Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جو کوئے یار سے نکلے۔۔۔

رخشندہ روحی مہدی

جو کوئے یار سے نکلے۔۔۔

رخشندہ روحی مہدی

MORE BYرخشندہ روحی مہدی

    چھن سے گدلے پانی میں ایک کنکر گرا۔۔۔ننھا سا گول گول دائرہ بڑا ہوتا رہا اور اس دائیرے کے بیچوں بیچ میرا تن تنہا چہرہ بگڑا اور پھر بن گیا۔

    میں روز صبح ۷ بجے جمنا کے کنارے جاگنگ کرتی ہوں ۔اپنا عکس پانی کی سطح پر بنتے بگڑتے دیکھتی ہوں۔۔۔دن بھر کی مصروفیات کی فہرست بناتی ہوں۔۔۔آج بھی کتنے کام ہیں! مما کے ساتھ ناشتہ، آفس کے لئے تیاری اور پھر آفس میں سر اٹھانے کی بھی فرست نہیں۔۔۔شام ڈھلے گھر واپسی ۔لیپ ٹاپ پر اگلے دن کے پراجیکٹ کی تیاری۔۔۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ٹیلیفون، پانی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی، مما کا فوڈ چارٹ اور اس کی فراہمی۔ مما کے طے شدہ ٹائم ٹیبل کی پابندی۔ مما کا ہر کام وقت پر قرینے اور قائدے سے۔

    پاپا مما کے بلکل الٹ۔ کالے موٹے فریم کے شفاف شیشوں کے پار جھانکتی بڑی بڑی خاموش ذہین آنکھیں۔ سفید کم اور کالے زیادہ سٹریٹ سلکی بال۔ جو ماتھے کے اوپر اکژ گر آتے۔ سنہرے گیہوں کا رنگ،کھڑی اونچی ناک، ترشی ہوئی باریک مونچھیں۔ سفید رنگ کی شرٹ اور ہلکے رنگ کی پینٹ۔

    آہستہ روی، خاموشی، بردباری اور کتابوں سے دوستی۔۔۔مما کی ہر بات کا جواب صرف آنکھوں سے دینا۔ مما کی پسند کے کپڑے، مما کے خیالات کی پاسداری، مما کی ڈانٹ کو بردباری سے سن لینا۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے مما کی ہدایات پر عمل کرنے کی خاموش یقین دہانی۔ آدھیرات کو گھر واپسی پر مما کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھنا اور سر جھکا کر بیڈ روم میں نائٹ لیمپ آن کر کے کچھ لکھنا۔۔۔کچھ پڑھنا۔

    مما اکژکہتی ہیں ’’تم لوگ کیا جانو محبت؟ آج کے ہائی ٹیک زمانے کی پیداوار! اس تیز رفتار دور میں محبت کے تمام جزبے برقی ترنگوں کی طرح بھا گم بھاگ میں لگے ہیں۔ اب کوئی ایسی محبت نہیں کرتا۔ تمہارے پاپا مجھے منانے کے لئے بھرے بازار میں میرے رکشہ کے پیچھے دوڑ گئے تھے۔۔۔اور رکشہ سے اتار کر منا لیا تھا۔ تمام لوگوں کے ہجوم میں کیا منع کرتی میں شادی کے لئے۔۔۔‘‘

    پھر کیا ہوا کہ۔۔۔مما اور پاپا الگ ہو گئے۔۔۔میں بیچ سے بٹ گئی دو ٹکڑوں میں۔۔۔آدھا مما کے پاس۔۔۔آدھا پاپا کے ساتھ۔ کورٹ نے طے کیا تھا کہ میں مما کے ساتھ رہونگی۔۔۔پر میں۔۔۔گھر میں مما کے ساتھ اور دل میں پاپا کے پاس رہنے لگی۔

    میں مما کے بہتے آنسو تکیہ میں جذب ہوتے دیکھتی۔۔۔مما سے رانی لکشمی بائی کی ویرتا کی کہانی سنتی اور سوچتی مما واقعی ایک بہادر عورت ہیں۔ انکو اپنا دکھ کہنے کے بجائے سہنے سے سکون ملتا ہے۔ مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں رو رو کر چلا کر پاپا کو بلا لاؤں اور مما کا بھیگا تکیہ انکے سامنے کر دوں۔ شائد پاپا لوٹ آئیں؟

    مما نے مجھے ڈھیر سی کہا نیوں کی کتابیں لاکر دیں۔۔۔پریوں کی یا راجا رانی کی ایک بھی کہانی نہ تھی۔۔۔سب کی سب بہادر اور جانباز عورتوں کی کہانیاں۔ انہیں پڑھتے سمجھتے میں گیارہویں کلاس میں پہنچ گئی۔ مما کی محنت اور وقت پابندی سے کلاس میں اول آنے کے ساتھ میں اپنے اسکول کی فٹبال ٹیم میں گول کیپر بن گئی۔

    انٹر ہاؤس فٹ بال میچ کے دن۔۔۔میں اسکول کے لڑکوں کو دوڑاتی ہوئی گول پوسٹ کی طرف بھاگ رہی تھی کہ۔۔۔کالے چھلے دار بالوں کے بڑے سے سر والا لڑکا میرے سامنے آ گیا۔۔۔فٹ بال میرے پیر سے لگنے سے رہ گئی۔ دل تو چاہا کہ اس کا منھ نوچ لوں اپنے لمبے ناخونوں سے۔۔۔وہ ہانپتا ہوا میرے سامنے رکا۔ اپنی پسینے سے بھیگی ٹی شرٹ کے اندر سے ایک لفافہ نکال کر میرے سامنے کر دیا۔۔۔وہ جلدی سے بولا۔’’۔۔۔آئی ایم ویری سیریس ٹو ڈے‘‘ میں نے غصہ سے لفافہ چھین لیا۔ گراؤنڈ میں ہلکا ساشور اٹھا۔۔۔میں نے اپنے ٹی شرٹ کے اندر لفافہ ایسے ہی چھپا لیا۔۔۔جیسے اس نے چھپایا تھا۔۔۔اس کے ان ہائجینک پسینے سے مجھے گھن نہیں آئی۔

    لنچ پر مما نے کئی بار ڈانٹا ’’پہلے چینج کر لو۔۔۔نیپکن سے اپنے ہاتھ صاف کرو۔ کانٹا بائیں ہاتھ میں۔۔۔کھانا پورا کرو۔۔۔‘‘ لفافے کے اندر بند پھڑپھڑاتے دل کی دھم دھم میں کوئی دوسری آواز کیسے آتی۔۔۔

    ’’مما آی ایم ویری ٹائرڈ ‘‘ کھانا پلیٹ میں چھوڑ میں اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

    اے سی کا سویچ آن کرکے گلے میں ہاتھ ڈالا۔۔۔ٹی شرٹ کے اندر دھڑکتا سنہرا لفافہ اور اسمیں ایک کارڈ۔۔۔ایک خزاں رسیدہ گھنا پیڑ۔۔۔جس کی ادھ ننگی شاخیں۔۔۔پتوں کو جدا کرنے کے عمل سے گزر رہی تھیں۔ پیڑ کے قدموں میں اسکے ٹوٹے ہوئے پیلے پتوں کا ڈھر لگا تھا۔۔۔بے رحم ہو اپتوں کو اڑائے لیے جاتی تھی۔۔۔سارا ماحول بےحد رنجیدہ تھا اور ابھرے ہوئے الفاظ میں لکھا تھا۔’’اف آئی ایورفال ڈاؤن۔۔۔اٹ ول بی۔۔۔اونلی ود یو۔‘‘

    آکسفورڈ لرنرس ڈکشنری میں اس کارڈ کو سیدھا رکھ دیا۔۔۔لفافے میں بند کرکے اور ڈکشنری کو اونی کوٹ کی تہہ میں۔۔۔فنائیل کی گولیوں کی تیز بو کے درمیان دبا دیا۔

    ڈنر پر مما نے میرے چہرے کو چشمے سے پڑھنے کی کوشش کی۔۔۔مگر مما کے چشمے میں آجکل کے ہائی ٹیک پیا ر جیسے کمزور احساس کو دیکھنے کی پاور نہیں ہے۔

    مما کے ساتھ ٹی وی پروگرام دیکھتے ڈنر کیا۔۔۔ایسے ہی معمول تھا۔ مگر کچھ پھڑاپھڑا رہا تھا۔۔۔شائد سینے میں۔۔۔یا گردن میں۔۔۔یا پیٹ میں۔۔۔یا وہ ہی ’بٹر فلائیز ان مائی اسٹمک‘۔۔۔جو مما سے چھپ کے پڑھی گئی لو اسٹوری میں ہیروئن کے پیٹ میں پھڑپھڑاتی ہیں۔

    رات ہوتے ہی۔۔۔کارڈ کھول کر ایک بار اور پڑھا۔۔۔ابھی تو ساتھ رہنے کی قسمیں بھی نہیں کھائیں۔۔۔تو ساتھ میں مرنے کا وعدہ؟ معلوم نہیں۔۔۔شائد آجکل کی محبت میں ایسے ہی ہوتا ہوگا۔

    میں منڈے کو اسکول جاؤنگی تو پوچھونگی۔۔۔۔۔ دل میں تیر چبھا ہو اور رستے ہوئے تین موٹے سرخ قطرے۔۔۔ اور آلو یو لکھا ہوا۔۔۔یہ کیوں نہیں دیا؟ یہ ایک بات ضرور پوچھونگی۔ مگر میں اگلے روز اسکول نہ جا سکی۔ مجھے وائرل ہو گیا۔۔۔ بخار کی تیزی سے آئے پسینے سے بھی مانوس سی بو ہلکی نہ پڑی۔ نہ ہی فنائیل کی گولیاں کارڈ پر اپنا اثر ڈال سکیں۔۔۔پیٹ میں تتلیاں الگ طوفان اٹھائے رہتیں۔۔۔

    آٹھ دن بعد۔۔۔میں اسکول گئی۔۔۔اسکا حلیہ بتا کر اپنے کلاس میٹس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ بھی گیارہویں کاہی اسٹوڈینٹ ہے مگر سیکشن ڈی کا۔ لنچ بریک میں اس کی کلاس میں ڈھونڈا۔۔۔وہ نہیں آیا تھا۔

    اسنے ٹی سی لے لی تھی۔

    ڈکشنری میں ہر صفحہ پتوں کے گرنے کی آواز سے کھلتا اور بند ہو جاتا۔۔۔مما کیخریدی کتابیں رات دیر تک میں پڑھتی۔۔۔زیادہ تر انگلش ادب کی سرفروش عورتیں۔۔۔اور ہندوستان کی بہادر ناریاں۔۔۔جنکے دل میں نازک احساسات کی جگہ پتھر کی سلیں رکھی تھیں۔ مما کی محنت اور آئیڈلزم کی بدولت ڈرائینگ روم کا وال یونٹ میرے ہر سال کے بیسٹ اسٹوڈینٹ کی ٹراٖفیوں سے جگمگا گیا۔۔۔مما نے مجھے طاقتور بنانے میں پوری قوت لگا دی۔۔۔کانوینٹ اسکول سے انٹر پاس کر کالج پہنچ گئی۔ یو پی ایس سی کے امتحان کی کوچنگ کرائی۔۔۔لیکن میں امتحان پاس نہ کر سکی۔۔۔مما کی آنکھیں بار بار بھرتی رہیں پر چھلکنے سے پہلے ہی واش بیسن کا نل زور سے کھل جاتا۔۔۔مما نے کئی تولئے بدل لئے۔۔۔میں صرف بی کام کر سکی۔ میں رانی لکشمی بائی نہ بن سکی۔ مما کی ساری ریاضت ساری امیدیں ساری کاوشیں بھاپ بن کر گھر کی فضا کو مزید بوجھل کرنے لگیں۔

    یہ بوجھل فضا قدرے سہل ہوئی۔ مما کی بڑی بہن امریکہ سے آ گئیں ۔اپنے بےحد اسمارٹ بیٹے کے ساتھ۔۔۔مجھسے ۱۳ سال بڑے۔ مگر ہائی اسٹیٹس والے۔ناسا میں سائینٹسٹ۔ گرین کارڈ ہولڈر۔

    ایک مہینہ رہنے کے بعد خالہ جان نے مما کو منا لیا ۔اور مما نے مجھے۔۔۔سکون سے سمجھایا۔۔۔’’ تم خود کچھ نہ بن سکیں۔۔۔اب یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دو‘‘۔ خوب شور شرابے کے ساتھ ہماری شادی ہو گئی۔ پاپا نکاہ میں آئے تھے۔۔۔گرے بال بلکل سفید ہو گئے تھے۔ کالے چشمے کے شفاف شیشے اور موٹے ہو گئے تھے۔ آنکھوں کی نم نم چمک کہہ رہی تھی کہ وہ ہم سے دور کبھی نہ رہے۔۔۔

    رخصت ہو کر مجھے اپنے پاپا کے بیڈ روم میں جانا تھا۔۔۔ اس لئے پاپا رخصتی سے پہلے ہی چلے گئے۔۔۔کیونکہ انکی حد سے باہر تھا وہ بیڈ روم۔ جسمیں مما پاپا نے ۱۱ سال ساتھ ایک بستر پر الگ الگ کروٹ سو کر بتائے تھے۔۔۔

    ۲ ماہ ہندوستان کے بڑے شہروں کی خاک چھان کر ہم تھک چکے تو خالا جان اور اظفر امریکہ واپس ہوئے۔۔۔میں نے ایم۔ اے۔ جوائن کر لیا۔ پانچ سال رکتے۔۔۔رکتے۔۔۔بھاگ ہی گئے۔۔۔نہ میرا ویزا آیا اور نہ کوئی خیر خبر۔۔۔فون پر مما کی سخت ڈانٹ کو سن کر ایک ای میل آیا اور اظفر اور میں رشتوں کی کچی ڈور کے چھور۔۔۔اپنی بند مٹھی سے ہوا کے بہاؤ پر چھوڑ کر اپنے راستوں پر چل پڑے۔۔۔سمجھ میں نہیں آیا کہ رشتوں کی اس اکڑی ہوئی نیلی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دوں۔۔۔ یااسٹیٹس کے بلند وبالا منبر پر چڑھ کر اپنی ہائی کلاس پوزیشن کا جشن مناؤں۔۔۔

    مما نے طلاق کے ای میل کا پرنٹ آؤٹ میرے ماتھے سے چپکا دیا۔۔۔’’اب مزید طاقت ور ہوگئی ہو۔ مجھے دیکھو تمہارے پاپا سے علاحدہ رہ کر میں نے کبھی کسی مرد کی ضرورت محسوس نہ کی۔ تم ایک کوالیفائڈ کھلے ذہن کی انٹیلجنٹ عورت ہو۔کسی کی مصنوعی محبت تمہیں کیا دے سکیگی؟ میں نے آپا کی باتوں پر نہ جانے کیوں یقین کیا۔۔۔کہیں سرکاری دفتر میں نوکری مل جائےگی۔ نہیں ملیگی تو۔۔۔د لوا دونگی۔‘‘ اور مما نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ سرکار ی دفتر میں اپنے رسوخ سے مجھے اکنامسٹ کا عہدہ دلوا دیا۔

    ہمارا گھر آفس سے خاصہ دور تھا۔ پہلے کار سے میٹرو اسٹیشن اور پھر میٹرو سے آفس۔۳ بجے بھاگم بھاگ گھر آتی اور مما کے ساتھ لنچ کرتی۔

    آج بھی وہی سفید شلوار فیروزی کرتا اور سفید دوپٹہ۔۔۔جس کے پلو مما نے کرشئے سے بن کر دئے تھے۔۔۔میٹرو ٹرین میں چڑھتے وقت ٹرین کے خودکار دروازے میں آ گیا۔ میں نے چیخ کر دوپٹہ پوری طاقت لگا کر کھینچ لیا۔

    ’’ ڈونٹ بی چائیلڈش‘‘ میرے کان میں سرسراہٹ ہوئی۔ میں گھبراہٹ میں اسے ایک ٹک گھورتی رہی۔ میرے دوپٹہ کا کنارا مما کے پیار واعتماد سے بنے پلو سے الگ ہو گیا۔۔۔میں ٹرین کے رکتے ہی اتر گئی اور واپس گھر جانے والی ٹرین میں سوار ہو گئی۔

    اگلے دن وہ۔۔۔ہاں وہ ہی۔۔۔ٹرین کے باہر ہی کھڑا تھا۔ میں نے دو بار ہ سے دیکھا۔ کافی گہرا رنگ۔ بےحد معمولی چہرا۔۔۔لمبا اور دبلا۔۔۔ادھیڑ عمر۔ سوکھے بکھرے بدرنگ بال۔ کوئی خاص بات نہ تھی کہ میں اسے تیسری بار دیکھتی۔ اس نے میرے لئے ادب سے راستہ چھوڑا ۔میں پہلے اور وہ بعد میں ٹرین میں چڑھا۔

    میرے لئے خالی سیٹ موجود تھی۔ میں بیٹھ گئی۔ وہ مجھے چوری چوری دیکھتا رہا۔

    اب تو روز یہی ہونے لگا۔۔۔وہ ایک ہی رنگ پہنتا۔۔۔زرد۔ خزاں رسیدہ زمین دوز پتوں والا۔۔۔لمبا کرتا۔۔۔بےحد خاموش خاموش۔۔۔۔ اور مما کی زبان میں نااہل اور سست! میرے دوپٹے پر وہ نظریں جمائے رہتا۔۔۔اور ایک دن۔۔۔ وہ مسکرایا۔۔۔مسکراتا رہا ہر روز پہلے سے گہرا!

    مما اس بار میں سفید شلوار نہ لونگی۔’’کیوں‘‘

    ’’وہ۔۔۔زرد سنہری‘‘

    ’’کیا وہ طبلہ بجانے والوں کی پوشاک‘‘ نہ نہ تم پر سوٹ نہیں کریگی۔

    میں کیا ہوں مما تو پاپا کے کپڑے بھی اپنی پسند سے لاتی تھیں۔ان کی بھی آواز کب نکلتی تھی۔۔۔میں نے فائین آرٹس لیا تھا مگر مما نے ایکنامکس دلوا دیا۔ مما کی لاکھ کوشش سے میرا دل ارمانوں سے خالی کیا جاتا رہا مگر۔۔۔اس عام سے آدمی نے دل کے خالی کرائے گئے کونے پر ناجائز قبضہ جما لیا۔

    ’مما۔ آج کچھ لوگوں کے لئے ویلکم پارٹی ہے آفس میں۔ آپکی وہ آرنج بنگالی کاٹن ساڑی پہن لوں؟‘‘

    مما کی پتلیاں بڑی بڑی ہوکر گھوم گئیں۔۔۔ ’’آف وہائٹ کالے بارڈر والی بھی تو ہے۔‘‘

    ’’مما آج ڈریس کوڈ ہے نا‘‘مما کی نگاہوں میں پنپنے والے شک کے ننھے منے پودے یکدم قدآور پیڑ نہ بن سکے۔۔۔

    ’’ہوں‘‘۔ مما کے چشمے میں زیرو پاور ہے۔ آج بھی دل کے خالی کونے پر قبضے کی تفتیش میں چشمہ ناکام رہا ۔شک کے ٹپکتے قطرے جم گئے اور میں نے ساڑی پہن لی۔

    میٹرو اسٹیشن پر۔۔۔بالوں میں اوپر اوپر سے برش پھیرا۔۔۔

    وہ آج ہنس دیگا۔ ٹکٹکی باندھ کر دیکھےگا۔

    اسٹیشن پر کافی بھیڑ تھی۔کئی ٹرینیں آئیں اور نکل گئیں۔ وہ کہیں نہیں تھا۔۔۔

    میں نے ہر آنے اور جانے والی ٹرین میں اسکی خاموش مسکراہٹ کو تلاشا۔ ایک بج گیا۔دو بج گئے۔۔۔اور تین بجنے میں صرف ۱۲ منٹ رہ گئے۔۔۔مما تین بجے لنچ کرتی ہیں۔

    میں واپس گھر پہنچ گئی۔۔۔کارڈ سے خزاں رسیدہ پتے اڑ کر میری آنکھوں میں گرنے لگے۔ میں نے ضد کرکے زرد کرتا خرید لیا۔ زرد تولیہ زرد بیڈ شیٹ زرد پردے۔۔۔سب کچھ زرد۔

    مما نے میری ۳۵ویں سالگرہ کے کیک میں شکر کم ڈالی۔ ڈائٹیشین کے چارٹ پر عمل کرتے ہوئے لو کیلو ریز اور کیلشیم سے پر کھانے، جاگنگ کے علاوہ یوگا معمولات میں شامل ہو گیا۔۔۔مگر اس پر بھی بلڈ پریشر فلکچویٹ کرنے لگا۔ پیروں اور کمر میں درد اور بےوجہ رونا آنے لگا۔ دل چاہتا کہ ڈرائینگ روم کی نقشیں چھت سے لٹکتا اصلی کر یسٹل کا جھاڑ فانوس باتھروم میں رکھیوائپر سے کرچی کرچی کرکے بکھیر دوں۔ صبح کے تازہ گلاب رنگیں سشیشوں کے گلدانوں سے الٹ کر پتی پتی کر کے نوچ دوں۔

    بدن درد سے ٹوٹتا اور دل ڈوبتا۔۔۔

    ’’بیٹا! یو آر اے بریو گرل۔۔۔سمجھ سکتی ہو۔۔۔اس ایج میں یہ سب کامن ہے۔ میڈیکل ٹرم میں یہ پری مونوپاز سینڈروم۔۔۔

    میں چکر اکر گرگر پڑتی۔’’تازہ پھل اور ہری سبزیاں دودھ پنیر جوس۔۔۔’’ آئرن کی ایک گولی آفٹر ڈنر دودھ سے لیا کرو۔۔۔

    مما نے بیلینسڈ ڈائٹ چارٹ مائکروویو اون کے اوپر والی شیلف پر چپکا دیا۔

    ڈرائینگ روم کا جھاڑ فانوس اور سشیسے کے گلدان میں تازہ گلاب میری سفید ہوتی لٹوں کو نظرانداز کرے لگے۔ میں نے بھی انکو معاف کر دیا۔ ’’بیٹا تمہارے چہر پر سفیدی مائل بال بہت سوٹ کرتے ہیں۔ انٹلکچوئل لوکس۔۔۔‘‘

    میرے سیل فون میں ٹک ٹک۔۔۔ٹر۔۔۔ٹر۔۔۔ٹر‘‘ ریمائنڈر کوک اٹھا۔ ۳۰ ۹ ہو گئے۔ مما ناشتے کے لئے ویٹ کرتی ہونگیں۔

    میں نے اپنا چہرہ اتھلے اور گدلے پانی میں دیکھا اور مٹھی میں بند ایک کنکر پانی میں اچھال دیا۔پانی میں دائرہ بنا اور پانی کی سطح ہموار ہو گئی۔۔۔میرے چہرے کے بلکل برابر سے ایک اور چہرہ پانی میں ابھرا۔۔۔ایک ایک کرکے سارے کنکر پانی کے جگر میں اتر گئے۔ مگر وہ چہرہ پانی کی سطح پر تیرتا رہا۔ کانپتے پانی میں ایک چہرا میرے چہرے کے پاس ڈولنے لگا۔ میں نے گدلے پانی میں گہرائی سے دیکھا۔۔۔

    چھوٹے کھڑے بال، گول چہرا، اداس خاموش ہونٹ! میں نے سارے کنکر مٹھی کھول کر پانی میں اچھال دئے۔ دائروں پہ دائرے بنے اور پل بھر میں منتشر ہو گئے۔ میرا چہرا بنا اور بکھر گیا۔ لیکن۔۔۔وہ اداس چہرہ گدلے پانی کی سطح پر اسی طرح گھورتا رہا۔

    ’’ٹک ٹک ٹک میرے سیل فون کا ریمائنڈر رک رک کر یاد دلانے لگا کہ مما۔۔۔میں نے اس چہرہ کو لہروں کے ر حم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اپنا زرد ٹاول گردن کے گر دلپیٹا اور گھر کی طرف چل نکلی۔

    آج بھی وہ اسی طرح مجھ سے قبل پانی کی سطح پر آنکھیں بچھائے تھا۔ وہ ایک بڑے اور اونچے مٹی کے ڈھیر پر سر جھکائے گرد آلود پانی میں سے کوئی سنہرا سپنا ڈھونڈ رہا تھا۔اسی لئے اس کا چہرہ کنکروں کی چوٹ سے مسخ نہ ہوا تھا۔ سپنوں کی وادیاں آہنی دیواروں میں محفوظ ہوتی ہیں جن پر نہ وقت اور نہ حالات اپنے اثرات چھوڑتے ہیں۔ نہ سپنے کبھی بوڑھے ہوتے ہیں اور نہ انکا سنہراروپ ماند!

    میں گردآلود پانی میں اس کے سنہرے سپنے کی کرنیں سمیٹ کر اسکی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگی۔ کالی ٹی شرٹ رات کو پہن کر سونے سے شکن آلود تھی۔ جینس کئی جگہ سے گھس کر پھٹنے لگی تھی۔

    اسنے سر اٹھایا اور اٹھ کر چل دیا۔

    گھر آئی تو سر میں کچھ گھومنے لگا۔ مما سوشل ورک میں ہمیشہ آگے رہتیں ہیں۔ کہتی ہیں کہ ضرورتمند کے خالی ہاتھ انکے دل کو خالی کر دیتے ہیں اس لئے وہ اپنے دل کو بھرنے کے لئے انکے ہاتھوں کو بھرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔میر ادل۔۔۔خالی ہی تو ہے اور شاید اسکے ہاتھ بھی! میں نے الماری کا سیف کھولا بھاری زیورات کی پوٹلی میں تین گانٹھیں کسیں اور۔

    سورج اگ آیا تھا۔ سنہرا آسمان اسکے سر پر اس کے سنہری سپنوں کو تانے ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔اب بھی پانی کی سطح پر اس کا چہرا ہلکورے لے رہا تھا۔ میں نے اپنے اسکارف کی ایک چھوٹی سی پوٹلی پانی میں اسکے چہرے کے قریب کر دی۔

    اسنے سر اٹھایا۔۔۔مجھے دیکھا۔ رکا ہوا پانی زور سے اچھلا۔

    اجلا جلا چاند سا گول چہرہ۔سرخ ہونٹ۔گول مٹول سی ناک۔چنکی اسٹائل۔ یہ چپٹے نقوش کتنے معصوم ہوتے ہیں ایکدم چھوٹے بچے سے۔ روٹھا ہوا سا مجھے ایک ٹک دیکھتا رہا۔

    پہلے دن اسکول میں۔۔۔پینسل باکس کا لاک ٹوٹ جانے پر میرا کلاس میٹ ایسے ہی گول ناک کو سکوڑ کے بھیگی آنکھوں اور لال ہونٹوں میں سبک سبک کے میم سے میری شکایت کر رہا تھا کہ میں نے اسکا پینسل باکس توڑ دیا ہے۔۔۔میم نے مجھے ڈانٹ دیا تھا اور اسے اپنے سینے سے چمٹا کر اس کے ماتھے کو چوم لیا تھا۔۔۔اسکی سسکیاں رک گئیں تھیں۔

    وہ بھی معصومیت سے سبک رہا ہے۔ دل میں۔ شکایت کر رہا ہے اپنی ناکامی کی اپنی مجبوری کی۔ کاش میں اس وقت تمہاری سسکیاں میم کی طرح روک پاتی۔ تمہیں اپنے کلیجے سے۔

    پوٹلی اس کے ہاتھ کے قریب رکھدی میں نے۔ پوٹلی میں ہلکی سی جھنکار بجی۔

    اسنے بغیر چھوئے ہی کہا۔ ’’میں مرد ہوں۔۔۔آپ کے زیور بیچ دوں؟‘‘

    ’’میں عورت ہوں۔۔۔زیور کے بغیر بھی۔۔۔‘‘ میں نے جاگنگ ادھوری چھوڑ دی۔

    اس کا گول گول چاند سا چہرہ دکھ کی کالی بدلی کے سایہ سے باہر آنے لگا۔۔۔وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔۔۔ڈائرکٹ میری طرف!

    مجھے دشینت اور شکنتلا کی کہانی یاد آنے لگی۔ جو مما نے کبھی نہ سنائی تھی۔ وہ تو چوتھی کلاسکی ہندی کی کتاب میں پڑھی تھی۔

    اسنے میری طرف پھر دیکھا۔۔۔کا ش میں اسکی ٹیچر ہوتی۔۔۔اسے پچکار سکتی۔۔۔اس کے آنسو اپنے پلو سے سکھا سکتی۔ اس کی سسکیوں کو اپنے دل کی دھڑکنوں کا سنگیت بنا سکتی۔۔۔وہ اٹھا اسنے میرے اسکارف کی پوٹلی کو اپنی گھسی ہوئی جینس کی جیب میں اڑس لیا۔ سورج نے اٹھلا کر دھوپ کو ہمارے سروں سے پھسلا دیا۔وہ پیٹھ موڑ کر جا رہا تھا۔ میں نے تلوار کو الماری کے لاکر میں بند کرنے کا مستحکم فیصلہ کر لیا۔

    ساڑھے پانچ ماہ ۴ دن اور ۱۶ گھنٹے بعد۔۔۔

    پانی ایکدم روپہلا ہو گیا۔۔۔اس کا چہرہ میرے قریب تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ معصومیت۔۔۔اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اسکے دائیں ہاتھ کی کن انگلی پر مہندی کا زرد رنگ کھلا ہے۔ میرے سر کے اوپر تناور درخت نے خزاں رسیدہ پتوں کو اپنے تن سے جدا کر دیا۔ میرے اطراف تڑے مڑے خشک پتے کھڑکھڑائے۔

    ’’کیسی ہے تمہاری دلہن؟‘‘

    میں نے ایک کافی بھاری پتھر پانی میں دے مارا۔۔۔بہت بڑا دائیرہ بنا۔۔۔اور میں اسمیں دفن ہونے لگی ۔وہ پیلے پتوں والا کارڈ ڈکشنری کی تہوں سے نکل کر میرے ٹی شرٹ میں پھڑپھڑانے لگا۔ میٹرو ریل کا خاموش ہمسفر اپنے زرد طویل کرتے کی آستینوں میں میرے عرق آلود چہرے کو چھپانے لگا۔

    ’’یہ آپ پر بہت سوٹ کریگا‘‘ اسنے خاکی کاغذ کے تھیلے کو پھاڑکر میرے سامنے کر دیا۔

    ایک عنابی رنگ کا سوٹ!!!

    میری کھپریل کی چھت کے روزن سے زروں کا سنہرا کارواں میری جانب بڑھنے لگا۔

    ’’آج شام۔۔۔پانچ بجے۔۔۔یہ سوٹ پہن کر یہیں آ جائےگا۔۔۔میں آپکا انتظار کرونگا۔۔۔‘‘ سارے زرد خشک مڑے تڑے بدرنگ پتے دہکتے سونے کے ہو گئے۔ ابھی جو گرم آندھی اٹھی تھی وہ سانس روکے میرے آگے آگے چلنے لگی۔ دھوپ کی نرم تمازت میرے انگ انگ میں زندگی جگانے لگی۔

    میں نے کولون ملے پانی سے نہا کراسکا لایا عنابی سوٹ پہنا۔۔۔گاڑی میں بیٹھ کر۔ سولہ سنگھار کئے۔۔۔پانچ بجے سے پہلے پہنچ گئی۔

    میری گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ میرے برابر کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔

    بےپناہ لگاوٹ۔۔۔بےاندازہ۔۔۔اپنائیت سے میری آنکھوں میں ڈائرکٹ دیکھتا رہا۔۔۔۔

    اسنے میرے کھلے لمبے بالوں میں موتیا کے کچے پھولوں کا مہکتا گجرا سجایا۔۔۔عنابی دوپٹے کو میرے سر پر ڈھانک دیا۔

    ’’آپکے کان کی لوئیں بہت نازک اور حساس ہیں۔اور بہت خوبصورت بالکل ترشی ہوئی۔ جب آپ مسکرائیں تو۔۔۔ آپکے کان کی لوئیں سرخ یاقوت کی طرح دمک اٹھیں۔۔۔کیا میں انہیں ۔۔۔بس۔۔۔ایک بار۔۔۔‘‘

    اس نے میری اجازت کا انتطار نہیں کیا۔۔۔وہ جو کہہ رہا تھا۔۔۔وہ کر چکا تھا۔۔۔میرے کانوں کی لوئیں پتھر کا دھکتا کوئیلہ بن گئیں۔

    کل سے آج تک کتنا بڑا ہو گیا تھا وہ۔ ایکدم نوجوان! کڑیل مرد!

    ’’آپ کی وجہ سے میں آج اس مقام پہ ہوں‘‘

    ’’میرا پروموشن ہونے والا ہے۔۔۔‘‘ اس نے میرے سرد ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں میں دبا لیا۔ ایک بار پھر اسی طرح میری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

    ’’آپ۔۔۔آپ۔۔۔وہاں چلی جائیے۔۔۔بس دو گھنٹے کے لئے۔‘‘ دھوپ کی نرم تمازت کھلکھلاکر اس کے اور میرے سر پہ سے بھاگنے لگی۔۔۔گہرے کالے بادل کی ٹولی نے سیاہ گھیرا میرے چاروں طرف بن دیا۔۔۔

    کاغذ کی چھوٹی سی چٹ اسنے میری طرف بڑھا دی۔۔۔ اس پر کوئی پتہ درج تھا۔میں نے اس چٹ کو سنبھال لیا۔۔۔

    وہ گاڑی سے اتر گیا۔۔۔ایک بار اپنے پانی کے دائیروں کو آشاؤں کی شبنم سے بھگو کر نہارا۔۔۔اپنی کھپریل کی چھت کے روزن سے بکھرتے زروں کے کارواں کا راستہ موڑا۔ اپنے دشینت کی دی ہوئی لال چنریا کو پانی کے دائروں کے بھنور میں پھینک دیا۔۔۔

    رانی لکشمی بائی کی چمکتی تلوار الماری کے سیف سے باہر نکالی۔

    وہ دور کھڑا تھا۔ مجھے غور سے دیکھ رہاتھا۔۔۔

    میری گاڑی اس کے دئے پتے کی جانب ۱۲۰ کیلومیٹر کی رفتا ر سے دوڑ رہی تھی۔۔۔

    آئی ایم ساری مما۔۔۔آج کے ہائی ٹیک زمانے میں ایسا بھی ہوتا ہے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے