جادوگر
شہر کا سب سے بڑا میدان آدم زاد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ سورج طلوع ہونے کے قبل سے ہی میدان میں آنا شروع ہو گئے تھے تاکہ آسانی سے اسٹیج کے قریب کی جگہ انہیں مل سکے۔ میدان میں داخلے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں تھی، اس لئے بھیڑ میں ہر آن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
میدان کے مشرقی کنارے میں ایک بہت ہی شاندار اسٹیج تعمیر کیا گیا تھا۔ اسٹیج پر کافی قیمتی اور دبیز قالین بچھی تھی اور آرام دہ صوفہ سیٹ لگا ہوا تھا۔ اوپر ایک بہت ہی نفیس شامیانہ تھا جس سے اسٹیج کا حصہ سورج کی تیز کرنوں سے محفوظ تھا۔
میدان میں آئے ہوئے تمام لوگوں کی نگاہیں اسٹیج پر ہی مرکوز تھیں اور سارے لوگ بڑی بےصبری سے آٹھ بجنے کے منتظر تھے کیونکہ ٹھیک آٹھ بجے ہی اس خوبصورت اسٹیج پر ملک کا سب سے بڑا جادوگر آنے والا تھا، جس کی شہرت ملک کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی تھی۔
میدان کی بے پناہ بھیڑ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس جادوگر کے کئی پروگرام اس سے قبل بھی دیکھے تھے۔ وہ اپنی برتری جتانے کے لئے مزہ لے لے کر جادو گر کے کارنامے آس پاس کے لوگوں کو سنا رہے تھے:
’’یہ جادوگر تو کمال کا ہے بھائی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا ایسا حیرت انگیز کارنامہ دیکھا ہے جس پر یقین کرنا بھی مشکل ہے۔‘‘
’’کیا دیکھا تم نے ؟‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں پو چھ بیٹھیں۔
’’ کیا بتاؤں آخر، آج بھی وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس نے سارے لوگوں کے سامنے ایک کمسن لڑکی کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دیا۔ لڑکی کا سر، دھڑ سے جدا ہو کر تڑپ تڑپ کر شانت ہو گیا اور ۔۔۔‘‘
’’اور ۔۔۔ اور ۔۔۔‘‘ حیرت زدہ کتنی آوازیں۔
’’ اور وہ بےدم سی زمین پر ساکت ہو گئی۔ سارے لوگ سانس روکے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اس کمال کے جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی گھمائی اور آن کی آن میں لڑکی کا دھڑ گردن سے مل گیا اور وہ زندہ ہوکر مسکرانے لگی۔‘‘
’’کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟‘‘
’’تو کیا میں ڈینگ مار رہا ہوں؟‘‘ راوی برا مان کر وہاں سے کھسک گیا۔
’’ہاں بھئی، جادوگر ہے سالا، غضب کا کھیل دکھاتا ہے۔‘‘
دوسرا شخص میدان کے دوسرے گوشے میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا تھا۔
’’کیا واقعی آپ نے اپنی آنکھوں سے اس کا کھیل دیکھا ہے؟‘‘
ہاں، قسم بھوانی کی‘‘ وہ شخص سینہ تان کر بولا۔
’’غضب کا جادوگر ہے، ایک بار اس نے کھیل کے دوران میری انگلی سے سونے کی انگوٹھی اتار لی اور سب کے سامنے پوری شدت سے ہوا میں اچھال دی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ہوتا کیا، انگوٹھی ہوا میں غائب ہو گئی۔ میرا کلیجہ تودھک سے رہ گیا ۔ انگوٹھی گم ہونے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا واپسی پر بیگم کی ڈانٹ سننے کا خوف تھا۔‘‘
’’تو کیا انگوٹھی واقعی نہیں ملی؟‘‘
’’ارے بھائی، میرا چہرہ تو سفید پڑ گیا۔ اس جادوگر نے پھر میری خبر بھی نہ لی۔ وہ اپنے دوسرے کھیل دکھانے میں مشغول رہا۔ اسی دوران اپنی پیاس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے ایک لیموں کی فرمائش کی۔ ایک صاحب دوڑے گئے اور بازار سے ایک بڑا سا لیموں خرید لائے۔ جادوگر اپنے جادوئی چاقو سے اسے بڑی باریکی سے چھیلنے لگا اور جب اس نے لیموں کا چھلکا صاف کر دیا تو سارے لوگ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اس کے ہاتھ میں لیموں کی بجائے ایک انڈا نظر آ رہا تھا۔‘‘
’’ارے واہ۔۔۔!‘‘ خوشی سے پر آوازیں۔
’’پھر۔۔۔؟‘‘
’’پھر کیا۔۔۔ جادوگر نے کہا : بھائی مانگا تھا لیموں اور تم انڈا لے آئے۔ چلو یہی سہی، اسے ہی پی لیتے ہیں۔‘‘ اس نے انڈا پھوڑا اور سارے تماشائی حیرت میں ڈوب گئے ۔‘‘
’’ہائیں، کیا ہوا پھر؟‘‘
’’ارے بھائی وہ انڈا بھی خالی تھا اور اس میں میری انگوٹھی پڑی ہوئی تھی۔‘‘
’’باپ رے باپ!‘‘ حیرت سے پر آوازیں چاروں طرف پھیل گئیں۔
اور میدان کے تیسرے گوشے میں بھی اسی قسم کے چرچے چل رہے تھے۔ راوی اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے واقعات بیان کر رہا تھا۔ درمیان میں ایک شخص نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا:
’’کیا سچ مچ ایسا ہی ہوا تھا؟‘‘
تو اس راوی نے بگڑتے ہوئے جواب دیا:
’’تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ آنے دو اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔ میرا دعویٰ ہے تم سب کی عقل گھاس چرنے لگے گی اس کا کھیل دیکھ کر۔‘‘
’’مگر کب آئےگا وہ۔۔۔؟‘‘ اشتیاق سے بھری آوازیں۔
’’آٹھ ۔۔۔‘‘ اس کی آواز ادھوری رہ گئی اور وہ حیرت سے بولا:
’’ارے یہ تو دس بج رہا ہے۔۔۔‘‘
’’دس بج گئے۔۔۔؟‘‘
’’دس بج گئے۔۔۔؟‘‘
سارے میدان میں کھلبلی مچ گئی۔ دو گھنٹہ تاخیر ہو چکی تھی، مگر جادوگر کا کوئی پتہ نہ تھا جب کہ ٹھیک آٹھ بجے اسے اسی میدان میں حاضر ہونا تھا۔
گرمی اپنے شباب پر تھی۔ سورج دھیرے دھیرے ان کے سروں پر پہنچ رہا تھا اور کرنیں ان کے لباس کے اندر پہنچ کر چبھن کا باعث ہو رہی تھیں۔ ساری نگاہیں بار بار اسٹیج کی جانب اٹھ رہی تھیں جو کسی قبرستان کی پگڈنڈی کی طرح اداس تھا۔
سارے لوگ ملک کے سب سے بڑے جادوگر کا کھیل دیکھنے آئے تھے۔ ان میں جوان، بوڑھے، مرد، عورت، بچے، بچیاں سبھی شامل تھے۔ ماؤں کی گود میں چھوٹے بچے بھی تھے جو بار بار پوچھ رہے تھے:
’’اماں۔۔۔ ہم سب اس دھوپ میں کس کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘
’’ملک کے سب سے عظیم جادوگر کا۔‘‘
’’کیا اس کے آنے کا وقت نہیں ہوا ہے۔‘‘
’’وقت تو آٹھ بجے کا ہی تھا، مگر ۔۔۔‘‘
’’مگر ابھی تو گیارہ بج رہا ہے ماں۔‘‘
’’ ہاں بیٹے ۔۔۔‘‘
’’تو کیا اتنا بڑا جادوگر غیر ذمہ دار بھی ہو سکتا ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹے، ایسا نہیں کہتے۔‘‘
اب میدان کی خاموشی ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔ دن کے بارہ بجنے والے تھے۔ لوگوں کا حلق پیاس کی شدت سے خشک ہو رہا تھا۔ پسینہ سے ان کے کپڑے بھیگ گئے تھے۔ مارے گرمی کے سب بےحال ہو رہے تھے۔ میدانِ کربلا کا عالم تھا۔ بچے خاص طور سے پیاس کی شدت سے تڑپ رہے تھے۔ سب کی زبان خشک ہوکر تالو سے چپک گئی تھی۔ سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ بادل بھی اس کی تمازت کی تاب نہ لاکر کہیں دور چھپ گیا تھا۔ لوگ بار بار اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سوئی بارہ سے آگے بھاگی جا رہی تھی۔ پورے میدان میں شور برپا تھا۔ بوڑھے لوگوں کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ جوان غصہ میں بھرے تھے اور بچے حیرت زدہ تھے کہ آخر یہ سب کیسا ہنگامہ ہے اور وہ کس جنم کی سزا بھگتنے کے لئے یہاں موجود ہوئے ہیں۔ ہر شخص مدد کا طالب تھا، مگر کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ سکون کی جگہ صرف ایک تھی جہاں کسی کی رسائی ممکن نہ تھی۔ شامیانے کے نیچے وہ خوبصورت سا اسٹیج جو خالی تھا، سونا تھا، عظیم جادوگر کا منتظر تھا۔
’’اماں، اماں! چلو نا اس اسٹیج کی پناہ میں۔ تھوڑی دیر تو اس گرمی سے نجات ملےگی۔‘‘
’’نہیں بیٹے، وہاں صرف جادوگر ہی جا سکتا ہے۔‘‘
’’وہ کتنی دیر جادو کا کھیل دکھائےگا؟‘‘
’’کون جانے۔ منٹ دو منٹ یا ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’وہ تھوڑی دیر کے لئے وہاں رکےگا۔ اس کے لئے سائے کا انتظام قبل سے کرکے رکھا گیا ہے اور ہم گھنٹوں سے اس کی آمد کے منتظر ہیں، مگر ہمارے لئے کوئی بھی سائبان نہیں۔۔۔؟‘‘
بچہ جو شعور کی حد کو چھو رہا تھا، بڑے تاسف سے بولا:
’’یہ کہاں کا انصاف ہے ماں ۔۔۔ کہ ۔۔۔‘‘
ماں کا زوردار چانٹا اس کے منھ پر پڑا۔ اس کی ماں کے پاس اس سے بہتر جواب کوئی تھا بھی نہیں۔
لوگوں نے اب کھلم کھلا جادوگر کو گالیاں دینا شروع کر دیا تھا جو آٹھ بجے کا وعدہ کرکے ابھی تک لا پتہ تھا اور سورج کی ظالم کرنیں ان کے وجود کو تہہ و بالا کر دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ جادوگر کے خلاف غم و غصہ کی لہر کافی تیز ہو گئی تھی۔ جوان تو جوان، بوڑھے بچے اور عورتیں بھی اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جادوگر کے آتے ہی سب اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیں گے۔
پھر اچانک ایک شور بلند ہوا:
’’آ گیا، آ گیا، جادوگر آ گیا۔‘‘
آواز میں غصہ تھا، جوش بھی تھا اور خوشی کی ہلکی سی رمق بھی موجود تھی۔ جادوگر بڑے آب و تاب سے بیش قیمت ایر کنڈیشنڈ کار سے باہر آیا اور پر وقار انداز میں شامیانے کے نیچے خوبصورت سے اسٹیج پر کھڑا ہوکر، لوگوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی آمد کا اعلان کرنے لگا۔
میدان کی بھنبھناہٹ خاموشی میں تبدیل ہونے لگی۔ یہ خاموشی یقیناً طوفان کی آمد سے قبل جیسی تھی، پھر یہ خاموشی تار تار کر دی گئی۔
’’تم۔۔۔ ملک کے سب سے عظیم جادوگر۔۔۔ اتنے جھوٹے ہو سکتے ہو، ہمیں معلوم نہ تھا۔‘‘
سامنے کے نوجوان نے کہا جو آدھی رات ہی سے اسٹیج کے قریب بیٹھنے کے لئے آدھمکا تھا۔
’’تم اتنے لاپرواہ ہو سکتے، یہ ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔‘‘
یہ دوسری آواز تھی۔ غصہ سے بھری ہوئی، سیدھی تلوار کی کاٹ جیسی۔
’’سارے ملک کے لوگ چار گھنٹہ تک اس گرمی کی شدت میں انتظار کرتے رہے، جلتے بھنتے رہے اور تمہیں احساس بھی نہ ہوا۔‘‘ یہ تیسری آواز تھی۔
’’مگر بھائیو! مجھے میرا قصور بھی تو بتلاؤ۔ آخر ہوا کیا ہے؟ آپ سب اتنے غصہ میں کیوں ہیں؟ ذرا ۔۔۔‘‘
’’تم اپنا قصور پوچھ رہے ہو۔ بڑے معصوم بنتے ہو تم۔ ذرا اپنی گھڑی پر تو نظر ڈالو۔‘‘ غصہ سے بھری ہوئی آواز جیسے ایک وار میں جادوگر کا صفایا کر دینے کا ارادہ ہو۔
’’کیا ہوا میری گھڑی کو؟ ٹھیک تو چل رہی ہے۔ ‘‘ جادوگر اب بھی معصوم لگ رہا تھا۔
’’ٹھیک چل رہی ہے؟‘‘ تمسخرانہ ہنسی
’’آٹھ بج رہا ہے نا ؟؟‘‘
’’ہاں! بالکل آٹھ بج رہا ہے، نہ ایک منٹ کم نہ زائد۔۔۔‘‘
جادوگر نے اپنی گھڑی پر ہاتھ پھیری اور پورے مجمع سے بلند آواز سے کہا:
’’آپ سب بھی اپنی اپنی گھڑیاں دیکھ لیں۔‘‘
سارے مجمع نے اپنی اپنی گھڑی کی طرف نگاہیں جھکائیں۔
واقعی اس وقت ان کی گھڑیوں میں آٹھ ہی بج رہا تھا۔ نہ ایک منٹ کم نہ زائد۔
سورج ٹھیک سر کے اوپر تھا اور ان کے سائے بونے سے ان کے قدموں سے لپٹ رہے تھے، پھر مجمع میں سے کسی کا بھی سر اوپر نہ اٹھ سکا۔۔۔!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.