’’اے ذی وقار شہزادی! یہ ہے راز کوہ ندا کا‘‘۔
اجنبی ہواؤں کی ذائقہ شناس اور طویل مسافتوں کی دھول میں اٹے حاتم نے کوہ ندا کا تمام ماجرا گوش گزار کیا۔۔۔ مکمل دل جمعی سے!
حاتم کی آمد کا اعلان ہونے کے بعد، ہرچند شہزادی مصررہی کہ اس نے بہت ہرج مرج کھینچا ہے، پہلے آب خنک و معطر سے جسم سے نادیدہ زمینوں کی دھول صاف کر لے، اعضا سے محنت و مشقت کے پسینہ کی بو دھو ڈالے، تب پاکیزہ پوشاک زیب تن کرنے کے بعد، لذت کام و دہن سے تن کر توانا کر لے۔۔۔ بلکہ یوں ہی چندے لیل و نہار کرے، جب اچھی طرح آسودہ اور مسرور ہولے تو پھر کسی دن، دیوان خاص میں، تقریب خاص میں، مقربین، مصاحبین اور عمائدین کے روبرو، احوال کوہ ندا کی مہم کا گوش گزار کرے تو مرغوب خاطر ہوگا۔ حاتم نے دست بستہ عرض کی:۔
’’اے دانش مند اور زیرک شہزادی! تم جانتی ہو کہ میرا دوست منیر شامی، شربت وصل کے پینے کو تن زار اور دل فگار کے ساتھ خود پہ دن کا آرام اور رات کی نیند حرام کئے ہے۔ لہٰذا جسم کے آرام اور معمولی سی آسائش کے لیے منیر شامی کو تاخیر کے تناؤ اور تذبذب کے عذاب میں مبتلا کرنا غیر دردمندانہ فعل ہوگا اور دوست بھی ایسا جس کے لیے میں نے یہ ہرج مرج کھینچا‘‘۔
شہزادی، کہ حسن کی بھی شہزادی تھی، مسکرا مسکرا کر اسے میٹھی میٹھی نظروں سے تکا کی، چندے توقف کیا، تب لب لعلیں کو غنچہ سا، یوں وا کیا۔ ’’آفرین ہے حاتم!‘‘
مطلاحاشیہ سے بنے نقری تاروں والے پردہ کے ادھر شہزادی، ستاروی جیسی خواصوں کے جھرمٹ میں مثل ماہ چہار دہم، ادھر حاتم منیر شامی اور مرحبا!! کا غلغلہ بلند کرتے ہوئے چیدہ درباری۔ پردے کے نقری تار مہین و ملائم اور نفیس، اتنے کہ دست تصور سے بھی لرزاں اور اس دھواں دھواں براق پردہ کے پیچھے حسن جہاں سوز کا شعلہ۔۔۔ لپکتا، دمکتا، جھمکتا! وہ حسن جس نے منیر شامی کے خرمن ہوش و خرد پر بجلی گرائی، گھر بار سے بیگانہ کیا اور عاشق حرماں نصیب بناکر چھوڑا۔
شہزادی حاتم کو جن نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ منیر شامی کو ان نظروں سے نہ دیکھ سکتی تھی کہ حاتم بہرحال فاتح مہم جو تھا۔ شہزادی کے گلنار لبوں پر شبنم کی کرنوں نے رخ روشن کو یوں منور کر دیا کہ وہی تار نقاب میں تبدیل ہو گیا۔ ہر چند کے منیر شامی کی حد ادب سے تجاوز کرتی گستاخ نگاہیں، دست طمع کی مانند تار نقاب سے کھیل رہی تھیں۔ شہزادی نے لب لعلیں کو جنبش دی۔
’’حاتم! جب ایسے ہو تبھی ایسے بھی ہو‘‘۔ حاتم کورنش بجا لایا۔
شہزادی نے جنبش ابرو سے اشارہ کیا، ترت مسند زریں مکلف و پر تکلف، کلابتوں کی ڈوریوں سے مزین، آراستہ کر دی، مودب کنیزوں نے دسترخوان زرنگار سجا دیا، خوش رو باندی جواہر سے جگ مگ کرتا طلائی آفتابہ اور نقشیں چلمچی لے کر ہاتھ دھلانے کو حاضر دوسری دست پوشی کو مستعد۔ نازنینوں نے سرد مشروب اور میوہ ہائے خشک و تر، زرین مزین دسترخوانوں پر سلیقہ اور قرینہ سے سجا دئیے۔
شہزادی اور حاضرین، حاتم کے ہلتے لب دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے الفاظ گویا مانند تصویر ادا ہو رہے تھے۔ حاتم کی تقریر دل پذیر، گویا انگلی تھامے، غیرمانوس، اجنبی مناظر اور نادیدہ زمینوں کی سیر کرا رہی تھی۔ جب بار کلام سے حاتم کا حلق بوجھل ہو جاتا، چنداں توقف کرتا، شربت کا گھونٹ بھرتا، ہمہ تن گوش بنے سامعین پر نگاہ ڈالتا اور پھر گویائی کی ڈور تھام لیتا۔
سب کی نگاہوں میں حاتم کے ہلتے لب تھے۔ صرف منیر شامی کا تن ناتواں، چشم بیدار میں تبدیل ہو چکا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر شہزادی کو تکے جا رہا تھا۔ نقرئی مہین تاروں کے پردے میں کچھ چھپی کچھ دکھائی دیتی شہزادی، روشنی کی مانند منیر شامی کی آنکھوں کی راہ دل میں چاندنی بکھیر رہی تھی۔ اب یہ مغرور حسینہ میری ہے، آج یہ مشکل پسند دوشیزہ میری سیج آباد کرےگی، سنگ ہجر سے شکستہ تن داغ داغ، وصل سے شاد کام ہوگا۔ وہ اس تصور ہی سے لرز گیا کہ یہ لامبی سیاہ ناگنیں اس کے بازو پر کھلیں گی اور نین میں لرزش پیدا کریں گی، یہ غنچہ دہن میرے لبوں پر پھول کھلائےگا۔ تن نگار گلزار میں تبدیل ہوگا۔ منیر شامی میں اسے سے زیادہ سوچنے کی تاب نہ تھی تاہم نظر کی پیاس چشمہ حسن سے سیراب ہوتی رہی۔۔۔ اگر اختلاط بالنظر ممکن ہوتا تو منیر شامی پر غسل واجب ہو چکا ہوتا۔
’’اے ذی وقار شہزادی! یہ ہے راز کوہ ندا کا‘‘۔
حاتم خاموش!
شہزادی مانند تصویر، اہل محفل مانند دیوار۔
چنداں خاموشی کی رواتنی رہی۔
بارے شہزادی، حسن کے تخت طاؤس سے شاخ گل کی مانند جھوم کر اٹھی۔ نازک کلائیوں سے پردہ اٹھایا جو کہ آتش حسن سے خود ہی بھسم ہو تا جا رہا تھام۔ محفل میں چاند اتر آیا، آہستہ خرام، قدم قدم، حاتم کی جانب رواں، پھر وہ سروقد، گھٹنوں کے بل حاتم کے سامنے جھک گئی، وہ حاتم یا کسی اور کی جانب نہ دیکھ رہی تھی، نگاہیں حاتم کی گرد آلود نعلین پر مرکوز تھیں۔
’’آفرین! صد آفرین!!‘‘
حاتم صرف مسکرا دیا۔
’’اے قبیلہ طے کے جری فرزند! تو نے جو قول دیا، اسے پورا کر دکھایا‘‘۔
حاتم نے جواب دیا ’’قول مرداں جان مرداں‘‘۔
’’بجا فرمایا‘‘ شہزادی اب سروقد تھی۔ حاتم نے نظریں اٹھا کر حسن بےنقاب کو دیکھا مگر رخ روشن کی تاب نے لا سکا۔ گلشن حسن میں جوانی نے انگارے بھر دئیے تھے نظریں پکاریں۔۔۔ صاحب پرے! پرے!!
شہزادی نے غنچہ ساں دہن وا کیا ’’اے بہادر اور فیاض حاتم! تو نے میری شرط پوری کردی اب میں تیری شرط پوری کروں گی۔ خوشی سے! دل جمعی سے!!‘‘
شہزادی حاتم کو جن نظروں سے دیکھ رہی تھی شاید ہی کسی شہزادی نے ایسی نظروں سے کبھی کسی شہزادہ کو بھی دیکھا ہوگا، نظر مانند دست سبک۔ حاتم کے چہرہ کے نقوش ٹٹول رہی تھیں۔ حاتم، ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے سے، خون کو چہرہ کی جانب رواں محسوس کر سکتا تھا۔ فشار خون، دل کی دھڑکنوں کا آہنگ بے ترتیب کر رہا تھا۔
شہزای لب خاموشی سے گویا ہوئی۔
’’تو میرے تن کی سلطنت کا مختار ہے، میں تیرے تصرف میں ہوں، جو چاہے کر، تو میرا آقا ہے‘‘۔
دونوں بازو پھیلائے، سر جھکائے، خودسپردگی کی مکمل تصویر!
منیر شامی کہ عاشق تھا اس پر صاعقۂ جمال گرنی ہی تھی خود حاتم ٹھٹھک کر رہ گیا، لاریب! وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ پرجمال، پرکشش اور پرترغیب بن چکی تھی۔
شہزادی نے ایک مرتبہ پھر حاتم کے چہرہ کو نظر بھر کر دیکھا۔ سفر کی صعوبتوں نے چہرہ کی لکیروں میں مہمات کی داستان رقم کی تھی، اس کے قدبالا کے سامنے وہ خود کو کوتاہ محسوس کر رہی تھی، گویا وہ بچی ہو۔ وہ اس کا پر مشقت جسم تک رہی تھی جس میں سے مردانگی کی مہک مشک کے مانند خارج ہوکر اعصاب پر نشہ طاری کر رہی تھی۔ وہ اس کے فولادی بازوؤں کی ریشمی مچھلیوں کی حقیقت جاننا چاہتی تھی اور مضبوط ہاتھوں کی قوت آزمانا!
شہزادی کا تن نازک بولا ’’میں مفتوح!‘‘
منیر شامی کہ مہم جو نہ تھا، محض عاشق تھا۔۔۔ عالم ہراس میں! حاتم کی کشادہ پیشانی پر سوچ کی گہری لکیریں تھیں اس نے میزان نظر سے آمادگی کی تصویر بنی شہزادی کو تولا تو سیر کی سوا سیر پائی، شہزادی سیاہ آنکھیں پوری طرح کھولے اسی کو تک رہی تھی، اس کی آنکھیں بھید کھول رہی تھیں کہ چھپا رہی تھیں؟ کوہ ندا سے بھی زیادہ بھید بھری بجھارت! حاتم ان سوالات کا جواب دینے کی خود میں سکت نہ پا رہا تھا۔ ایسے میں جبکہ نگاہیں سوال جواب کر رہی تھیں، پل صدیوں میں اور صدیاں پلک جھپکتے لمحات میں تبدیل ہو رہی تھیں تو نیکو کاروں کا ازلی دشمن شیطان مردود، حاتم کے دل میں وسوسے پیدا کر رہا تھا۔
حاتم! یہ ارمغان حسن کے باعث دلکشی، شبستان شاہی ہے۔ تو اسے اس اس ناکارہ منیر شامی کے حوالے کر دےگا؟
حاتم ڈگمگایا، منیر شامی کا دل لرزا، شہزادی کا دل مزید دھڑکا، دیکھ آنکھیں کھول کر دیکھ! کیا تو نے اپنی تمام مہمات میں ایسا طلسمی حسن دیکھا؟ نہیں ناں! تو کیسے دیکھ سکتا تھا کہ کائنات میں حسن کا یہ کامل نمونہ واحد ہے۔۔۔دیکھ حاتم دیکھ! اس کا قدر عنا کمان جیسا جسم دیکھ اور یہ ہونٹ اور وہ سب کچھ بھی جو تو نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
شیطان مزے لے لے کر حاتم کی آنکھوں کو شہزادی کے ایک ایک عضو پر لے جا رہا تھا، گویا شیشے میں سے دکھا رہا ہو، شیطان کا لہجہ پر ترغیب تھا۔
’’سن حاتم! تو نے عمر عزیز دوسروں کے لیے بسر کر دی، تجھے کیا ملا؟ خاک دھول پسینہ؟ اور ذرا سی نیک نامی؟ بےمعنی شہرت؟ تو نے آنکھوں سے اس لیے کانٹے چنے کہ نامرد اور نکما منیر شامی ثمرحسن سے کیف آگیں ہو؟ تجھے کیا ملےگا؟ مرحبا اور شاباش! تو شاد آفریں اور شادباد جیسے مردہ لفظوں کی مالا بناکر گلے میں پہن لینا جبکہ شہزادی کے ملائم بازو منیر شامی کے گلے کا ہار ہوں گے‘‘۔
حاتم، شہزادی، منیر شامی سبھی دھڑکن کی زد پر!
حاتم خود کو کسی طلسمی دو راہے پر ڈانوا ڈول محسوس کر رہا تھا، شہزادی کو مستقبل تیز آندھیوں میں چراغ کی مانند نظر آ رہا تھا جبکہ منیر شامی غیر مرئی دلدل میں نیچے نیچے اور نیچے۔
شیطان اپنے دلائل کا اثر دیکھ رہا تھا۔ اس نے آخری وار کیا، ’’اور آخری بات سن! اے حاتم! منیر شامی کی نسل چلے گی،اب اس کی آل وارث تخت ہوگی۔ منیر شامی جیسے بزدل کو دیکھ اور خود کو بھی۔۔۔ تیری قوت تسخیر اور شہزادی کے حسن جہاں سوز سے بچے جنم لیں گے وہ جریدۂ عالم پر اپنا، تیرا اور قبیلہ طے کا نام ثبت کر دیں گے اور منیر شامی! سن! اس کی رانوں میں تجھ ایسی قوت کہاں؟‘‘
حاتم جیسے چکرا کرگرنے کو ہو۔ شہزادی نے اس کا ہاتھ تھام لیا، دوسرا ہاتھ منیر شامی نے دونوں کے گرم اور سرد لمس نے، حاتم کے اعصاب کو جھنجھوڑ ڈالا، اس نے جھر جھری لی فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی تھی، فیصلہ اٹل تھا، کارکنان قضاو قدر بہت پہلے ہی حاتم کے لیے مہم جوئی اور منیر شامی کے لیے شہزادی لکھ چکے تھے۔ صاحب قول حاتم فیصلہ بدلنے کا مجاز نہ تھا، فیصلہ درست ثابت کرنے کے لیے اسے باعمل ہونے کی اجازت تھی مگر عمل کا حاصل تبدیل نہ ہو سکتا تھا۔ فیصلہ انتخاب سے اور انتخاب بھی مقدر۔ لہٰذا خوشی خوشی بلا کسی جبروکراہ کے اس نے دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں دے دئیے۔ منیر شامی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ویسے آنسو شہزادی کی آنکھوں میں بھی تھے۔
مرحبا! شاد باد! شاباش! کے نعروں کی گونج میں شیطان ملعون بڑبڑاتا جا رہا تھا۔
’’احمق! احمق حاتم! بالکل پاگل اور بےوقوف۔۔۔ عاقبت نا اندیش حاتم!‘‘
افق کے کنارے پر پھٹے بادبان والی کشتی جیسا چاند۔ ہوا کا دست خنک حاتم کی پیشانی سہلا رہا تھا گویا نرم انگلیاں نرم لمس دے رہی ہوں منقش ستون کے ساتھ ٹیک لگائے حاتم کی آنکھوں میں نیند کسی طلسمی تحیر کی مانند تھی۔ نقرئی کٹورہ میں معطر آب خنک پیتا رہا مگر سکون نا آشنا رہا۔ یہ گرمی کی تشنگی ہے یا تشنگی کی گرمی؟ اپناسینہ آتش فشاں کا سینہ محسوس ہو رہا تھا مگر اس فرق کے ساتھ کہ آتش فشاں کی آگ اور دھواں نظر بھی آتا ہے۔
حاتم نے بےبسی سے سوچا یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ یہ سوچ کر لرز گیا کہ کہیں انجانے میں وہ کسی نادیدہ طلسم کا اسیر تو نہیں ہو گیا۔ گرم خون اور تنے عضلات والا جسم جیسے بتدریج پتھر میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا۔ تو کیا حرکت و عمل کی زندہ تصویر اور مہم جو محض پتھر کا مجسمہ بن کر رہ جائےگا؟
اس نے خود کو جھنجھوڑ کر وسوسوں کے بھنور میں مزید ڈوبنے سے بچانے کی سعی کی۔
اگرچہ کامیاب مہم کی وجہ سے اس کا قلب طمانیت سے یوں معمور تھا جیسے پیالہ شراب سے۔۔۔ مگر سوال کا درست جواب حاصل کر لینے کے بعد، انعام میں جو اعصابی سرشاری ملتی تھی اس مرتبہ خود کو اس سے محروم پا رہا تھا۔
گرم سینہ سے سرد آہ نکلی۔
کوہ ندا کی مہم کا احوال سننے کے بعد، جب شہزادی بازو پھیلائے، خود سپردگی کے اسلوب میں، بے نقاب ہوئی تو حاتم نے ایک نظر حسن پر ڈالی جو خود ہی اپنا محافظ تھا۔ حاتم کا دل دھڑکا کہ دھڑکن بھولا؟ احساس نہ تھا۔ نظریں گریں، اٹھیں، ٹھٹھکیں، بھٹکیں؟ خبر نہ تھی۔
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا؟
حاتم کی نظروں کے سامنے، محل کا وہ حصہ تھا جہاں شہزادی اور منیر شامی شب باش تھے۔ پردے گرائے جا چکے تھے، مومی شمعیں گل کی جا چکی تھیں۔ شبستان ناز بھید بھری تاریکی میں اور حاتم کی نظریں نقب زن۔
منقش ستون سے سرٹکائے وہ خوابیدہ تھا یا بیدار؟ علم نہ تھا۔ بس تھا۔ شاید وہ بھی نہ تھا، اس کا سایہ منقش ستون کی پرچھائیں بن چکا تھا۔ کون جانے؟
حاتم بستر پر ڈھے گیا۔ نیند گویا کسی طلسمی غار میں بند تھی جس کے باہر، دیوپلید کی صورت میں بخت نارسا پہرہ دار تھا۔ مگر وہ اس پر قوت دیو کو تسخیر کرنے والی قوت گنوا بیٹھا تھا۔
فجر کی اذان کے ساتھ اٹھ بیٹھا، سرد پانی سے وضو کیا تو شب بیداری کی کسل مندی میں کمی محسوس کی، خدا کے حضور سربسجود ہو کر دعا مانگی۔ سکون کی! طمانیت کی! طالب عفو ہوا ناکردہ گناہ کی خواہش سے، بے لگام سوچ سے۔ آوارہ خیالات سے، فاسد خواہشات سے۔ شہزادی اب منیرشامی کی ہو چکی ہے۔
لاحول پڑھ کر شیطان ملعون کو دور کیا مگر وہ ملعون تو گویا خون کی گردش میں شامل ہو گیا تھا، رگوں میں دوڑتا نعرے لگا رہا تھا۔
’’احمق حاتم! احمق حاتم!‘‘
حاتم سجدہ ہائے سہو کر رہا تھا۔ شیطان کے طعنے سنے بغیر!
پرتعیش زینت حاتم کو خوش نہ آ رہی تھی!
خوش گلو مغنیہ کی موسیقی بہرے کانوں کی تان ثابت ہوئی، داروغہ، مطبخ انواع و اقسام کے لذیذ کھانے تیار کرتا، مودب کنیزیں، وسیع دستر خوان پر، چاندی کے باسینوں میں خوش رنگ اور خوش ذائقہ پکوان چن دیتیں مگر حاتم خوش دلی سے نہ کھا پاتا، چند نوالے بے دلی سے لیتا اور ذائقہ کا احساس کئے بغیر چباتا جاتا۔ دست سبک والی باندیاں، آب خنک و معطر سے غسل کراتیں، مشاق انگلیوں سے گدگدی کرتیں مگر ٹھنڈے پنڈے میں حرارت نہ پیدا کر پاتیں، جس پر وہ خود بھی حیرت زدہ تھیں۔ جب دیکھا آب خنک محض معطر پانی ہی ثابت ہو رہا ہے تو پانی میں اوویاء ملاکر غسل شروع کر دیا مگر حاتم کا بت پھر بھی ٹھنڈا ہی رہا۔
رات کو انگاروں بھرے بستر پر، کباب سیخ کی مانند کروٹیں بدلتا، پہلو پہ پہلو بدلتا!
منیر شامی شبستان ناز سے برآمد نہ ہوا کہ آکر حاتم کا حال دریافت کرتا۔
وہ وحشت زدہ سے محل سے نکل جاتا۔ جنگل کی راہ لیتا جہاں خرام ہوا سے شجر کلام کرتے۔ حاتم ویرانوں میں سکون کا گمشدہ دفینہ تلاش کرتا، مگر افسوس حاصل کا!
مہمات سر کرنے والے حاتم کو اپنا جسم کسی طلسمی جال میں پھنسی مردہ مچھلی جیسا محسوس ہوتا، سخت کوش حاتم آرام کی زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ جب کرنے کو کچھ نہ رہا تو زندگی سے اچنبھا ختم ہو گیا۔ نادیدہ خطرات میں تحیر تھا جو محل کی زندگی میں عنقا ہو گیا۔ نہ جن بھوت، نہ پریاں اور پچھل پائیاں، نہ طلسم کے کارخانے اور جادو کے شلے، نہ مافوق الفطرت مخلوقات نہ خارق عادات واقعات۔ سورج نے وقت پر طلوع ہونا ہے، اتنی کنٹری پر کھانا اتنی گھڑیوں بعد رات کی آمد اور پھر مانوس کمرہ میں مانوس بستر۔ خواب راحت کی لذت سے عاری! شاید یہ سب غیر مرئی قفس میں قید کیا جا چکا ہے۔
یا مظہرالعجائب!
وہ بےکسی سے سوچتا۔ کیا روئے عالم سے حسن جہاں سوز کی حامل شہزادیاں رخصت ہو گئیں کہ منیر شامیوں نے شیوۂ عشق ترک کیا؟ حاتم تو حاضر تھا مگر متجسس ذہن والی کوئی شہزادی نہ تھی جو سوالات کے جوابات کی متلاشی ہوتی۔ شرط وصل نہ سہی جذبہ تجسس کی تسکین کی خاطر، ذوق تحقیق کی تشفی کے لیے!
حاتم ہراساں ہوکر سوچتا جب زندگی میں سے سوالات ختم ہو جائیں تو کرنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ یہ سوال ہی تو ہے جو ذہن کو بیدار، روح کو مخبر اور بشر کو سرگرم عمل رکھتا ہے، سوال کے بغیر زندگی خالی برتن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
حاتم کی زندگی سوالات کے جوابات کی تلاش میں گزری تھی لہٰذا سوالات کے بغیر زندگی بے مقصد محسوس ہو رہی تھی اور پھر سوالوں کا ایک سوال۔ نہ جانے اب شہزادیوں کو سوال کی حاجت کیوں نہیں محسوس ہوتی؟ کیا واقعی وہ اتنی دانش مند ہو گئی ہیں کہ ہر سوال کا جواب جان چکی ہیں؟ اور سرائے عشق میں خاک اڑانے والے منیر شامی کہاں گم ہو گئے؟
اب حاتم کیا کرے؟ سوالات سے زندگی مشروط تھی، اب بنا سوال وہ کیسے زیست کرے؟
بیضوی قطع کا آئینہ جلی اسے گریزاں عمر کا احساس کراتا اور پھر سوال کرتا۔ ایسا سوال جس کا جواب حاتم کے پاس نہ تھا کہ یہ سوال عمر رائیگاں کے بارے میں نہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں تھا۔
چندے یہی لیل و نہار رہے تو میں صحت مند سے مریض حاتم میں تبدیل ہو جاؤں گا۔ اسے وہ شہزادہ یاد آ رہا تھا جو ممنوعہ کھونٹ میں آباد شہر سنگ میں، پیچھے مڑ کر دیکھنے کی پاداش میں پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہو گیا تھا اور حاتم بھی خود کو پتھریلا محسوس کر رہا تھا۔ گو جسم پتھرکا نہ تھا مگر اعصاب و احساسات کا بوجھل پن سنگی ہی تھا۔
وقت غسل کیونکہ کنیزوں کے گدگداتے ہاتھ جل میں جوالا جگانے میں ناکام رہے تھے اس لیے تنگ آکر انہوں نے اسے پتھریلی نظروں سے غسل کرانا شروع کردیا مگر خود میں گم حاتم کو تو اپنی سدھ بدھ نہ تھی کنیزوں کی نظروں کی سنگساری نے اس پر کیا اثر کرنا تھا۔
حاتم عالم بدمزگی میں، خود کو بہلانے کے لیے، دارالحکومت کی سیر کو نکل گیا، یونہی دل گرفتہ سا کوچہ و بازار میں بے مقصد گھومتا نہ دیکھنے والی آنکھوں سے افراد اشیاء کو تکا کیا اور چلتا گیا تکان کے ہتھوڑے سے جسم کے پتھر توڑنے کے لیے، دارالحکومت میں سب اسے پہچانتے تھے لہٰذا احتراماً راستہ چھوڑ کر تعظیم دیتے مگر وہ یوں ہی بےخیالی میں سرہلا دیتا، نرم کولہوں اور سخت چھاتیوں والی زن ناہنجار نے معنی اسلوب میں کھانس کر اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر حاتم گویا نابینا ہو چکا تھا۔
بے مقصد چلتے چلتے اس نے خود کو کارواں سرائے کے سامنے پایا جہاں اطراف و جوانب کے تجار اور سیاح دور و نزدیک کے قیام پذیر تھے، سب کے جدا جدا لباس اور جدی جدی بولیاں۔ اونٹ، گھوڑے، خچر، گدھے، غلام، مردوں کا انبوہ کثیر، حاتم یوں ہی دیکھتا رہا، کسی خاص شے یا چہرہ پر نظریں ڈالے بغیر!
متحر حاتم ٹھٹھکا۔۔۔یا مظہر العجائب! کیا جانور؟ انسان نہیں مگر انسان سے مشابہہ، پچکے گالوں اور اندردھنسی زرد آنکھوں کے باعث وہ خاصہ معمر دکھائی دے رہا تھا۔ جس مرد کے کندھے پر دم لٹکائے بیٹھا تھا وہ بھی نرالی وضع کا سیاہ تن اوپر تک برہنہ، منڈے سر پر بالوں کی چھوٹی سی چوٹی لٹک رہی تھی، بالوں سے خالی سیاہ سینہ پر سفید دھاگہ لپٹا، منڈے سر کے نیچے پچکے گالوں پر گویا چمڑا مڑھ دیا گیا ہو، باریک لبوں پر، نیچے کو لٹکی مونچھیں، سوکھے بازوؤں پر رگوں کا جال اور مرجھائے ہاتھوں کے آرپار دیکھا جا سکے۔ پاؤں میں لکڑی کی عجب وضع کی جوتی۔ سیاہ ماتھے پر تین سفید لکیریں! حاتم اس کی جانب لپکا اور اپنائیت سے ہاتھ تھام کر اس کا احوال دریافت کیا۔ حاتم نے جیسے ہی اسے چھوا اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں اور جب اس نے حاتم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو انکی آگ کی تاب نہ لا سکا۔ ایک دم لرز کر ہاتھ چھوڑ دیا۔
حسن اتفاق سے وہ مرد حاتم کی زبان سمجھ سکتا تھا لہٰذا دونوں میں گفتگو شروع ہو گئی وہ بتا رہا تھا۔
’’یہاں سے کئی سو سورج اور کئی سو چاند کی مسافت پر میرا دیس ہے۔ اہل دنیا اسے ہندوستان کے نام سے پکارتے ہیں‘‘۔
حاتم نے اس ملک کانام نہ سنا تھا مارے اشتیاق کے بولا ’’کچھ اور بتاؤ اس کے بارے میں‘‘۔
وہ بولا ’’میرا دیس اتنا بڑا ہے کہ چلتے چلے جاؤ، چلتے جاؤ، میدانوں اور صحراؤں میں سے چلتے جاؤ، دریا عبور کرتے جاؤ پربت چڑھے جاؤ مگر ملک ختم نہ ہوگا، ہمارا پوتر دریا گنگا ہے جو ہمارے مہان دیوتا وشنو کی جٹاؤں سے نکلا ہے اس کے کنارے بڑے بڑے تیرتھ ہیں۔ گنگا جب پہاڑوں سے میدانوں میں اترتی ہے تو دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور ایک گنگا اور ایک منداکنی۔ میں منداکنی کے کنارے، ایک مٹھ میں، اپنے گرو کے ساتھ رہتا ہوں۔ گیان دھیان اور پوجا پاٹھ میں مگن رہتا ہوں یہ میرے کندھے پر جو جناور ہے اور جو تجھ اجنبی کو دیکھ کرخاموش ہو گیا، میرا سنگی ہے، اگر چہ لوگ اسے بندر کہتے ہیں مگر ہمارے لیے یہ دیوتا مہان ہے۔ جے بجرنگ بلی!‘‘
تب حاتم نے جانا یہ مرد بت پرست ہے۔ حاتم نے سوالات کی مہمات کے سلسلہ میں دنیا دیکھی تھی ہر وضع کے لوگوں سے ملا تھا اور یہ جان لیا تھا کہ تمام دنیا ویسی نہیں جیسی کے ہم عادی ہوتے ہیں۔ دنیا کا تنوع غیرمانوس اشیاء تحیر خیز واقعات اور اجنبی افراد سے معمور ہے۔ بلکہ اسی میں اس کا اپنا پن مشہور ہے لہٰذا افراد، وقوعات، اشیاء، عجائبات کو اپنی فہم کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے، انہیں ان کی اصل سمت تسلیم کر کے قبول کر کے، سمجھنا چاہے، سو بت پرستی کی وجہ سے نفور نہ ہوا۔ احترام سے ہاتھ تھام کر گویا ہوا۔
’’میرے مہمان بن کر چنداں غریب خانہ پر قیام فرماؤ سفر کی کلفت دور کرو، مجھے خدمت کاموقع دو اور جب تک جی چاہے دل جمعی سے قیام کرو‘‘۔
اس نے کچھ تامل کے بعد حاتم کی درخواست قبول کر لی، حاتم خوش خوش اسے لے آیا۔ ہر دم اس کی خدمت میں مستعد رہتا اور اس سے اس کے عجیب و غریب ملک کے بارے میں سوالات کرتا رہتا۔ کمال ہے! ایک دن حاتم نے عجب احساس سے سوچا، میں کہ سوالات کے جوابات تلاش کرتا تھا، آج خود سوالات کر رہا ہوں۔ توکیا میری زندگی سوالات سے مشروط ہو چکی ہے؟ میں سوالوں کے جواب تلاش کرتا ہوں یا پھر جوابات کے لیے سوالات!
حاتم خوش تھا کہ اب وہ پژمردگی، بیزاری، اضمحلال اعصابی تھکن، دروں بین، مایوسی اور دل شکستگی کے حجرۂ ہفت بعد سے بچ نکلا تھا۔
ایک رات دونوں، زندگی، اس کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، حاتم نے سوال کیا۔
’’تمہارے مرشد نے زندگی کے بارے میں کیا بتایا ہے‘‘۔
وہ بولا ’’سن حاتم! یہ گپت ودیا ہے، بڑے بڑے بدھی مانوں اور وددانوں ن اسے سمجھنے کے لیے عمریں بتا دیں مگر اس ساگر کا اور چھور نہ پا سکے لیکن اے حاتم! تو سوال کرتا ہے اور اسی لیے تو اچھا لگتا ہے کہ تو بھی ودیارتھی ہے تو شکشا چاہتا ہے، تو سمجھنا اور جاننا چاہتا ہے اور یہی ایک سچے شکشک کا کرتبے ہونا چاہیے‘‘۔
حاتم نے انکساری سے سرجھکاکر کہا ’’زندگی مختصر اور سوالات بہت زیادہ ہیں‘‘۔
ہندوستانی نے انگلی اٹھا کر تصدیق کی پھر بولا۔
’’میں کل ودیا تو نہیں دے سکتا البتہ تجھے اس کے کچھ رنگ بتاتا ہوں۔ ہمارے گن دانوں نے جیون کی بھاؤ ناؤں کے لیے رس ودیا دی ہے‘‘۔
’’اور رس کیا ہے؟‘‘ حاتم نے سوال کیا۔
’’پرتش اور استری کی بھاؤ ناؤں کو نورسوں میں بانٹ دیا ہے‘‘۔
’’اور وہ نو۔۔۔۔؟‘‘
’’وہ ہیں‘‘ ہندوستانی اسے سمجھا رہا تھا، عجب الفاظ، عجب مفہوم ’’سن اے حاتم! وہ ہیں شرنگارا (محبت، جنس) شانتی (سکون) رودرا (غصہ) ویرا (شجاعت) اوبھاشا (استعجاب) ہنسیا (مزاح) کرونا (رحمدلی) بھیانکا (خوف) اور ردھ بھوتا (تحیر خیزی)۔‘‘
حاتم کی پیشانی پر سوچ کی گہری لکیریں۔
وہ بتا رہا تھا ’’آکاش اور پرکاش، پرتھوی اور پراکرتی بیچ جو انیک رنگ دکھائی دیتے ہیں، سب اسی کارن ہیں، ان سے باہر کچھ نہیں‘‘۔
’’اور اگر ہو تو۔۔۔؟‘‘
’’مایا ہے‘‘۔
حاتم کچھ دیر تک سر جھکائے اس گن دانوں کی باتوں پر غور کرتا رہا، پھر سوال کیا ’’یہ رس اور ان کے نوروپ مگر ان کا کوئی مرکز یا بنیاد بھی تو ہوگی وہ کیا ہے؟‘‘
ہندوستانی نے توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’جے ہو! تو واقعی بدھی مان ہے، جس سوال تک پہنچنے میں مجھے یگ بیت گئے تو چند چھنوں میں وہاں پہنچ گیا‘‘۔
تعریف سے خوش ہونے کے بجائے حاتم سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
ہندوستانی نے سر جھکا لیا، اس کے ٹکلے سر پر پسینہ کی بوندیں چمک رہی تھیں، ایک دو مرتبہ بےچینی سے سر کی چوٹی کو چھوا، اس کی آنکھوں میں تشویش تھی یا جھجک؟ وہ خوفزدہ تھا کہ ہیجان زدہ، حاتم اسے عجب نظروں سے تک رہا تھا۔
ہندوستانی جب بولا تو بہت ہی دھیمی آواز میں گویا ہوا، کہیں دور سے، سرگوشی آ رہی ہو۔
’’میں دبدھے میں ہوں۔ وہ رکا گویا بھاگتا سانس لینے کو رکے ’’بہتر ہوتا میں نے کچھ نہ کہا ہوتا نہ تم نے کچھ سنا ہوتا، اچھا ہوتا تیرے گھر نہ آتا، بہت ہی اچھا ہوتا، میں اس کھونٹ آیا ہی نہ ہوتا‘‘ وہ پھر رکا، گویا سینہ میں سانس بھر کر غوطہ لگانے کو ہو ‘‘۔ ہونی ہوکر رہتی۔ کیسی چنتا اور کیسی دبدھا‘‘ حاتم کو اس کی جلتی آنکھیں اعصاب سلگاتی محسوس ہو رہی تھیں وہ کہہ رہا تھا۔
’’نہیں حاتم! میرے گرو نے مجھے بتایا اور میرے گرو کو اس کے گرو نے بتایا۔۔۔ اور میں تجھے بتا رہا ہوں اصل طاقت جیون جل میں ہے‘‘۔
حاتم نے یہ نیا لفظ سنا بلکہ اس غیر ملکی سے گفتگو کے دوران اس نے بہت سے نئے الفاظ سنے تھے، کچھ کے معنی بوجھے تو کچھ کے پوچھے ’’یہ ۔۔۔ یہ جیون جل کیا ہے‘‘۔
تمہاری بھاشا میں ایک شبد ہے آب حیات، جیون دینے والا پانی، مرتیو سے مکت کرنے والا‘‘۔
’’ہے تو، مگر اس کا جیون جل سے کیا تعلق؟‘‘
’’غور نہیں کیا حاتم‘‘ وہ پرجوش لہجہ میں بولا ’’غور کرو، ہماری بھاشا میں یہی جیون جل ہے‘‘۔
’’اوہ! حاتم بولا، یہ تو نئی مہم شروع ہو گئی‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
’’کیوں نہیں‘‘۔
’’اس لیے کہ ہر جیو کے پاس جیون جل ہے‘‘۔
’’مگر۔۔۔۔‘‘
’’وہ حاتم کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولا ’’جب پرش اور استری بھوگ کرتے ہیں تو دونوں بیچ جو فوارہ اچھلتا ہے وہی جیون جل ہے‘‘۔
وہ حاتم کی سنے بغیر اپنی دھن میں مست بولے جا رہا تھا ’’یہی جیون جل منش کو پھر جنم دیتا ہے مگر اولاد کی صورت میں۔ مرنے کے بعد تم زندہ رہوگے مگر اپنی سنتان کے روپ میں۔ یہ ہے جیون جل، جیون شکتی کا اٹل کارن۔۔۔ اس لیے ہم شیولنگ پوجتے ہیں‘‘۔
پھر نیا لفظ مگر حاتم نے اسے نہ ٹوکا جو اپنی رو میں بہے جا رہا تھا۔
’’جیون کی طرح یہ گیان دھیان کا بھی کا رن ہے، اس سے کون کس طرح کا کام لیتا ہے اسی سے جیون کتھا میں رنگ بھرا جاتا ہے یہی تانترک ودیا ہے‘‘۔ دونوں خاموش تھے، بارنے حاتم سے سوال کیا۔
’’اے مرد دانا! یہ بتا، تیری نسل میرا مطلب تیری سنتان تو بہت ہو گئی‘‘۔
وہ پھیکی ہنسی ہنسا ’’یہ آخری بھید ہے حاتم! گیان دھیان کی ڈگر پر چلنے والوں کو یہ سب تیاگ کرنا پڑتا ہے‘‘۔
’’یعنی۔۔۔؟‘‘
’’یہ انمول شکتی یوں ہی استری پر ضائع نہیں کی جا سکتی، اس کی رکھشا کرنی ہوتی ہے‘‘۔
’’تو؟‘‘
’’ہاں! اے حاتم ہم سب سے پہلے اسی کی بلی دیتے ہیں‘‘۔
باہر رات دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ اندرخاموشی کی چادر میں لپٹے وہ دونوں خاموش، آلتی پالتی مارے، اپنے آپ میں گم۔
تب حاتم کے سینہ سے سرد آہ نکلی۔ تو کیا میری زیست کارزیاں میں رائیگاں گئی، اس نے خود سے آخری سوال کیا۔
جواب میں ہوا خاموش!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.