رات کو دوبجے میں نے گھر میں قدم رکھا۔ گھر میں اندھیرا تھا۔ باہر کی روشنی کے ریزے میری آنکھوں میں تھے جو گھر کے اندھیرے میں چبھنے لگے۔ گھر کے ایک کونے میں رکھی ہوئی لالٹین کی بتی کو میں نے اکسایا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے ہوا اندر داخل ہوئی تو شعلہ کانپ گیااور پھر تھرکنے لگا۔ اس کے تھرکنے کی وجہ سے تمام چیزوں کے سائے ناچنے لگے۔
مجھے ایسالگا کہ طوفان میں پھنسے ہوئے جہاز کی طرح گھرڈول رہا ہے۔ اس سرے سے اس سرے تک بندھی الگنی کو، جو عین میرے سر پر تھی پکڑکر، کچھ دیر میں کھڑا رہا۔ شہر کے گلی کوچوں میں بھٹک بھٹک کر سانس کے ساتھ اندر کھینچا ہوا اندھیرا آہستہ آہستہ بوجھل ہو کر میرے جسم کی گہرائیوں میں کہیں بیٹھنے لگا۔ اس کے بوجھ سے میری ٹانگیں ذرا لڑکھڑاگئیں۔ ایک آدھ سگریٹ پھونکنے کو طبیعت چاہی لیکن سگریٹ ایک بھی باقی نہ بچی تھی۔ بستر کے قریب بھر کر رکھے ہوئے لوٹے میں سے پانی پیا۔ چارپائی کی پٹی پر بیٹھ کر میں نے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے کے کمرے کے دروازے کے قریب بڑے میاں سراور منہ پر دھوتی اوڑھے سورہے تھے۔ سیدھے سپاٹ اور بے خبر۔۔۔ جیسے اب انہیں جنازے میں ہی لٹانا باقی رہ گیا ہے۔
اپنی زندگی کے ٹیڑھے میڑھے پینسٹھ برسوں کے خشک ایندھن کو بڑی مشکلوں سے جما کر اس کی چتا پر وہ سورہے تھے۔ باورچی خانے کی نم بدبو میں ماں او ربھابھی سورہی تھیں۔ آج بڑے بھائی کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔ چنانچہ بیچ کے کمرے میں آج کی رات ہمیں گزارنی تھی۔ نیند کے آسن نے بھابھی کا لباس بے ترتیب کردیا تھا۔ ماں کا پوپلا منہ خود انہی کی نسوار کی ڈبیہ کی طرح ادھ کھلا رہ گیاتھا اور میرے قریب، بستر میں میری بیوی سورہی تھی۔
’’بیوی‘‘ لفظ کا بھی بوجھ برداشت نہ کرسکے۔۔۔ اتنی چھوٹی سی اور دھان پان۔ اس کے بستر پر ’’سوموار کے برت کی کہانی‘‘ نامی کتاب پڑی ہوئی تھی۔ اس کا منہ اور آنکھیں نیم باز تھیں اور وہ چت سورہی تھی۔ یہ مرجائے گی، تب اس کا چہرہ ایسا ہی ہوگا، مجھے اس کا منہ اور آنکھیں بند کرنی پڑیں گی۔ یہ خیال جانے کہاں سے اور کیوں ٹپک پڑا۔
باہر سے میں اپنے ساتھ جو سردی لے کر آیا تھا، وہ کمرے کی گرم فضا میں پگھل گئی اور میں لالٹین کی لو کم کرکے بستر میں لیٹ گیا۔ قریب سوئی ہوئی عورت کے معصوم چہرے پر حماقت دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ بڑا خطرہ مول لیا تھا اس عورت نے، ایک ایک پل میں ہزاروں طریقوں سے ہزاروں ذروں میں ٹوٹ کر بھٹکنے والے کو، یعنی مجھے، یہ عورت اپنے ننھے سے رحم میں جمع کرکے مجھے دوبارہ جنم دینا چاہتی تھی۔ کتنی بے خبر سورہی تھی۔ سوموار کے برت کا سہارا لے کر بے فکر اور مطمئن تھی۔
گوہ کی زبان کی طرح لالٹین کا ننھا سا شعلہ لپلپارہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہمت کر کے چوہوں نے اپنا کام شروع کیا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ دن بھر میں دیکھے ہوئے مناظر کے ٹکڑے بے محور کے سیاروں کی طرح آپس میں ٹکرانے لگے۔ دن بھر میں سنی ہوئی ساری آوازیں بھی کچھ کچھ سنائی دینے لگیں۔ یہ سب کچھ مجھ سے چمٹاہی رہتا ہے۔ نیند میں بھی یہ سب کچھ میرے گرد منڈلاتا رہتا ہے لیکن گرد وپیش کی باتیں میں سنتا ہوں یا اس میں حصہ لیتا ہوں، تب بھی اس میں میرا دھیان نہیں ہوتا۔ میرا دل ان سے دور، بہت دور ہوتاہے۔ اسی وجہ سے میں دانستہ طور پر اور قصداً اپنے آپ پر جوش طاری کر کے دلیلوں کی جھڑی لگادیتا ہوں۔ ذرا ذرا سی بات میں جھگڑنے کی مجھے عادت پڑ گئی ہے۔ ایک کٹورا پانی پیتا ہوں تب بھی۔
اور اسی لیے تو آج میں نے منو بھائی کی چندر کانتا کو ایک طمانچہ جڑدیا۔ میں گوری کے گیت لکھتا ہوں، اسی لیے وہ مجھ پرفدا ہے۔ پھاگن اور ساون، رادھا اور شام۔ چند الفاظ کو الٹ پھیر کر کے ادھر ادھر جمادیتا ہوں اور ان کی آڑ میں اپنی تھوڑی سی بھوک کو بھی چھپا دیتا ہوں۔ چندر کانتا جب گیت گاتی ہے تو میں سننا پسند کرتا ہوں او رپھراپنی عادت کے مطابق میں جذباتی بن جاتا ہوں، احساسات کو راہ دیتا ہوں اور چندر کانتا کی گردن پکڑ کر کہتا ہوں،
’’چندرا! تو اتنا عمدہ گاتی رہے تو تیرے سامنے گیتوں کا ڈھیر لگادوں، پاری جات۱؎ پھولوں کا ڈھیر لگادوں میں۔‘‘ یہ برجستہ روح تک پر وجد طاری کردینے والی تشبیہ سن کر چندر کانتا بدھو کی طرح منہ کھولے میری طرف دیکھتی رہی۔ نیچے اس کی سکھیاں چک پھیریاں لے رہی ہیں، ناچ رہی ہیں، کھیل رہی ہیں، کود رہی ہیں اور چندر کانتا بیوقوف کی طرح یہاں بیٹھی ہوئی ہے۔ دفعتاً وہ اپنا سر میری آغوش میں رکھ کر نگاہیں مجھ پر مرکوز کردیتی ہے۔
جانے کیوں مجھے غصہ آجاتا ہے میں اکتا جاتا ہوں، اس کے پیارے کے اس طریقے سے، اس اظہار سے میں برہم ہوجاتا ہوں۔ بجلی کا جھٹکا لگا ہو، یوں میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ چندر کانتا دھپ سے فرش پر گر پڑتی ہے۔ وہ میرے پیروں سے لپٹ جاتی ہے۔ میں جھٹکتا ہوں، بازو پکڑ کر اسے اٹھانے کے لیے لیکن اس کی آنکھوں میں نظر آنے والا اشتیاق اور اس کے ہاتھوں کی گرفت سے پھوٹتی ہوئی بے قراری مجھے غصہ دلادیتی ہے اورمیں اسے ایک تھپڑ رسید کرکے چلا آتا ہوں۔
میری آنکھوں کے بند پپوٹوں پر لالٹین کا ننھا سا شعلہ رقص کرتا ہے۔ چندر کانتا کے ان دو مشتاق اوربے قرار ہاتھوں کی طرح مجھ سے لپٹا رہتا ہے۔ میں برداشت نہیں کرسکتا۔ میں اسے بجھا دیتا ہوں۔ بس اب ایک سگریٹ ہونٹوں میں دبا ہوا ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ اس کی سلگتی ہوئی دم اندھیرے میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن بستر میں لیٹا ہوں تو بیوی کا ہاتھ میرے نیچے دب جاتا ہے اور مجھے یاد آجاتی ہے کیتکی مہتا۔ ’’ہیومور ریستوران‘‘ میں چائے کی پیالی میں وہ چائے انڈیل رہی تھی تو اس کا نیم برہنہ بازو کس طرح کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کے رو ئیں جیسے سنہری غبار اور کہنی سے اوپر ابھری ہوئی مچھلیاں، ذرا سی مشقت سے اس کے چہرے پر کیسی سرخی دوڑ جاتی تھی؟ میں چائے کی دھار دیکھ رہاتھا۔ فلور وسینٹ لائٹ کی روشنی میں نہاتے ہوئے اس ہاتھ کو دیکھ رہاتھا۔ چائے کی بھاپ میں سے نکلتی بو میں ملی ہوئی اس کی ریشمی ساڑی کی خوشبو سے لطف اندوز ہورہا تھا اور کچھ بولتا جارہاتھا۔ جانے کیا کہہ رہا تھا میں؟ اس کا ہاتھ پھر ساڑھی میں چھپ گیااور میرا دھیان ٹوٹ گیا۔
کسی بھی عورت کو میں پورے طور سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس عورت کی ساری نسائیت اور تمام خصوصیات اس کے جسم کے کسی حصے، ایک عضو میں سمٹ آتی ہے۔ یہ ہے میراخیال، اور مجھے اس کی ایسی پرکھ ہے کہ عورت کو دیکھتے ہی مجھے اس حصہ جسم یاعضو کا پتہ چل جاتا ہے۔ کوئی ٹانگ جھلاتی ہے، کوئی بے سبب ہی گردن گھماکر بار بارپیچھے دیکھتی ہے۔ کوئی بار بار اپنی انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتی ہے، کسی کے ہونٹ پھڑکتے ہیں۔ بس اس کے علاوہ اس عورت میں کچھ نہیں دیکھتا۔
لیکن میری بیوی نیند میں اپنے شوہر کے لمس کو برداشت نہیں کرسکتی، وہ ننھے بے ماں کے بچے کی طرح کچھ مبہم بڑبڑاتی ہے اور کروٹ لے کر پھر گہری نیند میں ڈوب جاتی ہے۔ شوہر کو بس میں کرنے کے جتنے گر اس کی سہیلیوں نے اسے بتائے تھے، وہ سب کے سب اس کی ا س نیند کی وجہ سے بیکار ہوگئے اور وہ جوانی اور معصومیت کے عالم میں خوابوں کے ہنڈولوں میں جھولتی ہے اور بس۔ اندھیرے میں اس کے جسم کے خطوط دھندلے دھندلے دکھائی دیتے ہیں اور یوں بھی اندھیرے میں ہی میرا تصور زیادہ بیدار ہوتا ہے۔
ریٹا کابڑی ادا سے بنایا ہوا بالوں کا ’’پونی ٹیل‘‘ جوڑا، ریکھا کی تقریر، بات کرتے کرتے خاموش ہوجانا اور آنکھیں پٹپٹا کر ایک بار پھر بات کا سلسلہ جوڑنے کی ترکیب۔ میں اس کی باتیں صرف اس کی آواز کی خاطر سنتا ہوں، اس کی گفتگو میں، میں معنی تلاش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی مطلب لیتا ہوں لیکن اس کی آواز میٹھی تونہیں کہی جاسکتی، تاہم مجھے پسند ہے۔ یہ آواز ایک فضا پیدا کردیتی ہے۔ سماں باندھ دیتی ہے۔ یہ آواز سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے ہمارے چاروں طرف دھندلا سا، مچھردانی جیسا پردہ ڈال دیا اور پھر اس آواز کا ذائقہ بھی ہے۔
وہ ایک پھل ہوتا ہے۔ پیچ، اس کے ذائقے جیسا کچھ میٹھا اور کچھ ترش۔ کھٹی میٹھی چیز ویسے بھی ذائقے دار ہوتی ہے۔ ہاں، یہ ریکھا کی آواز، بات بات میں تنی ہوئی بھویں، شیلوکا، ہوا کے جھونکے سے کانپتی اور جھکتی ٹہنی کی طرح، بے ضرورت اپنے جسم کو ہلانے کا انداز۔ اندھیرے میں یہ سب ٹکڑے میں جمع کرتا گیا اور ان سب ٹکڑوں کو آپس جوڑ کر اندھیرے کے بطن میں ایک نئی نسوانی مورت بنانے لگا۔ میرے پہلو میں لیٹے ہوئے نسوانی جسم میں یہ تمام ٹکڑے جوڑ دینے کو جی چاہتا ہے۔ بند کی ہوئی آنکھوں کو کچی نیند جلاتی ہے، شریانوں میں خون کی دھڑکن مدھم پڑجاتی ہے اور میرے پہلو میں لیٹے ہوئے جسم کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔
ابھی کچھ ہی دیر پہلے کوچے میں جڑے ہوئے پتھروں پر میرے قدم اسی طرح دھڑکے تھے۔ اس آواز نے کوچے کے سناٹے کو کپکپادیا تھا۔ یہ آواز بھی کبھی کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بپھری ہوئی بھڑکی طرح چاروں طرف بھنبھناتی ہی رہتی ہے۔
نیند کے بوجھ سے لدے ہوئے اپنی بیوی کے جسم کو میں نے سہولت سے ادھر سے ادھر پھیردیا۔ اس کی ایک ٹانگ، نیند میں گھٹنے سے مڑی ہوئی کھڑی رہ گئی۔ وہ چند ثانیوں تک اسی زاویے پر رہنے کے بعد میری طرف جھکنے لگی او رپھر وہ ٹانگ ایک دھکے کے ساتھ مجھ پر آپڑی۔ میں نے دل میں جمع کیے ہوئے ان ٹکڑوں کو ایک بار پھر ٹٹولا۔ ہوا میں درخت کی ٹہنی کی طرح جھومتا ہوا شبوکا بے مقصد جھولتا بدن۔ لیکن اس ٹانگ کے ذریعہ اس جسم کا تمام بوجھ مجھ پر ڈھلنے لگا۔ اس کے باوجود میں بے تعلق بنااس زیادہ سے سے زیادہ بوجھل بنتی ہوئی ٹانگ کے نیچے پڑا رہا۔ عین اس وقت بڑے میاں کھنکھار کر اٹھ بیٹھے۔ اگلا دروازہ کھول کر باہر گئے۔ باہر کی ہوا اندر دھنس آئی۔ کوچے کی تمباکی روشنی بھی گھس پیٹھ کر اندر رینگ آئی اور میں اپنے اوپر سے ٹانگ کو کھسکا دینے کی ہمت کر بیٹھا۔
دروازہ پھر بند ہوگیا۔ باہر فرار ہوجانے کی آس لگا کربیٹھی ہوئی اندرکی ہوا سر پٹخ کر اندر ہی پسر گئی۔ ایک بار پھر اندر کی گرمی بڑھنے لگی۔ اس گرمی میں قریب سوئی ہوئی بیوی کے سر میں پڑے ہوئے کڑوے تیل کی بو مل گئی اور میرا دم گھٹنے لگا۔ یوں بہت سے دشمنوں کا تن وتنہا مقابلہ کرتے ہوئے سورما کی طرح میں بھی بستر میں پڑا پڑا مقابلہ کرنے لگا اور اسی کی ہی جھونک میں میں نے اپنی بیوی کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ پھر کچھ بڑبڑائی، میں، کون، کون؟ میں نے نیچی آواز میں کہا، میں ہوں۔
اور وہ یکلخت اٹھ بیٹھی۔ میں نے پوچھا، کیا کررہی ہے؟ اس نے کہا، تمہارے لیے دودھ رکھا ہے ڈھانک کر، وہ لے آؤں۔ میں نے کہا، رہنے بھی دے۔ مجھے نہیں پینا۔ وہ کچھ کہنے جارہی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے کے ساتھ اسے اپنے قریب گھسیٹ لیا۔ اندھیرے میں وہ میرے بشر ے پر اکتاہٹ کا جذبہ تو نہ دیکھ سکی۔ چنانچہ وہ بھولی بھالی تو اسے پیار کا کھیل ہی سمجھی۔ وہ میرے قریب کھسک کر بے یارو مددگار بچے کی طرح میرے پہلو میں گھسنے لگی۔ اس کے قریب آتے ہی گھٹن بڑھ گئی۔
میرا دم زیادہ سے زیادہ گھٹنے لگا۔ باہر بھاگ جانے کو جی چاہا، لیکن اب ان دو بازوؤں نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ گاؤں کے کنارے درختوں کی ٹہنیاں پکڑ کر جھولا جھولتے، کنویں سے پانی کھینچتے، باڑی میں اپلے پاتھتے وہ دو ہاتھ مجھ سے لپٹ گئے۔ عین اس وقت پڑوسی کے داموڈوسا پرکھانسی کا دورہ پڑا، انھوں نے بلغم کا پٹاخہ چھوڑدیا، کلی کی ہے، پربھو چار دفعہ کہا اور ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔
یہ اندھیرا اور یہ سناٹا اور اس کی تہہ میں دھڑکتے ہوئے دو دل، دو زندہ جسم، ہم دونوں کچھ تخلیق کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے سنسار کے ٹکڑوں کو جوڑ جاڑ کر میں کچھ بنانے کی کوشش کررہاتھا۔ لیکن دنیا کی تخلیق اندھیرے میں ہوتی ہے۔ بچے کی تخلیق ماں کی کوکھ کے اندھیرے میں ہوتی ہے۔ لیکن میرے پاس اتنا بہت سا اندھیرا نہ تھا، اسی لیے تو میں بھٹک بھٹک اندھیرے کوناپ رہا تھا، میرے ٹوٹے ہوئے، بکھرے ہوئے اوربے ترتیب ٹکڑوں میں سے میرے پاس کی یہ عورت عرق نچوڑ کر اپنی کوکھ میں اس سے کوئی شکل بنانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
ماں کی کوکھ میں اندھیرے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ابتدائے آفرینش سے یہ اندھیرا ماں کی کوکھ میں چلا آرہا ہے۔ میں جھنجھلاگیا۔ ایسے نوکدار ٹکڑے دوں اسے کہ کوکھ کے اندھیرے میں بھی جوڑے نہ جاسکیں بلکہ وہ اس کے جسم کی ایک ایک رگ کو توڑ پھوڑ دیں۔ ایسے جنون سے میں نے اپنا جسم اس کی طرف دھکیل دیا۔ اس گھر کی خاموشی، اس گھر کا دکھ، اس گھر میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرے ہوئے جسم، ان سب یادوں کے ساتھ میں نے اپنا جسم اس کے حوالے کردیا۔
ماں پانی پینے اٹھیں۔ میری بیوی کے بازو میری کمر سے جڑوں کی طرح لپٹ گئے۔ ہم دونوں کے درمیان دب کر، پس کر گرمی بڑھ گئی۔ ناقابل برداشت بن گئی، یہ گرمی پورے جسم میں دوڑنے لگی، رگ و ریشے میں سرایت کرگئی، دہکتے ہوئے لاوے کی طرح آنکھیں زیادہ جلنے لگیں، چوما سے میں نکل آتے ہوئے ہزارپائے کی طرح میرا جسم ہزار ہزار پیروں سے چلنے لگا۔ نیند کے سیلاب کو جیسے کسی نے توڑدیا۔ میں نڈھال ہوگیا، میں ڈھے گیا۔
اس نیم خوابی کے عالم میں میرے سامنے ایک تصویر آگئی۔ بے کراں صحرا میں پڑے ہوئے جسموں کے درمیان میں پڑا ہوا ہوں۔ میں مکمل نہیں ہوں۔ ایک ہاتھ یہاں ہے، دوسرا کہیں دور پڑا ہے۔ سر لڑھک کر کہیں اورجا پڑا ہے۔ میری بیوی ہاتھ میں سلگتی ہوئی مشعل لیے ہوئے آتی ہے۔ وہ مجھے تلاش کرتی ہوئی میرے قریب آجاتی ہے۔ وہ میرے بکھرے ہوئے اعضا کو اکٹھا کرتی ہے۔ اس کی مانگ میں سیندور ہے اور ہاتھ میں کم کم۔ وہ خود اپنے ہاتھوں سے چتا جلاتی ہے اور مجھے اپنی آغوش میں لے کر چتا پر بیٹھ جاتی ہے۔ آگ۔ آگ۔ ہمیں جھلسانے لگتی ہے۔ میں جلنے لگتا ہوں۔ آخر کار برداشت نہ کرکے آنکھیں کھول دیتا ہوں۔
باہر دھوپ ہے۔ اس کے چند نکیلے ٹکڑے میری آنکھوں میں بکھر جاتے ہیں۔ میں اٹھ بیٹھتا ہوں۔ آنکھیں اب بھی جل رہی ہیں۔ میں باورچی خانے میں جاتا ہوں۔ میرے لیے ڈھانک کر رکھی ہوئی چائے ماں گرم کرکے مجھے دیتی ہے۔ اس چائے میں دھوئیں کا ذائقہ ہے۔ اس چائے کو میں یوں مزے لے لے کر پیتا ہوں جیسے یہ دھنواسی چائے نہیں بلکہ امرت ہے۔ میں بیٹھا چائے پیتا ہوں اور باہر دیکھتا ہوں جہاں راکھ کے ڈھیر پر دھوپ کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں اور یکلخت نظم کی تخلیق ہونے لگتی ہے۔
کروکشیتر کے میدان جنگ میں انیسویں دن کی صبح طلوع ہوئی ہے۔ سہاگن کے جڑاؤ کنگنوں کی سی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ پہلی رات گزار کر ابھی ابھی آئی ہوئی دلہن کی ہتھیلی میں سے ٹپکتے ہوئے مہندی کے رنگ کی طرح سرخ روشنی ٹپک رہی ہے، پھیل رہی ہے، بکھر رہی ہے۔ باہر بیٹھا ہوا میرا بھائی ایک دونی دو، دو دونی چار، تین دونی چھہ، رٹنے لگتا ہے، اونچی آواز میں رٹنے لگتا ہے۔ میری شاعری اس کی آواز میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ میں اپنی ننھی سی کویتا کو، چلنا نہ سیکھے ہوئے بچے کی طرح سنبھال کر جگر لخت لخت کی طرح لیے ہوئے باہر نکل آتا ہوں کیونکہ یہاں آوازیں بڑھ رہی ہیں، یہاں جگر کے ٹکڑوں کو جوڑا نہیں جاسکتا، شاعری نہیں کی جاسکتی۔
میں اپنی شاعری کو لے کر باہر آجاتا ہوں۔
لیکن باہر کی تیزدھوپ میں اس کی آنکھ نہیں کھلتی۔ آنکھیں موند کر پڑی ہوئی اس شاعری کو دماغ کی ڈبیہ بند کر کے ایک بار پھر رات کے خاموش اندھیرے کا انتظار کرتا ہوں۔ اس اندھیرے میں میری شاعری آنکھیں کھولے گی اور اس امید میں، میں اسی دن کے دوسرے کنارے تک پہنچ جانے کا بیڑا اٹھالیتا ہوں۔
حاشیہ:
۱؎: ایک روایتی درخت جو دیولوک میں راجا اندر کے باغ میں ہے۔ اس لیے پھول دہی خوشبو دیتے ہیں جو ہم پسند کریں۔ یعنی جیسی خوشبو ہم پھولوں سے چاہیں وہی ان پھولوں سے پھوٹنے لگتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.