Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہونٹ کنارے

محمد حامد سراج

ہونٹ کنارے

محمد حامد سراج

MORE BYمحمد حامد سراج

    بہت پرانی بات ہے۔

    اب تواس کے سر کے بال مکمل سفید ہو چکے ہیں۔ جب وہ گاؤں سے شہر تعلیم حاصل کرنے آیا تھا تو اس کے بال گھنگریالے اور کالے سیاہ تھے۔ وہ اپنی اکلوتی محبت کی یاد بھی ٹرنک میں ساتھ رکھ کے لے آیا تھا۔ مقابلے کے امتحان کے بہت بعد کی بات ہے۔ جب اس کی شادی ہو گئی تو ایک بار کاٹھ کباڑ کی صفائی کے دوران اس کی بیوی نے ملازم کو جو سامان کباڑ کے بھاؤ تول کے بیچنے کو کہا اس میں وہ ٹرنک بھی موجود تھا۔ وقت نے بہت گرد ڈال دی ہے۔ ٹرنک میں رکھی یادیں تو معمولی بات ہے اسے تو اپنی محبت کے مغلئ خدوخال بھی یاد نہیں۔ ہونٹ کے کنارے پر ٹھہرا تل بھی اس کی یادوں کو تازہ کرنے میں ناکام رہا۔ کیا وقت اتنا سفاک ہے کہ ہونٹ کنارے تل ایسی یاد کو بھی نگل گیا۔

    سلیم ا لرحمن پاکستانی بیوروکریسی کا ایسا پرزہ بن گیا جو روبوٹ کی طرح اپنے آقا کا ہر حکم بجا لاتا۔ شہر کی بلند قامت عمارات میں سے ایک عمارت کی گیارھویں منزل پر اس کا دفتر تھا۔ گاڑی مین گیٹ سے اندر داخل ہوتی، سیلوٹ، وہ نپے تلے قدموں سے لفٹ تک پہنچتا، خودکار لفٹ اسے گیارھویں منزل تک پہنچا دیتی۔ دیو قامت میز جس کے ایک سرے پر گھومنے والی کرسی میں دھنسنے سے پہلے وہ عقبی کھڑکی کا پردہ سرکا دیتا۔ میز کا حدود اربعہ بھی بیوروکریسی کے افسرانِ بالا طے کرتے تا کہ عوام میں سے اگر کسی کو شرف ملاقات بخش بھی دیا جائے تو اسے ہاتھ ملانے کی تکلیف نہ ہو اور آقا کے سامنے رکھی کرسی پر وقت کی اذیت کاٹ کے چلتا بنے۔

    سیلم الرحمن اس سسٹم میں ایسا کھویا کہ ماہ وسال کا حساب اس کے کوٹ کی کسی جیب میں کھو گیا اور باوجود تلاش کے اس کے ہاتھ نہ آیا۔ ہونٹ کنارے تِل ایسی یاد بھی اس کو دلدل سے نہ نکال سکی۔ اسے گھڑی کی سوئی کے ساتھ ایسے طور پیوست کر دیا گیا کہ وہ ٹک ٹک گھومتا رہا۔ خوبصورت بیوی، پارٹیاں، رقص وسرود، بیرونی ممالک کے دورے، بینک بیلنس اسے ہر آسائش میسر تھی۔

    اس کے بہن بھائی، رشتہ دار جب بھی اس کے لیے اداس ہوتے اس کی ملاقات کو شہر آ نکلتے۔ گاؤں کی پگڈنڈیاں اور رستے بھی اسی ٹین کے بکس میں تھے جو کباڑ کے بھاؤ بک گیا۔

    یہ اس صبح کی بات ہے۔ اس نے دفتر میں کھڑکی سے دبیز پردہ سرکایا اور فون کی گھنٹی بجی۔

    اس کی بڑی بہن گزر گئی۔

    گاؤں جانا ضروری تھا۔ ڈیجیٹل ڈائری کھول کر اس نے اپنے معمولات اور شیڈول کو دیکھا۔ بیرونِ ملک دورے اور بہن کے جنازے کے اوقات کو جمع تفریق کیا۔ جنازہ پڑھ کے فلائٹ پکڑی جا سکتی تھی۔ فاصلوں کی پیمائش کے بعد اس نے بہنوئی کو فون کیا کہ وہ جناز ے میں پہنچ رہا ہے۔ اس کے شعور میں ایسی کسی تاریخ کا اندراج نہیں تھا کہ وہ کتنے برس بعد اپنے گاؤں جا رہا ہے۔

    جنازے کے بعد اس کی چھوٹی بہن نے اصرار کیا کہ وہ ایک دو دن کے لیے رک جائے۔

    نہیں۔۔۔ مشکل ہے۔۔۔ مجھے شام کی فلائٹ پکڑنا ہے۔

    وہی گھر تھا، کچے دیوار و در کی جگہ اب پختہ حویلی تھی۔ وہ خاندان میں سالوں بعد بیٹھا اپنے آپ کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔

    بھائی زیتون آپ کو سلام کرنے اور تعزیت کے لیے آئی ہے۔ آپ اندر کمرے میں چلئے وہ آرتھرائیٹس کی پیشنٹ ہے۔

    ایک عورت، ملول اجڑی اجڑی سی، کھنڈر۔

    سارے ماہ و سال زندہ ہو گئے۔

    زیتون کی کلائی میں چاندی کاوہی کنگن تھا جو اس نے شہر جاتے سمے آخری نشانی کے طور پر اسے دیا تھا۔

    سلیم الرحمن کے ہونٹوں پر تل سلگنے لگا۔

    آپ کیسے ہیں۔۔۔؟

    وہی لہجہ وہی آواز۔۔۔وہی اپ۔نائیت۔

    بیورو کریسی کی فائلوں کے انبار سے نکل کر اس نے زیتون کو آواز دینا چاہی۔

    لیکن۔

    فلائٹ پکڑنا ضروری تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے