Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جب امبر روئے

دیپک کنول

جب امبر روئے

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    فتح محمداپنے آپ کو مہذب کہتا تھا مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ ایکدم اجڈ گنوار تھا۔ اس کی سرشت سے وحشی جبلت کا کا سایہ اب تک نہیں ٹلا تھا۔ وہ آج بھی ایک وحشی انسان کی طرح جی رہا تھا جسکے دل میں دیا دھرم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جسے دوسروں کو اذیتیں پہونچانے میں مزہ آتا ہے۔ جو کسی مظلوم پرظلم ڈھانا بہادری سمجھتا ہے۔ آئے دن یہ سننے میں آتا تھا کہ آج فتح محمد نے ایک غریب آدمی کو اسلئے پیٹا کہ وہ اسے سلام کرنا بھول گیا۔ اس مغالطے میں مت رہئے کہ فتح محمد کوئی راجہ مہاراجہ، دراوغہ یا کوتوال تھا۔ جی نہیں۔ وہ تو ایک محمولی سا حمال تھا اور مہاراج بازار میں حمالی کا کام کرتا تھا۔ یومیہ اجرت پر کام کرکے وہ اپنے آپ کو رانی خان کا سالا سمجھتا تھا۔ باپ نہ ماری پدڑی بیٹا تیر انداز کے مصداق وہ بڑا تیر انداز بنا بیٹھا تھا۔ بازار میں اُس نے ایسا داب بٹھا کے رکھا تھا کہ کوئی اس کے آگے سینہ تان کے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ ہر مزدور کو وہ خدا کی کمتر اور ادنی مخلوق سمجھتا تھا۔ انسان تو انسان اُسے کتوں سے بھی خدا واسطے کا بیر تھا۔ جب بھی وہ صبح سویرے گھر سے کام پر نکلتا تھا تو ایک دو آدمیوں کے ساتھ ساتھ چار پانچ کتے بھی روز اُسکے ہاتھوں سے پٹتے تھے۔ اُسکے تابع میں جتنے بھی حمال تھے وہ سب کو ہیجڑا اور کام چور کہہ کے چڑایا کرتا تھا۔ کبھی کسی کو ٹنگڑی مار کے زمین پر پٹخ دیا۔ کبھی کسی کی چھاتی پر سوار ہوکر اس کا دم نکالنے لگا۔ کبھی کسی کو اٹھا کر ہوا میں اُچھال دیا۔ اسے اپنی تنو مندی پر بڑا غرور تھا۔ اسمیں شک نہیں کہ وہ بڑا تن و توش کا آدمی تھا۔ اسی توانائی کی وجہ سے وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ وہ چاہے امرتسر کا تھوک بیوپاری پرس رام ہو یا چائے پتی کا ہول سیلرخالق جو۔ طرفہ یہ کہ جن کا وہ کھاتا تھا ان پر ہی وہ غراتا تھا۔ سارا دن وہ ان ہی کی دکان کے تھڑے کے آگے ٹانگیں پھیلائے پڑا رہتا تھا۔ جب چائے پینے کو دل کرے تو لونڈے کو چائے کے لئے آواز دیتا اور بل مالکوں سے بھروا دیتا تھا۔ چونکہ وہ حمالوں کاہیڈ تھا اسلئے کوئی اس سے پنگا لینا نہیں چاہتا تھا۔ جب اُسکا حکم ہوتا تھا دلی یا امرتسر سے آنے والا ٹرک سے مال اتارا جاتا تھا۔ کس مائی کے لال میں اتنا دم تھا جو حکم عدولی کر پاتا۔ اب اگرچکسی بھی ڈرائیور نے زرا سی دادا گیری دکھانے کی کوشش کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ اس کا ٹرک ہفتوں کھڑے کا کھڑا رہ جاتا تھا اور وہ ایک ایک کو دہائی دے کے تھک جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی بیوپاری فتح سے رشتے بگاڑنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ بڑا کم ظرف اور خسیس قسم کا آدمی تھا۔

    ایک دن اس نے اپنے ہی گاوں کے ایک لونڈے کو ہیجڑا ہیجرٓا کہہ کے خوب دوڑایا۔ جب وہ روتے بسورتے اپنی ماں کے پاس پہونچا تو بچے کو روتے دیکھ کر ماں کی چھاتی پھٹنے لگی۔ اس نے اپنے لال کو سینے سے لگا کے جب رونے کا سبب پوچھا تو بچے نے ماں کو سارا قصہ بے کم و کاست سنا ڈالا۔ عورت کے تن بدن میں آگ لگی اور وہ منہ سے آگ اُگلتے ہوئے گھر سے نکلی اور سیدھے فتح کے گھر پہونچی۔ اُس نے فتح محمد کو کھڑے کھڑے ہی خوب کوسنے دئے، تبر ے پڑھے اور ساتھ ہی اسے یہ بد دعا بھی دی کہ جب اس کے یہاں بیٹا پیدا ہو تو وہ ہیجڑا نکلے۔ فتح کا خون کھولا پر وہ کچھ کر نہ سکا بس پتا مار کے بیٹھ گیا۔ آدمی کتنا بھی دبنگ ہو عورت کے آگے وہ اپنے سارے پنجے چھکے بھول جاتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ بتیس دانت کی بانکا خالی نہیں جاتی۔ کسی کے دل سے کبھی آہ ضرور نکلی ہوگی، جس نے اپنا اثر دکھایا۔ جب فتح کے یہاں پہلوٹھی کا بچہ ہوا تو وہ مقررہ وقت سے دو مہینے پہلے پید اہو۔ یعنی سات ماسی بچہ۔ پیدائش کے وقت دائی بھی یہ پتا نہ لگا سکی کہ یہ بچہ مرد ہے یازنخا۔ وہ جب گرتے ٹھیلتے کھیلنے کودنے کے لائق ہوگیا تب اس کے ہاو بھاو سے یہ شبہ ہونے لگا کہ اسمیں کچھ خرابی ہے۔ نام تو اس کا علیا محمد رکھا گیا مگر وہ حرکتیں لڑکیوں جیسی کرتا تھا۔ لڑکیوں کی طرح اپنے پاوں میں پازیب پہننے کی ضد کرتا تھا۔ انہی کے جیسے کپڑے پہننے کی فرمائش کرتا۔ اس کی اماں تو کوڑھ مغز تھی۔ اسے ان سب باتوں کا کوئی ادراک نہ تھا۔ وہ بیٹے کی موہ میں ایسے پڑ چکی تھی کہ وہ جس چیز کی ضد کرتا تھا وہ پوری کر دیتی تھی۔ اماں میرا جوڑا بنادو تو وہ جوڑا بنا دیتی تھی۔ میری آنکھوں میں کاجل ڈالو تو وہ کاجل ڈال دیتی تھی۔ فتح نے تو سات گھاٹ کا پانی پیا تھا۔ بیٹے کی ان حرکتوں سے اُسنے بھانپ لیا کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔ وہ اسے ایک دن حکیم کے پاس لے گیا۔ حکیم نے اس کی روداد سنی بچے کا معائنہ کیا اور اسے یہ کہہ کر الٹے پاوں لو ٹا دیاکہ قدرت کے کھیل میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

    فتح کو اس انکشاف سے اتنا گہرا صدمہ لگاکہ گھر آکر جو وہ گرا تو پھر کبھی اٹھ نہیں پایا۔ ایک سال تک صاحب فراش رہنے کے بعد ایک دن اس کی موت ہوئی اس کی موت پر کسی نے افسوس ظاہر نہیں کیا۔ لوگ تو ایسے موذی کے چلے جانے سے راحت محسوس کر رہے تھے۔ چند ایک تو دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے سنے گئے۔ خس کم جہاں پاک ہو گیا۔ بیچاری عورت اکیلی کیا کر پاتی۔ گھر میں کوئی قارون کا خزانہ تو دھرا نہیں پڑا تھا جس کے سہارے زندگی چل پاتی۔ فتح تو یومیہ مزدوری کرتا تھا۔ جو کچھ بھی پس انداز کرکے رکھا تھا وہ کئی مہینوں میں صاف ہو گیا۔ آگے گھر کیسے چلےگا یہ فکر علیا کی ماں کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا تی جا رہی تھی۔ وہ چرخہ پونی کرکے دو پیسے کما لیتی تھی۔ ایک دن وہ بھی بیٹھے بیٹھے چت ہوگئی۔ اپنی کہی نہ اور کی سنی۔ بس چھوڑ گئی علیا کو روتے بلکتے۔ تب علیا کی عمر گیارہ سال کی تھی۔

    علیا یتیم ہو گیا تھا۔ اس کا کوئی نہیں تھا۔ وہ اکیلا اورتنہا تھا۔ گاوں میں ایک متمول آدمی نے ترس کھا کر اس یتیم کو اپنے گھر میں پناہ دی۔ اصل میں اس کے گھر ایک بیٹا پید اہوا تھا۔ اسی کی دیکھ ریکھ کے لئے اس نے علیا کو اپنے گھر میں لا کے رکھ دیا۔ علیا کو جینا تھا اس لئے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ وہ بچے کا بول براز اٹھاتا۔ اس کے چوتڑ دھوتا۔ اس کے کپڑے بدلتا۔ اسے نہلاتا۔ اُسے دودھ پلاتا۔ کبھی بچہ چڑھی دینے کے لئے کہتا تو وہ گھوڑا بن جاتا تھا۔ کبھی بڑے بلاتے تو وہ ان کے چرنوں میں ہوتا تھا۔ غرض علیا وہ سارے کام کرتا تھا جو ایک دائی، ایک باندی کرتی ہے۔ گھر والے اس کے کام سے خوش تھے کیونکہ وہ بچے کا ایسا خیال رکھتا تھا جیسے یہ بچہ اس کا ماں جایا ہو۔ بدلے میں اسے دو وقت کی روٹی ملتی تھی جسے وہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ برسوں وہ اسی طرح لوگوں کی سیوا ٹہل کرکے اپنی گاڑی چلاتا رہا۔ دعلیا کسی کے لئے آدھا مردتھا اورکسی کے لئے آدھی عورت۔ وہ نہ قدرت کے اس ستم سے شاکی تھا اور نہ ہی اسے اپنی قسمت سے کوئی گلہ تھا۔ اس نے اس روپ میں اپنے آپ کو قبول کیا تھا۔ وہ عورتوں کی طرح ہی بولتا تھا۔ عورتوں کی طرح ہی چلتا تھا۔ وہی ادائیں اور وہی عشوے۔ اس کے انہی حرکات و سکنات سے مظہر تھا کہ وہ زنخاہے۔ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ عورتیں بہت جلد ہل مل جاتی ہیں۔ ایسے نامردوں کی سنگت میں وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون محسوس کرنے لگتی ہیں۔ اُسے بھی مردوں سے زیادہ عورتوں کی صحبت میں رہنا پسند تھا۔ جب عورتیں اسے گھیر لیتیں اور اس سے چہل کرنے لگتی تھیں تو وہ بھی دل لگی پہ اتر آتا تھا اور عورتوں کو خوب ہنساتا تھا۔ عورتیں اس سے اسلئے اسقدر مانوس تھیں کہ وہ انہیں اپنی طرح ہی لگتا تھا۔ وہ تھا تو جوان مگر باتیں بڑے بزرگوں کی طرح کیا کرتا تھا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جوان عمری میں ہی زیرک بن جاتے ہیں اور اپنی خرد مندی کا لوہا منوانے لگتے ہیں۔ علیا ان میں سے ایک تھا۔ اس کے تعلقات صنف نازک سے اس حد تک گہرے تھے کہ جن پوشیدہ بیماریوں کواپنے شوہر سے بیان کرنے میں ہچکچاتی تھیں انہی بیماریوں کا زکر وہ بنا کسی لجا کے علیا سے کرتی تھیں۔ کسی کا حمل نہیں ٹھہر پا رہا ہے۔ کسی کی ماہواری میں گڑ بڑ ی ہو رہی ہے۔ کسی کامرد پوچھتا نہیں ہے۔ علیا کی زنبیل میں ہر مسلے کا توڑ تھا۔ ہر مرض کی دوا تھی۔ وہ کسی خرانٹ کی طرح ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بڑے انہماک سے ہر عورت کا دکھڑا سنتا تھا اور پھر اُسکا توڑ بتا دیتا تھا۔ اُسے کس ڈاکٹر سے جاکر ملنا چاہے، کونسی بوٹی کب کھانی چاہے، کس چیز کو ترک کر دینا چاہے ان سب چیزوں کا اسے ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس گاوں کی بیشتر عورتوں کا مونس، عغمخوار اور ہمراز تھا۔

    وہ شکل و صورت سے مرگھلے چوہے کی طرح لگتاتھا۔ شاید یہ بھی اس کے باپ کی کرنیوں کا پھل تھا۔ کچھ لوگ اسے مرزا پھوئیا کہتے تھے۔ سانولا رنگ، سوکھا بدن، دھنسی ہوئی آنکھیں، نازک بدن۔ وہ جوان تھا مگر جوانی کی کوئی اُمنگ ترنگ اس کے اندر ہلکورے نہیں مار رہی تھی۔ وہ ایک خاموش جھیل کی طرح تھا جس میں نہ لہروں کا تموج تھا اور نہ ہی کوئی جل ترنگ۔ ایک تو وہ ستم کا مارا تھا اوپر سے غریب اور یتیم، ماں باپ اُسکے لئے سوائے بھوک اور بد نصیبی کے کچھ چھوڑ کے نہیں گئے تھے۔ وہ بس حالات کی ٹھوکروں میں صدا پڑا رہتا تھا۔ نہ جانے کب حالات اسے کس اور دھکیل دیں۔ وہ اب تک بیس ہانڈیوں کا مزہ چکھ چکا تھا۔ ایک دن وہ اسی گاوں کے ایک پنڈت گھرانے تک پہونچ گیا جہاں اسے کام کرتے ہوئے بڑا سکون ملا۔ سقے کی طرح اس کا کام چشمے سے پانی بھر کے لانا ہوتا تھا۔ وہ عورتوں کی طرح سر پر مٹی کا گھڑا رکھ کر خرام ناز کے ساتھ چشمے پر چلا جاتا تھا اور وہاں بیٹھی عورتوں کے ساتھ اپنا گھڑا بھرتا تھا اور پھریہ گھڑا صاحب مالک کاشی ناتھ کی بیوی لیلا کو تھما دیتا تھا۔ وہ دن میں بیسوں بار پانی کے گھڑے بھر بھرکے لے آتا تھا۔ ان دنوں نلکے ندارد تھے۔ پانی کی سپلائی کا زریعہ انسانی کاندھے ہی ہوا کرتے تھے۔ جو آسودہ حال تھے وہ یہ کام نوکروں سے کروایا کرتے تھے اور جو متوسط طبقے کے لوگ تھے، وہاں گھر کی عورتیں یہ کام کیا کرتی تھیں۔ علیا دیکھنے میں وہ مریل سا لگتا تھا مگر اس کے اندر کافی دم خم تھا۔ بیسوں چکر لگانے کے بعد وہ تھکتا نہیں تھا۔ جب دیکھو بچھیرے کی طرح سرپٹ بھاگے چلا جا رہا ہے۔ ہٹے کٹے مشٹنڈے بھی اس کی توانائی دیکھ کر رشک کھانے لگتے تھے۔ وہ حیران تھے کہ وہ کونسی چکی کا پسا آٹا کھاتا ہے جو وہ تھکتا ہی نہیں ہے۔

    پنڈٖت کاشی ناتھ اس قریئے کا اچھا خاصا جاگیر دار تھا۔ انہوں نے گھر میں کئی نوکر طلب پر رکھے تھے۔ کوئی ڈنگر پالنے کے لئے مقرر تھا تو کوئی کھیتی باڑی کے لئے۔ علیا ان سب میں سے یکتا تھا۔ وہ دل کا راجہ تھا۔ اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔ ماں نہ باپ، بھائی نہ بہن پر اکیلا ہوکے بھی وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہیں کرتا تھا۔ اسے سبھی اپنے لگتے تھے۔ جہاں وہ کام کرتا تھا اس گھر کا ہر فرد اُسے اپنے پریوار کا حصہ لگتا تھا۔ اس کا من صاف تھا، نظر پاک تھی۔ آج تک کسی نے اس کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ نو بیاہتا اپنی بیویوں کو علیا کے بھروسے چھوڑ کر گھر سے باہر جاتے تھے۔ وہ پیار کا ہلکورے مارتا ساگر تھا۔ مامتا اور اپنائیت کا پیکر۔ محبت کی حلاوت جیسے اس کی فطرت میں گھلی ہوئی تھی۔ وہ اس بادل کی طرح تھا جو رحمت باراں برسا کر کسی پہاڑ کی پھننگ پر بیٹھ کر سستانے لگتا ہے۔ وہ بھی جہاں کسی کو دکھی دیکھتا تھا تو اس کا دکھ و درد کم کرنے کی کوشش ضرور کرتا تھا۔ اسے دوسروں کے دکھ و درد اپنے سے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کا محبوب تھا۔ سب لوگ اس سے پیار کرتے تھے۔

    کاشی ناتھ کا ایک بھرا پرا پریوار تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ چاروں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ دو بیٹیاں سری نگر میں بیاہی گئی تھیں جب کہ ایک بیٹی پڑوس کے گاوں ٹھکانے لگ گئی تھی۔ تینوں بیٹیاں اپنے اپنے سسرال میں خوش تھیں جب کہ اس کے اپنے گھر میں اشانتی تھی۔ اس اشانتی کی وجہ گھر میں ہر سال پیدا ہونے والی بیٹیاں تھیں۔ بیٹا بال کشن جو کہ چاورں اولاد میں سب سے بڑا تھا تین تین بیٹیوں کا باپ بن چکا تھا۔ ان بیٹیوں کو دیکھ کے ان کی دادی لیلا ہر دم کڑھتی رہتی تھی۔ بال کشن کی بیوی جو کہ ایکدم ککڑی سی تھی ایک بار پھر امید سے تھی۔ اپنی بہو پھولاکا اپھرا ہوا پیٹ دیکھ کر کبھی لیلا کی باچھیں کھل جاتی تھیں تو کبھی اس کا دل بیٹھا جانے لگتا تھا۔ اصل میں وہ بال کشن کی تین تین بیٹیوں کو دیکھ کر وہ اسقدر آزردہ اور دل سوختہ تھی کہ چوتھی بار بھی بہو کی کوکھ میں اُسے بیٹی ہی نظر آرہی تھی۔ اس بار لیلا نے قسم کھائی تھی کہ وہ ایک اور بیٹی کو اس گھر میں جنم لینے نہیں دے گی۔ اس نے پوتے کا منہ دیکھنے کے لئے کمر کس لی۔ قرب و جوار میں جتنے بھی آستانے تھے، وہ سب جگہ دھاگہ باندھ کے آئی تھی۔ جہاں کوئی سادھو فقیر نظر آیا ان کے سامنے جھولی پھیلائی اور انہیں منا کر ان سے گنڈے تعویذلے کے آئی۔ پو تا ہوا تو کھیربھوانی میں یگیہ کرانے کی منت بھی مانگ کے آئی تھی۔ کاشی ناتھ بھی پوتے کا منہ دیکھنے کے لئے ترس رہا تھا پر وہ اپنا دکھ اپنے من میں چھپا کے بیٹھا تھا۔ اس کی بڑی آرزو تھی کہ وہ جیتے جی پوتے کا منہ دیکھ سکے مگر دینے والا تھا ایشور تھا۔ بس اسی کو منانے وہ سویرے سویرے پاس کے مندر میں جاتا تھا اور گھنٹوں پوجا اپاسنا کرتا رہتا تھا۔

    آخر وہ گھڑی آ ہی گئی۔۔۔ پھولا درد زہ سے تڑپنے لگی۔ علیا کو دائی بلانے کے لئے دوڑایا گیا۔ وہ خطجی دائی کو پکڑ کر لے آیا۔ گاوں میں ایک خطجی دائی تھی جو جنائی کا کام کرتی تھی۔ لیلا کا تو دل اوپر تلے ہوا جا رہا تھا۔ وہ بڑی بے چینی سے کمرے کے باہر ٹہل رہی تھی اور خوشخبری سننے کے لئے مری جا رہی تھی۔ دفعتاََ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ وہ لشتم پشتم جو دروازے تک پہونچ گئی تو اندر کی خبر سن کر وہ دھم سے نیچے بیٹھ گئی۔ پھولا نے اس باربھی بیٹی کو ہی جنم دیا تھا۔ لیلا کی ساری محنت اکارت گئی تھی۔ سارے گنڈے تعویذ بےاثر ثابت ہوئے تھے۔ اس کا جی کر رہا تھا کہ وہ چھاتی پیٹ پیٹ کر روئے۔ تین سیاہ سر والی پہلے سے ہی اُس کی چھاتی پر سوار تھیں۔ اب اس چھوتی کو وہ کہاں بٹھا دے۔ جب خطجی دائی چلی گئی اور گھر میں اپنے پریوار کے علاوہ بس ایک علیا رہ گیا تو لیلا دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ گھر کے ہر فرد نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل روتی رہی۔ وہ ایک ہی ولاپ کر رہی تھی کہ وہ اس لڑکی کی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتی ہے۔ وہ تب ہی رونا بند کرے گی جب اس لڑکی کو اس گھر سے دفا کیا جائیگا۔ پھولا بھی نادم و پشیمان بن کے بیٹھی تھی۔ اسے اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ چار چار بیٹیوں کو پالنا آسان نہیں۔ ان کے داج دہیز کو اکھٹا کرنے میں آدھی زندگی نکل جائےگی۔

    تھوڑی دیر بعد لیلا نے چنڈی کا روپ دھارن کر لیا۔ اس نے اپنے شوہر سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ابھی جاکے اس لڑکی کو مار ڈالو۔ کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے کہ مر گئی۔ علیا بھی مغموم ہو کے بیٹھا تھا۔ لیلا کو اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ یہ باتیں علیا کے سامنے کر رہی ہے۔ وہ علیا کو اسی گھر کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ وہ مر سکتا تھا لیکن کبھی نمک حرامی نہیں کر سکتا تھا۔ لیلا نے بال کشن سے پوچھا تو بال کشن روتے ہوئے بولا۔

    ”میرا تو نصیب ہی کھوٹا ہے۔ پہلے کی تین سے تو کمر دوہری ہو گئی تھی۔ اب اسکے آنے سے تو کمر بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دونوں مرتے دم تک کبھی سینہ تان کے کھڑے نہیں ہو پائیں گے۔ ہر دم اپنے سمبندھیوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہیں گے۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ماں۔ اس بچی کو دفا کر دو یہاں سے۔ ابھی جائے گی تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی۔ کچھ دن رہےگی تو ہم سب کو موہ مایا میں الجھا دےگی۔ پھر ہم اسے اپنے آپ سے الگ نہیں کر پائیں گے“

    کاشی ناتھ جو بہت دیر سے خاموش بیٹھا تھا، لیلا کی طرف مڑ کر بولا۔

    ”پر یہ نر دھیہ کام کرےگا کون؟“

    لیلا نے علیا کی طرف دیکھ کر کہا، ”علیا ہے نا“

    علیا نے اثبات میں فوراََ سر ہلایا جیسے وہ یہ کام کرنے کے لئے پہلے سے تیار بیٹھا ہو۔ علیا نرم و نازک ضرور تھا مگر وہ اندرسے کمزور نہیں تھا۔ ابتدا میں جس گھر میں کام کرتا تھا وہاں ہر روز وہ بازار سے مرغے خرید کے لاتا تھا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیتا تھا۔ بقرعید پر اسنے اپنے ہاتھوں سے ایک بکرے کو حلال کیا تھا۔ وہ چاقو چھری چلانے سے گھبراتا نہیں تھا۔ اسے یہ ایک دن کی لڑکی بھی کسی مرغی یا کسی ممینے کی طرح ہی لگ رہی تھی جس کو ٹھکانے لگانا اُسکے لئے اتنا مشکل تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ یہی تو موقع ہے کہ وہ جان نثاری کا ثبوت دے کے ان لوگوں کی آنکھوں میں سما جائے۔ کاشی ناتھ تو بڑی دگدھا میں تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیا کہے۔ دل و دماغ جیسے ماوف ہو چکا تھا۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا پھر بھی اس نے اپنے آپ کو مطمعن کرنے کے لئے لیلا سے کہا۔

    ”اس سے پوچھ لو کیا یہ کام کرےگا؟“

    ”ارے اس موئے نے اس گھر کا نمک کھایا ہے۔ کیا اس گھر کی بھلائی کے لئے وہ اتنا ساکام بھی نہیں کر پائےگا۔“

    ”اطمینان رکھو لیلا چاچی میں یہ کام ضرور کروں گا۔ ارے اس پاو بھر کی چھوکری کو ٹھکانے لگانا کوئی بڑا مسلہ نہیں۔ زرا سا اسکا ٹیٹوا دبا دیا تو قصہ ختم“

    لیلا نے خوش ہوکر انٹی میں سے دو سو نکالے اور علیا کو دو سو روپے دیکر وہ بچی کو اٹھا کرلائی اور اسے علیا کی گود میں ڈالتے ہوئے بولی۔

    ”تم نے برسوں اس گھر کا نمک کھایا ہے۔ اب اس گھر کی سکھ و شانتی کے لئے یہ نیک کام کر دے۔ اس جنم جلی کو ہمارے سر سے اتار دے۔ اسے کہیں پھینک کے آ جا۔ کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ اچانک مر گئی۔“

    پھولا اپنی ساس سے اسقدر دبی ہوئی تھی کہ وہ اس بےرحم فیصلے پر ایک اف تک نہ کر سکی۔ گھر کے سبھی افراد منہ میں گھنگھیاں بھر کے بیٹھے رہے۔ بال کشن توماں کے کہنے میں تھا اس لئے اس کی طرف سے کسی مدافعت کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اس کا شوہر بھی بیوی کے کہنے پر چلتا تھا۔ اب اس معصوم بچی کی زندگی علیا کے ہاتھ میں تھی۔ وہ اس بچی کو لے کے اٹھا اور رات کے اندھیارے کو چیرتا ہوا نکل گیا۔

    چلتے چلتے علیا کے پاوں ڈگمگانے لگے۔ جس جوش کے ساتھ اس نے اس بچی کو ٹھکانے لگانے کی حامی بھری تھی باہر آکر وہ کمزور پڑھنے لگا۔ ایک دن کا یہ گوشت کا لوتھڑا علیا کے سینے سے چمٹا ہوا تھا اور اس کی چھاتیوں میں زندگی کے اس امرت کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو وہاں تھا ہی نہیں۔ اس کے ہاتھوں کے لمس نے علیا کے اندر چھپی ہوئی عورت کو جگا دیا۔ علیا کو لگا جیسے اس گوشت کے لوتھڑے نے اُسکے سوئے ہوئے جذبات کو جگا کر ان میں ایک نئی حرارت اور لذت بھر دی ہو۔ اُسے لگا جیسے اُفتادہ پڑی دھرتی پر میگھ کی بوندیں گری ہوں۔ جیسے یہ گوشت کا لوتھڑا، محض ایک گوشت کا لوتھڑانہ ہو بلکہ باد بہاری کا پہلا جھونکا ہو جو اجاڑ پڑی دھرتی کو نئی رونق بخشتی ہے، جو اسے گل و گلزار بنا دیتی ہے۔۔۔ علیا کے اندر ایک ہل چل مچی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس بچی نے اس کے اندر اتھل پتھل مچا دی ہو۔ جیسے اس ننھی سی جان نے اس کے دل کے بند پڑے دروازے وا کئے ہوں۔ جیسے اس نے اس کے اندر خفتہ پڑی مامتا کے سبھی سوتے جگا دئے ہوں۔ جیسے پیار و محبت کے سارے خاموش ساز اس نے اپنے کومل ہاتھوں سے ایک ساتھ چھیڑ دئے ہوں۔ اس نے اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور پھر وہ نیچے بیٹھ کر رونے لگا۔

    رات بڑی تاریک اور ہولناک تھی۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ پتے اسی طرح کانپ رہے تھے جیسے علیا کا دل کانپ رہا تھا۔ بار بار وہ اس معصوم کو سینے کے ساتھ بھینچ لیتا تھا جسمیں زندگی کی دھڑکن تھی۔ دفعتاََ بجلی چمکی۔ علیا نے اس چکا چوند میں اس معصوم کا چہرہ کیا دیکھا اسے لگا جیسے یہ انسانی بچہ نہیں بلکہ ایک کلی ہے جو ابھی ابھی چٹکی ہو۔ ایک غنچہ ہے جو ابھی ابھی کھلا ہو۔ وہ کیوں اس معصوم کی جان لے؟ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ وہ خود اس دنیا میں نہیں آئی۔ اُسے تو قدرت نے اس دھرتی پر بھیجا۔ ابھی اس نے پوری طرح اپنی آنکھیں بھی نہیں کھولی ہیں۔ وہ اس دنیا کی عیاری کو کہاں سمجھ پاتی۔ انسان کی خود غرضی کو کہاں پہچانتی۔ وہ تو فرشتے کی طرح پاک اور معصوم تھی۔ اسے کیا پتا تھا کہ یہ سماج کتنا بےرحم اور نردھے ہے۔ اُسے کیا خبر کہ بیٹی بن کے پیدا ہونا کتنا بڑا گناہ ہے؟

    علیا عجب گومگو کی حالت میں تھا۔ وہ کیا کرے، کیا نہیں کرے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اگر وہ اس بچی کو زندہ چھوڑ دےگا تو وہ سارا اعتماد کھو دےگا اور اس سے وہ آشیانہ بھی چھن جائےگا جہاں رہ کر اسے ایک نئی زندگی ملی تھی۔ اگر اس نے اس بچی کی جان لی تو وہ ایک عظیم گناہ کر بیٹھےگا اور محشر کے روز اسے جواب دینا ہوگا۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ اسی کشمکش سے دوچار تھا تبھی اس کے چہرے پر تیز روشنی پڑی جس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور ایک پل کے لئے اس کے دل کی دھڑکن رک گئی۔ اسے لگا کہ وہ پولیس کی گرفت میں آ چکا ہے۔ وہ بد حواسی کے عالم میں سامنے کھڑے آدمی سے ٹکرایا۔ اچانک ایک سہمی سی نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

    ٍ

    ”علیا ڈر مت۔ یہ میں ہوں“

    یہ آواز پھولا کی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ اس نے وہ پوٹلی علیا کو تھما دی جسمیں روپے پیسے کے علاوہ اس کے سارے زیور تھے۔ اس نے بڑھکر اپنی بچی کو دیوانہ وار چوما۔ وہ اسے چومتی بھی رہی اور روتی بھی رہی۔ علیا ابھی تک ہیبت کے عالم میں تھا۔ اپنی بیٹی کو چومنے چاٹنے کے بعد وہ اشکوں کے سیلاب کو روکتے ہوئے بس اتنا ہی بول پائی۔

    ”میں جا رہی ہوں۔ اس کا خیال رکھنا“

    کہہ کر پھولا اندھیارے میں کہیں غائب ہو گئی۔ علیا نے بچی کوزور سے بھینچ لیا اور پھر وہ ایک نئے ولوے اور جوش کے ساتھ ایک انجانی منزل کی جانبچل پڑا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے