انصاف
(۱)
جب کھرودا کی جوانی ڈھل چکی اور اس کا آخری چاہنے والا بھی اسے رات کو سوتا ہوا چھوڑ کر چلا گیا تو پھر اس کی آنکھیں کھلیں۔ اس وقت اس نے محسوس کیا کہ ۳۸ سال گناہ کی زندگی بسر کرنے کے بعد میرے پاس زہر کھانے تک کو کوڑی نہیں ہے۔
ہائے افسوس! ان لوگوں میں، جو اس پر جان نثار کرنے کو تیار رہا کرتے تھے، اب ایک بھی ا یسا نہیں جو باقی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ صد حیف! ساری عمر گنواکر ایک پھوس کا جھونپڑا بھی ایسا نہ ہوا جسے وہ اپنا کہہ سکے اور جس میں زندگی یا موت کے دن پورے کرے۔ وہ دیکھتی تھی کہ چاہنے والوں کی طرح اسباب ہستی بھی اس سے بے رحمانہ سلوک کر رہے ہیں اور افلاس کی تنگی کے باوجود زندگی کے ٹیکس بدستور ہیں۔ اب جو اس نے آمدنی کی قلت اور خرچ کی کثرت پر غور کیا تو ہجوم یاس نے بھیانک صورت اختیار کرکے خوف زدہ کر دیا اور وہ اینٹوں کے سخت فرش پر اوندھی لیٹ کر زار زار رونے لگی۔
شام ہو گئی اور ہر طرف تاریکی پھیلنے لگی لیکن کھرودا میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اٹھ کر کمر ہ ہی جھاڑ دیتی یا چراغ جلاتی۔ اس کا بھوکا بچہ دن بھر روتا رہا۔ اتنا رویا کہ گھگی بندھ گئی اور آخر تھک ہار کر چارپائی کے نیچے پڑا پڑا سو گیا۔ اتنے میں باہر کے دروازہ پر کسی نے دستک دی اور آوازآئی ’’کھرو۔۔۔ کھرو۔‘‘
کھرودا غصہ سے جلی بھنی بیٹھی تھی۔ جھاڑو ہاتھ میں لے کر دروازہ کھولنے گئی۔ اس کی قہر آلود صورت دیکھ کر وہ نوجوان جو کھرودا سے محبت کرنے آیا تھا، سر پاؤں پر رکھ کر بھاگا۔ بدنصیب عورت نے غصہ سے سوتے ہوئے بچہ کو گود میں لیا اور پاس ہی کنویں میں کود گئی۔
آواز سن کر ہمسایہ کے لوگ جمع ہو گئے اورماں بچہ کو باہر نکالا۔ کھرودا بیہوش تھی مگر بچہ مر چکا تھا۔ ماں کو ہسپتال میں پہنچایا گیا، جہاں اسے ہوش آ گیا۔ جب اس کی صحت بحال ہوئی تو اقدام خودکشی اور قتل کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا اور صاحب مجسٹریٹ نے تحقیقات کرنے کے بعد اسے سشن کے سپرد کر دیا۔
(۲)
صاحب سشن جج کا نام موہت دت تھا۔ انہوں نے مقدمہ کی سماعت کے بعد کھرودا کو پھانسی کا حکم سنایا۔ وکیلوں نے سزا میں تخفیف کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ بات یہ تھی کہ جج صاحب کمزور اخلاق کی عورتوں پر خاص طور سے سختی کیا کرتے تھے۔ یہ کیوں؟ اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ان کی زندگی کے بعض ابتدائی حالات پر غور کرنا ضروری ہے۔
موہت بابو کالج کی تعلیم کے دنوں میں ایک عمر رسیدہ میاں بی بی کے گھر کے پاس رہا کرتے تھے۔ ان کی ایک جوان بیوہ لڑکی تھی جس کا نام سسی تھا۔ اپنی بیوگی کی تنہائی میں سسی کو جس قدر ظاہری دنیا نظر آئی، وہ اسے ایک پراسرار سنہری زمین کی طرح دکھائی دیتی تھی، جس پر راحت و آرام کا راج ہو۔ یہ حالت دیکھ کر اس کے سینہ میں تمنا و حسرت کا سمندر موجزن ہونے لگا، جس کی لہریں اس کے دل کی تیز حرکت کی صورت اختیار کر لیتی تھیں۔
سسی کو جس وقت گھر کے کام سے فرصت ہوتی تو کھڑکی میں بیٹھ کر سڑک پر گزرنے والوں کی طرف دیکھا کرتی اور سوچتی تھی کہ یہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں۔ زندگی کے ناٹک میں آوارہ گرد تماشائی اس کو سب سے زیادہ خوش و خرم نظر آتے تھے۔ اسی گروہ میں جوش جوانی میں مخمور نوجوان موہت صبح و شام کالج کو جاتے آتے سامنے سے گزرتا تھا۔ شباب کے دن تھے اور کالج کی آزادی۔ ہر وقت بناؤ چناؤ کی فکر رہتی تھی۔ سسی کی نظر اس پر خاص طور سے پڑتی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ ہستی خاص کا درجہ رکھتا تھا، جس کی ذات کو باقی رہرووں کے ہجوم پر ایک خاص تفوق حاصل تھا۔
ممکن ہے سسی تخیل کے آسمان پر اپنے بہادر کے ساتھ خیالی خوشیاں مناتے ہوئے ا سی طرح عمر گزار دیتی مگر اس گھڑی کا برا ہو جس میں موہت اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس تبسم میں نہ معلوم کون سی بجلی تھی کہ اس کی روشنی میں سسی کو وہ خیالی آسمان بالکل قریب اور سہل الحصول دکھائی دینے لگا۔ یہ بیان کرنا لاحاصل ہے کہ موہت کی للچائی ہوئی نظریں اول مرتبہ کب سسی پر پڑیں اور کب سے اس نے بنود کا فرضی نام اختیار کرکے اس سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا۔ مختصر یہ کہ راحت موہوم نے سسی کی نظروں میں دنیا اندھیر کر دی۔ ایک آندھی تھی جو اس کی پیش بینی کو جڑ سے اکھاڑ کر لے گئی اور اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں غلط املا میں لکھا ہوا جواب بنود کے نام بھیج دیا۔
اس کے چند دن بعد اندھیری رات میں سسی اپنے والدین کے گھر سے نکلی۔ سڑک پر ایک بند گاڑی تھی، وہ اس میں داخل ہوئی۔ کیا یہ بتانے کی حاجت ہے کہ اس گاڑی کو وہاں لانے والا بنود عرف موہت تھا؟ مگر جب اس کا خیالی بہادر اپنی فرضی نمود و نمایش کے ساتھ اس کے پیچھے گاڑی میں سوار ہوا اور کھڑکی بند کرکے اس کے پاس بیٹھ گیا۔ تو پشچاتاپ کی ایک نوری لہر نے سسی کے ہر ایک روئیں میں کپکپی پیدا کر دی۔ اتنے میں گاڑی چلنے لگی تھی۔ سسی فوراً اٹھ کر بنود کے قدموں میں گری اور روکر کہنے لگی، ’’پرماتما کے لیے مجھے اتر جانے دو۔‘‘
مگر اس وقت تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
(۳)
اب موہت دت کے چلن میں اصلاح عظیم واقع ہو چکی تھی۔ وہ شب و روز مقدس کتابیں پڑھتا اور ریاضت کرتا تھا۔ دنیا اس کے کارناموں کو فراموش کر چکی تھی۔ مگر ایک جان زندہ تھی، جو اب تک اس کی کمزوریوں سے واقف تھی۔
کھرودا کا مقدمہ فیصل ہونے کے چند دن بعد کا ذکر ہے کہ موہت بابو کچھ پھل اور سبزی لانے جیل خانہ کے باغ میں پہنچے۔ وہاں دو آدمی ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔ جج صاحب اندر گئے تو معلوم ہوا کھردوا ایک سپاہی سے جھگڑا کر رہی ہے۔ موہت بابو کے چہرہ پر فاضلانہ تبسم نمودار ہوا۔ دل میں کہنے لگے، ’’یہ ان عورتوں کی حالت ہے۔ موت سامنے کھڑی ہے مگر تکرار سے باز نہیں رہ سکتی۔ شاید دوزخ میں داخل ہوتے وقت وہاں بھی دربانوں سے لڑے گی۔‘‘ قریب پہنچے تو کھرودا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’جج بابو، مہربانی سے میری انگوٹھی واپس لے دو۔‘‘ معلوم ہوا کھرودا نے ایک انگوٹھی اپنے بالوں میں چھپا رکھی تھی جو سپاہی نے اس سے چھین لی۔
موہت بابو حیرت زدہ ہو گئے۔ خیال آیا پھانسی کے تختے کے پاس کھڑے ہوکر کس نکمی چیز کے لیے جھگڑا ہو رہا ہے۔ سچ اے عورت ذات تیرا نام کمزوری ہے! پھر سپاہی سے مخاطب ہوکر بولے، ’’دیکھوں تو انگوٹھی کیسی ہے؟‘‘
مگر انگوٹھی کو ہاتھ میں لیتے ہی موہت بابو اس طرح بھڑکے جیسے کسی نے جلتا ہوا کوئلہ ان کے ہاتھ پر رکھ دیا ہو۔ انگوٹھی کے نگینہ میں ہاتھی دانت پر بنی ہوئی ایک بےریش نوجوان کی چھوٹی سی تصویر تھی اور اندر کی طرف بنود کا نام کندہ تھا۔ انہوں نے انگوٹھی سے نظر ہٹاکر پہلی مرتبہ کھرودا کے چہرہ کو غور سے دیکھا تو اس وقت پھر انہیں ۳۴ سال پہلے کا وہی آنسوؤں سے تر بھولا اور معصوم چہرہ دکھائی دیا جو اس رات ان کے قدموں پر پڑا تھا۔ مگر آہ! اب اس میں کتنا انقلاب واقع ہو چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.