Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجتماعی مات

محمد حامد سراج

اجتماعی مات

محمد حامد سراج

MORE BYمحمد حامد سراج

    اجتماعی ماتاس نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔ اگر میری یادداشت کی چولیں ڈھیلی نہیں پڑیں تو اوور کوٹ کا رنگ سبز تھا۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ اس اوورکوٹ کا سلسلہ کہیں بھی غلام عباس کے مشہور افسانے ’’اوورکوٹ‘‘ سے نہیں جڑتا۔ دیکھنا یہ ہے سبز اوور کوٹ پہنے وہ جا کہاں رہا ہے۔۔۔؟ اس کی سمت کیا ہے۔۔۔؟ اکثر شام ڈھلے وہ ہوسٹل کے کمرے سے بےترتیب بالوں سمیت نکلتا، کمرے کا دروازہ بھیڑتے ہوئے سیٹی کی آواز کوریڈور میں گونجتی۔ سیڑھیاں اتر کر وہ برآمدے میں کھڑا ہو کر ایک بھر پور انگڑائی لیتا۔ منہ پر اُلٹا ہاتھ جمائی کے انداز میں جما کر عجیب وغریب آوازیں نکالتا پھر بازو ڈھیلے چھوڑ کر ہر طرف نگاہ دوڑاتا۔ آہستہ آہستہ برآمدے سے باہر نکلتا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا برآمدے کی مغربی سمت کی سیڑھیاں اترتا کالج گراؤنڈ کا رخ کرتا۔ کالج گراؤنڈ کے اطراف سٹنگ ارینجمنٹ کسی بڑے عالمی کھیل کے میدان کا نقشہ پیش کرتی تھیں۔ وسیع وعریض گراؤنڈ میں اس کی نشست مخصوص تھی۔ سرد شاموں میں وہ وہاں تنہا بیٹھا کسی انگریزی فلم کا کردار لگتا۔ سگریٹ وہ کوٹ کی دائیں جیب میں اور ماچس بائیں جیب میں رکھنے کا عادی تھا۔ جب وہ گراؤنڈ میں داخل ہوا دسمبرکی سرد ہوا ہڈیوں کو چیرتی پورب سے پچھم کو چلتی تھی۔ اس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبایا۔ بائیں جیب میں ماچس نکالنے کو ہاتھ ڈالا تو ماچس کی بجائے لائٹر اس کے ہاتھ میں تھا۔ یہ اسے صبح ایک دوست نے تحفہ دیا تھا۔ اس نے لائٹر کے سرخ اور نیلے شعلے کو غور سے دیکھا۔ وہ بہت دیر لائٹر کو ہاتھ میں تھامے غور سے دیکھتا رہا۔ ٹرانس پیرنٹ لائٹر میں لیکوئڈ گیس کو اس نے ایسے دیکھا جیسے یہ کوئی نئی دریافت ہو۔ اچانک جانے اسے کیا سوجھی وہ کھڑا ہوا۔ جسم کو تولا، بازو کو گھما کر لائٹر پھینکا وہ گراؤنڈ کے وسط میں کہیں جا گرا۔

    ’’یار یہ کیا مذاق ہے۔۔۔؟‘‘

    اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا ایک لمبا تڑنگا بڑھی شیو اور الجھے بالوں والا ہوسٹل فیلو کھڑا تھا۔

    ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا گراؤنڈ کی تم نے بکنگ کرا رکھی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’بیٹھو۔۔۔‘‘

    ’’یہ لائٹر کو کس خوشی میں گھما پھینکا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’دفعہ کرو یار! لائٹر سے تودانتوں میں خلال بھی نہیں ہو سکتا۔ ماچس کا اپنا ایک مزہ ہے۔ تمباکو کے ساتھ تیلی کے سرے پر لگے بارود کی بو۔۔۔ اس کاا پنا ایک مزہ ہے۔‘‘

    اس نے کوٹ کی بائیں جیب سے ماچس نکالی، سگریٹ سلگایا، منہ میں سے دھوئیں کے گول گول چھلے نکالے، اپنی ادا پر خود ہی مسکرایا۔ دھوئیں سے چھلے بنانے کا فن اس نے چند روز

    قبل سیکھا تھا۔ کالج کا اپنی نوعیت میں وہ منفرد کردار تھا۔ گفتگو کے دوران متنوع موضوعات پر طبع آزمائی اس کے مزاج کا حصہ تھا۔ بیڈ منٹن اور ڈرافٹ کاوہ مشّاق کھلاڑی تھا۔ ڈرافٹ کا وہ بےتاج بادشاہ کہلاتا تھا۔ اس کھیل میں اپنے آپ کو یکتا سمجھنے والے اس کے سامنے بے بس ہو جاتے تھے۔ جیت جانے کا نشہ اس کے چہرے پر ابھرتا ضرور تھا لیکن اس کی کوئی ادا اوچھی نہیں تھی۔

    وہ سگریٹ سے چھلّے بناتے ہوئے جانے کن خیالوں میں گم تھا۔۔۔؟یہ لم تڑنگ آج گراؤنڈ میں کیا لینے آیا ہے۔۔۔؟ یہ دفع کیوں نہیں ہوتا۔ اس بے وقوف کو کیا معلوم کہ تنہائی کی محفل کا لطف کیا ہوتا ہے۔ یادوں کے میلے میں گھومنے کا اپنا الگ لطف ہے۔ یہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

    ’’یار وہ لائٹر میں اٹھا لوں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں اٹھالے یار۔۔۔‘‘ اس نے بےزاری سے کہا۔

    لائٹر اٹھا کر وہ دوبارہ اس کے پاس آ بیٹھا۔

    ’’آج کی تازہ خبر سنی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’عجیب سی خبر ہے۔۔۔ ہے بھی تمہارے بارے میں۔۔۔!‘‘

    ’’میرے بارے میں۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ تمہیں بڑا زعم ہے نا۔۔۔ ڈرافٹ میں تمہیں کوئی مات نہیں دے سکتا۔ کل سہ پہر ڈھلنے پر تم ڈرافٹ ہار جاؤگے۔۔ اور ممکن ہے اس شکست کے بعد تم ڈرافٹ کھیلنا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں۔۔۔ کس نے چیلنج کیا ہے مجھے۔۔۔؟‘‘

    ’’ادریس علی۔۔۔‘‘

    ’’ادریس علی۔۔۔ اسے تو کبھی ڈرافٹ کھیلتے دیکھا ہی نہیں گیا۔‘‘

    ’’کل سارا ہوسٹل دیکھ لےگا۔‘‘

    سرد ہو ا پورب سے پچھم کو چلتی تھی۔ وہ گراؤنڈ سے واپس ہوئے تو شام کی لالی رات کی سیاہی میں مدغم ہو چلی تھی۔ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا رات کے کھانے کے لیے میس میں داخل ہوا۔ کھانا کھانے کے دوران اس کے ذہن میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔۔۔ مجھ سے پوچھے بنا یہ ڈھنڈورا کس نے پیٹا۔۔۔؟خیر چٹکی کی مار ہے لیکن اگر میں ہار گیا تو۔۔۔؟ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے نہیں ہارنا ہے۔

    کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں آیا۔ الماری سے ڈرافٹ نکالی اور پھر رات گئے تک بیٹھا چالوں پر غور کرتا رہا۔ اس کے اندر جنگ جاری تھی۔ اس نے ادریس علی خان کو کبھی ڈرافٹ کھیلتے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ پھر بھی خائف ہو گیا۔ اس کی نیند اڑ گئی۔ سہ پہر میں اتنی دیر کیوں ہے۔۔۔؟ سہ پہر کا لمحہ کب آئےگا۔۔۔ فیصلہ تمام ہو۔۔۔ یہ ذہن بھی عجیب کارخانہ ہے اس میں کوئی ایک بات اپنی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہو تو جب تک وہ تیار ہو کر مکمل نہ ہو، یہ کارخانہ کچھ اور قبول ہی نہیں کرتا۔۔۔ سارے کام دھرے رہ جاتے ہیں۔ بس کھٹ کھٹ سنائی دیتی رہتی ہے۔

    ادریس علی خان ایک دھیمے مزاج کا نوجوان تھا۔ نکلتا ہوا قد، شانوں پر بال بکھرے ہوئے، مانگ درمیان سے نکلی ہوئی، داڑھی ترشی ہوئی، بائیں کان میں بُندا، داہنے ہاتھ کی وسطی انگلی میں چاندی کی انگوٹھی جس میں یاقوت جڑا ہوا، خاموش طبع، چال میں وقار اور متانت۔۔۔ بارش کے موسم میں دوستوں کے اصرار پر اپنی سریلی لے میں دوہڑے الاپتا تو پرندے ہوا میں پرواز روک لیتے، بانسری اور اکتارہ بجانے میں بھی وہ یکتا تھا۔ اس کی گیلی آنکھوں میں جانے کون بسا تھا۔۔۔؟ لڑکے کہتے تھے اسے عشق نے باندھ رکھا ہے اس کی شخصیت کا سحر عشق کی دین ہے۔

    عصر کے بعد لڑکے ہوسٹل کے لان میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔ ادریس علی سیمنٹ کے بنچ پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔

    وہ ڈرافٹ بغل میں دبائے لان میں آیا تو خوب تالیاں بجیں۔ اس نے ادریس علی سے ہاتھ ملایا۔ ڈرافٹ سیمنٹ کے بنچ پر سجائی۔ کالی اور سفید گوٹیاں ترتیب سے رکھیں۔

    ’’گیم ہارنا پسند کروگے یا بلاک کر دوں۔۔۔؟‘‘

    اس نے سر اٹھا کر ادریس علی کا تیقن دیکھا۔۔۔’’میں اس زعم کی وجہ پوچھ سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘

    ’’زعم نہیں ہے مجھے۔۔۔ جیت سے میرے من میں کوئی خوشی نہیں پھوٹتی۔ مدمقابل کی ہار کا درد بھی مجھے تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن کیا کروں۔۔۔ شاید کسی کی دعا ہے۔ میں آج تک اپنی ذات کا یہ عقدہ نہیں حل کر پایا کہ میں کیوں جیت جاتا ہوں۔‘‘

    ’’گفتگو بند۔۔۔ گفتگو بند بھئی۔۔۔ اب کھیل شروع ہو۔۔۔ پانچ بازیاں ہوں گی۔‘‘

    ’’بازی توایک بھی کافی ہوتی ہے۔۔۔‘‘ گیلی آنکھوں والے نے چاندی کی انگوٹھی گھمائی۔

    کھیل شروع ہوا۔ پانچ سات چالوں میں ہی ادریس علی نے سارے رستے مسدود کر دیے۔ اس کے پاس چال چلنے کو کوئی رستہ نہیں تھا۔ وہ ہر طرف سےِ گھر چکا تھا۔ گیم بلاک ہو گیا اور وہ پہلی بازی ہار گیا۔

    دوسری بازی۔۔۔ اس نے چالوں کو تازہ کیا۔۔۔ سارے داؤ آزما ڈالے لیکن ہار اس کا مقدر تھی۔۔۔ ادریس علی نے انگلی میں انگوٹھی گھمائی۔ سفید گوٹی سے پہلی چال بڑھائی اور کہا۔

    ’’دوست ایک بات ذہن میں رکھنا۔۔۔ یہ کھیل ہے۔۔۔ کھیل میں جذباتی نہیں ہوا کرتے۔ ہر کھیل ٹھنڈے دماغ سے۔۔۔ جیت گئے تو جیت گئے۔۔۔ مات کو بھی تو جیت مانا جا سکتا ہے۔ تم نے کھیل کی ہار جیت کو سنجیدگی سے نہیں لینا۔‘‘

    اسے اندازہ ہو گیا کیونکہ وہ خود ایک مشاق کھلاڑی تھا کہ اس کا مدمقابل اس کھیل میں اس سے کہیں زیادہ ماہر ہے۔ تیسری بازی طول کھینچ گئی لیکن وہ ہار گیا۔۔۔! تالیوں کے شور کے باوجود اس نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا اس کی وجہ شاید ادریس علی خان کا متبسم چہرہ تھا۔ یکے بعد دیگرے تین بازیاں ہارنے کے بعد وہ میچ ہار چکا تھا۔ آخری دو بازیاں کھیلنا عبث تھا۔ وہ سیمنٹ کے بنچ سے اٹھا۔ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، سگریٹ سلگایا۔ لان میں بیٹھے لڑکوں پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ چار کی ٹولی لڈو کھیل رہی تھی۔ دو لڑکے ہمیشہ کی طرح ’’نوگیٹی‘‘ کھیلنے میں مگن تھے۔ ایک لڑکا جو، ڈمپر موٹو کے نام سے معروف تھا کوئی کھیل کھیلنا اس کا مشغلہ نہیں تھا اس کے پاس ایک اچھی نسل کا پاکٹ ریڈیو تھا۔ وہ اس پر دنیا جہان کی خبریں سنتا، موسیقی، کلاسیکی راگ، تجزیے اور زراعت کے پروگرام تک سننا اس کا معمول تھا۔ مائل بہ فربہی ڈمپر موٹو کالج کے اوقات کے بعد ہمیشہ نیکر پہنتا، جین کی شرٹ جس کے کالر پر میل جم چکی تھی۔ بکھرے ہوئے گھنگریالے بال، پاؤں میں ہوائی چپل، چلنے کا انداز نرالا، جھولتا ہوا کندھے جھکا کر جیسے بلندی سے پستی کو اتر رہا ہو۔۔۔ لڑکے اس کا مذاق اڑاتے کہ موٹو زوال کی علامت ہے۔

    آج اس نے ڈرافٹ میں بری طرح مات کھائی تھی۔ وہ سوچتا رہا ایک عرصہ میں نے اپنا مغز کھپایا لیکن پھر بھی ادریس علی سے ہار گیا۔۔۔ کیا مجھے اس سے ڈرافٹ دوبارہ سیکھنا چاہیے۔ حرج ہی کیا ہے۔۔۔ معلوم تو ہو وہ کیسے چال بناتا ہے کہ سارے کھیل پر چھا جاتا ہے۔ وہ کمرے میں لیٹا سوچوں میں غلطاں وپیچاں اپنے آپ سے بےخبر ہار جیت کے فلسفے پر غور کر رہا تھاکہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ حسبِ معمول اس نے کہا۔

    ’’اندر آ جائیے۔۔۔‘‘

    وہ حیرت سے اچھلا۔۔۔ ادریس علی پہلی بار اس کے کمرے میں آیا تھا۔ اس نے ہیٹر پر چائے رکھی، پلیٹ میں بسکٹ سجائے۔۔۔ چائے کے ساتھ ہی اس نے الماری سے ڈرافٹ نکالی۔

    ’’ڈرافٹ رہنے دو یار۔۔۔ آج باتیں کریں گے۔‘‘

    ’’ادریس علی تم اس کھیل میں طاق کیسے ہوئے۔۔۔؟‘‘

    ’’کوئی خاص بات نہیں۔۔۔ بس تجربہ۔۔۔ اور داؤپیچ۔۔۔ تم بھی تو اتنے بہت سے لوگوں سے جیت جاتے ہو۔ ہار جیت زندگی کا حصہ ہے۔ ہار جانے پر حوصلہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ چائے کا خیال کرو۔۔۔ ہیٹر بند کرو۔۔۔‘‘

    اوہ۔۔۔ اس نے چائے پیالیوں میں انڈیلی۔

    ’’ادریس علی۔۔۔ یہ پتلی تماشا نہیں ہے کیا۔ ہم سب پُتلیاں ہیں۔ ہماری مرضی کیا ہے۔۔۔؟ کبھی سوچا تم نے۔۔۔ مقدر کیا ہے۔۔۔؟ ہم بیمار ہوتے ہیں یہ ہمارے بس میں نہیں ہم بیمار نہ ہوں۔ ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ عمر کے زوال کو روکنا بھی ہماری دسترس میں نہیں ہے۔۔۔ ہم ہار گئے تو قسمت کوکوس لیا جیت گئے تو قسمت کے دھنی کہلائے۔۔۔ ہم کیا ہیں۔۔۔ زمین پر نائب لیکن خودمختار تو نہیں ہیں نا۔۔۔!‘‘

    ’’چھوڑو یار۔۔۔ چپ چاپ زندگی جیے جاؤ۔ ذہن میں دوڑنے والے سوالات کو لگام دیا کرو۔ ایسا نہ ہو یہ بے لگام گھوڑے ایک روز تمہاری لاش گھسیٹیں۔ مان لینے میں آسانی ہے۔۔۔ جینا ہے تو اللہ کو ایک مان لینے میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔ موت سے ہم کنار تو ہونا ہے۔ انسان اسے ایک تسلیم نہ کرے ا س سے کائنات میں کوئی فرق نہیں پڑتا اپنی راہ کھوٹی ہوتی ہے۔ بڑا گہرا فلسفہ ہے دماغ کی چولیں ہلا دیتا ہے اسی لیے کہا ہے سوالات کے گھوڑوں کو لگام دیے رکھا کرو یہ بےلگام ہو جائیں تو برباد کر دیتے ہیں۔ زندگی روند ڈالتے ہیں۔ مفکرین نے عمریں کھپا دیں۔۔۔ بس تسلیم و رضا کا فلسفہ ہی کام آتا ہے۔‘‘ چائے کی چسکیوں کے درمیاں وہ محو گفتگو تھے کہ ڈمپر موٹو ریڈیو کان سے لگائے اندر داخل ہوا۔

    ’’ملکی حالات سخت خراب ہیں۔۔۔ میں نے سوچا سب کو اطلاع کر آؤں۔‘‘

    ’’خبرنامے سن سن کر تیرا دماغ کام چھوڑ گیا ہے۔ میڈیا ہمیشہ حکومت نامہ نشر کرتا ہے۔ یہ سیاسی کھیل ہیں۔ چینل بدل لیا کر۔۔۔ ہر طرف امن ہے۔ چین ہے۔۔۔ مت خوف پھیلایا کر۔۔۔!‘‘

    ’’نیرو بھی چین کی بانسری بجاتا رہا تھا۔۔۔ تم سب بھی مل کر بانسری بجاؤ۔‘‘

    ڈمپر مو ٹو دروازہ بھیڑ کر چلا گیا۔

    ’’یار! ہم نے بے چارے کی بات پر توجہ نہیں دی۔ بات تو اس کی ٹھیک تھی۔‘‘

    ’’چھوڑو یار۔۔۔ بےخبری کا اپناایک مزہ ہے۔‘‘

    ’’چاہے طوفان سب کچھ بہا لے جائے۔‘‘

    ’’کچھ نہیں ہوگا یار۔۔۔!‘‘

    ’’بات ہونے یا نہ ہونے کی نہیں ہے۔۔۔ ملکی تو خیر ملکی، عالمی حالات کا بگاڑ جانے زمین پر کیا گل کھلائے۔‘‘

    ’’چھوڑو۔۔۔ تم مجھے ڈرافٹ کے گر سکھاؤ۔‘‘

    ’’تمہاری اسی لاپروا طبیعت سے مجھے ڈر لگتا ہے تم زندگی کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتے۔۔۔؟ ہم افراد سے ہی معاشرہ ترتیب پاتا ہے۔ اقوام جنم لیتی ہیں۔ سلطنت پھلتی پھولتی ہے۔‘‘

    ’’یار۔۔۔ یہ اتنا گاڑھا فلسفہ۔۔۔ کالج لائف کے بعد ساری عمر کا روگ ہے۔ ابھی تو چار دن عیش کر لیں۔۔۔ آتش جواں ہے۔‘‘

    ’’ہاں محمد بن قاسم بھی جوان تھا۔۔۔ سترہ سال اس کی عمر تھی۔۔۔ جس عمر میں ہم ڈرافٹ کھیل رہے ہیں اس عمر میں وہ جنگی چالیں کھیلتا تھا۔ اس عمر میں اس نے باب سندھ پر آ دستک دی تھی۔‘‘

    ’’ہاہاہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ آج کا محمد بن قاسم لڈو، ڈرافٹ اور نوگیٹی کھیلتا ہے اور اور۔۔۔!‘‘

    ’’ہنسنے کی بات نہیں ہے۔۔۔! ابھی تو وہ کہہ کرگیا ہے کہ ملکی حالات سخت خراب ہیں۔‘‘

    وہ موضوعات کو چباتے رہے۔۔۔ بہت دیر بعد وہ پھرکیفے ٹیریا کا ارادہ کر کے کمرے سے نکلے۔ دونوں ہوسٹلوں کے درمیان مختصر سے ٹیرس پر لگی لکڑی کی ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے ڈمپر موٹو ریڈیو سن رہا تھا۔ وہ اس کے پاس سے گزرے۔

    ’’لاشیں ہی لاشیں۔۔۔ بارش ہو رہی ہے۔۔۔ میزائلوں کی بارش۔۔۔ موسلادھار بارش۔۔۔ حالات سخت خراب ہیں۔‘‘

    ’’یہ پاگل ہے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں یار۔۔۔ کم سے کم خبر تو رکھتا ہے نا۔۔۔‘‘ادریس علی نے کہا۔

    ’’خبر رکھنے سے کیا مصیبت ٹل جائے گی۔ درمیان میں سمندر ہے اور نفرت کے سمندر کی گہرائی عمیق ہے۔ کھیل کھیلنے والے اپنا کردار ادا کر چکے۔ کسی آن خبر آئے گی کہ انہوں نے ہمارا آدھا وجود کاٹ کے پھینک دیا ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں، ابھی کل ہی ہم نے فارٹی سیون میں خون کا سمندر عبور کیا ہے۔‘‘ ان کا رُخ کیفے کی جانب تھا۔

    ’’دوست ایک بات پوچھ سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔‘‘

    ’’تمہارا یہ جو اوور کوٹ ہے۔۔۔ سنا ہے کسی امیر کبیر لڑکی نے تمہیں مہنگے داموں خرید کر تحفہ دیا تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ یہ سچ ہے۔ میں سارا دن بس اسٹاپوں پر لڑکیوں کا پیچھا کیا کرتا تھا۔ ایک لڑکی تھی یار، غضب کی خوبصورت تھی۔ اس کے ہر عضو بدن سے حسن چھلکتا تھا۔ لیکن سالی لفٹ نہیں کراتی تھی۔۔۔ جانے کیسے ایک دن انہونی ہو گئی۔ وہ مجھ پر مہربان ہو گئی۔ ایک کیفے میں اس نے مجھے چائے پر مدعو کیا۔ میز پر ہم آمنے سامنے تھے اور سارے موسم اس کے بدن سے پھوٹتے تھے۔ میز پر وہ کُہنیوں کے بل آگے کو جھکی اور سرگوشی میں مجھے کہا۔

    تم شکل سے خیراتیے لگتے ہو۔۔۔ یہ لو پچاس روپیہ اور اپنی پسند کا گفٹ خرید لینااور ہاں اگلا گفٹ طمانچہ ہوگا۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’لنڈے سے پچاس روپے میں یہ طمانچہ خریدا اور پہنے پھر رہا ہوں۔۔۔ اور کیا نام ہے اس کا۔۔۔ سالا۔۔۔ نپولین کی اولاد۔۔۔ لمبو۔۔۔ حیرت تخلص کرتا ہے ایک روز کالج گراؤنڈ میں اس نے مجھے کہا تھا۔۔۔ Life is miserable۔۔۔ اس سالے کو کیا معلوم لائف کب Miserable ہوتی ہے؟یہ اس وقت Miserable ہوتی ہے جب انسان طمانچہ پہن لیتا ہے۔۔۔ چھوڑو یار۔۔۔ سموسے کھائے جائیں۔‘‘

    ادریس علی خان حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ عجیب متضاد پہلو دار شخصیت کا مالک ہے یہ۔۔۔!

    اگلے روز یا شاید اس سے اگلے روز۔۔۔ دن تو سارے ایک سے ہوتے ہیں۔۔۔ لمحہ لمحہ ماضی میں ڈھلتا دفن ہوتا وقت۔۔۔ سرکتا ’’حال‘‘ ۔۔۔ نامعلوم ’’مستقبل‘‘ ۔۔۔ اگلے روز۔۔۔ کوئی سا بھی دن ہو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟

    دھوپ تیز تھی۔

    چار کی ٹولی لڈو کھیل رہی تھی۔ دو مقحوط چہرے والے لڑکے ہمیشہ کی مانند ’’نوگیٹی‘‘ کھیلنے میں مگن تھے۔ وہ سیمنٹ کے بنچ پر بیٹھا اوور کوٹ گود میں دھرے ادریس علی خان کے ساتھ ڈرافٹ کھیل رہا تھا۔ کچھ لڑکے کپڑے دھوکر سوکھنے کے لیے رسّی پر پھیلا رہے تھے۔

    ’’آج ڈمپر موٹو غائب ہے۔۔۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔

    ’’اسی لیے توملکی حالات ٹھیک لگ رہے ہیں۔ افواہیں پھیلانا بھی اس موٹوپر بس ہے۔‘‘

    ہوسٹل کی دوسری منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی میں ایک منچلے نے ڈیک پوری آواز میں کھول رکھاتھا۔۔۔ اچانک برآمدے کی مغربی سمت سے ڈمپر موٹو تیز تیز قدموں سے آتا دکھائی دیا۔ ریڈیو حسب معمول اس کے کان سے چپکا ہوا تھا۔

    ’’لو۔۔۔ بھئی وہ آ گیا۔۔۔ اس کی چال بتا رہی ہے کہ عالمی حالات تباہی کے آخری سرے پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘

    ڈمپر موٹو کی سانس پھولی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے چیخ کر کہا۔۔۔ ’’اوئے الو کے پٹھے سے کہو، ڈیک بند کرے۔۔۔‘‘ نیچے سے ایک پتھر پھینک کر انہوں نے دوسری منزل والے کو متوجہ کیا اور ڈیک بند کرایا۔

    ’’ڈمپر یار۔۔۔ خیریت تو ہے نا۔۔۔ تیری سانس کیوں پھولی ہوئی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’تم سب اپنے اپنے کھیل بندکرو۔۔۔’’نوگیٹی، لڈو‘‘ ڈرافٹ۔۔۔ اور یہ موسیقی۔۔۔!‘‘

    ’’ہوا کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہم سب کو اجتماعی مات ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

    لان میں سنا ٹا چھا گیا۔۔۔ گہری اور دبیز چپ۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے