جینے کی راہ
کہانی کی کہانی
خانگی تشدد کی شکار ایک ایسی عورت کی کہانی، جس کا کہنا ہے کہ مرد جب عورت کو پیار نہیں دے سکتا تو وہ اسے مارنے پیٹنے لگتا ہے۔ سلطانہ ایک مزدور ہے، جو اپنے شوہر نواب کے ساتھ مزدوری کرتی ہے۔ نواب نے اسے اس کے باپ سے پانچ ہزار میں خریدا تھا۔ سلطانہ اتنی خوبصورت ہے کہ کام کی جگہ پر موجود ہر شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی کو کچھ نہیں کہتی ہے۔ نواب اس پر شک کرتا ہے اور ہر وقت اسے مارتا پیٹتا رہتا ہے۔
ٹیلی فون ایکسچینج کی نئی عمارت بن رہی ہے، عورتوں اور مردوں کا حجم غفیر سروں پر ٹوکریاں اٹھائے ایک دوسرے کے پیچھے چپ چاپ چلتے ہوئے آئے جا رہے ہیں، مصالحہ ملانے والی مشین کی آواز کام کی نگرانی کرنے والوں کی آوازوں اور باہر سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کے تیز ہارن مل کر بھی اس خاموشی کو توڑ نہیں سکتے جو مزدوروں کے چہروں پر گہری کھدائی ہوئی ہے، وہ مسکرانا نہیں جانتے شاید جیسے قسمت کے مضبوط ہاتھوں نے انہیں ان دیکھی رسی سے باندھ رکھا ہو اور انہیں مسلسل حرکت دے رہے ہوں۔
میں باہر کی چار دیواری کے پاس بنے کیبن میں بیٹھا لگا تار سگریٹ پھونکتا رہتا ہوں یا جوان اور مزدور عورتوں کو خاموشی سے گھورتا رہتا ہوں، ان کے رنگین کپڑے جب پسینہ سے شرابور ہو کر جسموں سے چپک جاتے تو میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے، میں سلطانہ کے جسم کے زاویوں کو دیکھتا ہوں تو میرا سارا جسم لذت بھری خواہش سے اینٹھنے لگتا ہے، تب دوسری ساری آوازیں صرف ایک آواز میں ڈھل جاتی ہیں۔
سلطانہ کے کرتے کے دامن سے بندھے چھوٹے چھوٹے گھنگرو اور اس کے چڑکلے سے بندھی ننھی ننھی چاندی کی گھنٹیاں اس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے سلطانہ ہولے ہولے سسکاریاں بھر رہی ہو، اپنی قسمت کا ماتم کر رہی ہو، اس کا خوبصورت سانولا چہرہ گہری سرخی سے تب جاتا ہے، اس کے قدم سست پڑ جاتے ہیں تو اس کا شوہر اسے ڈانٹنے ہوئے کہتا ہے، کیا موت پڑ گئی ہے، جو تو یوں چلے ہے، بھگ بھگ نہیں تو یوں جوتیاں ماروں گا کہ یاد ہی کرےگی۔
سلطانہ کا چہرہ ایک دم راکھ ہو جاتا ہے، اس کے قدم تیز ہوجاتے ہیں، ننھے ننھے گھنگرو چھنکتے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے میں آگے بڑھ کر اس کو اپنے بازؤں میں سمیٹ لوں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا، اس کے شوہر کا مضبوط جسم اور اعتماد سے پر چہرہ ایک خوف بن کر میرے اندر سما جاتا ہے، میں سوچتا ہوں میں کسی نہ کسی روز سلطانہ کو لے کر اس دھوپ بھری دوپہروں اور اس کے شوہر کے قہر بھرے چہرے سے دور لے جاؤں گا، تب اس کا جوان خوبصورت وجود زیادہ اجلا ہو جائےگا۔
میرا تصور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکنے لگتا ہے میں سوچتا ہوں مجھے سلطانہ سے محبت ہے، لیکن میں اس سے محبت نہیں کرتا، بس خوف اور خواہش کے درمیان معلق میں تیزی سے سگریٹ کے کش کھنچتے ہوئے ایک بھڑکتا سا عاشقانہ پنجابی گیت گنگنانے لگتا ہوں، ایسا گیت جس میں جسم کا ذکر ہے، جوانی کا ذکر ہے اور یہ جسم سلطانہ کا جسم ہے، یہ جسم میرا جسم ہے، میرا انہماک چھوٹے سے بچے کی بھوک سے بلبلاتی چیخ سے ٹوٹتا ہے، خدا کی نا انصافیوں پر پہلا احتجاج۔
دوسری مزدور عورت رضیہ میرے کیبن کے پاس آکر رکتی ہے، اس کا کرتا بہے دودھ سے بھیگا ہوا ہے، اس کے کانوں کی بالیاں اور ناک کی لونگ پسینے اور گردن سے میلی ہو رہی ہے، لیکن اس کے چہرے پر مامتا کی لپک نے اسے جاندار مجسمے میں ڈھال دیا ہے، میں گانا بند کر دیتا اور سوچتا ہوں یہ بھیگا ہوا جسم بھی عورت کا ہے لیکن میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا اور منہ پھیر کر بیٹھ جاتا ہوں۔
میرا ذہن عورت کے اس روپ کو قبول نہیں کرتا، عورت تو صرف عورت ہے جس کے جسم کے کتنے زاوئیے مرد کو مدہوش کر دیتے ہیں، اسکے اندر کا شیطان پوری طرح چوکس ہو جاتا ہے میں رضیہ کو دیکھ کر مسکراتا ہوں لیکن وہ اپنے بچے پر جھکی اسے چوم رہی ہے اور پھر اسے میلے کپڑے پر لٹا کر واپس چلی جاتی ہے، اور مجھے ایسا لگتا ہے جیسے مجھے اس نے دھتکار دیا ہو میرے اندر کا مرد تلملانے لگتا ہے۔
بااختیار اور خود پسند مرد، سورج آسمان پر سفر کرتا ہوا مغرب کی طرف جھک گیا ہے نگرانی کرتے کارندے تھکن سے نڈھال عورتیں گھٹے ہوئے جمسوں والے جوان مرد میرے کیبن کے سامنے اکھٹے ہو رہے ہیں، گرد آلود ہوا بجری کے ڈھیروں اور بکھری ہوئی ریت پر آہستہ آہستہ رینگ رہی ہے، اور عورتوں کے بدبو دار کپڑوں میں سے گزرتی ہوئی چاروں طرف گھوم رہی ہے۔
سلطانہ نے اپنے گہرے سیاہ دوپٹے کے پلو سے اپنا منہ پونچا ہے اور چپ چاپ اپنے شوہر کے پاس کھڑی اپنی مزدوری کی منتظر ہے، ٹھیکیدار اپنی سیاہ ٹیوٹا گاڑی کو تیزی سے اندر لاتے ہوئے ایک دم روکتا ہے اور تیز تیز قدم رکھتا کیبن میں آکر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے، میں رجسٹر میں نام لکھتا جاتا ہوں اور بڑھے ہوئے ہاتھ پر نوٹ رکھتا جاتا ہوں، میں جانتا ہوں سلطانہ کا ہاتھ چاندی کی انگوٹھیوں کا بوجھ سنبھالے آہستہ سے آگے بڑھےگا اور پھر لیکن نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا۔
ٹھیکدار مسکرا کر اس کا حال پوچھتا ہے وہ مسکراتی ہے لیکن خوفزدہ سی اپنے شوہر کو دیکھتی ہے، اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں ٹھیکدار کو اٹھا کر باہر پھینک دوں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا، میں جو سارا دن اس چھوٹے سے کیبن میں پنکھے کے نیچے آرام سے بیٹھا رہتا ہوں، اتنا ہی بے بس ہوں، ٹھیکیدار کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا پڑھا لکھا مزدور۔۔۔ میں نے سلطانہ کے ہاتھ میں روپے رکھتے ہوئے اسے آہستہ سے چھوا ہے اور میرے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی ہے، میرا سارا جسم ایک دفعہ پھر خواہش سے تب گیا ہے۔
سڑک کی دوسری طرف چائے کی ایک دکان کے سامنے بچھی بے رنگ میز کرسیوں پر چند جوان لڑکے بیٹھے چائے پی رہے ہیں اور ننگی نظروں سے عورتوں کو گھور رہے ہیں، میں انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا، چائے خانے کا مالک بھولا پہلوان بے داغ بوسکی کی قمیض شلوار پہنے، بالوں میں خوشبودار تیل لگائے سگریٹ سے گاڑھے دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے ایک طرف بیٹھا لڑکوں کو ڈانٹ رہا ہے،
اس کے جوان چہرے پر سنجیدگی اور ٹہراؤ ہے، اپنا کام کرو، چائے کو دیکھو، غیر عورتوں کو گھورنا ہے تو آئندہ یہاں نہیں آنا، وہ بھی کسی کی ماں بہنیں ہیں سمجھے، اس نے تیزی سے سگریٹ کی راکھ چٹکی بجا کر زمین پر جھٹکا ہے۔
لڑکے مسکراکر چائے پینے لگے ہیں اور پھر چائے کی قیمت چکا کر اٹھ جاتے ہیں اور ان منے قدموں سے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے آگے چل پڑتے ہیں، میں بھی ان کی طرح عورت کے وجود اور اس کے سحر سے آگاہ ہوں اور سلطانہ کا جسم، ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، چائے کی پیالی، سگریٹ کا پیکٹ، عورت کا جسم اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ساری مزدوری کرتی اور عورتیں بھی خریدی گئی ہیں، رضیہ کی قیمت پندرہ سو تھی، انوراں کے مضبوط بازو اس کے شوہر کو پورے دو ہزارے روپے میں پڑے تھے، ریزواں کے اونچے آگے کو بڑھے دانتوں کی وجہ سے اس کے باپ کو صرف آٹھ سو روپیہ ملا تھا، اور یہ سلطانہ اسے نواب نے پورے پانچ ہزار میں خریدا تھا۔
نواب نے ایک روز میرے پاس بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پورا پھیلاتے ہوئے کہا تھا، بابو صاحب میں نے سلطانہ کو دن رات کی کمائی جمع کرکے پورے پنج ہجار میں کھریدا ہے جی، اب میں کیا اسے سر پر بٹھاؤں ، میں نے تو اپنے پیسے پورے کرنے ہیں، مجدوری تو یہ کرے ہی کرے اور میں نے نواب کے پاس بیٹھی اس معصوم کو دیکھ کر جس کی آنکھیں ایک دم بجھ گئی تھیں اور اس کا خوبصورت چہرہ اس کے گلابی کڑھے کرتے اور ننھے گھنگرو لگے دامن کے درمیان ایسے لگنے لگا تھا جیسے بجھی سگریٹ دھواں دینے لگی ہو۔
میں زور سے ہنسا اور بولا نواب مہنگی چیز کی تو حفاظت کی جاتی ہے، سنبھال کر رکھا جاتا ہے، اور تم نے اپنی اتنی مہنگی جورو کو راکھ میں ڈال دیا ہے، کیا تمہیں اس سے محبت نہیں، جی محبت تو مجھے سلطانہ سے ہے جی جبھی تو میں نے پورے دس سال کے بعد اس کے باپ کو بڑی منتوں کے بعد شادی پر راجی کیا تھا جی، وہ تو مانے ہی نہیں تھا، کہتا تھا میری سلطانہ بہت کھوبچھورت ہے، اس کے تو پورے دس ہجارے ہی لوں گا، نواب کا جوان چہرہ جھیلے ہوئے انتظار کے کرب سے سخت ہو گیا، وہ انتظار جو اس نے برسوں روپوں کی گنتی پورے ہونے کے انتظار میں اٹھایا ہوگا، اس کا دل لحظ لحظ اس کے انتظار میں بھیگا ہوگا اور اب نواب سلطانہ سے اس ساری محبت اور تگ ودو کی قمیت وصول کر رہا ہے۔
کیا یہ محبت تھی، یا انسانی فطرت کا تقاضا تھا، جسم کی سچائی ہی سب سے اونچی پکار بن جاتی ہے، نواب نے سگریٹ کو بھجا کر جیب میں رکھا اور میری طرف دیکھ کر بولا، بابو صاحب تم جانو جندگی بڑی کھٹن ہوئے ہے، روپیہ پیسہ ہی تو طاقت ہے، بیماری شماری میں عورت تو کام نہ آوے، پیشا کام آوے پیشا اور پھر ہمارے باپ دادوں سے ایسا ہی ہوتا آوے ہے، قیمت تو چکانی ہی پڑے ہے اور کیا مرد کوئی قیمت نہ ہووے، ہووے صاحب میرے جیسا جوان سلطانہ کو دکھے ہے کوئی دوسرا اس ساری ٹکڑی میں جانچو تو جرا، کوئی دکھے ہے میرا جیسا جتا وہ بڑے اعتماد سے مسکرایا۔
سلطانہ تو اپنے آپ کو بڑا بھاگوان سمجھے ہے، بڑی کھٹن ہے، منے سنگ، کیوں ری تو تو بول اس نے سلطانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور سلطانہ نے شرما کر سر جھکا لیا، میں جانتا ہوں میں جو بڑھیا سگریٹ پیتا ہوں اچھے کپڑے پہنتا ہوں، نواب اس کے سامنے اپنے آپ کو حقیر اور چھوٹا سمجھتا ہے، اس کے سارے جذبے سچے اور کھرے ہیں، اور میں میرا ہر احساس صرف جھوٹ میں لپٹا ہوا ہے، میں اپنے اندر کی سچائی کو اپنے سامنے عیاں کرنے سے بھی گھبراتا ہوں، میں ابھی صرف جسم کو پہنچانتا ہوں، لیکن اسے محبت کا رنگ دیتا ہوں، دھواں آسمان کی طرف اٹھتا ہے اپنے بازؤں پر بھروسہ ہی ان کا ایمان ہے شام کے آسمان پر چیلیں ظمانیت بھرے پر پھیلائے دائرے میں اڑ رہی ہیں طمانیت کہاں ہے، پیسے کمانے میں محبت کرنے میں یا محبت کی قیمت چکانے میں۔
میں نے سلطانہ کی طرف دیکھا ہے، وہ اپنی ساس کے پاس چپ چاپ بیٹھی اڑتی چیلوں کو دیکھ رہی ہے، اس کا چٹلا ساکت ہے، اس کے دامن کے گھنگرو بھی ساکت ہیں اور مجھے لگ رہا ہے جیسے سب کچھ تھم گیا ہو، رک گیا ہو۔
میں جاتے جاتے رک جاتا ہوں کھٹی لسی میں پکائے گئے چاولوں کی ناورا بو سب طرف پھیلی ہوئی ہے، لیکن میں اس بوکو سونگھے بغیر ایک اور بو سونگھنے کی کوشش کر رہا ہوں، جو سلطانہ کے جسم سے اٹھ رہی تھی عورتوں کے رنگین چھینٹ کے کپڑے متیالے ہو چکے ہیں، لاکھ کے سفید چوڑوں سے بھرے بازو ناک میں پڑی ہوئی بڑی لونگیں، کلون میں لٹکے کنٹھے ان عورتوں کی ساری زندگی کی بس اتنی ہی تو قیمت ہے لیکن میں سلطانہ کیلئے اس سے کہیں زیادہ دے سکتا ہوں۔
میں سلطانہ کا سودا دل ہی دل میں طے کر لیتا ہوں، سونے کے زیورات، ریشمی کپڑے اور شاید کسی روز میں یہ سودا کر سکوں، شاید کبھی میں اس کو چھو سکوں، میں گیٹ سے باہر سڑک کے کنارے بھولا پہلوان کے چائے خانے پر جا کر بیٹھ جاتا ہوں شاید میں تھک گیا ہوں، معلوم نہیں تگ ودو کی کون سی منزل ہے کوئی نہیں بتاتا، ہر ایک کو اپنی راہ خود ہی ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
کیوں بابو صاحب تھک گئے ہو کیا؟
اوئے چھوٹے ملائی والی چائے لانا گرم گرم، اور بھولا پہلوان میرے پاس آکر بیٹھ گیا، اس نے سگریٹ کا تیز کش لیتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے کچھ کہتا ہوا کچھ مانگتا ہوا
ہاتھ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
بابو صاحب یہ جوان سی چھوکری ہے نا جو ۔۔۔۔نئی نئی آئی ہے مزدوری کرنے کیا نام ہے سلطانہ۔۔۔۔ہاں سلطانہ اس نے بڑی گڑ بڑ پھیلادی ہے جی چھوکرو میں، میں تو حرامیوں کو بیٹھنے ہی نہ دوں اڈے پر، پر کیا کروں دھندا ہی ایسا ہے، اس کیگھر والے کو کہیں کہ اسے کھلے عام نہ لئے پھرے، نہیں تو کسی نہ کسی چھوکرے سنگ بھاگ جاوےگی۔
پہلوان کے لہجے میں فکر مندی تھی، کم بخت غریب ہوکر بھی اتنی نازک لگتی ہے، جیسے کانچ کی بنی ہوئی ہو، اللہ اپنی کاری گری کہاں ضائع کر دیتا ہے، کیا ضرورت تھی اسے ایسا بنانے کی، لیکن میں نواب کو کیسے کہہ سکتا ہوں میرا اس کا کائی ناطہ تو ہے نہیں، نہیں جی اونچ نیچ تو سمجھانی پڑتی ہے، آپ ان کے انچارج جوہوئے اور میں سوچ رہا ہوں کہ سلطانہ نہ صرف مجھے نظر آتی ہے، دوسرے بھی اسے دیکھتے ہیں دوسرے بھی اسکی خوبصورتی سے مسحور ہیں۔
میں نے کہا پہلوان جی نواب اس کی قیمت جانتا ہے اس کی حفاظت کرے گا، یہ لوگ بار بار شادی نہیں کرسکتے ان کے پاس بیوی خریدنے کیلئے پیسے کہاں، میں سمجھاؤں گا اور شہر کی ہوا عورتوں کو بہت جلد بدل دیتی ہے، مردوں کی نظریں دلوں میں اتر جاتی ہیں جی، وہ بہت جلد سمجھ جائےگی، کہ وہ کتنی خوبصورت ہے، پہلوان کی آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں، اور وہ گہرے کش کھینچ رہا تھا۔
میں نے پھر کہا پہلوان جی لڑکے کے ماں باپ بھی تو ساتھ ہیں، وہ کہاں جائےگی، پر بابو صاحب آپ نے کبھی لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا ہے، ہر روز مار کھانے والی عورت زیادہ دیر ایسے مرد کے پاس نہیں رہتی، کیا ہے اس کی آنکھوں میں؟ میں تجسس سے بولا، کچھ تو ہے، جیسے وہ رو رہی ہو اور پھر بغاوت بھری ہے جی، پر پہلوان جی آپ نے کیسے پڑھیں اس کی آنکھیں، میں ہنس کر بولا، بابو جی میں بازار میں بیٹھنے والا آدمی ہوں، راہ جاتی عورت کی چال دیکھ کر پہچان جاتا ہوں کہ کس قماش کی عورت ہے، چالو ہے یا گھر دار، پر نواب سے بہتر اسے کوئی اور کیا ملےگا، آپ بھولے شاہ ہیں، عورت جو کچھ چاہتی ہے، نواب کے پاس نہیں، سختی دلوں کو پتھر بنا دیتی ہے اور ہ تو کانچ کی بنی لگتی ہے اور نواب اس کی قیمت کیا جانے، اس کے لیے تو وہ ایک ٹوکری ہے بوجھ ڈھونے والی۔
میں پہلوان کے ذاتی تجربات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، ہمارا اس کا چند ماہ سے ہی تو ساتھ ہوا ہے، میں اتنا جانتا ہوں وہ سڑک پر جاتی عورت کو گھورتا نہیں اور نہ دوسروں کو گھورنے دیتا ہے، غیر محسوس طور پر سب اس سے ڈرتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں، سلطانہ اور مرد سلطانہ اور اس کا شوہر، عورت کی قیمت چند ہزار روپے، نقلی زیور، بےباک نظریں، شاید ہم سب کو اس کا بکاؤ مال سمجھتے ہیں، اسے خریدنا چاہتے ہیں، شاید نواب اپنی چیز کی قیمت سے پوری طرح واقف ہے اس کی حفاظت کرنا جانتا ہے، عمارت بلند ہو رہی ہے، اور ساتھ ہی میرے دل میں سلطانہ کا خیال، میں اسکے وجود سے ہر لمحہ آگاہ رہتا ہوں، اس لئے اس کے اندر آئی تبدلیاں مجھے سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔
وہ سب ہمیشہ کی طرح چپ چاپ کام کئے جاتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے جیسے آوازوں کا شور اٹھ رہا ہو اور ان آوازوں میں سلطانہ کی بولتی آنکھوں کی آواز سب سے بلند ہو، اب وہ اپنی مزدوری لینے کیلئے جب ہاتھ بڑھاتی ہے تو ماتھے تک کھنچے ہوئے گھونگھٹ میں اس کی آنکھیں مسکرانے لگتی ہیں، نواب اسے جھڑکتے ہوئے کہتا ہے، تو ہٹےگی یا میں لات دوں، میں نے دیکھا ہے، کہ نواب بھی اس کے اندر آتی جاتی تبدیلی سے آگاہ ہے، وہ اسے اب بات بے بات مارنے لگتا ہے، اس کی ساس بھی اسے پیٹتی رہتی ہے، لوکل مزدور کام کے بعد بڑے اہتمام سے نہاتے ہیں، تیل لگاکر بال بناتے ہیں، اور آپس میں دور بیٹھے مذاق کرتے رہتے ہیں، بوڑھے رحیم نے جب اپنے بالوں کو بڑے اہتمام سے خضاب سے رنگا تو سب جوان چھوکروں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کیوں رحیم بابا نئی شادی کرنے لگے ہو۔
میں ابھی بھی تم چار پر بھاری ہوں، سلطانہ منہ پر پلو رکھے آہستہ آہستہ ہنستی رہتی اور رحیم بابا اپنی داڑھی اور بالوں پر بار بار ہاتھ پھیرتا اسے دیکھتا رہتا ہے، اب جب نواب بھولا پہلوان کے چائے خانے پر جاتا تو وہ بھی جا کر کھڑی ہو جاتی ہے، بھولا اسے بھی ملائی والی چائے پلاتا ہے، اور میں جانتا ہوں ایک نا ایک دن کچھ ایسا ہوگا، جو نواب کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔
اب نواب اسے پہلے سے بھی زیادہ مارتا ہے، وہ ہجری پر چادر لے کر لیٹ جاتی اور پھر کبھی کبھی چادر کا کونہ مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے، میں جواب میں مسکرا نہیں سکتا، وہ بہت سارے اور میں اکیلا، لیکن میں بے مقصد ہی وہاں رکا ہوا ہوں، میں سلطانہ کو ٹھیکیدار کے جوان بیٹے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، لیکن اتنے مزدوروں کے ہجوم میں اس سے بات نہیں کر سکتا، میں سلطانہ کے بارے میں فکر مند ہوں اسے مزدوروں کی نظروں سے بچانا چاہتا ہوں۔
اس روز سلطانہ میرے کیبن میں اکیلی آئی تھی، اور اس نے اپنی بڑی بڑی بھوری بھوری آنکھوں کو کھولتے ہوئے کہا تھا، ایک بات کروں صاحب، کیا تم میری مجدوری بڑھا نہیں سکتے، میں نئے کپڑے بناؤں گی، اور اس نے اپنا پھٹا کرتا مجھے دکھایا، میں ہنسا، شاید سلطانہ میری نظروں کے پیغام کو جان گئی ہو، میں نے کہا، نواب کو کیوں نہیں کہتی ہو؟ وہ ایک دم چپ ہو گئی۔
اس کی آنکھیں کسی دکھ سے بھیگ گئی تھیں، وہ بولی نواب تو بس روپے جمع کرے ہے، اسے میرا ننگا بدن نجر نہیں آوے ہے، کیا میں بنا دوں تجھے نئے کپڑے ، میں اس کے سامنے کھڑے ہوکر بولا وہ ایک دم کھڑی ہو گئی، ناں جی، کپڑے تو میں اپنی مجدوری سے ہی بناؤں گی، بس تم میری مجدوری بڑھا دوں، پر نواب کو نہ بتانا اور وہ جلد ہی باہر چلی گئی اور میں مسکرانے لگا۔
بھولا پہلوان نے ہی تو کہا تھا، شہر عورت کو بڑی جلدی بدل دیتا ہے، باہر موسم کی پہلی بارش ہو رہی تھی، سیاہ بادلوں کے پرے سے پرے آسمان کے کناروں سے اٹھ کر چاروں طرف پھیل گئے تھے، میں کیبن کے دروازے پر کھڑا گہرے بادلوں کو ایک دوسرے میں مد غم ہوتے دیکھ رہا تھا، اور سلطانہ کا جسم میرے تصور میں چھایا ہوا تھا، وہ عمارت کے بر آمدے میں کھڑی اداس نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی اور پھر شاید وہ رونے لگے، اس کے آنسو کے رخساروں کو بگھو رہے تھے، دکھ بھرے آنسو۔
اس کا سنہری بدن کڑکتے بادل، آنسوؤں سے بھیگے گال اور پھٹا کرتا، انسان چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی تکمیل کیلئے کوشاں کتنا بے بس ہوتا ہے۔ معلوم نہیں رات کا ساتھ مرد عورت کو زہنی طور پر قریب لاتا ہے، کتنا دو کرتا ہے، اور کیا رات کا ساتھ ہی سب سے بڑی سچائی ہے میں سوچ رہا تھا، سوچ جو مثبت نہیں تھی، سلطانہ بدل رہی ہے، میں جانتا ہوں لیکن اس کا اور میرا فاصلہ بدستور قائم ہے، میں ہمیشہ کا ڈر پوک آدمی ہوں، عزت جانے کا ڈر، نوکری جانے کا ڈر، سلطانہ نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے، اس کے چہرے پر غرور اور اعتماد نے اسے عمر سے بڑا بنا دیا ہے، اب وہ جس سے جی چاہتا، باتیں کرنے لگتی ہے، بھولے کی دکان پر جاکر چائے پیتی ہے، نواب سے مار کھا کر بھی زیادہ نہیں روتی، ساس اور سسر سے نہیں ڈرتی۔
بھولہ ٹھیک کہتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں بغاوت بھری ہوئی ہے، شہری عورتوں نے غیر محسوس طور پر اسے بدل دیا ہے، ایک روز میں نے موقع پاکر سلطانہ سے کہا سلطانہ کبھی مجھے بھی خدمت کا موقع دو، وہ زور سے ہنسی اور بولی ایسی ہی بات ٹھیکیدار کے بیٹے نے بھی کہی تھی ایسا لگے ہے جیسے یہاں کے سارے میرے ہی عسق مس گلتاں ہیں، کسی کو کوئی اور کام نہیں ہووے، ہے نا مجے کی بات، سچ بڑا مجا آوے ہے، جب نواب دیکھ کر جلے ہے، دیکھو وہ کھڑا گھورے ہے، بےچارا نواب اور زور زور سے ہنسنے لگی، میں اس کی بےباکی پر حیران تھا، میں نے کہا، سلطانہ کیا تجھے نواب سے ڈر نہیں لگتا؟ جان سے مار ڈالےگا تجھے۔
وہ بولی ڈروں ہوں، جرور ڈرو ہوں لیکن اتنا جانوں اور مجھے جان سے نہیں مارےگا، اس کا نخنشان کون پورا کرےگا، ما ہی کروں گی نا، پھر میرے مرنے کا اسے پھائدہ، وہ اپنی جرورت کیلئے مجھے جندہ رہنے دے گا، جرور جندہ رہنے دیگا، اور وہ بڑی لا پرواہی سے آگے چل دی۔
وہ ان ساری زیادتیوں کا بدلہ لے رہی تھی، لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ نقصان صرف عورت کا ہی ہوتا ہے، گھاٹے میں صرف اس کی ذات رہتی ہے مجھے اس کی بیبا کی اچھی نہیں لگتی جیسے اس نے اپنی روح کی معصومیت کو بےمول بیچ دیا ہو، میں تو اس سلطانہ سے محبت کرنے لگا تھا جو نواب کی مارکھا کر بھی سہمی رہتی تھی، ساس کی جھڑکیاں کھا کر بھی سر جھکا لیتی تھی۔
اس دن ٹھیکیدار کے بیٹے نے بڑی رازداری سے کہا کیا کسی طرح یہ سلطانہ ہاتھ نہیں لگ سکتی، اور میرا جی چاہا میں آگے بڑھ کر اس کا گلا دبا دوں، لیکن سلطانہ کولر کا پانی لینے کیلئے خود ہی آ گئی، ٹھیکیدار، کے بیٹے کی نظروں میں ننگی بھوک تھی وہ بولا، آؤ سلطانہ تمہیں اپنی گاڑی میں سیر کروا لاؤں۔۔۔چلو گی میرے ساتھ؟ وہ گھبرائی نہیں، بس چل چاپ سے دیکھنے لگی اور بولی، صاحب میرا مرد جندہ ہے مرا نہیں ہے، اور اس جیسا کوئی ہو تو جانوں اور چلی گی۔
شاید وہ سب کچھ جو میں دیکھتا رہتا ہو، محض نواب کو جلانے کیلئے ہو، ٹھیکدار کا بیٹا عورت خریدنی جانتا ہے عورت جیتنا نہیں وہ تلملاتا ہوا چلا گیا، اور پھر کبھی نہیں آیا، سلطانہ اپنے آپ کو بیچنا نہیں چاہتی تھی۔
اس روز جانے کیا بات ہوئی کہ نواب نے اسے چٹیا سے گھسیٹا اور چلا کر پیٹنا شروع کر دیا۔ حرام جادی گیر مردوں کے سنگ مجاخ کرے ہے، میں تیرے سب لچھن سمجھوں ہوں، میں نے پنج ہجار اس لئے تو نہیں بس بھرے تھے کہ دوسروں کے سنگ موج مناوے، سلطانہ کی ساس بھی چلا چلا کر الزام لگا رہی تھی، گندی گندی گالیاں بک رہی تھی، سلطانہ زور زور سے رونے لگی، ہاںہاں میں دوسروں کے سنگ موج مناؤں ہوں میں نہیں رہتی تیرے سنگ، جالم مرد، دیکھ لینا ایک دن جرور بھاگ جاؤں گی، تو دیکھتا رہ جاوےگا، سب نے کام روک دیا اور ان کی لڑائی دیکھنے لگے، اس کا باپ روک رہا تھا، لیکن وہ جنونی طور پر سلطانہ کو مار رہا تھا، میں تجھے جان سے ہی مار ڈالوں گا۔
بھولا پہلوان بھاگتا ہوا آیا، اس نے نواب کو دونوں بازؤں سے تھام لیا اور چلایا، ہوش کر نواب مر جائےگی، تو کون ہے روکنے والا، اس کا باپ بولا، میں ہوں، میں ہوں تمہاری بیوی کا یار، سور کی اولاد، بےبس عورت پر ظلم کرتے ہیں، اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے، عورت کو خریدتے ہیں، بے غریب اور پھر اس ظلم کرتے ہیں جیسے وہ کوئی جانور ہو، سلطانہ کھلی آنکھوں سے بھولا پہلوان کو دیکھ رہی تھی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے پتہ نہیں بھولا نے نواب کے بازو چھوڑ دئیے اور بڑ بڑاتا ہوا واپس چلا گیا۔
کام دوبارہ شروع ہو گیا، سلطانہ کی سسکیاں کبھی کبھار گونجتیں اور تھم جاتیں، سب مزدور چپ چاپ کام کر رہے تھے، جیسے وہ احتجاج کر رہے ہوں، میں وہاں کھڑا گہری اداسی میں ڈوب گیا جیسے یہ ساری عورتیں آہوں کی زنجیر میں بندھی مسلسل منزل کی تلاش میں ہوں، زندگی کی تلاش میں ہوں اور مرد ہاتھوں میں کوڑے لئے انہیں آگے کو دکھیل رہے ہوں ان کی برہنہ پشتوں پر مار رہے ہیں، سلطانہ کی بھیگی آنکھیں سارے ماحول کو تسکین زدہ کر رہی تھیں۔
یہ ٹوکری اٹھائے مزدوری کرتی خوبصورت لڑکی ہماری زندگیوں کے خانے میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو سکتی، میں جانتا ہوں ، اس کے جسم کی تو قیمت دی جاسکتی ہے لیکن اس کی روح میں کوئی بھی جھانکنا پسند نہیں کرےگا، وہ ہمیشہ تنہا رہےگی، ہمیشہ زندگی کی تلاش میں سر گرداں۔
روز کی طرح شام کا سورج ڈوب رہا تھا، شروع شروع سردیوں کی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ کپکپارہی ہے، زمین سے اٹھتی دھول بھی شامل ہو کر اسے بوجھل بنا رہی ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا، دور کھڑا ٹھیکیدار سلطانہ کو دیکھ رہا تھا، سورج کی کوئی آخری شعاع کسی بےدرد دھڑکی سے اندر آئی ہوئی سلطانہ کے سراپے کو جلا رہی ہے اور وہ یادوں میں ڈوبی اداس کھڑی ہے، یادیں جس میں اس کا گزرا بچپن ہوگا، ماں باپ کی ملائم شفقت ہوگی، مستقبل کی خوابناک جھلکیاں ہونگی، اس عذاب سے بچنے کیلئے دل کو کوئی راہ نہیں سوجھتی، پتہ نہیں سلطانہ بھی اس درد کو سہلانے کی کوشش کرہی ہو، ٹھیکیدار بغیر مقصد کے کھڑا ہے، میں جانتا ہوں وہ بھی میری طرح مایوس ہوکر چلا چائےگا۔
نومبر کا سورج دھند آلود فضا میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا رہا تھا کام شروع ہونے والا ہے، مزدور آہستہ آہستہ آکر عمارت کے پاس جمع ہو رہے ہیں، سلطانہ اب پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگتی تھی، سلطانہ کے چہرے پر کھنڈرا پن ہے، بھولا پہلوان آج پہلی بار آکر سلطانہ سے بات کر رہا ہے، میں نے کہا کیوں پہلوان جی کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ کیا گم ہو گیا ہے، وہ بولا گم تو نہ جانے کیا کیا ہو جاتا ہے، میں تو صرف اپنی گم پیالیاں دھونڈ رہا ہوں، شاید نواب لے آیا ہوں۔
اس نے سلطانہ پر ایک اچٹتی نظرڈالی سلطانہ، سلطانہ نے جلدی سے سر جھکا لیا، اور برتن اٹھا کر کھڑی ہوگئی، بھولا پہلوان بے دھیانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، اور پھر چلا گیا ہے، لگتا ہے الفاظ اس کے لبوں میں قید ہو گئے، میں نے کہا سلطانہ کیا نواب کی مار سے تمہیں ڈر نہیں لگتا، وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی مار مار، جب مرد کے پاس پیار نہیں ہوتا تو وہ مار سے کام چلاوے ہے اور جندگی صرف مار کھا کر تو نہیں گجرتی، میں تو اس مار سے تنگ آ گئی ہوں۔
پھر اسنے تالاب کے کنارے سے اپنے برتنوں کو اٹھایا اور چولہے کے پاس رکھنے کو چل پڑی اب نواب سلطانہ کو پہلے کی نسبت کم مارتا تھا، میں جانتا تھا، پہلوان اپنی دکان پر بیٹھا سلطانہ کو دیکھتا رہتا تھا، اس کے چہرے پر عجیب سی ملائمت آ گئی ہے، وہ اپنے گاہکوں کے ساتھ بڑی نرمی سے بولتا ہے نواب سلطانہ کی تیز نظروں سے خائف ہو کر دوسری طرف رخ موڑ لیتا ہے اور بڑ بڑ انے لگتا ہے، مجھے لگتا ہے جیسے سلطانہ کے چہرے پر استہزا آمیز مسکراہٹ کھد گئی ہے، وہ میرا، نواب کا، اپنی ساس کا مذاق اڑاتی ہوئی لگتی ہے، اسے کس طاقت نے خود سر بنا دیا ہے، یا پھر وہ بےحسی کے اس درجے میں داخل ہو گئی ہے جہاں سب کچھ بے وقت اور سہارے کے قابل لگتا ہے داکا دروازہ سب پر بند ہو جاتا ہے۔
اس روز جب میں ہمیشہ کی طرح داخل ہوا تھا تو نواب کے سارے رشتہ دار فکر مند چہروں کے ساتھ ایک جگہ جمع تھے کام کا وقت ہو گیا تھا۔
میں نے کہا کیا بات ہے کام شروع کیوں نہیں ہوا، تو خیرو نے کہا، آج ہم دھاڑی نہیں لگائیں گے، ہمار گیر ہاجری لگادو، میں جانتا تھا کہ کوئی بہت بڑی بات ہی انہیں مزدوری سے روک سکتی تھی، عورتیں گھونگھٹ نکالے الگ کھڑی باتیں کر رہی ہیں، ان میں سلطانہ نہیں تھی، میں گھبرا کر پہلوان کی دکان کی طرف دیکھا وہ چائے بنا رہا تھا، اور ایک دو گاہک بیٹھے چائے پی رہے تھے، کیا بات ہے؟ میں غصے سے بولا۔
بات کیا ہووے ہے صاحب یہ سطلانہ ہرام جادی رات کو نہ جانے کون سے عاشخ سے مل کر آوے ہے، میں تو تھکا ہارا سو جاؤں ہوں اور یہ موجاں مناوے ہے، مار مار تھک گیا یہ منہ سے بولے ہی نہیں ہے، نواب زمین پر بیٹھ کر رونے لگا، بےبسی سے میں پہلی بار اسے روتا دیکھ رہا تھا، مجھے لگا جیسے نواب کا خوبصورت وجود ایک دم بہت سکڑ گیا ہو، اس کی طاقت کا گمان سلطانہ نے توڑ دیا تھا، سلطانہ جو خریدی ہوئی عورت تھی، صاحب میرے تو پنج ہجار مپھت میں جایا جاویں ہیں، ہاں ہاں پہنج ہجار جایا جاویں ہیں، میں اپنے آپ کو بیچوں ہی کویں نا، سلطانہ اس کے سامنے کھڑی غصے سے چلا رہی تھی اس کا چہرہ چوٹوں سے سوجا ہوا تھا، اس کے پھٹے کرتے سے اس کا جسم نظر آ رہا تھا، اس کی آواز میں اس کی مجروح ان کی چیخ تھی، تو پنج ہجار کو کیا جانے، توتو پنج لاکھ کما سکتی ہو، تیرے عاشخ جو دیویں ہیں تجھے، نواب شیر کی طرح دھاڑا اور اسے مارنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.