وہ ایک گھنا جنگل تھا اور جنگل میں منگل تھا۔ منگل میں ہمارے تمہاری طرح کے لوگ بستے تھے اور وہی جنگل کی رعایا تھی۔ اس گھنے جنگل میں درندوں کا راج تھا۔ وہ درندے بھی ہمارے تمہاری طرح کے انسان تھے۔ اگر انسان نہیں تھے تو انسان نما ضرور تھے۔ وہ تمام اختیارات کے مالک تھے۔ جنگل کا نظم ونسق ان کے ہی ہاتھ میں تھا۔ ان کے حکم کے بغیر چڑیا پر نہ مارتی تھی۔
جنگل میں جس شخص کا راج تھا وہ بڑا ہی طاقتور تھا۔ بڑے سورما اس سے ڈرتے تھے۔ اس کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ ملازمین کی قطار حکم کے انتظار میں کمانوں میں تیر لگائے کھڑی رہتی۔ جنگل میں سونے چاندی کی کانیں آئے دن نکلتی تھیں۔ لہٰذا پہلے پہل اس طاقتور شخص نے جس کا نام مرزا طباطبائی تھا، سونے چاندی کے زیورات بنواکر اپنی چہیتیوں اور چہیتوں کو ایک سیال مادے میں ڈبوکر پیش کئے۔ ان زیورات کو پہن کر وہ سب ایک نئی دنیا میں آ گئے جہاں وہ تھے۔ دوسرا کوئی نہیں۔ یہ سیال مادہ طمع کے گدلے پانی اور بےحسی کی چاشنی سے تیار کیا گیا تھا۔ اب وہ سب ایک ہی طرح کا سوچتے اور مساوات کو قائم کرنے کے لئے زرتاروں سے تیار کا ہوا لباس ملبوس کرتے، طباطبائی نے لئے سونے کی کرسی اور سونے کا تخت بنوایا تھا۔ جو بوقت ضرورت اڑ بھی سکتا تھا یا پھر اسے آسانی سے دوسری چیزوں کی طرح اڑایا جا سکتا تھا۔
یہ اس کی خاندانی کرسی اور تخت تھا اور اسے کسی قسم کا خوف نہیں تھا کہ اس کی کرسی کو کوئی چھین لےگا۔ اس محل کے در و دیوار پر سونے سے منقش بیل بوٹے بنائے گئے تھے۔ وہ تھا بڑا ذہین اپنے استعمال کے بعد اس نے سونے چاندی کی کانوں کو محفوظ کرنے کے لئے پہاڑیوں کی شکل دے دی تھی جس پر سنگ مرمر کے نصب کئے ہوئے پتھر شیشے کی طرح لشکارے مارتے تھے اور اس کے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بنوا دیا گیا تھا۔
مرزا طباطبائی کے چاہنے والوں کی کمی ہرگز نہیں تھی۔ اس پر جان چھڑکنے والوں میں خوبصورت عورتیں کثیر تعداد میں تھیں۔ مرزا کے خواصون کی حیثیت مشیروں و وزیروں کی سی تھی۔ آئے دن مرزا کی طرف سے ان کی ضیافتیں ہوتیں اور ضروری امور زیر بحث آتے۔
مرزا طباطبائی ایک شب اپنے محل میں بیٹھا غور و فکر کے تیز رفتار گھوڑے دوڑا رہا تھا کہ اسی دوران ان کی مشیر شینا طوسی آ گئی۔ وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ اس نے رازداری کے ساتھ طباطبائی کے کان میں کچھ کہا۔ مرزا کو اس کا یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا اور وہ جھنجھلا کر بولا۔
تم میرے کان میں مکھیوں کی طرح کیوں بھن بھن کر رہی ہو، جانتی نہیں ہو یہ ہمارا محل اور محل کا دیوان خانہ ہے اور ہر سمت تخلیہ ہے اس تخلیہ میں ’’تم‘‘ اور ’’میں‘‘، ’’میں اور تم‘‘ ہیں‘‘۔
’’ساقی کی کمی تھی سو تم نے پوری کی‘‘۔ طباطبائی نے شوخ نگاہوں کا تیر ایک ادائے بے نیازی سے اس کی طرف اچھالا جو سیدھا شینا طوسی کے دل میں اتر گیا۔
’’ لیکن مرزا۔۔۔’‘ وہ اٹھلائی، شرمائی پھر مسکرائی۔
’’لیکن کیا حسینۂ عالم؟‘‘
’’آپ حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں مرزا جی۔‘‘ اس کا چہرہ تغیر کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔
’’ضرور کوشش کریں گے۔ لب کشائی تو کیجئے۔ ہم خود کشا کشا ہو جائیں گے۔ ہاں تو فرمائے جانِ مرزا‘‘۔
’’آپ کو شاید معلوم نہیں جنگل کے لوگ ہمارے مخالف ہو گئے ہیں اور مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ انہیں پیٹ بھر خوراک میسر نہیں، سر چھپانے کے لئے سایہ نہیں‘‘۔
’’وہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ہماری محنت کی کمائی واپس کرو۔ واپس کرو اور محل کا ’محاصرہ‘ کرنے کی بھی بات کر رہے ہیں‘‘۔
’’محاصرہ اور وہ؟‘‘ اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ قہقہہ اتنا طاقتور تھا کہ مسوڑھوں سے سونے کی بتیسی باہر نکل آئی۔ شینا طوسی نے ادب کے ساتھ بتیسی اٹھائی اور مرزا کے مسوڑھوں میں بڑی مہارت کے ساتھ لگا دی کہ وہ اس قسم کے کاموں میں طاق ہو چکی تھی۔
’’نادان لڑکی، تم کیا جانو سیاست کے داؤ پیچ۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کیا کرنا ہے؟ جانتی ہو میرا باپ اندھیر نگری کا راجا رہ چکا ہے اور میں اندھا بہرہ شہزادہ۔ اب تم کہوگی کہ مرزا صاحب آپ تو بینا ہیں اور سماعت بھی قابل داد ہے۔ تو میری چھمک چھلو!‘‘ اس نے شینا طوسی کے سرخ نگینوں سے مرصع دوپٹے کا کونا کھینچا اور بولا۔ ’’بننا پڑتا ہے‘‘۔
’’یہ ضروری ہے، نہ بنو تو کام نہیں بنتا ہے سرکار‘‘۔
’’گودام سے چند بوریاں نکلوا کر ان کے ننگے بھوکوں کے سامنے ڈال دو۔ ٹوٹ کر گریں گے۔ ایسے تماشے ہم نے کئے بھی ہیں اور دیکھے بھی ہیں۔ وہ غالب نے کیا کہا ہے۔۔۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی ساحی میں۔۔۔ تو تم جنگل کہہ لو ’دشت‘ کی جگہ۔ بات سمجھ میں آ گئی مری بلبل‘‘۔
’’جی مرزا جی! اناج سے بھرے گودام کا منہ کھلوا دوں گی‘‘۔
’’نہ ایسا نہ کرنا۔ تھوڑا، تھوڑا، آہستہ آہستہ ہمیں بھی جینا ہے اس بلوریں محل میں۔ میری موم کی گڑیا تم تردد نہ کیا کرو۔ سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘۔
شینا طوسی نے ہیرے سے جڑاؤ کنگنوں کو کھنکھنایا، دوپٹے کو لہرایا اور کمر کو خم دے کر ہولے ہولے قدموں سے واپس جانے کے لئے مڑی۔
مرزا کو اس کا انداز دلبرانہ بےحد پسند آیا اور اس نے کھیسیں پھاڑ دیں۔
شیان طوسی کے جانے کے بعد دربان نے وقفے وقفے سے تین گھنٹیاں بجائیں۔ یہ اس بات کا اعلان تھاکہ مرزا کے معتمد خاص تشریف لا رہے ہیں۔
ان کے آتے ہی انواع و اقسام کے کھانوں کا دور چلا۔ حسب معمول رقص و موسیقی کا بھی انتظام تھا۔ مرغوں کی بانگوں تک یہ محفل عروج پر رہی اور سورج کی آمد سے ہی قبل مہمانوں کی سواریاں سفر پر روانہ ہوئیں۔
دن یونہی عقاب کی مانند اڑتے چلے گئے۔ حالات جوں کے توں رہے۔ کولھو میں بیلوں کی جوڑی کی جگہ انسان جوتے جانے لگے۔ زرداروں کا دھن چیلے بہانوں سے چھین لیا گیا اور اب وہ افلاس کی وادیوں میں قید ہو کر رہ گئے۔ فقراء وغرباء گھروں کے چولھوں میں مرزا کے آدمیوں نے ٹھنڈے یخ پا پانی کا جھڑکاؤ کردیا اور تانبے پیتل کے چراغوں کو اٹھوا لیا گیا۔
لوگوں کے وادیلا کرنے پر طباطبائی کے جگری دوست نواب طواسین نے الاؤڈ اسپیکر پر فکر انگیز تقریر کر ڈالی۔
’’اے منگل کے رہنے والے دوستو! کیا تمہیں معلوم نہیں مٹی کے چراغوں کو جلانے کے لئے ایندھن نہیں ہے، تو ان کھلونوں کی بھلا کیا اہمیت؟ البتہ محل میں بہت ہے۔ یہ یہاں کی جگہ وہاں جل جائیں گے اور ہاں! اوقات میں رہنا سیکھو۔ رات کا اندھیرا بھلا ہے یا آنکھوں کا۔ زیادہ شور کیا تو چراغ واپس کر دیئے جائیں گے لیکن بینائی۔۔۔ سوچ لو اچھی طرح‘‘۔
اس واقعے کے بعد منگل کے رہنے والوں نے اپنی زبانوں پر قفل لگا لیا اور چابیاں کہیں دور اچھال دیں کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ پناہ گاہیں گم ہو گئیں اور راستے خارزار، ہر سو گہری خاموشی اور جانے کون اٹھا جس نے چپ کے سمندر میں پہلا پتھر پھینکا۔ اس کے بعد تو پتھروں کی بارش ہو گئی، پتھروں کی آوازوں نے مرزا اوراس کے ساتھیوں کو میٹھی نیند سے جگا دیا۔
’’ان تلانچوں کی یہ ہمت؟ ہم سے ٹکر لیں گے۔ نواب طواسین!‘‘ مرزا کی دل دہلانے والی آواز نے محل کی ہر چیز کو ہلا دیا، ’’نواب! تمہاری حیثیت وزیر داخلہ کی سی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ جنگل میں شہر کا قانون کون لا رہا ہے؟‘‘
’’مرزا طباطبائی آپ کا اقبال بلند ہو۔ میری معلومات کے مطابق یہ وہی چوہے ہیں جنہوں نے جنگل میں اپنے بل بنا لئے ہیں‘‘۔ نواب طواسین نے ادب سے سرجھکا کر کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مرزا نے ہنکارہ بھرا۔ ’’آگ لگا دو ان کے بلوں کو، مسمار کر دو ان دیواروں کو جس کے پیچھے بیٹھ کر یہ لوگ بغاوت کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ جلا دو ان سب کو۔ نہ گوشت رہے نہ ہڈیاں، پھر ہم ہوں گے اور سب ہی ہوں گے‘‘۔ مرزا نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔ مصاحبوں نے ساتھ دیا۔ شیطان ایک کونے میں جا کر دبک گیا۔
اسی دوران شیناطوسی زرق برق لباس میں ملبوس اپنے حسن کی چنگاریاں اڑاتی ہوئی دیوانِ خاص میں داخل ہوئی۔
’’مرزاجی‘‘
’’مرزا کی جی! بولو کیا پیغام ہے؟‘‘
’’وہ جی‘‘
’’کیا جی؟‘‘
’’اوئی اللہ‘‘
’’بولونا‘‘ مرزانے اس کے حنائی ہاتھ پکڑ لئے۔
’’ہاتھ تو چھوڑیئے نا مرزا جی‘‘۔ شینا طوسی نے شرمیلی نگاہوں کے بارودی گولے پھینکے۔
’’اچھا، یہ لو چھوڑ دیئے ہاتھ‘‘۔ مرزا نے بارود کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’دوست یار دبے قدموں باہر نکلنے لگے۔ ایک ہفتے بعد نواب طواسین مرزا کے لئے خوش خبری لے آیا۔
’’جناب والاجنگل کا منگل الاؤ بن گیا ہے۔ سب اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے نواب طواسین، جو بچ جائیں تو انہیں بحکم مرزا گردن جھکا چلنے کا حکم دیا جائے، بغاوت کریں تو سر قلم کر دیئے جائیں اور دھڑ چھوڑ دیئے جائیں‘‘۔
ابھی جنگل کے منگلی اپنا پرانا دکھ تکلیف بھولے نہیں تھے کہ مرزا کی طرف سے منادی کرا دی گئی کہ اپنی قیمتی اشیاء کو محل میں جمع کرا دیں کہ دوسرے جنگل کا بادشاہ اپنے تمام جانوروں کے ساتھ چڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اگر آزادی چاہئے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
’’اور حکم عدولی کی صورت میں یہ اہم امور تمہیں خود انجام دینے ہوں گے اور تمہارے گھرانے مضبوط بھی نہیں، جو تمہیں بچا سکیں‘‘۔
نواب طواسین کے آخری جملے نے منگلیوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ اب ہر شخص اپنے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ اٹھائے محل کی طرف دوڑ رہا تھا اور جس نے غفلت کی اس کی گردن فضا میں اڑ گئی اور دھڑ فرش پر گر گیا ہے رقص بسمل کا تماشا سرعام دکھایا جا رہا ہے اور تماشبین کی کمی نہیں، ٹھٹ کے ٹھٹ لگ چکے ہیں۔
حالات جیسے بھی ہوں لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں، لہٰذا معمول کے مطابق ہر شخص اپنا کام انجام دے رہا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے اور موت ہر لمحہ تعاقب میں، خوف کے سیاہ بادلوں نے ہر ذی نفس کے گرد اپنا دائرہ تنگ کر دیا ہے کہ زندگی خراج مانگتی ہے۔
ایک صبح لوگ نیند سے بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ ڈھول کی تھاپ نے نیندوں میں خلل ڈال دیا۔ سویا ہوا ہر شخص اٹھ بیٹھا، مرزا طباطبائی کی آواز فضا میں گونج رہی ہے۔
’’میرے خدمت گارو! یہ ماہ حج ہے لہٰذا اس مبارک ماہ میں کال کوٹھریوں سے قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے اور اس خوشی میں راشن سستا اور کام کی اجرت دگنی کر دی گئی ہے، بس آپ کاتعاون درکار ہے۔‘‘
’’تعاون؟‘‘ ہر منگلی سوالیہ نشان بن گیا ہے، انہوں نے اپنے آپ کو اور پھر اپنے بچوں کو حسرت سے دیکھا ہے اور سرد آہ بھری ہے۔ یہ دن کچھ خوشی اور کچھ تفکرات کے ساتھ گزر گیا اور پھر ایسے بہت سے دن گزرتے چلے گئے۔ منگلیوں کی محنت سے جنگل سرسبز و شادات ہو گیا۔ کچھ امن میسر آیا لیکن یہ سکھ بھی عارضی ثابت ہوا۔
چونکہ نواب طواسین نے ایک نیا قانون نافذ کر دیا ہے کہ جس کی رو سے میڈیکل چیک اپ کو لازمی قرار دیا گیا کہ وبائی بیماریاں جان لیوا ہیں۔
اب جنگل میں بہت سی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں۔ آپریشن پر آپریشن ہو رہے ہیں۔ چند ہفتوں بعد جب زخم مندمل ہوئے تو پتہ چلا بےشمار لوگ اپنے ایک ایک گردے سے محروم ہو چکے ہیں اور کچھ کی داہنی اور کچھ کی بائیں آنکھ کا دیدہ غائب ہے وہاں ایک چھوٹا سا گڑھا پڑ گیا ہے۔ جب لوگوں نے آہ و زاری کی تو طباطبائی نے اپنا جلوہ تو نہیں دکھایا بلکہ ایک نیا سبق بذریعہ لاؤڈ اسپیکر پڑھ کر سنا دیا کہ اے ناشکرو! شکوے کی بجائے سجدۂ شکر بجا لاؤ۔
’’تم جانتے نہیں ہو ہم خدمت خلق کر رہے ہیں۔ اس طرح تم بھی ثواب کے مستحق ٹھہرے اور ہم بھی۔ دنیا میں بےشمار خطے ایسے ہیں جہاں ہر دوسرا شخص نابینا اور گردوں سے محروم ہے۔ اب وہ دیکھ سکیں گے، کام کر سکیں گے اور تمہیں دعائیں دے گئے‘‘۔
’’لیکن ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے‘‘۔ منگلیوں نے اپنے حواس مجتمع کر کے اور اپنے دل کی بات کہہ دی۔
’’نالائقو! ظلم تو ہمارے ساتو ہوا ہے۔ ابھی تک قیمت فروخت بھی موصول نہیں ہوئی‘‘۔
سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر کسی نے اپنے آنکھ کے گڑھے پا ہاتھ رکھ لیا، تو کسی نے پیٹ پر اور لاٹھیاں ٹیکتے طباطبائی کے محل کے بیرونی راستے پر واپسی کے لئے مڑ گئے۔
ان ہی دونوں حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ راتوں رات روپوش ہونے والے بچے جنگی ہتھیاروں کے ساتھ جنگل میں کود پڑے اور اب وہ بچے نہیں تھے، کڑیل جوان تھے۔ مرزا کے عتاب کا شکار، اپنی شرارت اور حاضر جوابی کے باعث سزا کے مستحق ٹھہرے تھے۔ اسی رات سے خفیہ اجلاس شروع ہو گئے۔ چند ہی سالوں میں منگلی تازہ دم فوج کی مانند نظر آنے لگے۔
محل کے مکین اس وقت بیدار ہوئے جب شب خون مارا جا چکا تھا۔ شینا طوسی اور مرزا کے مصاحبِ خاص گرفتار ہو گئے۔ باقی دربان و نگہبان جدید ہتھیاروں کی لپیٹ میں آ گئے۔
مرزا طباطبائی اپنے خاندان کو چھوڑ کر خفیہ راستوں پر روانہ ہو چکا ہے لیکن ان راستوں پر بھی منگلی چھپے ہیں۔ جونہی وہ قریب آیا اس پر حملہ کر دیا گیا۔ مرتے مرتے اس کی نگاہ نواب طواسین پر پڑ گئی ہے۔
’’مرزا جی! اس طرح کے کھیل میں ایسا ہوتا ہی ہے‘‘۔ نواب مسکرایا۔
نواب طواسین کو قید خانے میں ایک قلیل مدت کے لئے ڈال دیا گیا ہے سونے کی کرسی مکمل آب و تاب کے ساتھ روشنی بکھیر رہی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.