جنگل میں
مسزمِتی نے سنا، دروازے پردستک ہورہی تھی۔ کتنی ہی دستکوں کے بعد اس کی آنکھ کھلی۔ بہت نرمی سے، کئی کئی منٹ کاوقفہ دے کر دروازہ تھپ تھپایا جا رہا تھا۔
اصل میں یہ چوکیدار کی مجبوری تھی۔ وہ اس کے برخلاف کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اسے پتا تھا۔
مسزمِتی نے نظروں ہی نظروں میں ہال کا جائزہ لیا۔ اس کے پیروں میں راجا صاحب پڑا تھا، جیسے ڈھے جانے پر فحش مٹی کا ڈھیر۔ چھ آٹھ مکھیاں راجا کے سوجے ہوئے ہونٹوں کی دراڑ میں پک نک منارہی تھیں۔ ایک طرف اکڑ باز چکودی صاحب، جوعام حالات میں بڑا معزز بنتا تھا، یوں پڑا خراٹے لے رہا تھا جیسے سؤر خرخراتا ہے۔
متی صاحب اور چکودی کی بیوی ایک دوسرے کی طرف رخ کیے فرش پر پڑے تھے، شاید ایک دوسرے کے لیے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے انٹاغفیل ہوگئے ہوں گے۔
پھر ایک باردستک ہوئی۔ مسزمتی ایک درجہ اور بیدار ہوگئی۔ آواز نے یادداشت پرچھائی ہوئی کاہلی کے بے ڈھنگے تودے سے ایک ٹکڑا اور کاٹ کے پھینک دیا۔ وہ سب لوگ اتنی گہری نیند میں کب جا پڑے تھے، ظاہر ہے اس وقت اسے بالکل یاد نہیں تھا۔ ویسے جو جو کچھ ہوتا رہا تھا ذرا سی کوشش سے سبھی یاد آتا جا رہا تھا۔ آگ کے گرد ان کا ناچنا اور سؤر کے مردہ جسم سے (جسے انہوں نے آدھا زندہ ہی آگ پرڈال دیا تھا)پارچے کاٹ کاٹ کر کھانا اسے یاد تھا۔
وہ لوگ کہتے تھے کہ ایک رات عہد قدیم کے وحشیوں کی طرح گزاری جائے بے طرح ٹھونستے، نگلتے، بلانوشی اور خومستیاں کرتے لاکھوں برس پہلے کی آدمی کی طرح۔ شراب نوشی سے پہلے چکودی صاحب نے، جوخود کو ان معاملات میں سند سمجھتا تھا، اپنے اس فلسفے پر لیکچر دیا کرتا تھا کہ عہد وحشت کو کبھی کبھی لوٹ کر آنے دیا جائے کیوں کہ گاہے گاہے جوش و ہیجان کا یہ ابال آدمی کے لیے مفید ہوتاہے۔ اس طولانی لیکچر کی کسی کوضرورت نہیں تھی، مگرچکودی بازنہ آیا، اس نے بہرحال تقریر جھاڑدی۔
ایک بارآور دستک ہوئی۔
جوکچھ ہوچکا تھا تیزی سے مسزمتی کوسب یاد آگیا۔
ایک دن پہلے، سہ پہر کے وقت جنگل کے بیچوں بیچ ایک اجاڑ بنگلے تک پہنچنے کے لیے ان کی جیپ میلوں تک جھاڑیوں اور بکھری ہوئی چٹانوں کے درمیان بہت مشکل سے رستہ تلاش کررہی تھی۔ ایک زخمی تتلی جیپ کی پہیوں کی لپیٹ میں آگئی اور مسزمتی نے چیخ ماری۔ دردمندی اس کے چہرے پرمکھن کی طرح چپڑی ہوئی تھی۔
’’تم بڑی نرم دل ہو بے بی‘‘، چکودی صاحب ریشہ خطمی ہوتے ہوئے بولا۔ اس کے گول مٹول چہرے پرجھڑبیری کی طرح اگی ہوئی مونچھ مسزمتی کے چہرے کے اس قدرقریب پہنچ گئی کہ لگتا تھا دردمندی کا ساراہی مکھن چاٹ لے گی۔
چکودی کی بیوی نے یہ سب دیکھا اور ایسے ناک سکوڑی جیسے کسی بدبو سے بچنا چاہتی ہو۔ اس کی آنکھیں بندہوگئیں، وہ سوں سوں کرنے لگی! پھر ایک ایک سلے بل پرجھٹکا دیتے ہوئے بولی، ’’ہاں نا! متی صاحب جیسے بھیڑیے کودیکھتے ہوئے یہ کچھ زیادہ ہی نرم ہے۔‘‘
ہمیشہ کی طرح اس کی بات سننے میں بے ضررتھی، مگرہمیشہ کی طرح جب وہ بات کہہ چکی تو یوں لگا جیسے چکودی کی بیوی کی گردوپیش میں کوئی بیماری چھوڑ کر ہٹی ہے۔
متی صاحب کا سگار گھوم کراس کے دہانے کے گوشے میں پہنچ گیا اور دانتوں کی گرفت میں جھک گیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ بے تکان بولنا شروع کرے گا۔ تقریر کے دوران وقفے وقفے سے وہ سامعین کو بے اعتباری سے دیکھتا بھی جائے گا کہ اب جو وہ دانش کے موتی رول رہاہے توکتنوں کی جھولی بھرسکتی ہے، کتنوں کی خالی ہے۔
متی کہنے لگا، ’’سچ پوچھیے توچکودی صاحب، عورت ایک ایسی مسٹری ہے جسے میں آج تک حل نہیں کرسکا۔۔۔ پرایک بات کہوں گا، کہ یہ جومسزمتی کہلاتی ہیں ان میں کوئی سمجھ نہ آنے والی بات ایسی ضرور ہے جو میں شادی کے اتنے برس بعد بھی اٹکا ہوا ہوں۔ قسم سے، دشمن کی جان لینے سے زیادہ مزا ہے میری اس چاہت میں۔‘‘
’’اچھا چپ کرو! راکشس کہیں کے!‘‘ مسزمتی چہرے پر رومال اور رومال پرچہرہ جھلتے ہوئے جیسے احتجاج کرنے لگی۔
اسی طرح اورکچھ دیرمسزمتی نازک مزاجی دکھاتی رہی اور چکودی کی بیوی کی جھلسن اور بیزاری بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ جیپ گھوم کرایسی جگہ پہنچ گئی جہاں بائیں ہاتھ پر ایک نصف دائرہ میدان سا تھا۔ تین طرف سے یہ میدان پہاڑیوں سے گھرا ہواتھا۔
یہاں مسز متی نے اچانک شوفر کوحکم دیا، ’’روکو!‘‘ جیپ جھٹکے سے رک گئی۔ سب کود کر باہر آگئے اور مسزمتی کے ہاتھ کی سیدھ میں دیکھنے لگے۔ وہ تلوار کی طرح اپنا ہاتھ سونتے، پہاڑی کے دامن میں کھڑے ہوئے ایک اکیلے ہرن کی طرف اشارہ کررہی تھی۔ سب نے آنکھیں گڑا کر دیکھا۔ تاریک چمکیلی چٹانوں کے مقابل بجلی کے ٹھہرے ہوئے لشکارے کی طرح یہ ہرن جیسے اس منظر میں جم کر رہ گیا تھا۔
لمحے بھر بعد وہ ہلا۔ جیپ کی وجہ سے اس کاجنگل میں گھسنے کا رستہ بند تھا۔ اس لیے وہ ایک جھاڑی سے دوسری جھاڑی پرچھلانگیں مارنے لگا۔
چکودی کی بیوی کے سوا سب کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ اور مسز چکودی کی آنکھیں! وہ اس وقت آنکھیں نہیں تھیں، بندوق کی نال سے نکلی ہوئی دوگولیاں تھیں جو ہوا میں آگ لگاتی چلی جارہی تھیں۔
اچانک ہرن نے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا۔ وہ ان لوگوں کے قریب سے زقندیں بھرتا، جنگل میں داخل ہوگیا۔ شوفر شیامل کی بندوق کی نال اس وقت جیسے ہرن کی چھاتی پرجا ٹکی تھی۔
’’شوٹ کرو!‘‘ مسزمتی چیخی۔
شیامل نے گولی نہیں چلائی۔ اس نے بندوق کی نال زمین کی طرف جھکادی، اور ہرن کوسنہری خنجر کی طرح گھنے سرسبز میں داخل ہوجانے دیا۔
آنکھوں کی پانچ جوڑیاں شیامل کے لیے اچانک زہر کی دس پچکاریا ں بن گئیں۔
جواب میں شیامل بولا، ’’وہ گابھن تھی صاحب۔ بچہ تھا پیٹ میں۔‘‘
مایوسی اور غصے میں مسزمتی کی آواز ایک دم گھٹ کر رہ گئی۔ اس نے ہکلاتے ہوئے بہ مشکل اتنا کہا، ’’بدتمیز! ایسی بے ہودہ بات کہنے کی ہمت کیسے کی تونے؟‘‘ لگتا تھا مسز متی رو پڑے گی۔
چکودی نے تسلی دی، ’’نا نا نا، طبیعت پر بار مت ڈالو میڈم! میں اب کے ایسا کچھ کر دوں گا کہ اگلا چانس تمہارا ہی ہوگا۔ بندوق گود میں رکھ کر بیٹھنا۔ ہاں؟‘‘
مسزمتی اب شوفر شیامل کے برابر آبیٹھی۔ بدتمیز آدمی! صاف معلوم ہورہا تھا کہ ان لوگوں کے جذبات کا اسے ذرہ برابر بھی خیال نہیں ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ لفنگا اپنے مالک راجا صاحب کی سوتیلابھائی تھا۔ شیامل شوفر، سورگیہ بڑے راجا جی کے بے شمار ناجائز بچوں میں سے ایک تھا۔ اگرچہ مرتبے کے اعتبار سے بہت نچلے درجے کی ناجائز اولاد تھا، کیوں کہ اس کی ماں ریگولرائز نہ ہوسکی تھی، اسے کل وقتی کنیز کادرجہ ہی نہ مل سکا۔
شیامل، افسردہ آدمی، بعضوں کی نظر میں دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ وہ بڑا ماہر شکاری تھا۔ سورگیہ بڑے راجا جی کا شاہی ناک نقشہ اسے ورثے میں ملاتھا۔ جبکہ راجا صاحب پیٹ بھر کے بدصورت تھے۔ رہی سہی کسر ان کی بے لگام عیاشیوں نے پوری کردی تھی، زندگی کا سارا رنگ، سبھی رس چوس لیا تھا۔ بقول کسے اب تو نصیب میں ٹھنڈی گرمیاں ہی رہ گئی تھیں۔ عورتوں کے گرد منڈلانے، انہیں سونگھتے پھرنے، ان سے بھڑ کر اٹھ بیٹھ لینے سے راجا صاحب کی تسلی ہوجاتی تھی۔
بس اتنے ہی کے لیے راجا صاحب نے یہ جنگل میں منگل ترتیب دیا تھا اور اپنا تقریباً متروک بنگلا کہیں سے جھاڑ پونچھ کے نکالا تھا۔
باقی رستے شیامل خاموش بیٹھا رہا۔ راجا صاحب کی مسلسل بک بک کا ذرا بھی جو اس نے اثر لیا ہو۔
وہ لوگ سہ پہر میں دیر سے بنگلے پرپہنچے۔ ہلکے ناشتے اور بوتل سے شغل کے بعد انہوں نے شکار کے لیے نکلنے کی تیاری کی، مگر شیامل نے جانے سے انکار کر دیا۔ راجا صاحب کچھ دیرتک دہاڑتا رہا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
اور کیوں کہ اچھا بھلاہرن کھو دینے پر مسز متی کی نازک مزاجی کو دھچکا پہنچا تھا، اس لیے ظاہر ہے اس نے کہا کہ وہ بھی شکار پر نہیں جائے گی۔
چکودی کی بیوی نے مسز متی کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا، مگر بلا سے دیکھا کرے۔ مسز متی جانتی تھی کہ اس عورت کو متی صاحب کے ساتھ لگ کرجانے کابہترین موقع ملاہے، وہ یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔ اس کا میاں آس پاس ہی منڈلاتا رہتا تھا، مگر وہ پروا کب کرتی تھی۔ چکودی صاحب تواس لائق بھی نہیں تھا کہ تالی بجاکر مرغے مرغی کو ہُشکا دے۔
مسزمتی اور شیامل کوبنگلے میں اکیلا چھوڑ کربے بسی سے کندھے اچکاتی ہوئی، باقی پارٹی اندر جنگل میں گھس گئی۔
باقی رہ جانے والا سناٹا، جسے تھوڑی تھوڑی دیربعد نامانوس آوازیں درہم برہم کررہی تھیں، دشت کے جھٹ پٹے میں مسزمتی کے لیے ایک آسیبی تجربہ بنتاجا رہا تھا۔ اس نے بوَلا کر ایک اور گلاس بنایا اور چڑھالیا، اکیلے ہی۔
اس وقت جیسے ایک دم مسزمتی کومحسوس ہوا کہ شیامل کی یہ ضدی اداسی اور خاموشی خود اس کے لیے چیلنج ہے۔
اس نے پوچھا، ’’شیامل، یہ کیا آواز ہے؟‘‘
’’شیرکی دہاڑ ہے میڈم۔‘‘
برآمدے میں بچھی کرسی سے چھلانگ لگا کرمسز متی ہال کی طرف دوڑی اور ہڑبڑاہٹ میں دروازے پرہی گرگئی۔ اس وقت تک اس نے اٹھنے کی کوشش نہ کی جب تک کہ شیامل اٹھانے نہ پہنچ گیا اورجب وہ پہنچا تو بس اتنا اٹھی کہ اس کے بازوؤں میں ڈھیرہوسکے۔
پھراپنے اس مصنوعی حادثے کے بارے میں ایک بھی لفظ کہے بغیر وہ خیرہ کن مسکراہٹ کے ساتھ بولی، ’’بڑے ماہر شکاری ہو۔ کیسی آسانی سے شکار گرا لیتے ہو۔‘‘
شیامل کادل اس بچے کی طرح کھیل میں لگ گیا جسے کوئی سینئر ہم جولی مزے مزے کے کھیل سکھا رہا ہو۔
باقی وقت اس نے فرماں برداری کی طرح گزار دیا مگر آخرتک اپنے لفنگے چہرے سے ایک رازدارانہ سی طنزیہ مسکراہٹ نہ ہٹائی اور اسی مسکراہٹ نے مسزمتی کی جیت کی ساری خوشی مٹی کردی۔ جلدہی اسے محسوس ہونے لگاکہ اس کی توہین ہوئی ہے۔ اس کمینے کی طرف سے یہ دُہرا چیلنج تھا۔
راجا صاحب اور پارٹی واپس آئے تو اندھیرا ہوچکاتھا۔ مسز متی تھک کرسوئی تھی اوراس گھنٹے بھربعد اب جب اٹھی تھی تو اسے بخار سا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا۔ جیسے ہی اس کی نظرچکودی کی بیوی پرپڑی، وہ سمجھ گئی کہ یہ عورت بہت سی باتیں قیاس کرکے بیٹھی ہے، جبھی اس کی آنکھیں شیامل پر ٹکی ہوئی ہیں۔ شیامل ہال کے ایک کونے میں پڑاگہری نیند سو رہا تھا اورمسز چکودی آنکھیں گڑائے اسے برابر گھورے جارہی تھی۔ اس کی بھیانک آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ اپنے ساتھ کی گئی اس دغا بازی کو کس شدت سے محسوس کررہی ہے۔
متی صاحب آتے ہی کہنے لگا، ’’ڈارلنگ! مسزچکودی کوسارے وقت یہی فکر ستاتی رہی کہ تمہیں اکیلا چھوڑآئے ہیں۔۔۔ کوئی تکلیف تونہیں ہوئی۔۔۔ ایں؟‘‘
مسزمتی ابھی تک چکرائی ہوئی تھی، مگر اس نے فورا ہی فیصلہ کرلیا کہ چکودی کی عورت کا شبہ دور کرنا ضروری ہے، ساتھ ہی اس سوئے ہوئے منحوس شیامل کی طنزیہ مسکراہٹ بھی مٹاناہے۔ ان ہٹیلے پن کی حد تک احسان فراموش ہونٹوں پر یہ مسکراہٹ صاف پڑھی جارہی تھی۔
چانچہ وہ پھٹ پڑی۔ مسزمتی کی بیلٹ میں ہاتھ ڈال کروہ اسے کھینچتی ہوئی ہال میں لے آئی۔ ’’تمہیں خبرہے؟ خبر ہے اس۔۔۔ اس وحشی نے میرے۔۔۔ مجھے۔۔۔ میں نے بھی اسے وہ جوتے لگائے ہیں۔۔۔ اچھی تھکائی کی ہے حرام زا۔۔۔‘‘
’’کیا؟ کیا اس شیامل نے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں جی! ایسا بھینکر۔۔۔ اوماں! کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا حرامی نکلے گا یہ۔‘‘
کچھ دیرتک ایک بھاری بے ڈھب سناٹا طاری رہا۔ راجا صاحب، جوہمیشہ سے اپنے اس شوفر سے ایک نامعلوم سے کد رکھتا تھا، سوئے ہوئے شیامل کی طرف طیش کے عالم میں پیر پٹکتا ہوا بڑھا، اس کے سر پر جاکھڑا ہوا۔ راجا صاحب گہرے گہرے سانس لے رہاتھا اور اتنی دیر میں پسینے میں تر ہو چکا تھا۔ مگر اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔
اندھیرے میں چکودی صاحب اور متی صاحب اکڑی ہوئی لاشوں کی طرح بے حرکت تھے۔ لگتا تھا دو لٹھے فرش میں گڑے ہوئے ہیں۔ یہ ساکت منظرایک لمحہ بعد اچانک مسزچکودی کی سسکیوں سے درہم برہم ہوگیا۔ وہ سسکتی ہوئی جھپٹی اور نہایت غصے میں اس نے شیامل کو ٹھوکریں مارنی شروع کردیں۔
شیامل ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، مگر اس کی حیرت اور سراسیمگی عارضی تھی۔ مسزمتی کے سوا، سب کے سب چکودی کی بیوی کی پیروی میں اس پر پِل پڑے۔ اس پراتنی وحشت سے لاتیں اور گھونسے برسائے گئے کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس وقت تک مسز متی کی ہسٹیریائی ہنسی بتدریج بڑھتی ہوئی سب سے اونچے سُر پر پہنچ گئی تھی۔
وہ شیامل کو کھینچ کر اس چھوٹے سے کمرے میں پھینک آئے جہاں انہوں نے ابھی ابھی ایک نیم مردہ سؤر ڈالا تھا۔
اس کے بعد وہ ہانپتے ہوئے، صوفوں پرڈھیرہوگئے۔
چوکیدار سے کہہ دیا گیا کہ اب جائے۔ اسے یہاں صبح سویرے آنا ہوگا۔ پھردروازوں کی چٹخنیاں چڑھادی گئیں۔ وہ سب کے سب اونچی دیواروں والے کچن گارڈن میں نکل آئے، جہاں انہوں نے الاؤ جلایا اور دائرے میں بیٹھ کر پینے پلانے لگے۔ بعد میں کسی وقت وہ اندر سے اپنا شکارکیا ہوا سؤرکھینچ لائے، اسے آگ پرڈال دیا۔ پھر پارچے کاٹ کاٹ کروہ لوگ آدھی کچی آدھی پکی بوٹیاں کھاتے، ناچتے اور گاتے رہے۔
رات میں دیرتک یہ جشن جاری رہا۔
ایک بارپھر دستک ہوئی۔ مسز متی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے کھڑکی سے باہردیکھا، ابھی اندھیرا تھا۔
اور تب، خبرنہیں کہاں سے، خوف و دہشت کی ٹھنڈک اس کے وجود میں اترتی چلی گئی، پسینہ بن کراس کے روم روم سے خارج ہونے لگی۔
اس نے آوازیں دے دے کرسب کواٹھادیا۔ چوکیدار نے اس کی آوازسن لی اور دستک دینی بند کر دی۔
سب سے پہلے بات کرنے والا راجاصاحب تھا۔ ’’ہیلو! سب لوگ کو گڈمارننگ! کچھ چائے والے کا بندوبست کیا جائے آں۔۔۔؟ ذرا دیکھوں اس سالے شیامل کا کیا حال ہے۔‘‘
راجاصاحب اس چھوٹے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جس میں شیامل کوپھینکا گیا تھا۔
’’نہیں۔۔۔! پلیزنہیں!‘‘ مسزمتی چیخنے لگی۔ اس نے راجا صاحب کو کمرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔
راجا صاحب حیرت میں ہکلانے لگا، ’’مم۔۔۔ مگر کیوں؟‘‘
مسزمتی کی آنکھوں میں وحشت تھی۔ وہ بولی، ’’فرض کرو اس کمرے میں تمہیں سؤر پڑا ہواملے، شیامل کی بجائے؟‘‘
’’مگرہم نے سؤر تو بھون کے کھا لیا تھا پچھلی رات! کھا لیا تھا نا؟‘‘
’’فرض کرو تمہیں اندرسؤر ملے، شیامل کی بجائے؟‘‘
’’لیکن ہم نے تو۔۔۔ کیوں بھئی۔۔۔؟ سؤر تو کھا لیا تھا نا؟‘‘
’’فرض کرو سؤرملے، شیامل کی بجائے؟‘‘
وہ سب کافی دیرتک خاموش رہے۔
کسی نے کہا، ’’کچن گارڈن میں جا کے تو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ سؤر کا کافی حصہ ادھر پڑا ہونا چاہیے۔‘‘
’’فرگاڈزسیک! کچن گارڈن میں مت جانا‘‘، مسز متی اور مسز چکودی ایک ساتھ چیخنے لگیں، ’’وہاں سؤر کی ہڈیاں نہ پڑی ہوئیں۔۔۔ تو؟‘‘
سناٹا ادبدا کر لوٹ آیا۔ بنگلے کے عقب میں سیار بولنے لگے۔ ان پانچوں میں سے ہر ایک کسی دوسرے کو لرزتا ہوا دیکھ سکتا تھا۔
دوگھنٹے بعد جب متی صاحب جیپ چلا رہا تھا اورباقی لوگ ریت بھرے تھیلوں کی طرح بے جان بیٹھے تھے، راجا صاحب کوشش کرکے ہنسا۔ کہنے لگا، ’’مسزمتی، تمہاری کلپنا یا شاید خواب بھی کیسا فنٹاسٹک تھا۔۔۔ بھئی جوبھی ہو ماننا پڑے گا۔۔۔ تم نے توسبھی کا خون خشک کر دیا تھا۔۔۔ اوریجنل ہو آپ بھی!‘‘
مسز متی یا کسی اور کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو راجا صاحب پھر بولا۔ کہنے لگا، ’’ویسے تو میں نے چوکیدار کو سمجھا دیا ہے۔ پہلے بھی یہ آدمی میرے بہت سے مشکل کام کر چکا ہے۔ میں نے سمجھا دیا ہے، وہ سب بندوبست کردے گا۔۔۔ مطلب ہے اگر واقعی پچھلی رات ہم لوگوں سے کوئی۔۔۔ کوئی کنفیوزن ہوگیا ہے تو وہ سنبھال۔۔۔ ویسے، ہاہا۔۔۔ مسزمتی بلاوجہ ہی ڈررہی تھیں، جیسے لوگ بھوت پریت کو بلاوجہ ہی سپوز کرلیتے ہیں۔‘‘
’’کسے یقین نہیں تھا صاحب‘‘، چکودی صاحب اور متی صاحب دونوں بولے، ’’رات تو سبھی کو پکا یقین تھا۔۔۔ یہ صفا حماقت تھی جو ہم نے کمرہ نہیں کھولا، یا کچن گارڈن میں نہیں گئے۔‘‘
راجا صاحب کہنے لگا، ’’بھئی کہہ نہیں سکتے کہ بھوت ووت صرف وہم ہوتاہے یا کوئی اصلیت بھی ہوتی ہے۔۔۔ بنگلے کے لیے تو اڑا رکھا ہے لوگوں نے کہ وہاں کوئی اثر وثر ہے۔۔۔ سنا ہے بھوت پریت ستر قسم کی بدمعاشیاں کرتے ہیں۔ کیا لگے ہم سب کی کھوپڑی پھرادی ہے۔ الو بنا دیا ہو، کچھ کا کچھ دکھا دیا ہوسب کو۔۔۔ ہاہا۔‘‘ راجاصاحب کوشش کرکے پھر ہنسا۔
اچانک مسزمتی سسکیاں بھرنے لگی اور چکودی کی عورت نے ہسٹیریا کی مریضہ کی طرح ہنسنا شروع کر دیا۔ باقی تینوں آدمی جیسے پھر ریت کی بوریاں بن گئے۔
عورتوں کی سسکیاں اور قہقہے بے رحمی سے کچلتی ہوئی اورغراتی ہوئی ان کی جیپ چلتی رہی، جھاڑیوں اور بکھرے ہوئے پتھروں کے درمیان راستہ بناتی ہوئی چلتی رہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.