Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاکڑاں کا تیلی

اوپندر ناتھ اشک

کاکڑاں کا تیلی

اوپندر ناتھ اشک

MORE BYاوپندر ناتھ اشک

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی شخص کی کہانی ہے، جو تیل کا کام کرتا ہے۔ اپنے بھائی کے بیٹے کی شادی میں شامل ہونے کے لیے وہ کنبے کے ساتھ لاہور جا رہا ہوتا ہے۔ شادی میں خرچ کے لیے اس نے پچھلے دو سال میں چار روپیے جوڑ رکھے ہیں۔ مگر جب اسے لاہور کی مہنگائی کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ لاری اڈے سے کنبے کو واپس گاؤں بھیج دیتا ہے اور اکیلا ہی لاہور چلا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اڑھائی روپے!‘‘ مولو نے طنز سے سرہلاکر اپنی بیوی کی طرف دیکھا، ان نگاہوں سے جو گویا کہہ رہی تھیں کہ کم بخت تانگے والے کی عقل شاید گھاس چرنے چلی گئی ہے۔ ابھی مشکل سے آٹھ ساڑھے آٹھ کا وقت ہوگا، لیکن دن پہاڑ سا نکل آیا تھا۔ سورج عین سر پر معلوم ہوتا تھا۔ گرمی اتنی تھی کہ دم گھٹا جاتا۔ گرد کی ہلکی سی دھند چاروں طرف چھائی ہوئی تھی اور اس وجہ سے شعاعیں اگرچہ سیدھی نہ پڑتی تھیں، تو بھی جسم کے برہنہ حصوں میں نوکیں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔

    مولو نے اپنی بڑی سی پگڑی کو ٹھیک کیا۔۔۔ جسے اس کی بیوی نے رات ریٹھول کے پانی سے دھویا تھا اور چاولوں کی کنی کو پکاکر کلف دیا تھا اور جسے رحماں اور لہراں، اس کی دونوں بیٹیوں نے دونوں طرف سے پکڑ کر آنگن میں چکر لگاکر سکھایا تھا۔۔۔ پھر اس نے اپنی لمبی سفید داڑھی پر، جو ہونٹوں کے پاس پیلی ہو گئی تھی، ہاتھ پھیرا، گٹھری کو بائیں کندھے پر کرکے دائیں ہاتھ سے تہمد کو ذرا سا جھٹکا دیا اور چل پڑا۔ بیباں، اس کی بیوی، نے سامنے جاتے ہوئے تانگے کے پیچھے اڑتی ہوئی دھول میں آنکھیں جمادیں اور بولی، ’’ڈھائی روپے، اس سے تو پندرہ دن تک گھر کا گزارہ چل سکتا ہے، کچھ نہیں تو رحماں اور لہراں کے دوپٹے آسکتے ہیں یا پھر میرے ننھے چراغ کی چند کرتیاں بن سکتی ہیں۔‘‘ اور اس نے گود میں لیے ہوئے ابلی ابلی، سوجی سوجی آنکھوں والے اپنے کالے سیاہ لڑکے کو محبت سے چوم لیا۔

    جوتے کے ساتھ گرد اڑ کر مولو کے تہمد پر پڑ رہی تھی۔ رات اس کی بیوی نے اس کے کپڑوں کو دھویا اور نیل دیا تھا۔۔۔ جو شاید رات کی تاریکی میں زیادہ دیا گیا تھا۔ کیونکہ تہمد کی سفیدی میں ہلکی سی نیلاہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی اور جوں جوں گرد پڑتی تھی اور بھی نمایاں ہو رہی تھی۔ مولو نے پھر ایک بار تہمد کو جھٹکا دے کر اسے ذرا اوپر اٹھاکر ٹھونس لیا، ’’ان سالے تانگے والوں نے سڑک کا ستیاناس کر دیا ہے، مٹی میدہ بن گئی ہے۔‘‘ وہ بولا اور اس نے بیوی سے اور اس کے پیچھے چلی آتے دونوں لڑکیوں اور ساتھ آٹھ سال کے بچے سے کہا کہ وہ سب سڑک چھوڑ کر مینڈھ مینڈھ ہوکر چلیں۔

    لیکن وہاں تو صرف تانگے ہی چلتے تھے۔ جب مولو تین چار میل چل کر بھیلو وال کے پاس پہنچا، جہاں ایک لاری بھی چلتی تھی اور بکریوں اور بھیڑوں کا ایک ریوڑ میں میں، بھیں بھیں، کرتا ہوا قصبہ سے نکلا اور رات بھر باڑے میں بند رہنے کے بعد چنچل اور شوخ بکریاں (جو ابھی مائیں نہ بنی تھیں اور جن کے تھن اتنے بھاری نہ تھے کے ان کے نیچے تھیلی لگانے کی ضرورت پڑے) اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا میمنے قلانچیں بھرنے لگے تو مولو کو اس میدے کی حقیقت کااحساس ہوا۔ گرد اس طرح اڑی کہ اس کے لیے آنکھ کھولنا اور مڑکر اپنے بیوی بچوں کو دیکھنا مشکل ہو گیا۔ جب طوفان کچھ تھما اور بکریوں اور بھیڑوں کی آوازوں کو دباتی ہوئی، چرواہوں کی فحش گالیوں کی کرخت آوازیں حد سماعت سے پرے چلی گئیں تو مولو سڑک کو پار کرکے دوسری طرف گیہوں کے کٹے ہوئے کھیت میں جاکر کھڑا ہوا۔ گٹھری اس نے اتار کر زمین پر رکھ دی اور تہمد اور قمیص کو اچھی طرح جھٹک کر اس نے سر سے پگڑی اتاری۔ اسے اچھی طرح جھاڑا۔ قمیص کے دامن کو الٹا کرکے اس سے منہ پونچھا۔ پھر پگڑی باندھی اور اپنے بیوی بچوں کو آواز دی کہ وہ بھی سڑک کے اس کنارے آ جائیں۔

    گرد دائیں طرف زمین اور آسمان کے درمیان جاکر معلق ہو گئی تھی۔ جو ں جوں ریوڑ آگے جاتا تھا، اس کی لکیر بڑھتی جاتی تھی۔۔۔ اس بڑھتی ہوئی لکیر کی طرف دیکھ کر اور دل ہی دل میں چرواہوں کو کئی فحش گالیاں دے کر آخر مولو نے کہا، ’’بدتمیز! نہیں جانتے کہ راستے میں شریف لوگ جارہے ہیں۔ ذرا خبردار ہی کردیں کہ بھئی ایک طرف ہو جاؤ، بس اڑے چلے جاتے ہیں، جیسے کوئی مہم سر کرنے جا رہے ہوں۔۔۔ حرام زادے! اور اس نے اپنی مونچھوں کو دوبارہ پیار دیتے ہوئے داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔

    شریف سے مولو کا کیا مطلب تھا؟ شاید یہ بات اسے خود بھی معلوم نہ تھی۔ وہ کاکڑاں کا تیلی تھا۔ گاؤں کے اس کنارے، جہاں بڑ کا ایک مہیب درخت بڑھ کر آدھے جوہڑ کو اپنے سائے میں لے چکا تھا، اس نے ایک چھوٹا سا کولھو لگا رکھا تھا۔ بارش ہوتی تو جوہڑ کاپانی اس کے کولھو کے قریب تک آ جاتا، بارش کی وجہ سے راستہ مسدود ہو جاتا۔ ٹانگیں گھٹنوں تک کیچڑ میں دھنس جاتیں اور جوہڑ کے کنارے لگے ہوئے کوڑی کے ڈھیروں کی عفونت بڑ کے سائے کی نمی سے، جیسے وہیں جم کر رہ جاتی، لیکن اپنی زندگی کے پچپن سال مولو نے اسی کاکڑاں میں گزارے تھے، گاؤں سے بیس میل پرے کیا ہوتا ہے، اس کی اسے کوئی خبر نہ تھی۔ زندگی میں شاید دوچار ہی ایسے موقعے آئے تھے، جب اسے ایسے دھلے ہوئے کپڑے پہننے میسر ہوئے ہوں۔۔۔

    عید کے موقع پر وہ یقیناً ہرسال، کپڑے بدلا کرتا تھا، لیکن اس کا کپڑے بدلنا یہی ہوتا کہ ننگے بدن رہنے کی بجائے وہ اس دن قمیص بھی پہن لیتا یا بیباں دھیلے کے ریٹھے لے کر انھیں مل ڈالتی۔۔۔ ورنہ اس کی عمر تو تیل میں سنے، کالے، چیکٹ کپڑوں میں گزر گئی تھی۔ جس طرح پاس رہتے ہوئے بھی جوہڑ کے غلیظ پانی اور اس کے کنارے لگے ہوئے کوڑی کے ڈھیروں میں اس کے لیے عفونت نہ رہی تھی، اسی طرح تیل اور پسینے سے تر گندے، میلے، خستہ اور بوسیدہ کپڑوں کے لیے بھی اس کا احساس بالکل مر گیا تھا۔ رہی گرد تو تیل کے کام سے اس گاؤں میں گزر اوقات کی صورت نہ دیکھ کر اس نے وہیں کولھو کے ایک طرف چاک لگا رکھا تھا۔ جہاں وہ گھڑے، کوزے، لوٹے، دوریاں اور مٹکے بنایا کرتا تھا۔۔۔ ذات سے وہ کمہار تھا یا تیلی اس بات کااسے خود بھی علم نہ تھا۔ اپنے دادا اور پھر اپنے باپ کو اس نے یہی کام کرتے دیکھا تھا اور جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا، وہ یہی کیے جا رہا تھا، جب اس کے ہاتھ تیل میں نہ ہوتے تو مٹی میں ہوتے۔

    رہی تعلیم، سو قرآن پاک کی کچھ آیتوں کے علاوہ جو وہ بڑی محویت سے غلط تلفظ کے ساتھ پڑھا کرتا تھا، اس نے وہ سب گالیاں سیکھی تھیں، جو اس کے دادا، پھر باپ اور پھر بڑے بھائی دیا کرتے تھے۔۔۔ لیکن آج اس مٹی اور اس ماحول کے خلاف، جس میں وہ پیدا ہوا، پلا اور پروان چڑھا تھا، اس کے دل میں جو ایسا نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا اور وہ ان ننگے بدن، غلیظ تہمدوں میں ملبوس چرواہوں کو بدتمیز سمجھنے لگا تو اس کی وجہ تھی، وہ اپنے اس چھوٹے بھائی کے لڑکے کی شادی میں شامل ہونے کے لیے جارہا تھا، جو لاہور میں رہتا تھا۔ یوں بھی دیہاتیوں کی نظروں میں شہر والے شریف یعنی باعزت ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ شریف آدمی کے لڑکے کی شادی میں جا رہا تھا اس لیے خود بھی شریف تھا۔

    دیرو کے کے نزدیک ایک کھال پانی سے بھری ہوئی مزے سے رینگ رہی تھی۔ مولو نے اسے پار کیا۔ پھر گٹھری رکھ کر بچے کو ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا اور اس کی بیوی چھلانگ مار کر ادھر آ گئی۔ رحماں پہلے خود آئی اور پھر اس نے فجے کو پار آنے میں مدد دی، لیکن لہراں کے جوتے کی کیل ابھر آئی تھی اور اس کی دائیں ایڑی میں زخم سا ہو گیا تھا۔ دھرتی گرم لوہے کی طرح تپ رہی تھی، اس لیے وہ ننگے پاؤں چلنے کا حوصلہ نہ کرسکی تھی اور ایڑی اٹھائے اپنے دوپٹے سے گردن کے پسینے کو پونچھتی ہوئی چلی آرہی تھی۔۔۔ اور بہت پیچھے رہ گئی تھی۔

    ’’اری تو پیچھے ہی لٹکی چلی آرہی ہے۔ چلا نہیں جاتا تجھ سے؟‘‘ اور لمحہ بھر کے لیے اپنی شرافت کو بھول کر مولو نے ایک فحش گالی اپنی اس لڑکی کو دے ڈالی۔

    ’’مجھ سے چلا نہیں جاتا ابا۔ میخ نکل آئی ہے۔‘‘ اس نے رونکھی آواز میں کہا۔ مولو نے گٹھری اٹھاکر کنارے کے ایک جامن کے درخت کے نیچے رکھ دی اور بولا، ’’لا ادھر، میں اس میخ کو ٹھیک کر دوں۔ ابھی گیارہ میل ہمیں جانا ہے۔‘‘

    بیباں اپنے آنچل سے اپنے آپ کو ہوا کرتی ہوئی وہیں درخت کے نیچے گھاس پر بیٹھ گئی اور ننھے کو دودھ پلانے لگی۔ رحماں نے کھال کے پانی سے منھ دھویا اور گیلا ہاتھ فجے کے منھ پر پھیرا۔ لہراں نے وہاں پہنچ کر جوتے اپنے باپ کو دیے اور خود لنگڑاتی آکر اپنی ماں کے پاس بیٹھ گئی۔ مولو نے میخ کو دیکھا۔ اس کی پتلی سی نوک، جس کا زنگ زخم کی نمی سے صاف ہو گیا تھا، کم سن باغی کی طرح سراٹھائے چمک رہی تھی۔ کہیں سے ایک اینٹ کا ٹکڑا ڈھونڈ کر مولو نے اسے کند کر دیا۔ پے درپے چوٹوں سے اسے بہت زیادہ اندر کو دھکیل دیا اور پھر منھ پر پانی کے چھینٹے مار کر تہمد کی الٹی طرف سے منھ پونچھتا ہوا، کچھ لمحے سستانے کے لیے اپنی بیوی کے پاس آ بیٹھا۔

    ’’ڈھائی روپے؟‘‘ اس کی بیوی نے کہا، ’’جیسے ہمارے گھر روپوں کی بارش ہوتی ہو۔ پھر دیکھو اپنی تو جیسے ہو سو ہو، وہاں جائیں گے تو کیا خالی ہاتھ جائیں گے۔ حسن خاں کے بچوں کے لیے بھلا کچھ نہ لے جائیں گے۔‘‘ یہ حسن خاں جو اپنی زندگی کے پینتیس برس تک گاؤں میں، صرف حسو کہلاتا رہا۔ لاہور میں ایشور سنگھ گورنمنٹ کانٹریکٹر کا میٹ تھا۔۔۔ جب لوپوکے کے پاس نہر بنی اور ٹھیکہ دار ایشور سنگھ ادھر آیا تو نہ جانے کس طرح (مولو آج تک اس بات کو نہیں سمجھ سکا۔) حسو جاکر اس کے مزدوروں میں شامل ہو گیا۔۔۔ چھ آنے روز پر۔۔۔ پھر ٹھیکہ دار ایشور سنگھ نے اس کے کام سے خوش ہوکر اسے پانچ روپے مہینے پر میٹ بنا لیا اور پھر آٹھ کر دیے اور جب اس کا کام ختم کرکے ٹھیکہ دار ایشور سنگھ لاہور چلا گیا تو اپنے اس معتبر میٹ کو بھی ساتھ ہی لے گیا۔ گاؤں میں ایک بار جب وہ آیا، تو اس نے چوڑے پائنچوں کی شلوار، بوسکی کی دھاری دار قمیص اور سر پر کلے دار صافہ پہن رکھا تھا، جس کا طرہ ایک پھول کی طرح کھلا ہوا تھا۔۔۔ اسی دن سے حسو، حسن خاں بن گیا تھا۔ اسی کے لڑکوں کے لیے مٹھائی لے جانے کا خیال بیباں کو تھا۔

    اس جامن کے سایے میں بیٹھے بیٹھے اپنی تہمد کی گانٹھ سے مولو نے سب پیسے نکالے، اکثر پرتیل اور مٹی کی کالی تہ جم گئی تھی اور اگرچہ زمین سے نکال کر تہمد میں باندھنے سے پہلے انہیں اچھی طرح دھو لیا گیا تھا، تو بھی تہمد کا وہ حصہ، جس میں اس نے انہیں باندھا تھا۔ کالا ہو گیا تھا۔ اگرچہ وہ گھر سے انہیں گن کر لایا تھا، پھر بھی گھاس پر تہمد کا ایک پلا بچھا کر اس نے انہیں دوبارہ گنا۔ چار روپے اور کچھ آنے تھے۔ یہ رقم اس نے بڑی مشکل سے پیسہ پیسہ کرکے دوسال میں جمع کی تھی۔ جونہی حسو کا لڑکا آٹھ سال کا ہوا اور اس کی سگائی ہوئی، انہیں اس بات کی فکر ہو گئی کہ اس کا نکاح بس اب نزدیک ہی ہے، اس لیے انہیں کچھ نہ کچھ پس انداز کرنا چاہیے اور چونکہ حسو نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ لڑکے کی شادی وہ اب لاہور ہی میں کرےگا، اس لیے دو سال سے وہ اس کے بیاہ کی بات سوچ رہے تھے۔ پچھلے برس وہ صرف دو روپے بچا سکا تھا اور اس سال صرف دو روپے اور کچھ آنے۔۔۔

    ان دو برسوں میں اس نے محنت بھی کم نہ کی تھی۔ جتنی سرسوں وہ حاصل کر سکتا تھا، اس نے حاصل کی تھی۔ جتنا تیل ارد گرد کے پانچ دس گاؤں میں بیچا جا سکتا تھا، اس نے بیچا تھا اور اپنی سپلائی کو بڑھانے کے لیے اس نے سرسوں میں توریا ملانے سے بھی پرہیز نہ کیا تھا۔ پھر فصل کے دنوں میں اس نے کٹائی کا کام بھی کیا تھا اور پیروں کے میلوں میں گھڑوں اور مٹکوں کی دوکان بھی لگائی تھی۔ لیکن اس پر بھی وہ گزشتہ دو برس میں یہی کچھ بچا سکا تھا اور بےسالن کی سوکھی روٹی سے زیادہ انہیں کبھی کچھ میسر نہ ہوا تھا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شادی کے خیال سے اس نے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو گبرون کی ایک ایک قمیص اور دریس کی ایک ایک ستھنی سلوا دی تھی۔ خود بھی ایک تہمد اور صافہ لیا تھا اور فجے کو بھی چھوٹا سا تہمد لے دیا تھا۔ لیکن ان سب کے لیے تو وہ بھیلو شاہ کا قرض دار تھا، جس سے اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال وہ جتنا تیل نکالےگا، سب اس کی دوکان میں ڈال دےگا۔

    وہیں جامن کے نیچے بیٹھے بیٹھے مولو حساب لگانے لگا۔۔۔ اگر وہ اٹاری سے جاکر چڑھیں، تو چار چار آنے تو موٹر کے لگیں گے۔ اس طرح ساڑھے چار ٹکٹوں کے۔۔۔ لیکن بیباں نے اس کی بات کاٹ کر کہا، ’’ساڑھے چار کیسے؟ فجے کا ٹکٹ کس طرح لگ سکتا ہے۔ ابھی تو کل کا بچہ ہے، تم اسے گودی میں اٹھا لینا۔‘‘

    ’’یہ موٹر والے ایک ہی شیطان ہوتے ہیں، اگر مانگیں گے تو؟‘‘ مولو نے کہنا شروع کیا، ’’سنا ہے تین سال سے بڑے کا ٹکٹ لگتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں لگتا ہے۔‘‘ بیباں بولی، ’’وہ نہ مانگیں تو بھی تم دے دینا۔‘‘

    ’’تو خیر۔‘‘ مولو بولا، ’’ایک روپیہ ہی سہی، پھر لاہور شہر ہے، وہاں حسو کی شان ہوگی۔ پیدل گھسٹتے ہوئے، تو اس کے ہاں نہ جایا جا سکےگا۔ پڑوسی نہ کہیں گے۔ کیسے بھک منگے رشتہ دار ہیں۔ تین چار آنے تانگے پر بھی نہ خرچ کر سکے۔‘‘

    بیباں کو خود بھی اس بات کا یقین تھا اور اپنے بچوں کو بھی اس نے یہی یقین دلایا تھا کہ چچا کے گھر سے انہیں بہت کچھ ملےگا۔ اس لیے اس نے کہا، ’’ایک روپیہ کی مٹھائی حسو کے بچوں کے لیے بھی لے جانا جب وہ ہمارے بچوں کو اتنا کچھ دیں گے تو ہم کس طرح خالی ہاتھ جائیں گے۔‘‘ اور وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے حساب لگایا کہ اس طرح سب خرچ نکال کر ان کے پاس بارہ آنے ایک روپیہ بچ جائےگا۔

    ننھی لہراں نے اچانک کہا، ’’میرے پاؤں میں چھید ہو گیا ہے، میرا جوتا گھس گیا ہے، مجھے ایک جوتا لے دینا۔‘‘ رحماں بولی، ’’مجھے ایک چنری کی ضرورت ہے، چچاکی لڑکی کے سامنے کیا میں یہ پھٹی ہوئی چنری پہنوں گی۔‘‘ فجے نے کہا، ’’ابا ہم تو بوٹ لیں گے۔‘‘

    ’’چلو ہٹو۔۔۔‘‘ بیباں نے ایک جھڑکی دی، ’’سات آٹھ دن وہاں رہنا ہے، تو کیا اپنے پاس ایک کانی کوڑی تک نہ رکھیں گے۔ پھر گرمی کی بہار ہے۔ راستے میں شربت لسی ہی کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘‘

    لوپوکے کے پاس انہیں ایک تانگہ جاتا ہوا ملا۔ لیکن جب اس نے اٹاری کے پانچ پانچ آنے فی سواری مانگے تو مولو نے کچھ جواب نہ دیا۔ تہمد کو پھر اوپر ٹھونس کر، پگڑی کے شملے سے گردن اور منھ کا پسینہ پونچھ کر اور گٹھری کے بوجھ سے آہستہ آہستہ دبنے و الی گردن کو اٹھاکر وہ چل پڑا۔ لہراں اور فجے نے ایک بار کہا، ’’ابا تانگہ!‘‘ کڑک کر مولو نے انہیں چپ کرا دیا۔ بیباں نے بھی بچے کو کندھے سے لگاکر منہ میں انگلی ڈال کر اسے جھلاتے ہوے۔۔۔ او۔۔۔ او۔۔۔ کرنا شروع کر دیا اور جب اس پر بھی بچہ نہ مانا تو قمیص کے بٹن کھول کر اپنی چھاتی نکال کر اس کے منہ میں دے دی۔

    سڑک بالکل کچی تھی۔۔۔ سڑک تو اسے کہا بھی نہ جا سکتا تھا۔ کسی زمانے میں وہاں ضرور سڑک ہوگی۔ لیکن اب تو اس کی وسعت کو دیکھ کر، اس پر گرد کے کسی ایسے دریا کا گمان ہوتا تھا جس کے دونوں کنارے وسیع ہوتے ہوتے اردگرد کی ویران زمین سے جا ملے تھے۔ ہاں دونوں طرف پرانہہ کے بے سود، ٹیڑھے میڑھے، سوکھے اور بدصورت درخت اس سڑک کے وجود کا پتہ دیتے تھے اور کہیں کہیں کوئی ببول کا درخت، اپنی کانٹے دار شاخوں کو سڑک پر پھیلائے ہوئے تھا، کہ اگر کہیں گرمی کی تمازت سے جلتا ہوا کوئی شخص سایے میں آنے کی کوشش کرے تو اس کی پگڑی اتر جائے یا اس کا چہرہ زخمی ہو جائے۔

    لہراں کے جوتے کی میخ پھر نکل آئی تھی اور زخمی ایڑی کو وہ اور بھی زخمی کر رہی تھی۔ اس لیے اس نے جوتے ہاتھوں میں اٹھالیے تھے۔ گرد، دہکتی ہوئی راکھ کی طرح جل رہی تھی اور بار بار جب گرد میں ٹخنوں تک پاؤں دھنس جاتے تو سارے جسم میں ایک جلن کی لہر سی دوڑ جاتی لیکن میخ کی چبھن سے ٹیس کی جو لہر دوڑتی تھی وہ شاید جلن کی اس لہر سے کم تکلیف دہ تھی اور جوتے اتارے وہ چلی جارہی تھی، مگر اس کے باوجود وہ سب سے پیچھے تھی اور مولو اب بھی سب سے آگے تھا۔ اتنی عمر ہو گئی، مولو کبھی اس سڑک پر نہ آیا تھا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ یہ سڑک اتنی ویران اور واہیات ہے تو وہ کبھی اس طرف کارخ نہ کرتا۔ خصوصاً اس وقت جب بچے اس کے ساتھ ہوتے۔ اس کے کولھو پر تو بڑ کا گھنا سایہ تھا اور کبھی کبھار ارد گرد کے دیہات میں تیل لے کر جانے یا پھر میلے ٹھیلے کے دنوں میں مٹی کے برتنوں کی دوکان لگانے کے سوا وہ کبھی گاؤں سے باہر نہ گیا تھا۔ اس نے کبھی اس طرف کا سفر نہ کیا تھا۔ اس کی دنیا تو بڑ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں بستی تھی، جہاں جلتی ہوائیں بھی سرد ہو جاتی تھیں اور دوپہر کی دھوپ بھی ٹھنڈک پہنچاتی تھی اور کبھی جب وہ خدا کے حضور میں سر جھکاتا تو اس کا جو وجود اس کے دماغ میں آتا،وہ کچھ بڑ کے گھنے پیڑ ہی کی طرح کا ہوتا۔۔۔ بڑی بڑی لمبی شاخوں والا گھنا۔ سایےدار تپتے دلوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا۔ بےشمار گھونسلوں کو اپنی شاخوں میں چھپائے ہوئے لیکن یہ تپتی ویران دنیا، ہریالی کا ایک تنکا تک نہیں اور اس کے درمیان کسی جلتے ہوئے تیر کی طرح جلتی، تپتی، جلاتی اور تپاتی ہوئی یہ سڑک!

    اگر اسے معلوم ہوتا تو ہرگز اپنے بچوں کو یوں ساتھ نہ لاتا۔۔۔ ہرگز ہرگز نہ لاتا۔ لیکن اس خیال کو اس نے فوراً اپنے دل سے نکال دیا اور وہ پھر اکڑ کر چلنے لگا۔ تہمد کو جھٹکا دینے یا قمیص کو جھاڑنے کا خیال وہ کب کا بھول چکا تھا۔۔۔ کوئی سائیکل سوار یا بھولا بھٹکا راہی بھی گزرتا تو اس پر گرد کی تہ چھا جاتی۔ لو کبھی ادھر سے چلتی اور کبھی ادھر سے اور کبھی کبھار کوئی بگولا، مٹی اڑاتا ہوا گزر جاتا۔۔۔ تہمد کا نیلاہٹ لیے ہوئے سفید رنگ اب مٹیالا ہو گیا تھا۔ پگڑی کی وہ دمک نہ رہی تھی اور کپڑوں کی الٹی طرف سے چہرے یا گردن کا پسینہ پونچھنے کی بجائے اب وہ سیدھی طرف ہی کو کام میں لانے لگا تھا۔

    اس سے کچھ فاصلے پر اس کی بیوی چلی جا رہی تھی۔ اس کی تمام تر کوشش بچے کو پچکارنے کی طرف لگی ہوئی تھی۔ پھر رحماں تھی۔۔۔ اپنے خیالات کی دنیا میں مست، شاید اپنے پڑوسی گوالے نورے کا خیال اسے اس چلچلاتی دھوپ کی شدت کو محسوس نہ ہونے دیتا تھا۔ اس کی انگلی تھامے فجا چلا آ رہا تھا۔۔۔ جسے کبھی وہ اٹھالیتی تھی اور کمر، کندھا یا بازو تھک جانے پر پھر اتار دیتی تھی۔۔۔ اس کا پھول سا چہرہ کمھلا گیا تھا، ہونٹ سوکھ گئے تھے، گندے میلے ہاتھوں سے بار بار منھ کا پسینہ پونچھنے کی وجہ سے چہرے پر کئی داغ لگ گئے تھے اور اس کی چال بتدریج دھیمی ہوتی جا رہی تھی۔

    نہر کے پل کو پار کرکے مولو نے دیکھا۔۔۔ دائیں طرف ایک گھنا پیڑ ہے۔ مادہ بڑکا۔۔۔ جس کا تنا بہت اونچا نہیں اٹھتا۔ موٹی موٹی لمبی لمبی شاخیں سر کو چھوتی ہوئی چھتری کی طرح پھیلتی جاتی ہیں۔ اس کی شاخوں پر دو مور بیٹھے ہیں، بے فکر اور مست، ان کے لمبے لمبے نکیلے پنکھ دھرتی کو چھو رہے ہیں اور دور کسی رہٹ کی گادھی پر بیٹھا ہوا کوئی جاٹ ہیر وارث شاہ الاپ رہا ہے۔۔۔ اس کی سریلی، باریک لیکن لوچ اور سوز بھری اونچی آواز اس ویران خاموش دوپہر میں گونجتی، لہراتی ہوئی، اس تک آ رہی تھی۔

    گھر آننان نے گل کیتی، بھابی اک جوگی نواں آیانی

    کنیں اوسدے درشتی مندراں نے تے گلے ہیکلا عجب سہایانی

    ماضی کی بھولی بسری منزلوں کو پار کرکے آنے والی یاد کی طرح، نوخیز جوانی کے دن مولو کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے، جب وہ اپنے بڑ کی موٹی شاخ پر بیٹھ کر یا کسی آم یا جامن کے درخت سے پیٹھ لگائے، ہیر وارث شاہ گایا کرتا تھا اور اس کے جی میں آئی کہ وہ پورے گلے سے تان لگائے ہوئے اگلا بند اٹھائے،

    پھرے ڈھونڈا وچ حویلیاں دے، کوئی اداس نے لال گنوایانی

    ہیرے کسے رجونس وا اوہ پتر، روپ تدھ تھیں دون سوا یانی

    لیکن یہ تان اس کے جی ہی میں رہی۔ اپنی لمبی داڑھی، اپنے شریف لباس اور اپنے پیچھے چلے آنے والے بچوں کا اسے خیال آ گیا اور اس کے دل سے ایک لمبی سانس نکل گئی۔ قریب قریب روتے ہوے سوکھے گلے سے فجے نے کہا، ’’ابا مجھے پیاس لگی ہے، ابا مجھے اٹھا لو۔‘‘ اور مولو نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ لہراں بےچاری تھک کر پرانہہ کی ایک ٹیڑھی سی جڑ پر بیٹھ گئی۔

    ’’مر گئی وہاں ہی تو!‘‘ کڑک کر مولو نے کہا۔ لہراں اٹھی اور لنگڑاتی لنگڑاتی چلنے لگی۔ پھر مولو نے مڑ کر اپنے بیٹے کو ڈانٹا کہ ذرا دم لے، وہ سامنے تو چوگاواں نظر آ رہا ہے، وہیں تمہیں لسی پلائیں گے اور چوگاواں تک تو وہ دونوں کسی نہ کسی طرح چلتے گئے تھے، لسی پانی سے زیادہ ان کی تسکین کا باعث یہ خیال تھا کہ ابا وہاں سے ضرور تانگہ لےگا۔ لیکن جب کچھ سستانے اور سوکھی روٹی اور تیل کے پکوڑوں کو، جو ان کے ابا نے اڈے سے لیے تھے، پانی کی مدد سے پیٹ میں پہنچانے کے بعد انہیں پھر کوئک مارچ کا حکم ہوا، تو وہ چل تو پڑے، لیکن مارچ نہیں کر سکے، چوگاواں سے ونی کے تک اس مارچ میں کئی ہالٹنگ سٹیشن آئے، جب کہ وہ ایک بیمار تھکے ہوئے گھوڑے کی طرح اڑ گئے اور جھڑکیاں، گالیاں، یا ایک دوبار چانٹے کھا کر پھر چل پڑے۔ لیکن ونی کے کے موڑ پر جو وہ رکے، تو پھر نہیں بڑھے، تھپڑ کھانے کے بعد بھی فجا ٹس سے مس نہ ہوا اور گالیاں کھا کر بھی لہراں بیٹھی دوپٹے سے آنسو پونچھتی رہی۔

    مولو نے تانگے والے سے بالکل ہی نہ پوچھا ہو، یہ بات تو نہ تھی۔ پوچھا تھا، لیکن بغیر سوار ہونے کے خیال سے اور یہ معلوم کرکے کہ لوپو کے سے چوگاواں تک وہ گرد کاسمندر پار کرنے کے باوجود ابھی تک کرایے میں صرف ایک آنے کی تخفیف ہوئی ہے اور آگے سڑک پکی ہے اور کہیں کہیں شیشم کے درخت بھی ہیں، وہ چل پڑا تھا۔ تھپڑ کھا کر فجا رونے لگا، لیکن اٹھا نہیں، تب بیباں نے اسے پیار دے کر اٹھانا چاہا اور ننھے کو رحماں کے حوالے کرکے اسے گود میں لے لیا۔ ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہی وہ سہم کر پکار اٹھی۔

    ’’دیکھو تو اسے پیٹ رہے ہو، اس کا پنڈا تو بھٹی بنا ہوا ہے۔‘‘ اور تب بخار کے زور سے تپے ہوئے اپنے لڑکے کے چہرے کو دیکھ کو مولو پگھل اٹھا۔ اس نے بادل ناخواستہ ایک جاتے ہوئے تانگے کو روکا اور اٹاری کا کرایہ پوچھا، ’’چار چار آنے۔‘‘

    ’’چار چار آنے؟‘‘ لیکن اتنا تو چوگاواں سے مانگتے تھے۔

    ’’تم کیا دیتے ہو؟‘‘

    ’’ایک ایک آنہ لے لو۔ تین ساڑھے تین میل ہم چل بھی تو آئے ہیں۔‘‘

    ’’تو وہیں سے جاکر چڑھ جاؤ۔‘‘ اور تانگے والے نے ہنٹر گھمایا اور تیری ماں مرجائے، کہتے ہوئے اسے گھوڑے کی پیٹھ پر جما دیا۔

    ’’چھ چھ پیسے لے لو۔‘‘ مولو بولا۔ لیکن گھوڑا چل پڑا۔

    ’’دو آنے۔‘‘

    ’’اڑھائی آنے۔‘‘ اس نے حلق کی پوری آواز سے کہا۔ تانگہ کافی دور جاکر رک گیا۔ سواریاں تو پوری تھیں لیکن بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، کے مصداق تانگے والے نے یہ دس بارہ آنے چھوڑ دینے مناسب نہ سمجھے۔ اگرچہ جہاں دو کی جگہ تھی وہاں چار بیٹھے اور سانس تک لینا مشکل ہو گیا، لیکن پھر بھی یہ کہنا بیجا نہیں کہ سب نے تانگے میں بیٹھ کر سکھ کی سانس لی۔ جب پلک جھپکتے ہی (کم سے کم مولو کو ایسا ہی معلوم ہوا) اٹاری کا موڑ آ گیا اور تانگے والے نے کہا کہ اگر جلدی لاہور کی لاری پکڑنا چاہتے ہو تو یہیں اتر جاؤ، تو مولو کے دل کو دھکا لگا۔

    ’’اڈہ آ گیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’اڈہ تو آگے ہے، لیکن یہاں اتر جاؤگے تو جلدی موٹر مل جائےگی۔ نہیں تو اڈے پر بہت دیر تک بیٹھنا پڑےگا۔ وہاں اور لوگ بھی تو ہوتے ہیں اور آج کل ٹریفک پولیس بھی بڑی سخت ہو گئی ہے۔‘‘ یہ ٹریفک پولیس کیا بلاہے، یہ بات مولو کی سمجھ میں نہیں آئی۔ بھویں تریر کر تانگے والے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولا، ’’یہ سب چالاکیاں میں سمجھتا ہوں۔‘‘ لیکن جب تانگے میں بیٹھی ہوئی دوسری دو سواریاں بھی وہیں اترپڑیں اور دوسروں نے بھی کہا کہ اگر لاری جلدی پکڑنی ہو تو یہیں اترجاؤ، تو وہ بھی اتر پڑا۔ لیکن گرج کربولا، ’’بس یہیں تک لانے کے تم بارہ آنے مانگتے ہو۔‘‘ تانگے والے نے کہا، ’’تمہاری مرضی، تم اڈے تک چلے چلو۔‘‘

    مولو کا جی چاہ رہا تھا کہ اس پاجی تانگے والے کو اتار کر سڑک پر پٹک دے۔ اس نے چیخ کر کہا، ’’تم لٹیرے ہو۔‘‘ تانگے والے نے ہنٹر اٹھایا، ’’زبان سنبھال کر بات کرو میاں!‘‘ اس وقت بیباں تانگے سے اترکر دونوں کے درمیان آ گئی، ’’طیش میں نہ آؤ بھائی، ہم پیسے مار کر لے نہ جائیں گے۔ آدمی آدمی تو دیکھ لیا کرو تم!‘‘ مولو کوئی غلیظ سی گالی دینے جا رہا تھا، کہ یہ سن کر گالی دینے کی بجائے اس نے وہی کالے سیاہ ۴۸ پیسے تانگے والے کے ہاتھ پر گن دیے اور بچوں کو اتارنے لگا۔

    ’’بارہ آنے تو اسے دے دیے، اب وہاں کس طرح کام چلےگا؟‘‘ بیباں نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ مولو چیخ کر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اس کی نظر اپنے ننھے بچے کی طرف چلی گئی۔ جس کا چہرہ بخار کی شدت سے اور بھی سیاہ ہو رہا تھا۔ اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ پھر کرتا اٹھا کر پیٹ کی حرارت دیکھی، ’’جسم تو اس کاجل رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا اور پھر ایک آتی ہوئی موٹر سے بچانے کے لیے اپنے بیوی بچوں کو ایک طرف کرکے، وہ انہیں کنارے پر لگے ہوئے شیشم کے سائے میں لے چلا۔

    ’’ارے مولو، تم کدھر؟‘‘ حیرت سے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ایک شخص نے پوچھا، جو مولو کے گاؤں ہی کا تھا۔ اداس آواز میں مولو نے کہا، ’’حسن کے لڑکے کی شادی ہے، وہیں جا رہا تھا کہ راستے میں لڑکوں کو بخار نے آ دبا یا۔‘‘

    ’’کہاں جا رہے وہاں؟‘‘

    ’’وہاں اچھرہ میں ٹھیکیدار اشیور سنگھ رہتا ہے، وہیں جانا ہے، نہ ہوگا بھائی، تانگہ لے لیں گے۔ تین چار آنے دے دیں گے۔‘‘

    ’’تین چار آنے۔‘‘ وہ ہنسا، تم لاہور کبھی گئے نہیں، ارے بھائی، وہاں ایک روپیہ سے کم میں تانگہ نہ جائےگا۔‘‘ مولو نے ان نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، جو شاید کہہ رہی تھیں کہ ایک روپیہ کی مٹھائی حسن کے بچوں کے لیے بھی لینی ہے اور پھر واپس آنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں اور بیباں کی نگاہیں شاید کہہ رہی تھیں کہ اس موئے تانگے والے نے یوں ہی ہمارے بارہ آنے لوٹ لیے۔

    ’’تم کدھر آئے تھے مہر خاں؟‘‘ مولو نے پوچھا۔

    ’’بھیلو شاہ کی بوریا اسٹیشن پر چھوڑنے آیا تھا۔‘‘

    ’’تو اب واپس جا رہے ہو۔‘‘

    ’’چلا ہی جا رہا ہوں، یوں ہی ذرا دم لینے کے لیے رک گیا تھا۔‘‘

    تب پھر مولو نے بیباں کی طرف اور بیباں نے مولو کی طرف دیکھا اور مولو نے کہا، ’’کیا کہوں یار، حسو نے تو بہیترا کہا تھا کہ بیوی بچوں کے ساتھ آنا۔ لیکن یہاں آتے آتے بچے بیمار ہو گئے ہیں۔ فجا اور چراغ بخار سے تپ رہے ہیں اور لہراں کا پاؤں زخمی ہو گیا ہے، سوچتا ہوں کہیں تکلیف بڑھ نہ جائے۔ شادی کا معاملہ ہے کھانے پینے میں پرہیز رہتا نہیں۔ پھر وہاں وہ بات تھوڑے ہی ہے، جو اپنے گھر میں ہے۔ ڈاکٹر۔۔۔‘‘

    ’’یہ ڈاکٹر سالے تو اچھے بھلے کو بیمار کر دیتے ہیں۔‘‘

    ’’ارے بابا ان تک ہماری پہنچ کہاں۔‘‘ اور پھر ایک بار اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر مولو نے کہا، ’’تم ایک مہربانی کرو مہر خاں، ان سب کو واپس لے جاؤ۔ مجھے تو جانا ہی ہوگا۔ کل برات چڑھے گی۔ لیکن ان سب کو تم لے جاؤ۔‘‘

    اور پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے بیوی بچوں کو بیل گاڑی پر چڑھانا شروع کر دیا۔ مہر خاں گاڑی پر آ بیٹھا۔

    ’’راستے میں بھیلو وال کے حکیم نرنجن داس سے کچھ دارو لیتی جانا۔‘‘ گاڑی کے پیچھے چلتے مولو نے اپنی بیوی سے کہا۔ اس وقت دور سڑک پرامرت سر کی طرف سے ایک لاری آتی ہوئی دکھائی دی۔ مولو نے جلدی جلدی اپنے بچوں کو پیار کیا۔ فجے کی جلتی ہوئی پیشانی کو چوما، ’’تمہارے لیے ہم بوٹ لائیں گے۔‘‘ لہراں کے سر پر ہاتھ پھیرا، ’’تمہارے لیے نیا جوتا لائیں گے۔‘‘ رحماں کو ڈانٹا، ’’بچوں کا خیال رکھنا اور ماں سے لڑنا نہیں۔‘‘

    پھر گٹھری اٹھائے بھاگتا ہوا کولتار کی سیاہ سڑک پر آ کھڑا ہوا اور اس نے آتی ہوئی لاری کو روکنے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے