Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جلے مکان کے قیدی

مدرا راکشس

جلے مکان کے قیدی

مدرا راکشس

MORE BYمدرا راکشس

    کسی جلی ہوئی عمارت میں قیدی ہونا ایک عجیب تجربہ ہوتا ہے۔ ہم لوگ ایسی ہی عمارت میں تھے۔ اس کے مالک کو میں جانتا تھا۔۔۔ م نسیم۔

    1975میں اندرا گاندھی نے جب اس ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی، ان دنوں انہیں اس بری طرح ذلیل کیا گیا تھا کہ دوبارہ انہیں کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ ایک افواہ اڑی کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ زیارت کو نکلے تھے اور آج بھی درگاہوں میں سے کسی میں نظر آ جاتے ہیں۔ جنہوں نے انہیں درگاہوں میں بھٹکتے دیکھا تھا، انہوں نے ان کی صورت کو بھی کافی بدل دیا تھا۔ بہترین ترشی ہوئی صاف چمکیلی کالی داڑھی کی جگہ الجھی ہوئی بےترتیب اور سن سفید داڑھی مونچھیں، پتلون، کوٹ، ویسٹ کوٹ اور عمدہ ٹائی کی جگہ کالا چوغہ، وغیرہ۔

    پر یہ سب بہت پہلے کی بات ہے۔ دھیرے دھیرے م نسیم بالکل بھلا دیے گئے۔

    اسی عمارت میں ان کا چکن کے کپڑوں کا کافی بڑا کاروبار تھا۔ کام کچھ دن ان کی بیوی اور ان کے نوکر دیکھتے رہے، بس اتنا اب لوگ جانتے تھے۔

    نسیم یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھے۔ انگریزی اور فلسفہ ہم لوگ ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، پردوستی زیادہ گہری نہیں تھی۔

    اس جلی ہوئی عمارت میں داخل ہوتے ہی م نسیم کی یاد آئی تھی۔۔۔ بہت چپ۔ چہرے پر نہ مسکراہٹ نہ غصہ۔ بہت گورا چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں۔ نہ تجسس نہ بے حسی۔ بہت ملائم آواز، جیسے شہد میں لپٹے ہوئے کانچ کے پاردرشی کھلونے ہوں۔

    یہ سب کوئی بہت ترتیب سے یاد نہیں آیا تھا۔ اس وقت ہم سب کے چہروں پر ایک زبردست تناؤ تھا۔ میری ایک بانہہ چوٹ سے لگ بھگ جھول گئی تھی اور دوسرے ہاتھ کی دو انگلیاں، جو جوتے سے دباکر مسلی گئی تھیں، اس طرح جل رہی تھیں کہ دوسرے کی حالت کا صحیح اندازہ لگا پانا ہی مشکل تھا۔ یہاں قید کیے جانے سے پہلے ہم لوگ ایک برباد کیے گئے کارخانے کے گودام میں رکھے گئے تھے، جہاں سانس لینا بھی مشکل تھا۔ اس سے یہ جگہ بہتر تھی۔ م نسیم کے اس مکان کو میں نے پہچان لیا تھا۔ شاید کچھ اچھا بھی لگا کہ یہ لوگ ایک جانے پہچانے مکان میں لے آئے۔

    مکان کے آس پاس کی چہاردیواری بہت اونچی تھی۔ اس میں رہنا زیادہ تکلیف دہ نہ ہوتا اگر ہم لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہ ہوتی۔ کمروں سے گھرا کافی بڑا ایک آنگن بھی تھا لیکن اس کا استعمال مشکل تھا، کیونکہ موسم بارش کا تھا۔ بارش تھم جانے پر تھوڑی ہی دیر بعد اتنی زیادہ امس ہو جاتی تھی کہ ہم لوگ پسینے سے تر ہو جاتے تھے۔

    ان لوگوں نے چونکہ کھڑکیوں کی جلی ہوئی چوکھٹوں پر مضبوط کیلوں سے موٹے موٹے تختے جڑ دیے تھے، اس لیے اندر بےپناہ بدبو بھرنے لگی تھی۔ چھت پر پنکھے تھے مگر جو آگ لگائی گئی ہوگی وہ اتنی بھیانک تھی کہ پنکھے پگھل گئے تھے اور ڈینے لٹک آئے تھے۔ چھت تک گئی سیڑھیوں کا دروازہ بھی تختے جڑ کر بند کر دیا گیا تھا۔

    یوں تو ان کمروں میں اجالا آنے کی گنجائش بچی ہی نہیں تھی، پر رات ہوتے ہوتے کمرے اور کالے پڑ گئے تھے، کیونکہ دیواروں پر دھواں جما ہوا تھا۔ ایسے میں لگتا تھا جیسے چھت پر بدمعاش گدھ آ بیٹھے ہوں، ہم میں سے کسی کو بھی بےخبر پاکر حملہ کرنے کو تیار۔

    یہاں لاکر قید کیے جانے کے بعد کچھ دیر ہم لوگ چاروں طرف اٹے پڑے جلے سامان کا کوڑا دھیرے دھیرے الٹتے پلٹتے رہے۔ جلے کاغذ، کوئلے اور کپڑوں کے بیچ سے کوئی ٹکڑا ایسا بھی نکل آتا تھا جو جلنے سے بچ گیا ہو۔ اسی کالے کوڑے میں ایک کتاب بھی ملی، کافی جلی ہوئی۔ دراصل وہ کتاب نہیں، جلد بندھا ہوا مسودہ تھا۔ سرخ اور کالی سیاہی سے ناگری لپی میں لکھی وہ جیوتش کی ایک کتاب تھی، جو ضرور م نسیم کے ذخیرے کی باقیات ہوگی۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہیں پڑا تھا، پر ہم سب بری طرح تھکے ہوئے تھے، اس لیے بھی کہ پچھلی رات میں ہم میں سے شاید ہی کسی کو بیٹھنے کا موقع ملا ہو۔ اس بیچ کھانا بھی شاید ہی کسی نے کھایا ہو۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ اندھیرے میں ہی گھروں سے اٹھا لیے گئے تھے۔ چونکہ آگ کی وجہ سے وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو کالا نہ ہو گیا ہو، اس لیے اندھیرا اترتے ہی ایسا لگا جیسے رات بہت تیزی سے گہری ہو گئی۔

    اس اندھیرے میں ایک دہشت بھی جڑگئی تھی۔ ہمیں اندر ڈھکیلنے کے بعد جب بہت پھرتی سے دروازے پر بھی بہت موٹے موٹے تختے جڑے جانے لگے تو ہم نے دیکھا، ان لوگوں میں سے ایک لوہے کا ایک ٹین چہار دیواری کے پاس پٹک گیا تھا۔ ٹین میں مٹی کا تیل ہے، یہ ہمیں جلدی ہی پتا لگ گیا تھا، کیونکہ اس کی گندھ تیزی سے چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ اس ٹین کو ہم لوگ بہت دیر تک گھورتے رہے تھے، بلکہ جب دروازہ ان تختوں سے پوری طرح بند ہو گیا تو بھی ہم لوگ سناٹے میں آئے دیر تک کھڑے رہے تھے۔

    دراصل بنا کچھ بولے ہم لوگوں میں سے ہر کسی نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ ہم لوگوں کے باہر نکلنے کا راستہ پوری طرح بند ہو جانے کے بعد وہ لوگ ٹین کا یہ تیل چاروں طرف چھڑک کر ایک بار پھر آگ لگا دیں گے۔ دروازے کے قریب کھڑے لگ بھگ سبھی لوگوں نے یہ تصور کیا ہوگا، کیونکہ تھوڑی دیر میں اس بدبو کے اور بڑھتے ہی وہاں ایک ہلچل ہوئی۔ سبھی لوگ پیچھے ہٹنے لگے۔

    میں نے تصور کیا کہ اس طرح آگ لگا دیے جانے پر مجھے کیا کرنا ہوگا۔

    م نسیم کا مکان میں نے کبھی اندر سے نہیں دیکھا تھا۔ کیا اس میں کوئی چور دروازہ بھی ہوگا؟ کیا چھت سے بچ نکلنے کا کوئی دروازہ بھی ہوگا؟ میں نے سوچا، اگر مٹی کا تیل دروازے سے اندر نہیں آتا تو اندر تھوڑی دیر زندہ رہنے کا موقع ضرور ملےگا۔

    لوگ دہشت کے پہلے دھکے میں پیچھے ہٹے ضرور لیکن پھر ٹھٹک گئے تھے۔ ایک تو اس لیے بھی کہ پیچھے ہٹ سکنے کی زیادہ گنجائش نہیں تھی اور کچھ اس لیے بھی کہ اب تک جو کچھ ہو چکا تھا، اس نے ہمارے ڈر کو بھی کسی قدر تھکا دیا تھا۔ بہت زیادہ لمبے محسوس ہونے والے کچھ منٹوں کے بعد ہی ہمیں پتا لگا کہ صورتِ حال کچھ اور تھی۔ آس پاس کہیں بھی روشنی نہیں تھی اور وہ لوگ کہیں سے مٹی کے تیل کی لالٹینیں لے آئے تھے۔ باہر کسی کی آواز بھی سنائی دی تھی، ’’ابے اتنے بڑے مکان میں آٹھ لالٹینوں سے کیا ہوگا؟‘‘

    کسی نے دور سے جواب دیا، ’’اتنی ہی ملی ہیں اور جگہ بھی تو ضرورت ہے۔‘‘

    ’’سالے اتنی بڑی تعداد میں سؤر بھرے ہیں اس میں۔‘‘

    ’’کوئی حرام زادہ ٹانگ بھی باہر نکالے تو کاٹ کر پھینک دینا۔‘‘ دوسرے نے اس طرح کہا جیسے اپنے ساتھیوں سے زیادہ ہمیں سنانا چاہ رہا ہو۔

    ‘‘ ویسے صبح تک اور انتظام ہو جائےگا، اس وقت کام چلا لو۔‘‘

    ’’کام تو چل ہی جائےگا۔‘‘ پہلا پھر بولا، ’’یہ لالٹینیں بھی نہ ہوتیں تو بھی کام چلا لیتے۔ تیندوے کی آنکھیں ہیں، اندھیرے میں بھی دیکھ لیں گے۔‘‘ کوئی تیسرا تھوڑی اور دور سے ایک فحش ہنسی ہنس کر بولا، ’’ان حرامیوں کو تو ہم سونگھ کر بھی جان لیتے ہیں۔ سیکولر سالا دور سے ہی مسلے کی داڑھی کی طرح مہکتا ہے۔‘‘

    اس بات پر باہر بہت سے لوگ ہنسے، پھر انہیں میں سے کسی نے ٹکڑا لگایا، ’’داڑھی! کہاں کی داڑھی؟‘‘ اس پر بھی وہ لوگ اس طرح ہنسے جیسے کوئی بہت ہی عمدہ قسم کا مذاق کیا گیا ہو۔

    اب تک اتنا کچھ ہو چکا تھا کہ لفظ ہمیں تکلیف پہنچانے میں بالکل ہی ناکام ہو رہے تھے، بلکہ اس بیچ چونکہ ہمیں یہ احساس ہو چکا تھا کہ وہ فی الحال ہمیں زندہ جلانے نہیں جا رہے تھے، اس لیے ہمارا گہرا ہوتا تناؤ پھر تھم گیا تھا۔

    اتنی عجیب سی جیل میں ہمیں کب تک رہنا ہوگا؟

    لالٹینیں جلتے وقت تک کافی شور ہوتا رہا، پھر یکایک وہ تھم گیا جیسے کسی نے کوئی حکم دیا ہو۔ کچھ دیر قدموں کی دھمک سنائی دیتی رہی، پھر کوئی اونچی آواز میں بولا، ’’پہرے میں کوئی ڈھیل نہ آنے پائے۔‘‘

    اس کے بعد ایک عجیب قسم کی پرارتھنا انہوں نے شروع کر دی۔ پتا نہیں کہاں سے ایسے دقتوں کے لیے ان لوگوں نے نہ صرف پرارتھنا لکھی تھی بلکہ اس کی دھن بھی یاد کر رکھی تھی۔ گوکہ وہ پرارتھنا کسی فلم کے گانے کی نقل تھی، پر اس کے بول الگ تھے۔

    تھوڑی دیر میں ہمیں یہ احساس ہو گیا کہ وہ پرارتھنا صرف م نسیم کی عمارت میں نہیں گائی جا رہی تھی بلکہ وہ لوگ شہر میں جہاں کہیں بھی تھے، یہی پرارتھنا دہرا رہے تھے۔ پرارتھنا کے بعد انہوں نے اپنے وہ پانچ عہد بھی دہرائے جن کا کسی وقت ہم لوگ خاصا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس پرارتھنا اور عہد سے ہم پر ایک اثر ضرور ہوا۔ انہیں سن کر ہمارے اندر ان کے لیے جو نفرت پیدا ہوئی، اس نے ہمارے صدمے کو تھوڑا کم کر دیا اور اس جلی ہوئی اندھیری اور تنگ جگہ میں ہم ایک ٹھکانا کھوجنے لگے۔

    اصل بھیڑ کا احساس ہمیں اب ہوا تھا۔

    آدمی کی ایک عجیب عادت ہوتی ہے۔ چاہے جس حال میں بھی وہ کیوں نہ ہو، ایک ایسا ٹھکانا سب سے پہلے کھوجتا ہے جسے وہ اپنا مان سکے، بھلے ہی اسے اپنا کہنے یا ماننے کی اس کے پاس کوئی وجہ نہ ہو۔ یہ کام وہ سب سے پہلے کرتا ہے۔ عام حالات میں تو لوگ اس کا تجربہ کرتے ہی ہیں مگر غیرمعمولی حالات میں یہ میلان نہ صرف زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے بلکہ اس میں ایک طرح کا سفاک تشدد بھی آ جاتا ہے۔ گلی محلوں میں رہنے والے لوگوں میں تو یہ میلان بہت عام ہوتا ہے۔ اکثر وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ آپ کی بیوی ان کی طرف کی منڈیر پر اپنا تولیہ پھیلا دے۔ عوامی تحریکوں تک میں یہ مسابقت میں نے دیکھی ہے۔

    ایک بار ہم لوگ بمبئی جا رہے تھے۔ مرکز کی کانگریسی سرکار نے بڑی مقدار میں گیہوں برآمد کر دیا تھا۔ ہم لوگ اس برآمد کے خلاف بندرگاہوں پر دھرنا دینے جا رہے تھے۔ ریل گاڑی بمبئی کے اسٹیشن پر تقریباً گیارہ بجے رات کو پہنچی۔ ہمارے پورے جتھے کو چوپاٹی نام کی جگہ پہنچ کر رات بتانی تھی۔ ٹھہرنے کی اس جگہ کو دیکھ کر ہم گھبرا گئے۔ بالو کے اوپر کافی دوری تک تمبو تان دیے گئے تھے۔ بالو کے اوپر ناکافی سی دریاں ڈال دی گئی تھیں جو نیچے کی بالو سے اٹی پڑی تھیں۔ جو لوگ پہلے پہنچ گئے تھے، انہوں نے اپنے اپنے بستر کھول لیے تھے۔

    بری طرح تھکے ہونے کے باوجود ایک متوقع صاف دری کے سرے پر جگہ پانے کے لیے آنند موہن سراؤگی اپنی بوڑھی عمر کی تیزی سے لپکے۔ ایسا کرنے میں ان کی ایک چپل الجھ کر پیچھے چھوٹ گئی۔ اپنا بستر اور تھیلا چنی ہوئی جگہ پر رکھ کر وہ چپل کے لیے واپس لوٹے۔ چپل جلدی نہیں ملی۔ پیچھے آ رہے لوگوں کے پیروں سے دب کر وہ بالو میں چھپ گئی تھی۔ چپل جھاڑتے ہوئے جب سراؤگی واپس لوٹے تو انہوں نے پایا کہ ان کا تھیلا اور بستر تھوڑا سا کھسکا کر ہٹاکٹا چرن گوسائیں اپنی چادر بچھا رہا ہے۔ آنند موہن سراؤگی اس پر بری طرح ناراض ہوئے۔ زبردستی انہوں نے گوسائیں کی چادر کو جھٹکا دے کر کھینچ لیا۔

    جہاں چادر بچھی تھی، اس جگہ کے مقابلے میں اس کے پاس کی جگہ کوئی خاص بری نہیں تھی، بلکہ دونوں جگہیں ایک سی ہی تھیں۔ دونوں ہی جگہ دھول اور بالو میں جسم کو لتھڑنا تھا اور دونوں ہی جگہ گزرنے والوں کے پیروں کی ٹھوکر لگنی ہی تھی مگر ایک تصوراتی بہتری کا اندازہ لگاکر پہلی جگہ سے قبضہ کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ بلکہ واپسی میں جب ہم لوگ حق جتانے کے اس موہ کا مذاق اڑا رہے تھے تو سراؤگی نے بہت جھینپ کر بتایا کہ اس جگہ قبضہ پانے کے بعد وہ رات بھر پیشاب روکے لیٹے رہے تھے، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ ان کے اٹھتے ہی گوسائیں پھر اسی جگہ آ جائےگا۔

    اندھیرا چونکہ بہت زیادہ تھا، اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم میں سے کس کے پاس لیٹنے کے لیے بہتر جگہ تھی۔ لیٹتے لیٹتے باہر سے ’’ہوشیار، خبردار‘‘ کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ شاید وہ لوگ گھوم گھوم کر پہرہ دے رہے تھے۔

    داہنے ہاتھ کی کہنی پر چونکہ بہت زیادہ چوٹ تھی، اس لیے میں بائیں کروٹ سویا۔ چت لیٹنے پر پیر کسی دوسرے سے جا ٹکرائے تھے۔ کنپٹی فرش پر ٹکاتے ہی جلی ہوئی چیزوں کی بدبو زیادہ نزدیک سے محسوس ہوئی تھی۔ آگ بجھ جانے کے بعد جلی ہوئی چیزوں میں ایک عجیب بو آتی ہے۔ بو بہت دیر تک جلائے جانے کا الاہنا دیتی رہی۔ پتا نہیں کہاں کیا جل کر گرا ہوگا، جو اس وقت میری کنپٹی سے سٹا ہوا تھا۔ ایک ہاتھ کی کہنی اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں تکلیف نہ ہوتی تو شاید میں چہرے کے پاس سے وہ کوڑا ہٹانے کی کوشش کرتا۔

    یہ عجیب بات تھی کہ ہم میں سے ہر کوئی بہت زیادہ خاموش تھا۔ صرف جگہ بناکر لیٹنے کی کوشش کی آواز یا کسی کی کھانسی کو چھوڑ کر وہاں سناٹا تھا۔ گہرے اندھیرے میں بھیڑ بھی ہو تو بھی آدمی کافی تنہا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ سب چپ ہوں۔ اس خاموشی میں سب سے پہلے مجھے بیوی کا خیال آیا۔

    جس وقت وہ لوگ مجھے گھسیٹ کر دھکے دیتے ہوئے باہر لا رہے تھے، وہ ان سے چیخ کر کچھ کہہ رہی تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا ممکن نہیں ہوا۔ وہ لوگ تعداد میں کافی تھے۔ رات کے اندھیرے میں اور وہ بھی اتنے تیز حملے میں انہیں گن پانا ممکن بھی نہیں تھا۔ حالانکہ ہمیں کئی دن سے لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کی طرف سے کوئی ایسا حملہ ہوگا، پر ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ اچانک اس طرح سب کچھ ہوگا۔ کچھ دنوں سے دو تین موٹرسائیکلوں پر کچھ لوگ ادھر سے اس طرح گزرتے تھے گویا میرے گھر کی ٹوہ لے رہے ہوں۔ ان میں سے بہت تندرست اور مضبوط ایک آدمی سادھوؤں کی طرح پیلے کپڑے پہنے ہوتا تھا۔

    اس کے بعد جب ایک دن میں اپنے کتے کو گھمانے نکلا، میں نے دیکھا، باہر کے پھاٹک کے دونوں کھمبوں پر گیرو میں ڈبائے ہوئے ہاتھ کے پنجے چھپے تھے۔ اس کے ٹھیک اگلی صبح گھر پر بھاری پتھراؤ ہوا تھا۔ پتھراؤ سے بیوی بری طرح گھائل ہوئی تھی۔ اس کے سر سے ٹپکا خون بہت دنوں تک چہاردیواری کے اندر کے فرش پر چھترایا رہا تھا اور ہمارے کتوں نے باہر نکلتے ہی اسے سونگھنا شروع کر دیا تھا۔ اس طرح گھائل ہونے میں کافی کچھ غلطی میری بیوی کی ہی تھی۔ میں اس وقت سب سے پچھلے کمرے میں سو رہا تھا۔ نیند میں ہی میں نے سنا، وہ کہہ رہی تھی، ’’جلدی اٹھیے، میرا سر پھٹ گیا ہے۔‘‘ جاگنے پر بھی دوپل میں سمجھ نہیں پایا تھا۔ جو شلوار قمیص اس نے پہن رکھی تھی، اس کا کافی حصہ تازے خون سے بھیگا ہوا تھا اور خون سے سنے دوپٹے کو اس نے سرکے اوپر دبا رکھا تھا۔

    دراصل بہت صبح ان لوگوں نے گھر پر پتھراؤ کیا تھا۔ کتے بہت زور سے بھونکنے لگے تھے۔ بیوی نے دروازہ کھول کر دیکھنا چاہا کہ بات کیا ہے۔ اس بیچ ذرا سی درزی سے ہی اس کا پیارا چھوٹا کتا باہر نکل گیا۔ اسے وہ دروازے سے باہر کبھی نہیں جانے دیتی تھی، کیونکہ ایک تو وہ کچھ بھوندو قسم کا تھا اور دوسرے بالوں کی وجہ سے اس کی آنکھیں پوری طرح ڈھکی رہتی تھیں۔ ایک بار سڑک پر نکل جانے کے بعد اس کا لوٹ پانا مشکل ہو جاتا۔ جیسے ہی کتے کو پکڑنے کے لیے وہ دروازے سے باہر آئی، پھینکی گئی اینٹ کا ٹکڑا اس کے سر سے ٹکرایا۔ کتے کو پکڑتے پکڑتے وہ خون میں لت پت ہو چکی تھی۔

    مجھے جلے ہوئے کوڑے پر لیٹے لیٹے لگا، اس میں ایک عجب طرح کی ہمت ہے۔ یقیناً ان لوگوں نے اسے بھی پکڑا ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے لڑی ہو۔ وہ لڑ سکتی تھی۔ کسی بھی قیمت پر سنگھرش کر سکتی تھی۔ جس بدتمیزی سے وہ لوگ عورتوں کے ساتھ پیش آتے تھے اسے دیکھتے ہوئے ان کی متشدد بھیڑ کے سامنے بھی وہ دبنے والی نہیں تھی، یہ میں جانتا ہوں ؛ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کے نہ دبنے سے متشدد بھیڑ زیادہ جارح ہو گئی ہوگی۔

    پتھراؤ والے واقعے کو قریب ایک سال ہو چکا تھا۔۔۔ یا کچھ زیادہ ہی۔ ان دنوں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کی ساتھی جماعتیں ایک عجیب تحریک چلا رہی تھیں، جسے وہ ’للکار‘ کہتی تھیں۔ ایک جھنڈ بناکر وہ لوگ نکلتے تھے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں تو پیلے رنگ کی جھنڈیاں ہوتی تھیں لیکن باقی ہاکیاں یا ڈنڈے لیے ہوتے تھے۔ کسی بھی گلی محلے سے گزرتے ہوئے وہ بری طرح شور کرتے تھے۔ کسی مسلمان کا مکان دیکھ کر وہ اس کے دروازے پر ہاکیاں پٹکتے تھے، جس سے ایک دہشت پھیل جاتی تھی۔

    ان لوگوں کا نشانہ مسلمان تو ہوتے ہی تھے، وہ ہندو بھی اسی طرح دہشت زدہ کیے جاتے تھے جن کے بارے میں انہیں پتا ہوتا تھا کہ وہ ’للکار‘ والوں سے متفق نہیں ہیں۔ کئی بار اپنی نفرت دکھانے کے لیے وہ ان کے دروازوں پر تھوکتے تھے یا کھلے عام پیشاب کردیتے تھے۔ ایک بار ایسی ہی حرکت کرنے پر آمادہ لڑکوں کو بیوی نے بری طرح ڈانٹا تھا بلکہ غصے میں اس نے بڑے والے کتے کو ان پر چھوڑ دینے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ لڑکے بے شرمی کے ساتھ ہنستے اور چلاتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔

    بیوی کے ساتھ ہوئے اس حادثے کے بعد ایک شام میں نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ پانچ لمبے تڑنگے نوجوان دکھائی دیے۔ وہ شاید اسی لمحے گھنٹی بجانے والے تھے۔ دروازہ کھلتے ہی ان میں سے ایک تھوڑی تلخ آواز میں بولا، ’’مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘

    ’’مگر، ابھی تو میں جا رہا ہوں۔ آپ لوگ پھر کبھی آئیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    آدھا قدم اور آگے بڑھ کر انہوں نے کہا، ’’ہمیں ابھی بات کرنی ہے۔‘‘

    ’’کیا بات کرنی ہے؟‘‘

    تھوڑا سا پیچھے کھڑا نوجوان آگے آیا، ’’کل آپ نے جو چھپوایا ہے، ہمیں اس کے بارے میں بات کرنی ہے۔‘‘

    کمرے میں آکر ان میں سے صرف دو ہی بیٹھے، باقی آس پاس کھڑے رہے اور لگ بھگ ایک ساتھ غصہ ظاہر کرتے رہے۔ وہ بے حد ہیجان میں تھے اور کوئی بھی دلیل قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔

    ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کو پتا ہے آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟‘‘ اچانک میری بیوی وہاں آ کھڑی ہوئی، ’’یہ کوئی بات چیت کا طریقہ ہے؟ اتنے بڑے آدمی سے اس طرح بات کی جاتی ہے؟ بڑے بڑے لوگ ان کے پیر چھوتے ہیں۔‘‘ میری اہمیت کے بارے میں کبھی کبھی میری بیوی ایسا کچھ کہنے لگ جاتی تھی کہ مجھے بھی تعجب ہو آئے، مگر حیران کن بات تھی کہ ان نوجوانوں کی آواز میں اتنی تیزی نہیں رہ گئی تھی۔

    بیٹھے ہوئے نوجوان بھی کھڑے ہو گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے دھمکی بھی دی۔ صاف تو نہیں، پر انہوں نے یہ ظاہر کیا تھا کہ اگر میں نے اپنے خیالات نہیں بدلے تو وہ بم سے اڑا دیں گے۔ ان کی اس دھمکی نے نہیں، بلکہ اس بات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا تھا کہ وہ کوئی بھی دلیل سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ان پڑھ نہیں تھے، پر ایسے لوگ اب اکثر مل جاتے تھے جو دستانوں میں بنالی گئی کٹھ پتلیوں کی طرح عمل کرتے تھے۔ کسی بھی دلیل کو وہ رد کر دیتے تھے۔ کسی بھی سوال کا ایک ہی جواب ان کے پاس ہوتا تھا، ’’آپ لوگ ہندو مخالف ہیں۔‘‘

    صرف اپنے دبنگ سبھاؤ کی وجہ سے ان لوگوں پر میری بیوی کے حاوی ہو جانے کا ایک قصہ بہت دلچسپ ہے۔

    ایودھیا میں شام تک بابری مسجد پوری طرح مسمار ہو چکی تھی۔ ہندوستانی میڈیا پر اس وقت کسی غیرملک میں کھیلا جا رہا کوئی کرکٹ میچ نشر کیا جا رہا تھا۔ ہمیں مسجد مسمار ہونے کی خبر برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن سے ملی اوروں کو بھی وہیں سے خبر ملی ہوگی۔ ہمارے مکان سے تھوڑے فاصلے پر ایک مکان میں کسی نے ’ست سنگ بھون‘ کی بڑی سی تختی لگاکر مذہبی تقریروں کا اہتمام شروع کر دیا تھا۔ صبح شام لاؤڈ اسپیکر بہت تیز آواز میں کھول کر بےحد بےسری آواز میں کیرتن گائے جاتے تھے یا پھر غلط تلفظ کے ساتھ بڑے جوش سے دھرم گرنتھوں کا پاٹھ ہوتا تھا۔

    بابری مسجد ٹوٹنے پر وہاں کیرتن بند ہو گیا اور وہ سارے لوگ سڑک پر نکل کر دیر تک نعرے لگاتے رہے تھے۔ اسی بیچ لگاتار کئی فون آئے۔ فون پر کچھ لوگ لمبی بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میری الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک طرح کی مایوسی بھی۔ تبھی میں نے سنا، میری بیوی باہر کسی سے اونچی آواز میں بول رہی تھی۔

    پچھلے حادثوں سے اندیشے بڑھ چکے تھے۔ فون بیچ میں ہی رکھ کر میں باہر کی طرف لپکا۔

    باہر کی چہاردیواری پر چڑھے دو لڑکے ہاتھوں میں پیلی جھنڈیاں لیے ہوئے تھے۔ ایک نیچے کھڑا تھا۔ میں فوراً سمجھ گیا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر دیوار پر لگی اس پیتل کی چھڑی پر جھنڈی باندھنا چاہتے تھے جس میں بجلی کا بلب لگا ہوا تھا۔ بیوی زور زور سے بول رہی تھی، ’’نیچے اترو۔ چلو، نیچے جاؤ۔ کس سے پوچھ کر چڑھے ہو؟ اسی طرح گھر میں چوریاں ہوتی ہیں۔ اس دن تم لوگ کیلے کا گچھا چپ چاپ کاٹ کر لے گئے۔ کتنی چیزیں گھر میں پڑی رہتی ہیں۔ ایک ہتھوڑی غائب ہے۔ کہاں چلی گئی آخر؟‘‘

    مذہبی جنونیت کو ایسا داؤ لگاکر میں بھی پٹخنی نہیں دے سکتا تھا۔ سکتے میں آئے لڑکے کچھ بھنبھنائے۔ نیچے کھڑے لڑکے نے کہا، ’’اترآؤ۔‘‘ وہ لوگ نیچے اترآئے اور پلٹ پلٹ کر ہمیں گھورتے اور بڑبڑاتے ایک طرف چلے گئے۔

    بیوی نے ایک عجیب و غریب ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔۔۔ چوری، وہ بھی کیلے کے گچھے کی اور ایک عدد معمولی سی ہتھوڑی کی۔ شاید چوری کے اس سچے الزام سے ہی وہ لاجواب ہوئے ہوں گے۔ ڈکیتی کے الزام سے وہ اشتعال میں آ سکتے تھے اور شاید جواب بھی دیتے۔ گہرے تناؤ کے باوجود مجھے ہنسی آ گئی، ’’یار، یہ گھٹیا سی ہتھوڑی کی چوری!‘‘

    ’’آپ نہیں جانتے، یہ چور ہوتے ہیں اور پھر ہتھوڑی کام کے وقت نہ ملے تو کتنی پریشانی ہوتی ہے۔‘‘ کہہ کر وہ اندر آ گئی۔ میرے مکان پر فتح کا جھنڈا نہیں لہرایا جا سکا تو صرف اس وجہ سے کہ ایک عدد ہتھوڑی کہیں گم ہو گئی تھی!

    لیکن اس بار صورت حال ویسی نہیں تھی۔ میں مانتا ہوں کہ اس بار حملہ کرنے والوں کو نہ تو کیلوں اور ہتھوڑی کی چوری پست کر سکتی تھی نہ میرے اتنے اہم شخص ہونے کا میری بیوی کا اعلان۔ انتہائی غصے میں وہ کس حد تک آگے جا سکتی ہے، میں اس کا تصور کرنے لگا۔ کیا کسی چیز سے اس نے حملہ کیا ہوگا؟ مگر کس چیز سے؟ ہمارے سونے کے کمرے میں کوئی چیز ایسی مشکل ہی سے ملتی جس سے چوٹ کی جا سکے۔ ہتھیار کے نام پر ہمارے گھر میں صرف باورچی خانے کا سامان ہی تھا۔

    بہت پہلے اپنے پتا کی یادگار کے طور پر ان کے کچھ اوزار اٹھا لایا تھا۔ ہتھیار کے طور پر وہ خاصے ازمنۂ وسطیٰ کے تھے۔ مثلاً دو بھالے، ایک زنگ لگی کٹار، ایک کھانڈا نما ہتھیار اور طبلے۔ طبلے ایک مرتبہ منڈھوانے کے لیے دیے اور بھول گیا تھا۔ باقی اوزار سجانے لائق تھے نہیں، اس لیے ادھر ادھر پڑے زنگ کھاتے رہے او رمکان کی ہر پتائی کے بعد ان میں سے کوئی نہ کوئی غائب ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ہمارے یہاں کوئی ڈنڈے جیسی چیز بھی نہیں بچی۔ بھالے کافی دن احتیاط سے لپیٹے رکھے رہے، پھر وہ بھی جانے کہاں غائب ہو گئے۔

    اوزار ہوتے تو بھی ان کا کوئی استعمال ہم لوگ کرپاتے، اس کا تصور مشکل تھا۔ اوزاروں کے بارے میں اپنے پتا کی جانکاری اور مہارت سے تھوڑا بہت میں بھی آشنا تھا، پر ان کی طرح ہتھیاروں کے استعمال میں ماہر کبھی نہیں ہو پایا۔ وہ تو شواجی والے بگھنکھے سے لے کر لکھنؤ کے بانکے استادوں والی بانک تک سبھی کا استعمال جانتے تھے۔ کچھ دن، جب میں بہت چھوٹا تھا، انہوں نے محلے کے کچھ نوجوانوں کو ہتھیار چلانا سکھایا بھی تھا۔ وہ پورے قواعد کے ساتھ ہتھیاروں کا استعمال سکھاتے تھے اور ایک، دو، تین، چار بولتے جاتے تھے۔ مجھے بھی چاقو، بھالا، تلوار، لاٹھی وغیرہ چلانا کچھ دن سکھایا تھا، لیکن بعد میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں بہت پڑھ لکھ کر یونیورسٹی کی ڈگریاں لوں اور وکیل یا جج بن جاؤں۔

    یہ بھی حیران کن بات ہے کہ ان دنوں اور آج کے حالات میں کافی کچھ یکسانیت تھی۔ یہی نہیں، اگر آج میرے پتا زندہ ہوتے تو یقیناً ہاکی نہیں بگھنکھا لے کر مسلمانوں اور ہم جیسے لوگوں کے دروازوں پر دہشت پیدا کر رہے ہوتے۔

    پتا کے اوزار گھر سے غائب ہو جانے کے بعد اکثر ہم فکرمند رہا کرتے کہ اگر اچانک چور آ گئے تو ہم کیا کریں گے؟ ایک بار پڑوس میں چوری ہو جانے کے بعد ہمیں لگا تھا کہ اپنی حفاظت کا کوئی انتظام ضرور کرنا چاہیے۔ چوروں سے حفاظت کا بندوبست ایک شام ہم نے بہت ہی شاندار طریقے سے کیا۔ پورے برآمدے میں فرش سے کوئی تین فٹ اونچائی پر ہم نے تانبے کا ایک تار جڑ دیا۔ میں سوتے وقت اس تار میں کرنٹ دوڑا دیتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چور اس تار سے چپک کر مر جائےگا۔

    دورات وہ تار وہاں لگا رہا تھا۔ اس کے بعد میں نے ہٹا دیا تھا، کیونکہ اس تار سے ایسی حالت میں مجھے بھی زبردست خطرہ تھا، جب میں کرنٹ بند کیے بنا خود اس سے ٹکرا جاؤں۔

    میں بہت دیر تک لیٹے لیٹے یہ سوچتا رہا کہ میری بیوی نے اس حملے کے وقت کیا کیا ہوگا؟ حملہ آور اس بار ویسے نہیں تھے جو ہتھوڑی یا کیلے کی چوری کا الزام سن کر شرمندہ ہو جاتے۔

    چھ دسمبر کو بابری مسجد ٹوٹنے کے بعد ملک میں فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرتے وقت ہندودھرم اندھوں کی جو تصویر مجھے ملی تھی، وہ خاصی ہی ڈراؤنی تھی۔ ایک جگہ تو انہوں نے باقاعدہ کچھ عورتوں کے سارے کپڑے اتار لینے کے بعد انہیں پیٹتے ہوئے سڑکوں پر دوڑایا تھا اور بڑے اطمینان سے اس منظر کی فلم بھی تیار کی تھی۔

    باہر شاید پانی برسنا شروع ہو گیا تھا۔ وہاں بند کیے گئے لوگوں میں سے کچھ تازی ہوا کے لیے برآمدوں میں لیٹ گئے ہوں گے۔ اب چونکہ پانی برسنے لگا تھا اس لیے وہ دوسروں کو کھسکاتے ہوئے پیچھے کھسک رہے تھے۔ بارش کی وجہ سے دھیان بٹ گیا۔ میں یہ امید بھی کرنے لگا کہ پانی تھوڑا زیادہ برسنے پر گرمی سے کچھ راحت ملےگی۔ یہ سوچتے سوچتے مجھے نیند آ گئی اور تب میں نے ایک بار پھر وہی خواب دیکھا، جسے میں نہ جانے کتنے برسوں سے دیکھتا آ رہا تھا۔ یہ خواب سال دوسال میں ضرور دکھائی دیتا رہا ہے۔۔۔ کبھی کبھی کچھ جلدی بھی۔

    خواب لگ بھگ اپنے مکمل بھیانک انجام تک دکھائی دیتا رہا ہے۔ یہ اتنا حقیقی ہوتا ہے کہ جاگ جانے کے بعد بھی جیسے چھاتی پر بیٹھا رہتا ہے، کبھی کبھی تو کئی کئی دن تک۔ خواب ختم ہو جانے پر ایسا لگتا ہے جیسے ایک بہت لمبا زہریلا سانپ سرکتا ہوا گردن کے اوپر سے نکل گیا ہو۔ نیند ٹوٹ جانے پر بھی دیر تک ہلنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہمیشہ کی طرح خواب مجھے سن، لیکن جگا ہوا چھوڑ کر میری گردن سے سرکتا ہوا نکل گیا۔ وہ سانپ کا لمس، اس کا ٹھنڈا خوف اور اس کی خاموش گھسٹن میں پوری طرح آنکھ کھولے پڑا ہوا دیر تک محسوس کرتا رہا۔

    اندھیرا کچھ کم ہو گیا تھا اور باہر سے ان لوگوں میں سے ایک بہت اونچی آواز میں اس سرتال سے منتر پڑھنے لگا جیسے اذان دے رہا ہو۔ ایسے ڈھنگ سے منتر پاٹھ میں نے زندگی میں پہلی بار سنا۔ اذان کی یہ نقل ختم ہونے کے بعد رات والی پرارتھنا پھر دہرائی جانے لگی۔

    اب تک میری نیند پوری طرح ٹوٹ چکی تھی، مگر زیادہ تر لوگ مجھ سے پہلے ہی جاگ چکے تھے۔ وجہ کچھ دیر سے ہی پتا چلی۔ دراصل ہر کوئی صبح کی حاجت کے لیے فکرمند تھا۔ اس بڑی عمارت میں سات غسل خانوں میں ایک ساتھ صرف سات لوگ ہی فارغ ہو سکتے تھے۔ یہ غنیمت ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کا دھیان ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر بٹ گیا۔ اس مکان کے ہر کمرے، ہر کونے میں پھیلے جس کالے ملبے میں لوٹ کر ہم لوگوں نے رات بتائی تھی، اس نے ہم سب پر بری طرح کالک پوت دی تھی۔ اگر ہم لوگ ہل ڈل نہ رہے ہوتے تو ہم لوگوں کی حالت ایسی ہوچکی تھی جیسے ہم لوگ جلی لکڑیوں کا ڈھیر ہوں۔ تکلیف اور دہشت کے اس ماحول میں بھی ہم لوگوں میں سے بہت سے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے۔

    اس جلے مکان کی لابی کے سامنے، جس صدر دروازے پر تختے جڑ دیے گئے تھے، وہاں کسی کی اونچی آواز سنائی دی، ’’ارے مورکھو، منتر شدھ تو پڑھو! مورکھ ان پڑھو، ارے منتر بھی شدھ نہیں پڑھ سکتے تم لوگ!‘‘ تبھی ایک تھوڑی دبی ہوئی آواز آئی، ’’چھوڑیے بھی مہاشے جی، ہمیں کیا کرنا۔۔۔ شدھ منتر پاٹھ کریں یا نہ کریں۔‘‘

    ’’ارے واہ، کوئی بات ہوتی ہے!‘‘ روکنے والے نے آواز اور اونچی کر دی، ’’ان کو منتروں کے بگاڑنے کا حق دیا کس نے؟ جاہلو، بند کرو یہ منتر پاٹھ کا تماشا۔‘‘

    باہر کا وہ منتر پاٹھ اس آواز سے نہیں، پر تھوڑی دیر میں خود ہی بند ہو گیا اور تبھی باہر کوئی دہاڑتی آواز میں بولا، ’’یہ کون سالا بکواس کر رہا ہے؟‘‘ آواز دباکر بولنے والے نے پھر کہا، ’’چھوڑیے بھی مہاشے جی! آئیے ادھر آئیے۔ کرنے دیجیے جو کرتے ہیں۔‘‘ باہر سے وہی دہاڑتی آواز پھر سنائی دی، ’’تھوڑا ٹھہر جاؤ، تمہاری یہ نِندا (نکتہ چینی) تمہارے حلق میں نہ گھسیڑدی ہو تو ہم کاہے کے۔۔۔‘‘

    آواز دباکر بولنے والا اَشدھ منتر پاٹھ پر تنقید کرنے والے مہاشے جی کو شاید اندر کی طرف گھسیٹ رہا تھا، ’’چلیے، چلیے۔ میں کہتا ہوں، کیوں ان لوگوں کے منھ لگتے ہیں، چلیے۔‘‘ کچھ دوسری بھی آوازیں آئیں، ’’جانے دیجیے مہاشے جی!‘‘

    کچھ دشواری سے لوگ جنہیں لابی سے برآمدے میں لائے، انہیں ان کے اوپر لپٹی کالک کے باوجود میں پہچان گیا۔ وہ مہاشے سدانند شاستری تھے، شہر کی آریہ سماج نام کی تنظیم کے سکریٹری۔ مجھے دیکھ کر چونکے اور بولے، ’’ارے بھائی صاحب، آپ بھی؟‘‘

    ’’یہ تو مجھے پوچھنا چاہیے تھا آپ سے۔ آپ یہاں کیسے؟‘‘

    اچانک شاستری جی ہنسے، ’’کمال دیکھیے بھائی صاحب، کالک ہم لوگوں پر پتی ہے اور وہ بدمعاش جو شدھ منتر پاٹھ نہیں کر سکتے، صاف دھلے گھوم رہے ہیں۔‘‘

    اس بات پر ایک دو اور لوگ بھی ایک پھیکی سی ہنسی ہنسے، پر جو صاحب انہیں گھسیٹ کر لا رہے تھے، وہ خاصے گمبھیر ہوگئے۔ جو حالات تھے انہیں دیکھتے ہوئے لوگ کسی ہلکی بات کے لیے جگہ بنانے کو تیار نہیں تھے۔ وہاں زیادہ تر لوگ پانی یا غسل خانے جیسی چیزوں کو لے کر پریشان تھے۔ انہی ضرورتوں تک وہ محدود بھی رہنا چاہتے تھے، پر یہی مسئلہ سب سے زیادہ خوفناک ہوا۔ نلوں میں آنے والے جس پانی کی وجہ سے وہ بے فکر تھے، وہ جلدی ہی ختم ہو گیا اور تب لوگوں کو لگا کہ جنہوں نے اس کا استعمال نہانے کے لیے کیا تھا، انہوں نے اپنے جوش میں باقی سب کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ابھی کافی لوگ فارغ ہونے کے انتظار میں تھے۔ تکلف کے باعث انہیں حاجت کے لیے پہل کرنے میں تھورا لحاظ ہوا تھا، پر پانی ختم ہونے کے اعلان پر وہ لحاظ یکایک ختم ہو گیا۔ پاخانے میں جھانک کر بدبو کے کارن پیچھے ہٹ آئے کسی نے اونچی جھنجھلائی ہوئی آواز میں کہا، ’’آخر ابھی نہانا کون سا ضروری ہوگیا تھا، ایں؟‘‘

    جو نہا چکے تھے وہ دھیرے سے کھلے آنگن کی طرف جاکھڑے ہوئے۔ وہاں ایک شور اٹھ کھڑا ہوا۔ کئی لوگ غصہ ظاہر کرنے لگے۔ تبھی ایک آواز ئی، ’’دیکھیے، اب جو ہوا سو ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پانی کا مسئلہ حل ہو تو کیسے؟‘‘

    ’’یہ اچھی رہی۔ جب یہاں ایسے عقل مند لوگ موجود ہیں جو حالات جانتے ہوئے بھی پانی نہانے میں خرچ کرنے کی عیاشی نہیں بھولتے تو مسئلے کا حل کیا ہوگا؟‘‘ کسی نے اونچی آواز میں کہا۔ پہلا شخص ہی پھر بولا، ’’حل نکلےگا کیوں نہیں؟ جنہوں نے ہمیں یہاں اس طرح قید کیا ہے ان کی بھی تو کوئی ذمےداری ہے۔‘‘

    اس بیچ کسی نے رفع حاجت کا حل نکال لیا۔ اسے اپنی کھوج پر آرشمیدس سے کم خوشی نہیں ہوئی۔ جب تک لوگ اس حل کو سمجھ پائے وہ بےحد جوشیلا شخص کچھ کھوجنے لگا۔ وہاں کسی کا بھی نام جاننے کی کسی کو نہ فرصت تھی نہ ضرورت، پر اس آدمی کو بہت لوگ پہچاننے لگے تھے۔ جب تب وہ کسی کو بھی پکڑ لیتا تھا اور سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ اس کی بیوی اور بچیوں پر بڑا ظلم ڈھایا گیا۔ یہ وہی شخص تھا۔ جلد ہی اسے باغبانی کا ایک اوزار مل گیا۔ آنگن کے دوطرف اونچی دیوار سے لگی کافی چوڑی کیاریاں تھیں، جن میں کچھ جھلسے ہوئے پودے لگے تھے۔ دیوار پر چڑھی بیلیں بھی خاصی جل چکی تھیں۔ وہ آدمی کچی زمین کھودنے لگا۔ کھودتے ہوئے بولا، ’’کھڈی کی طرح استعمال کرو اور اسی مٹی سے ڈھک دو، بات ختم۔ کچی زمین بہت کافی ہے۔ اب سہنا تو پڑے گا ہی۔ کیا بتاؤں، میری بیوی اور بچوں کے ساتھ جو ہوا۔۔۔‘‘

    نہانے کی وجہ سے بھڑکا جھگڑا یکایک تھم گیا۔ لوگ پرجوش ہوکر اس آدمی کو دیکھنے لگے۔

    تبھی کسی نے کہا، ’’کھڈی تو ٹھیک ہے، پر پانی کا کیا ہوگا؟‘‘

    ایک بار پھر وہاں سناٹا ہو گیا۔

    یہاں مشکلیں صرف اتنی ہی نہیں تھیں بلکہ یہ شروعات تھی۔ شاید بہت معمولی شروعات۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بات کرتے تھے کہ اگر ان کا راج آ گیا تو سب سے پہلے ہم پر چوٹ کی جائےگی۔ جس طرح ہمارے گھروں پر حملہ ہوا تھا، ہم سمجھ رہے تھے کہ آگے کے واقعات اسی کے آس پاس کے ہوں گے، یعنی دھکامکی، کچھ پٹائی، گالیاں اور بےعزت کرنے کے کچھ دوسرے طریقے اپنائے جائیں گے اور پھر شاید ان لوگوں کا دل بھر جائے۔ ویسے بہت سے لوگوں کو تو یہ سب کچھ ہونے کی بھی توقع نہیں تھی۔ مہاشے جی جیسے لوگ باقاعدہ کہتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد حکمرانی کی آسائشوں میں یہ لوگ اتنے مشغول ہو جائیں گے کہ یہ سب انہیں یاد بھی نہیں رہ جائےگا۔

    پر یہ سب شاید انہیں یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ یہ یاد رکھا ان لوگوں نے جن کی طرف سے وہ حکومت میں آئے تھے۔ جو سرکار چلارہے تھے، وہ سچ مچ اس معاملے میں بڑے معصوم تھے۔ انہوں نے فوراً بیان بھی دے دیا تھا کہ جو کچھ ہو رہا تھا وہ ان کے ایجنڈے میں نہیں تھا۔ لیکن پارٹی نے کہا کہ اس کے ایجنڈے میں یہ سب ہے اور بھرپور ہے۔ پہلے دور میں ان لوگوں نے کچھ ادارے اپنے ہاتھ میں لے لیے، جیسے ریڈیو، ٹی وی، یونیورسٹیاں، اکادمیاں وغیرہ۔ ان میں مارپیٹ یا زور زبردستی کوئی نہیں ہوئی، بس وہ جگہیں پارٹی کے لوگوں نے لے لیں۔ بڑے ’انکسار‘ سے۔ اس پر ہم لوگوں نے خاصی بڑی تکرار کی۔ کچھ مظاہرے ہوئے، دھرنے دیے گئے، بھاشن ہوئے۔ بہت جگہ بہت سے لوگوں نے اس صورت حال کے خلاف لکھا بھی۔

    اور پھر یکایک اندھیرا ہو گیا۔ اخباروں میں اس طرح کا کچھ بھی چھپنا بند ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی سڑکوں، گلیوں، محلوں میں ایک خاص طرح کی ہلچل شروع ہو گئی۔ کچھ لڑکوں کا گروہ کسی بھی محلے سے خاصی اونچی آواز میں ٹھہاکے لگاتا ہوا گزر جاتا۔ چوراہوں پر اونچی آواز والے لاؤڈاسپیکر لگ گئے تھے۔ ان پر یکایک بھجن شروع ہوتا اور مذہبی نعرے لگنے لگتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ آوازیں کہاں سے آتی تھیں۔ کبھی کبھی کسی گھبرائے اکیلے شخص کو گھیر کر لڑکے کچھ دیر تک شورغل کرتے تھے اور پھر اس کی لنگی یا پاجامہ اتروا لیتے تھے۔ اس کے ننگے ہو جانے پر شور مچاتے ہوئے وہ اسے وہاں سے دوڑا دیتے تھے۔ یہ ایک طرح کی کوشش تھی کہ کوئی جوابی کاروائی ہو۔ وہ ہوئی۔ کسی نے اس طرح گھرنے کے پہلے ہی ان لڑکوں کی طرف ایک سستا سا ہتھ گولہ اچھال دیا۔

    یہ تھا وہ واقعہ جس کا انہیں انتظار تھا۔ چھت سے ہم لوگوں نے کئی روز دیکھا، رات کے گہرے نیلے آسمان پر تھوڑی دیر جیسے کالک سی پت جاتی تھی اور پھر کالک کے بیچ سے سرخ، پیلی روشنی ابھر آتی تھی۔ گھر اسی طرح جلتے تھے۔ ظاہر ہے، نسیم صاحب کا مکان بھی ایسے ہی جلا ہوگا۔

    ہر کسی کو امید تھی کہ اس قید میں دیر سے ہی سہی، وہ لوگ پانی اور کھانے کا کچھ انتظام ضرور کریں گے، پر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔ بہت زیادہ گرمی اور ٹھہری ہوئی ہوا سے بےحال لوگوں نے دیکھا، دوپہر کے بعد آسمان پر بادل آئے اور ٹھہر گئے۔ ہمیں لگا، شاید بارش ہو۔ گرمی سے راحت تو ملتی ہی، شاید وہ بارش کا پانی کسی طرح پینے کے کام بھی آ جاتا۔ پر بادل جوں کے توں ٹھہرے رہے، جیسے کسی کھانے کی چیز پر پھپھوند جم گئی ہو، چکنی زہریلی۔

    یونیورسٹی کے پروفسیروں کے لیڈر موہن لال نے پھر وہی بات دہرائی، ’’ہم جنگی قیدی ہیں آخر۔ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘ صبح سے وہ بہت بار یہ بات دہرا چکے تھے۔ سب جانتے تھے کہ جو ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے، پر اس پر احتجاج کیا جائے تو کیسے، اس بات کافیصلہ ابھی کوئی نہیں کر پایا تھا۔

    دھندلکا ہونے لگا تھا اور اندر تک ابال دینے والی اُمس بھری گرمی کو گھیر کر کھڑی ہوا بالکل ساکت ہو گئی تھی۔ بھوک اور پیاس سے پریشان لوگ ایک بار پھر بیٹھ جانے یا لیٹ جانے کے لیے جگہ کھوجنے لگے، لیکن ایک دوسرے سے بچتے ہوئے۔ لگ بھگ سب لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ وہ لوگ جنگی قیدی تو نہیں ہی ہیں۔ اس سناٹے میں ایک آواز ابھری، ’’لعنت ہے! شرم کی بات ہے! ہم لوگ اس طرح یہاں بھیڑ بکریوں کی طرح بند کردیے گئے ہیں۔ ارے کچھ تو کر سکتے تھے ہم لوگ، کچھ ہاتھ پیر تو چلا سکتے تھے۔‘‘

    یہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر منی سنگھ تھے، پر ان کی اس آوا میں ایک عجیب کھوکھلاپن تھا۔ لوگوں نے بغیر کسی ردعمل کے یہ بات سن لی۔ صرف مہاشے جی نے دھیرے سے چہرہ گھماکر صدر دروازے پر جڑے تختوں کی طرف دیکھا، جیسے انہیں اس پار سے کسی ردعمل کی امید ہو۔ پر باہر سے کوئی ردعمل نہیں ہوا اور اب میں نے غور کیا، وہاں بھی بالکل سناٹا تھا۔ شام کی وہ پرارتھنا بھی نہیں سنائی دی تھی۔ کیا اب اس کے بعد ویسے ہی ٹھہاکے سنائی دیں گے جیسے پچھلے دنوں ہم لوگ سنتے تھے؟ گلی یا سڑک شام سے ہی خاموش ہو جایا کرتی تھی اور پھر اندھیرا بڑھ جانے پر بہت سے لوگ بے حد گھناؤنی، لگ بھگ بھوت پریتوں والی ہنسی ہنستے ہوئے گزر جاتے تھے۔ ہر دروازے اور کھڑکی کی درزوں سے ایک سنسنی خاموش گھروں کے اندر دیر تک گھستی رہتی تھی۔ ایسے موقعوں پر میری بیوی جان بوجھ کر تھوڑا پیر پٹک کر چلتی تھی اور کوئی برتن زور سے آواز کرتے ہوئے رکھتی تھی تاکہ اپنی طرف سے مجھے تھوڑی تسلی دے دے۔

    اچانک مجھے اس کی یاد آ گئی۔ کہاں، کس حالت میں ہوگی وہ؟ عورتوں کے ساتھ ان لوگوں کی بربریت کے بہت سے قصے سن چکا تھا۔ جس غیرانسانی طریقے سے ان لوگوں نے ہمارے گھروں پر حملہ کیا تھا، اسے دیکھتے ہوئے ان سے کسی طرح کی انسانیت کی امید تو نہیں ہی کی جا سکتی تھی۔ پر کیا ہوا ہوگا اس کا؟ کیا اسے بھی اسی طرح رکھا گیا ہوگا؟

    باہر کی خاموشی کو ایک خوفناک شدت سے توڑتا ہوا نعرہ کسی ایک آدمی کی آواز میں سنائی پڑا، ’’وندے ماترم!‘‘ اس کے جواب میں کئی آوازیں آئیں، ’’وندے ماترم!‘‘ بابری مسجد کے خلاف مہم کے ساتھ یہ نعرہ بڑے پیمانے پر لگنے لگا تھا، کیونکہ جس کتاب آنند مٹھ سے ان لوگوں نے یہ نعرہ سیکھا تھا، وہاں اسے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

    اس نعرے کے بعد عمارت کے اندر کی سیاہی جیسے چمگادڑوں کے گروہ کی طرح اڑی اور گہری ہوتی رات کے کندھوں پر جہاں تہاں لٹک گئی۔ ایک لمحے کے لیے لوگوں کے خون کے بہاؤ میں ایک اچھال آیا اور ہم لوگوں نے سنا، باہر کوئی کڑکتی آواز میں حکم دے رہا تھا، ویسا حکم جو ان لوگوں کی صبح کی قواعد میں دیا جاتا تھا۔ ایک ساتھ کئی لوگوں کے پیر پٹک کر لے تال سے چلنے کی آوازیں آتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد ساری آوازیں بند ہو گئیں۔ اس سناٹے میں دور سے کوئی ٹرک جیسا آتا سنائی دیا۔ وہ شاید وہیں آ رہا تھا۔ عمارت کے قریب آکر تھوڑی دیر وہ ٹرک غراتا رہا، پھر بتیاں بھی بند ہو گئیں اور انجن بھی۔

    اندر اندھیرے میں کسی نے کہا، ’’لگتا ہے یہ لوگ ہم لوگوں کو کہیں اور لے جانے کی تیاری میں ہیں۔‘‘ اس بات کو لوگوں نے خاموشی سے سنا۔ تبھی کچھ لوگ دوڑتے ہوئے اس دروازے تک آئے جس سے ہمیں اندر ٹھونسا گیا تھا اور بعد میں کیلوں سے مضبوط تختے جڑدیے گئے تھے۔ لوہے کی کوئی وزنی چیز ڈھکیل کر وہاں اڑادی گئی اور بیلچوں سے تختے اکھاڑے جانے لگے۔ کسی نے چیخ کر کہا، ’’باہر نکالتے وقت یہ بدمعاش کوئی غلط حرکت نہ کرنے پائیں، دھیان رکھنا۔‘‘ تھوڑی دور سے کوئی اور آواز آئی، ’’دو دو کرکے لائیں جائیں گے۔‘‘

    کئی روز سے گلی محلوں کے سناٹے کو روندتی عفریتی ہنسی کی طرح ہی اس ہلچل نے ہماری نسوں میں ایک سنسنی بھر دی۔ تختے جلدی ہی اکھڑ گئے، پر سارے نہیں۔ نیچے سے کچھ تختے اکھاڑنے کے بعد وہ وزنی لوہے کی چیز ڈھکیل کر وہاں اڑا دی گئی۔ دراصل وہ لوہے کی جنگلےدار ایسی مضبوط دیوار تھی جسے پولیس سڑکوں پر رکاوٹ کے لیے رکھ دیتی تھی۔ باہر سے کسی نے چیخ کر کہا، ’’ایک ایک کرکے باہر آؤ۔ دو لوگ۔‘‘

    اندر لوگ سناٹے میں آئے کھڑے رہے۔ تختے اکھڑنے سے بنی جگہ پر اَڑی روک کے بیچ سے باہر کی ہلکی سی جھلک ملتی تھی۔ باہر کئی لوگ مشعلیں لیے کھڑے تھے۔ ٹرک کہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ ضرور تھوڑا ہٹ کر کھڑا کیا گیا ہوگا۔

    ’’ہم کہہ رہے ہیں، ایک ایک کرکے باہر آؤ۔‘‘ کسی نے پھر کہا۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ مہاشے جی نے اونچی آواز میں کہا، ’’لیکن کیوں؟‘‘

    ’’ہم لوگ تمہیں رہا کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

    یہ بات کسی کو بھی قابل یقین نہیں لگی۔

    ’’تو اس طرح باہر نکالنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ پروفیسر منی سنگھ نے ہم لوگوں سے کہا۔ ان کی آواز شاید باہر والوں نے بھی سنی۔ باہر آنے کے لیے للکارنے والا بولا، ’’ہم لوگ کچھ لکھا پڑھی کریں گے، پھر چلے جانا جہاں مرضی آئے۔‘‘

    ’’لیکن اس وقت؟‘‘

    ’’ہاں اسی وقت۔‘‘ باہر سے کسی نے ہنسی دباکر کہا، ’’چلو اب چپ چاپ باہر آ جاؤ۔‘‘

    اندھیرے میں اندر خاموش کھڑے لوگوں میں سے کوئی بولا، ’’چلونا، کھڑے کیوں ہو؟‘‘

    وہ آدمی لوگوں کو ہٹاکر دروازے کے کھلے حصے کی طرف جانے لگا۔ تبھی پیچھے سے مہاشے جی چیخے، ’’خبردار! کوئی باہر نہیں جائےگا۔ کوئی نہیں نکلےگا۔‘‘

    ’’جب وہ لوگ کہہ رہے ہیں اور پھر یہاں کب تک رہیں گے؟‘‘ دروازے کے پاس سے ایک اور آواز آئی۔

    ’’نہیں، بالکل نہیں، خبردار!‘‘ شاید مہاشے جی ہی تھے جو لوگوں کو دھکیلتے ہوئے دروازے تک گئے اور پلٹ کر کھڑے ہو گئے، ’’میں جانتا ہوں، تم لوگ نہیں جانتے۔ دھوکا دیا جا رہا ہے تم لوگوں کو۔ میں کہتا ہوں، کوئی باہر نہیں جائےگا۔‘‘

    باہر کہیں دور سے کسی نے للکارا، ’’پنڈت، ذرا دیکھنا تو، کون ہے۔‘‘ جسے پنڈت سے مخاطب کیا گیا تھا، شاید وہی بولا، ’’ابھی دیکھتا ہوں اس چوہے کو۔ ذرا روشنی اندر دکھانا۔‘‘

    دو تین لوگ مشعلیں دروازے کے کھلے حصے کے پاس لے آئے۔ اسی وقت جھک کر ایک بہت لحیم شحیم آدمی اندر وارد ہوا۔ اس کے اندر گھسنے پر دروازے کی طرف مڑ کر پیٹھ کیے مہاشے جی دھکا کھاکر سامنے کھڑے لوگوں سے ٹکرائے۔ پیچھے مڑکر دھکیلنے والے کو دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ کیا ہے؟‘‘

    ’’اچھا تو تم ہو! تمہاری تو۔۔۔‘‘

    لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اس گرانڈیل آدمی نے مہاشے جی کو اٹھایا اور کسی کھل گئے بستر بند کی طرح انہیں دروازے کے کھلے حصے سے باہر اچھال دیا۔ باہر کچھ آوازیں آئیں، ’’مارو سالے کو!‘‘ وہ گرانڈیل آدمی اپنے ننگے بدن پر جنیئو سنبھالتا ہوا بھیڑ کی طرف گھور کر بولا، ’’تم لوگوں کو بھی دیکھتا ہوں۔‘‘

    تبھی اس بھیڑ میں ہلچل ہوئی۔ جس شخص نے کچی زمین میں گڑھے بناکر حاجت کے مسئلے کو حل کرنے کی ترکیب سجھائی تھی، وہ جیسے لوگوں کے اوپر تیرتا ہوا آیا اور ’’مارو!‘‘ کی آواز کے ساتھ اس نے زمین کھودنے میں استعمال کی گئی چیز سیدھے اس گرانڈیل آدمی کے پیٹ میں دھنسادی۔ وہ جھاڑیوں کو کترنے والی ایک بھاری بھرکم قینچی تھی۔ قینچی اس پہلوان نما آدمی نے دونوں ہاتھ سے پکڑی اور لگا اسے کھینچ کر باہر نکالنے۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بےحد دہشت زدہ نگاہیں جھکاکر اس نے اپنے پیٹ میں دھنسی بڑی قینچی کی دونوں موٹھیں دیکھیں اور گھٹنے کے بل بیٹھ گیا۔ اس کا منھ تھوڑا سا پھیل گیا، پر آواز کوئی نہیں نکلی۔ اس کے بہت آہستہ سے ایک طرف لڑھک جانے کے بعد سب سے پہلے باہر کھڑے مشعل والے چیخے۔

    کسی نے کہا نہیں، پر راکھ سے کالے ہوئے ہر شخص نے سمجھ لیا کہ فیصلہ کن لڑائی شروع ہو چکی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے