Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ارتعاش

آدم شیر

ارتعاش

آدم شیر

MORE BYآدم شیر

    صبح اٹھنا اور کاموں کی طویل فہرست جو اس کی پیشانی پر ہوش سنبھالنے کے بعدنقش کر دی گئی، دیکھنا اور جٹ جانا اس قدر بھاری پڑا کہ چڑچڑاپن اس کی ذات کا حصہ بن گیا جو کئی عارضوں کا نتیجہ ہے اور جس سے کئی بیماریاں وجود بھی پاتی ہیں۔ ایک اذیت مسلسل یہ ہے کہ جن کے لیے خود سے نظر چرائی، وقت کے ساتھ ان کی نگاہوں میں وقعت کم کم سی معلوم دینے لگی اور اس سے مکمل عذاب اِس نامکمل دنیامیں شاید کوئی اور ہو جس میں تکمیل بذاتِ خود عذاب سے کم نہیں۔

    اس کی زندگی بہتوں سے بہت بہتر رہی۔ ناآسودہ محبت ،جو کبھی آسودہ تھی، کے سوا کچھ برا نہیں تھا۔ اچھی تعلیم، اچھا روزگار، بڑا گھر، گاڑی، خوش شکل بیوی، پیارے بچے اور۔۔۔ اور ایک دن وہ اپنے کو خچر سمجھنے لگا۔ کسی انجانی کمی کا ہمہ وقت کھَلنا سُوہانِ روح بن گیا۔ وہ اپنی کامیابیاں و کامرانیاں اپنے کو ہی گنوا گنوا کر دلاسے دیتا رہتا مگر بےچینی سی بےچینی تھی کہ کم ہو کے نہ دیتی اور بےقراری کو مہمیز تب پڑتی جب تمام تسلیوں کے بعد اسے مزید خالی پن محسوس ہوتا۔ بے مائیگی اور زیاں کا احساس غالب آ ہی جاتا جس سے نجات کے لیے راہیں تلاشنا ہی تکمیل کی طرف لے جاتا ہے تو اس نے بھی کتابوں سے رشتہ دوبارہ جوڑا کہ شاید کوئی ایسی ترکیب مل جائے جس سے وہ انسان بن جائے جبکہ کتابوں نے اسے کبھی تنہا کیا تھاوہ قمقمہ روشن کر کے ،جس کے بغیر ناقابل قبول اوامر کو قبول کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور زندگی زیادہ تلخ نہیں ہوتی۔

    اس نے جاپانی لوک دانش کے ایک خیال کو اپنے تئیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ سیکڑوں سال پرانے برگد کے سامنے آنکھیں بند کر کے، ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہونا چاہتا تھا اور پراتھنا کرنا چاہتا تھا کہ من بھیتر بھونچال کو دیوتا خود میں سما لے اور اُسے شانتی بخش دے۔ شومئی قسمت کہ وہ برگد کی تلاش میں گیا بھی تو اس باغ میں گیا جہاں کبھی اِک مہ رو کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے جاتا تھا۔ وہ سانس لینے کو ایک پتھریلے بنچ پر بیٹھا تو ٹاہلی کے ٹہنی جال کو سامنے دیکھ کر یکایک یاد آیا کہ یہ تو وہی جگہ ہے جہاں وُہ بیٹھتی تھی جس کی چاہ میں بچوں کی طرح مچلتا تھا اور جسے پانے کے لیے خود کو کھو دیا اگرچہ بازیافت کی راہ پر گامزن بھی ہوا مگر اس وقت کہیں اور جا رہا تھا، نینوں کی وادیوں میں، جہاں کبھی بھٹکنے لگتا تھا تو وہ ہاتھ تھام لیتی تھی لیکن عنایت پر طمانیت کے بجائے وہ ہل من مزید کا راگ الاپتا رہا تھا اور اس شدت سے کہ ایک دن ساز کے تار ٹوٹ گئے جنہیں جوڑنے کی کوشش میں اس کی انگلیاں فگار ہو گئی تھیں اور آج سوچ رہا تھا کہ جانے اسے کیوں خوش مزاجی کا دعویٰ تھا، میں اس کے چنچل پن سے محروم رہا تو کیسے مان لوں کہ وہ چلبلی البیلی تھی لیکن چشم نم میں رقصاں گل نو بہار کو شرمانے والے بیضوی چہرے نے بےقراری میں قرار اور قرار میں بےقراری کی سی کیفیت پیدا کر دی اور سفر بھی طویل ہو گیا۔ ماں باپ، بہن بھائی، رشتہ دار، یار سجن اور بال بچے۔۔۔ ایک کے بعد ایک عکس ابھرتا اور ڈوبتا رہا۔

    اسے وہ دو بھائی بھی یاد آئے جن میں سے بڑا تو اس کی مانند زندگی کرتا رہا اور چھوٹا بیوہ ماں کی جھریاں بڑھا کر، باپ سمان بھائی کے ماتھے پر مزید شکنیں سجا کر، دور کہیں پہاڑوں میں سر ٹکراتے ٹکراتے سینہ چھلنی کراکر، کچھ سے دہشت گرد کا الزام اور کچھ سے مجاہد کا اعزاز پا کر، اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا جن کے جواب ڈھونڈنے تو دور کی بات کسی نے سوالیہ نشان دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس کے لیے زندگی میں کوئی کشش نہ تھی یا اسے موت کے بعد دلکشی کی جھلکیاں پسند آ گئیں؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس کے پاس کرنے کو اور کچھ نہ تھا یا اسے کسی نے کچھ اور کرنے کا موقع نہیں دیا؟ اور گمان یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ بدلے کی آگ میں جلنے کے واسطے ہی آتے ہیں لیکن اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ مسالہ کس نے رگڑا اور کس نے تیل چھڑکا؟ پرائی آگ میں جل مرنے کا شوق پروانوں کی جبلت میں گوندھ دیا جاتا ہے شاید اور جبر کا جہنم بھی تو بہت بڑا، بہت بڑا ہے۔

    سوالات کا ریلا اور وہ ایک اکیلا۔۔۔ بنچ پر بیٹھا خود کلامی کرتا ہوا۔۔۔ شاید کسی نے اس دانا کے بول نہ سن رکھے تھے جس نے دور دیس کے چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر کہا تھا کہ آزاد سوچ کے خاتمے سے بغاوت ختم ہوتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ نہیں۔ یہ ممکن نہیں بشرطیکہ سوچیلے سوتے ہوں۔ ایک راستہ بند ہو سکتا ہے، تمام کبھی نہیں ہوتے تو بغاوت کیسے مٹ سکتی ہے۔ کہیں یہ انسان کے خمیر میں نہ ہو؟ وہ صحیح کہتی تھی کہ مجھے خود کو جاننے اور ماننے کی ضرورت ہے جیسے ان دو بھائیوں نے دو متضاد جہات میں خود کو تسلیم کیا لیکن ان کی ماں کا کیا قصور تھا؟

    خاموش ساعتوں کے درمیان قطرے گرنے کی آواز مخل ہوتی رہی اور جب بے دھیانی سے اپنا چہرہ پونچھا تو کسی اور کے آنسو یاد آ گئے جنہیں دیکھ کر سرما کی دوپہر میں کھلی کھِلی دھوپ بھی پانی پانی ہو گئی تھی۔

    وہ ہزاروں سال سے آباد شہرکے نوآباد نگر کے گلستاں میں قدرت سے ہمکنار ہونے گیا تھا جہاں ایک گورا چٹا لڑکا ایک پودے کی شاخوں میں کچھ رکھ رہا تھا کہ مالی نے دیکھ لیا۔ اس نے ایک گالی اچھالی تو ساتھیوں نے پانچ سات۔۔۔ اور اس کی طرف بڑھنے لگے۔ ابھی پہنچے نہ تھے کہ ایک طرف سے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک شخص بھاگا بھاگا آیا اور دس بارہ سال کے بچے پر بھونکتے بھونکتے پنجے مارنے لگا، مزاحمت ہوئی مگر ایک پالے ہوئے بل ڈاگ کی مانند تگڑے جاندار اور بے گھر بچے کا کیا مقابلہ۔۔۔ مالیوں کے پہنچنے تک وہ خاصا بھنبھوڑ چکا تھا۔ سر، سر کہہ کر چھڑایا مگر گالیوں کا دور چلتا رہا اور سڑے سر کے گلے منہ سے سڑانڈ نکلی۔

    ’’بلا پلس نوں۔۔۔ ‘‘

    اور چھوڑو جی، چھوڑو جی کی آوازوں کے درمیان بچہ نکلا، مڑمڑ کر دیکھتا، چہرہ پونچھتا اور پیچھا کرتی گالیوں کا شعلہ بار نگاہوں سے سامنا کرتا جاتا۔ اس کی آنکھیں۔۔۔ وہ آنکھیں جن میں شرارت کھیلنی چاہئے تھی، نفرت سے بھر چکی تھیں اور اس نے وہیں کھڑے کھڑے سوچا کہ یہی ایک دن بم پھوڑےگی۔ سب چلے گئے تو اس نے آگے بڑھ کر شاخوں میں دیکھا اور کاغذ میں لپٹا روٹی کا ایک ٹکڑا پایا اور سوچا کیا یہی زندگی ہے جو اس آفتاب رو پر تھوپ دی گئی یا اسے تبدیل کرنے کا موقع بھی کوئی دےگا؟ مگر اس کے لیے تو توپ کے دہانوں کے بجائے تجوریاں کھولنی پڑیں گی اور تختی پونچھ کر نیا سبق لکھنا پڑے گا اور یہ کون کرے گا؟ اس نے بنچ پر بیٹھے بیٹھے جھرجھری سی لی ، بند آنکھیں کھول کر گردن اٹھائی اور چند ثانیے بعد گریبان میں جھانکا۔ خود کو کوسا کہ کیوں نہ بولا ؟ کیوں نہ روکا ؟ پھر تسلی دی کہ بولتا بھی تو کیا؟ اکیلا کیا کر پاتا؟ پھر بھی کچھ کرنا چاہئے تھا۔ اطمینان ہوتا کہ ہاں میں نے کوشش کی تھی جیسے ان چند لمحوں کو اکثر یاد کر کے خوش ہوتا ہوں جب ایک چوراہے پر ہری بتی کا انتظار کرتے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھا تھا کہ ایک موٹرسائیکل سوار ہٹا کٹا جوان سگریٹ کے کش پر کش لے رہا تھا اور یہ دیکھ کر کتنی تکلیف ہوئی تھی کہ اس کے آگے ایک ننھا منا لڑکا ہینڈل پکڑے گیں گیں کر رہا تھا اور پیچھے بیٹھی عورت نے بھی دو بچے اٹھا رکھے تھے۔ چند ثانیے کشمکش میں گزار کر شیشہ نیچے کرکے کہا تھا۔

    ’’کچھ خیال کرو۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بعد میں پی لینا۔کہیں اکیلے بیٹھ کر۔‘‘

    اور اس کرخت چہرے والے جوان نے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے سگریٹ سڑک پر پھینک کر بوٹ تلے مسل دیا تھا۔ یہ دیکھ کر کس قدر حرارت بھری مسرت محسوس ہوئی تھی مگر آج سب بدلا بدلا لگ رہا تھا۔وقت کے ساتھ واقعی بدلاؤ آتا ہے، منظر میں، نظر میں، زاویۂ نظر میں۔۔۔ اور بری چیزیں اچھی ہو جاتی ہیں اور اچھی بھی بری دکھائی دینے لگتی ہیں جیسے میرے لنگوٹیے کے ساتھ ہوا تھا۔

    اس نے باز آفرینی سے مملو ایک سرد آہ بھری۔

    دیس میں لاکھوں روپے آمدن کے ساتھ خوشحال زندگی کے باوجود ترقی یافتہ دنیا کا حصہ کہلانے کے لیے بچے بچیاں دُور دیسوں کو نکل لیے اور بیوی بھی انھی میں سے ایک کے ساتھ ہو لی۔ پولیو مارے وجود کے ساتھ سماج میں باعزت مقام پانے کی مسافت کے دوران میں جو درشتی اس میں در آئی تھی، بظاہر اور بڑھ گئی مگر بباطن دھری کی دھری رہ گئی اور زبان بات کرنے کو ترستی رہی حالانکہ ایک دور تھا کہ ملاقات کے لیے وقت لینا پڑتا تھا۔ پرانے شہر کے ڈربہ نما گھر سے جدوجہدکی ابتدا اور نئے شہر کی بڑی سی کوٹھی کے چھوٹے سے کمرے میں تن تنہا انتہا دکھی نہ کرے تو اور کیا کرے مگر کسے اور کب تک؟ بس یار، یہی زندگی ہے۔ میرا اختتام بہتر ہو شاید۔۔۔ مرنا تو ہے ہی، اپنوں یا غیروں میں، کیا فرق پڑتا ہے؟ نہیں ۔ پیارے پاس ہوں تو تسلی رہتی ہے، زندگی زیادہ بری نہیں گزاری۔

    وہ بنچ سے اٹھا اور ذہن خالی کرنے کی کوشش میں ٹہلنے لگا۔ نیلے پیلے، ہرے لال پھولوں اور سبز اوڑھنی اوڑھے پیڑوں نے اس کی توجہ تھوڑی دیر کے لیے بھٹکانے میں کامیابی پائی مگر سوچ کا دھارا ایک اور سمت بہنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ اکثر پودے بدیسی ہیں اور کچھ پیڑ بھی اجنبی ہیں۔ یہ خوبصورت تو بہت ہیں مگر کاغذی کاغذی۔۔۔ خوشبو ہے نہ پھل اور چھاؤں بھی نہیں مگر یہ تو وبا کی طرح پھیل چکے ہیں اور وبائیں تباہی مچاتی ہیں۔

    میرا برگد پیچھے رہ گیااور۔۔۔ اور۔۔۔

    اور اس نے موتیے کی کیاری کے قریب، قیمتی پینٹ کوٹ گندا ہونے کی پروا کیے بغیر، لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی طرح طرح کے روپ بھرنے لگی۔

    بھوک سے بلکتے بچوں کی فروخت سے لے کر دوا کے لیے ایڑیاں رگڑتے بوڑھوں تک، تین سے پنچ ستارہ ہوٹلوں کی شاموں اور راتوں سے گرمیوں کی چھٹیاں ٹھنڈے اور سردیاں گرم علاقوں کے سیر سپاٹوں، لیبارٹری میں موٹے شیشوں والے چشموں کے پیچھے چمکتی آنکھوں سے کتابوں اور کاغذوں سے بھرے کمرے کے ایک کونے میں قلم گھساتے گھساتے دیدوں کے گرد سیاہ حلقوں اور نادیدنی، لکڑی کی میز پر ٹانگیں پسارے بچوں کے رٹے سننے اور سونے سے دُور افتادہ گاؤں میں ایک پائی لیے بغیر پڑھانے اور تارکول بچھی سڑک کے کنارے نشے کی لت میں لتے، غربت سے لتھڑے بچوں کو الف۔ ب۔ سکھانے، سورج طلوع ہونے کے ساتھ کچے پکے گھروں سے نکلنے اور غروب ہونے کے بعد واپس آنے کے درمیان اور چار دیواری کے اندر زندگی دیکھے کیا کیا تماشے ایک بتاشے کے لیے اور اندھیرے سے اجالے میں جو کھیل ہوتے ہیں، وہ بھی تو ایک بتاشے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور یہ بتاشا کیا ہے؟

    وہ واپس وہیں پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا مگر اس نے سوچوں سے بوجھل ذہن کے ساتھ ارد گرد نگاہ دوڑائی اور کینٹین نظر آنے پر چل دیا۔ ایک میز پر پڑے اخبار پر نظر ڈالی، چاکلیٹ کھاتے ہوئے طویل خشک سالی سے اموات کی خبر پڑھی، چپس کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا، جوس بھری بوتل خریدی اور دوبارہ اسی بنچ پر آ کر بیٹھ گیا لیکن زیادہ دیر ٹک نہ سکا اور چل دیا۔

    ڈرائیو کرتے بھی زندگی کے رنگ دیکھتا اور کچھ نہ سوچنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک اشارے پر اس نے اپنے سے بڑی عمر کے آدمی سے پلاسٹک کا فٹ بال لیا، پانچ سو کا نوٹ دیا اور بقایا لیے بغیر جلدی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ گھر پہنچ کر وہ سب کو نظر انداز کرتے سیدھا پوتے کے کمرے میں گیا جو جھولنے میں اکیلا بیٹھا خود سے کھیل رہا تھا اور دادا کو دیکھتے ہی کھِل اٹھا، ہمک ہمک کر بازو بڑھائے، ہاتھ ہلائے، ایں ایں، اوں آں، کا کا، آ آ کے اِشارے دیے اور آنکھیں مزید پھیلا کر، مٹھیاں بند کرکے ہونٹ بھینچ کر زوں زوں کیا۔ اس نے بھی خوشی سے فٹ بال اچھالا جو ماتھے پر لگ کر نیچے گرا اور ٹانگوں کے حلقے میں آ گیا جس پر ننھی منی ہتھیلیاں زور زور سے پڑنے لگیں۔ اس نے آگے بڑھ کر پوتے کو اٹھا لیا جس نے بوسہ دینے کی کوشش میں گال تھوک سے بھر دیا اور دادا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

    ’’یہی بتاشا ہے۔ ہاں۔ یہی بتاشا ہے۔‘‘

    وہ کافی دیر پوتے کے ساتھ کھیلتا رہا اور جب تک وہ ننھے فرشتے کے ساتھ رہا، ذہن محفوظ رہا اور گھاؤ بھی بھرتے رہے مگر جیسے ہی وہ ٹی وی لاؤنج میں آیا، بہو پر نظر پڑتے ہی یلغار ہو گئی اور اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ لیا کہ تمہارے خیال میں زندگی کیا ہے؟

    ’’یہی جو گزر رہی ہے۔‘‘ ساس کو پلٹی دینے والا ڈرامہ دیکھنے میں مصروف بہو نے سوال اڑا کے رکھ دیا تو وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا آیا جہاں بیوی نے بہو کو انگلیوں پر نچانے والا سوپ پلے ٹی وی پر لگایا ہوا تھا۔ اس نے رسمی بات چیت کے بعد وہی پوچھا اور اب کے جواب ملا تو اسی انداز میں مگر تھا ذرا مختلف کہ یہی جو گزار دی۔ اس کا اور بچوں کا اچھا خیال رکھا اور ساتھ رہی۔ اس نے بستر پر دراز ہوتے ہوئے زیرلب کہا۔ ’’ہاں ساتھ رہی مگر ساتھی نہ بن سکی۔‘‘ آنکھیں موند لیں اور الٹی سیدھی سوچیں سوچتا سو گیا مگر نیند میں بھی لہر برقرار رہی۔

    کیا تنہائی واقعی اتنا بڑا مسئلہ ہے؟ نہیں۔ شاید یہ خرابی کی جڑ نہیں بلکہ اسے قبول نہ کرنا جیون اجیرن کرتا ہے۔ ہاں ۔ یہی بات ہے ورنہ بڑے بوڑھے تنہائی کے فضائل بیان کرتے نہ مرتے۔۔۔ آج اس سے ملنا چاہئے۔ صدیاں بیت گئی ہیں ۔ اب تو اس کے شفاف چہرے پر وقت کی سلوٹیں پڑ چکی ہوں گی یا اُس کے ابھرے ہوئے روئی سے نرم گال دھنس چکے ہوں گے۔ پتا نہیں۔ میری بھی تو گنج نکل آئی ہے، توند نہیں بڑھی تو کیا ہوا۔

    ہاں۔ اسی سے بات کرنی چاہئے۔ وہ زندگی کو زیادہ بہتر دیکھ لیتی تھی جیسی کہ یہ ہے اور میں ایسے دیکھتا جیسی کہ یہ ہونی چاہئے مگر کبھی صحیح معنوں میں جان نہ سکا کہ کیسی ہونی چاہئے؟

    ’’تم آج بھی وہیں کھڑے ہو۔ سب کچھ تو ہے تمہارے پاس۔۔۔ خدا جانے کیا چیز تمہارے اندر کا خلا پر کرےگی۔ سب تم سے خوش۔ بچے بھی خوشحال۔ پوتے کی قلقاریاں بھی کافی نہیں تمہارے لیے؟ حیرت ہے۔‘‘

    ’’تمہاری مسکراہٹ اب بھی پیاری ہے مگر۔۔۔ اور تمہاری لمبی پلکیں اور محرابی ابرو بھی نینوں میں بسی اداسی سے نظریں پھسلانے میں ناکام ہیں۔‘‘

    ’’شاید۔ مگر تم بھول گئے میں ہر حال میں خوش رہ سکتی ہوں۔‘‘

    ’’جھوٹ۔ پہلے بھی یہی کہتی تھی۔ آج بھی یہی۔۔۔‘‘

    ’’سچ۔ بالکل سچ۔ میں خود سے خوشی کشید کرنا جانتی ہوں۔ تم بھی کوشش کرو۔‘‘

    ’’اچھا۔ کچھ کرتا ہوں۔ ہاں۔ یاد آیا، وہ کیا نام تھا اس کا بھلاسا۔۔۔؟ جو کہتا تھا کہ موجود سے غیرموجود کی جستجو ہی خوشی ہے۔‘‘

    ’’مجھے نہیں پتا۔ پہلے یہ تو جان لو کہ تمہیں چاہئے کیا؟ عمر گزار دی اور یہی پتا نہیں چلا تمہیں۔ ساری دنیا پر نظر رکھتے ہو، خود پر نگاہ ڈالی ہوتی تو تمہاری چندیا چمکتی نہ بچے کھچے بال سفید ہوتے۔‘‘

    ’’ہوں۔ کچھ کرتا ہوں۔‘‘

    ’’ناں۔ کچھ نہ کرو۔ بس جیو۔ ہر لمحہ جیو، اپنوں کے ساتھ۔۔۔ پوری طرح ساتھ۔۔۔ تو شاید وہ خلا بھی بھر جائے جو تم نے خود پیدا کیا۔‘‘

    ’’ٹھیک۔‘‘

    ’’کیا ٹھیک؟ خیر چھوڑو، بس اپنی آواز سنو۔‘‘

    اپنی آواز۔۔۔ اتنی آوازوں کے شور میں اپنی آواز۔۔۔ اور اس نے ہاتھ سر کے پیچھے لے جا کر چاندی کے تار چھوئے ہی تھے کہ ٹی وی پر خبر چلنے لگی اور وہ ہڑبڑا اٹھا۔ خبر تھی کہ قیامت نامہ ۔۔۔

    ناظرین جیسا کہ آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ مشتعل ہجوم ۔۔۔

    موٹی موٹی آنکھوں، کھِلتی رنگت، گھنی مونچھوں، چوڑے سینے والا تنومند اور سرو قد نوجوان نسل در نسل غلامی سے تنگ آ کر بولنے کا گناہ عظیم کر بیٹھا تھا۔ پہلے اسے چپ کرانے کی کوشش کی گئی مگر وہ تھک چکا تھا جبر سہتے سہتے۔۔۔ حق مانگتا رہا اور مانگتا رہا۔ وہ زبان بندی کی کوشش کرتے رہے مگر بات اس وقت ناقابل برداشت ہو گئی جب اس نے زر داروں کی بھتہ خوری کے خلاف لوگ اکٹھے کرنے کی ٹھان لی اور اس سے قبل کہ وہ مجمع لگاتا، انہوں نے ہجوم اکٹھا کر لیا جو کبھی عقیدت کی اوٹ لے کر اور کبھی طاقت کے زور پر گندا دھندا کرتے رہتے ہیں اور انہوں نے مشہور کر دیا کہ اس نے اپنے پلید منہ سے انتہائی پلید لفظ نکالے ہیں۔ توبہ توبہ۔۔۔ ایسے بول بولنے والے کو سنگسار کر دینا چاہئے۔ اس کی صرف ایک ہی سزا ہے۔۔۔ اور اسے گولی سے گرا دیا۔ اس کے ساتھیوں میں سے بھی کسی نے کچھ پوچھا نہ سوچا ، لکیر کے فقیر بن گئے اور جس کے ہاتھ جو لگا، مارنے لگا اور مارتا رہا حتیٰ کہ وہ مر گیا مگر کسے پروا تھی سو مارتے رہے۔ اس پر بھی ٹھنڈ نہ پڑی تو ننگا کرکے گھسیٹتے رہے، سنگ باری کرتے رہے اور قانون کے رکھوالے قانون کے ساتھ زنا بالجبر دیکھتے رہے لیکن وہ زیادہ دیر نہ دیکھ سکا اور رگوں اور نسیجوں کو پھٹنے سے بچانے کے لیے رو دیا۔ بالکل بچوں کی طرح رویا اور بچوں کی طرح ہی روتے روتے سو گیا۔ نیند میں اس نے وہ کام کیا جو جاگتے میں کرنا اس کے بس میں نہ تھا اور ابھی اطمینان کی سانس نہیں لے پایا تھا کہ وہ آ گئی جس کے آنے کی راہ میں وہ راتوں کو جاگتا تھا اور آتے ہی ہجوم کے خلاف ہزیانی کیفیت میں چلانے لگی، بوچھاڑ میں سب کو لپیٹا اور آخر میں اس کو بھی بے نطق سناتے چل دی۔ وہ اسے اندھیری اور سنسان راہ پر سر جھکائے ہولے ہولے قدم اٹھاتے ، دور جاتے دیکھتا رہا۔ اوجھل ہونے کے بعد بھی ٹھیک وہیں کھڑا رہا، بہت دیر ، یہاں تک کہ شفق پھولنے لگی اور جھلمل میں اسے اپنی اور آتے محسوس کیا۔ سکوت کا طلسم ٹوٹا تو نہاں خانوں میں بھی ارتعاش ہوا۔

    ’’پہلے شک تھا، اب یقین ہو گیا، تم واقعی پاگل پن کی دہلیز پر کھڑے ہو، جہاں زندگی ہی نہیں وہاں معنی کی تلاش چہ معنی دارد؟‘‘

    ’’معانی ہوں گے تو زندگی رہےگی۔‘‘ اس نے کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکا کہ وہ کالی آنکھوں میں سفید موتی لیے دو قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ رخساروں پر چمکتے دانوں سے تسبیح بنا لے اور درد کے رشتے کی سلامتی کا ورد کرتا رہے جو انسان کو خچر اور خچر کو انسان بنا دیتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے