رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا۔ سیکریٹیریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گر پڑا۔ صبح جب مالی نے دیکھا تو اسے معلوم پڑا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔
مالی دوڑا دوڑا چپراسی کے پاس گیا۔ چپراسی دوڑا دوڑا کلرک کے پاس گیا۔ کلرک دوڑا دوڑا سپرٹینڈینٹ کے پاس گیا۔ سپرٹینڈینٹ دوڑا دوڑا باہر لان میں آیا۔ منٹوں میں گرے ہوئے درخت کے نیچے دبے ہوئے آدمی کے گرد مجمع اکٹھا ہو گیا۔
”بیچارہ! جامن کا پیڑ کتنا پھلدار تھا۔“ ایک کلرک بولا۔
”اسکی جامن کتنی رسیلی ہوتی تھیں۔“ دوسرا کلرک بولا۔
”میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھر کے لے جاتا تھا۔ میرے بچے اسکی جامنیں کتنی خوشی سے کھاتے تھے۔“ تیسرے کلرک نے تقریباً آبدیدہ ہوکر کہا۔
”مگر یہ آدمی؟“ مالی نے دبے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں، یہ آدمی!“ سپرٹینڈینٹ سوچ میں پڑ گیا۔
”پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گیا!“ ایک چپراسی نے پوچھا۔
”مر گیا ہوگا۔ اتنا بھاری تنا جن کی پیٹھ پر گرے، وہ بچ کیسے سکتا ہے!“ دوسرا چپراسی بولا۔
”نہیں میں زندہ ہوں،!“، دبے ہوئے آدمی نے بمشکل کراہتے ہوئے کہا۔
”زندہ ہے!“، ایک کلرک نے حیرت سے کہا۔
”درخت کو ہٹاکر اسے نکال لینا چاہیئے۔“ مالی نے مشورہ دیا۔
”مشکل معلوم ہوتا ہے۔“ ایک کاہل اور موٹا چپراسی بولا۔ ”درخت کا تنا بہت بھاری اور وزنی ہے۔“
”کیا مشکل ہے؟“ مالی بولا۔ ”اگر سپرٹینڈینٹ صاحب حکم دے تو ابھی پندرہ بیس مالی، چپراسی اور کلرک زور لگاکر درخت کے نیچے سے دبے آدمی کو نکال سکتے ہیں۔“
”مالی ٹھیک کہتا ہے۔“ بہت سے کلرک ایک ساتھ بول پڑے۔ ”لگاؤ زور، ہم تیار ہیں۔“
ایک دم بہت سے لوگ درخت کو کاٹنے پر تیار ہو گئے۔
”ٹھہرو!“، سپرٹینڈینٹ بولا، ”میں انڈر سیکریٹری سے مشورہ کر لوں۔“
سپرٹینڈینٹ انڈر سیکریٹری کے پاس گیا۔ انڈر سیکریٹری ڈپٹی سیکریٹری کے پاس گیا۔ ڈپٹی سیکریٹری جائنٹ سیکریٹری کے پاس گیا۔ جائنٹ سیکریٹری چیف سیکریٹری کے پاس گیا۔
چیف سیکریٹری نے جائنٹ سیکریٹری سے کچھ کہا۔ جائنٹ سیکریٹری نے ڈپٹی سیکریٹری سے کچھ کہا۔ ڈپٹی سیکریٹری نے انڈر سیکریٹری سے کچھ کہا۔ ایک فائل بن گئی۔
فائل چلنے لگی۔ فائل چلتی رہی۔ اسی میں آدھا دن گزر گیا۔ دوپہر کو کھانے پر دبے ہوئے آدمی کے گرد بہت بھیڑ ہو گئی تھی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔
وہ حکومت کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیا کر رہے تھے کہ اتنے میں سپرٹینڈینٹ فائل لیے بھاگا بھاگا آیا، بولا، ”ہم لوگ خود سے اس درخت کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ ہم لوگ محکمۂ تجارت سے متعلق ہیں اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمۂ زراعت کی تحویل میں ہے۔ اسلئے میں اس فائل کو ارجینٹ مارک کرکے محکمۂ زراعت میں بھیج رہا ہوں،۔ وہاں سے جواب آتے ہی اس کو ہٹوا دیا جائیگا۔“
دوسرے دن محکمۂ زراعت سے جواب آیا کہ درخت ہٹوانے کی ذمہ داری محکمۂ تجارت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ جواب پڑھکر محکمۂ تجارت کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے فوراً لکھا کہ پیڑوں کو ہٹوانے یا نہ ہٹوانے کی ذمہ داری محکمۂ زراعت پر عائد ہوتی ہے۔ محکمۂ تجارت کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی۔ شام کو جواب بھی آ گیا۔ ”ہم اس معاملے کو ہارٹیکلچرل ڈپارٹمنٹ کے سپرد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک پھلدار درخت کا معاملہ ہے اور ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملوں میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ جامن کا پیڑ ایک پھلدار پیڑ ہے اسلئے پیڑ ہارٹیکلچرل ڈپارٹمنٹ کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔“
رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال بھات کھلایا حالانکہ لان کے چاروں طرف پولیس کا پہرہ تھا کہ کہیں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کے درخت کو خود سے ہٹوانے کی کوشش نہ کریں۔ مگر ایک پولس کانسٹیبل کو رحم آ گیا اور اس نے مالی کو دبے ہوئے آدمی کو کھانا کھلانے کی اجازت دے دی۔
مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا، ”تمہاری فائل چل رہی ہے۔ امید ہے کہ کل تک فیصلہ ہو جائیگا۔“
دبا ہوا آدمی کچھ نہ بولا۔
مالی نے پیڑ کے تنے کو غور سے دیکھ کر کہا، ”حیرت گزری کہ تنا تمہارے کولہے پر گرا۔ اگر کمر پر گرتا تو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔“
دبا ہوا آدمی پھر بھی کچھ نہ بولا۔
مالی نے پھر کہا، ”تمہارا یہاں کوئی وارث ہو تو مجھے اسکا عطا پتہ بتاؤ۔ میں اسے خبر دینے کی کوشش کروں گا۔“
”میں لا وارث ہوں۔“ دبے ہوئے آدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔
مالی افسوس ظاہر کرتا ہوا وہاں سے ہٹ گیا۔
تیسرے دن ہارٹیکلچرل ڈپارٹمنٹ سے جواب آ گیا۔ بڑا کڑا جواب تھا اور طنز آمیز۔ ہارٹیکلچرل ڈپارٹمنٹ کا سیکریٹری ادبی مجاز کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔
اسنے لکھا تھا، ”حیرت ہے، اس سمے جب ”درخت اگاؤ“ سکیم بڑے پیمانے پر چل رہی ہے، ہمارے ملک میں ایسے سرکاری افسر موجود ہیں جو درخت کاٹنے کا مشورہ دیتے ہیں، وہ بھی ایک پھلدار درخت کو! اور پھر جامن کے درخت کو! جس کے پھل عوام بڑی رغبت سے کھاتے ہیں! ہمارا محکمہ کسی حالت میں اس پھلدار درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔“
”اب کیا کیا جائے؟“، ایک من چلے نے کہا۔ ”اگر درخت کاٹا نہیں جا سکتا تو اس آدمی کو کاٹ کر نکال لیا جائے! یہ دیکھیے، اسی آدمی نے اشارے سے بتایا۔ اگر اس آدمی کو بیچ میں سے، یعنی دھڑ کے مقام سے کاٹا جائے تو آدھا آدمی ادھر سے نکل آئے گا اور آدھا آدمی ادھر سے باہر آ جائے گا، اور درخت وہیں کا وہیں رہے گا۔“
”مگر اس طرح سے تو میں مر جاؤں گا!“ دبے ہوئے آدمی نے احتجاج کیا۔
”یہ بھی ٹھیک کہتا ہے!“، ایک کلرک بولا۔
آدمی کو کاٹنے والی تجویز پیش کرنے والے نے پر زور احتجاج (کڑا ورودھ) کیا، ”آپ جانتے نہیں ہیں۔ آج کل پلاسٹک سرجری کے ذریعے دھڑ کے مقام پر اس آدمی کو پھر سے جوڑا جا سکتا ہے۔“
اب فائل کو میڈیکل ڈپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔ میڈیکل ڈپارٹمنٹ نے فوراً اس پر ایکشن لیا اور جس دن فائل ملی، اس نے اسی دن اس محکمے کا سب سے قابل پلاسٹک سرجن تحقیقات کے لیے بھیج دیا۔
سرجن نے دبے ہوئے آدمی کو اچھی طرح ٹٹول کر، اسکی صحت دیکھ کر، خون کا دباؤ، سانس کی آمد ورفت، دل اور پھیپھڑوں کی جانچ کر کے رپورٹ بھیج دی کہ، ”اس آدمی کا پلاسٹک سرجری کا آپریشن تو ہو سکتا ہے اور آپریشن کامیاب بھی ہو جائے گا، مگر آدمی مر جائے گا۔“
لہذا یہ تجویز بھی رد کر دی گئی۔
رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کے منہ میں کھچڑی کے لقمے ڈالتے ہوئے اسے بتایا، ”اب معاملہ اوپر چلا گیا ہے۔ سنا ہے کہ سیکریٹیریٹ کے سارے سیکریٹیریوں کی میٹنگ ہوگی۔ اس میں تمہارا کیس رکھا جائے گا۔ امید ہے سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔“
دبا ہوا آدمی ایک آہ بھرکر آہستہ سے بولا،
”ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن،
خاک ہو جا ئینگے ہم، تم کو خبر ہونے تک!“
مالی نے اچنبھے سے منہ میں انگلی دبائی۔ حیرت سے بولا، ”کیا تم شاعر ہو؟“
دبے ہوئے آدمی نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔
دوسرے دن مالی نے چپراسی کو بتایا۔ چپراسی نے کلرک کو اور کلرک نے ہیڈ کلرک کو۔ تھوڑے ہی عرصے میں سیکریٹیریٹ میں یہ بات پھیل گئی کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے۔
بس پھر کیا تھا۔ لوگ جوق در جوق شاعر کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ اسکی خبر شہر میں پھیل گئی۔ اور شام تک محلے محلے سے شاعر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ سیکریٹیریٹ کا لان بھانت بھانت کے شاعروں سے بھر گیا۔ سیکریٹیریٹ کے کئی کلرک اور انڈر سیکریٹری تک، جنہیں ادب اور شاعر سے لگاؤ تھا، رک گئے۔
کچھ شاعر دبے ہوئے آدمی کو اپنی غزلیں اور نظمیں سنانے لگے۔ کئی کلرک اس سے اپنی غزلوں پر اصلاح لینے کے لیے مصر ہونے لگے۔
جب یہ پتہ چلا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے تو سیکریٹیریٹ کی سب کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چونکہ دبا ہوا آدمی ایک شاعر ہے لہذا اس فائل کا تعلق نہ ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے، نہ ہارٹیکلچرل ڈپارٹمنٹ سے بلکہ صرف اور صرف کلچرل ڈپارٹمینٹ سے ہے۔
کلچرل ڈپارٹمنٹ سے استدعا (گزارش) کی گئی کہ جلد سے جلد اس معاملے کا فیصلہ کرکے بد نصیب شاعر کو اس شجر سایہ دار سے رہائی دلائی جائے۔
فائل کلچرل ڈپارٹمنٹ کے مختلف شعبوں سے گزرتی ہوئی ادبی اکادمی کے سیکریٹری کے پاس پہنچی۔ بیچارہ سیکریٹری اسی وقت اپنی گاڑی میں سوار ہو کر سیکریٹیریٹ پہنچا اور دبے ہوئے آدمی سے انٹرویو لینے لگا۔
”تم شاعر ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”جی ہاں۔“ دبے ہوئے آدمی نے جواب دیا۔
”کیا تخلص کرتے ہو؟“
”اوس۔“
”اوس!“ سیکریٹری زور سے چیخا۔ ”کیا تم وحی ہو جس کا مجموعۂ کلام ”اوس کے پھول“ حال ہی میں شائعہ ہوا ہے؟“
دبے ہوئے شاعر نے اس بات میں سر ہلایا۔
”کیا تم ہماری اکادمی کے ممبر ہو؟“ سیکریٹری نے پوچھا۔
”نہیں!“
”حیرت ہے!“ سیکریٹری زور سے چیخا۔ ”اتنا بڑا شاعر! ”اوس کے پھول“ کا مصنف! اور ہماری اکادمی کا ممبر نہیں ہے! اف، اف! کیسی غلطی ہو گئی ہم سے! کتنا بڑا شاعر اور کیسے گوشۂ گمنامی میں دبا پڑا ہے!“
”گوشۂ گمنامی میں نہیں بلکہ ایک درخت کے نیچے دبا ہوا۔۔۔ برائے کرم مجھے اس پیڑ کے نیچے سے نکالئے۔“
”ابھی بندوبست کرتا ہوں،۔“ سیکریٹری فوراً بولا اور فوراً جاکر اس نے اپنے محکمے میں رپورٹ پیش کی۔
دوسرے دن سیکریٹری بھاگا بھاگا شاعر کے پاس آیا اور بولا، ”مبارک ہو، مٹھائی کھلاؤ، ہماری سرکاری اکادمی نے تمہیں اپنی مرکزی کمیٹی کا ممبر چن لیا ہے۔ یہ لو پروانۂ انتخاب!“
”مگر مجھے اس درخت کے نیچے سے تو نکالو۔“ دبے ہوئے آدمی نے کراہ کر کہا۔ اسکی سانس بڑی مشکل سے چل رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شدید تشنج اور کرب میں مبتلا ہے۔
”یہ ہم نہیں کر سکتے۔“ سیکریٹری نے کہا۔ ”جو ہم کر سکتے تھے، وہ ہم نے کر دیا ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کر سکتے ہیں کہ اگر تم مر جاؤ تو تمہاری بیوی کو وظیفہ دلا سکتے ہیں۔ اگر تم درخواست دو تو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔“
”میں ابھی زندہ ہوں،۔“ شاعر رک رک کر بولا۔ ”مجھے زندہ رکھو۔“
”مصیبت یہ ہے“، سرکاری اکادمی کا سیکریٹری ہاتھ ملتے ہوئے بولا، ”ہمارا محکمہ“ صرف کلچر سے متعلق ہے۔ اسکے لیے ہم نے ”فاریسٹ ڈپارٹمنٹ“ کو لکھ دیا ہے۔ ”ارجینٹ“ لکھا ہے۔
شام کو مالی نے آکر دبے ہوئے آدمی کو بتایا کہ کل فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آکر اس درخت کو کاٹ دینگے اور تمہاری جان بچ جائیگی۔
مالی بہت خوش تھا کہ گو دبے ہوئے آدمی کی صحت جواب دے رہی تھی مگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کے لیے لڑے جا رہا ہے۔ کل تک۔۔۔ صبح تک۔۔۔ کسی نہ کسی طرح اسے زندہ رہنا ہے۔
دوسرے دن جب فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آری کلہاڑی لیکر پہنچے تو انکو درخت کاٹنے سے روک دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ محکمۂ خارجہ سے حکم آیا کہ اس درخت کو نہ کاٹا جائے۔
وجہ یہ تھی کہ اس درخت کو دس سال پہلے حکومت پٹونیا کے وزیر اعظم (پردھان منتری) نے سیکریٹیریٹ کے لان میں لگایا تھا۔ اب یہ درخت اگر کاٹا گیا تو اس امر کا شدید اندیشہ تھا کہ حکومت پٹونیا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لیے بگڑ جا ئیں گے۔
”مگر ایک آدمی کی جان کا سوال ہے!“ ایک کلرک غصے سے چلایا۔
”دوسری طرف دو حکومتوں کے تعلقات کا سوال ہے۔“ دوسرے کلرک نے پہلے کلرک کو سمجھایا۔ ”اور یہ بھی تو سمجھو کہ حکومت پٹونیا ہماری حکومت کو کتنی امداد دیتی ہے۔ کیا ہم انکی دوستی کی خاطر ایک آدمی کی زندگی کو بھی قربان نہیں کر سکتے؟“
”شاعر کو مر جانا چاہیئے۔“
”بلا شبہ۔“
انڈر سیکریٹری نے سپرٹینڈینٹ کو بتایا۔ ”آج صبح وزیر اعظم باہر ملکوں کے دورے سے واپس آ گئے ہیں۔ آج چار بجے محکمۂ خارجہ اس درخت کی فائل ان کے سامنے پیش کرے گا۔ جو وہ فیصلہ دینگے وہی سب کو منظور ہوگا۔“
شام پانچ بجے خود سپرٹینڈینٹ شاعر کی فائل لے کر اسکے پاس آیا۔ ”سنتے ہو؟“ آتے ہی خوشی سے فائل ہلاتے ہوئے چلایا، ”وزیر اعظم نے درخت کو کاٹنے کا حکم دے دیا ہے اور اس واقعہ کی ساری بین الاقوامی ذمہ داری اپنے سر پر لے لی ہے۔ کل وہ درخت کاٹ دیا جائے گا اور تم اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لوگے۔“
”سنتے ہو؟ آج تمہاری فائل مکمل ہو گئی!“ سپرٹینڈینٹ نے شاعر کے بازو کو ہلاکر کہا۔ مگر شاعر کا ہاتھ سرد تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں بیجان تھیں اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اسکے منہ میں جا رہی تھی۔
اسکی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.