Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم شکل

پ پدم راجن

ہم شکل

پ پدم راجن

MORE BYپ پدم راجن

    جے نے اس تکلیف دہ سچائی کوسمجھ لیا تھا کہ اس کا ہی ہم شکل ایک دوسرا آدمی اس چھوٹے سے شہرمیں کہیں ہے۔ سائیکل والاکھڑی ڈھلان سے اترکرمشکل سے بریک پکڑے جے سے پوچھتا ہے، ’’تم ایم ہونہ؟ہماری ملاقات ہوئے کتنے دن ہوئے؟‘‘

    سرخ آنکھیں، بڑی مونچھیں، چہرے پرچوٹ کے نشانات!سائیکل والے کودیکھ کرخوف سے کانپتے ہوئے کہا، ’’میں ایم نہیں ہوں۔‘‘

    سائیکل اس راستے سے نیچے کی طرف بڑھی۔

    جب تھیٹرمیں روشنی آئی تب پاس کی سیٹ پر بیٹھے آدمی نے پیٹھ پرتھپڑمارتے ہوئے پوچھا، ’’تم ہرجگہ دکھائی پڑتے ہو؟‘‘

    جے نے چونک کرکہا، ’’میں ایم نہیں ہوں۔‘‘

    اگرچہ جے سے اس نے بالوں سے بھرے ہاتھ جوڑکر معافی مانگی، تاہم جے وہاں پھربیٹھ نہ سکا۔ پھرلائٹ آف ہونے پروہ اٹھ کرباہرآگیا۔ جے سمجھتا ہے کہ اس کا ہم شکل دوسرا آدمی اس شہرمیں بہت دنوں سے رہتاہے۔

    جمنازیم کے سامنے راستے کے اوپراسٹیڈیم کے موڑکی آڑپردرختوں کے پتوں کاسایہ پھیلا ہواہے۔ دست کاری کی اشیاء بیچنے والے ادارہ سے موٹرگاڑی میں سوار ہونے والے درمیانی طبقہ کے پیشہ وروں نے ایسی آوازدی گویا پانی میں پتھر گررہے ہیں۔ ایک بارپھرایم کی پکارسنی۔ ڈھیلی اورشاندار پینٹ والے امیرچرو ٹ پیتے ہوئے آئے۔

    ’’کہہ توڑیا مگرکہنے کے مطابق کام بھی کروگے؟‘‘

    جے کہنے لگا، ’’میں۔۔۔‘‘

    ’’پیسہ لینے کے بعد یہ نہیں بھولناچاہئے کہ پیسہ کس لیے لیا۔‘‘ اس کے منھ سے بدبونکلی۔ وہ کہنے کاموقع دیے بغیرچلا اٹھا۔

    ’’سیکسنی کولے آؤ ں گا۔ توپیسہ لوٹادوورنہ آج رات کو۔۔۔‘‘

    ’’میں ایم نہیں، جے ہوں۔‘‘

    وہ غصہ میں غراتاآگے بڑھا۔ تب تک ادارہ سے موٹرگاڑی اسے پارکرکے آگے بڑھ گئی۔ جے اس نتیجہ پرپہنچاکہ ایم بدخو ہے۔ اتناہی نہیں، جان پہچان والوں کوفریب دے کرپیسہ کماتاہے۔

    وہ فریبی نہیں ہے۔

    جوبھی ہو، اپنے ہی ہم جسم، اپنے ہی ہم شکل اس آدمی کوضرورتلاش کرناچاہئے۔

    وہ جیب میں چاقورکھ کراس کی تلاش میں نکل پڑا۔

    اس نے سبھی چہرو ں پرنظرڈالی، لمبی آنکھیں، ان کے اوپربھووں کی لکیریں، لپ اسٹک لگے یا بغیرلپ اسٹک کے منھ الٹے دکھائی دیتے نتھنے، کان اوربدبودارغاروں سے جھانکتی زبانیں کتنے کروڑ۔

    مگراپنا ہم شکل ڈھونڈنکالنا ہے۔ لاؤ نج میں کھونٹی پرآویزاں ٹوٹے آئینہ پرروشنی پہنچانی ہوگی۔

    جے نے گھڑی پرنظرڈالی۔ شام کے پانچ بج کرچالیس منٹ ہوگئے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ سبھی آنے جانے والوں کی گھڑیوں میں وقت پانچ بج کرپینتالیس اورپانچ بج کرپینتیس کے درمیان ہے۔ ہرایک اپنی اپنی گھڑی کے مطابق کام کرتاہے۔ دس بج کر بیس منٹ پر پل کے پاس انتظار کرتاہے۔ کیا وہ آئے گا؟ڈیڑھ بجے جنوب سے آنے والی گاڑی (لڑکیوں کی بس)کی دوسری سیٹ پربائیں طرف ایک حسن ہے۔ سواتین بجے خارش والا لڑکاشام کا اخبار بیچنے نکلے گا۔ بوتھ میں دودھ لینے کے لیے آئے لوگ پونے چاربجے لوٹتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

    چلتے چلتے جے کی گھڑی سے دوسرے کی گھڑی ٹکرائی۔ ایک کی سوئی دوسرے کی سوئی پر رگڑگئی۔ جے کوایسا ہی معلوم ہوا۔

    پراژدہام سڑک۔ کمر تک ایک ہی جیسے دوپیر والے عورت مرد۔ ایک ہی طرح کے ہاتھ پیر۔ اس طرح آگے بڑھنے والی شوخ شام۔

    خوش قسمتی سے گھڑی پرکوئی کھرونچ نہیں لگی۔

    جے نے سراٹھاکر دیکھا تومحسوس ہواکہ وہ ایم ہی ہے۔ آئینہ کا عکس نہیں۔

    ’’ایم ہو نا؟‘‘

    ’’ہاں جے!‘‘

    ’’کیسے پہچانا؟‘‘

    ’’کئی لوگ مجھے ہی جے سمجھتے ہیں۔‘‘

    جے کی جیب پراس کی للچائی نظرپڑی۔ جیب میں مرجھایاپیلاسادس پیسہ کاایک بس ٹکٹ اکیلاپڑا تھا۔

    جے نے غیررسمی طورسے پوچھا، ’’کیاکرتے ہو؟‘‘

    ایم ہنستے ہوئے بولا، ’’یوں ہی دن کاٹتا ہوں۔‘‘ پھربڑی دوستی کے اندازمیں ہاتھ پکڑلیا۔

    ’’کوئی نوکری؟‘‘

    ایم نے کہا، ’’کوئی خاص کام نہیں، دوسروں کی مدد کرکے یوں ہی وقت گزارتاہوں۔‘‘

    جے نے کہا، ’’یہ تومیں پہلے ہی سمجھ گیاتھا۔‘‘ (بے شرم کتا)

    جے غیرشادی شدہ ہے۔ پھربھی مشکلات اورالجھنوں کابار اس پرہے۔ کم تنخواہ پاتاہے۔ چھوٹے رقم کے منی آرڈروں کی کئی رسیدیں اس کے پاس جمع ہیں۔ اپنے گھرکی ذمہ داریاں سنبھالنے کاغرورکرتاہے۔ کسی سے اپنا تعارف کراتے وقت اپنی ذمہ داریوں کاحوالہ بھی دے گا۔

    ’’ارے دیکھومیں اپنے کندھے پرپوراگھرڈھوتاہوں۔ دیکھتے ہو نا؟‘‘

    ایم کودکھایا۔

    ایم اس کووہیں چھوڑکرچلاگیا۔

    آئندہ پھرملنے کے وقت تک ایم لکھ پتی ہوگیاہوگا۔

    فتح ایسے لوگوں کی ہی ہوتی ہے۔ شیطانی اور بدافعالی کی مزدوری دلانے والا زمانہ۔

    اتوار کودن بھرپارک میں گھومتارہا۔ تھک جانے پردھوتی اتاردی اورتالاب میں اترکرہاتھ پیراچھال اچھال کرتیرنے لگا۔ ناک میں پانی چڑھ گیا۔ کان بندہوگئے۔ پانی کی گہرائی تک جاکرڈبکی لینے کے بعد باہرآیا۔ پانی کی سطح پرلیٹے ہوئے اوپرسے چمکتی ہوئی سورج کی شعاعوں کودیکھا۔ پلکوں پرپانی کے ننھے قطروں کی جھلک دیکھ کربہت خوش ہوا۔

    بدن پونچھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لگے۔ زندگی ایک بلبلہ ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے چلنے لگا۔ تبھی ایک لڑکا دوڑکر آیا اور اسے ایک خط دیا۔

    ’’کیامحبت وہ رات ہے جوفحش کتابوں میں مصوَّرچار طریق مباشرت میں سماجاتی ہے؟‘‘

    مڑکردیکھا تولڑکا غائب ہوگیاتھا۔ عورت کا خط، ’’تم کہا کرتے تھے کہ ہرایک نئی لڑکی نئے ٹوتھ پیسٹ کے شوق کی طرح ہے۔ لیکن میں نے کبھی یہ سوچا تک نہ تھا کہ تم اپنی باتوں کو عمل میں لاؤگے کمینے۔‘‘

    ایم کمینہ ہے۔ اس نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ مرجائے گی۔

    ’’جمعرات کے دن سویرے دس بجے سینی ٹوریم کے سامنے کے بس اسٹاپ پرآؤگے؟‘‘

    جے نے جمعرات کی چھٹی لی۔ متعینہ مقام پرپہنچا۔ اندرکی طرف سکڑی ہوئی پیٹھ اورمیلے تاش کے پتے جیسی چھاتی، شیریں جذبات والی بھوت جیسی ایک عورت صحیح وقت پرسینی ٹوریم سے باہرآئی۔

    ’’تمہارے ساتھ کہیں آؤں تو (خواہ کسی ہوٹل میں یا کسی دوزخ میں) صرف تمہارا ہی انتظارہوگا۔ دوستی کا بہانہ بہت پیسہ ملاہوگا نا؟‘‘وہ روئی، ’’تم پربھروسہ کرنے سے میں نے فریب کھایا۔ تم میری زندگی کوتھوڑاتھوڑا کرکے کھارہے تھے۔ اب آخر میں ایسابھی ہوا۔‘‘

    جے پھسپھسایا، ’’میں ایم نہیں ہوں۔‘‘

    سڑک پرسامنے سے آئی ہوا میں ایک روح کوباہرہوتے دیکھا۔

    اتنے میں اس سڑک سے ایک موٹرگاڑی گذری۔ اس کے سامنے کی سیٹ پر جے نے اپنا ہم شکل دیکھا۔ پھرکئی گاڑیوں میں کبھی نہ ہنسنے والے اپنے کوہنستاہوادیکھا۔ ایک دوپہر کوہوائی اڈے کی طرف جانے والی بس میں بیٹھے ہوشیارایم نے بیچارے مجھ (جے )کودیکھ کرہاتھ ہلایا۔

    جے دل ہی دل میں غمگین ہوا۔

    وہ مندرگیا۔ خدا سے پوچھا کہ صرف ایم کی شکل دے کراس کی قسمت بھی مجھے کیوں نہ دی۔

    پھرکیاملا۔

    ’’ملیٹری کینٹین سے رم لادینے کا وعدہ کرکے پیسہ لینے کے بعد اب چھپاپھرتاہے؟‘‘

    ’’میں جے ہوں۔‘‘

    ’’قرض لینے پراس کوادا بھی کرناپڑتاہے۔ تلاشی لیتے وقت بیہوشی کا بہانہ بناکر لیٹے تومیں تمہیں قتل کرڈالوں گا۔ بدمعاش!‘‘

    ’’میں جے ہوں مسٹر۔‘‘

    ’’تمہارے خون کی جانچ کا نتیجہ آگیا۔ پوزیٹو ہے۔ جلدی سے کچھ نہ کچھ کرناہوگا۔‘‘

    ’’میں جے ہوں، ایم نہیں۔‘‘

    ’’کہلابھیجا ہے کہ دیدی مرجائے گی۔‘‘

    ’’لیکن میں ایم نہیں ہوں، جے ہوں۔‘‘

    ’’آئندہ میں اس کوچھپاکرنہیں رکھ سکتی۔ ابھی سہیلیوں کاشک ہے۔ ایک مہینے بعدتو۔۔۔‘‘

    ’’میں جے ہوں۔ یہ خط میرے لیے نہیں۔‘‘

    ’’اس دن کے وعدے کاسونا۔‘‘

    ’’ہائے میں جے ہوں، میں جے ہوں‘‘

    مجھے شکست دے کرمیرا ہم شکل امیرہوگیا ہوگا۔ اس نے موٹرگاڑی خریدلی ہوگی۔

    وہ روٹری کلب میں تقریر کرتا ہوگا۔ ہوٹل کے کمروں میں قے کرتے، کالج کی لڑکیوں کواقتصادی امداددیتے اورڈھیلا لباس پہنے ہوئے سبھی سے نرمی سے بات کرتا ہوگا۔

    جے کوحسدہوا۔

    شناسالوگوں کے سامنے بھی سرجھکاکر چلنے والا آدمی بیوقوف بن گیا۔

    کوئی بھی آدمی ایک شہرمیں جتنے سال چاہے رہ سکتاہے۔ بس اتناہی ہوتا ہے کہ دس سال تک لگاتار رہنے پروہ اس شہر کی تاریخی چیز بن جاتاہے۔ وہ کیسے؟دیمک اس کی پیٹھ کے چھلکوں کولے جاتی ہے۔ مکڑی اس آدمی کی آنکھ ا ور کان پرجالابن دیتی ہے۔ آتے وقت خریدی ہوئی پینٹ اس دن بھی باقی رہتی ہے۔ پھٹی بوسیدہ اورپیوند لگی ہوئی پینٹ۔

    تم نے جوکہا وہ صحیح ہے۔ کافی ہاؤس کے سامنے جمع، ابھی پیداشدہ نئے کیڑے، جے جارہا تھا تب اس نے بتایا، ’’پندرہ برس پہلے کافیشن۔‘‘

    تحقیق میں مشغول طالب علموں نے دل لگاکر پڑھا کہ تاریخی چیز کے کنگھی کرنے، آستین کولپیٹ کررکھنے کی رسم، جوتے وغیرہ کے فیشن میں کیاتبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کے بارے میں طویل نوٹس بھی لکھ ڈالے۔ جے کوایک باراورایم کاسامناکرناپڑا۔ اپنے چہرہ کاوہی ہم شکل سایہ ایسامعلوم ہواکہ وقت سب کے لیے ایک انداز سے گذرجاتاہے۔ پانچ منٹ کا فرق چہرے کی جھریوں پرنہیں دکھائی دیتا۔ دونوں آدمی ایک طرح کے۔

    ایم لکھ پتی ہوگیاہوگا۔ جے نے سوچا۔

    ایم قریب آیا، ’’تم کودیکھے بہت دن ہوگئے۔‘‘

    ’’بالکل صحیح ہے۔‘‘

    گھوڑے کی لید پیس کردھلی ہوئی سڑکوں پر مسافروں کا تھوک خشک ہوگیا!زندگی صرف بلبلے کی مانندہے۔ ایم نے اس کے اوپرتھوکا۔ خون آلودبدبودارتھوک نے سڑک کوگیلا کردیا۔ ناشکستہ بلبلوں پرسرخ رنگ پھیل گیا۔

    ایم نے پوچھا، ’’شادی ہوگئی کیا؟‘‘

    ’’کہاں؟ذمہ داریوں اور مشکلات سے پوری زندگی بھری ہے۔ ابھی شبہ ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی آرام چین کی زندگی ہوگی بھی یانہیں۔ جانے دووہ باتیں۔ خیرتمہاری زندگی کیسی گذررہی ہے؟‘‘

    ’’مصیبت ہی مصیبت۔‘‘

    جے نے آرزو کے ساتھ پوچھا، ’’کروڑپتی توبن گئے ہوگے؟‘‘

    ’’کون؟‘‘

    میں نے سوچا

    ارے وہ سسک سسک کررویا۔ اس کی جیب کانکلا ہوا حصہ پھٹا ہوا تھا۔ آنکھوں میں جالادکھائی دیا۔ اس پرمکڑی کے بچے رینگ رہے تھے۔

    کبھی کبھی سفیدمونچھوں سے ناک سے نکلتی رطوبت چاٹتارہا۔

    جے کوڈرہوا۔ ایم نے کہا، ’’پچیس پیسے کی ضرورت ہے۔ دوگے؟‘‘

    خوف دورہوا۔ ہمدردی ہوئی۔

    اس کے پاس جوکل انیس پیسے تھے، وہ ایم کودیے۔

    جے نے کہا، ’’میں نے سوچھا تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’تم اچھی کمائی کرلیتے ہو۔‘‘ ایم نے کہا اورلمحہ بھر رک کرپھربولا، ’’یہ سب غلط ہے۔ ہم سب کے سرپرست عام لوگ ہیں جے!پھرکیسے زیادہ آمدنی کرلیتے؟‘‘

    ’’پرانے کام کاج۔۔۔‘‘

    ’’کیاتم سمجھتے ہوچھوڑدیا؟ وہ اب میری زندگی ہے۔ زندگی کی امید ہے۔‘‘

    جے نے انیس پیسے دیے۔ ایم نے اس کاشکریہ ادا کیا پھرآگے بڑھ گیا۔ چلنے کے وقت آنکھوں میں مکڑی کے بچے دوڑرہے تھے۔ آنکھیں بھوک اورپیاس سے پہلے کی طرح عریاں رقص کرتی رہیں۔

    جے نے بھی اندرکی طرف دیکھ کرآواز دی، ’’تیرے جیساایک آدمی، تجھ سا ایک آدمی، جوغیرشادی شدہ اوردس پندرہ انکریمنٹ پایاہوا ایک سرکاری ملازم ہے۔ چار آنکھوں میں ایک ہی طرح کے مکڑے۔۔۔ دونوں ناکوں میں ایک ہی طرح کی رطوبت کا سوتا۔‘‘

    زندگی میں پہلی بارجے کوہیجان کااحساس ہوا۔ وہ رونہیں پارہا ہے۔ کسی کویہ بات بتاناچاہ رہاہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے