گھر پر مستقل ٹی دی دیکھ دیکھ کر دماغ اڑا جا رہا تھا تو میں گاڑی نکال کر یوں ہی بے مقصد سڑکو ں پر گھومتا رہا۔ سہ پہر کا وقت مجھے ہمیشہ اداس کر دیتا ہے اور آج تو سارا شہر ہی سائیں سائیں کرتا ہو ا لگ رہا تھا۔ سرسبز درختوں سے گھری صاف شفاف سڑکوں پر گھنٹوں گاڑی گھمانے کے بعدنہ جانے کیوں میں اس بار کے سامنے رک گیا جہاں میں اکثر صرف اس لئے آ جاتا تھا کہ ایک دو گھنٹے بالکل تنہا اور خاموش بیٹھا رہوں۔۔۔ لوگوں کی دیکھتا رہوں۔۔۔ میں کوئی شرابی نہیں ہوں بس کبھی کبھار ایک آدھ بےئر پی لیتا ہوں۔
نیم تاریک بار میں آج زیادہ لوگ نہیں تھے تین چار مرد کاونٹر کے سامنے اونچے اسٹولوں پر بیٹھے سامنے گلاس رکھے، مستقل ٹی وی اسکرین پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ سی این این پر نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینڑ کے تباہی کے بعد کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ بار پر کھٹری لڑکی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، میں ایک بئیر کا آرڈر دیا اور اسٹول گھسیٹ کر کاونٹر کے ایک کنارے بیٹھ گیا۔ ابھی دس دن پہلے اسی بار میں زیادہ تر لوگ بیئر کے گلاس ہاتھ میں لئے ٹی وی پر بیس بال کے میچ دیکھ رہے ہوں گے۔۔۔ اور آج ہر آدمی صرف سی این این دیکھ رہا ہے۔۔۔ ابھی تک وہ ہولناک منظر بار بار دکھایا جا رہا ہے۔۔۔ کس طرح وہ عظیم الشان ٹاور گتے کے کھلونے کی طرح دہشت سے بیٹھ گئے۔۔۔ ٹی وی پر اب دھول میں اٹے پولس والے اور فائر مین ملبے سے لاشیں نکالنے کی کوشش میں جٹے ہوئے دکھائے جا رہے تھے۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ آنسو میری آنکھوں سے کب بہہ نکلے۔
میرے پاس بیٹھے ادھیڑ عمر کے آدمی نے اپنی ڈرنک ختم کرکے کاؤنٹر پر گلاس رکھا اور جھک کر مجھ سے پوچھا۔
’’کیا تمہارا بھی کوئی عزیز اس ملبے میں دفن ہو گیا ہے؟‘‘
شائد وہ مجھے امریکن ہی سمجھ رہا ہے۔ میں نے بھی اس کی طرح ٹی شرٹ اور جینز ہی تو پہنی ہوئی ہے۔ میرے بہت گورے رنگ کی وجہ سے لوگ مجھے پاکستانی سمجھتے ہی نہیں۔۔۔ مگر میں تو اب امریکن ہوں۔۔۔ میں پاکستانی ہوں۔۔۔ نہیں پچھلے آٹھ سال سے میں امریکن ہوں۔ میرے پاس امریکن پاسپورٹ ہے۔۔۔ پاسپورٹ تو کناڈا کا بھی ہے جو مجھے بائیس سال پہلے مل گیا تھا۔
میری طرف سے جواب نہ پاکر وہ پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں نے اپنے مگ بچی ساری بیئر حلق میں انڈیل لی اور اشارے سے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی سے ایک اور بیئر کے لئے کہا۔۔۔۔ بائیس سال۔۔۔ نہیں بلکہ تیس سال۔۔۔ بیس سال کی تو میری بیٹی مریم ہوگی۔۔۔ کہاں ہوگی مریم۔۔۔ میں خود کہاں ہوں۔۔۔ اس کا نام مریم میں نے اس لئے رکھا تھا تاکہ اس کی ماں کیرول اسے اپنے جیزز کرائسٹ کی کنواری ماں کے نام منسوب سمجھے اور مریم میری دادی کا نام بھی تھا۔۔۔ مریم، کیرول۔ دادی اماں اور ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر سب دماغ میں گڈ مڈ ہوئے جا رہے ہیں۔
شاید میں نے بےئر زیادہ پی لی ہے۔۔۔ عادت نہیں ہے نا زیادہ پینے کی۔۔۔ سمیرہ تو یہ ہی سمجھتی ہے کہ میں نے کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے، وہ تو بہت نمازی پرہیزگار ہے۔۔۔ چلو رضا میاں وہ اسی طرح خوش ہے تو یوں ہی سہی۔۔۔ ہاں کیرول کہا کرتی تھی کہ بیئر شراب تو نہیں ہوتی۔۔۔ کیرول، اونہہ نہ جانے آج کیوں اتنے برسوں بعد یہ سب باتیں یاد آ رہی ہیں جنھیں میں زندگی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔۔۔ ا ب اتنے برس بعد امی کے اصرار پر سمیرہ کو کراچی سے شادی کرکے لے آیا ہوں۔۔۔ بےچاری سمیرہ! اسے بھی میں نے کیا دیا ہے۔۔۔ ابھی چار سال ہی ہوئے اسے یہاں آئے ہوئے۔۔۔ بہت شوق ہے اسے بڑا سا مکان خریدنے کا۔۔۔ بڑا سا مکان تو میں نے مانٹریال میں کیرول کے ساتھ مل کر لیا تھا۔۔۔ امی کو اس گھر کی تصویریں کھینچ کر بھیجی تھیں تو وہ سب کو کتنے شوق سے دکھاتی تھیں۔۔۔ اس شوق میں وہ یہ غم بھی بھول جاتی تھیں کہ ان کے ہونہار بیٹے نے کناڈا میں کسی گوری سے شادی کر لی ہے۔ ایک ہفتے کے لئے جب ایک بار کیرول کو میں امی سے ملانے کراچی لے گیا تھا تب وہ اپنی ملنے والیوں سے سرگوشی کرتی تھیں۔
’’اسلام قبول کر لیا ہے اس نے ہم نے تو اس کا نام تسلیم رکھا ہے، ہے نا اچھی جوڑی؟ ’’تسلیم و رضا‘‘۔
اوفوہ! کس کس خود فریبی میں ہم سب رہتے ہیں۔۔۔ رضا حسین کیا وہ خود فریبی نہ تھی جب تم نے کیرول سے شادی کی تھی۔۔۔ سچ سچ بتاؤ مقصد تو کناڈا کی امیگریشن لینا تھا نا؟ ٹھیک ہے، مان لیا کہ تم ان بے ضمیر لڑکوں میں سے نہیں ہو جو امگریشن کے لئے گوری لڑکیوں سے شادی کرکے مقصد پورا ہو جانے پر ان لڑکیوں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینک دیتے ہیں۔۔۔ اور نہ کیرول ہی پیسے لے کر امگریشن دلوانے کے لئے شادی کرنے والی لڑکیوں میں سے تھی۔۔۔ اس کا گھریلو پن ہی تو تمہارے من کو بھایا تھا۔۔۔ ٹھیک ہے تم دونوں کو ایک دوسرے سے محبت تھی۔۔۔ مان لیا با با مان لیا۔ کیرول نے شادی کے بعد نوکری نہیں کی، اسے بھی پُر سکون کی زندگی کی تلاش تھی۔ کسے شوق ہوتا ہے کڑکڑاتی سردی میں صبح اٹھ کر نوکری پر جانے کا۔
سچ بتانا رضا میاں! تم کیا یہ نہیں چاہتے تھے کہ کیرول اپنی ملازمت برقرار رکھے، تمہار ا ہاتھ بٹائے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر کہنا۔ سارا معاملہ یہ تھا کہ تم پر اپنے سارے خاندان کی ذمہ داری تھی۔۔۔ اور کیرول کو اپنا سجا سنورا محفوظ گھر چاہیے تھا۔
جب کیرول سے علیحدگی ہوئی تو تم امی کو یہ نہ سمجھا سکے کہ اب یہ مکان بیچنا کیوں ضروری ہو گیا ہے۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکتیں تھیں کہ کیرول ان کے بیٹے کی خون پسینے کی کمائی سے خریدے ہوئے مکان کی آدھی حقدار کیوں ہے۔۔۔ اور کیرول یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ اس کے میاں کی کمائی میں سے کیوں ہر مہینے اک بڑی رقم پاکستان بھیجنا ضروری ہے؟ کیوں اپنے والد کی سات اولادوں کا بوجھ دور بیٹھے رضا کو اٹھانا ہے۔۔۔ ویسے بات تو ٹھیک ہے آخر کیوں یہ میری ذمہ داری تھی؟ میاں رضا ! کیا آج بہت پی گئے ہو۔۔۔ساری زندگی خاندان کے لئے کما کر دینے کے بعد یہ کیا سوچنے لگے آج۔۔۔ کیرول سے علیحدگی کی بھی تو یہی سب سے بڑی وجہ تھی۔اور پھر مریم کا مسئلہ تھا اور اس کے بعد۔۔۔سید امداد حسین کی پوتی اور موسیو آندرے لالوند کی نواسی اگر کسی افریقن کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو رضا صاحب آپ کیوں ہاتھ ملتے ہیں۔
سامنے بار پر کھڑی بار ٹنڈر بھی شاید مریم کی عمر کی ہی ہوگی، اس نے میرا گلاس خالی دیکھ کر ایک اور بیئر کی بوتل کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔
چلو اک بیئر اور پی لی جائے پرانے زخموں کے نام۔۔۔ واہ ! رضا میاں آج تو شاعری ہونے لگی۔۔۔ اپنے ابا کی شعر وشاعری سے تم کیسا گھبراتے تھے۔۔۔ ابا میاں کا کام بھی اور کیا تھا، دن بھر دفتر میں کلرک کی ڈیوٹی بجائی، شام کو کوئی شاعر نما دوست آگیا اور نئی غزلیں سنی اور سنائی جار ہی ہیں۔ یا پیلے کاغذ پرچھپا اپنا خاندانی شجرہ نکا ل کر بیٹھ گئے، بچوں کو گھیر لیا کہ دیکھو ہمارے خاندان کے جد امجد فلاں صوفی بزرگ فلاں صدی میں، فلاں جگہ سے آئے تھے، ہندوستان میں فلاں جگہ اگر قیام کیا اور ان کے کا مزار اب بھی وہیں ہے۔۔۔ ابا نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے۔۔۔ تان آکر ٹوٹتی کہ کس طرح پاکستان بننے کے بعد وہ کراچی آئے، کیا کیا مصیبتیں اٹھائیں۔۔۔ ان کی لمبی گفتگو سے بور ہو کر ہم بچے اس چکر میں رہتے کہ کب گلی میں جاکر کرکٹ کھیلیں۔ ابا ہندوستان میں اپنے آبائی وطن کی مٹی کی یادیں لئے جلد ہی دنیا سے چلے گئے اور اپنی آٹھ عدد اولادوں کا کیا ہوگا وہ اللہ پر چھوڑ دیا۔۔۔ ان سب کے پیلے پیلے چہرے، ضرورتوں کی فہرستیں، بڑھتی مہنگائی۔۔۔ کہیں دور کسی اجنبی برف زار میں ان سب کا مداوا تھا۔
سنا تھا کہ کناڈا کے کسی شہر مانٹریال میں اولمپک گیمس ہورہے ہیں اسے دیکھنے جانے کے لئے ویزا آسانی سے مل رہا ہے۔ امی نے کہیں سے قرض ادھار کرکے مانٹریال جانے کے ٹکٹ کا انتظام کر دیا۔۔۔ زندگی کی دو دہا ئیاں گذار دیں اس شہر میں جس کا نام کبھی بچپن میں سنا بھی نہیں تھا اور اب۔۔۔ اس شہر میں کہیں میری بیٹی بھی کہیں کھوئی ہوئی ہے۔۔۔ چھ سال سے مریم کی کوئی خبر ہی نہیں ہے۔۔۔ شاید مجھے نیند آرہی ہے یا کچھ زیادہ پی گیا ہوں۔۔۔ پچھلے تیس برس ویڈیو کیسٹ کی طرح فاسٹ فار ورڈ ہوتے ہوئے چند منٹوں میں دماغ میں تیز ریل کر طرح گھوم گئے۔۔۔ ہوٹلوں میں بیرا گیری کی تھی۔۔۔ وہیں اک ریسٹراں میں کیرول سے ملاقات ہوئی، شادی ہوئی اور امگریشن مل گیا تو الکڑیکل انجینرئنگ کا ڈپلوما کام آیا اور پھر کیرول کی چچا کے جان پہچان والی ایک مال بردار جہاز کی کمپنی میں نوکر ی مل گئی۔ کناڈا کا پاسپورٹ بھی مل گیا۔ پرفیکٹ۔
کیرول سے طلاق کے بعد مجھے مانٹریال چھوڑنا پڑا کیوں کہ وہاں رہتے ہوئے مجھے اسے( (alimoney المونی کی رقم دینی پڑتی۔ ویسے بھی اس برف زار میں کیا رکھا تھا۔۔۔ واپس لوٹ کر گھر جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، دو تین سال بعد جب کبھی مہینے بھر کے لئے گھر جاتا تھا تو وہ ہی مشکل لگتا تھا، کناڈا کا پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے امریکہ میں آرام سے رہ سکتا ہوں یہ تسلی تھی دل کو۔۔۔ دس برس تو پانی کے جہازوں پر سوار نہ جانے کون کون سی انجانی بستیوں میں وقت گذارا تھا۔ اک خواب تھا کہ کیلی فورنیا جاکر سیٹل ہوں گا، گرم علا قے میں باقی عمر چین سے گذاروں گا۔
اس وقت ٹی وی اسکرین پر سمندر میں اک چٹان پر بنا اسٹیچو آف لبرٹی دکھایا جا رہا تھا اور سمندر کے کنارے دور مین ہیٹن سے دھول کا غبار اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ نمیرے برابر بیٹھے ہوئے آدمی نے اپنا گلاس اٹھا کر میرے مگ سے ٹکراکر جذباتی انداز میں ٹوسٹ کیا۔
To the statue of liberty۔
تھوڑی دور بیٹھا ایک سیاہ فام امریکی جو شاید کافی چڑھا گیا تھا زور زور سے مشہور امریکی گانا گانے لگا۔
It is my land, it is your land , from california to New York Island۔
میں نے سوچا تھا کہ اب کیلی فورنیا کو گھر بناؤں گا۔ کیرول سے علیحدگی بھی امریکہ جانے کا بہانہ بن گئی۔۔۔ کیلی فورنیا اس زمانے میں سلکون ویلی تھا، کیا زور تھا اس زمانے میں کمپیوٹر کااور اتفاق سےکراچی کا اک پرانا میمن دوست مل گیا جس کی کمپیوٹر چپس کی بزنس تھی میں اس کی کمپنی میں لگ گیا۔ ابھی کئی بہنوں کی شادی کرنی تھی، امی کا اصرار تھا کہ دونوں چھوٹے بھائیوں کو بھی امریکہ بلا لوں کیونکہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں۔۔۔ نوجوان لڑکے نہ جانے کیسی کیسی تنطیموں میں شامل ہورہے ہیں۔ ان سب جھمیلوں میں کیسے سال پہ سال گذرتے رہے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
اب ان سب ذمہ داریوں سے فرصت ملی تھی، امریکہ کا بھی پاسپورٹ مل گیا تھا۔ دونوں بھائی اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے تھے، ان دونوں کی دلہنیں پاکستان سے لے آکر دیکھتے دیکھتے ہی امریکہ میں رچ بس گئیں تو امی کی پرانی ضد نے زور پکڑ لیا اور انھوں نے سمیرہ سے میری شادی کرا دی۔۔۔ ورنہ گھر داری کا شوق تو اب کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ امی شاید ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ اب بڑھاپے کے لئے کوئی انتظام کر لے، کب تک یوں ہی اکیلا گھومتا رہےگا۔ شکر ہے کہ سمیرہ بھی اچھی خاصی عمر کی سیدھی سادھی سی عورت مل گئی۔۔۔ وہ آئی تو پھر سے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا پڑا۔ بس سوچا تھا کہ نوکری کرتے کرتے تھک گیا ہوں، اتنی رقم جمع کر لی ہے کہ اپنا کوئی چھوٹا سا اسٹور یا بزنس کر لوں اور زندگی کے دن آرام سے کاٹ دوں۔ بس اب کیا چاہیے؟ دو وقت کی روٹی اور سکون کی نیند اور ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ۔
اک زور دار چھناکا ہوا شاید بار ٹینڈر کے ہاتھ سے صاف کرتے کرتے اک گلاس گر کر گیا۔۔۔ پاس بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا۔
’’Take it easy‘‘
یہی مجھ سے میرے میکسیکن پڑوسی نے بھی کہا تھا جب دو دن پہلے میری منی سپر مارکیٹ پر کچھ نوجوان گورے لڑکوں نے حملہ کر دیا تھا اور توڑ پھوڑ مچائی تھی۔ میرا پڑوسی کہتا تھا کہ کیوں فکر کرتے ہو انشورنس تو تمہاری ہے نا۔۔۔ اپنی ساری جمع پونجی جمع کرکے ابھی چھ مہینے ہی تو ہوئے تھے میں نے یہ منی سپر مارکی خرید ی تھی۔۔۔ اس سے گذر بسر تو اچھی خاصی ہو ہی جاتی۔ ۔۔۔ چلو جیسی بھی زندگی ہے کم سے کم پاکستان سے توبہتر ہوگی۔ نلوں میں پانی آتاہے۔ بجلی ہمیشہ رہتی ہے۔ دنگے نہیں ہوتے، کوئی خواہ مخواہ گولی مارتا ہوا موٹر سائیکل پر زنسے نہیں نکل جاتا۔۔۔ مگر یہ کیا ہوا۔۔۔ گیارہ ستمبر نے تو سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔۔۔ ہر طرف نفرت کی نگاہیں۔۔۔۔ حالانکہ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ میرا گورا رنگ اور میرا امریکی لہجہ میرا پردہ بن جائےگا۔ کیلی فورنیا میں اکژ لوگ مجھے میکسیکن سمجھتے تھے۔۔۔ میں نے کبھی سیاست سے سروکار ہی نہیں رکھا تھا۔۔۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے میں کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ کچھ سوچوں۔
ہاں، یاد آیا جب ایران میں امریکنوں کو یرغمال بنایا گیا تھا تب میں کناڈا میں تھا، میرے نام میں رضا ہونے کی وجہ سے کیرول مذاق میں کہتی تھی کہ تم کو ایرانی سمجھ کر کوئی پیٹ نہ دے میں ہنس کر کہتا تھا کہ کیوں مجھے تم ایران کا معزول بادشاہ رضا کیوں نہیں سمجھ سکتیں۔
جب گلف وار ہوئی تھی تب میرے نام میں حسین ہونے کی وجہ سے میرے امریکن ساتھی مذاق میں مجھے صدام حسین کہہ کر چڑا تے تھے۔۔۔ میں ہنس کر ان سے کہتا کہ چلو میں اپنا نام بدلے لیتا ہوں رضا ہیوسن رکھے لیتا ہوں۔ ویسے پہلے ہی رضا الحسنین سے میں رضا حسین ہو گیا تھا کیوں کہ ان لوگوں کی زبان سے اس نام کی ادائیگی مشکل تھی۔ کیرول او ر دوسرے لوگ تو riz کہہ کر کام چلاتے لیتے ہیں۔۔۔ تو جناب رز صاحب۔۔۔ پرانے رضا الحسنین سے اب تک آپ کا کیا تعلق تھا ؟ بس اتنا ہی نا کہ جب کوئی مسجد کے لئے چندہ لینے آتا ہے تو دے دیتے ہو۔
مگرا س بار تو رضا حسین سے کوئی مذاق بھی نہیں کر رہا ہے۔۔۔ ٹورانٹو کی طرح پاکی کہہ کہ چڑا بھی نہیں رہا۔۔۔۔ بس نگاہوں میں نفرت ہے، کہتے ہیں واپس جاؤ اپنے اسامہ بن لادن کے پاس۔۔۔ ارے بھیا ! وہ کون سا میرا سگا ہے۔۔۔ اور اللہ جانے حقیقت میں کوئی اسامہ ہے بھی کہ نہیں۔
میرے ساتھ بیٹھا ہوا امریکی مجھ سے مخاطب تھا۔۔۔ کیا تمہارا بھی کوئی عزیز اس ملبے میں دفن ہو گیا ہے؟‘‘
مجھے اپنی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔
’’اس ملبے میں خود میں اپنے تین پاسپور ٹوں سمیت دفن ہو گیا ہوں‘‘۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.