Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امتل

MORE BYمنیرہ احمد شمیم

    ’’امتل‘‘۔

    ’’ہوں‘‘۔

    ’’چلو اٹھو باہر چلتے ہیں‘‘۔

    ’’باہر کہاں؟‘‘ امتل بیزاری سے پوچھتی ہے۔

    ’’کہیں۔۔۔ کسی چھوٹے سے ریستوران میں چائے پئیں گے‘‘۔

    امتل چارپائی پر اپنا بکھرا وجود سمیٹ لیتی ہے اور بیزاری سے جمائی لیتے ہوئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے۔

    امتل بکھرے ہوئے وجود کی لڑکی ہے یا مجھے بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ شاید وہ خود بھی یہ جانتی ہے یا شاید وہ نہیں جانتی۔ لیکن میں نے اسے اس لمحے کی گرفت میں دیکھا ہے جب وہ اپنے بکھرے ہوئے وجود کو دیکھ لیتی ہے اور پھر وہ اس امید کے ٹیپ سے اپنے وجود کو جوڑ لیتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ایک نہ ایک دن وہ ضرور میری زندگی میں آئےگا۔ وہ اکثر اس کی باتیں مجھ سے کرتی جو اس کے خیالوں کا شہزادہ تھا۔ لیکن جلد ہی آنسوؤں سے یہ امید کا ٹیپ بھیگ جاتا اور پھر ادھڑ جاتا۔

    امتل میری روم میٹ ہے۔ ہم آخری سال میں ہیں۔ یونیورسٹی کا یہ آخری سال خود فریبی، آزادی کا آخری سال ہے ، آگے کیا ہوگا۔۔۔ آگے کیا ہوگا؟ کبھی کبھی تشویش اپنے بھاری ہاتھوں سے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ لیکن یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔ امتل کو میں چار سال سے جانتی ہوں۔ یا شاید چار صدیوں سے کیونکہ میں نے اس کی کھوکھلی روح میں اتر کر اس تنہائی کی گونج سنی ہے جسے وہ سگریٹ اور شراب سے دبانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔

    معمولی، بےحد معمولی شکل و صورت کی امتل ایک گونج ہے اور اس گونج کا ایک دائرہ ہے۔ اس دائرے کا مرکز ہے اور اس مرکز میں۔۔۔میں نے امتل کو دیکھا ہے لیکن یہ اور بات ہے۔

    امتل کپڑے بدل کر تیار ہو گئی ہے وہ اپنے پرس میں سگریٹ کی تازہ ڈبیا رکھ رہی ہے اور اس نے اپنے وجود پر بے نیازی کا خول چڑھا دیا ہے۔ اسے میں جانتی ہوں اور میں نے یہ خول اتار دیا ہے اور امتل کو اس کے اپنے اصلی روپ میں دیکھ رہی ہوں اور کیا پتہ میں نے یہ سب کچھ اس کی ہمدردی میں کیا ہو۔ ہماری ہر بات کے دو رخ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم صرف ایک ہی رخ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوسرا رخ ہمیں کبھی نظر نہیں آتا۔

    ’’چلو جان! امتل تیار ہے‘‘۔

    اپنے بےجان اور ٹوٹے ہوئے وجود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے۔۔۔ ایک طویل کش کو فضا میں بکھیرتے ہوئے بولی!

    باہر دھوپ ہے ڈھلتی ہوئی، مال روڈ کے پرلے سرے پر ایک چھوٹا سا ریستوران ہے۔ ہمیں وہاں جانا ہے۔ یہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔ یہاں ہم تھوڑے سے پیسوں میں بہت سا عیش کرتے ہیں۔ یا عیش کا تاثر حاصل کرتے ہیں۔۔۔اسی عیش سے امتل کی کہانی بھی وابستہ ہے۔ لیکن یہ کوئی اتنی بڑی کہانی بھی نہیں!

    ریستوران میں لوگ۔۔۔اکا دکا لوگ بیٹھے ہیں۔ ریستوران کے کونے میں وہ بھی بیٹھا ہے جو اس کہانی کا ایک کردار ہے۔ مجھے اس کا نام معلوم نہیں ہے۔ لیکن نام میں کیا رکھا ہے اس کا کوئی سا بھی نام رکھ لیجئے، کوئی بھی خوبصورت نام مثلاً سرمد۔۔۔ سرمد ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔ باہر اس کی کار۔۔۔ لمبی کالی کار کھڑی ہے۔ اس کار کی چمک اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ سرمد خوبصورت ہے، درازقد ہے۔ پائپ پیتاہے اور اس وقت بھی پائپ پی رہا ہے۔ پائپ سے تمباکو کی بھینی بھینی خوشبو چاروں سمت پھیل رہی ہے۔ میں اس خوشبو کو اپنے وجود کے ریشے ریشے میں اتار رہی ہوں۔ مجھے اچھے تمباکو کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔ ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے۔ امتل کونے میں بیٹھے ہوئے سرمد کے مقابل والی میز پر بیٹھ جاتی ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہمیشہ یونہی ہوتا ہے۔ امتل نے اپنے پرس میں سے سگریٹ نکالی اور ایک لمبا کش لیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ساری کائنات کو اپنے اندر اتار رہی ہو اور سرمد اس کی کائنات ہو۔ سرمد اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہوا اپنے پائپ سے نکلے ہوئے دھوئیں کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔ لیکن میں اس سارے کھیل میں کہاں ہوں؟ مجھے اس سارے الجھاوے میں اپنے آپ کو ڈالنے کی ضرورت نہیں۔۔۔کیونکہ یہ کہانی امتل کی ہے۔

    سرمد امتل سے محبت کرتا ہے۔ کم از کم امتل کا یہی خیال ہے اور وہ اس کی سوچوں کا محور ہے۔ اس کا ثبوت وہ خط ہیں جو سرمد نے امتل کو لکھے ہیں۔جنہیں اس نے مجھ سے چھپایا ہے۔ لیکن مجھے ان خطوط کا علم ہے، کیسے علم ہے یہ میں بعد میں بتاؤں گی۔ سرمد کی محبت امتل کو گھٹن کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے اور وہ اندر سے کھوکھلی ہوتی جارہی ہے اور کسی دن وہ کھوکھلے درخت کی طرح گر جائےگی۔

    سرمد اور امتل کی اس خاموش محبت کو میں چھ ماہ سے دیکھ رہی ہوں اور بیرے بھی اس کھیل میں شامل ہیں۔ وہ خاموشی سے خط اٹھانے لگے ہیں۔ وہ چپکے سے آتے ہیں اور پانی کا گلاس سرمد کی میز پر رکھ جاتے ہیں۔ سرمد جواب میں تشکر سے مسکراتا ہے۔ پھر بیرا چائے لاتا ہے دو آدمیوں کے لیے لیکن دوسری پیالی ہمیشہ خالی رہتی ہے اسی طرح صاف شفاف جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو، جیسے امتل کا انتظار کر رہی ہو۔ امتل دور سے پیالی کو دیکھتی ہے اور آنکھیں بند کرتے ہی کہیں کھو جاتی ہے جیسے وہ اس چائے کی پیالی میں اتر رہی ہو اور سرمد اسے ایک گھونٹ میں پی جائے۔

    ہمیشہ کی طرح آج بھی سرمد سامنے والی ٹیبل پر بیٹھا ہوا ہے۔ بیرا مسکراکر پانی کا گلاس اور دو آدمیوں کی چائے ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔ امتل آنکھیں بند کر کے اس خالی پیالی میں اترنے ہی والی تھی کہ ریستوران کا دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت سمارٹ سی لڑکی اندر داخل ہوئی اور بڑی گرم جوشی سے سرمد کی طرف بڑھی۔

    سرمد کھڑا ہو گیا۔

    ہائے۔۔۔لڑکی نے کہا۔

    ہائے۔۔۔ سرمد نے جواب دیا۔

    پھر وہ دونوں قہقہوں میں چائے پینے لگے۔

    میں نے دیکھا امتل کا چہرہ پیلا پڑگیا۔ وہ جیسے چائے کی پیالی میں غوطے کھا رہی ہو۔ زندگی کے اس ٹھہرے ہوئے بدصورت لمحے کو وہ قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ اپنی خوف زدہ نظروں سے امتل نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔۔۔اور سارے غم اپنی جھولی میں سمیٹ کر ریستوران سے باہر نکل آئی۔

    باہر اندھیرا چھا رہا تھا۔ بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں۔۔۔خزاں کی زد میں آئے درخت کے زرد پتوں کو گہرا کر رہی تھیں۔ امتل نے جھک کر پتوں پر یوں ٹھوکر ماری جیسے اپنی بیتی ہوئی زندگی پر ٹھوکر مار رہی ہو۔

    میں نے اس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ تپتے سورج میں اس زمین کی طرح نظر آیا جس زمین پر برسوں بارش نہ برسی ہو۔

    ’’امتل‘‘۔

    ’’ہوں‘‘ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔

    ’’اداس کیوں ہو؟‘‘

    ’’اداس نہیں ہوں مجھے اس پر غصہ آ رہا ہے۔ جھوٹا۔۔۔۔کمینہ‘‘ وہ غصے سے بولی۔

    ’’کون؟‘‘ میں پوچھتی ہوں۔

    ’’وہ مجھ سے محبت کرتا تھا‘‘۔ وہ بڑبڑائی۔

    ’’تم اس سے ملیں‘‘۔

    ’’نہیں۔۔۔ میری اس سے ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ شاید وہ میرے اندر پہلے ہی سے موجود تھا۔ بس دریافت اب ہوا تھا۔۔۔ پیار کہیں باہر سے نہیں آتا، یہ انسان کے اندر ہوتا ہے۔ شاید ہم اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ وہ کب آئے اور اچانک مل جائے۔‘‘

    ’’لیکن جسے تم جانتی نہیں اسے تخیل کی مدد سے جان لیوا کیوں بنا رہی ہو۔ ایک بات کہوں تم نے یہ جو اپنے وجود کے اردگرد اداسی اور بیزاری کا کمبل لپیٹ رکھا ہے۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ اس سے تم اپنے اندر کی تنہائی کا خلا بھر لوگی‘‘۔

    ’’زندہ تو رہنا ہے نا!‘‘۔

    ’’عجیب لڑکی ہو‘‘۔

    ’’اچھا آؤ۔۔۔ چھوڑو یہ باتیں۔۔۔ کہیں چل کر کافی پیتے ہیں‘‘۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی۔

    ’’تمہارے دل میں اپنے لیے اتنی ہمدردی دیکھ کر کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے تم میری زندگی میں کوئی اہم رول ادا کرو گی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم مجھے بچالوگی کسی آفت سے‘‘۔

    ’’امتل۔۔۔ تمہیں کیسے معلوم کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے‘‘۔

    ’’ہونہہ۔۔۔ میرے پاس ثبوت ہے‘‘۔

    ’’خط۔۔۔؟‘‘ میں پوچھتی ہوں۔

    ’’ہاں‘‘۔

    ’’مجھے معلوم ہے‘‘۔

    ’’تجھے کیسے معلوم ہے؟‘‘

    ’’وہ خط جو مجھ سے تم چھپاتی رہی ہو لیکن مجھے معلوم ہے!‘‘

    یہ کہہ کر مجھے یوں لگا جیسے بھی ابھی اسے قتل کرنے والی ہوں۔ خوف سے بھی دوسری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔۔۔ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ پرندوں کی ایک ڈار میرے سر پر سے گذر گئی۔

    پھر خاموشی چھا گئی۔

    ’’کیسے معلوم ہے تجھے؟‘‘

    امتل نے دوبارہ مجھ سے پوچھا۔

    ’’اس لیے کہ۔۔۔تمہارے اندر کی تنہائی کو کم کرنے کے لیے وہ خط میں نے تمہیں لکھے تھے‘‘۔

    امتل نے میری طرف یوں دیکھا جیسے وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہو۔

    امتل سے آنکھیں چرا کر میں دوسری طرف دیکھنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے