جہاں لکشمی قید ہے
ذرا ٹھہریے، یہ کہانی وشنو کی پتنی لکشمی نام کی ایک ایسی لڑکی کے بارے میں ہے، جو اپنی قید سے چھوٹنا چاہتی ہے۔ ان دوناموں میں ایسا مغالطہ ہونا فطری بات ہے، جیسا کہ کچھ لمحوں کے لیے گووند کو ہو گیا تھا۔
ایک دم گھبراکر جب گووند کی آنکھ کھلی تو وہ پسینے سے تر تھا اور اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اسے لگا کہیں اچانک اس کی دھڑکن بند نہ ہو جائے۔ اس نے اندھیرے میں پانچ چھ بار پلکیں جھپکائیں۔ پہلی بار تو اس کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ وہ کہاں ہے، کیسا ہے۔ وہ سمت اور جگہ کا شعور ایک دم بھول گیا۔ جب پاس کے ہال کی گھڑی نے ایک گھنٹا بجایا تو اس کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ وہ گھڑی کہاں ہے، وہ خود کہاں ہے اور گھنٹا کہاں بج رہا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے اسے دھیان آیا، اس نے زور سے اپنے گلے کا پسینہ پونچھا اور اسے لگا کہ اس کے دماغ میں پھر وہی کھٹ کھٹ گونج اٹھی ہے جو ابھی گونج رہی تھی۔
پتا نہیں سپنے میں یا سچ مچ ہی، گووند کو ایسا لگا تھا جیسے کسی نے کواڑ پر تین چار بار کھٹ کھٹ کی ہو اور بہت گڑگڑاکر کہا ہو، ’’مجھے نکالو، مجھے نکالو!‘‘ اور وہ آواز کچھ ایسے پر اسرار انداز سے آکر اس کے وجود کو کونچنے لگی کہ وہ بوکھلاکر جاگ اٹھا۔ وہ سچ مچ کسی کی آواز تھی یا محض اس کا وہم؟
پھر اسے دھیرے دھیرے یاد آیا کہ یہ وہم ہی تھا اور وہ لکشمی کے بارے میں سوچتا ہوا ایسا مغلوب ہوکر سویا تھا کہ وہ سپنے میں بھی چھائی رہی لیکن حقیقت میں یہ آواز کیسی عجیب تھی، کیسی صاف تھی۔ اس نے کئی بار سنا تھا کہ کسی فلاں عورت یا مرد سے سپنے میں آکر کوئی کہتا تھا، ’’مجھے نکالو، مجھے نکالو!‘‘ پھر وہ دھیرے دھیرے جگہ کا پتا بھی بتانے لگتا تھا اور وہاں کھدوانے پر اسے کڑا ہے یا ہانڈی میں بھرے سونے چاندی کے سکے یا دولت ملی اور وہ دیکھتے دیکھتے مالا مال ہو گیا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی غیرحقدار آدمی نے اس خزانے کو نکلوانا چاہا تو اس میں کوڑیاں اور کوئلے نکلے، یا پھر اس کے کوڑھ پھوٹ آیا یا گھر میں کوئی موت ہو گئی۔ کہیں اسی طرح دھرتی کے نیچے سے اسے کوئی لکشمی تو نہیں پکار رہی ہے؟ وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ اس کے دماغ میں پھر لکشمی کا قصہ مجسم ہونے لگا۔ وہ بےسدھ سا پڑا رہا۔
دور کہیں دوسرے گھڑیال نے پھر وہی ایک گھنٹا بجایا۔
گووند سے اب نہیں رہا گیا۔ رضائی کو چاروں طرف سے بند رکھے رکھے، بہت سنبھال کر اس نے کہنی تک ہاتھ نکالا، لیٹے لیٹے الماری کے خانے سے کتابوں کاپیوں کی بغل سے ادھ جلی موم بتی نکالی، وہیں کہیں سے کھوج کر دیا سلائی نکالی اور آدھا اٹھ کر، تاکہ جاڑے میں دوسرا ہاتھ پورا نہ نکالنا پڑے، دوتین بار گھس کر دیا سلائی جلائی، موم بتی روشن کی اور پگھلے موم کی بوند ٹپکاکر اسے دوات کے ڈھکن کے اوپر جما دیا۔ دھیرے دھیرے ہلتی روشنی میں اس نے دیکھ لیا کہ پورے کواڑ بند ہیں اور دروازے کے سامنے والی دیوار میں بنے جالی لگے روشن دان کے اوپر دوسری منزل سے جو ہلکی ہلکی روشنی آتی ہے، وہ بھی بجھ چکی ہے۔ سب کچھ کتنا شانت ہو چکا ہے۔ بجلی کا سوئچ اگرچہ اس کے تخت کے اوپر ہی لگا تھا، لیکن ایک تو جاڑے میں رضائی سمیت یا رضائی چھوڑ کر کھڑے ہونے کا آلس، دوسرے لالہ روپا رام کاڈر۔ صبح ہی کہےگا، ’’گووند بابو، بڑی دیر تک پڑھائی ہو رہی ہے آج کل!‘‘ جس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ ’’بڑی بجلی خرچ کرتے ہو!‘‘
پھر اس نے چپکے سے، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو، تکیے کے نیچے سے رضائی کے اندر ہی اندر ہاتھ بڑھاکر وہ رسالہ نکال لیا اور گردن کے پاس سے ہاتھ نکال کر اس کے سینتالیسویں صفحے کو بیسویں بار کھول کر بہت دیر تک گھورتا رہا۔ ایک بجے کی پٹھان کوٹ ایکسپریس جب دہاڑتی ہوئی گزر گئی تو اچانک اسے ہوش آیا۔ جو دو صفحے۔۔۔ ۴۷ اور ۴۸۔۔۔ اس کے سامنے کھلے ہوئے تھے، ان پر جگہ جگہ نیلی روشنائی سے کچھ سطروں کے نیچے لائنیں کھینچی گئی تھیں۔ یہی نہیں، اس صفحے کا کونا موڑ کر انہیں لائنوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی تھی۔ اب تک گووند ان سطروں یا ان کے آس پاس کی سطروں کو بیس سے زیادہ بار گھور چکا تھا۔ اس نے شک بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھا اور ایک بار پھر ان سطروں کو پڑھا۔
جتنی بار وہ انہیں پڑھتا، اس کا دل ایک انجانے آنند کے بوجھ سے دھڑک کر ڈوبنے لگتا اور دماغ اسی طرح بھنانے لگتا جیسا اس وقت بھنایا تھا، جب یہ رسالہ اسے ملا تھا۔ اگرچہ اس دوران اس کی ذہنی کیفیت کئی مشکل مرحلوں سے گزر چکی تھی، پھر بھی وہ بہت دیر تک کالی روشنائی میں چھپے حروف کو ٹھہری ہوئی نگاہوں سے گھورتا رہا۔ دھیرے دھیرے اسے ایسا لگا کہ حروف کی یہ سطر ایک ایسی کھڑکی کی جالی ہے جس کے پیچھے بکھرے بالوں والی ایک بےپروا لڑکی کا چہرہ جھانک رہا ہے اور پھر اس کے دماغ میں بچپن میں سنی ہوئی کہانی ابھرنے لگی۔
شکار کھیلتے میں ساتھیوں کاساتھ چھوٹ جانے پر بھٹکتا ہوا راج کمار اپنے تھکے ماندے گھوڑے پر، بالکل ویرانے میں، سمندر کے کنارے بنے ایک بہت بڑے سنسان قلعے کے نیچے جا پہنچا۔ وہاں اوپر کھڑکی میں اسے ایک نہایت سندر راج کماری بیٹھی دکھائی دی، جسے ایک راکشس نے وہاں لاکر قید کر دیا تھا۔ کھڑکی میں بیٹھی راج کماری کی تصویر، چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ، گووند کی آنکھوں کے سامنے واضح اور مجسم ہو گئی اور اسے لگا جیسے وہی راج کماری چھپی ہوئی سطروں کی ان لکیروں کے پیچھے سے جھانک رہی ہے۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں سوکھ گئی ہیں، ہونٹ پپڑا گئے ہیں، چہرہ مرجھا گیا ہے اور ریشمی بال مکڑی کے جالے کی طرح لگتے ہیں، جیسے اس کے پورے بدن سے ایک آواز نکلتی ہو، ’’مجھے چھڑاؤ، مجھے چھڑاؤ!‘‘
گووند کے دل میں اس انجان راج کماری کو چھڑانے کے لیے کوئی جیسے رہ رہ کر کریدنے لگا۔ ایک آدھ بار تو اسے بڑی زور دار طلب محسوس ہوئی کہ اپنے اندر رہ رہ کر کچھ کرنے کے جوش کو اپنے تخت اور کوٹھری کی دیوار کے بیچ کی دوفٹ چوڑی گلی میں گھوم گھوم کر دور کر دے۔
تو کیا سچ مچ لکشمی نے یہ سب اسی کے لیے لکھا ہے؟ لیکن اس نے تو لکشمی کو دیکھا تک نہیں۔ اگر اپنے تصور میں کسی جوان لڑکی کا چہرہ لائے بھی تو وہ آخر کیسی ہو؟ کچھ اور بھی باتیں تھیں کہ وہ لکشمی کے روپ میں کسی سندر لڑکی کے چہرے کا تصور کرتے ڈرتا تھا۔ اس کی ٹھیک شکل صورت اور عمر بھی تو نہیں معلوم تھی اسے۔۔۔
گووند اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ سب اسی کے لیے لکھا گیا ہے۔ یہ لائنیں کھینچ کراسی کو توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر بھی وہ اس غیر متوقع بات پر یقین نہیں کرپاتا تھا۔ وہ اپنے کو اس لائق بھی نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی لڑکی اسے اشارہ کرےگی۔ یوں شہر کے بارے میں اس نے بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ گاؤں سے انٹرپاس کرکے شہر آنے کے ایک ہفتے میں ایک ایسی خوش نصیبی اس کے سامنے آ جائےگی۔
وہ جب جب ان سطروں کو پڑھتا، تب تب اس کا سر اس طرح چکرانے لگتا جیسے کسی دس منزلہ مکان سے نیچے جھانک رہا ہو۔ جب اس نے پہلے پہل یہ سطریں دیکھیں تھیں تو اس طرح اچھل پڑا تھا جیسے ہاتھ میں انگارہ آ گیا ہو۔
بات یہ ہوئی کہ وہ چکی والے ہال میں اینٹوں کے تخت سے بنے چبوترے پر بڑی پرانی کاٹھ کی صندوقچی کے اوپر پتلا رجسٹر کھولے دن بھر کا حساب ملا رہا تھا، تبھی لالہ روپا رام کا سب سے چھوٹا، نو دس سال کا لڑکا رام سروپ اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ لڑکا ایک پھٹے پرانے چسٹر کی (جو یقیناً کسی بڑے بھائی کے چسٹر کو کٹواکر بنوایا گیا ہوگا) جیبوں میں دونوں ہاتھ ٹھونسے، پاس کھڑا ہوکر اسے دیکھنے لگا۔
گووند جب پہلے ہی دن آیا تھا اور حساب کر رہا تھا، تبھی یہ لڑکا بھی آ کھڑا ہوا تھا۔ اس دن لالہ روپا رام بھی تھے، چنانچہ صرف یہ دکھانے کے لیے کہ وہ ان کے سپوت میں بھی کافی دل چسپی رکھتا ہے، اس نے اس سے رواج کے مطابق نام، عمر اور اسکول کلاس وغیرہ پوچھے تھے۔ نام رام سروپ، عمر نوسال، چنگی پرائمری اسکول میں چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ پھر تو صبح شام گووند اسے چسٹر کے سایے ہی سے جاننے لگا؛ شکل دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔ چسٹر کے نیچے نیکر پہنے ہونے کے سبب اس کی پتلی ٹانگیں کھلی رہتیں اور وہ پیروں میں بہت پرانے کرمچ کے جوتے پہنے رہتا جن کی پھٹی نکلی زبانوں کو دیکھ کر اسے ہمیشہ دم کٹے کتے کی پونچھ کا خیال آ جاتا تھا۔
کچھ دیر اس کا لکھنا تاکتے رہ کر لڑکے نے چسٹر کے بٹنوں کے کساؤ اور چھاتی کے بیچ میں رکھا رسالہ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور بولا، ’’منشی جی، لکشمی دیدی نے کہا ہے، ہمیں کچھ اور پڑھنے کو دیجیے۔‘‘
’’اچھا، کل دیں گے۔‘‘ دل ہی دل میں بھناکر اس نے کہا۔ یہاں آکر اسے جو ’’منشی جی‘‘ کا نیا خطاب ملا، اسے سن کر اس کی آتما خاک ہو جاتی۔ ’’منشی‘‘ نام کے ساتھ جو ایک کان پر قلم لگائے، گول میلی ٹوپی اور پرانا کوٹ پہنے، مڑے تڑے آدمی کی تصویر سامنے آتی ہے، اسے بیس بائیس سال کا نوجوان گووند سنبھال نہ پاتا۔
لالہ روپارام اسی کے گاؤں کے ہیں۔ شاید اس کے پتا کے ساتھ دوتین جماعت پڑھے بھی تھے۔ شہر آتے ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر پڑھائی چلا سکنے کے لیے کوئی ٹیوشن یا چھوٹا موٹا پارٹ ٹائم کام حاصل کرنے کی غرض سے جب وہ لالہ روپا رام سے بھی ملا تو انہوں نے انتہائی گرم جوشی سے اس کے مرحوم باپ کو یاد کرکے کہا، ’’بھیا، تم تو اپنے ہی بچے ہو۔ ذرا ہماری چکی کا حساب کتاب گھنٹے آدھ گھنٹے دیکھ لیا کرو اور مزے سے چکی کے پاس جو کوٹھری ہے اس میں پڑے رہو۔ اپنا پڑھو۔ آٹے کی تو یہاں کمی ہے ہی نہیں۔‘‘ اور جب وہ احسان مندی سے گدگدان کی کوٹھری میں آ گیا تو پہلی رات حساب لکھنے کا طریقہ سمجھاتے ہوے لالہ روپا رام، موتیا بند والے چشمے کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے مور پنکھ کے چندوے جیسی دکھتی آنکھوں اور موٹے ہونٹوں سے مسکراتے ہوئے، اس کی توقیر بڑھانے کو ’’منشی جی‘‘ کہہ بیٹھے تو وہ چونک گیا۔ لیکن اس نے تہیہ کر لیا کہ یہاں جم جانے کے بعد سختی سے اس لفظ کی مزاحمت کرےگا۔ رام سروپ سے ’’منشی جی‘‘ کاخطاب سن کر اس کی بھنویں تن گئیں، اسی لیے اس نے رکھائی سے جواب دیا تھا۔
’’کل ضرور دیجیےگا۔‘‘ رام سروپ نے تاکید کی۔
’’ہاں بھائی، ضرور دوں گا۔‘‘ اس نے دانت پیس کر کہنا چاہا لیکن چپ ہی رہا۔ لکشمی کا نام وہ اکثر سنتا تھا۔ حالانکہ اس کی کوٹھری سڑک کی طرف الگ ہی پڑتی تھی لیکن اس میں پیچھے کی طرف جو ایک چھوٹا سا جالی دار روشن دان تھا، وہ گھر کے اندر نیچے کی منزل کے صحن میں کھلتا تھا۔ لالہ روپارام کا کنبہ اوپر کی منزل میں رہتا تھا اور نیچے سامنے کی طرف پن چکی تھی۔ پیچھے کئی طرح کی چیزوں کا اسٹور روم تھا۔ اس لکشمی نام کے واسطے اسے اس لیے بھی بہت تجسس اور دل چسپی تھی کہ چاہے کوٹھری میں ہو یا باہر پن چکی کے ہال میں، ہر پانچویں منٹ اس کانام مختلف طریقوں سے سنائی دے جاتا تھا۔
’’لکشمی بیوی نے یہ کہا ہے۔‘‘
’’روپے لکشمی بیوی کے پاس ہیں، چابی لکشمی بیوی کو دے دینا۔۔۔‘‘
اور اس کے جواب میں جو ایک باریک، تیکھی سی پراعتماد آواز سنائی دیتی تھی اسے گووند پہچاننے لگا تھا۔ اس نے اندازے سے سمجھ لیا تھا کہ یہی لکشمی کی آواز ہے۔ لیکن وہ خود کیسی ہے؟ اس کی ایک جھلک بھر دیکھ پانے کو اس کا دل کبھی کبھی بری طرح تڑپ سا اٹھتا۔ لیکن پہلے کچھ دن اسے اپنا اثر جمانا تھا، اس لیے وہ آنکھ اٹھاکر بھی اندر دیکھنے کی کوشش نہ کرتا۔ دل ہی دل میں اس نے سمجھ لیا کہ یہ لکشمی کافی اہم ہستی ہے۔ دقت یہ تھی کہ اندر کچھ دکھائی بھی تو نہیں دیتا تھا۔ پہلی منزل کافی اونچی اور مضبوط تھی اور صحن کے اوپر لوہے کا جال پڑا ہوا تھا۔ اس پر سے اوپر کی منزل کے لوگ جب گزرتے تھے تو لوہے کی جھنجھناہٹ سے، پہلے تو اس کا دھیان ہر بار ادھر چلا جاتا تھا۔ کبھی کبھی بچے اچھل اچھل کر اس پر کودنے لگتے تھے۔ یہاں سے جب تک کسی بہانے سے پوری گلی پار نہ کی جائے، کچھ بھی نظر آنا ناممکن تھا۔
چوں کہ غسل خانہ اور نل وغیرہ اسی صحن میں تھے، جن کی وجہ سے نیچے اکثر سیلن اور کیچڑ رہتی تھی، اس لیے صبح صحن میں جاتے ہوئے وہ نہایت سیدھے لڑکے کی طرح نگاہیں نیچی کیے ہوئے بھی اوپر کے حالات جاننے کی کوشش کرتا تھا۔ سراٹھاکر اوپر دیکھ پانے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ اس نے اپنی کوٹھری کا واحد دروازہ بند کرکے تخت پر چڑھ کر مکڑی کے جالوں اور دھول سے بھرے جالی دار روشن دان سے جھانک کر بھی اوپر کے حالات جاننے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ کم بخت جالی کچھ ایسے ڈھنگ سے بنی تھی کہ اس کے فوکس میں سامنے والا پورا چھجا اور ایک آدھ فٹ لوہے کا جال ہی آ پاتا تھا۔ وہاں کئی بار اسے لگا جیسے دو چھوٹے چھوٹے تلوے گزرے۔ بہت کوشش کرنے پر ٹخنے دکھے۔۔۔ ہاں، ہیں تو کسی لڑکی کے پیر ہی، کیوں کہ ساتھ میں دھوتی کا کنارا بھی جھلکا تھا۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور تخت سے اترتے ہوئے بڑے اداکارانہ انداز میں چھاتی پر ہاتھ مار کر بدبدایا، ’’ارے لکشمی ظالم، ایک جھلک تو دکھا دیتی!‘‘
’’منشی جی، تم تو دیکھ رہے ہو۔ لکھتے کیوں نہیں؟‘‘ رام سروپ نے جب دیکھا کہ گووند ہولڈر کا پچھلا سرا دانتوں پر آہستہ آہستہ ٹھونکتے ہوئے، پلکیں جھپکائے بغیر، حساب کی کاپی میں کچھ گھور رہا ہے، تو پتا نہیں کیسے یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ وہ جو کچھ سوچ رہا ہے اس کا تعلق سامنے رکھے حساب سے نہیں ہے۔
اس نے چونک کر لڑکے کی طرف دیکھا اور چوری پکڑی جانے پر جھینپ کر مسکرایا۔ تبھی اچانک ایک بات اس کے دماغ میں کوندی۔ یہ لکشمی رام سروپ کی بہن ہی تو ہے۔ ضرور اس کا چہرہ اس سے کافی ملتا جلتا ہوگا۔ اس بار اس نے دھیان سے رام سروپ کا چہرہ دیکھا کہ سندر ہے یا نہیں۔ پھر اپنی بے وقوفی پر مسکراکر ایک انگڑائی لی۔ چاروں طرف ڈھیلے ہوتے ہوئے کمبل کو پھر سے کس لیا اور غیرمتوقع پیار سے بولا، ’’اچھا منا، کل دے دیں گے۔‘‘ اس کی خواہش ہوئی کہ لکشمی کے بارے میں کچھ بات کرے لیکن سامنے ہی چوکیدار اور مستری کام کر رہے تھے۔
اصل میں آج وہ تھک بھی گیا تھا۔ اس نے چونک کر لڑکے کو جواب دیا اور جلدی جلدی حساب کرنے لگا۔ دنیا بھر کی سفارشوں کے بعد اس کا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آ گیا تھا کہ وہ لے لیے گئے لڑکوں میں سے ہے۔ آتے وقت وہ کچھ کتابیں اور کاپیاں بھی خرید لایا تھا، سو آج چاہتا تھا کہ جلد سے جلد اپنی کوٹھری میں جالیٹے اور کچھ آگے پیچھے کی باتیں۔۔۔ دنیا بھر کی باتیں۔۔۔ سوچتا ہوا سو جائے۔ سوچے، لکشمی کون ہے، کیسی ہے؟ وہ اس کے بارے میں کس سے پوچھے؟ کوئی اس کا ہم عمر اور بھروسے کا آدمی بھی تو نہیں ہے۔ کسی سے پوچھے اور لالہ روپا رام کو پتا چل جائے تو؟
لیکن ابھی تیسرا ہی تو دن ہے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے پاس رکھے ہوئے رسالوں اور کہانیوں کی کتابوں کی گنتی کرتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس بار اسے کون سی دینی ہے۔ آگے چل کر، جب کافی دن ہو جائیں گے، تو وہ چپ چاپ اس میں ایک ایسا چھوٹا سا خط رکھ دےگا جو کسی دوست کے نام لکھا گیا ہوگا یا اس کی زبان ایسی ہوگی کہ پکڑ میں نہ آ سکے۔ بھول سے چلا گیا، پکرے جانے پر وہ آسانی سے کہہ سکےگا، اسے تو دھیان بھی نہیں تھا کہ وہ پرچہ اس میں رکھا ہے! بیس جواب ہیں۔ اپنے چالاک بے وقوفی کے خیالوں پر وہ مسکرانے لگا۔
جس کے بارے میں وہ اتنا سب سوچتا ہے، یہ اسی لکشمی کے پاس سے آیا ہوا رسالہ ہے۔ اس نے اسے اپنے کومل ہاتھوں سے چھوا ہوگا۔ تکیے کے نیچے، سرہانے بھی یہ رہا ہوگا۔ لیٹ کر پڑھتے ہوئے ہو سکتا ہے سوچتے سوچتے چھاتی پر رکھ کر ہی سو گئی ہو۔۔۔ اور اس کا تن من گدگدا اٹھا۔ کیا لکشمی اس کے بارے میں بالکل ہی نہ سوچتی ہوگی؟ حساب لکھنے کی مصروفیت میں بھی اس نے گردن موڑ کر ایک ہاتھ سے رسالے کے ورق پلٹنے شروع کر دیے اور ایک مڑے ہوئے ورق پر اچانک اس کا ہاتھ ٹھٹک گیا۔ یہ کس نے موڑا ہے؟ ایک منٹ میں ہزاروں باتیں اس کے دماغ میں چکر لگاگئیں۔ اس نے رسالہ اٹھاکر حساب کی کاپی پر رکھ لیا۔ مڑا ہوا ورق پورا کھلا تھا۔ چھپے ہوئے صفحے پر جگہ جگہ نیلی روشنائی کے نشان دیکھ کر وہ چونک پرا۔ یہ کس نے لگائے ہیں؟ اسے خوب اچھی طرح دھیان ہے، یہ پہلے نہیں تھے۔
’’میں تمہیں جان سے بڑھ کر پیار کرتی ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ایک نیلی لائن کے اوپر پڑھا۔
’’ایں، یہ کیا چکر ہے؟‘‘ وہ ایک دم جیسے بوکھلا اٹھا۔ اس نے فوراً ہی سامنے بیٹھے مستری سلیم اور دلاور سنگھ کو دیکھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔ اس کی نگاہ اپنے آپ دوسری لائن پر پھسل گئی۔
’’مجھے یہاں سے بھگالے چلو۔۔۔‘‘
’’ارے!‘‘
’’میں پھانسی لگاکر مرجاؤں گی۔۔۔‘‘
اور گووند اتنا گھبرا گیا کہ اس نے پھٹ سے رسالہ بند کر دیا۔ شک بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ کسی نے تاڑ تو نہیں لیا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ ابھر آیا اور دل چکی کی موٹر کی طرح چلنے لگا۔ رسالے کے انہیں صفحوں کے بیچ میں انگلی رکھے رکھے اس نے اسے گھٹنے کے نیچے چھپا لیا۔ کہیں دور سے رنگین کور کی تصویر دیکھ کر یہ کم بخت چوکیدار ہی نہ مانگ بیٹھے۔ ان سطروں کو ایک بار پھر دیکھنے کی اس کے دل میں شدید خواہش ہو رہی تھی لیکن جیسے ہمت نہ پڑتی تھی۔ کیا سچ مچ یہ نشان لکشمی ہی نے لگائے ہیں؟ کہیں کسی نے مذاق تو نہیں کیا؟ لیکن مذاق اس سے کون کرےگا، کیوں کرےگا؟ ایسا کوئی اس کا واقف بھی تو نہیں ہے یہاں کہ تین ہی دن میں ایسی ہمت کر ڈالے۔
اس نے پھر رسالہ نکال کر پورا الٹ پلٹ ڈالا۔ نہیں نشان وہی ہے، بس۔ وہ ان تینوں سطروں کو پھر ایک ساتھ پڑھ گیا اور اسے ایسا لگا جیسے اس کے دماغ میں ہوائی جہاز بھنا اٹھا ہو۔ گووند کا دماغ چکرا رہا تھا، دل دھڑک رہا تھا اور جو حساب وہ لکھ رہا تھا، وہ تو جیسے ایک دم بھول گیا۔ اس نے قلم کے پیچھے حصے سے کان کے اوپر کھجلایا، خوب آنکھیں گاڑکر جمع اور خرچ کے خانوں کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی نس نس میں سن سن کرتی کوئی چیز دوڑتی جا رہی تھی۔ اسے لگا اس کا دل پھٹ جائےگا اور دماغ آتش بازی کے انار کی طرح پھٹ پڑےگا۔ اب وہ کس سے پوچھے، یہ سب نشان کس نے لگائے ہیں؟ کیا سچ مچ لکشمی نے؟
اس خوش کن حقیقت پر یقین نہیں آتا۔ میں چاہے اسے نہ دیکھ پایا ہوں، اس نے تو ضرور مجھے دیکھ لیا ہوگا۔ ارے، یہ لڑکیاں بڑی تیز ہوتی ہیں۔ گووند کی خواہش ہوئی، اگر اسے اس لمحے آئینہ مل جائے تو وہ لکشمی کی آنکھوں سے خود کوایک بار دیکھے، کیسا لگتا ہے۔
لیکن یہ لکشمی ہے کون؟ بیوہ، کنواری، بیاہتا، مطلقہ، کیا؟ کتنی بڑی ہے؟ اس کی نس نس میں ایسی زبردست اینٹھن ہونے لگی کہ وہ ابھی اٹھے اور دوڑ کر اندر کے آنگن کی سیڑھیوں سے دھڑادھڑ چڑھتا ہوا اوپر جاپہنچے، لکشمی جہاں بھی، جس کمرے میں بھی بیٹھی ہو، اس کے دونوں کندھے جھنجھوڑ کر پوچھے، ’’لکشمی، لکشمی، یہ سب تم نے لکھا ہے؟ تم نہیں جانتیں لکشمی، میں کتنا بدنصیب ہوں۔ میں قطعی اس خوش قسمتی کے لائق نہیں ہوں۔‘‘ اور سچ مچ اس غیر متوقع خوش قسمتی سے گووند کا دل اس طرح پسیج اٹھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ڈوری سے لٹکتے بلب کو پلک جھپکائے بغیر دیکھتا ہوا وہ ماضی اور مستقبل کی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔ پھر اس نے دھیرے سے اپنی کوروں میں بھرے آنسوؤں کو انگلیوں پر لے کر اس طرح جھٹک دیا جیسے دیوتا پر چندن چڑھا رہا ہو۔ اس کا ڈھیلا پڑا ہاتھ اب بھی رسالے کے ورق کو پکڑے ہوئے تھا۔
اس نے ایک بار پھر ان سطروں کو دیکھا۔ مان لو لکشمی اس کے ساتھ بھاگ جائے۔ کہاں جائیں گے وہ؟ کیسے رہیں گے؟ اس کی پڑھائی کاکیا ہوگا؟ بعد میں پکڑ لیے گئے تو؟
لیکن آخر یہ لکشمی ہے کون؟
لکشمی کے بارے میں سوالوں کا ایک جھنڈ اس کے دماغ پر ٹوٹ پڑا، جیسے شکاری کتوں کا باڑا کھول دیا گیا ہو۔ یا سر پر کوئی متواتر ہتھوڑے سے چوٹیں لگا رہا ہو، بڑی بےرحمی اور کٹھور پن سے۔۔۔ جیسے چھت پر سے اچانک گر پڑنے والے آدمی کے سامنے ساری دنیا ایک جھٹکے کے ساتھ لمحے بھر میں چکر لگا جاتی ہے، اسی طرح اس کے سامنے سیکڑوں ہزاروں چیزیں ایک ساتھ چمک کر غائب ہو گئیں۔
اینٹوں کے اونچے، چوکور، تخت نما چبوترے پر چھوٹی سی پرانی صندوقچی کے آگے بیٹھا گووند حساب کر رہا تھا اور حساب نہ ملنے کی وجہ سے جو کچھ پرزے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے، وہ سب یوں ہی بکھرے رہے۔ اس نے کھلے ہوئے لیجر رجسٹر پر دونوں کہنیاں ٹکا دیں اور دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں بند کر لیں۔ کنپٹی کے پاس کی نسیں چٹخ رہی تھیں۔ ایسا تو کبھی دیکھا سنا نہیں، فلموں ناولوں میں بھی نہیں دیکھا پڑھا۔ سچ مچ ان نشانوں کا کیا مطلب ہے؟ کیا لکشمی ہی نے یہ لائنیں کھینچی ہیں؟ ہو سکتا ہے کسی بچے نے کھینچ دی ہوں۔۔۔ اس امکان سے تھوڑا چونک کر گووند نے پھر ورق کھولا۔۔۔ نہیں، بچہ کیا صرف انہیں سطروں کے نیچے نشان لگاتا؟ اور لکیریں اتنی پختہ اور سیدھی ہیں کہ کسی بچے کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ کسی نے اسے بلاوجہ پریشان کرنے کو تو نشان نہیں لگا دیے؟ ہو سکتا ہے وہ لکشمی بہت چہل باز ہو اور ذرا جھکانے کو اسی نے یہ سب کیا ہو۔۔۔
گووند اس طرح آنکھیں بند کیے سوچ رہا تھا لیکن اندر اندر ڈر رہا تھا کہ مستری اور چوکیدار اسے دیکھ کر کچھ سمجھ نہ جائیں۔ سب سے بڑا ڈر اسے لالہ روپارام کا تھا۔ ابھی روئی بھری، شکرپاروں والی سلائی کی، میلی سی، پوری بانہوں کی مرزئی پہنے اور اس پر میلی چیکٹ، یگوں پرانی انڈی لپیٹے، دھیرے دھیرے ہانپتے ہوئے، بینت ٹیکتے، بڑی دقت سے سیڑھیاں اترکر وہ آپہنچیں گے۔
اچانک بینت کی کھٹ کھٹ سے چونک کر اس نے جو آنکھوں کے آگے سے ہاتھ ہٹایا تو دیکھا، سچ مچ لالہ روپا رام ہی چلے آ رہے ہیں۔ ارے کم بخت، یاد کرتے ہی آ پہنچا! بیٹھے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا؟ اس نے جھٹ رسالے کو گھٹنوں کے نیچے اور بھی سرکا لیا اور سامنے پھیلے پرزوں پر آنکھیں جماکر مصروف ہو گیا۔
مستری اور چوکیدار کی کھسر پھسر بھی بند ہو گئی۔ گلی پار کرکے لالہ روپا رام اندر داخل ہوئے۔
موٹے موٹے شیشوں کے پیچھے سے ان کی آنکھیں بڑی ہوکرخوفناک دِکھتی تھیں۔ آنکھوں اور پلکوں کا رنگ مل کر ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے پیچھے مور پنکھ کے چندوے لگے ہوں۔ سرپر روئی بھرا ہی کنٹوپ تھا۔ کانوں کو ڈھکنے والے، موٹر کے مڈگارڈ جیسے اس کے کونے اب اوپر کو مڑے ہوئے تھے اور قدیم راکشسوں کے سینگوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ چہرہ ان کا جھریوں بھرا تھا اور چشمے کا فریم ناک کے اوپر سے ٹوٹ گیا تھا۔ اسے انہوں نے ڈورا لپیٹ کر مضبوط کر لیا تھا۔ دانت ان کے نقلی تھے اور شاید ڈھیلے بھی تھے کیوں کہ وہ انہیں ہمیشہ اس طرح منھ چلا چلاکر پیچھے سرکائے رکھتے تھے جیسے چیونگ گم چبا رہے ہوں۔
گووند کو ان کے اس طرح منھ چلانے اور منھ سے نکلتی طرح طرح کی آوازوں سے بڑی ابکائی آتی تھی اور جب وہ اس سے بات کرتے تو وہ بڑے جتن کے اپنا دھیان اس طرف سے ہٹائے رکھتا۔ لالہ روپا رام کی گردن ہمیشہ اس طرح ہلتی رہتی جیسے کھلونے والے گڈے کی گردن کا اسپرنگ ڈھیلا ہو گیا ہو۔ گھٹنوں تک میلی کچیلی دھوتی اور ملٹری کے کباڑی بازار سے لائی گئی موزوں پر باندھنے کی پٹیاں، جو شاید انہیں جوڑوں کے درد سے بھی بچاتی تھیں، بنا فیتوں کے کھیسیں نکالے، پھٹے پرانے بوٹ، جنہیں دیکھ کر ہمیشہ گووند کو لگتا کہ اس آدمی کا آخری وقت قریب آ گیا ہے۔
جب لالہ روپا رام پاس آ گئے تو اس نے ان کے اعزاز میں چہرے پر چکنائی والی مسکراہٹ لاکر ان کی طرف دیکھتے ہوئے سواگت کیا۔ اینٹوں کے چبوترے پر لگ بھگ دوسو سیاہی کے داغوں اور چھیدوں والی دری پر رام سروپ کے ان سے سٹ کر کھڑے ہونے سے ایک موٹی سی سکڑن پڑ گئی تھی، اسے ہاتھ سے ٹھیک کرکے اس نے کہا، ’’لالہ جی، یہاں بیٹھیے۔‘‘
لالہ جی نے ہانپتے ہوئے، بولے بغیر ہی اشارہ کر دیا کہ نہیں، وہ یہیں ٹھیک ہیں اور وہ ٹین کی کرسی پر اس کی طرف منھ کرکے بیٹھ گئے اور ہانپتے رہے۔ اصل میں انہیں سانس کی بیماری تھی اور وہ ہر وقت پیاسے کتے کی طرح ہانپتے رہتے تھے۔
ان کے یہاں آبیٹھنے سے ایک بار تو گووند کانپ اٹھا۔ کہیں کم بخت کو پتا تو نہیں لگ گیا، کہیں کچھ پوچھنے نہ آیا ہو۔ حالانکہ لالہ روپارام اس وقت کھا پی کر ایک بار چکر ضرور لگاتے تھے لیکن اسے یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو بڈھا تاڑ گیا ہے۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ لالہ روپارام ابھی ہانپ رہے تھے۔ گووند سر جھکائے حساب جوڑتا رہا۔ آخر صورت حال کو سنبھالنے کی غرض سے وہ بولا، ’’لالہ جی، آج میرا نام آ گیا کالج میں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ لالہ جی نے کھانسی کے بیچ میں کہا۔ وہ ایک ہاتھ سے ڈنڈے کو زمین پر ٹیکے ہوئے تھے، دوسرے ہاتھ میں کلائی تک گومکھی (مالا جپنے کی تھیلی) بندھی تھی، جس کے اندر انگلیاں چلا چلاکر وہ مالا گھما رہے تھے اور ان کا وہ ہاتھ ٹنڈا سا لگ رہا تھا۔
ماحول کا بوجھل پن بڑھتا ہی جا رہا تھاکہ ایک واقعہ ہوگیا۔
انہوں نے سانس اکٹھی کرکے کچھ بولنے کو منھ کھولا ہی تھا کہ اندر آنگن کا ٹٹر (لوہے کا جال) خوفناک آواز میں جھنجھنا اٹھا، جیسے کوئی بہت بھاری چیز اوپر سے پھینک دی گئی ہو اور پھر زور سے بجتی ہوئی کچھلی جیسے چیز آ گری، اس کے پیچھے چمٹا، سنڈاسی۔۔۔ اور پھر تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی بالٹی، کڑھائی، توا وغیرہ نکال نکال کر جال پر پھینک رہا ہے اور پانی اور چھوٹی موٹی چیزیں نیچے گر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اندر کچھ ایسا ہنگامہ اور کہرام سنائی دیا جیسے آگ لگ گئی ہو۔
گووند جھٹک کر سیدھا ہوگیا۔ کہیں سچ مچ آگ واگ تو نہیں لگ گئی؟ اس نے چونک کر سوالیہ نظروں سے لالہ جی کی طرف دیکھا اور حیرت سے گنگ رہ گیا۔ لالہ جی پریشان تو ضرور دکھائی دیتے تھے لیکن ایسی کوئی بات ان کے چہرے پر نہیں تھی کہ کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے اور انہیں دوڑ کر جانا چاہیے۔ مستری اور چوکیدار دونوں دبے دبے طنز کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے لالہ جی کی طرف نگاہیں پھینک رہے تھے۔ کسی کو کوئی خاص فکر نہیں تھی۔ اندر ہنگامہ بڑھ رہا تھا، چیزیں پھینکی جا رہی تھیں اور جال کی کھڑکھڑاہٹ اور جھنجھناہٹ گونجتی جا رہی تھی۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟ تجسس سے اس کی پسلیاں تڑخنے کوآنے لگیں۔ وہ لالہ جی سے پوچھنے ہی والا تھا کہ یہ سب کیا ہے، تبھی بڑی کوشش سے ہاتھ کی لکڑی پر سارا زور دے کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور گھسٹتے ہوئے جہاں سے آئے تھے اسی گلی میں چلے گئے۔ جاتے ہوئے پلٹ کر انہوں نے دھیرے سے کواڑ بند کر دیے۔
مستری اور چوکیدار نے سکون کا سانس لے کر بدن ڈھیلا کیا، ایک دوسرے کی طرف مسکراکر دیکھا، کھنکھارا اور پھر ایک بار کھل کر مسکرائے۔ لالہ جی کا پیچھا کرتی گووند کی نگاہ اب ان دونوں کی طرف مڑ گئی اور اب اس سے رہا نہیں گیا۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے مرغے کے پروں کی طرح کمبل کو بانہوں پر پھڑپھڑاکر لپیٹا اور اس رسالے کو دیکھتا ہوا چبوترے سے نیچے اتر آیا۔ تھوڑی دیر یوں ہی ادھیڑبن میں کھڑا رہا، پھر اس گلی کے دروازے تک گیا کہ کچھ سنائی دے۔ شوروغل میں چار پانچ آوازیں کواڑ کی جھری میں سے گھٹی گھٹی سنائی دیں اور ان میں سب سے تیز آواز وہی تھی جسے وہ لکشمی کی آواز سمجھتا تھا۔ ہے بھگوان، کیا ہو گیا؟ کہیں سے کوئی گرپڑا، آگ لگ گئی، سانپ بچھو نے کاٹ لیا؟ لیکن جس طر ح وہ لوگ بیٹھے دیکھ رہے تھے، اس سے تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ کم بخت کواڑ کیوں بند کر گیا؟ اس وقت لوہے کا جال اس طرح گھما گھم بج رہا تھا جیسے کوئی اس پر تانڈو نرت کر رہا ہو۔ اس اونچی، چیختی مہین آواز میں وہ ناری کنٹھ، جسے وہ لکشمی کی آواز سمجھتا تھا، اتنا تیز اور زور سے بول رہا تھا کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔
’’پریشان کیوں ہو رہے ہو بابوجی؟‘‘ چوکیدار کی آواز سن کر وہ ایک دم سیدھا کھڑا ہو گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا، ’’آج چنڈی آ رہی ہے!‘‘ اس کی اس بات پر مستری ہنسا۔ گووند بری طرح جھنجھلا اٹھا۔ کوئی اتنا بڑا حادثہ ہو رہا ہے اور یہ بدمعاش یوں مزہ لوٹ رہے ہیں! پھر بھی بے حد فکر مند اور متجسس سا ادھر مڑا۔
اس بڑے کمرے یا ہال میں ہر چیز پر آٹے کا مہین پاؤڈر چھایا ہوا تھا۔ ایک طرف آٹے نہائی چکی کالے پتھر کے بنے ہاتھی کی طرح چپ چاپ کھڑی تھی اور اس کا پسے آٹے کو سنبھالنے والا غلاف سونڈ کی طرح لٹکا ہوا تھا۔ اسی کی سیدھ میں دوسری دیوار کے نیچے موٹر لگی تھی جہاں سے ایک چوڑا پٹا چکی کو چلاتا تھا۔ اتنے حصے میں حفاظت کے لیے ایک رینگل لگا دیا گیا تھا۔ سامنے کی دیوار میں چپکے، لمبے چوڑے، لال چوکور تختے پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کے نیچے ’’خطرہ‘‘ اور ’’ڈینجر‘‘ کے الفاظ لکھے تھے۔ اس چبوترے کی بغل میں چھت سے آتی زنجیر میں ایک بڑی لوہے کی ترازو کتھا کلی کی مدرا میں ایک بانہہ اونچی کیے لٹکی ہوئی تھی، کیوں کہ دوسرے پلڑے میں من سے لے کر چھٹانک تک کے باٹوں کا ڈھیر لگا تھا۔
لالہ روپا رام اکثر چوکیدار کو ڈانٹتے تھے کہ رات میں اتار کر رکھ دیا کر، لیکن کسی کسی دن آدھی رات تک چکی چلتی اور دکان دفتر والے صبح پانچ بجے سے پھر آنے لگتے، اس وقت برف جیسی ٹھنڈی ترازو کو چھونا دلاور سنگھ کو زیادہ پسند نہیں تھا۔ وہ اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ لڑائی میں صبح ہی صبح ٹھنڈی بندوقیں لے کر کافی مارچ اور پریڈ کر لیا، اب کیا زندگی بھر ٹھنڈا لوہا چھونا ہی اس کی قسمت میں بدا ہے؟ اس لیے وہ ترازو کو ٹنگا ہی رہنے دیتا، حالانکہ ٹھیک بیچ میں ہونے کی وجہ سے وہ جب بھی دروازہ کھولنے اٹھتا تو خود ہی اس سے ٹکراتا، الجھتا اور رات کی تنہائی میں فوجی گالیوں کی استقبالیہ تقریر کرتا۔
پرانا کیلنڈر، ایک طرف پسائی کے لیے بھرا اناج یا پسے آٹے کے بورے، کنستر اور پوٹلیاں اور اوپر چڑھ کر اناج ڈالنے کا مضبوط سا اسٹول۔ اس وقت دونوں ٹانگیں، جن میں کیل دارفل بوٹ ڈٹے ہوئے تھے، زمین پر پھیلائے، مزے میں کھاٹ کی پٹی پر جھکا بیٹھا اپنا پرانا، پہلی لڑائی کے سپاہی پنے کی یادگار، گریٹ کوٹ چاروں طرف لپیٹے شان سے بیڑی پھونک رہا تھا اور سامنے بیٹھے مستری سلیم سے آہستہ آہستہ باتیں بھی کرتا جا رہا تھا۔
اس کے اور مستری سلیم کے بیچ میں ایک انگیٹھی جل رہی تھی۔ جب کبھی دھیان آ جاتا تو پاس رکھے کوئلے لکڑی کچھ ڈال دیتا اور کبھی کبھی نہایت بے دلی سے ہاتھ یا پاؤں اس سمت بڑھاکر گرمی لیتا۔ سلیم سر جھکائے، پانی کی بالٹی میں ٹیوب ڈبو ڈبوکر ان کے پنکچر دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس کے آس پاس دس بارہ کالے لال ٹیوب، ربر کی کترنیں، قینچی، پیچ، پلاس، سلوشن، چمڑے کی پیٹی اور ایک طرف ٹائر لٹکے دس بارہ سائیکل کے پہیوں کا ڈھیر تھا۔ اپنے اس سامان سے اس نے آدھے سے زیادہ کمرہ گھیر رکھا تھا۔
جب گووند اس کے پاس آیا تو وہ سر جھکائے جھکائے ہنستا ہوا ٹیوب کا پنکچر پکڑ کر کان میں لگی کاپی انگ پینسل کو تھوک سے گیلا کرتے ہوئے (حالانکہ ٹیوب بھیگا ہوا تھا اور سامنے بالٹی بھر پانی بھی رکھا تھا) نشان لگاتا ہوا جواب دے رہا تھا، ’’یہ کہا جمعدار صاحب نے، لالہ کچھ نانواں ڈھیلا کرے تو، اس کی لڑکی پر جن کا سایہ ہے، اس کا علاج تو ہم اپنے مولوی بدرالدین صاحب سے منٹوں میں کرا دیں۔‘‘
گووند کا ماتھا ٹھنکا۔ لالہ کی لڑکی پر کیا کوئی دیوی آتی ہے؟ اسے اپنے گاؤں کی ایک برہمنی بیوہ تارا کا ایک دم خیال آیا۔ اس پر بھی جب دیوی آتی تھی تو وہ گھر بھر کے برتن اٹھا اٹھاکر پھینکتی تھی، سارا بدن اینٹھنے لگتا تھا، منھ سے جھاگ آنے لگتے تھے، گردن مروڑ کھانے لگتی تھی، آنکھیں اور زبان باہر نکلنے لگتی تھی۔ کون لڑکی ہے لالہ کی؟ لکشمی تو نہیں؟ بھگوان کرے لکشمی نہ ہو! اس کا دل وسوسوں سے ڈوبنے لگا۔ اس نے سنا، ہنگامہ اب تھم گیا اور دور سے رہ رہ کر بس رونے کی ہلکی سی آواز سنائی دیتی تھی۔ شاید کسی کو دورہ وورہ ہی پڑ گیا ہے، جبھی یہ لوگ اتنے بےفکر ہیں۔
گووند کو سناکر چوکیدار بولا، ’’نانواں! تم بھی یار کسی دن بچارے بڈھے کا ہارٹ فیل کراؤگے اور بیٹا، اس جن کا علاج تمہارے مولوی کے پاس نہیں ہے، سمجھے؟ وہ تو ہوا ہی دوسری ہے۔ آؤ بابوجی، بیٹھو۔‘‘
چوکیدار نے بیٹھے بیٹھے اسٹول کی طرف اشارہ کیا۔ اصل میں یہ گووند کو بابوجی تو ضرور کہتا تھا لیکن اس کی کوئی خاص عزت نہیں کرتا تھا۔ ایک تو گووند قصبے سے آیا تھا اور اسے شہر میں چوکیداری کرتے کرتے ہو چکے تھے نقد بیس سال۔ دوسرے وہ فوج میں رہا تھا اور قاہرہ تک گھوم آیا تھا۔ عمر، تجربے، تہذیب، سبھی میں وہ خود کو گووند سے زیادہ ہی سمجھتا تھا لیکن گووند کواس وقت اس سب کا دھیان نہیں تھا۔ اس نے اسٹول سے ٹک کر ذرا سہارا لیتے ہوئے فکر مند لہجے میں پوچھا، ’’کیوں بھئی، یہ شورغل کیا تھا؟ کیا ہو رہا تھا؟‘‘
مستری نے سر اٹھاکر اسے دیکھا اور چوکیدار کی مسکراتی نظروں سے اس کی آنکھیں ملیں۔ اس نے اپنی کھچڑی مونچھوں پر ہتھیلی پھیرتے ہوئے کہا، ’’کچھ نہیں بابوجی، اوپر کسی بچے نے کوئی چیز گرا دی ہوگی۔‘‘ مستری نے کہا، ’’جمعدار صاحب، جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے؟ اب ان سے کیا چھپا رہےگا؟‘‘
’’تو خود کیوں نہیں بتا دیتا؟‘‘ چوکیدار نے کہا اور جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال لیا۔ کاغذ کو نوچ کر آٹے کی لوئی بنانے کی طرح اسے ڈھیلا کیا، پھر ایک بیڑی نکال کر مستری کی طرف پھینکی۔ دوسری کو دونوں طرف سے پھونکا اور جلانے کے لیے دہکتے کوئلے کی تلاش میں انگیٹھی میں نگاہیں گھماتے ہوئے ذرا مصروفیت کے ساتھ بات جاری رکھی، ’’تجھے کیا معلوم نہیں ہے؟‘‘
ان دونوں کی چہل سے گووند کی جھنجھلاہٹ بڑھ رہی تھی۔ اسے لگا، ضرور کچھ دال میں کالا ہے جسے یہ لوگ ٹال رہے ہیں۔ مستری زبان نکالے پنکچر کی جگہ کو ریگ مال سے گھس رہا تھا۔ وہ جب بھی کوئی کام یکسوئی سے کرتا تھا تو اپنی زبان نکال کر اوپر کے ہونٹ کی طرف موڑ لیتا۔ اس کی چندیا کے بیچ میں ابھرتے گنج کو دیکھ کر گووند نے سوچا کہ گنجاپن تو رئیسی کی نشانی ہے مگر یہ کم بخت تو آدھی رات میں یہاں پنکچر جوڑ رہا ہے۔ اس نے اسی طرح گردن جھکائے جھکائے کہا، ’’اب میں بابوجی کو قصہ بتاؤں یا ان ٹیوبوں سے سر پھوڑوں؟ سالے سڑ کر حلوہ تو ہوگئے ہیں، پر بدلے گا نہیں۔ من تو ہوتا ہے سب کو اٹھاکر اس انگیٹھی میں رکھ دوں۔ جو ہوگا صبح دیکھا جائےگا۔‘‘
’’یہ اتنے ٹیوب ہیں کاہے کے؟‘‘ ذرا اپنائیت جتانے کو گووند نے پوچھا، ’’حالت تو سچ مچ ان کی بڑی خراب ہو رہی ہے۔‘‘
’’آپ کو نہیں معلوم؟‘‘ اس بار مستری نے کام چھوڑ کر غور سے گووند کو دیکھا، ’’یہ آپ کے لالہ کے جو دو درجن رکشا چلتے ہیں، ان کا کوڑا ہے۔ یہ تو ہوتا نہیں کہ اتنے رکشا ہیں، روز ٹوٹ پھوٹ مرمت ہوتی رہتی ہے، ہمیشہ کے لیے لگالے ایک مستری، دن بھر کی چھٹی ہوئی۔ سو تو ہوگا نہیں۔ ٹیوب ٹائر میرے سر ہیں اور باقی ٹوٹ پھوٹ مستری علی احمد ٹھیک کرتے ہیں۔‘‘ پھر اس نے یوں ہی پوچھا، ’’آپ بابوجی، نئے آئے ہیں؟‘‘
’’ہاں، دو تین دن ہی تو ہوئے ہیں۔ میں یہاں پڑھنے آیا ہوں۔‘‘ گووند نے کہا۔ اس کے پیٹ میں کھلبلی مچ رہی تھی لیکن وہ نئے سرے سے پوچھنے کا بہانہ کھوج رہا تھا۔
’’تبھی تو!‘‘ مستری بولا، ’’تبھی تو آپ یہ سب پوچھ رہے ہیں۔ رات کو اس کا حساب رکھتے ہیں نا؟ ہاں، تھوڑے دنوں میں اپنے فرزند کو بھی آپ سے پڑھوائےگا۔‘‘ اپنے فرزند کے لفظوں میں جو طنز اس نے کیا تھا، اس سے خود ہی مزہ لے کر مسکراتے ہوئے اس نے چوکیدار کی دی ہوئی بیڑی سلگائی۔
’’ابے انہیں یہ سب کیا بتاتا ہے۔ وہ تو اس کے گاؤں ہی سے آئے ہیں۔ انہیں سب معلوم ہے۔‘‘ چوکیدار بولا۔
’’نہیں، سچ مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘ گووند نے ذرا یقین دہانی کے لہجے میں کہا، ’’ان لالہ کے تو پتا ہی یہاں چلے آئے تھے نا، سو ہم لوگوں کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ بتائیے نا، کیا بات ہے؟‘‘ وہ ذرا احترام اور خوشامد کے لہجے میں بولا۔ شاید اس کے تجسس اور بےقراری سے متاثر ہوکر مستری بولا، ’’اجی کچھ نہیں، لالہ کی بڑی لڑکی جو ہے نا، اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔ کوئی کہتا ہے اسے ہسٹیریا ہے، پر ہمارا تو قیاس یہ ہے کہ بابوجی، دورہ دورہ کچھ نہیں، اس پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔۔۔ اس بچاری کو تو کچھ ہوش رہتا نہیں۔‘‘
’’بیوہ ہے؟‘‘ جلدی سے بات کاٹ کر گووند دھک دھک کرتے دل سے پوچھ بیٹھا۔ ہائے، لکشمی ہی نہ ہو!
اس بار پھر دونوں کی نگاہوں کا آپس میں ٹکڑاکر مسکرانا اس سے چھپا نہ رہا۔ بیڑی کے لمبے کش کے دھویں کو جذب کرکے چوکیدار زبردستی گمبھیر بن کر بولا، ’’اجی اس نے اس کی شادی ہی کہاں کی ہے؟‘‘
’’نام کیا ہے؟‘‘ گووند سے نہ رہا گیا۔
’’لکشمی۔‘‘
’’لکشمی؟‘‘ اس کے منھ سے نکل گیا اور جیسے ایک دم اس کی ساری طاقت کسی نے کھینچ لی ہو۔ تجسس اور اشتعال سے تنا ہوا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ چوکیدار اس بار نہایت پراسرار انداز سے ہنسا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’اچھا، تم بھی جانتے ہو؟‘‘ گووند کے دل میں فطری سوال اٹھا، ’’اس کی عمر کیا ہے؟‘‘ لیکن چوکیدار نے پوچھا، ’’تو سچ مچ بابو جی، آپ ان کے گھر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟‘‘
’’نہیں تو بھائی! میں نے بتایا تو، ان کے بارے میں کچھ بھی قطعی نہیں جانتا۔‘‘ ایک طرح کی خودسپردگی کے انداز سے گووند بولا۔
’’لیکن لکشمی کا قصہ تو سارے شہر میں مشہور ہے۔‘‘ چوکیدار بولا، ’’آپ شاید نئے نئے آئے ہیں، یہی وجہ ہے۔‘‘ پھر مستری کی طرف دیکھ کر بولا، ’’کیوں مستری صاحب، تو بابو جی کو قصہ بتاہی دوں؟‘‘
’’ارے لو! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ اس میں چھپانا کیا! یہاں رہیں گے تو کبھی نہ کبھی جان ہی جائیں گے۔‘‘
’’اچھا تو پھر سن ہی لو یار، تم بھی کیا کہوگے۔۔۔‘‘ چوکیدار نے آنند میں آکر کہنا شروع کیا، ’’آپ شاید جانتے ہیں، یہ ہمارا لالہ شہر کا مشہور کنجوس اور مشہور رئیس ہے۔۔۔‘‘
’’لامحالہ، جو کنجوس ہوگا وہ رئیس تو ہوگا ہی۔‘‘ مستری بولا۔
’’نہیں مستری صاحب، پورا قصہ سننا ہو تو بیچ میں مت ٹوکو!‘‘ چوکیدار اس مداخلت پر ناراض ہو گیا۔
’’اچھا اچھا، سناؤ!‘‘ مستری بڈھوں کی طرح مسکرایا۔
’’اس کی یہ چکی ہے نا، شادی بیاہ کے دنوں میں اس پر ہزاروں من پستا ہے۔ ویسے بھی دوڈھائی سو من تو کم سے کم پستا ہی ہے روز۔ افسروں اور کلرکوں کو کچھ کھلا پلاکر لڑائی کے زمانے میں اسے ملٹری کے کچھ ٹھیکے مل ہی جاتے تھے۔ آپ جانو، ملٹری کا ٹھیکہ تو جس کے پاس آیا سو بنا۔ آپ ان دنوں دیکھتے لکشمی فلورمل کے بلے۔ بورے یوں چنے رہتے تھے جیسے مورچے کے لیے بالو بھر بھر کر رکھ دیے ہوں۔ اس میں اس نے خوب روپیہ پیٹا۔ ملٹری کو گیہوں بیچ دی اونے پونے بھاؤ، اور ردی والی خرید کر کوٹا پورا کیا۔ اس میں کھریا ملا دیا۔ پسائی کے الٹے سیدھے پیسے تو مارے ہی، بلیک، چار سوبیسی، چوری، کیا کیا اس نے نہیں کیا؟ اس کے علاوہ ایک بہت بڑی صابن کی فیکٹری اور کافی بڑا جوتوں کا کارخانہ بھی اس کا ہے۔ اسے اس کے بیٹے سنبھالتے ہیں۔
پچیس تیس رکشے اور پانچ موٹر ٹرک چلتے ہیں۔ دس بارہ سے زیادہ اس کے مکان ہیں جن کا کرایہ آتا ہے۔ روپے سود پر دیتا ہے۔ شاید گاؤں میں بھی کافی زمین اس نے لے رکھی ہے۔ ایک کام ہے سالے کا؟ اتنا تو ہمیں پتا ہے، باقی اس کی اصل آمدنی تو کوئی بھی نہیں جانتا۔ کچھ نہ کچھ کرتاہی رہتا ہے۔ بھگوان ہی جانے! رات دن کسی نہ کسی تگڑم میں لگاہی رہتا ہے۔ کروڑوں کا اسامی ہے اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ صرف اسی پچیس چھبیس سال میں جمع کی ہوئی رقم ہے۔‘‘
چوکیدار دلاور سنگھ ملٹری میں رہ آنے کی وجہ سے خوب باتونی تھا اور مورچے کے اپنے افسروں کے قصے اور اپنی بہادری کے کارنامے خوب نمک مرچ لگاکر اتنی بار سنا چکا تھا کہ اسے کہانی سنانے کامحاورہ ہو گیا تھا۔ ہر بات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات بدلتے رہتے تھے۔
اس کی باتیں غور اور دلچسپی سے سنتے ہوئے بھی گووند کے دل سے ایک بات ٹکرائی، لکشمی کو دورے پڑتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے جو یہ نشان لگاکر بھیجے ہیں، یہ بھی دورے ہی کی حالت میں لگائے ہوں اور ان کا کوئی خاص گہرا مطلب نہ ہو؟ اس بات سے اسے سچ مچ بڑی مایوسی ہوئی، پھر بھی اس نے اوپر سے حیرت ظاہر کرتے ہوئے پوچھا، ’’صرف پچیس چھبیس سال؟‘‘ نئی بیڑی جلاتے ہوئے چوکیدار نے ذرا زور سے سرہلایا۔ گونند نے سوچا، اور لکشمی کی عمر کیا ہوگی؟
’’اور کنجوسی کی حد تو آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی۔ بڈھا ہو گیا ہے، سانس کا روگ ہو رہا ہے، سارا بدن کانپتا ہے لیکن ایک پیسے کا بھی فائدہ دیکھےگا تو دس میل دھوپ میں ہانپتا ہوا پیدل جائےگا۔ کیا مجال جو سواری کر لے! گرمی آئی تو پورا بدن ننگا، کمر میں دھوتی آدھی پہنے آدھی لپیٹے۔ جاڑا آیا تو یہی ڈریس۔ اس میں پچھلے دس سال سے تو میں دیکھ رہا ہوں۔ کبھی کسی مکان کی مرمت نہ کرانا، سفیدی صفائی نہ کرانا اور ہمیشہ یہی دھیان رکھنا کہ کون کتنی بجلی خرچ کر رہا ہے، کہاں بے کار نل یا پنکھا چل رہا ہے۔ لڑکا ہے سو اسے مفت کے چنگی اسکول میں ڈال دیا ہے، لڑکی گھر پر بٹھا رکھی ہے۔ ایک ایک پیسے کے لیے گھنٹوں رکشا والوں، ٹرک والوں سے لڑنا، بحثیں کرنا اور چکی والوں کا ناک میں دم کیے رکھنا، انہیں دن رات یہ سکھانا کہ کس چالاکی سے آٹا بچایا جا سکتا ہے۔
بیسیوں روپے کا آٹا روز ہوٹل والوں کو بکتا ہے سو الگ۔ جس دن سے چکی کھلی ہے، گھر کے لیے تو آٹا بازار سے آیاہی نہیں۔ آپ یقین کیجیے، کم سے کم بارہ پندرہ ہزار کی آمدنی ہوگی لیکن صورت دیکھیے، مکھیاں بھنکتی رہتی ہیں۔ کسی آنے جانے والے کے لیے ایک کرسی تک نہیں، پان سپاری کی بات ہی الگ رہی۔ کون کہہ دےگا کہ یہ پیسے والا ہے؟ یہ عمر ہونے آئی، صبح سے شام تک بس پیسے کے پیچھے ہائے ہائے۔ دنیا کے کسی اور کام سے مطلب ہی نہیں۔ سبھا سوسائٹی ہو، ہڑتال ہو، چھٹی ہو، کچھ ہو، لیکن لالہ روپارام اپنی ہی دھن میں مست۔ نوکروں کو کم سے کم دینا پڑے، اس لیے خود ہی ان کے کام کو دیکھتا ہے۔ مجھ سے تو کچھ اس لیے نہیں کہتا کہ مجھ پر تھوڑا اعتبار ہے۔ دوسرے میری ضرورت سب سے بڑی ہے۔ لیکن باقی ہر نوکر روتا ہے اس کے نام کو۔ او رمزہ یہ کہ سب جانتے ہیں کہ جھکی ہے۔ کوئی اس کی بات کو دھیان سے سنتا نہیں۔ بعد میں سب اس کا نقصان کرتے ہیں۔ آس پاس کے سبھی ہنستے اور گالیاں دیتے ہیں۔۔۔‘‘
’’بچے کتنے ہیں؟‘‘ چوکیدار کو ان بے کار کی باتوں میں بہکتا دیکھ کر گووند نے سوال کیا۔
’’اسی بات پر آتا ہوں۔‘‘ چوکیدار اطمینان سے بولا، ’’سچ بابوجی، میں یہ دیکھ دیکھ کر حیران ہوں کہ اس عمر تک تو اس نے یہ دولت جٹائی ہے، اب اس کا یہ کم بخت کرےگا کیا؟ لوگ جمع کرتے ہیں کہ بیٹھ کر آرام سے بھوگیں، لیکن یہ راکشس تو جمع ہی کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اسے جمع کرنے کی ایسی ہائے ہائے رہی ہے کہ دولت کس لیے جمع کی جاتی ہے، اس بات کو بچارا بالکل ہی بھول گیا ہے۔‘‘ پھر بڑے مفکرانہ اور فلسفیانہ موڈ میں دلاور سنگھ نے آگ والی راکھ کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’اس عمر تک تو اسے جوڑنے کی ایسی ہوس ہے، اب یہ اس کا بھوگ کب کرےگا؟ سچ مچ بابوجی، جب کبھی میں سوچتا ہوں تو بچارے پر بڑی دیا آتی ہے۔
دیکھو آج کی تاریخ تک یہ بچارا بھاگ دوڑ کر، لو دھوپ کی فکر چھوڑ کر جمع کیے جا رہا ہے۔ ایک پائی اس میں سے کھا نہیں سکتا، جیسے کسی دوسرے کا ہو۔ جب مان لیجیے کل یہ مر جاتا ہے، تو یہ سب کس کے لیے جمع کیا ہے؟ بچارے کے ساتھ کیسی لاچاری ہے۔ مرکر، جی کر، نوکر کی طرح جمع کیے جا رہا ہے۔ نہ خود کھا سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے کہ دوسرا چھو بھی لے۔ جیسے دھن کے اوپر بیٹھا سانپ۔ خود اسے کھا نہیں سکتا، کھانے تو خیر دے گا ہی کیا! اس کی رکھوالی کرنا اور جوڑنا۔۔۔‘‘
اور لالہ روپارام کے لیے ہمدردی سے مغلوب ہوکر چوکیدار نے ایک گہری سانس لی۔ پھر دوسرے ہی لمحے دانت کٹکٹاتا ہوا بولا، ’’اور کبھی کبھی من ہوتا ہے، چھرا لے کر سالے کی چھاتی پر جا چڑھوں اور مربے کے آم کی طرح گوددوں۔ اپنے پیٹ میں جو اتنا دھن بھر رکھا ہے، اس کی ایک ایک پائی اگلوا لوں۔ چاہے خود نہ کھائے لیکن اپنے بچوں کو بھی کھلا پلا نہیں سکتا، اس دھن کا کیا ہوگا؟‘‘
’’اس کے بچے کتنے ہیں؟‘‘ اس بار گووند بےتاب ہو اٹھا۔ اصل میں وہ چاہتا تھا کہ اس تقریر کو چھوڑ کر وہ جلد سے جلد اصل موضوع پر آ جائے، لکشمی کے بارے میں بتائے۔ تفصیل میں بہہ جانے کی اپنی کمزوری پر چوکیدار مسکرایا اور بولا، ’’اس کے بچے ہیں چار۔ بیوی مر گئی۔ باقی کسی ناتے دار کو جھانکنے نہیں دیتا۔ اوپر کوئی نوکر بھی نہیں ہے۔ بس ایک مری سی بڑھیا پال لی ہے۔ لوگ بڑے بھائی کی بیوی بتاتے ہیں۔ بس وہی ساری دیکھ بھال کرتی ہے اور تو کسی کو میں نے ساتھ دیکھا نہیں۔ خود، تین لڑکے اور ایک لڑکی۔۔۔‘‘
’’بڑے دو لڑکے تو ساتھ نہیں رہتے۔‘‘ اس بار مستری بولا۔
’’ہاں، وہ لوگ الگ رہتے ہیں۔ دن میں ایک آدھ چکر لگا جاتے ہیں۔ ایک جوتے کا کارخانہ دیکھتا ہے، دوسرا صابن کی فیکٹری سنبھالتا ہے۔ شام کو پابندی سے وہاں جاتا ہے وصولی کرنے۔ لیکن لڑکے بھی بڑے تیز ہیں۔ ذرا شوقین طبیعت پائی ہے۔ اس کے مرتے ہی دیکھ لینا مستری، وہ اس کی ساری کنجوسی نکال ڈالیں گے۔‘‘ پھر یاد کرکے بولا، ’’اور کیا کہا تم نے؟ ساتھ رہنے کی بات، سو بھیا، جب تک اکیلے تھے تب تک تو کوئی بات ہی نہیں تھی، لیکن اب تو ان کی بیویاں آگئی ہیں نا۔ ایک کے بچہ بھی آ گیا ہے گھر میں، سو اسے گودی میں لٹکائے پھرتا ہے۔ اس کے گھر میں ایک چنڈی جو ہے نا، اس کے ساتھ سب کا نبھاؤ نہیں ہو سکتا۔‘‘
ایک دم گووند کے ذہن میں آیا۔۔۔ لکشمی اور وہ اوپر سے نیچے تک کانپ اٹھا، ’’کون؟ لکشمی؟‘‘
’’جی ہاں، اسی کی بدولت تو یہ سارا کھیل ہے۔ وہی تو اس خزانے کی چابی ہے۔ وہ نہ ہوتی تو یہ سب تام جھام آتا کہاں سے؟ اس نے تو ان کے دن ہی پلٹ دیے، نہیں تو تھا کیا اس کے پاس؟‘‘ اس بار چوکیدار نے یہ بات ایسے لٹکے سے کہی جیسے سچ مچ کسی راز کی کنجی ہو۔
’’کیسے بھائی، کیسے؟‘‘ گووند پوچھ بیٹھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا۔ یہ کیا معمہ ہے؟ ایک پل کو اس کے دماغ میں آیا، کہیں یہ روپیہ کمانے کے لیے لکشمی کااستعمال نہیں کرتا؟ راکشس! چنڈال!
اس کی بےقراری پر چوکیدار پھر مسکرایا اور بولا، ’’باپ تو اس کا ایسا رئیس تھا بھی نہیں۔ پر وہ کچی گرہستی چھوڑ کر مر گیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ ہزار ہزار روپیہ دونوں بھائیوں کے پلے پڑا ہوگا۔ شادیاں دونوں کی ہو چکی تھیں۔ کچھ کاروبار کھولنے کے خیال سے یہ سٹے میں اپنے روپے دونے چوگنے کرنے پہنچا تو سارے گنوا آیا۔ بڑے بھیا رو چورام نے ایک پن چکی کھول لی۔ پہلے تو اس کی بھی حالت ڈانو ڈول رہی تھی لیکن سنتے ہیں کہ جب سے اس کی لڑکی گوری پیدا ہوئی، اس کی حالت سنبھلتی ہی چلی گئی۔ یہ اسی کے یہاں کام کرتا تھا۔ میاں بیوی وہیں پڑے رہتے۔ ایساکچھ اس لڑکی کا پاؤں آیا کہ لالہ روچورام سچ مچ کے لالہ ہو گئے۔
ان لوگوں کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ لڑکی ان کے خاندان میں بھاگوان ہوتی ہے۔ اب تو یہ اپنا لالہ کبھی اس اوجھا کے پاس جا، کبھی اس پیر کے پاس جا، کبھی اس کی مانتا، کبھی اس کی خدمت۔ دن رات بس یہی کہ ہے بھگوان، میرے لڑکی ہو اور پتا نہیں کیسے، بھگوان نے سن لی اور لڑکی ہی آئی۔ آپ یقین نہیں کریں گے، پھر تو سچ مچ ہی روپا رام کے نقشے بدلنے لگے۔ پتا نہیں گڑا ہوا ملایا چھپر پھاڑ کر ملا، لالہ روپارام کے ستارے پھر گئے۔۔۔ اسے یقین ہونے لگا کہ یہ سب اسی کی کرپا ہے او رحقیقت میں یہ کوئی دیوی ہے۔ اس نے اس کا نام لکشمی رکھا، اور صاحب، کہنا پڑےگا کہ وہ سچ مچ لکشمی ہی بن کر آئی۔
تھوڑے ہی دنوں میں لکشمی فلور مل الگ بن گئی۔ اب تو اس کا یہ حال ہے کہ مٹی بھی چھودے تو سونا بن جائے اور کنکر کو اٹھالے تو ہیرا دکھے۔ پھر آ گئی لڑائی اور اس کے پنجے چھکے ہو گئے۔ ٹھیکے ملنے لگے۔ سمجھیے ایک کے بعد ایک مکان خریدے جانے لگے۔ سامان لانے لے جانے والے ٹرک آئے۔ ادھر روچورام بھی پھل رہا تھا اور دونوں بھائی فخر سے کہتے تھے، ہمارے یہاں لڑکیاں لکشمی ہی بن کر آتی ہیں۔ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ تصویر کی شکل بدل گئی۔‘‘
چوکیدار دلاور سنگھ جانتا تھا کہ یہ اس کی کہانی کا کلائمکس ہے، اس لیے سامعین کے تجسس کو جھٹکا دینے کے لیے اس نے انگلیوں میں دبی ختم ہوتی بیڑی کو دوتین کش لگاکر ختم کیا اور بولا، ’’گوری شادی لائق ہو گئی تھی۔ شاید کسی پڑوسی لڑکے کے نام سے کچھ ایسی ویسی باتیں بھی روچورام نے سنیں۔ لوگوں نے بھی انگلیاں اٹھانا شروع کر دیا تو انہوں نے گوری کی شادی کر دی۔ بس، اس کی شادی ہونا تھی کہ جیسے ایک دم سارا کھیل بگڑ گیا۔ اس کے جاتے ہی لالہ ایک بہت بڑا مقدمہ ہار گئے، اور بھگوان کی لیلا دیکھیے، انہیں دنوں اس کی پن چکی میں آگ لگ گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ کسی دشمن کا کام تھا۔ جو بھی ہو، بڑے ہاتھی کی طرح جو ایک بارگی گرے تو اٹھنا دشوار ہو گیا۔ لوگ روپے داب گئے اور ان کا دوالا نکل گیا۔ دوالا کیا جی، ایک طرح سے بالکل ملیامیٹ ہو گئے، سب کچھ چوپٹ ہو گیا اور چھلا چھلا تک بک گیا۔
ایک دن لالہ جی کی لاش تالاب میں پھولی ہوئی ملی۔ اب تو ہمارے لالہ روپا رام کو سانپ سونگھ گیا۔ ان کے کان کھڑے ہوئے اور لکشمی پر پہرا بٹھا دیا گیا۔ اسے اسکول سے ا ٹھا لیا گیا اور وہ دن اور آج کا دن، بچاری نیچے نہیں اتری۔ گھر کے اندر نہ کسی کو آنے دیتا ہے، نہ اسے باہر جانے دیتا ہے۔ ماسٹر رکھ کر پڑھانے کی بات پہلے اٹھی تھی لیکن جب سنا کہ ماسٹر لوگ لڑکیوں کو بہکاکر بھگا لے جاتے ہیں تو وہ خیال ایک دم چھوڑ دیا گیا۔ لکشمی خوب روئی پیٹی، لیکن اس راکشس نے اسے بھیجا ہی نہیں۔ سنتے ہیں لڑکی دیکھنے دکھانے لائق۔۔۔‘‘
بات کاٹ کر مستری بولا، ’’ارے دیکھنے دکھانے لائق کیا، ہم نے خود دیکھی ہے۔ جدھر سے نکل جاتی، ادھر بجلی سی کوند جاتی۔ سو میں ایک۔۔۔‘‘
اس کی بات کی مخالفت نہ کرکے، یعنی تائید کرکے، چوکیدار بولا، ’’اسکول میں بھی سنتے ہیں بڑی تعریف تھی لیکن سب کی سالے نے ریڑھ کر دی۔ اسے یہ یقین ہو گیا کہ یہ لڑکی سچ مچ لکشمی ہے اور جب یہ دوسرے کی ہو جائےگی تو ایک دم اس کا بھی ستیاناس ہو جائےگا۔ اسی ڈر سے نہ تو کسی کو آنے جانے دیتا ہے اور نہ اس کی شادی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات پر پولیس کے سپاہی کی طرح نظر رکھتا ہے۔ اس کی ہر بات مانتا ہے، بری طرح اس کی عزت کرتا ہے، ہرضد پوری کرتا ہے لیکن نکلنے نہیں دیتا۔ لکشمی سولہ کی ہوئی، سترہ کی ہوئی، اٹھارہ، انیس۔۔۔ سال پر سال بیت گئے۔ پہلے تو وہ سب سے لڑتی تھی، بڑی چڑچڑی اور ضدی ہو گئی تھی۔ کبھی کبھی سب کو گالی دیتی اور مار بھی بیٹھتی تھی۔ پھر تو معلوم نہیں کیا ہوا کہ گھنٹوں رات رات بھر پڑی زور زور سے روتی رہتی، پھر اسے دورہ پڑنے لگتا۔۔۔‘‘
’’اب کیا عمر ہے؟‘‘ گووند نے بیچ میں پوچھا۔
’’اس کی ٹھیک عمر تو کسی کو پتا نہیں لیکن اندازے سے پچیس چھبیس سے کم کیا ہوگی۔‘‘ نفرت سے ہونٹ ٹیڑھے کرکے چوکیدار نے اپنی بات جاری رکھی، ’’دورہ نہ پڑے تو بچاری جوان لڑکی کیا کرے! ادھر پانچ چھ سال سے تو یہ حال ہے کہ دورے میں گھنٹے دو گھنٹے بالکل پاگل ہو جاتی ہے۔ اچھلتی کودتی ہے، بری بری گالیاں دیتی ہے، بےمطلب روتی ہنستی ہے، چیزیں اٹھا اٹھاکر ادھر ادھر پھینکتی ہے، جو چیز سامنے ہو اسے توڑ پھوڑ دیتی ہے، بے مطلب روتی ہنستی ہے، چیزیں اٹھا اٹھاکر ادھر ادھر پھینکتی ہے، جو چیز سامنے ہو اسے توڑ پھوڑ دیتی ہے، جو ہاتھ آتا ہے اس سے مارپیٹ شروع کر دیتی ہے اور سارے کپڑے اتار کر پھینک دیتی ہے، بالکل ننگی ہو جاتی ہے اور رانیں اور چھاتی پیٹ پیٹ کر باپ سے کہتی ہے، لے، تونے مجھے اپنے لیے رکھا ہے، مجھے کھا، مجھے بھوگ! وہ پٹتا ہے، گالیاں کھاتا ہے اور سب کچھ برداشت کرتا ہے لیکن پہرے میں ذرا ڈھیل نہیں ہونے دیتا۔ چپ چاپ سرپر ہاتھ رکھے بیٹھا سنتا رہتا ہے۔ کیا زندگی ہے بچاری کی! باپ ہے سو اسے بھوگ نہیں سکتا اور چھوڑ تو سکتا ہی نہیں۔ میری تو عمر نہیں رہی، ورنہ کبھی من ہوتا ہے لے جاؤں بھگاکر، ہوگا سو دیکھا جائےگا!‘‘ اور ایک گہرے رنج سے مسکراتا ہوا چوکیدار دیر تک آگ کو دیکھتا رہا۔ پھر دھیرے سے ہونٹ چباکر بولا، ’’اس کی تو بوٹی بوٹی گرم لوہے سے داغی جائے اور پھر باندھ کر گولی سے اڑا دیا جائے۔‘‘
گووند کا بھی دل بھاری ہو اٹھا تھا۔ اس نے دیکھا، بڈھے چوکیدار کی آنکھوں میں سامنے کی انگیٹھی کی دھندلی آگ کی پرچھائیں جھلملا رہی ہے۔
آدھی رات کو اپنی کوٹھری میں لیٹے، لکشمی کے بارے میں سوچتے ہوئے، موم بتی کی روشنی میں اس کی ساری باتوں کی ایک ایک تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو گئی اور پھر اس نے اندھیرے کی چار دیواری سے گھری، گرم گرم آنسو بہاتی موم بتی کی روشنی میں نشان زد کی ہوئی سطریں پڑھیں،
’’میں تمہیں جان سے بڑھ کر پیار کرتی ہوں۔۔۔‘‘
’’مجھے یہاں سے بھگا لے چلو۔۔۔‘‘
’’میں پھانسی لگاکر مر جاؤں گی!‘‘
گووند کے دل میں اپنے آپ ایک سوال اٹھا، کیا میں پہلا آدمی ہوں جو اس پکار کو سن کر ایسا بےقرار ہو اٹھا ہے، یا اوروں نے بھی اس آواز کو سنا ہے اور سن کر اَن سنا کر دیا ہے؟ اور کیا سچ مچ جوان لڑکی کی آواز کو سن کر اَن سنا کیا جا سکتا ہے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.