جنگلا
چاروں طرف پھیلے ہوئے لمبے سایوں والے جٹادھاری برگد اور ہرے بھرے نظرآنے کی کوشش میں خشک بنے ہوئے جنگل کے بیچ بسا ایک گاؤں تھا۔
ایک محلہ جس میں دھول ہی دھول ہی دھول تھی، مگر اس کے باوجود ھول کچھ زیادہ اڑتی نہ تھی، سوائے ان دنوں کے کہ جب بوڑھی عورتیں پیروں میں پہنی ہوئی جوتیاں گھسیٹتی ہوئی شادی کے وقت کے جلوس کی طرح، دہکتی ہوئی دھوپ میں پریشان اور گھبرائی ہوئی گزرتی تھیں۔ ہوا بھی دھول نہیں اڑاتی۔ اردگرد کے اونگھتے ہوئے مکانات کی نالیوں، موریوں اور پرنالوں میں سے بہتا، ٹپکتا اور رستا ہواپانی شاید دھول کے بازوؤں کو بھگوئے رکھتا ہوگا۔ پورے اس محلے میں بچے۔۔۔ شریر بچے نہ ہوں گے؟ ہیں بے شک ہیں۔ جس گھر میں ہمیں قدم رکھنا ہے، اس گھر میں تو تین تین ہیں۔
ایک کوئی دس برس کا، چھوٹے مگر گھنگھریالے بالوں والا، پانچویں جماعت میں پڑھتا ہوا لڑکااور اس کی دوبہنیں۔ ایک گھگھری چولی میں نظرآتی ہے اور کاپی میں دودھ کا حساب ماں کو لکھ کر دیتی ہوئی تیرہ سال کی اور دوسری فراک چڈی پہنتی ہوئی اور مسلسل ناک چھنکتی ہوئی، کھانے کے وقت سے پہلے اونگھ جاتی اورنیند میں چونک چونک کر اٹھتی سات سال کی لڑکی۔
یہ بچے محلے میں زیادہ نظر نہیں آتے۔ خشک ہونے کے لیے جنگلے پر لٹکا ئی ہوئی ان کی ماں کی ساڑی اور ان کے بچوں کے کپڑے باہر کی ہوا، ان سے زیادہ کھاتے ہوں گے۔ یہاں کی ہوا کو ٹھنڈی لہر کہاجاسکتا ہے لیکن اسے سانس کے ذریعہ کھینچنے کے بعد بدن آہستہ آہستہ سیسے کی طرح بوجھل سا ہونے لگتا ہے۔ ماں شام کے وقت گھر کے چبوترے پر کھڑی دیے کے لیے روئی کی بتیاں بٹتے ہوئے کہتی ہے، مشہور ہے کہ گھر میں کسی دیوی کا سایہ ہے۔ باپ دادا کے زمانے سے گھر کے ایک طاق میں اس دیوی کی شکتی کا چلّا ہے۔ گھر کا مالک اسی کرایہ دار کو مکان دیتا ہے جو ہر شام دیا جلائے۔ نوراتری میں اُپواس نہیں تو کتھا کرے۔ گھر میں پہلے ایک ڈاکٹر، پھرایک رسوئیا اور اب فیملی پلاننگ کے دفتر کی طرف سے یہ عورت اپنے تین بچوں کے ساتھ ملازمت کے سلسلے میں اس گاؤں میں آئی تھی۔
مکان کھپریل کی چھت کاتھا۔ اوپر ایک منزل تھی تو سہی لیکن اسے اٹاری کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ چھت اتنی نیچی تھی کہ چوما سے میں کھپریلیں ٹھیک کرنے والا اگر چاہتا تو اوپر بیٹھے ہی بیٹھے نیچے سے گزرنے والی پنہاریوں کے سروں پر سے تیسرا گھڑا آسانی سے اٹھاسکتا تھا لیکن ایسی شرارت پچھلے تین برسوں سے کسی نے نہ کی تھی۔ کسی کو کھپریلیں ٹھیک کرنے یا نئی کھپریلیں رکھنے کے لیے چھت پر چڑھایا ہو تب ہی ایسا واقعہ ہو سکتا ہے نا؟ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کچھ کھپریلیں بندروں نے کود پھاند کر ادھر ادھر کردی تھیں، ورنہ ساری کھپریلیں اب تک سلامت تھیں۔ گھر کا مالک اور بوڑھی عورتیں کہتیں، جگدمبامیا کا کرشمہ ہے۔۔۔ اور پھر ’سوں ‘ سے نسوار ناک میں کھینچ لیتیں۔
چھت پر کانٹے دار ’’جھانکرے‘‘ پڑے رہتے تھے اور کئی مرتبہ گول گول چکر کھاتی ہوئی چیلیں خصوصاً اسی گھر کا طواف کرتی دیکھی جاسکتی تھیں۔ آج بھی گھنگھریالے بالوں والے لڑکے نے یوں چکر کھاتی ہوئی چیلوں کو دیکھا۔ چیلیں جیسے ایک دوسرے سے جھگڑرہی تھیں لیکن رفتہ رفتہ بکھرنے لگیں۔ لڑکے نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ دو کے سوائے ساری چیلیں ہوائی جہاز کی طرح غائب ہوگئی تھیں۔ دوباقی رہیں، وہ شرارت کررہی تھیں۔
لڑکے نے مزے میں آکر دونوں بہنوں کو آواز دی۔۔۔۔ نینا۔۔۔ واسلی۔ ایک چیل کی چونچ میں کچھ تھا، اسے حاصل کرنے کے لیے دوسری چیل چکر لگا کر جھپٹ پڑتی تھی لیکن پہلی چیل چونچ کی چیز چھوڑتی ہی نہ تھی۔ ایک دفعہ تو وہ نئی نئی آئی ہوئی بجلی کے تاروں میں پھنس جاتی لیکن پھر بچ گئی۔ دوسری کا زور بڑھتا گیا۔ پہلی نے چونچ میں کی چیز کھپریل پر پھینک دی اور بھورے آسمان میں چکر لگانے لگی۔ لڑکے کا تجسس بڑھا۔ ایک مکان کے پائپ پر چڑھ کر کھپریل پر پڑی ہوئی وہ چیز دیکھے بغیر وہ نہ رہ سکا۔
یہ ایک نچا ہوا چوہا تھا۔ اتنے میں تو دوسری چیل چوہے کو لے کر اڑ گئی۔ پہلی چکر لگاتی رہی اور لڑکا ماں کی آواز سن کر گھر میں گھس گیا۔ کھڑکی کھولتے ہوئے بے خبر ی میں اس کا ہاتھ سلاخوں کے درمیان پھنس گیا۔ دوسرے کمرے میں سے آئی ہوئی لڑکے کی ماں نے ذرا بھی گھبرائے بغیر اس کی کلائی اور کہنی کو سلاخوں میں اس ترتیب سے جما کر ہاتھ یوں آسانی سے نکال لیا کہ پیچھے پریشان سی کھڑی ہوئی اس کی دونوں بہنیں حیرت سے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔
گلی میں سے بے حد سست رفتاری سے چلتا ہو اایک اونٹ گزرا۔ اونٹ کی پیٹھ پر کاٹھی تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی چارپائی اور اس کے نیچے ایک پنگھوڑا بھی لٹک رہاتھا۔ پنگھوڑے کی جھولی کا کپڑا لال رنگ کا تھا، جس پر سفید رنگ کا ایک گھڑ سوار بنا ہوا تھا، جس کے ہاتھ میں جھنڈی والا بھالا تھا۔
ماں نے کہا، ’’چلو، کھانا کھالو۔‘‘
اور پھر جیسے اپنے آپ سے پوچھ رہی ہو، یوں بڑبڑائی، ’’ڈاکیہ آگیا؟‘‘ لیکن جواب دینے کے لیے وہاں کوئی نہ تھا۔ اندر کے کمرے میں سے تھالی پٹکنے کی اور کٹوریاں بجانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ تنہا رہ گئی ہے، اس احساس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے وہ یہ دیکھنے لگی کہ کمرے کی چیزیں اپنی جگہ پر ہیں یا نہیں اور کوئی چیز بے ترتیب تونہیں۔ پھر اس نے سلاخوں دار کھڑکی کے کواڑ کھینچ کر جمادیے۔ کھٹ سے کھڑکی بند ہوگئی۔ سرار۔۔۔ کرتی ہوئی ایک چڑیا ایک بوڑھے مرد کی تصویر کے پیچھے گھس گئی۔ اب کواڑوں میں روک لگانے کی باری تھی۔ یہ نہ لگائی جائے تو ہوا اکثر دفعہ کھڑکی کھول دیتی اور یہ بات اس عورت کو پسند نہ تھی۔
نعمت خانے میں کھانے پینے کی چیزیں کھلی رہ جائیں تو چوہے بلیاں آکر ان چیزوں میں منہ ڈال جاتیں، اسے یہ عورت برداشت نہ کرسکتی تھی۔ یہی حالت اس کی دروازے کھڑکیاں بند کرنے میں تھی۔ نہیں توپھر چوہا، بلی اور اس کے پیچھے کتا بھی گھس آتے۔
روک پکڑ کر وہ قریب کے حلقے میں ڈالنے لگی لیکن روک پرانے جھولے کی پھٹی ہوئی پتی میں سے آواز نکلے، ایسی آواز کے ساتھ تھم گیا۔ سلاخوں دار کھڑکی کی چولوں نے اطمینان کاسانس لیا۔
جھولا تو اس کے پہلے کمرے میں بھی تھا۔ مکان مالک کی ’’رحم دلی‘‘ اور انسان دوستی کی علامت کے طور پر یہ ایک جھولا ہرکرایہ دار کو ملتا تھا۔ اس گھر کی طرف سے زبردست وہم میں پھنسی ہوئی مکان مالک کی نئی بیوی کے حق میں یہ جھولا مبارک ثابت نہ ہوا تھا۔ جھولا ذرا سا بھی ہلتا تو اسے چکر آجاتے اور وہ اس پر سو جاتی تو اسے خواب میں پھنکارتے ہوئے اژدہے نظرآتے۔
بند کھڑکی کی دراڑوں میں سے جنگلے کی پرچھائیاں جھولے پر رینگ آتیں تو وہ خوفزدہ ہوجاتی۔ یہ جھولا اسے ایک عظیم الشان مچان جیسا کیوں معلوم ہوتا تھا، یہ بات وہ سمجھ نہ سکی۔ دوسرے کمرے میں، جہاں وہ نینا، واسلی او رسریش کو کھانا کھلارہی تھی، وہ فوراً پہنچی۔ جانے یہ کمرہ ٹھنڈا کیوں ہے؟
اٹھ نینا، میں کھانا دیتی ہوں، کہہ کر وہ پیڑ ے پر بیٹھ گئی اور کھانا دینے لگی۔ کھانا دیتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اس کا لباس گھٹنوں سے اوپر چڑھ گیا ہے اور ٹانگوں پر کے باریک باریک رونگٹے رانوں کے دباؤ سے ایک دم نمایاں ہوگئے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے ساڑی کا سرا نیچے تک کھینچ لیا اور پھر نینا اور وینا کا کھانا تھالی میں نکالتے ہوئے دل میں بولی، ’’اس طرح میرے پیر ننگے ہوجائیں، یہ انہیں پسند نہ تھا۔‘‘
اور کسی نے رنگین سلائیڈ لگادی ہو، یوں اس کے تصور میں لمبے ایرنگ جھلاتی ہوئی ایک عورت کا چہرہ آگیا۔ عورت کے آس پاس چھپے ہوئے پہیوں کے درمیان آسمان میں سے جھانکتے ہوئے تالابوں اور نالوں کی طرح وہ دم بخود رہ گئی۔ کھوگئی۔
’’ماں، سالن۔۔۔‘‘ لڑکے نے آہستہ سے کہا۔
ماں نے سنا نہیں، اس لیے اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ ماں پتہ نہیں کہاں دیکھ رہی تھی۔ ’’سالن۔۔۔‘‘ میکانکی طور پر ہاتھ اوپر اٹھا اورکڑھائی میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو اوپر تلے کر کے لے آیا۔ سالن کے تھالی میں گرنے کی ’’تھپ‘‘ کی آواز کے ساتھ سریش نے دیکھا تو پھٹا ہوا اور بیج نکلا ہوا بینگن اور وہ مرا ہوا چوہا ایک ہوگئے۔ وہ کچھ زیادہ کھا نہ سکا۔
واسلی لقمے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ سامنے دیکھ کر کھالے، ماں نے اسے ٹوکا۔ نینا اسکول میں دیا ہوا گھر کا م پورا کرنے اور پکانے میں ماں کا ہاتھ بٹانے کے خیال سے مطمئن تھی، چنانچہ وہ سکون او ریکسوئی سے کھارہی تھی۔ چنانچہ اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ماں نے کھانا کھایا تو سہی لیکن صرف نام گنانے کے لیے۔ ہاتھ دھوکر اور ساڑھی سے پوچھ کر ماں اور نینا جھوٹے برتن اٹھانے لگیں۔
سریش اور واسلی بستے بھرنے لگے۔ واسلی کا دھیان اس کے بستے پر سفید دھاگے کے بنے ہوئے مور کی طرف تھا۔ یہ اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھا کہ یہ مور ہے، اس کے باوجود مورجیسا کیوں نہیں معلوم ہوتا؟ مور کے پر جیسے تھے ہی نہیں۔ اسے سست وکاہل سمجھتے ہوئے سریش نے کہا، واسلی جلدی کر، دیر ہوگی تو مارکس کٹ جائیں گے۔
چوکے میں بیٹھ کر برتن مانجھتی ہوئی نینا نے ’’گھررگھرر‘‘ برتن گھسنے کی آواز میں موقع غنیمت جان کر ماں سے کہا، ماں، مجھے کمپاس چاہیے۔
کچھ دیر تک برتن منجتے رہے، پھر ماں نے کہا، ’’پہلی پر تنخواہ ملنے پر لادوں گی۔‘‘
’’لیکن بینی کہہ رہی تھیں کہ کلاس کے باہر کھڑی رکھیں گی۔ تو چٹھی لکھ دے۔‘‘
’’لکھ دوں گی۔ مجھے بھی دواخانے جانے میں دیر ہوجائے گی۔ لے جلدی کر۔ ابھی مجھے اور بھی کام ہیں۔‘‘
تینوں بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوتے گئے، ویسے ویسے کھڑکی میں سے آتی ہوئی دھوپ جنگلے کے سائے کو جھولے کے تختے پر زیادہ سے زیادہ گھوٹتی چلی گئی۔ سریش کو اڑ کے پیچھے رکھے ہوئے اپنے چپل پہننے گیاتو وہ جنگلا اس کی ٹینس شرٹ کی آستین سے لپٹ گیا لیکن جب وہ پین لینے اندر کے کمرے میں گیاتو جنگلا جہاں تھا وہیں آگیا۔
روک کھل گئی۔ چراؤں کی آواز اس بات کی یاد دلانے لگی کہ جھولا ہے، لیکن اس کی بازگشت کہیں پیدا ہوتی سنائی نہیں دیتی۔
کواڑ کھلتے ہی جنگلے کی سلاخیں غائب۔ سلاخوں کی جگہ کھڑکی کا مستطیل فریم اور اس فریم میں گائے کے مبارک شگون کی طرح کھڑے ہوئے تین بچے اور ان کے سائے، جھولے پر تینوں بچوں کے سروں کو اونچی نیچی چوٹیاں سمجھ کر ایک طرف سے چڑھ کر دوسری طرف اترتا ہوا چیونٹا اپنی منزل طے کررہاتھا۔
’’ارے بچو! کھڑکی بند کرتے جانا، نہیں تو مجھے اٹھنا پڑے گا۔‘‘ اندر سے ماں کی آواز اور پھر کھڑکی بند کرنے کا دھماکہ اور پھر سریش کی پکار۔
سورج نے ایک بار خود کو رکشہ کے نیچے آتے آتے بچالیا تھا۔ وہ اسے پکڑ نہ لیتا تو وہ اس کے نیچے آہی گیاتھا۔
زچہ خانے کے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یوں بھی ان کو جیل تو ہی ہوجائے گی۔ تم دعویٰ نہ کروگی تب بھی ان کا چھٹکارا ممکن نہیں۔
لیکن آج تو مجھے جلدی جانا ہے۔ نیا مریض بہت گھبراتا ہے اور اگر کہیں کیس بگڑ گیا تو مشکل ہوجائے گی۔۔۔ ارے اس گھاگھری کا کمر بند کب سے بدلنا چاہتی ہوں لیکن وقت ہی نہیں ملتا۔۔۔
ڈاک بھی نہیں آئی اب تک، وہ بھائی تو کہتے تھے کہ اخبار میں چھپوا کر فوراً بھیج دوں گا۔
عین اسی وقت سلاخوں کے باہر سے ڈاکیے کی خاکستری آواز آئی۔
’’بہن، آپ کی ڈاک۔‘‘
ڈاک میں ایک روزنامہ تھا۔ اس نے فوراً ریپر نوچ ڈالا اور اخبار کے صفحات الٹنے لگی۔ چھٹے صفحے پر جہاں سنیما کے اشتہار ہوتے ہیں، ایک چوکھٹے میں ایک اشتہار چھپاہوا تھا۔ اس میں ایک نٹ کھٹ عورت کی تصویر تھی جس کی دوچوٹیوں میں کی ایک اس کے سینے پر پڑی ہوئی تھی۔ اس تصویر کے قریب باریک مونچھوں اور بڑے بالوں والے ایک مرد کی تصویر تھی۔
عورت کی تصویر کے نیچے لکھاتھا،
’’شریمتی چندرلیکا، عمر ۳۰ سال، جوتھلیجہ کے رہنے والے چندر لال پرمانند دوبے کی بیوی ہے، اس دوسری تصویر والے شخص جو آر، ایم پی ڈاکٹرہے، کو بھگا لے گئی ہے۔‘‘
مرد کی تصویر کے نیچے لکھا تھا،
’’مدھو کانت عرف مادھو لال پرہلاد جی ویاس، عمر چالیس سال، آبائی وطن گاؤں روپاپر، اس عورت کے ساتھ تین مہینوں سے بھاگا ہوا ہے۔‘‘
اس کے بعد تھا،
’’یہ دونوں شاید زن و شوہر کی طرح کسی گاؤں میں مقیم ہوکر ڈاکٹری کررہے ہوں گے۔ شریمتی چند ر لیکا اپنے شوہرکے گھر سے پچیس تولے کے گہنے اور اپنے نوسال کے بیٹے ونود کو ساتھ لے گئی ہے۔ لڑکے کے سامنے دو تین دانت نہیں ہیں اور کبھی کبھی اس کی زبان منہ سے باہر لٹک آتی ہے۔ بائی کے دائیں ہاتھ کی کلائی پر، رام نام ستیہ ہے، کھدا ہوا ہے جو بھی اس کا پتہ دے گا اسے مناسب انعام دیا جائے گا۔‘‘
اور پھر لکھا تھا،
’’ویاس صاحب آپ کی اس حرکت سے ہم خفا نہیں ہیں۔ آپ واپس آگئے تو آپ سے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ ماں او ربابو جی بیمار ہیں۔ واسلی یاد کرکے روتی ہے۔
جسودھا مادھو لال۔‘‘
وہ کچھ دیر تک مرد کی تصویر دیکھتی رہی، پھر ایک لمبا سانس لے کر جھولے پر سلاخوں کی گرم پرچھائیوں پر بیٹھتے ہوئے بولی، ’’اور تم نے لکھاتھا، چوٹی سے پھانسی کھاکر مرجاؤں گا، وہ بھی اس مردار کی خاطر؟ میں پوچھتی ہوں یہ حرام زادی اپنی چوٹی سے اپنے آپ کو پھانسی کیوں نہیں دے دیتی؟‘‘
لیکن پھر اسے یاد آیا کہ ’’اس عورت‘‘ نے کسی انجانے اسٹیشن سے لکھاتھا کہ ڈاکٹر مجھے نہیں بلکہ میں ڈاکٹر کو بھگا کر لے جارہی ہیوں۔ وہ الجھ گئی۔ خود اس نے تو اخبار میں بھی چھپوادیاتھا اور اس کے خلاف مقدمہ بھی دائر کرنے والی تھی لیکن وہ عورت تو۔۔۔
جھولا چلنے لگا۔ کھڑکی کے جنگلے کی سلاخیں کبھی جھولے کے تختے پر اور کبھی فرش پر چھپنے لگیں۔ وہ سلاخوں سے باہر دیکھنے لگی۔ پلاسٹر کے اکھڑ جانے کی وجہ سے برہنہ ہوتی اینٹیں جیسے آج اس نے پہلی دفعہ ہی دیکھی تھیں۔ جھولے کی طرح اس کی روح میں سے آج ایک ہی آواز ابھررہی تھی، ’’چراؤں۔ چراؤں۔ چراؤں۔‘‘
سلاخوں کے سامنے کوئی آکر کھڑا ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر چھائیں کو پہچان سکتی، زچہ خانے کے چپراسی نے کہا، ’’بون! جلد ی چلو۔ نئے کیس کا وقت سے پہلے ہی بچہ ہوگیا ہے۔ ساب تم کو ابھی پھوراً بلایا ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد ہی جھولے پر چھپی ہوئی سلاخوں کے کواڑ مقفل ہوگئے۔ طاق میں دیوی ماں کے نام پر جلتا ہوا دیا جھلملا رہاتھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.