ارتقا
تاحد نگاہ آگ کے شعلے ہی شعلے تھے جو مکینوں کے جسموں کو جلائے جاتے۔ مقرر کردہ نگرانوں کے ہاتھوں فولادی زنجیر اسی آگ میں دہکائے جاتے اور ان کے جسموں کو داغا جاتا تو لمحہ بھر کے لیے وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے بےسدھ ہو کر پڑے رہتے۔ پانی پانی پکارتے پکارتے نیم جاں ہو جاتے۔ پینے کو یوں تو صاف اور اچھا پانی تھا مگر ان کے لبوں تک آتے آتے ماحول کی شدت اور آگ کی تپش سے کھولنے لگتا۔ وہ گھونٹ گھونٹ پیتے ضرور مگر اس قدر شدید گرم ہوتا کہ اسے اگل دینے کو جی چاہتا۔ باامر مجبوری اسی پر اکتفا کرنا پڑتا۔ وہ قطرہ قطرہ حلق میں اتارتے رہتے۔ جہاں جہاں سے پانی گزرتا جاتا جسموں کو چیرتا جاتا۔ مگر خوش آئند بات یہ تھی وہی زخم دوبارہ مندمل ہو جاتے۔ تکلیف کی شدت کی بعد گھڑی بھر آرام بھی مل جاتا۔ لیکن نگران کوتوال تو خدا جانے کس مٹی سے بنے تھے، بلکہ اسی آگ ہی کی پیداوار تھے جو ہمہ وقت ان کے سروں پہ لوہے کے دہکتے گرز لیے سوار رہتے اور اذیت پہنچانے کا کوئی بھی لمحہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔
وہ دونوں سسکتے ہوئے آگ کے شعلوں پہ سوار ایک دوسرے کے قریب آئے اور غم غلط کرنے کی غرض سے ایک دوجے کو تسلی دینا ہی چاہتے تھے کہ سزاپاتے لوگوں کا ایک جتھا لڑھکتا ہوا ان کے پاس سے گزرا اور انھیں پھر دور پھینک دیا۔ انھوں نے ایک بار پھرخود کو سمیٹا اور دوبارہ قریب آئے، ایک بولا:
’’ہاں تومیرے دوست تم بتا رہے تھے کہ تم برفانی دور کے آدمی ہو۔ تمھیں تو میری نسبت یہاں کہیں زیادہ تکلیف پہنچتی ہوگی‘‘
دوسرے آدمی نے ٹھنڈی سانس لینا چاہی تو آگ کے شعلے اس کے منہ سے بلند ہوئے اور سامنے والے کو جھلساتے ہوئے گزر گئے۔ اب کے خفا ہونے یا کاٹ کھانے کو دوڑنے کی بجائے دونوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ پہلا کہنے لگا:
’’منہ سے آگ نکالنے کا یہی کرتب اگر دنیاوی زندگی میں سیکھ لیا ہوتا اور کچھ نہیں تو روزی روٹی کی فکر سے بے نیاز ہو جاتے‘‘
دوسرا بولا:
’’تو کیا تم لوگ اتنے فضول خرچ تھے، منہ سے آگ نکال نکال کے ضائع کرتے رہتے تھے؟ ہمیں اس قدر میسر ہوتی تو کتنے لوگ سردی سے ٹھٹھر کر مرنے سے بچ جاتے‘‘
اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ہاں تو میں بتا نے والا تھاکہ ہمارے دور میں زمین نے گویا برف کی چادر لپیٹ لی تھی۔ ذرہ ذرہ سفیدی سے ڈھک گیا تھا۔ پینے کو پانی کا قطرہ تک نہ تھا۔ برف کے چھوٹے چھوٹے ڈَلے دانتوں کے نیچے دبائے رکھتے تو جسم کی اندرونی حرارت کی بدولت پگھل کے پانی بن جاتا اورتب کہیں پانی حلق سے نیچے اترتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے خاندان کے کئی افراد برف کی سفید چادر اوڑھے زمین کے اندر ہی دب کے رہ گئے۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ آبدیدہ سا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے نکلے اور جہنم کی گرمی سے اسی وقت بھاپ بن کر اڑ گئے۔ اس نے اپنے ہاتھ پاؤں ٹٹولے اور ایک پاؤں آگے کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’ذرا یہ دیکھو! میرا دایاں پاؤں برف میں دب کے جھڑ گیاتھا اور میں باقی ماندہ جسم گھسیٹتے گھسیٹتے غار کے دہانے پہنچتے ہی بیہوش ہو گیا تھا۔۔۔ بس اتنا یاد ہے‘‘
پہلابولا: ’’تم تو برفوں کی شکایت لیے پھرتے ہو۔ ہمارے دور میں آگ کی بدولت گرمی کی شدت اس قدر تھی کہ رواں رواں پگھل سا جاتا تھا۔ رہی سہی کسر ہمارے دور کے لوگوں نے گولے بارود اور بم بنا کے پوری کر دی تھی۔۔۔‘‘
’’گولے، گالے۔۔۔ بم۔۔۔ یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ دوسرا حیرت سے بولااور جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی بڑبڑا نے لگا:
’’ہاں! ضرور شکاری درندے ہوں گے یا خون خوار پرندے۔۔۔ جو لمحے میں نگل جاتے ہوں گے۔۔۔‘‘
پہلا سر پیٹ کے رہ گیا کہ اب اسے کیسے سمجھائے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوا:
’’یوں سمجھو آگ کے پہاڑ تھے بھیا آگ کے وہ لمبے لمبے شعلے! جہنم کی یہ آگ بھی اس کے سامنے کیا چیز ہوگی؟ یہاں تم سلامت تو ہو مگر وہ آگ تو اپنی لپیٹ میں آنے والی ہر شئے کو بھسم کر کے رکھ دیتی تھی۔۔۔‘‘
پہلا پھر ٹوکتے ہوئے کہنے لگا: ’’جب آگ بنانے کا ہنر سیکھ ہی لیا تھا تو آگ کے پہاڑ بنانے کی بجائے تم لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بم کیوں ناں بنائے تاکہ جانوروں کو شکار کر کے ان کو پکا کے کھاتے۔۔۔ سرد سیاہ راتوں کو آگ تاپتے۔۔۔ روٹیاں بناتے۔۔۔‘‘
دوسرا بات کاٹتے ہوئے بولا: ’’او ہ میرے بھولے سرکار! بم بنانے کا مقصد دوسروں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننا تھا نہ کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا۔۔۔ اور یہی بم دو مرتبہ تو خوب چلے، جسے ہم پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نام سے یاد بھی کرتے رہے اور بموں کی تعداد اور استعداد بھی بڑھاتے رہے۔ تم تو ایک پاؤں کو روتے پھرتے ہو میرا اپنا وجودکروڑوں دیگر لوگوں کی طرح اسی آگ میں پگھل کے رہ گیاتھا‘‘
پہلا بولا: ’’تو کیا یہ بم پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں چلائے گئے تھے، تیسری میں نہیں؟‘‘
لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد وہ رازداری کے انداز میں کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ہونے کو تو تیسری عالمی جنگ بھی ہوئی تھی مگر اس کی تاریخ لکھنے والا کوئی نہیں بچا تھا‘‘
اتنے میں لاکھوں جہنمیوں کا ایک ٹولا ان کے سامنے سے گزرتا ہوا دکھائی دیا جو عجیب قسم کی سزا میں مبتلا تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ ان کے کانوں پہ بندھے ہوئے تھے اور پاؤں چہرے اور آنکھوں پر۔ فرشتے آگ کے گرز لیے ان کو بھیڑوں کی طرح ہانکتے جاتے اور وہ رولر کوسٹر کی طرح گھومتے ہوئے جہنم کی گہرائی میں ڈوبتے جاتے تھے۔ عجیب و غریب سزا دیکھ کر دونوں کے کان کھڑے۔ ’’یہ ضرور بم بنانے والے ہوں گے‘‘ برفانی دور کا آدمی چلا اٹھا۔ ’’نہیں نہیں یہ بم چلانے والے ہوں گے‘‘ جدید دور کے آدمی نے اپنی رائے دی۔ دونوں نے حتمی نتیجے تک پہنچنے کا فیصلہ کیا اور سزا پہ مامور فرشتے سے پوچھنے لگے:
’’کیوں میاں فرشتے! یہ بم بنانے والے ہیں یا بم چلانے والے؟‘‘
فرشتے نے دونوں کو گھورا۔ آگ کی زنجیروں سے ان کی پیٹھ کو داغا اور بھگا دینا چاہا۔ مگر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر سزا کی پروا کیے بغیر فرشتے کے پاس آئے اور منت سماجت کے انداز میں دوبارہ وہی سوال دہرایا۔ اب کے فرشتہ بولا: ’’یہ نہ بم بنانے والے ہیں اور نہ چلانے والے۔۔۔‘‘
’’تو پھر کون ہیں یہ‘‘ دونوں بیک وقت چلا اٹھے
’’یہ تو وہ ہیں جنھوں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کیے رکھی‘‘ فرشتے نے جواب دیا۔
دونوں واپس اپنے ٹھکانے کو لوٹ آئے۔ اتنے میں برفانی دور کے آدمی کی گردن پہ ایک زور دار گرز پڑا اور وہ چونک اٹھا۔ مگر ایک بار پھر محوِ گفتگو ہو نے کے لیے آگے بڑھا۔ ایک اور گرز پڑا۔ مڑ کے دیکھا تو فرشتے کو اپنی گردن پہ کھڑا پایا۔ اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہنے لگا: ’’دوست! لگتا ہے اپنی سزا چالو ہو گئی ہے اب کئی روز تک یاروں کے ہوش ٹھکانے نہیں آئیں گے۔ مگر تم یہیں کہیں رہنا، میں بھی زیادہ دور نہیں جاؤں گا‘‘
کئی روز تو کیا پھر کئی سالوں تک ان کی ملاقات نہ ہو پائی تھی۔ مدت بعد برفانی دور کے آدمی نے اچانک اپنے پرانے ساتھی کو دیکھا تو خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ دیکھتے ہی اس کی جانب لپکا۔ اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈالنے ہی والا تھا کہ وہ جل دے کے ایک طرف کو ہو گیا، دوبارہ نزدیک آیا اور اسے گردن سے دبوچنے لگا۔۔۔ وہ چلا اٹھا: ’’ارے ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ گلا دباؤگے کیا؟‘‘
اتنے میں جدید دور کے آدمی نے بھی اسے پہچان لیا اور کہنے لگا: ’’معاف کرنا یار تمھیں پہچان نہیں سکا تھا اس لیے گستاخی کی سزا دینے کے لیے تمھیں گریبان سے پکڑ نے والا تھا۔۔۔‘‘
’’گریبان۔۔۔ وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ دوسرا شش و پنج میں پڑ گیا۔
جدید دور کے آدمی نے ایک نظر پھر اس پہ ڈالی۔ حقارت سے اسے دیکھا اور پھر خود ہی کھلکھلا کے ہنس پڑا
’’ تم ٹھہرے غیر مہذب، وحشی جنگلی۔۔۔ تم کیا جانو! گریبان کیا ہو تا ہے۔۔۔ گریبان گردن کے گرد حائل لباس کا وہ حصہ ہوتا ہے جو مہذب آدمی کی شان و شوکت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا، دوسراگردن سہلاتے ہوئے کہنے لگا:
’’اوہ، اچھا! تم جدید دور کے لوگوں نے یہ ایجاد ہی اس لیے کیا تھا تاکہ اسی گریبان سے ایک دوسرے کو پکڑ سکو!‘‘
کچھ دیر دونوں میں خاموشی چھائی رہی۔ برفانی دور کے آدمی نے اپنے بچھڑے ساتھی کا بغور جائزہ لیا تو چلا اٹھا:’’ یہ تم گلی سڑی ہڈیاں کیوں اٹھائے پھرتے ہو؟ کہیں جہنم کی صفائی کا ٹھیکہ تو نہیں لے لیا؟۔۔۔ ذرا یہ بھی تو بتاؤ تھے کہاں اتنے دن؟۔۔۔ بہت تلاش کیا تمھیں‘‘
جدید دور کا آدمی گویا ہوا:
’’کیا پوچھتے ہوبھیا! کیا کیا معرکے سر کر لیے؟ بڑی آرزو تھی جنت کا نظارہ کرنے کی۔۔۔ دور ہی سے سہی۔ بس اسی تگ و دو میں لگا رہا‘‘
’’تو کس حد تک کامیاب ہوئے؟‘‘ دوسرا بولا:
’’جنت کا نظارہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے اپنے حدود اربعہ کا جائزہ لیا جائے۔ یوں سمجھو ہم آگ کے ایک وسیع سمندر میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ سمندر ہمارے زمینی سیارے سے دو گنا بڑا تو ہوگا ہی۔ جیسے جیسے اوپر جاتے جاؤ آگ کی شدت کم سے کم ہوتی جاتی ہے اورجوں جوں نیچے جاؤ شدید سے شدید تر، خوش قسمتی سے ہم اوپری سطح سے زیادہ دور نہیں۔ گہرائی میں سزا پاتے چند جہنمیوں کا ایک ایسا گروہ بھی دیکھا جن کا پورا جسم ایک ہی لمحے میں جل جل کر بھسم ہو رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آ جاتا۔ آگ پھر انھیں پگلے ہوئے تانبے میں بدل دیتی۔۔۔ مگر صرف ایک لمحے کے لیے۔۔۔ چونکہ جہنم میں اب موت نہیں ، کسی چیز کو فنا نہیں، اسی لیے اگلے لمحے وہ پھر اپنی اصلی حالت میں لوٹ آتے۔۔۔ یہ تماشا کئی روز تک دیکھتا رہا اور آخر اکتا کے واپس آ گیا‘‘
وہ کچھ دیر کو خاموش ہوا۔ ہاتھ اور کمر کے گرد لپٹی ہڈیوں کی مالا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھر گویا ہوا:
’’یہ محض گلی سڑ ی ہڈیاں نہیں بلکہ ایک ایسی مضبوط رسی ہے جو اوپر تک جانے کا کام دیتی ہے۔ سزا دینے والے فرشتے جب اپنی ڈیوٹی پوری کر کے جاتے ہیں تو یہی رسی ان کے پروں میں اٹکا دیتا ہوں۔ اکثر انھیں پتا چل جاتا ہے اور میرے خوابوں کی تعبیر اسی رسی کو جہنم کی گہرائی میں پھینک دیتے ہیں۔ ہاں صرف ایک بار اتنا موقع ملا تھاکہ میرا ایک ہاتھ سطح سے بلند ہو پایا اور بس۔۔۔‘‘
وہ اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’دیکھو دیکھو تب سے اس ہاتھ پر جہنم کی آگ بھی اثر نہیں کرتی۔۔۔ یہ بالکل ٹھیک ہے‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کو باقی جسم پہ پھیرا اور حسرت بھرے انداز میں کہنے لگا: ’’بس ایک بار۔۔۔ صرف ایک بارباہر کی یہ مہربان اور شفا بخش ہواذرا سا میرے بدن کو چھو لے۔۔۔ یہ آگ میرے پورے بدن پر اثر نہیں کر سکےگی اور میں جہنم میں ہی سہی، جہاں جہاں دل کرےگا بلا خوف و خطر گھوما کروں گا اور تمھیں نت نئی کہانیاں اور خبریں آکر سنایا کروں گا‘‘
وہ دیر تک گردن اٹھائے، حسرت بھری نگاہوں سے فرشتوں کو اوپر جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر اپنے مخاطب سے کہنے لگا:
’’ارے ہاں بھئی! تم سناؤ ، کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
برفانی دور کے آدمی نے تاحد نگاہ اٹھتے شعلوں پہ ایک نظر ڈالی اور کہا:
’’پہلے زمین پہ رہتے تھے اب گویا سورج میں رہائش اختیار کر لی ہے، خیر۔۔۔ یہ جگہ بھی اتنی بری بھی نہیں‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.