Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جلتے ہوئے جنگل کی روشنی میں

خالد جاوید

جلتے ہوئے جنگل کی روشنی میں

خالد جاوید

MORE BYخالد جاوید

    سارے سوانح، زندگی کی کہانیاں جھوٹی ہوتی ہیں۔ وہ ان خالی گھونگوں کی طرح ہوتی ہیں جن سے ان کیڑوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا جو کسی زمانے میں ان میں رہتے تھے۔

    چسلاومی ووش

    یہ بڑی دلچسپ اور عجیب بات تھی کہ دنیا کو اس نے محض زمین ہی سمجھاتھا۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ یہی سوچتا آیا تھا گویا دنیا میں انسان نہ رہتے تھے، بس وہاں پہاڑ تھے، پانی تھا، میدان تھے، کسی حد تک چرند پرند کابھی مبہم سا تصور موجود تھا، مگر انسان، وہ تو جیسے کہیں باہر سےآئے تھے۔ کسی نہ دکھائی دینے والے دوردراز اور پراسرار مقام سے دنیا میں پھینکے گیے تھے۔ وہ ٹین کے خالی ڈبےمیں باہر سے ڈالے گیے کوڑا کرکٹ یا کنکروں کی طرح تھے۔ جس طرح ڈبے میں کنکر بجتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی اپنی اپنی زبان چلاتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا نقلی طور پر مگر نامحسوس طریقے سے تقسیم شدہ ہوگئی تھی۔ انسان فطرت اور ماحول کا عنصر ہرگزنہ تھے۔ وہ تاریخ کی پیداوار تھے۔ زبان اور تاریخ سے خالی دنیا ہی اصل دنیا تھی۔

    وہ ہمیشہ سے ایسا ہی سوچتا۔

    یہ تو ٹھیک ہے کہ دنیا پہلے صرف زمین تھی اور انسان اس میں بہت بعد میں، دیر سے آیا، گناہ کرنے کے بعد، مگر اب تو انسان کے بغیر دنیا کا کوئی تصور ہی نہ تھا اور یہ بھی حقیقت تھی کہ انسان دنیا کو ہمیشہ بدلتا بھی آیا تھا۔ مگر وہ۔۔۔ وہ تو بس آنکھیں بند کرلیتا اور دنیا اپنے تمام کہساروں، سمندروں اور جنگلوں سمیت اس کے سامنے مہربان دوست اور غمگسار کی طرح آکھڑی ہوتی۔ اس طرح آنکھیں بند کرلینا اس کا مجبوب مشغلہ تھا۔

    وہ ایک دینی مدرسہ میں جغرافیہ کا معلم تھا۔ تمام زندگی اس نے اپنے چھوٹے سے شہر سے باہر قدم نہ رکھا تھا۔ مدرسہ اس کے محلے میں ہی واقع تھا مگر پوری دنیا کا نقشہ اور جغرافیہ ہر وقت اس کی نظروں کے سامنےرہتا تھا۔ مختلف ملکوں کے طرح طرح کے جغرافیائی نقشے ہمیشہ پلندہ بنے اس کے ساتھ رہتے۔ ان میں بیشتر کے کاغذ بہت بوسیدہ اور میلے ہوگیے تھے۔ یہ نقشے جگہ جگہ سے پھٹ گیے تھے۔ اور وہ ان کی کترنوں کو بار بار گوند سے چپکاتا رہتاتھا۔ اس کے پاس بہت سے خالی نقشے بھی موجود رہتے جن کو بھرتے رہنا اس کا دوسرا اہم شغل تھا۔ ندیوں، پہاڑوں اور سمندروں کو پنسل کے سرمے سے کاغذ پر مکمل کرتے جانا اس کے لیے جمالیاتی تجربہ بن چکاتھا۔

    مدرسےمیں قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس نے اپنی سی بھرپور کوشش کی تھی کہ وہاں تاریخ کا پڑھانا بند کردیاجائے مگر یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔ تاریخ سےاس کی عداوت کاسبب بھی جغرافیہ ہی تھا۔ وہ دراصل جغرافیے کو تاریخ کی آلودگی سے پاک کردینا چاہتا تھا۔ وہ اکثر ایسے مضامین لکھنے کی کوشش بھی کرتا تھا جن میں تاریخ کے جغرافیے میں پھیلائی گئی گندگی کے بے رحمانہ رویے کو ثابت کیا جاتا تھا۔ یہ مضامین کبھی کبھی وہ اپنے بالائی گھر کی کھڑکی پر کھڑا ہوکر صرف اس لیے قدرے بلند آواز میں پڑھا کرتا کہ بولے ہوئے لفظ اور تحریری لفظ میں کسی تضاد کی نشاندہی ہوسکے۔

    یہ سچ تھا کہ اسے انسانوں کی تاریخ سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ تاریخ تو آسیب کی طرح تھی۔ وہ اڑتی پھرتی تھی، کہیں ٹھہرتی ہی نہ تھی اور بڑے بے رحمی اور بے مروتی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر بیٹھ جاتی تھی مگر پہاڑ، سمندر، میدان نظر آتے تھے، ٹھوس ۔ اور اگر وہ بدل بھی رہے تھے تو کم از کم اسے اس کا کوئی واضح شعور نہ تھا۔ نقشے میں تو وہ اور بھی قائم و دائم نظر آتے تھے۔ مگر تاریخ نقشے کی آڑی ترچھی لکیروں میں کہیں نظر نہ آتی تھی۔ وہ واقعی بھٹکتی پھرتی تھی، ایک ہوا، ایک شے کی طرح، یا اپنا گلا کاٹتی ہوئی، ہاتھ میں استرا لیے ایک بدنیت مگر احمق بندر کی طرح۔ اسے ایسے آسیب میں بھلا کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ آج اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے کاغذ پر جو لکھا تھا، اسے بائیں ہاتھ میں پکڑ کر اپنےبالائی گھر کی کھڑکی کھول کر آہستہ آہستہ پڑھ رہا تھا۔

    معمولی سے محلے کا انتہائی معمولی مکان تھا۔ آم کے درخت کا کمزور دروازہ اور کچا فرش، بغیر چونے کی دیواروں پر قطار سے لگے ہوئے تین چار طغرے۔ تیسری منزل کا مکان تھا۔ کھڑکی کا پٹ کھولنے پرنیچے محلے کی پتلی سی گلی نظر آتی تھی۔ اگر مشرق کے رخ پر کھڑے ہوکر کھڑکی سے نیچے دیکھا جائے تو بجلی کا ایک کھمبا گلی کے دائیں موڑ پر تھا۔ بائیں موڑ والے کھمبے کے بالکل نیچے پانی کاایک نل لگا تھا۔ جس میں کبھی کبھار ہی پانی آتا تھا۔

    یہ غریب لوگوں کی بستی تھی۔ سارے محلے میں قطار سے بنے ہوئے تقریباً ایک جیسی کسمپرسی بیان کرتے ہوئے مکانات تھے۔ گلی کے دائیں طرف کے موڑ سے تھوڑا آگے ہندوؤں کی بڑی آبادی تھی۔ مگر بائیں موڑ سے آگے دور تک مسلمانوں کی آبادی تھی۔ اس کے بعد ایک چھوٹا سا قبرستان پڑتا تھا، پھر کھیت شروع ہوجاتے تھے۔ کھیتوں کے آخری سرے پر مرگھٹ تھا، بھنگیوں کا مرگھٹ۔ کسی زمانے میں وہاں بھنگیوں کے مردے جلائے جاتے تھے لیکن اب صرف دھول اڑتی تھی۔ ٹین کاایک زنگ آلود ٹوٹا پھوٹا شیڈ رہ گیا تھا جو ہوا میں کھڑکھڑاتا رہتا تھا۔ اس کے کھڑکھڑانے کی آواز رات کے سناٹے میں بڑی مہیب محسوس ہوتی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جب کبھی اس ٹین کے ہلنے کی آواز آتی ہے تو دور مرگھٹ میں شعلے بھی بھٹکتے نظر آتے ہیں۔

    جہاں تک اس کے گھر کا سوال ہے تو گھر میں کھڑکی کے علاوہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھی۔ ہاں مگر وہاں بہت سے قرآن شریف بھی تھے، جو جگہ جگہ پھول دار جزدانوں میں لپٹے نظر آجاتے تھے۔ ایک بڑاسا پرانا قرآن شریف تو کھڑکی کے اوپر بنے چھوٹے سے مچان پر ہی رکھا ہوا تھا۔ گھر میں کالی چیونٹیوں کی بھی بھرمار تھی جن کے بارے میں اس کی بہن کا خیال تھا کہ انہیں کبھی نہیں مارنا چاہیے کہ یہ چیونٹیاں مذہباً دراصل مسلمان ہیں۔ ابھی وہ کالی چیونٹیاں کھڑکی کے پٹ پر رینگ رہی تھیں۔ کھڑکی کے پٹ پر دنیا کاایک نقشہ بھی چسپا ں تھا۔

    اس نے دائیں ہاتھ سے لکھا تھا،

    ’’مجھے صاف اور واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ حروف اور الفاظ کی شکلیں ہی تبدیل ہوگئی ہیں۔ اگرچہ وہ صاف صاف وہی تھے جو ان کا مطلب تھا۔ مثلاً ’ب‘ ’ب‘ ہی تھا اور ’ج‘۔ مصوتوں اور مصمتوں کی صوتیات میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مذکر مونث اور مونث مذکر میں ہرگز نہیں بدل رہا تھا۔ مگر پھر بھی ایسا لگ رہا تھا، جیسے ان کے رویے میں ایک ناقابل دید مگر کوئی اور پراسرار تبدیلی ضرور واقع ہوئی تھی۔ جیسے آپ کبھی کبھی اپنی عورت کی سردمہری کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ ترسیل اور معنی کے تمام کونوں سے اکھڑے اکھڑے ناراض اور خفا سےکھڑے تھے۔ وہ کسی دوسری سمت کو جھک رہے تھے۔‘‘

    (تو کیا محض ہاتھ بدل کر لکھنے سے تاریخ ایک نخریلی عورت میں بدل سکتی تھی۔ اس کاپورا رویہ ہی کچھ سے کچھ بن سکتا تھا؟)

    ’’میں آپ کو بتادوں، بلکہ گوش گزارکردوں، کہ میرا کوئی ارادہ متوسط تاریخ لکھنے کا نہیں رہا ہے۔ تاریخ ویسے بھی مجھے مکھی کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں بلکہ مقابلے میں کیا، مطلقاً، جغرافیہ کو ہی میں نے ہمیشہ پسند کیا ہے کہ اس میں کم از کم ندی، پہاڑ اور گھاس وغیرہ کاذکر تو ہوتا ہے۔ میں تو دراصل تاریخ اور جغرافیہ کے اس نام نہاد تعلق کو بے بنیاد ثابت کرنا چاہتا ہوں جس کا علمی حلقوں میں ہمیشہ سے ہی بڑا چرچارہا ہے۔ بات یہ ہے کہ تاریخ کا تعلق دراصل کسی بھی شئے سے نہیں ہے یا اگر ہے تو صرف انسانی تقدیر سے یا خدا کی خدائی سے۔ دونوں ہی سے مجھے رتی برابر دلچسپی نہیں اور اس سلسلے میں علت ومعلول کااحمقانہ اصول کتناتباہ کن ثابت ہوسکتا ہے! اسے فلسفیانہ طور پر بیان کرکے میں اپنی اور آپ کی طبیعت کو پراگندہ خاطر نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

    ’’میں تو یہ سب لکھ ہی اس لیے رہا ہوں کہ تاریخ کے کنکھجورے کو جغرافیہ کی شفاف پیٹھ پر سےنوچ کر دور پھینک سکوں۔ اس کے لیے مجھے چمٹے میں ایک انگارہ رکھنا ہوگا۔۔۔ میں یہ سارا کام اپنے بائیں ہاتھ سے کر رہاتھا مگر بایاں ہاتھ آج کل بری طرح دکھ رہا ہے۔ کندھے سے لے کر انگلیوں تک اس میں بری طرح سوجن ہے۔ وہ لال ہے اور اندر سے اس طرح تپ رہا ہے جیسے وہاں کسی پھوڑے کامواد بھرا ہواہو۔ اینٹھن اور درد گردن تک پھیل گیے ہیں۔ میں بائیں ہاتھ والا آدمی ہوں یعنی یساری۔‘‘

    ’’جب بائیں ہاتھ سے لکھنا دشوار ہوگیا تو میں نےمجبوراً دائیں ہاتھ سے لکھنا شروع کردیا۔ میں نے زندگی میں پہلے کبھی دائیں ہاتھ سے کچھ نہیں لکھا۔ مگر کیا کروں، یہ کام اب اور زیادہ ٹالا نہیں جاسکتا۔‘‘

    ’’تو اب آپ کو اتنا تو علم ہو ہی گیا ہوگا کہ میں تاریخ کی چھان پھٹک کرنےمیں اپنا وقت نہیں ضائع کر رہاہوں۔ میں تاریخ کو خالص کیوں بناؤں؟ میں تو جغرافیے کو خالص بنانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ اس خالص جغرافیے کو اس کی مکمل جمالیات اور نشاط و انبساط کے ساتھ اپنے حواس و اعصاب میں محفوظ کرسکوں۔ خالص جغرافیہ جو ریاضی کے ہندسے کی طرح صاف شفاف، چمکتا ہو اور ایماندار ہے۔

    ’’لیکن اب دائیں ہاتھ سے یہ انگارہ پکڑنے پر مجھے محسوس ہو رہاہے کہ صرف رسم الخط ہی نہیں بدل رہا ہے، سب کچھ بدل رہاہے۔ اگرالفاظ اس طرح آہستہ آہستہ اپنی شکل بگاڑتے رہے تو یہ کچھ ایسی خطرناک صورتِ حال ہوگی، جیسے کسی کی جنس کا پراسرار طریقے سے بدلتے جانا، جیسے ایک نازک اندام حسینہ کے سینے پر اور چہرے پر بڑے بڑے بالوں کا اگ آنا۔ ہے نا خطرناک بات! کیوں کہ اس سے آگے چل کر سارا مفہوم بلکہ صاف کہوں تو سارا کھیل ہی بگڑ جائے گا۔

    ’’میں دراصل بائیں ہاتھ والا آدمی ہوں۔‘‘

    ’’مگر میں صرف بائیں ہاتھ والا ہی نہیں ہوں۔ میرے ساتھ تقریباً سب کچھ بائیں طرف ہی ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں یہ سوچنے میں بخل سے کام لے رہا ہوں کہ میرے اوپر تمام بلائیں چاہے وہ آسمانی ہوں یا زمینی، بائیں طرف ہی کیوں نازل ہو رہی ہیں۔ مگر قاعدے کی بات تو یہ ہے کہ آدمی کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ بھلے ہی اس کے جسم کا بایاں یا دایاں حصہ بالکل ہی بیکار کیوں نہ ہوجائے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ اگر کل کلاں کو میرے اوپر فالج بھی گرجائے تو جناب جسم کا بایاں حصہ ہی بیکار ہوگا۔‘‘

    (۲)

    اور یہ حقیقت تھی کہ وہ صرف بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا کوئی عام سا آدمی نہیں تھا۔ کیا یہ کسی قسم کا کینسر ہوسکتا تھا؟ ممکن ہے کہ جسم کا دفاعی نظام کچھ اس طرح متاثر ہوا ہو کہ ہر قسم کی بیماری، کمزوری، معذوری اور تکلیف ادھر ہی کو چلی آرہی ہو۔ یعنی اس کے جسم کےبائیں حصے میں۔ ویسے جراثیم کےبارےمیں تو کوئی تجسس نہ تھا کہ وہ تو آسمان سے سست روی کے ساتھ نیچے اتر رہے تھے۔ خلا سے آرہےتھے، بوندوں کی طرح انسانوں کے مقدر پر گرتے ہوئے۔ تجسس تو یہ تھا کہ آخر یہ سب کیا تھا جو اس کے جسم کے بائیں طرف کو ہی متاثر کرتا تھا۔ شاید اس کینسر کے پاس اور کوئی کرشمہ ہی نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اس کے بائیں نظام اعصاب پر ہی اپنی ڈگڈگی بجائے؟

    مگر موت بھی تو تھی۔ مسئلہ تو بیماری کے بعد مرنے کا تھا۔ موت تو صرف بائیں طرف ہی نہیں آتی۔ مگر یہ بھی کون جانتا ہے کہ کوئی شخص بیمار ہی پڑکر مرےگا۔ اب یہ تو بظاہر ایک مضحکہ خیز مگر درحقیقت ایک پراسرار فہرست کو پڑھناہے کہ اس کی بائیں آنکھ سے پانی نکلتا رہتا تھا اور وہ ہمیشہ پھڑکتی رہتی تھی۔ پیر کی رگ اکثر کھنچ جایا کرتی تھی مگر وہ صرف بایاں پیر ہوتا تھا۔ بائیں طرف کے گردے میں ہمیشہ سوجن رہتی تھی۔ اس میں پتھری بن گئی تھی۔ بائیں پیر کےانگوٹھے میں اکثر ٹھوکر لگ جایا کرتی تھی۔ اس میں پیپ پڑکر ناخن نیلا پڑجایا کرتا تھا۔ بچپن میں کبھی پیٹ میں درد ہوتا تو وہ صاف محسوس کرتا کہ درد دراصل پیٹ کی الٹی طرف ہی ہو رہاہے۔ منھ میں بائیں طرف کی داڑھ گل گل کر گرچکی تھی اور وہاں اکثر درد رہتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ بچپن میں نزلہ بگڑجانے کے باعث اس کے کان بند رہنے لگے تھے اور ان میں ہر وقت ہوا سیٹیاں سی بجاتی رہتی تھی۔ مگر الٹا کان زیادہ تر بہتا بھی رہتا تھا۔ اکثر رطوبت نکل کر کان کی لو سے بہتی ہوئی گردن تک پہنچتی تھی۔ ایسے وقت اگر بہن اسےدیکھتی تو بہت پیار کے ساتھ روئی یا کسی کپڑے کی دھجی سےاسے صاف کردیتی۔ بائیں طرف بغل میں چھوٹے چھوٹے بےشمار کالے مسے تھے۔

    حدتو یہ تھی کہ امس بھرے دنوں میں اس کا پورا بایاں جسم گرمی دانوں سے پھل جایا کرتا، مگر دائیں طرف ایک ننھا سا دانہ بھی نہ ابھرتا۔ اور کوئی یقین کرے یا نہ کرے، اس ستم ظریفی سے تو وہی واقف تھا کہ کچھ عرصے سے اس کے بائیں فوطے میں پانی آگیا تھا اور وہ پھول کر غبارہ بنتا جارہاتھا۔ اس صورت میں اٹھنا بیٹھنااس کے لیے کم تکلیف دہ نہ تھا۔

    اب جہاں تک اس کےجسم کے دائیں حصے کاسوال تھاتو ادھر بچپن سے لےکر اب تک ایک آدھ بار صرف خراش ہی آگئی ہوگی۔ ورنہ موچ ہو یا کوئی چوٹ، سب بائیں طرف ہی وقوع پذیر ہوتا تھا۔ دایاں تو صاف اور بے داغ پڑا تھا۔ وہ الٹے پیر پرزور دےکر قدرے بائیں کو ہی جھک کرچلتا تھا لہٰذا نہ صرف یہ کہ الٹے پیر کی ایڑی ہمیشہ دکھتی رہتی تھی بلکہ اس پیر کی چپل کی ایڑی بھی ہمیشہ گھسی اور شکستہ حالت میں نظر آتی تھی۔

    اس کاگلا دائمی طور پر خراب رہتاتھا اور اسے ہمیشہ ہلکی ہلکی کھانسی رہتی تھی، مگر جب منھ پھاڑ کر وہ آئینے میں اپناگلا دیکھنےکی کوشش کرتا تو صرف بایاں غدود ہی سوجا ہوااور سفید پیپ سے بھراہوا نظر آتا۔ کبھی کبھی دل گھبراتا اور سینےمیں بائیں طرف میٹھا میٹھا درد محسوس ہوتا۔ اس وقت وہ سینے کے دائیں طرف درد ہونےکی دعا مانگا کرتا۔ ریڑھ کی ہڈی کی گریا اکثر ادھر ادھر ہوجاتی مگر درد، وہ تو صرف بائیں طرف ہی ہو رہاہوتا۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر لفظ ’’بیماری‘‘ کی تصویر اتاری جاسکتی تو اس کے جسم کے بائیں حصے سے بہتر کوئی منظر نہ ہوتا۔ یہ کسی کینوس کی سیاہی نہیں بلکہ اصل اور خالص بیماری کی مکمل تصویر ہوتی۔

    آخر کیوں؟ کچھ بھی دائیں طرف کیوں نہیں ہوتا۔ ساری مصیبت، تمام آفت آخر بائیں طرف ہی کیوں تھی؟آخر تھا نہ بہت عجیب اتفاق اور ساتھ ہی مضحکہ خیز بھی۔ اس پر ٹھٹھا مارکر ہنسا جاسکتا تھا یعنی وہ صرف بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا ایک عام سا آدمی نہ تھا۔

    ’’تو بائیں طرف چلنا کیوں اچھا ہے؟‘‘ بچپن میں اس نے باپ سے سوال کیا تھا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔‘‘ باپ نےجواب دیا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔ امن و امان کے لیے۔‘‘ اس نےدہرایا۔ مگر شاید صرف بائیں طرف چلنا ہی اچھا تھا اور سب براتھا۔

    اس دن جمعرات تھی۔ کسی کے گھر سے فاتحہ کا سالن آیا تھا۔ مرغ کا سالن۔ وہ جلدی سے ہاتھ دھو کر دسترخوان پر بیٹھ گیا۔ تام چینی کے پیالے میں بوٹیاں اور شوربہ چمک رہا تھا۔ اس نےخوش ہوکر نوالہ توڑا۔ لکڑی کاایک موٹا سا بیت اس کے بائیں ہاتھ پر پڑا، وہ درد سے بلبلا گیا۔ ہاتھ لال ہوگیا۔ نوالے میں پھنسی ہوئی مرغ کی بوٹی فرش پر بکھر گئی۔ وہ سسک کر رونے لگا۔

    ’’اور کھا الٹے ہاتھ سے۔ اگر تو نےالٹے ہاتھ میں نوالہ تھاما تو آج ہاتھ ہی توڑ کر الگ کردوں گا۔‘‘ باپ غصے میں چیخا اور اس کی لمبی سفید داڑھی زور زور سے ہلنے لگی۔ وہ محلے کی مسجد میں موذن تھا۔

    ’’کتنی بار سمجھایا ہے کہ الٹا ہاتھ شیطان کا مسکن ہے۔ ناپاک ہے۔ اس سے آب دست لیا جاتا ہے۔‘‘ باپ دوبارہ گرجا۔

    ایسا ہمیشہ ہوتا ہی رہتا تھا۔ وہ کھانے کے سامنے سہما سہما سا بیٹھا رہتا۔ جب باپ مسجد میں اذان دینے کے لیے گھر سے باہر جاتا تو چھوٹی بہن اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی اور اپنے سیدھے ہاتھ سے چھوٹے چھوے نوالے بناکر اسے کھلانےلگتی۔ اس وقت اس کی دائیں آنکھ سے آنسو اور بائیں آنکھ سے شاید پانی بہنا شروع ہو جاتا۔ وہ جب بھی سونے کے لیے لیٹتا تو بائیں طرف کروٹ لےکر ہی اسے چین ملتا اور نیند آتی۔ تب باپ اسے جھنجھوڑ کر سوتے سے اٹھا دیتا۔

    ’’پھر لیٹا اس طرح! بائیں کروٹ سے لیٹنا سونا سنت نہیں ہے۔ تمام عمر آنتیں سڑتی رہیں گی!‘‘ ڈر کے مارے اس کا پیشاب نکل جاتا۔ مگر افسوس کہ یہ تمام نصیحت اور ڈانٹ پھٹکار رائیگاں ہی گئی۔ نہ اس نے بائیں ہاتھ سے کام کرنا چھوڑا اور نہ ہی کبھی دائیں طرف کروٹ لے کراس کی آنکھ لگ سکی۔ ایک دن اس کا باپ اسے نیک اور جنتی آدمی دیکھنے کی آرزو دل ہی میں لیے لیے اس دنیا سے چلا گیا۔ اس دن محلے کی مسجد میں کسی اور نے اذان دی اور اس امر کا انکشاف اس پر باپ کے مرنے کے بعد ہی ہوا کہ اس کے گھر میں کتنے بہت سے قرآن شریف موجود تھے۔

    اب شام بیت گئی تھی۔ اندھیرا پھیل چلا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا بولے ہوئے لفظ اور تحریری لفظ کی آپسی ہم آہنگی کو پرکھ رہا تھا۔

    ’’میرباقی بابر کاآدمی نہیں تھا۔ وہ تو دراصل ابراہیم لودی کا صوبےدار تھا۔ ابراہیم لودی سے اس کی غداری ایک پراسرار امر ہے اور اس کی وجوہات اس کی غداری سے بھی زیادہ پراسرار۔ اس نے پہلے سےتعمیر شدہ ایک مسجد بڑی خوش دلی کے ساتھ بابر سے منسوب کردی۔ جس طرح لوگ اپنی تخلیق کردہ کتاب کو کبھی کبھی بڑے ادیب وغیرہ کے نام کردیتے ہیں۔ اس کا یہ اقدام ایک بڑے جغرافیائی خطے پر امن و امان کا پیش خیمہ بھی تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ سڑک پر بائیں طرف چلتے ہوئے امن و امان اور سلامتی کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    ’’میں نےمندرجہ بالاعبارت کو بائیں ہاتھ سے لکھنے کی ایماندارانہ کوشش کی تھی۔ مگر کیا کروں؟ مجبور ہوں۔ درد کی لہر سے پورا ہاتھ تنا جا رہا ہے۔ اب یہ کام تو مجھے کرنا ہی ہے سو سیدھے ہاتھ سے ہی سہی۔ تاریخ کے جبر سے آزادی ہی میرا اولین اور آخری مقصد ہے۔ مگر مجھے اس امر کا بھی احساس ہے کہ تاریخ کا جبرتو ایک مہمل سی بات ہوئی۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ’’جبر‘‘ اپنی ماہیت میں ہوتا ہی صرف ’’تاریخ ‘‘ ہے اور کچھ نہیں۔ اب بات کو کچھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ چاہے ایک جھٹکے میں آپ کے ہاتھ پیروں کےانگوٹھوں کو کاٹ کر پھینک دیا جائے یا ان کے ناخن اکھاڑ دیے جائیں تو یہ سب تاریخ ہے۔

    ’’ہاں تو اصل میں گرم ممالک کے رہنے والوں کے لیے جمہوریت اور سرد ممالک والوں کے لیے بادشاہی مناسب ہے۔ جس طرح ایک واستو کار الگ الگ مقاموں پر اپنے لیے بنائے گیے مکانوں کی مٹی انہیں مقامات سے منتخب کرتاہے، ملکوں کا مقدر بھی اسی طرح طے ہوتا ہے، اور پھر جیوتش بھی تو ہے۔ وہ تو جغرافیے کا سب سے اہم عنصر ہے۔ ستارے اور سیارے ایک جغرافیائی اکائی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان کا اثر ملکوں پر نہ پڑے گا تو کیا محض انسان کے مقدر پر پڑے گا؟‘‘

    ’’اور یوں تو ملک ایک روحانی اکائی ہے۔ ہر ملک اور اس کی تاریخ پیدا ہونے سے پہلے ہی ایک عظیم روحانی تجربے میں بدل جاتی ہے کیونکہ جب خدا اپنے آپ کو عظیم وسعت میں دیکھنا پسند کرتا ہے تو اس کا سب سےآسان طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی قلب ماہیت مملکت میں کرے۔ ویسے توخیر، خدا نقطے میں سمٹ جائے پھر بھی وسعت کاسراغ دیتا ہے۔ اب دیکھیے کہ نادار، لاچار، اپاہج اور مظلوم سب میں اس کا قیام ہے۔ یہ سب وسعت کی مثالیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور وسعت میں طول البلد اور عرض البلد کی شمولیت کس قدر لطیف ہے، اس کے بارے میں بیان کرنا تو یقیناً تضیع اوقات ہوگا جس کے لیے فی الحال میں تیار نہیں ہوں۔ مگر یہ بات ایک بار پھر قبول کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جغرافیہ سےعشق ہے۔ مجھے آرمینیا کے گھاس کے میدان اور بھیڑیں بہت اچھی لگتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ میں بائیں طرف سے سخت بیمار ہوں۔‘‘

    ’’میرا سارا بایاں کمزور ہے۔‘‘

    (۳)

    یہ کبھی نہیں پتہ چل پایا کہ اس کے گھر میں جغرافیہ کے اتنے نقشے کہاں سے اکٹھا ہوگیے تھے۔ بہت سے کلام مجید، حدیث وفقہ کی کتابیں، طب کے نسخے اور ڈھیر سارے مخطوطے تو اس کے باپ اور دادا کے زمانے سےگھر میں اکٹھا ہوتے چلے گیے ہوں گے، مگر جغرافیہ کے اتنے ڈھیر سارے نقشے؟ ان میں سےبیشر تو متروک ہوچکےتھے۔ وہ کسی اور زمانے کا جغرافیہ پیش کرتے تھے۔ مگر اس کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ ان پھٹے حال اور متروک نقشوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا۔ اگر ان کا کاغذ گل کر پھٹنےلگتاتو وہ بے حد تندہی کے ساتھ اس کو اپنی جگہ پر چسپاں کرکے ہی دم لیتا۔ مجال ہے کہ کوئی پہاڑ، کوئی ندی، کوئی سمندر، نقشے پر سے سرک کر کہیں غائب ہوجائے۔ وہ پتلی سے پتلی کترن کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا۔

    اگرچہ اس احساس سے وہ بھی بیگانہ نہ تھا کہ جس دور میں وہ جی رہا تھا اس میں شاید جغرافیہ کی موت واقع ہوچکی تھی۔ نئی ٹیکنالوجی اور نئے شعبدوں والے انسان نے جغرافیہ میں یقین کرنا بند کردیا تھا۔ دنیا پتہ نہیں کون سی گاؤں میں بلکہ ’’چھپر‘‘ میں بدل گئی تھی۔ اب رہ ہی کیا گیا تھا۔ فقط ایک نیلے غبار کے سوا؟ مدرسے میں جہاں وہ پڑھاتا تھا، دنیا کا نقشہ اس کی پشت پر دیوار سے ٹنگا رہتا۔

    ’’بتاؤ! کوہ قاف کہاں ہے؟‘‘ وہ تقریباً دہاڑتا۔

    جب کوئی طالب علم نقشے کو غور سے دیکھ کر جواب دینے کی کوشش کرتا تو وہ اپنے بائیں ہاتھ میں رول اٹھا کر بغیر پیچھے مڑے،اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے رول کو اپنے سر یا کندھے سے اوپر لے جاتے ہوئے پیچھے دیوار پر ٹنگے ہوئے دنیا کے نقشے پر زور سے مارتا اور رول ناقابل یقین طور پر ٹھیک کو ہ قاف پر پہنچ کر گویا چپک سا جاتا۔

    ’’یہ رہا کوہِ قاف۔ بحیرۂ اسود سے بالکل ملا ہوا۔‘‘ وہ جوش اور مسرت سے چیختا اور اس کی بائیں آنکھ بری طرح پھڑکنے لگتی۔ ویسے اس خیال سے وہ بھی متفق تھا کہ اس سیارے کو ’’زمین‘‘ کا نام دینا گمراہ کن تھا کیونکہ اصل میں تو یہ ایک ’’مہاساگر‘‘ تھی۔ جہاں تک زمین کی اندرونی حالت کا سوال تھا، تو اس ضمن میں اس کی واقفیت دوسروں کی طرح بہرحال محدود تھی۔ وہ بس یہی جانتا تھاکہ یہ بہت بھاری تھی اور شاید لوہے کا ایک ٹھس جسم تھی۔ اس اندرونی لوہے کے گولے پر ایک موٹی تہہ بہت گرم پگھلی ہوئی چٹانوں کی تھی۔ اور اس تہہ کے اوپر زمین کی وہ پپڑی تھی جس پر انسان رہتے تھے۔ اس پپڑی کے کچھ حصے دوسروں سے کچھ اوپر نکلے ہوئے تھے۔ خشک حصہ زمین کہلاتا تھا۔ نشیبی حصہ پانی سے ڈھکا تھا جس کو سمندر کا نام دیا گیا تھا۔ نقشے پر پانی کا نیلا رنگ بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ گھنٹوں اسےدیکھتا رہتا۔ سمندروں کا گہرا نیلا اتھاہ پانی ساتھ ہی اسے اداس بھی کردیتا۔

    پہاڑ اسے ہمیشہ پراسرار، افسردہ مگر قوت استقلال سے بھرے ہوئے نظر آتے۔ وہ زمین کو سایہ دار قناتوں کی طرح ڈھکے ہوئے تھے۔ پہاڑ دو قدرتی خطوں کو جدا بھی کرتے تھے۔ مگر یہ کہنا آسان نہ تھا کہ کہاں ایک قدرتی خطہ ختم ہوتا ہے اور کہاں دوسراشروع ہوتاہے۔ اونچی سرزمین پہاڑوں سے آہستہ آہستہ ڈھالو ہوتی ہوئی خشک ہوکر ریگستان میں بدل جاتی تھی۔ اسے نقشے میں یہ سب دیکھ کر بہت الجھن ہوتی تھی کہ ہرچند ایک خط نقشے میں دو قدرتی خطوں کو الگ کرتا ہے مگر درحقیقت یہ کہنا مشکل ہے کہ خط کہاں سے کھینچا جائے۔ اس کی یہ الجھن کبھی کبھی اتنی بڑھتی کہ ناک کے بائیں نتھنے سے پانی نکلنا شروع ہوجاتا۔

    اور پھر وہ زلزلے بھی تو تھے جو زمین کے اندر ایک اندھیری تنہا درار پیدا کرکے اس کے ہی وجود کے ایک حصے کو دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیتے تھے۔ مختلف براعظم جو کبھی ایک تھے، صرف ان بھیانک اور بدنیت زلزلوں کی ہی دین تھے۔ ایک حصہ کھسکنے لگتا تھا، خاموشی کے ساتھ کہیں اور چلے جانے کے لیے۔ مگر اسے خوف نہ زلزلوں سےآتا نہ ان خوفناک کالی آندھیوں سے جو کچھ دیر کے لیے نہ صرف دنیا کو تاریک کردیتی تھیں بلکہ اس کا مقدر ہی بدل کر رکھ دیتی تھیں۔ اسے چندن کے جنگلوں سے بھی ڈر نہ لگتا جن پر مشہور ہے کہ صدسالہ بوڑھے سانپ دبلے ہوکر اڑتے ہوئے آتے ہیں۔ کمزور، بوڑھے اور مہیب حدتک دبلے پتلے سانپ نہ جانے کہاں سے اپنے تاریک اور سنسان بلوں کو اور بھی ویران کرکے چندن کے درختوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں۔ ان سانپوں کے جسم سے چھوکر آنےوالی ہوا انسان اور چرند وپرند سب کے لہو کو منجمد کیےدیتی ہے۔ لقوہ مارے دیتی ہے۔ یہ موت کی زہریلی خوشبو ہے۔ وہ اکثرنقشے میں چندن کے درختوں اور ان پر لپٹے دبلے بوڑھے سانپوں کو تلاش کرنے کی بے معنی اور ناکام کوشش کرتا۔

    یوں تو دنیا کا، بلکہ کسی بھی ملک کا پھیلا ہوا نقشہ اس کے لیے طمانیت کاباعث تھا مگر پھر بھی وہ اکثر نقشے میں مشرقی ہمالیہ کے ان خطوں کو تلاش کرنے لگتا جہاں کے باشندے جنگل کے ایک چھوٹے سے حصے کو جلا ڈالتے ہیں۔ اس جلے ہوئے جنگل کی راکھ کچھ عرصے کے لیے وہاں کی مٹی کو زرخیز بنا دیتی ہے۔ وہ سوچتا کہ پہاڑ کی ڈھلانوں پر جلتے ہوئے جنگل کی روشنی دور سے بہت خوبصورت نظر آتی ہوگی مگر خوبصورتی کی اپنی ایک نجی دہشت بھی تو ہوتی ہے۔

    نقشے میں ہی اکثر وہ ایسی جگہیں یا نقطے تلاش کرنے کی تگ و دو میں بھی لگا رہتا جو اس لیے وہاں نظر آنا ممکن نہ تھے کہ یا تو نقشے کا سائز ایسے مقامات کے لیے چھوٹا پڑجاتا تھا یا اس کا کاغذ میلا اور گھس گیا تھا۔ مثال کے طور پر بلند کوہستانوں کی وہ گہری، بےسراغ تاریک وادیاں جن میں پرندے نہ جانے کون سے پراسرار دکھ اور ناقابل فہم مایوسی سے تنگ آکر گر گر کر خودکشی کرتے تھے۔ مگر وہ موہوم نقطے نقشے پرہمیشہ ندارد رہے۔ ایسے وقت اسے اپنا سارا بایاں جسم چیونٹیوں اور خارش کی زد میں آیا ہوا محسوس ہوتا۔

    اگرچہ وہ یہ بھی محسوس کر رہاتھا کہ وہ سب بدل رہے تھے۔ یعنی سردی، گرمی میں تبدیلی آرہی تھی۔ تمام ندیوں کے مآخذ سکڑتے جارہے تھے۔ برف کے تودوں نے اپنا راستہ بدلا تھا۔ میدانی علاقوں میں مانسون اجاڑ منھ لیے سنکیوں کی طرح بھٹکتا تھا۔ وہ بارش بھی نہ جانے کب سے نہیں ہوئی تھی جو تاریخ کو دھوکر جنگل کو ہرا کر دیتی ہے۔ یعنی اشیاء ٹھیک ٹھیک اپنی پٹری پر نہیں چل رہی تھیں۔ مگر بہرحال یہ تشفی بخش تھا کہ وہ سب اس زمین پرموجود تھے۔ کم از کم ابھی تو ان کے ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔ مثال کے لیے وہ آتش فشاں بھی تو تھے جو اپنی آگ اگل کر تھک کر سوگیے تھے۔ وہ قبروں کی مانند تھے۔ ان کے دہانوں پر جھاڑیاں اور پودے اگ آئے تھے۔ آس پاس چھوٹی چھوٹی جھیلیں نمودار ہوگئی تھیں۔ وہ اب ویران پڑے تھے اور اس لیے وہاں آبادی بسناشروع ہوگئی تھی۔ جس طرح قبرستان کے آس پاس بازار لگناشروع ہوجاتا ہےمگر کون وثوق کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ وہ اب دوبارہ نہ زندہ ہوسکیں گے؟

    جغرافیہ کا وہ ایک بوسیدہ سا رنگین نقشہ کیا تھا، ایک سجی سجائی محفل، ایک بقعۂ نور اور ایک کارنیوال جیسا اس کی آنکھوں کے سامنےتھا۔ جب وہ تھک جاتا اور اس کے بائیں کان میں سیٹیاں سی بجنا شروع ہوجاتیں تو گیاہستان اور وسیع و عریض کوہستانی جنگل اس پر اپنا سایہ کرنے لگتے۔ جنوبی مغربی مانسون اپنی پوری قوت کے ساتھ چلتا ہوا آتا اور پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا کر سفید کہرے میں بدل جاتا۔ طوفانی بارش اور گرج چمک میں وہ ایک جوگی کی طرح آسن مارےبیٹھا رہتا اور اس کے بائیں جسم پر ابھرے ہوئے گرمی دانے ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جاتے۔

    یاکبھی کبھی وہ خود کو شاندار، خوبصورت اور گھنے پیڑ کے درختوں میں چکر کھاتا ہوا محسوس کرتا۔ ان درختوں کے نیچے زمین پر بھورے پھول پھیلے رہتے جن کی خوشبو اس کے دم کو تازہ کردیتی۔ جب وہ اور قریب سے گزرتا تو اسے نظر آتا کہ جہاں کہیں چیڑ کے درخت کا چپڑ اکھڑگیا ہے وہیں پر گاڑھا گوند نکل کر سطح پر جم گیا ہے۔

    وہ نقشے پر پنسل پھیرتے وقت اکثر کسی پہاڑی چشمے کے کنارے سے جھرنوں اور دونوں اطراف کے گھنے جنگلوں کا دشوار گزار سفر طے کرتا ہوا بہت بلندی پر پہنچ جاتا جہاں ہوا بہت ٹھنڈی تھی، چشمے کاپانی بھی برف تھا۔ وہ دیکھتا کہ چشمہ برف کے ڈھیر میں بنے ہوئے ایک سوراخ سے بہہ رہاتھا، پہاڑ کی بلندیوں تک برف ایک دریا کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ یہ منجمد دریا گلیشیر تھا۔ کچھ قومیں بھی ایسی ہی تھیں۔ تاریخ میں ہرگز نہیں بلکہ صرف زمین پر، جومنجمد نظر آتی تھیں، اس گلیشیر کی طرح۔ مگر یہ آہستہ آہستہ بلندیوں سے نیچے کھسکتا ہوا، لڑکھتا ہوا اور پگھلتا ہوا دریا کی شکل میں بدل رہاہے۔ کتنی قومیں اسی طرح جلاوطن ہوتی جاتی ہیں بغیر جلاوطنی کے احساس کے۔ ندیوں میں بدل کر بھی ان کا مقدر اختتام تک نہیں پہنچتا۔ دنیا کےاوپر بہتی ہوئی، جاتی ہوئی، پیچ درپیچ تنگ گھاٹیوں سے نکلتی ہوئی ندیاں جن کا دراصل کوئی وطن نہ تھا۔

    ہاں، چٹانوں کے بارے میں سوچ کر وہ اداس ہوجاتا۔ پہاڑ رفتہ رفتہ گھس رہے تھے۔ تغیر آہستہ آہستہ مگر مسلسل ہو رہا تھا۔ سمندر ان چٹکتے پہاڑوں سے بھر رہا تھا۔ کچھ چٹانیں ٹوٹ رہی تھیں تو کچھ بن رہی تھیں۔ افسوس کہ سب چٹانوں کی عمر ایک نہ تھی۔

    مزے کی بات یہ تھی کہ اسے کچھ خطرناک چیزوں سے بھی انس تھا۔ مثلاً اپنی حرکات سے چٹانوں کو موڑ دینے اور زمین کی سطح پر بڑی بڑی جھریاں ڈال دینے والے ہولناک زلزلے یا ریگستانوں میں چلنے والی دھول بھری آندھیاں اور ساحلی علاقوں میں آنے والے سخت اور بھیانک طوفان۔ ان سب سے اس کا بے حد رومانی تعلق تھا۔

    مگرسب سے زیادہ رومان تو وہاں تھا اور وہی سب سے خوبصورت، سب سے نیک اور سب سے زیادہ بااخلاق بھی تھے یعنی جنگل۔ یا خود کو سورج کی گرمی سے بچانے کے واسطے اپنی پتیاں خاموشی سے گرادینے والے اداس مانسونی جنگل، برائے نام بارش والے علاقوں میں خاردار جھاڑیوں والے بیمار جنگل، یا بہت زیادہ اونچائی پر پائے جانے والے چوڑی پتیوں اور بغیر شاخوں والے درختوں سے بنے ہوئے اور رعونت سے بھرے ہوئے جنگل۔ وہ ان جنگلوں میں خوش ہوہو کر راستہ بھول جاتا اور ان کی ہواؤں میں اس کا بایاں جسم جھومنے لگتا۔

    تو یہ تھی ایک سجی سجائی محفل جہاں وہ خود اپنے وجود سے بھی کب کا بیگانہ ہوچکاتھا۔

    (۴)

    یقیناً یہ سچ تھا کہ اپنی تمام زندگی میں اس نے شہر سے باہر قدم بھی نہ رکھا تھا۔ محلے تک سے باہر نکلنےکا اتفاق برسوں میں ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی جب دورہ پڑتا تو مدرسے والوں کو اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر تک بھی چھوڑنا پڑتا تھا۔ دورے کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کب پڑجائے گا۔ مرنے سے پہلے (اس کی ماں اسے پیدا کرنے کے ایک سال بعد ہی چل بسی تھی) ایک بار اس کی ماں نے اس کے باپ کو بتایا تھا کہ ایک رات اسے دودھ پلانے کے بعد جب وہ اسے سیدھا کرکے بستر پر اپنے برابر لٹا رہی تھی تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے چہرے کا بایاں حصہ بری طرح چمک رہا ہے۔ وہاں ایسی روشنی تھی جیسے ہزاہا چراغ جل رہے ہیں۔ کچھ ایسے چراغ جن سے چہرے کو آگ بھی لگ سکتی تھی۔ اس شیرخوار بچے کا چہرہ بے حد سنجیدہ سا نطر آتا تھا مگر اس کے ہونٹوں سے جھاگ اڑ رہے تھے اور چہرے کی سنجیدگی قہر آلودگی میں بدلتی جارہی تھی۔ وہ اپنے بائیں ہاتھ اور پیر کو بری طرح اینٹھ رہا تھا۔

    لیکن اس کے باپ کو اس واقعے پر کبھی یقین نہ آیا تھا۔ یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ ان دوروں کی دوبارہ شروعات باپ کے مرنے کے بعد ہی ہوئی تھی۔ اس کی بہن جو اس سے عمر میں دوسال چھوٹی تھی، ان دوروں کے بارے میں سب سے زیادہ جانتی تھی۔ ان دوروں کو پوری طرح پاگل پن قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اس کی بہن جو محسوس کرتی وہ صرف یہ تھا کہ وہ چڑچرا سا ہوجاتا تھا۔ بائیں طرف کا چہرہ بری طرح لال نظر آنے لگتا تھا اور اس پر ایک قسم کی چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ جو دیکھنےمیں اچھی نہیں لگتی تھی اور اسی پراسرار یا خطرناک بلکہ ہلاکت خیز شئے کی طرف اشارہ کرتی تھی کیونکہ ایسے وقت میں اس کے چہرے کا دایاں حصہ ویران اور تاریک پڑا ہوتا۔ دوسری اہم بات اس دورے میں یہ تھی کہ چلتے وقت ایسا صاف طو رپر محسوس ہوتا جیسے اس کے بائیں جسم اور دائیں جسم کے درمیان ایک کشتی سی جاری ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ان دوروں میں وہ قاعدے سے چل نہیں پاتا تھا اور لوگوں کو اسے پکڑ کر گھر تک چھوڑنا پڑتا تھا۔ مگر یہ دورے بہت مختصر سی مدت کے ہی ہوتے۔ ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کرنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ گھر میں سوائے غربت کے اور کوئی شے نہ تھی۔ بہن کے پاس کچھ روپیہ تھا، جو اس نے اپنے حج پر جانے کے لیے پس انداز کر رکھاتھا۔

    ایک دفعہ اس کی بہن اسے شاہ دانہ صاحب کے مزار پر ضرور لے گئی تھی۔ وہاں اس کے بائیں جسم پر آسیب کا سایہ بتایا گیا تھا۔ وہ مزار پر جاکر بری طرح افسردہ ہوجایا کرتا۔ وہاں اگر بتی کے دھوئیں، خوشبو، پھول اور شیرینی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وہ قوالیوں کے شور میں خاموش بیٹھا خالی خالی نظروں سےمزار پر چڑھی ہوئی چادروں کو دیکھتا رہتا تھا۔ بہن اسے دم کیا ہوا پانی پلاتی، بازو پر تعویذ باندھتی۔ مگر کئی بار مزار پر حاضری دینے کے بعد بھی اس کے دورے یا بیماری میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔

    بہن نے اپنی تمام زندگی اس کے ساتھ رہ کر گزاردی تھی۔ بہت پہلے ایک بار جب اس کی عمر چودہ سال کی تھی تو گھر میں آنےجانے والے ایک رشتے کے بھائی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیاتھا۔ ٹھیک اسی وقت وہ گھر میں آگیا اور اس نے الٹے ہاتھ سے تھپڑ مارتے مارتے بہن کا منھ زخمی کردیا تھا۔ اس کےبعد سے بہن کے دل کے تمام ارمان اور امنگیں ہمیشہ کے لیے پتہ نہیں کہاں جاکر دفن ہوگیے۔ وہ وقت سے پہلے ہی بے حد بوڑھی نظر آنےلگی اور تقریباً ہر وقت قرآن شریف پڑھتے رہنے کے سوا اس کی کوئی دوسری خاص مصروفیت نہیں رہی۔ اس گھر میں واقعی قرآن شریف کتنے تھے؟اس وقت بھی جب کھڑکی پر کھڑا وہ اپنی تحریر کو محویت کے ساتھ پڑھ رہا تھا تو ایک بڑا ساقرآن شریف ٹھیک اس کے سر پر بنے ہوئے مچان پر رکھا تھا۔

    ’’میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ تاریخ بدنیت حاسد مکھی کی طرح اس پر بھنبھنارہی ہے، اسے ناپاک کرتی ہوئی۔ آپ کو اسے بھگانا پڑے گا۔ جغرافیہ کو خالص طور پر محسوس کرنے کے لیے اپنے شعور کے تمام مفروضوں کو، تمام مغالطوں کو، ایک طرف قوسین میں رکھنا ہوگا تاکہ اسے بالکل اسی طرح سمجھا جاسکے جس طرح آلہ، حواس اسے محسوس کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسان ایک ننگے پستان کے سامنے تھر تھراتا ہے۔‘‘

    ’’یہ سب کام لفظوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر صرف تحریری لفظ ہی یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے، کیونکہ بولا گیا لفظ نہ دایاں ہوتا ہے نہ بایاں اور ساری غلط فہمیاں یا خوش فہمیاں لکھے گیے لفظ کے ذریعے ہی تشکیل پاتی ہیں۔ اس لیے یہ بات مجھے بہت پریشان کر رہی ہے مگر ساتھ ہی یہ بہت معنی خیز بھی ہے کہ دائیں ہاتھ سے لکھتے وقت الفاظ میری نافرمانی کیوں کرنے لگے ہیں؟ اگرچہ میں اس نافرمانی کی وضاحت کرنے کے قابل نہیں ہوں پھر بھی ایسا لگتا ہے جیسے یہ میری روح کے کسی جز کا مذاق بنارہے ہیں، جیسے کسی کے چھیڑنے پر شہد کی مکھیوں کا ڈگارا اسی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتا ہے۔‘‘

    ’’میرا وجود بھی اب لفظوں کے ساتھ اس طرح اڑا پھرتا ہے جیسے شہد کی مکھیوں کا ڈگارا۔ وجود میرے جسم کو بھول جاتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کا خالی، ویران بدنما چھتا کسی پیڑ کی شاخ میں اٹکا ہوا، کسی دروازےکے بدرنگ کواڑ کے کونے میں چپکا ہوا میرا ضدی اور خود سر وجود موذی شہد کی مکھیوں کی طرح لفظوں کے پیچھے ہی پڑگیا ہے۔ لفظ جو شعور کی دھند میں دائروں کی طرح گھوم رہے ہیں، ہواؤں کے شانوں پر بیٹھے الفاظ یوں ہی تفریح بازی میں مصروف ہیں کہ اچانک میری ضرب ان پر پڑتی ہے۔‘‘

    ’’تب یہ جسم، ایک خالی چھتا، ایک بدرنگ سفیدی سے بنا ہوا خانہ دار اجسام، بس کپکپاتا رہتا ہے، ڈولتا رہتا ہے۔ جسم کی طرح نہیں، جسم کی پرچھائیں کی طرح۔ خالی ویران چھتے میں لہو کی ایک بوند بھی نہیں۔ بس وہ ننگی شاخوں پر ناچتا ہے کبھی دائیں تو کبھی بائیں۔‘‘

    ’’انھیں واپس آنا ہوگا۔ لفظوں کو اپنی اصلی شکل کی طرف۔ ورنہ میں ڈنک مار کر ان کا چہرہ اس طرح سجادوں گا جس طرح شہد کی مکھی اپنے چھیڑنے والے کو ڈس کر سجا دیتی ہے۔‘‘

    ’’دائیں بائیں میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دھوکے بازی ہے۔ آخر بایاں اور دایاں ہے کیا؟ کیا ادھر دوسری روح ہے اور ادھر دوسری؟‘‘

    ’’بائیں روح۔ دائیں روح؟‘‘

    اس کے بائیں کان سے رطوبت بہہ رہی تھی اور اس میں زور زور سے سیٹیاں بج رہی تھیں۔ یہ جسم کا پیچیدہ جغرافیہ تھا۔

    (۵)

    ’’تو بائیں طرف چلنا کیوں اچھا ہے؟‘‘ بچے نے باپ سے پوچھا تھا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔‘‘ باپ نے جواب دیا تھا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔ امن و امان کے لیے۔‘‘ بچے نے دہرایا تھا۔

    ہر قسم کے جغرافیائی نقشے کا علم یوں اسے بھرپور تھا اور نقشے کی باریک سے باریک تکنیک کو وہ مکمل طور پر جانتا تھا۔ نقشہ اس کے لیے آئینے کی طرح تھا، جس پر جھک کر وہ گویا اپنا چہرہ تکتا رہتا تھا۔ کسی جھیل کے کنارے نہیں، بلکہ اپنے میلے سے بستر پر بیٹھ کر، یہ نرگسیت تھی مگر معکوس۔ مگر پھر بھی پتہ نہیں کیوں، کبھی کبھی مشرق اور مغرب کی سمت کا تعین وہ نہ کرپاتا۔ وہ مشرقی خطوں کو کبھی کبھی مغرب میں تلاش کرنے لگتا تھا۔ ایک سیدھا سا اصول ویسے تو یہ تھا کہ مغربی خطے ہمیشہ اس کے بائیں ہاتھ پر رہتے تھے مگر پتہ نہیں کیوں وہ انھیں دائیں ہاتھ پر تلاش کرنے لگتا تھا، حالانکہ اس قسم کا مغالطہ تو اسے ویسے بھی ہوتا ہی رہتا تھا۔ ان دنوں میں بھی، جب اس پر وہ دورے نہیں پڑا کرتے تھے۔ وہ سیدھا، منھ اٹھائے اپنے گھر کو جارہا ہوتا، اچانک وہ تمام درخت، مکانات، دوکانیں اور ان کے سائن بورڈ اس کے الٹے ہاتھ کی طرف پڑنےلگتے جو دراصل اس کے دائیں ہاتھ کی طرف تھے۔ یہاں تک کہ پانی کا وہ نل بھی جو اس کی گلی کے موڑ پر تھا۔ کبھی تو دائیں طرف آجاتا اور کبھی بائیں طرف۔

    مگر مسجد کے گنبد اور میناروں سے راستہ بھولنے کا یا بھٹک جانے کا اندیشہ تقریباً ختم ہوجاتا کیونکہ وہ بہت دور سے ہی نظر آجاتے۔ مگر یہاں بھی وہ مسئلہ تو برقرار تھا کہ مسجدیں جو اس نے زیادہ تر بائیں ہاتھ کی طرف دیکھی تھیں اور ان کے بائیں ہاتھ کی طرف ہونے کا اس کا یقین بھی تھا اچانک کسی نامعلوم طاقت کے زیر اثر دائیں ہاتھ پر نمودار ہوجاتیں۔ یہ الجھن اس کے لیے بے حد ذاتی نوعیت کی تھی اور ایک آدھ بار اپنی بہن کو اس بارے میں بتادینے کے علاوہ کسی کو اس میں شریک نہ کرسکا تھا۔

    مدرسے کے عقب سے جاتی ہوئی پتلی ویران سڑک کے کنارے وہ تالاب اسے پسند تھا، بلکہ کہنا چاہیے کہ سارے تالاب اسے بہت پسند تھے اور وہ ان کو دیکھنے کے لیے محلے سے نکل کر آس پاس مضافات میں بھی چلا جاتا۔ ایسے تالاب اسے بہت پراسرار نظر آتے جن میں جل کمبھی اُگ آئی ہو۔ ان کی دلدل لامتناہی امکانات سے بھر کر آسیب زدہ سی ہوجاتی تھی۔ وہ ندیاں بھی اسے بہت زیادہ پسند تھیں جن کے بہاؤ کو ادھر ادھر روک کر ان میں سنگھاڑے کی بیلیں اگادی جاتیں۔ مگر یہ منظر دیکھنے کے لیے اسے جاڑوں کی شروعات کا انتظار کرنا پڑتا۔ یہ وہ زمانہ ہوتا جب صبح اور شام دونوں پر نامعلوم سی افسردہ دھند چھانا شروع ہو جاتی۔ اسی زمانے میں وہ راستہ بھولا کرتا۔ مگر شاید یہ راستہ بھولنا نہیں تھا بلکہ صرف دائیں بائیں کا فرق فراموش کرجانا تھا اور اس کا انجام یہ تھا کہ جل کمبھی سے پٹے ہوئے سبز تالاب اور سنگھاڑے کی بیلوں سے ڈھکی کمزور ندیاں کبھی دائیں تو کبھی بائیں نمودار ہوکر شیطنت سے اسے چڑاتی رہتیں اور اپنے متحرک امکانات کی آسیبیت سے اسے دہشت زدہ بھی کرتی رہتیں۔

    اور یہ واقعی دہشت ہی کی بات تھی کہ اس کا منہ ناک کی سیدھ میں اپنے گھر کی طرف ہوتا، مگر اچانک اسے احساس ہوتا کہ وہ تو گھر سے بہت دور، اس کی طرف سے پیٹھ کیے مخالف سمت میں کہیں چلا جا رہا تھا۔ حواس باختہ ہوکر بھٹکتے رہنے کے بعد آخر کار جب اپنے گھر کی چوکھٹ اسے نظر آتی تب جاکر اس پر اپنے مغالطے کا بھید کھلتا۔

    ’’سنو آج پھر میرے ساتھ وہی ہوا۔‘‘ وہ اعصاب زدہ ہوکر بہن سے کہتا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘ بہن گھبراکر سوال کرتی۔

    ’’وہ تالاب پھر ادھر کو پڑا۔‘‘ وہ بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتا۔

    ’’تمہارا منھ کدھر کو تھا؟‘‘

    ’’گھر کی طرف۔‘‘

    اور تب بہن اسے ’’مت کٹے‘‘ کے بارے میں بتاتی۔ ’مت کٹا‘ بھی شیطان کی ہی قسم ہے۔ روزازل سے اس کے مقدر میں ایک ہی کام لکھ دیا گیا ہے۔ سفر پر نکلے ہوئے لوگوں یا راہ گیروں کو اپنی راہ سے بھٹکادینا۔ یہ ایک کمزور اور چھچھورا شیطان ہے جو کبھی بھی بہت زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتا۔ بس وہ راستہ چلتے آدمی کے کہیں سے بھی پیچھے پڑسکتا ہے۔ دبے پاؤں خاموشی کے ساتھ۔

    ’’تمہارے پیچھے ’مت کٹا‘ لگ گیا ہوگا۔‘‘ بہن اطمینان سے فیصلہ سناتی۔ مگر افسوس کہ لاکھوں بار پیچھے مڑ کر دیکھنے پر بھی آج تک کوئی ’مت کٹا‘ اسے کبھی نظر نہ آسکا۔

    جہاں تک نقشے میں طول البلد اور عرض البلد یا خطِ سرطان اور خطِ استوا کاسوال تھا تو اس سلسلے میں اس کا ذہن بالکل صاف تھا۔ اور مقامی وقت کی بابت تو بچپن سے ہی اس نے یہ شعر نما کہاوت ذہن نشین کر رکھی تھی کہ ’’مشرق میں جاؤ تو وہ وقت کم ہے، مغرب میں جاؤ تو وہ وقت زیادہ ہے۔‘‘ یہ کتنی شاندار بات تھی کہ وقت کی اس معمولی سی پیچیدگی کو حل کرنے کے بعد مشرق اور مغرب کے بڑے بڑے تضادات اور مسائل اس کی نظروں میں ہیچ اور مضحکہ خیز بن کر رہ گیےتھے۔

    اس نے دائیں ہاتھ سے لکھا۔

    ’’آخربایاں، دایاں؛ دایاں، بایاں ہے کیا؟‘‘

    ’’دائیں ہاتھ سے اتنا لکھنے کے باوجود نہ کوئی درد ہے نہ اکڑن کا احساس۔ انگلیاں جیسے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ رہی ہیں اور میرے ساتھ مسئلہ اب یہ نہیں رہا کہ میں دائیں ہاتھ سے نہیں لکھ سکتا۔ مسئلہ درپیش آیا ہے کہ دائیں ہاتھ سے جو لکھا جارہا ہے وہ کسی چھلاوے کی طرح میرے ضمیر اور میری روح پر چپت رسید کرتا ہوا اور بھاگتا جارہا ہے، غائب ہو رہا ہے۔ یہ سب اس طرح ہو رہا ہے جیسے کوئی جنگ چل رہی ہو۔ مگر جنگ کن کے درمیان؟‘‘

    ’’شاید دائیں اور بائیں کے درمیان۔ مگرآخر کیوں؟ کیامیں کسی موسیقی کے ساتھ کوئی گڑبڑ کر رہا ہوں، کیا میں کسی سر کو غلط لگا رہا ہوں؟ یقیناً میں غلط رقص کر رہا ہوں اور میرے بھاؤ اور مدرائیں ضرورت سے زیادہ دائیں ہوتی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ رقص ایک ہولناک اور اندھیری دنیا کی طرف جھکتا جا رہا ہے۔ افسوس کہ لفظوں کی ظاہری شکل وہی ہے۔ یہاں تک کہ خط نستعلیق، خط نسخ میں بھی بدلتا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی یہ خط مرموز ہے۔ یہاں کوئی رمز نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا دنیا کی ساری سیاست اسی طرح بدعنوانی، مکاری اور تشدد میں بدل جاتی ہے اور محبت، نفرت میں؟ اس طرح کہ لفظ اور حرف اسی طرح پڑھا جاتا اسی طرح لکھا جاتا ہے مگرمحبت، نفرت کی طرح محسوس کی جاتی ہے اور انصاف سنگین جرم کی طرح؟‘‘

    ’’یہ درست ہے کہ الفاظ ہی سب کو تحفظ بخشتے ہیں۔ مگر کیا تحفظ کے بدلے آپ اپنے شعور کا سودا کرلیں گے اور لافانی ہونے کے لیے اپنی آتما کا سودا؟ یہ لین دین فاؤسٹ کے شیطان کے ساتھ ہی ممکن ہے، شیطان جس کا اپنا محاورہ ہے اور اپنا روز مرہ۔ دائیں ہاتھ سے لکھنے پر یہ محاورہ بلند آواز میں سنائی پڑتا ہے۔ لفظوں سے ایک کمینی بھیانک ہوا نکلتی ہے جو سب کچھ مسخ کردینے سے زیادہ سب کچھ دوسری طرح سے مستحکم کرنا چاہتی ہے اور دراصل یہی اصل اور سب سے زیادہ بری بات ہے۔‘‘

    ’’شاید اسی لیے تاریخی شعور سے بڑی حماقت دوسری کوئی نہیں ہوسکتی۔ واقعات کو یاد رکھنے میں ہی اصل عیب پوشیدہ ہے۔ ورنہ واقعات کی خود اپنے آپ میں کوئی اہمیت نہیں۔ ان کی وجہ سے زمین کا چہرہ اپنے پورے جغرافیہ سمیت ایک بھوت کی طرح نظر آنے لگا ہے۔ اس ہڈیوں کے ہارکوز مین کے گلے سے کھینچ کر الگ کرنا ہوگا۔‘‘

    ’’مگر اس کے لیے ایک لمبی بارش کا انتظار کرنا ہے۔ ایک طویل بارش جو تب تک ہوتی رہے گی جب تک یہ خوفناک ہڈیاں گل کر نہ بکھر جائیں اور دنیا اپنے خالص، نیک اور دلفریب جغرافیے کے ساتھ محسوس کی جاسکے۔‘‘

    ’’مگرافسوس کہ فی الحال یہ سب لکھنا ایک بھیانک تضاد کے سوا کچھ نہیں۔ دماغ کا بھی بٹوارہ ہوچکا ہے۔ یہ الفاظ بائیں ہاتھ سے چھوٹ کر اپنی منطقی قوت زائل کرچکے ہیں۔ اب دائیں دماغ کا کمینہ پن ہے۔ وہ بہت پرانا ہے اور پراسرار بھی۔ وہ گونگا ہے اور صرف استعارے کی زبان سمجھتا ہے۔ استعارہ جس نے دنیا میں سب سے زیادہ گڑبڑ پیدا کی ہے۔ وہ چھچھوندر کے مانند ہے، جس کی بدبودار کراہیت اس سے آگے آگے چلتی ہے۔ ایک گیلی لج لجی لکیر کی طرح جس کے معنی کچھ نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ کچھ عیش طبع لوگ اسے رمز بلیغ کہہ کر خود بھی آرام سےبدبوخارج کرسکتے ہیں۔‘‘

    مگر۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ بہت بعد میں پیدا ہوا۔ بایاں دماغ بے چارہ نیا تھا۔ کنواری دلہن کی طرح نیا (پرانی اور نیا کہنے میں کسی تاریخی شعور کو تلاش کرنابے سود ہے اور اگر ایسا لگ رہا ہو تو یہ دائیں ہاتھ سے لکھنے کا قصور ہے) اور خودرو گھاس کی طرح اگ آیا۔ پرانے نے نئے کو سارا تاریخی شعور کچرے کی طرح سونپ دیا۔ یہ کیسا تضاد تھا، کہ سارا تاریخی شعور بائیں طرف پڑا ہوا مر رہاتھا۔ سڑ رہا تھا۔ تو انسانی دماغ، انسانی روح کا بٹوارہ ہوچکا تھا۔ صرف چھپکلیاں سالم و ثابت رہ گئی تھیں۔ ان کے پاس وہی پرانا دایاں دماغ تھا جو صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ وہ اس دماغ سے نکل کر اور دیوار پر رینگ رینگ کر ہنستی تھیں۔

    اس کے بائیں پیر کی رگ اچانک پھڑکنے لگی۔ وہ لکھتے لکھتے رکا تو کھڑکی کے بدرنگ پٹ پر تکونے سروں اور چوڑے منھ والی سات آٹھ چھپکلیاں نمودار ہوگئیں اور کالی چیونٹیوں کی قطار کی طرف دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگیں۔

    (۶)

    وہ ایک طویل قامت شخص تھا۔ بے حد دبلا پتلا۔ آنکھیں غیرمعمولی حد تک چمکدار مگر پھر بھی افسردہ افسردہ نظر آتی تھیں۔ سر تقریباً گنجا تھا اور اس پر خشکی کی موٹی سی تہہ دار پپڑی جمی ہوئی تھی۔ داڑھی ہمیشہ بے تربیتی سے بڑھی رہتی جسے دیکھ کر اکثر اس کی بہن کہا کرتی،

    ’’اس سے تو بہتر ہے کہ تم شرعی داڑھی رکھ لو۔ تمہاری شکل ابا سے کتنی ملتی ہے۔ ایسی ہی نورانی اور پاکیزہ۔ اگر تم ان کی طرح داڑھی رکھ لو تو بالکل ابا کی طرح ہی لگوگے۔‘‘

    ’’ابا۔ ابا۔‘‘ وہ بے خیالی میں دہراتا اور بہن اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے لگتی۔ ویسے تو اسے مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں تھامگر پتہ نہیں کیوں سال میں کچھ دن ایسے بھی ہوتے تھے جب اس کے پاس سوائے قرآن شریف کی تلاوت کرنے کے دوسرا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ بھی ایک قسم کا دورہ ہی تھا۔ ان دنوں بہن اس سے بہت خوش نظر آتی مگر جب وہ دھول بھرے مچان پر سے قرآن شریف کو اٹھانے لگتا تو وہ اسے بری طرح ٹوکتی تھی۔

    ’’اسے سیدھے ہاتھ سے تھام کر قلب سے لگاتے ہوئے احتیاط کے ساتھ اتارو۔ ایسے بے ادبی ہوتی ہے۔ تم اگر چاہتے تو اپنا سارا کام سیدھے ہاتھ سے کرسکتے تھے مگر تم نےابا کی بات کبھی نہ مانی۔‘‘

    اس وقت اپنی بہن کا چہرہ اسے اپنے باپ کی طرح نظر آنے لگتا اور نہ جانے کیوں اسے محسوس ہوتا جیسے اسے ناقابل برداشت حد تک پیشاب لگ رہا تھا۔ ان دنوں اس کے پاس حالات خراب چل رہے تھے، جب بہن کا حج کے لیے بلاوا آگیا۔ ’’تم حج کے لیے جارہی ہو! باہر نکل کر دیکھو۔ آدمی جلائے جارہے ہیں۔‘‘ اس نے برہمی سے کہا تھا۔

    ’’اگر مجھے موت آنی ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر مدینے والے نے مجھے بلایا ہے۔‘‘ بہن نے عقیدت مندی کے ساتھ پراستقلال لہجے میں جواب دیا۔ وہ بہن کو اپنی چمکدرا مگر بے حد افسردہ آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ ٹھیک اسی وقت اس کے بائیں کان میں سیٹیاں سی بجیں۔ اس کا چہرہ تبدیل ہوگیا اور اس نے بچوں کی طرح ہمک کر کہا،’’واپس آکر مرغا پکانا۔ میں سیدھے ہاتھ سے کھالوں گا۔‘‘

    ’’یہ کون سی بڑی بات ہے۔ میں بہت سا مرغا پکاؤں گی اور چاہے جس ہاتھ سے کھانا۔‘‘ بہن مامتا سے بھر گئی۔ مگر شاید وہ نہیں سن رہا تھا۔ وہ فرش پر بکھری ہوئی فاتحہ کی سالن کی بوٹیاں تک رہا تھا اور اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پھوڑے کی طرح دکھ رہی تھی۔ بہن نے حج کے لیے روانہ ہوتے وقت اسے گلے سے لگالیا۔ دونوں وقت مل رہے تھے۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ بے اختیار اسے اپنے باپ کے اذان دینے کا انداز یاد آگیا۔

    ’’خدا تمہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ میں تمہاری طبیعت کے لیے وہاں دعا کروں گی اور واپسی میں آبِ زمزم بھی لاؤں گی۔‘‘

    ’’دعا۔ دعا۔‘‘ اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر دہرایا۔ بہن زور زور سے رونے لگی۔

    اب رات گزر گئی تھی۔ بہن کو گیے پندرہ دن ہوچکے تھے۔ کھانا اسے مدرسے سے مل جایا کرتا۔ اچھی بات یہ تھی کہ ابھی تک اسے وہ دورہ نہیں پڑا تھا،ہاں ایک دو بار وہ راستہ اور سمت ضرور بھول گیا تھا لیکن ان دنوں جس انداز میں وہ جو کچھ لکھ رہا تھا اسے جنون ضرور قرار دیا جاسکتا تھا۔

    جون کی حبس بھری رات۔ اس کا سارا بدن اندر سے کھول رہا تھا مگر مساموں سے پسینے کی ایک بوند بھی نہ ٹپکتی تھی۔ پسینہ نہ جانے کہاں راستہ بھول گیا تھا۔ لکھتے لکھتے وہ تھک گیا۔ اس نےکاغذ اور قلم ایک طرف رکھ دیے اور اپنے گندے میلے سے بستر پر اکڑوں بیٹھ کر تکیے کے نیچے سے دنیا کا نقشہ نکال کر اس پر جھک گیا۔ سر پر بہت مدھم روشنی کا بلب ڈوری سے بندھا لٹک رہا تھا۔ اس کی زرد اور بیمار روشنی میں اسے محسوس ہوا جیسے دنیا کے نقشے پر سارا بایاں سادہ پڑا تھا۔ سادہ اور تاریک۔ وہاں پانی بھی نہ تھا۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا جیسے نقشے کے بائیں طرف کا سارا جغرافیہ اچانک کسی غیرمعمولی طاقت کے زیر اثر غائب ہوگیا ہو، زیر زمین چلا گیا ہو۔ اس نے نقشے کی بنیادوں میں اترنے کی کوشش کی۔ مگر نہیں وہاں تو زمین بھی نہ تھی۔ وہاں صرف سناٹا تھا۔ خالص سناٹا۔ زمین سے اور ہر امکان سے خالی سناٹا۔ وہ گھبراکر اٹھا۔ شاید پلنگ زور زور سے ہل رہاتھا۔ کیا زلزلہ آرہا ہے؟ ایک پل کو اس نے سوچا۔

    مگراس کے حلق میں کوئی شے پھنس رہی تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ اس شے کو کچھ لکھ کر ہی دور کیا جاسکتا تھا۔ اس نے تقریباً جھپٹتے ہوئے قلم کو دوبارہ ہاتھ میں پکڑا۔ بائیں ہاتھ میں۔ مگر وہ قلم پر دباؤ نہ ڈال سکا۔ اس نے جلدی سے قلم کو دائیں ہاتھ میں لے لیا۔ مگر نہیں، اب بے سود تھا۔ حلق میں پھنسی ہوئی شے پھڑپھڑا رہی تھی۔ وہ لکھے جانے کا التباس ہی تھا۔ کاغذ پر صرف مکروہ کیڑے رینگ رہے تھے۔ اس رینگن کو وہ اپنےتمام بائیں جسم پر محسوس کر رہا تھا۔ کچھ متلی جیسا بھی تھا۔ مگر یہ کیسی متلی تھی جو صرف حلق سے ہی نہیں، شاید سارے جسم سے پھوٹ کر باہر آرہی تھی۔ یہ متلی سے زیادہ کوئی خطرناک شے تھی۔

    لیکن اس کا دایاں جسم۔ وہاں کوئی بے چینی، کوئی تکلیف اور کوئی الجھن نہ تھی۔ وہاں سب کچھ شانت تھا۔ سمادھی میں گیے ہوئے جوگی کی طرح شانت اور مطمئن اور بے نیاز۔ وہ بہت مایوس ہوگیا مگر یہ ایک ادھوری مایوسی تھی کیونکہ اس کے چہرے کے بائیں طرف وہی غیرمعمولی چمک تھی جیسے وہاں آگ دہک رہی ہو۔ صرف دائیں طرف اندھیرا تھا۔ گہرا اندھیرا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کھڑکی کے قریب آکر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ کھڑکی کے قریب آکر اسے احساس ہوا کہ باہر تیز ہوا چل نکلی ہے۔ ایسی ہوا جس کے پیچھے پیچھے ایک عظیم بارش چلتی ہے۔

    ’’تو کیا وہ بارش آپہنچی ہے؟‘‘ اس نے خیال کیا۔ ایک بادل بے دلی کے ساتھ آسمان پر پھیل رہا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا اور سمجھ گیا کہ یہ بادل نہیں دھند تھی۔ بادل اور دھند میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کم و بیش دومختلف سیاستوں جیسا یا دو مختلف مذہبوں جیسا۔ دھند میں پانی کہاں، اور اگر ہو بھی تو اتنا کم کہ اس کے ہونے کا امکان بھر ہی کیا جاسکتا تھا۔ دھند میں مٹیالی دھول اور کالا دھواں گرہ در گرہ سانپوں کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بھورا بادل نظر آتی تھی۔ وہ اس قسم کی دھند دیکھنے کا عادی ہوگیا تھا، اس لیے زیادہ دیر اس پر توجہ نہ صرف کرسکا۔

    دورگلی کے بائیں موڑ کے پار، کھیتوں کے بعد بھنگیوں کے مرگھٹ میں ٹین کا شیڈ ہوا میں اڑ رہا تھا۔ اس کی آواز رات کے سناٹے میں کرب ناک محسوس ہوئی۔ ہوا سے اس کا پاجامہ سرسرانے لگا۔ کیا یہ ہوا چندن کے درختوں کو چھوکر آرہی تھی؟ دفعتاً اس کا جی بے اختیار زور زور سے رونے کو چاہا۔ نہیں۔ یہ رونے کی خواہش نہ تھی۔ یہ غصے کی ایک بھیانک اور تباہ کن لہر تھی۔ ایک ناقابل یقین غصہ جو اسے اپنے تمام دائیں جسم پر آرہا تھا۔

    ’’یہ کیسا ایک صوفی درویش کی طرح بیگانہ اور بے نیاز بناہوا میرے جسم میں آکر بیٹھ گیا ہے۔ یہ پورا دایاں۔ ہر تکلیف، ہر دکھ، ہر چوٹ اور ہر احساس سے مبرا۔ ایک اونچے منبر پر براجمان گھمنڈی دایاں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ساتھ ہی اس کا غصہ اور بھی شدید ہوگیا۔ بائیں کان سے ڈھیر سی رطوبت بہہ نکلی اور اس کی تپتی ہوئی گردن پر ایک ٹھنڈی لکیر بہنےلگی۔ اچانک اس کی چھٹی حس نے اسے بتایا کہ فوری طور پر اس کے بائیں ہاتھ میں حیرت انگیز طریقے سے ایک پراسرار مگر تشدد آمیز طاقت عود کرآئی ہے۔ شاید اس کی پوری بائیں روح غصے سے پاگل ہوگئی ہے۔

    وہ کھڑکی سے مڑا۔ ہوا کے ایک جھونکے میں بستر پر پڑا ہوا نقشہ پھڑپھڑایا۔ ایک پل کو اپنے غصے کو دبانے کی خاطر اس نے سوچا کہ مچان پر سے قرآن شریف اتار کر تلاوت شروع کردے۔ مگر وہ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہا کیوں کہ اس کا پورا جسم آپے سے باہر اور دائیں جسم سے کشتی لڑنے کے لیے تیار تھا۔ اس کے بائیں چہرے پر آج بعد مدت کے وہی خطرناک چراغ جل رہے تھے۔ اب یہ اس کا آخری داؤں تھا۔ ایک زمانے سے جاری دائیں اور بائیں کی کشتی میں ہمیشہ چھپا کر رکھا گیا ہوا ایک کمینہ اور ہلاکت انگیز داؤں۔

    ’’نہیں چھوڑوں گا۔ آج اسے جلاکر راکھ کردوں گا۔‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے غرایا۔ اس نے پلنگ کے نیچے رکھی ہوئی مٹی کے تیل کی بوتل کو باہر نکالا۔

    (۷)

    ’’تو بائیں طرف چلنا کیوں اچھا ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔‘‘ باپ نے جواب دیا۔

    ’’امن و امان کے لیے۔ امن و امان کے لیے۔‘‘ اس نے دہرادیا۔

    وقتی طور پر بے حد طاقتور ہوجانے والے بائیں ہاتھ سے اس نے پہلے مٹی کے تیل کی بوتل کا ڈھکن کھولا اور پھر حددرجہ احتیاط اور کمال خوبی کے ساتھ تیل کو اپنے سر پر اس طر انڈیلا کہ تیل کی ایک بوند بھی سر کے بائیں طرف نہ پھیل سکی۔ اس کوشش میں وہ ایک لمبے درخت کی طرح نظر آیا جو کسی آندھی یا نادیدہ طاقت کے زیر اثر دائیں طرف کو جھک رہا ہو۔ مٹی کا تیل اب سرکی دائیں طرف سےبہتا ہوا نیچے آگیا۔ یہاں تک کہ پیر کے پنجے پر رسنے لگا۔

    باہر ہوا واقعی تیز ہوچلی تھی۔ جھونکے گھر کے اندر چلے آرہے تھے۔ ان جھونکوں سے اس کے میلے بستر کی چادر اور وہاں بکھرے ہوئے جغرافیہ کے نقشے اڑنے لگے۔ تب اس نے اپنے چالاک اور ہوشیار پرتشدد بائیں ہاتھ سے دیا سلائی پکڑی۔ اس کا پورا جسم جاگ رہا تھا، چوکنا، برہم، جوشیلا اور انتقام کے جذبے سے لبریز۔ اس کے دائیں جسم پر حملہ کرنے اور اسے فنا کرڈالنے اور جلاڈالنے ے لیے بالکل تیار اور چست۔

    یہ نہیں پتہ کہ رات کتنی تھی۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ گھر کے اندھیرے میں دیا سلائی کا شعلہ چمکا۔ ہاں یقیناً آگ پہلے دائیں طرف ہی لگتی محسوس ہوئی تھی مگر بعد میں اس کا اندازہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کدھر سے کدھر کو پھیلی ہوگی۔

    وہ بڑی اندوہناک اور ہذیانی چیخیں تھیں۔ اس کا سارا بدن جل رہاتھا۔ وہ گھبراکر زینے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے گھر سے باہر بھاگا۔ محلے کی گلی میں۔ اس کے حلق سے لگاتار ہولناک چیخیں جاری تھیں۔ وہ حواس باختہ ہوکر گلی میں کبھی دائیں تو کبھی بائیں طرف بھاگ رہا تھا۔ اس کے جسم سے آگ کی لپٹیں بلند ہونے لگیں۔ محلے کے چند مکانوں کی اوپری کھڑکیاں کھلیں، پھر فوراً ہی بند ہوگئیں۔ ان دنوں زندہ انسانوں کااس طرح جلنا ان کے لیے کوئی حیرت انگیز امر نہیں رہ گیا تھا۔ لوگ جلائے ہی جارہے تھے۔ وہ دراصل پانی کے اس نل کی تلاش میں تھا جو گلی کے بائیں موڑ پر کھمبے کے نیچے لگا ہوا تھا۔ مگر شاید وہ سمت بھول رہا تھا۔ دور آسمان کی گھاٹیوں میں کوندا ہو رہا تھا۔ یہ جنوبی مغربی مانسون آنے کے دن تھے۔ ان دنوں فضا میں تہلکہ رہتا ہے اور گرج چمک کے طوفان آتے ہیں۔

    تیز ہوا کے جھونکوں میں اس کا سارا جسم ایک طویل قامت لپکتا ہوا شعلہ نظرآیا۔ وہ گھبراکر اپنی جگہ ایک آتشیں بگولے کی طرح تیزی سے گھومنےلگا۔ اس کے آتش بازی جیسے چک پھیری کرتے ہوئے جسم پرکتے بھونکنے لگے۔ آہستہ آہستہ اس کی ناک کی چربی پگھلنے لگی اور سفید سفید چکنائی اس کے پورے چہرے پر بہنے لگی۔ اس چکنائی سے اس کے چہرے کے شعلے اور بھی بھڑکے۔ آس پاس چراندھ پھیل گئی۔ اس کے جسم کی ساری کھال سکڑ کر غائب ہونے لگی۔ اس کا دراز قد اچانک بونے میں تبدیل ہونے لگا۔

    دفعتاً پھر وہ تیزی کے ساتھ گلی کے بائیں موڑ کی طرف بھاگا، اگیا بیتال کی طرح۔ بجلی کے کھمبے کے نیچے لگے پانی کے نل کے پاس جاکر وہ زمین پر گرپڑا اور بے تحاشا چلاتا ہوا لوٹیں لگانے لگا۔ کتے بھونکتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگے۔ پھر شاید ہمت کرکے وہ ایک بار پھر اٹھ کر کھڑا ہوا۔ وہ جل رہا تھا۔ اس کے جلتے ہوئے جسم کی روشنی میں اس کا ہیولیٰ اس سے الگ اچھل رہا تھا۔ گلی کچھ دیر روشن ہوئی جیسے کوئی تنہا آدمی وہاں مشعل لیے بھٹک رہا ہو۔ وہ جل رہا تھا۔ دھڑادھڑ۔ درخت کی طرح نہیں بلکہ پورے جنگل کی طرح۔ اس روشنی میں گلی کے مکان، کھڑکیاں، منڈیریں، نالیاں، نالیوں پر اگی ہوئی خودروگھاس اور دیواریں بے تکے اور بے معنی انداز میں روشن ہوگیے۔ گھروں کی چھت پر تاریخ ایک بدنیت غبی بندر کی طرح استرا ہاتھ میں لیے اپناگلا کاٹتی نظر آئی۔

    اس کے جلتے ہوئے جسم کی روشنی میں یہ سب دیکھنا قطعی مایوس کن تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی وہ ہولناک ہذیانی چیخیں مدھم ہونے لگیں۔ شعلے نیچے ہونے لگے۔ وہ ایک بار گھٹنوں کے بل بیٹھا اور پھر پانی کے نل کے نیچے لیٹ گیا۔ چراندھ اور دھوئیں میں لپٹا اس کا راکھ ہوتا جسم سکڑا سکڑایا، سڑک کے کنارے پڑا تھا۔

    آسمان پر کوندا لپکا۔ تیز بوندیں پڑیں۔ وہ جل گیا تھا لیکن اس نے خود کو گہرے نیلے پانیوں میں ڈوبتے محسوس کیا۔ اس نے پانی کی خاموش آواز سنی جو صرف اس لیے محسوس ہوئی کہ وہ اس کےآس پاس پھیلے بیکراں سناٹے سے کچھ زیادہ بلند آہنگ تھی۔

    روشن گلی پھر سے تاریک ہوگئی۔ بس وہاں چراندھ رہ گئی تھی۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب اچانک جغرافیہ اس کی جلی ہوئی آنکھوں کے آگے پرانے مہربان دوست کی طرح آکر کھڑا ہوگیا۔ سمندر بھی آیا تھا۔ نیلا گہرا سمندر، اس کے راکھ ہوتے ہوئے تلوؤں کو چھو چھو کر سیاہ ہوتا جارہا تھا۔ سب ہی آئے تھے۔ پہاڑ، دریا، ٹیلے، ریگستان اور چندن کے درخت سے لپٹے ہوئے بوڑھے سانپ بھی۔ شاید وہ بارش بھی جس کا اسے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ اورتب بڑی نرمی کے ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے چیڑ کے درختوں نے اس کے کوئلہ چہرے کو اپنے سائے میں ڈھک لیا۔

    یہ وہی ونیا تھی۔ انسانوں سے یکسر خالی جیسا کہ اس نے ہمیشہ دنیا کو سمجھا تھا۔ بس ایک زمین جس کی زرخیزی جلی ہوئی ہڈیوں اور راکھ سے ہمیشہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے