے کی بجائے قابیل کو لاش دفن کرنے کا طریقہ سکھا دیا۔ اس جرم کی پاداش میں ہم نے اس کوے کو اپنی برادری سے ہی نکال دیا تھا اور اس بار تو میرے ابا کے دادا کے ابا نے دور پرے کے دوست رشتے دار چیلوں اور گِدھوں کو بھی بلا لیا تھا۔ جنھوں نے جی بھر کے تازہ تازہ گوشت اڑایا۔۔۔ ایک چونچ ایک لا ش پہ مارتے اور دوسری چونچ اور ایک لاش پہ۔ اتنا گوشت کھایا اتنا کھایا کہ اڑنے کے قابل نہ رہے۔۔۔ وہ دور گِدھوں کے لیے ایک سنہری دور تھا‘‘
فاختہ بڑی توجہ سے اس کی باتیں سنتی جا رہی تھی۔ کوا لمحہ بھر کو خاموش ہوا، ایک نظر دونوں بچوں پہ ڈالی اور گلوگیر لہجے میں کہنے لگا۔
’’یہ دو ٹانگوں پہ رینگتی وحشی مخلوق تو اپنے بھئی بندوں اور بچوں تک کے گلے کاٹنے میں دیر نہیں لگاتی۔ تم کس کھیت کی مولی ہو۔ تمھارا کون لحاظ کرےگا۔ تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ جلد از جلد اپنا ٹھکانہ بدل لو ‘‘
فاختہ نے گھبرا کے اپنے دونوں بچوں کو دیکھا اورلاچارگی سے بولی:
’’مگر جائیں گے کہاں؟ ابھی تو بچے بھی ٹھیک طرح سے اڑنے کے قابل نہیں ہوئے‘‘
کوے نے اپنائیت اور ہمدردی سے کہا:
’’کچھ ہی تو فاصلے پر ،جہاں ہمارا ٹھکانہ ہے، وہاں بنے بنائے گھونسلے موجود ہیں۔ تم بھی وہیں کہیں آس پاس رہ سکتی ہو! تمھیں کون ہے روکنے والا؟ جہاں جی چاہے رہو! آزاد فضا میں آزادی سے سانس لو!‘‘
فاختہ نے جواب یا:
’’نہیں نہیں بڑے میاں! میں یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔۔ میری کتنی یادیں وابستہ ہیں اس جگہ سے۔۔۔ یہیں پر پلی بڑھی ہوں، اپنی ماں سے اڑنا سیکھا اور اپنے بچوں کو سکھایا ہے۔ ایک ایک ٹہنی پر ریشمی ڈور جیسی یادیں صبح شام یہاں کی ہواؤں کو مہکاتی رہتی ہیں۔۔۔ نہیں نہیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکےگا۔ بہر حال تمھاری شفقت کی شکر گزار ہوں ‘‘
اتنے میں فاختہ اپنے گھونسلے کے قریب آئی۔ اسی لمحے دونوں جانب کی ہلڑ بازی کے سبب شور کا وہ عالم تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نے آکے دیکھا کہ وہ شاخ بھی ٹوٹ چکی تھی جس پر اس کا گھونسلہ تھا۔ اس کا جی بھر آیا۔ اس نے فضا میں ایک چکر کاٹا۔ وہاں پہ موجود درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کو حسرت بھری نظر سے دیکھا اور بےچینی سے اپنے گھونسلے کا طواف کرنے لگی۔ دل ہی دل اس نے کچھ سوچا اور فیصلہ کن انداز میں اڑان بھری۔ سرحد کے دونوں جانب باری باری اس نے بیٹ کی، بچوں کو ساتھ لیا اور ہجرت کو پر تولنے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.