Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جونک

حسن امام

جونک

حسن امام

MORE BYحسن امام

    کریم کو شہر آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ وہ ایک دور افتادہ جزیرے میں رہتا جہاں مچھیروں کی مختصر سی آبادی تھی۔ اپنی چھوٹی سی پرانی کشتی پر وہ سمندر میں مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دن بھر میں بمشکل دو ٹوکرے مچھلی پکڑ پاتا۔ شام کو شہر سے مختلف آڑھتی آتے اور گاؤں کے تمام ماہی گیروں کی مچھلیاں خرید کر لے جاتے۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ مستقل طور پر اپنی مچھلیاں فیاض بٹ کے ہاتھوں فروخت کرتا آ رہا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ زبان اور اخلاق کا بڑا اچھا آدمی تھا اور دوسری، وہ مچھلیوں کی قیمت اچھی دیتا۔ جب بازار مندا ہو تا تو دوسرے آڑھتی کم قیمت دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ مئی سے لے کر اگست کے مہینے تک لوگ مچھلیاں کم کھاتے ہیں اس لیئے قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔

    ایک شام کریم سمندر سے واپسی پر کشتی سے مچھلیاں نکال رہا تھا کہ فیاض بٹ آ گیا۔ اس کے آنے سے پہلے ہی کریم کو اپنی داہنی پنڈلی میں سرسراہٹ سی محسوس ہو رہی تھی لیکن اس نے یہ سمجھ کر کوئی اہمیت نہ دی کہ کوئی ننھی منی مچھلی ہوگی اور پھر فیاض بٹ کے آنے کے بعد تو وہ اسے بالکل ہی بھول گیا۔ وہ دونوں کافی دیر تک کاروبار کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ فیاض اپنی فیملی کے متعلق بتانے لگا اور اس کے بیوی بچوں کے بارے میں بھی پوچھتا رہا۔ اس کی زبان اتنی نرم اور میٹھی تھی کہ کریم کو اپنے سفید ہوتے ہوئے بالوں میں بڑی مہربان سے انگلیاں پھرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اور وہ مسحور سا اس کی باتیں سنتا ہوا آہستہ آہستہ مچھلیوں کو ایک جگہ جمع کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران ایک بار اسے محسوس ضرور ہوا کہ پنڈلی میں چیونٹی سی کاٹ رہی ہے لیکن اس نے اس کی بھی پروا نہ کی۔ اس وقت فیاض بٹ اسے بتا رہا تھا کہ گرمی کی وجہ سے مچھلیوں کی قیمت گر گئی ہے لیکن وہ کریم سے پرانی قیمت پر ہی خریدےگا۔ وہ زبان دے چکا ہے اور مرد کی زبان ایک ہوتی ہے۔ جب وہ چلا گیا اور نرم اور میٹھے الفاظ کا طلسم ٹوٹا تو یکا یک اسے پنڈلی میں کانٹا سا چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے جھک کر جلدی سے پانی کے اندر ہی اپنی پنڈلی ٹٹولی، ایک موٹی سی جونک اپنے تمام تر لجلجے پن کے ساتھ اس کی انگلیوں سے چھو گئی۔ اسے ایک دم جھر جھری آ گئی۔ لیکن جی کڑا کر کے اس نے پوری قوت سے اسے پنڈلی سے الگ کیا اور خشکی پر پھینک دیا۔ گھر پہنچنے کے بعد اس کی تکلیف میں اضافہ ہونے لگا۔ بیوی نے ٹوٹکوں سے علاج کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہاں ایک مقامی ڈاکٹر تھا، جو تھا تو ایک کمپاؤنڈر لیکن ایک بڑے ڈاکٹر کے ساتھ منسلک رہ کر تجربہ کار ہو گیا تھا اور مقامی لوگوں کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کرتا۔ وہ صبح اس کے پاس چلا گیا۔ ڈاکٹر نے علاج شروع کر دیا۔ جب تک اس کی جیب میں پیسے رہے، وہ دوائیں کھاتا رہا۔ انجیکشن سے ڈرتا تھا اس لیئے چاہتا کہ دوا سے ہی آرام آ جائے۔

    ڈاکٹر کی سستی گولیوں اور مرہم کا علاج چلتا رہا اور زخم بڑھتا رہا۔ اس کی کمائی کا ایک ایک پیسہ ختم ہو گیا۔ زخم کی وجہ سے وہ مچھلیاں پکڑنے بھی نہیں جا سکتا تھا۔ وہ پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹر کو ساری صورت حال بتائی۔ اس نے بڑے محبت آمیز لہجے میں اسے مشورہ دیا کہ یہ زخم اب اس کے بس کا نہیں رہا، وہ شہر کے کسی ہسپتال چلا جائے جہاں اس کا بہتر علاج ہو سکےگا۔ ڈاکٹر نے شہر کے ایک ہسپتال کا پتہ بھی لکھ کر دیا جہاں مریضوں کا علاج مفت ہوتا۔ اس نے شہر جانے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن مسئلہ پیسوں کا تھا۔ کرایہ اور دوسری ضروریات کے لیئے کچھ پیسے تو چاہیئے تھے۔ فیاض بٹ کے گاؤں آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، اس کے آدمی آتے، مچھلیاں لے کر پیسے دیتے اور چلے جاتے۔ اس کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ فیاض بٹ کا روزانہ شام تک انتظار کرتا۔ آج بھی وہ مایوس، گھر لوٹ رہا تھا۔ شام کا اجالا اندھیرے سے گلے مل رہا تھا۔ ایسے ہی اندھیرے اجالے میں ننگے اور بھوکے لوگوں کے دلوں میں اداسیاں تھکے ما رے پرندوں کی طرح اتر آتی ہیں۔ دولتمند لوگوں کے دلوں میں خواہشوں کی بانکی اداؤں والی رقاصہ اپنے توبہ شکن رقص کی پہلی انگڑائی لیتی ہے۔ رقاصہ جس کے پاؤں میں چاندی کے گھنگھرو بندھے ہوتے ہیں۔ چاندی جس کی جھنکار سے لوگ بے پیئے مست ہو جاتے ہیں۔ لوگ، جن کے پیٹ ان کے ہاتھوں کی طرح خالی ہوتے ہیں اور دل سادگی اور ایمانداری سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایمانداری جو انہیں ایک وقت فاقہ دیتی ہے۔ ایمانداری، جو ان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ ایمانداری جو آج کی دنیا میں شاید کسی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔

    آخرکار اس نے ایک پڑوسی سے کچھ پیسے قرض لیئے اور شہر چلا آیا۔ یہاں ہسپتال ڈھونڈنے میں بھی اسے کافی دقت پیش آئی۔ لوگوں سے پوچھتے پوچھتے کسی طرح پہنچ ہی گیا ۔ہسپتال کے حالات دیکھ کر تو اس کی طبیعت اور خراب ہونے لگی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اپنی اپنی باری کا انتظا کر رہا تھا۔ کئی گھنٹوں کے بعد جب اس کا نمبر آیا تو رات ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے کچھ دوائیں ہسپتال سے دیں اور کچھ لکھ کر دیں کہ وہ باہر سے لے لے۔ اس نے ہسپتال میں داخلے کی بات کی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کا مرض ایسا نہیں کہ داخل کرنے کی ضرورت ہو۔ وہ پریشان ہو گیا۔ شہر میں اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ تو اس امید پر آیا تھا کہ ہسپتال میں رہنے کا بند و بست ہوگا۔ اس نے دیکھا کہ بہت سے مریض ہسپتال کے برآمدے اور قریبی سبزہ زار پر سو رہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو باہر سے آئے ہیں اور ہسپتال میں داخلے کے منتظر ہیں۔ گرمی کے دن تھے اس نے بھی رات گھاس پر گزارنی شروع کر دی۔ صبح برآمدے میں آ کر بیٹھ جاتا یا قرب و جوار میں مٹر گشتی کرتا۔ جب پاؤں کی تکلیف بڑھ جاتی تو واپس ہسپتال آ جاتا۔ کبھی کبھی کسی رفاحی ادارے کی جانب سے کھانا تقسیم کیا جاتا ورنہ زیادہ تر اسے اپنے پیسوں سے ہی کھانا پڑتا۔ اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ دوا اور کھانے میں اس کے سارے پیسے تقریباً ختم ہو چکے تھے اور اب وہ پریشان ہو رہا تھا۔ اسی پریشانی میں رات کے وقت ہسپتال سے باہر نکل گیا، علاقے میں بجلی کی ترسیل میں کوئی خرابی واقع ہو گئی تھی، وہ سبزہ زار پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کا وجود اندھیرے کی دلدل میں دھنسا جا رہا تھا۔ وہ قریب سے گزرنے والوں کو بھی نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس کا وجود تھا۔ اس نے ایک سگریٹ سلگا لی اور ختم ہوتی ہوئی سگریٹ کو آخری بوسہ دے کر فضا میں اچھال دیا تاکہ اس کا وجود روشنی کی رمق سے محروم نہ رہ سکے۔ ایک لمحے کے لیئے اندھیرے کے ننگے جسم پر سرخ سا شگاف بنا، اسے لگا جیسے جگنو تاریکی کے سفر سے تھک کر گھاس کے ننھے جنگل میں اُتر آیا ہو۔ وہ اس علامت کو دیکھتا رہا جو اب زخم کی مانند تھی، زمین کا زخم۔

    اسے اپنی پنڈلی کا زخم یاد آیا جو اب دل کی طرح دھک دھک کر رہا تھا اور اس کی تکلیف پھر بڑھ گئی تھی۔ اس کے ارد گرد اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ بجلی بحال ہو گئی تھی۔ روشنی میں اس کے چہرے پر تفکر کی پرچھائیاں بہت نمایاں تھیں۔ وہ بار بار اپنے زخم کو دیکھتا۔ اسے فکر تھی کہ اب علاج کیسے جاری رہےگا، اس کے پاس پیسے تو ختم ہو چکے تھے۔ قریب ہی ایک فقیر بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اپنا ہم پیشہ سمجھ کر اس کے پاؤں کے متعلق پوچھا۔ جواب میں اپنا پاؤں دکھاتے ہوئے کریم نے بتایا کہ یہ زخم اسے جونک لگ جانے کی وجہ سے ہوا اور یہ کہ وہ ہسپتال میں علاج کرانے کے لیئے آیا تھا۔ فقیر تھوڑی دیر تک اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر بولا کہ شاید وہ شہر میں پہلی بار آیا ہے اور ان ہسپتالوں کا حال نہیں جانتا۔ اس نے اپنا ایک پاؤں سیدھاکر کے اس کی طرف پھیلا دیا جو کہ پنڈلی کے پاس سے کٹا ہوا تھا۔ کریم نے سوالیہ نظروں سے فقیر کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ معذوری کا دکھ اس کی آنکھوں میں جھلک رہا تھا۔ وہ کہنے لگا ‘’ان ہسپتالوں میں صرف سستی دوائیں مفت ملتی ہیں۔ قیمتی دواؤں کا نسخہ لکھ کر تھما دیا جاتا ہے کہ باہر سے منگوا لیں، جو میں نہیں منگوا سکا اور میرا مرض بڑھتا گیا۔ میں شوگر کا مریض ہوں۔ میرے پاؤں کا پھوڑا بڑھتے بڑھتے ناسور بن گیا جس کی وجہ سے پاؤں کاٹنا پڑا‘’ کریم کو اپنی پنڈلی کی ہڈی پر آری چلتی محسوس ہوئی۔ اس نے جھر جھری لیتے ہوئے ایک بار پھر فقیر کی طرف دیکھا۔ فقیر جو اب تک اپنا پاؤں سمیٹ کر پھر دو زانو ہو چکا تھا، تنبیہً بولا ‘’بھول کر بھی ان ہسپتالوں کے چکر میں نہ پڑنا۔‘’ اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہسپتال کا حال وہ خود دیکھ چکا تھا۔ اسے فقیر کی بات دل کو لگی، پاؤں کٹوانے کے مقابلے میں موجودہ تکلیف بدرجہا غنیمت معلوم ہوئی۔

    وہ ساری رات جاگتا رہا۔ طرح طرح کے خیالات اسے گھیرے رہے۔ صبح تک اس نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ وہ واپس چلا جائےگا۔ جو کچھ سوچ کر آیا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ گاؤں میں ایک حکیم بھی تھے، وہ ان سے علاج کروائےگا۔ یہ سوچ کر کچھ مطمئین ہو گیا۔ اسے درد کی شدت میں کمی بھی محسوس ہوئی اور طبیعت بھی قدرے بہتر لگی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ وہ شہر میں کچھ دن کوئی کام کر کے اتنے پیسے جمع کر لے کہ واپسی کے کرایے کے ساتھ ساتھ قرض ادا کرنے کے بھی قابل ہو جائے۔ صبح اس نے فقیر سے اپنا ارادہ ظاہر کیا اور مدد مانگی کہ اسے کسی کام کے بارے میں مشورہ دے۔ فقیر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ سمندر کے کنارے ایک گاؤں کا رہنے والا اور پیشے کے لحاظ سے ایک ماہی گیر ہے۔ فقیر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ بندرگاہ کے علاقے میں چلا جائے ،وہاں مچھلیوں کے لیئے سرد خانے اور ایسی فیکٹریاں ہیں جہاں مچھلیوں کو ڈبے میں بند کر کے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ شاید اسے وہاں کوئی کام مل جائے۔ اسے یہ مشورہ پسند آیا۔ اپنے مختصر سے سامان کی گٹھری سنبھالے وہ بندرگاہ کے لیئے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے لوگوں سے معلومات حاصل کیں، کسی نے اسے ایسی ایک فیکٹری کا پتہ بتایا جہاں صرف موٹر بوٹ سے جایا جا سکتا تھا۔ کنارے پر بہت ساری چھوٹی بڑی موٹر بوٹ موجود تھیں۔ وہ ان میں سے ایک پر بیٹھ گیا جو اسے مطلوبہ مقام تک پہنچا سکتی تھی۔ کشتی میں اور بھی مسافر موجود تھے۔ سفر تقریباً آدھے گھنٹے کا تھا۔ سمندر کا پانی بہت گندہ تھا، لگتا تھا شہر کی ساری غلاظتیں سمندر برد کر دی گئی ہوں۔ تعفن اور بساندھ سے اس کی طبیعت مکدر ہو نے لگی۔ اس کی ساری زندگی سمندر کے کنارے گزری، لیکن وہاں سمندر صاف و شفاف تھا، شاید شہر کی گندگی ابھی تک وہاں نہیں پہنچی تھی۔

    کشتی سے اترتے ہی اسے سامنے پیلے رنگ کی ایک چھوٹی سے عمارت نظر آئی۔ صبح کے نو بج رہے تھے۔ کچھ مزدور نما لوگ ایک قطار میں کھڑے تھے۔ عمارت کے باہر ایک چھوٹا سا بر آمدہ تھا جہاں دو افراد کرسی پر بیٹھے اُن مزدوروں کی حاضری لگا رہے تھے۔ جب سارے مزدور اندر چلے گئے تو وہ بھی ان کے پاس پہنچا۔ ان کی سوالیہ نظروں کے جواب میں اس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور یہ بھی کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک ماہی گیر ہے اور ساری زندگی مچھلیوں کے درمیان گزاری ہے۔ ان کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ شہر میں اس کا کوئی جاننے والا نہیں سوائے فیاض بٹ کے جو اس کی مچھلیوں کے مستقل گاہک ہیں۔ شاید وہ دونوں فیاض بٹ سے واقف تھے، یا ان کے خیال میں وہ بے ضرر سا بندہ تھا، انہوں نے کریم کو کام پر رکھنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے سپروائزر کے پاس بھیج دیا۔

    کام کوئی ایسا مشکل نہ تھا، وہ دن بھر کام کر تا رہا۔ شام ہونے کو آ رہی تھی، عمارت کے سائے گھٹنے لگےتھے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، ایک بہت بڑی کشتی مچھلیوں کے ٹوکروں سے لدی ہوئی اسی طرف آ رہی تھی اور کشتی میں دو تین لوگ بیٹھے تھے۔ اسے کچھ ایسا لگا جیسے ان میں سے ایک فیاض بٹ ہے جب کشتی قریب آئی تو وہ ایک دم خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ اب وہ یقیناً اس کی مدد کرےگا۔ اس نے تیزی سے باہر نکلنا چاہا لیکن اسے روک دیا گیا کہ وہ چھٹی سے پہلے عمارت سے باہر نہیں جا سکتا۔ وہ مایوس سا اپنی جگہ پر واپس آ گیا۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا، کچھ مزدور کشتی سے ٹوکرے اتار رہے تھے۔ جب کشتی خالی ہو گئی تو باہر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے فیاض بٹ کو نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی تھما دی جسے اس نے بڑی احتیاط سے گن کر اپنی جیب میں رکھا اور جس کشتی سے آیا تھی اسی سے واپس چلا گیا۔ چھٹی کے وقت وہ باہر نکلا۔ سارے مزدور ایک قطار میں کھڑے ہو گئے اور منشی انہیں ان کی مزدوری دینے لگا۔ وہ سب سے پیچھے تھا۔ دن بھر کھڑے کھڑے اس کے پاؤں کی تکلیف بڑھ گئی تھی جب اس کا نمبر آیا تو منشی اس کی حالت دیکھ کر کہنے لگا ‘’تمہارے تو پاؤں میں تکلیف ہے، تم نے کیا کام کیا ہوگا؟’’ یہ کہہ کر سو روپے کا نوٹ اسے تھما دیا۔ وہ کچھ نہ بولا، سامنے مچھلی کے کچھ ٹوکرے ابھی بھی پڑے ہوئے تھے جنہیں دو مزدور آہستہ آہستہ اندر لے جا رہے تھے۔ اس نے منشی سے پوچھا۔۔۔

    ‘’یہ ٹوکرے آپ نے کتنے میں خریدے ہیں؟‘’ منشی نے پہلے تو اسے عینک کے اوپر سے گھور کر دیکھا اور پھر کرخت آواز میں بولا؛ ‘’تین ہزار میں‘’

    ‘’تین ہزار‘’ وہ جیسے خواب میں بڑ بڑایا ‘’تین سو۔۔۔تین ہزار۔۔۔’’

    اسے یوں لگا جیسے اس کے اپنے جسم سے الگ اس کی زندگی کا بھی ایک جسم ہے اور اس زندگی کی پنڈلی میں برسوں سے ایک بہت پرانی جونک منہ پیوست کیئے لٹک رہی ہے اور دن بہ دن پھول رہی ہے۔۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے