کالا پہاڑ
پراچی ندی کے ساحل پرایک عام محلے میں وہ خاندان مقیم ہے۔ اچانک ایک دن اس خاندان میں ہلچل سی نظرآئی۔
پراچی ندی کابہت ساراپانی بہہ گیاہے۔ وقت کے قہقہوں سے گونجتی ہوئی ان گنت شامیں گزرچکی ہیں لیکن اس شام نے جے شیلااورلوک کانت دونوں کے دلوں میں ایک وقیع نقش مرتسم کردیاتھا۔
کہانی بہت پرانی ہے۔ جے شیلاسورگباشی ہوچکی ہے، لوک کانت حیات ہیں۔ کبھی کبھی ان تھک دوپہر یاڈھلتی دوپہراورآنے والی شام کے جھٹپٹے میں پراچی کی طرف دیکھتے ہوئے وہ نہ جانے کتنی باتیں سوچتے۔ اپنے کارنامہ جات کوبچوں کی طرح وہ اب بھی یادکرتے۔ لاشعور سے ایک کینچلی میں لپٹاہوازہریلاسانپ نکل کران کے جسم سے لپٹ کراپنی مسلسل متحرک دونوں اُن پرگڑاکرطنزکرتے ہوئے کہتا،
’’اے انقلابی دوراں! آپ نے خوب کارنامہ انجام دیاہے۔ اے عظیم دانشور! شاہراہ کو ترک کرکے گلیوں میں داخل ہوکرآپ نے جوچیزایجادکی ہے وہ بیش قیمت اور لائق تحسین ہے۔ اس کے بدلے میں ملک نے آپ کوجو کچھ دیاہے، اس کے علاوہ کچھ اوربوسے میں بھی آپ کے اعضا پرثبت کیے جارہاہوں جوہرچندکہ زہریلے ہیں لیکن توقع ہے کہ آپ قبول کریں گے۔‘‘
لوک کانت لرزجاتے۔ پراچی ندی کے آب رواں میں ان کا مردانہ حسن منعکس ہونے لگتا۔ ذراسی دوری پرواقع مقدس ماں منگلاکے مندرسے آرتی کے گھنٹے کی بازگشت آنے لگتی۔
لوک کانت نے اس ناقابل فراموش شام کوباہر سے دوڑکرہانپتے ہوئے آنے کے بعد آوازدی۔۔۔ جے شیلا، دروازہ کھول دو۔
جے شیلا نے فورا دروازہ کھول کردیکھا، شوہر نے کاندھے پرکچھ رکھا ہے اوراس چیزپران کی چادرلپٹی ہے۔ اس شے میں طول تھا، عرض تھا اور بلندی بھی تھی۔ وزنی بھی معلوم ہوتی تھی ورنہ لوک کانت اسے اٹھاکرلانے میں ہانپنے نہ لگتے۔
’’دروازہ بندکرکے چٹخنی چڑھادو۔ میں اسے اپنے شانے سے نہیں اتاروں گا۔ جے درگاکہہ کرآیاہوں، اسی درگا نام لے کر کام کوتکمیل تک پہنچاؤں گا۔ جے شیلا! چراغ لے کرتم ایک گھنٹے تک صرف درگا کانام دہراؤ اور پرارتھنا کروکہ سبھی رکاوٹیں، دشواریاں اورصعوبتیں وغیرہ پرمیشوری برابھایاکی مہربانی سے دورہوجائیں۔‘‘
تھوڑی دیرکے لیے جے شیلاشوہرکے لیے اس روپ اوراس بات سے سکتے میں آگئی۔ اس نے سوچالوک کانت یقیناً کوئی چوری کی چیزلے کرآئے ہیں۔ شاید پولس تعاقب کررہی ہے۔ اس نے تیزآواز میں دریافت کیا، ’’کیاچوری کی چیزہے؟ اس طرح چوروں کی مانندکیوں ہورہے ہو؟ کسی نے یہ ناسمجھی کاکام کرایاہے؟ کسی طرح تکلیف آرام سے گھربارچل ہی رہاہے۔ بھگوان جب جتنادے دیتاہے، میں اسی میں گزربسرکرلیتی ہوں۔ یہ کیسادھنداہے؟ تمہارے پیرپڑتی ہوں، تم جو بھی لائے ہو، کہیں ڈال آؤ، ورنہ دفن کردو۔ اگرپولس پیچھے پڑگئی تو ستیاناس ہوجائے گا۔‘‘
لوک کانت نے دیکھا ان کی بیوی جے شیلاجوش میں آگئی ہے۔ عور ت ذات، وہ کیا جانے اس دنیا کی مکاریاں۔ شادی کے منڈپ میں شوہر کو اپنامالک تسلیم کرلیتی ہے، بچے پیداکرتی ہے اور تنگ دلی کے ساتھ پڑی رہتی ہے۔
لوک کانت باڑی کی طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگے، اچھا کھرپی لاؤ، نہیں کھرپی نہیں چلے گی، وقت لگ جائے گا، کدال دو۔ تم میرے ساتھ آؤ۔ درگا، منگلا، امبیکا جس دیوی کا خیال آئے اسے یادکرو۔ تمہاری بات تسلیم کرکے میں اسے دفن کرنے جارہاہوں۔ بہت قیمتی چیزہے۔ ہیرے جواہرات بھی اس کی برابری نہ کرسکیں گے۔ جتناوقت گزرتاجائے گا، اتنی ہی اس کی قیمت بڑھتی جائے گی۔ آخرکارانمول ہوجائے گی۔
جے شیلاکادل نرم پڑگیا۔ عورت کی سادہ لوحی کے مطابق سوچا۔ آہا۔ لوک کانت اسے ابھی دفن کردیں گے۔ کاش گاڑنے سے پہلے ذراسادیکھ لیتی کون سی انمول چیز ہے۔ ’’اے جی! ذرادکھاؤگے نہیں؟ اتنی قیمتی چیز ہے کیا؟ میں اس پرایک نگاہ بھی نہیں ڈال سکتی۔‘‘
لوک کانت نے باڑی کے دروازے پرٹھہرکرکہا، ’’نہیں، عورت کی ذات، بھلاتمہاراکیابھروسہ؟ کہنے کے لیے منہ میں زبان کلبلاتی رہے گی۔ شاستروں میں میں آیاہے، مکارعورت پرکبھی بھروسہ نہیں کرناچاہیے۔‘‘
جے شیلاچیخ پڑی، ’’کیا؟ میں مکارہوں؟ کچھ چراکرلائے ہواورگاڑنے جارہے ہو۔ سویرے پھرنکال کرگھرمیں گھسوگے۔ پولس کی آنکھوں میں دھول جھونک کریہ کام کیاہے۔ میں نے کہہ دیاتومکارہوگئی۔ تم کس نیک خاندان سے آئے ہو، سنوں توذرا؟ یہ بتاؤکیاہے، نہیں توچلاکرہمسایوں کوجمع کرلوں گی۔‘‘
زخم خوردہ، متحیرشوہرکدال کے ساتھ تب تک نگاہوں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ پراچی ندی کی روانی کے ساتھ کدال چلانے کی آوازبھی مل گئی تھی۔ مٹی قدرے سخت تھی۔ لوک کانت کے رگ پٹھے دردکرنے لگے۔ آخرش کام مکمل کرکے جب انہوں نے کمرسیدھی کی تو ان کے منہ سے اطمینان کے ساتھ نکلا، ’’آہا۔۔۔ کوئی نشانی رکھ دوں۔‘‘
پوری شہرکے پتھریاپاراکے مشہورکاریگرسارتھی مہاپاترگھرکے اندرچبوترے پرسمٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ گھنٹہ دوگھنٹہ سے نہیں، وہ بڑی دیر سے اسی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ لڑکی شیفالی تین بارجھانک کرجاچکی ہے۔ بابا اسی طرح گم سم بیٹھے ہیں۔
’’ماں! باباکب سے آنکھیں موندے ہوئے بیٹھے ہیں۔ میں نے ہلایاتوہلتے بھی نہیں۔ ایک نٹ بھائی کورناک کا گھوڑالینے کے لیے کسی خریدارکولایاہے۔ بابا اٹھیں گے تبھی توبھاؤتاؤ کریں گے۔ وہ سنتے ہی نہیں؟‘‘
سارتھی جی کی بیوی نے اندرسے قدرے بلند اورلائق سماعت آوازمیں کہا، ’’شیف! بابا کچھ کاریگری کی بات سوچ رہے ہوں گے۔ وہ اس طرح اکثربیٹھ جاتے ہیں۔ جب تک کوئی خاص بات ان کے دماغ میں صاف نہیں ہوجاتی، اسی طرح بیٹھے رہیں گے۔ پھرایک بارسمجھ میں آجانے پر ایک پتھرکھینچ لیں گے اورہنس ہنس کرٹھک ٹھک کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جانٹ بھائی سے کہہ دے کرپچاس روپے سے کم میں کورناک گھوڑے کی مورتی نہیں ملے گی۔ دوسوروپے کی چیزضرورت کی وجہ سے صرف پچاس روپے میں دے رہے ہیں۔ خریدارکہاں ہے؟‘‘
شیفالی’’اچھا ماں‘‘ کہتے ہوئے دوڑکرباہر چلی گئی۔
سارتھی نے پرخیال آنکھیں کھول کرچاروں جانب دیکھا۔ انہیں حیرت تھی کہ کیسی فرمائش ہے؟ پچیس سال کی طویل سنگ تراشی کی زندگی میں انہیں اس قسم کاعجیب تجربہ کبھی نہ ہواتھا۔
لوگ آئے ہیں۔ اڑیسہ کے اندراورباہر سے، خاص طورپربیرونی لوگ فرمائش کرتے مختلف قسم کی مورتیوں کی، جوہرطرح مکمل ہوتی ہیں لیکن اس شخص نے دس روپے پیشگی دے کراولوکتیشیورکی مورتی بنانے کااصرارکیاہے۔ لیکن۔۔۔
مہاپاترانکارنہ کرسکے، اس لیے پیشگی کے دس روپے لے لیے ہیں۔ اولوکتیشیورکا مجسمہ مکمل نہیں بنایاجائے گا، اس کاایک پیر اورایک ہاتھ ٹوٹا ہوا ہوگا۔ دیکھنے سے معلوم ہوکہ وقت کی لامحدود قوت نے مورتی کے ہاتھ پاؤں شکستہ کردیے ہیں۔ سارتھی کویہ خامی اس صفائی سے پیدا کرنی تھی کہ مجسمہ دانستہ توڑاہوایانامکمل تراشاہوا نہ معلوم ہو۔
اس فرمائش پرسارتھی متعجب ہوئے تھے۔ عجیب فرمائش تھی یہ۔ پھریہ کہ کیافن کارٹوٹاہوامجسمہ محض پیسے کی لالچ میں فراہم کردے گا؟ بالآخرسارتھی مہاپاترکوسرتسلیم خم کرناپڑا۔ ایک تذبذب کے عالم میں انہوں نے اولوکتیشیورکی ایک ایسی مورتی گڑھ دی تھی جس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے تھے۔ زمانے کے سیلاب کی ہرموج میں متعدد اولوکتیشیور، ان گنت بدھ اور پراگیا پرامیتا کے مجسمے بہہ گئے تھے۔ بے نشان لاموجودمیں سارتھی نے ایک لافانی نقش کھینچ دیاہے۔ پتھریاپاراآج محض ایک نشان ہے۔ فن کارانہ نگاہیں، ریاض فن اوربلندخیالی آج وقت کی گہری تاریکی میں تحلیل ہوچکی ہے۔
دارالمطالعہ کاملازم خوف زدہ مضطرب نگاہوں کے ساتھ بات کو سمجھنے کی جتنی زیادہ کوشش کرتا، اسے اتناہی زیادہ محسوس ہوتا کہ اس کی دونوں آنکھیں نکالی جارہی ہیں۔
شہرکا مشہوردارالمطالعہ نہ صرف شہرہ آفاق بلکہ قدیم بھی۔ رات کے گیارہ بجے ہیں۔ پڑھنے والے جاچکے ہیں۔ دارالمطالعے میں دوافرادیوں گفتگو کررہے ہیں۔۔۔
’’نہیں۔۔۔ ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کیوں نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’وطن کے لیے ہی تومیں انہیں جمع کررہا ہوں۔ تحقیق کااہم کام میں نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اس قسم کا کام اس سے پیشتر کتنے جانبازوں نے کیاہے؟ کسی نے نہیں۔ میں فردواحدہوں۔ چنانچہ اگرآپ میری تجویزپررضامندہوجائیں تو جوکثیررقم میں نے تحقیقی کام کے لیے حاصل کی ہے، اس میں سے کچھ آپ کی نذربھی کروں گا۔ مجھے ضرورت ہے انتہائی قدیم نسخے کی اورجوکچھ مجھے حاصل ہواس کی نقل کسی کونہیں ملنی چاہیے۔‘‘
’’توپھرطے رہا۔ کل رات بارہ بجے آؤں گا۔ آپ لائبریری کھلی رکھیں۔ سب حصے کھلے رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک دروازہ کھلارکھیے۔ میں بیل گاڑی لے کر آؤں گا۔‘‘
’’ایں۔۔۔! بیل گاڑی۔۔۔!‘‘ملازم خائف ہوکرلرزنے لگا، ’’بیل گاڑی کیاہوگی؟‘‘
مذکورہ آدمی نے کہا، ’’توکیامیں ایک آدھ نسخے کے لیے آیاہوں؟ میں چاہتاہوں کہ اس انتہائی قدیم اورشہرہ آفاق لائبریری کے تمام اہم رسائل اپنی ملکیت میں لے لوں۔ اس میں جوموادہوگا، اس سے تحقیقی مقالہ تیارکروں گا۔ جوکچھ نہ ہوگا، اسے مخالف سمت سے تحقیق کہہ کرشائع کرو ں گا۔ دوسروں کے پاس کچھ ہوگاہی نہیں، جس کی بنا پر میری مخالفت کی جاسکے۔ اب سمجھے بیل گاڑی کس لیے لاؤں گا؟‘‘
کارکن کی آنکھوں سے آنسوٹپکنے ہی والے ہیں۔ ایک سوروپیوں کی طمع سے دستبرداری بھی ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں کون ان دیمک خوردہ پرانے اخبارات کامطالعہ کرنے آتاہے؟ اس قسم کے بیزارکن کام کے لیے کتنے ناواقف لوگ آمادہ ہوں گے؟ لیکن بیل گاڑی پرکاغذات بارکرکے لے جاتے ہوئے پکڑے گئے تولازماًجیل کی ہواکھانی ہوگی۔ ایک دوسرا راستہ بھی توہے۔
ملازم نے کہا، ’’دیکھیے! گاڑی موٹرکی بات چھوڑیے۔ آپ روزرات کو ایک رکشالے کرآیاکیجیے، چار راتوں میں سب دھل جائے گا۔‘‘
تجویزمحقق صاحب کوبھی پسند آگئی۔ انہوں نے ہامی بھرلی اوردلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے بولے، ’’بھائی! یہ تو محض کاغذہیں۔ انتہائی اہم صحیفوں سے ورق چاک کرکے لے جاچکاہوں۔ علم میں اضافے اورملک کی مربوط تاریخ مرتب کرنے کے لیے یہ سرقہ جرم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں میراضمیر صاف ہے۔‘‘
ملازم نے اصرارکیا، ’’بیس روپے اورنہ بڑھائیے گا؟‘‘
محقق نے متفکرانہ لہجے میں کہا، ’’دیکھیے۔ اس کام میں مجھے مالی منفعت نہیں ہے۔ بہرحال دس روپے اور دے سکتاہوں۔ ایک سودس۔ سمجھے؟‘‘
چاروں جانب طلبابیٹھے ہیں۔ گگن بابو نے ایک کتاب کے چندنسخے انہیں تھمادیے۔ طلبا مصروف کارہیں۔
گگن بابو نے پراشتیاق لہجے میں کہا، ’’اچھا شروع کرو۔ سانس لے کرشمارکرو۔۔۔‘‘
ایک طالب علم نے کہا، ’’کون سا حرف؟‘‘
’’میرے نام کااولین حصہ ہے گگن بہاری۔۔۔ چنانچہ ’گ‘ گروپ۔‘‘
دوسرے طالب علم نے کہا، ’’جی چھ صفحات کی کتاب میں حرف ’گ‘ کتنی باراستعمال کیاگیاہے، اس کاشمارکرنابہت دشوارہے لیکن جب آپ نے اتنے اہم کارنامہ کی تکمیل کاارادہ کیاہے اوراگرآپ کا خیال ہے کہ اس حرف شماری سے آپ کی تحقیقی صلاحیت کامظاہرہ ہوگا تو ہم لوگ یہ کام ضرورکریں گے۔ آپ اس حرف شماری سے کیاکام لیں گے؟‘‘
گگن بہاری نے ہنستے ہوئے کہا، ’’ارے احمق! شاعرنے ’گ‘حرف کتنی مرتبہ استعمال کیاہے اس کاتعین کرنے کے بعداس ’گ‘کااستعمال کس لیے کیا گیاہے، اس امرکی تحقیق کرو ں گا، لہذا تم لوگ شمارکرو۔‘‘
ایک شوخ طالب علم نے تحقیق کی ہیبت ناکی کوسمجھتے ہوئے ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’’جی یہ بے حد جان لیواکام ہے۔ چنانچہ شمارکرنا آپ ہی پہلے شروع کیجیے۔ ’چ‘گروپ کا تیسرا حرف ’ ج ’، ’ ’ر‘ گروپ کا دوسرا حرف ل، ’ک‘ گروپ کا دوسرا حرف ’کھ‘ میں ای کی ماترا (کھی) اس میں ’’اَ‘‘ جوڑیے۔ چاروں حروف کے اتصال سے جولفظ (جل کھیابمعنی ناشتہ) بنتاہے۔ ازراہ کرم فراہم کیجیے۔
محقق نے حساب لگایاکہ سات طالب علموں کی تشفی وشکم سیری کے لیے آٹھ آنے کے حساب سے تین روپے پچاس پیسے صرف ہوں گے۔ ہونے دو۔ تحقیق کاکام توآگے بڑھے گا—آواز لگائی، ‘‘پرما! ساڑھے تین روپے کاناشتہ لے کرآ۔۔۔ چل جلدی کر۔‘‘
سٹی بس سے دوآدمی اترے۔ بس میں کسی نے ایک دوسرے کونہیں دیکھاتھا۔ باہرآکر دونوں خلوص کے ساتھ بغل گیرہوئے۔ ایک نے دوسرے سے دریافت کیا، ’’کیساچل رہاہے؟‘‘
جواب ملا، ’’بخوبی چل رہاہے۔ آپ ماہرمعدنیات ہیں اورمیں کاغذی کیڑا۔ ایک اورہے جوصرف شمارکررہاہے۔ جنم پتری کاشمارنہیں بلکہ حروف شماری کاہم تینوں کے علاوہ ماہرآثارقدیمہ اورکوئی نہیں ہے۔‘‘
پہلے آدمی نے چمڑے کابیگ کھول کرایک دعوت نامہ برآمدکیااوربولا، ’’بھائی! میں دل میں تمہارے ہی بارے میں سوچ رہاتھا۔ یہ دعوت نامہ حاضر ہے۔ ضرورتشریف لائیے۔ پراچی کے قرب وجوا رمیں مجھے بودھ تہذیب کی علامات نظرآئی ہیں۔ میں محقق کی ژرف نگاہی سے جوکچھ دیکھ رہاہوں، پراچی ندی کے کنارے شیکاکائی کا درخت شاخیں پھیلاکرکھڑاہے۔ اس کے نیچے بودھ وہار ہے اوروہ شیکاکائی کا درخت محض دس سال پراناہے۔ کیوں کہ دس سال بھی نہیں گزرے جب۔۔۔ رہنے دیجیے۔ بس اسٹاپ پرکھڑے ہوئے اتنی اہم گفتگو نہ کرسکوں گا۔ ایک چھوٹے سے جلسے کااہتمام کیاہے۔ میوزیم کی جانب سے کچھ رقم مل گئی ہے۔ ملک کے بہت سے مؤرخین آئیں گے۔ انہیں کے روبرو میں صدیوں کاپردہ ہٹاکرثابت کردوں گا کہ پراچی کے قرب وجوار میں بودھ تہذیب موجودتھی۔ میں یہ نکتہ لوگوں کے سامنے پیش کروں گا۔ یہی میری لاتعدادشب بیدارتحقیق کاثمر ہے۔‘‘
دوسرے آدمی نے زور دے کرکہا، ’’شاباش بھائی! اورمیں نے کیاکیاہے؟ جانتے ہو۔ میں بھی ثابت کردوں گا کہ ہمارے مشاہیرادب نے کیسی کیسی ڈائریاں لکھی ہیں۔ یہ ڈائریاں میرے علاوہ اورکسی کے پاس نہیں ہیں۔ عظیم واہم ترین فن کارں کوکہاں سے تحریک حاصل ہوئی، جانتے ہو؟ اس حقیقت سے اورکوئی واقف نہیں ہے۔‘‘
دوسرے صاحب نے دریافت کیا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’بیت الخلا میں بیٹھ کر۔ پرانے اخبارات سے اسی حقیقت کاعلم ہوتاہے۔ کون پڑھتا ہے اورکون دیکھتا ہے؟‘‘
’’واہ۔۔۔ معجزہ ہے۔ لیکن کیاواقعی یہی بات شائع ہوئی ہے یا آپ نے محقق کی نگاہ سے سب کچھ دیکھ لیاہے؟‘‘
مطبوعہ اورغیرمطبوعہ سبھی کچھ دیکھنااورہمیں سمجھناپڑتے ہیں۔ رادھاناتھ، فقیر موہن، گنگادھر نے اپنی شاعری اور ناولوں کوتخلیق کرنے کی تحریک رفع حاجت کے دوران حاصل کی تھی۔ فی الحال میں یہ نتائج میں شائع نہیں کررہاہوں۔ ’اوشا‘چندربھاکا، رشی پرانے دیواوترن، فقیر موہن کی ریبتی، منگ راج وغیرہ تخلیقات اور کردار اسی مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے خودلکھا ہے۔
بودھ تہذیب کے محقق نے پرتپاک مصافحہ کرتے ہوئے قدیم مخطوطات کے مالک سے کہا، ’’شاباش! ہم تینوں آدمی ملک وقوم کی کتنی اہم خدمت انجام دے رہے ہیں، کاش ہمارے وطن کواس کا احساس ہوتا۔‘‘
’’اچھااب رخصت چاہتاہوں۔‘‘کہہ کردونوں نے ایک دوسرے کوالوداع کہا۔
رات کے دوبجے ہیں۔ پرانے مخطوطات کے مالک تحقیق میں محوہیں۔ پرنٹرصاحب 1903میں جون کی 13تاریخ کودن کے چاربج کر پانچ منٹ ڈھائی سیکنڈ پرباتھ روم میں بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ شری رام پورمطبع میں اڑیاقواعدکی طباعت مکمل ہوگئی ہوگی۔
فقیرموہن کے لکڑی گودام کے نیچے جوچھپکلی تڑپ کرمرگئی تھی، اس کی روح نے فقیر موہن کی مطلع کردیاتھا کہ وہ بھی اڑیازبان وادب کے لیے اس طرح تڑپتے رہیں گے۔ نیز 1958-59 میں محقق کے گودام کے نیچے دب کراپنی نجات کے لیے آواز دیتے رہیں گے۔
رادھاناتھ رائے کوبھارگوی ندی کے ساحل سے دومیل 22گزساڑھے تین انچ کے فاصلے پر واقع ایک ایل پی اسکول کا افتتاح کرتے ہوئے زور سے کھانسی آگئی تھی۔ اس واقعہ نے ان کی شعری تخلیق ’’مہایاترا‘‘کے تخلیقی امکانات کواجاگرکردیاتھا۔ کنتلاکماری پچھلے جنم میں بطورخاص تپ دق کے مرض میں مبتلاتھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنم میں انتقاماًانہوں نے اپنی شاعری میں صرف شعلہ بیانی اختیارکی۔ اس زاویہ نظرسے ان کی تخلیقات کا تجزیہ کیاجائے تو اڑیاادب میں ان کا مقام ممتاز نظر آئے گا۔
نیاں کھنٹا 1 کاڈامراکاؤ 2 نندکشور کے ’ڈامراکاؤ‘ کانقش اول ہے۔ دونوں ڈامراکاؤکہاں تک پروازکرسکتے تھے اورکہاں پرتنی منجیکا 3 اور چوپڑدیکھتے تھے۔ اس کا تقابلی موازنہ عنقریب شائع کیاجائے گا۔
گنگادھرمہرنے سنبل پور سے برپالی تک پیدل سفرکرتے ہوئے تھک کرآم کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کرایک سرخ سرخ رسیلا آم کھالیاتھا جس کے زیراثرا ن کی ساری شاعری رسیلی ہوگئی۔ اس دن وہ اپنی خواہش پرقابونہ پاسکے تھے حالانکہ ان کا برت تھا۔
محقق کاقلم اچانک رک گیا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ کہیں کچھ رکاوٹ پڑرہی ہے۔ یہ رکاوٹ کچھ اورنہیں، انہیں کی بیوی رتن مالی تھی۔
’’اے جی! سن رہے ہو۔۔۔؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ سب الٹاسیدھاکیالکھ رہے ہو؟‘‘
’’کیوں؟ اچھاتوتم ابتداہی سے سب کچھ پڑھ رہی ہو؟ خبردار! اس بکواس کے بغیرکیا ہمارے ہم وطن ادب کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں؟ اگریہ سب نہ ہوتوکیا کسی بھی بڑے بڑے شاعر کے قلم سے رس ٹپک سکے گا؟‘‘
’’سچ؟ دسویں تک میں بھی پڑھی ہوں۔ ہمارے پنڈت جی نے یہ کبھی نہیں بتایاکہ بھگت چرن آم کھاتے تھے یا کٹہل لیکن، ارے بابوشیام دھن کے چھند، دوبار ایسے پرتاثیرنرم لہجے میں پڑھتے تھے کہ ہماری آنکھوں سے آنسوٹپکنے لگتے تھے۔ ان کے پڑھنے کااندازکیادل کش اورپرسوزتھا! انہوں نے توکبھی نہیں کہاکہ کسی کوتپ دق کا مرض ہوا تھا۔‘‘
محقق نے فرمایا، ’’ارے چھوڑو۔ اس زمانے میں کوئی تحقیق ہوتی تھی؟ آج دریچہ واہوگیاہے۔ تم نے بھی نہ جانے کون سی دوسطریں دسویں جماعت میں پڑھ لیں تودماغ ہی ٹھکانے پرنہیں رہ گئے۔ مجھ جیسے قدیم ادب کے ماہرسے بحث کرتی ہو۔‘‘
’’اے سن رہے ہو؟ یہ بھوسے کی کھیتی کیوں کررہے ہو؟ اسے کون پڑھتا ہے؟ رادھاناتھ کوکھانسی آئی اس لیے ’مہایاترا‘کی شاعری میں خصوصی اوصاف پیداہوگئے۔ کیاخوب! ذراسنو تو؟‘‘
’’کیاہے، کہو؟‘‘
’’تم اس دھندے کوچھوڑکرشاعری کیوں نہیں کرتے؟ زندگی کی کتنی امنگیں، کتنی حسرتیں اس میں یکجا ہوجائیں گی۔‘‘
’’کیاکہا؟ شاعری کرنے لگوں؟ کیامیں زنانہ ہوں یا مجھ میں مردانگی کاجوہرنہیں ہے؟ ڈھلمل ڈھلمل چنچل انچل انمن نس د ن، قسم کی شوخ نظمیں لکھ کر کیانامردبنوں گا؟ توبہ۔۔۔ اس میں کیا رکھا ہے؟‘‘
’’اے سنتے ہو؟ ایسا ہی ہے توایک ناول ہی لکھ ڈالونا! انسانی زندگی کی ان گنت داستانیں، اس کا کرب، اس کی مسرتیں سبھی کچھ توہے۔ کتنی لطیف کتنی دلدوز کیفیتیں، تاثرات ہوتے ہیں۔ لکھونا۔ ان پرایک ناول ہی لکھو۔‘‘
’’ختم کرورتن مالی۔ میں زندگی میں کہانی قصے نہیں پڑھتالکھناتودورکی بات ہے۔ نانی اماں یا بوڑھے لوگ قصہ کہانی کہتے ہیں۔ ان پڑھ گنوارآدمی دیہات کی گلیوں میں کہانیاں سناتاہے۔ یہ لوگ داستان گوہیں۔ انہیں کچھ اور سلیقہ نہیں اس لیے قصہ کہانی کہتے ہیں۔ چھی۔ چھی۔‘‘
’’ارے ذراسنوتو! یہ دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے کبھی، وہ لوگ دل کی کتنی باتیں جانتے ہیں؟ تمہارے مضامین پڑھ کرکیاکسی کی آنکھیں ڈبڈباسکتی ہیں جبکہ ان کی تخلیقات پڑھ کرنہ جانے کتنے جذبات کتنی مسرتیں دل میں ابھرتی ہیں۔ تم بھی ان کی طرح کیوں نہیں لکھتے؟‘‘
’’رتن مالی! تم مجھ غصہ نہ دلاؤ۔ اگرمیں تمہاری بات مان لوں تودوسرے دونوں آدمی آگے نکل جائیں گے۔ میں پیچھے رہ جاؤں گا۔ ایک زمین کے اندرکی بات جان لیتاہے۔ کھدائی نہیں کی گئی، کوئی محنت نہیں ہوئی پھربھی کہتا ہے کہ پراچی کے قرب وجوار میں بودھ تہذیب ہے۔ دوسرا شخص کتاب میں کون سا حرف کتنی باراستعمال کیاگیاہے اورکیوں کیاگیاہے، اس بارے میں تحقیقات کررہاہے۔ یہ لوگ جاوداں ہوجائیں گے رتن مالی! اورمیں تمہارے کہنے میں آکرہنسی، آہ وبکا، اداسی، فراق وغیر ہ کابیان قلم بندکرتے ہوئے فناہوجاؤں گا۔ سب مجھے فراموش کردیں گے۔ ہٹومیرے سامنے سے، دسویں کلاس کی قابلیت اورزیادہ نہ بگھارو۔ ارے بابوشیام دھن، کے ترنم سے اپنے بیٹے کیشو آنندکوچمکاروآنسوبہاؤ، جاؤ۔‘‘
ایک وسیع شامیانے کے نیچے ملک بھر کے دانشور، عالم، محققین، مؤرخین، سب تشریف فرماہیں۔ پراچی ندی نوعروس کی طرح اس عظیم الشان جلسے کودیکھ کرشرمیلے تبسم بکھیرتی ہوئی رواں دواں ہے۔ آج ملک بھرکے ممتازمحقق انکشاف رازکرتے ہوئے ثابت کردیں گے کہ ہزاروں سال قبل پراچی ندی کے ساحل پربھی بودھ تہذیب کاوجود تھا۔
لکڑہاروں نے پیڑکاٹ کرپھینک دیا۔ کھدائی شروع ہوئی۔ ادھرپبلسٹی وان سے ریکارڈ بج رہاہے۔ چائے پانی کا بندوبست بھی ہے۔
محقق لوک کانت، مسرت، آرزومندی اورکامیابی کامجسمہ بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ لوگ انہیں نہایت عقیدت کے ساتھ دیکھتے، ’’واقعی، کیااہم تحقیق ہے۔ اس شخص کی نگاہ کتنی عمیق ہے؟‘‘
صرف دس ہاتھ کی کھدائی کے بعدہی ایک آدمی چیخ پڑا، ’’مل گئی، مل گئی۔‘‘
’’کیامل گئی؟‘‘
’’مورتی۔‘‘
’’مورتی!‘‘
’’ہاں۔۔۔ بودھ کی مورتی!‘‘
لوگ اپنی جگہ چھوڑکراس طرف امڈپڑے۔ رضاکاروں نے پرجوش ہجوم کوقابومیں لانے کی کوشش کی۔
متعددفوٹوگرافرکیمرے لے کرمستعدہوگئے۔ کسی نے کہا، ’’اولوکتیشیورکی مورت۔ بائیں پاؤں کا نصف حصہ نہیں ہے، داہناہاتھ بھی شکستہ ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’یہ نہیں ہوسکتا۔ ہزاروں سال پرانی مورت، زمانے کے اثرات سے بالکل خراب نہ ہوکر بالکل ویسی ہی ہے۔ معلوم ہوتاہے پراچی ندی کے بسترمرگ پرہی یہ آج تک محفوظ رہی۔‘‘
لوک کانت گاں کالسی 4 کی مانندجھوم رہے ہیں۔ وہ اب اڑیسہ جیسی تنگ اسٹیٹ میں نہیں رہیں گے، تمام دنیا کی سیاحت کرکے وہ آثارقدیمہ کی تحقیق کریں گے۔ اس کارعظیم کے لیے انہیں چہارجانب سے امدادملے گی وہ جانتے ہیں۔ اب وہ بڑے آدمی بن گئے ہیں۔
پراچی کے ساحل پربودھ تہذیب کی شہرت ہوگئی۔
پوری شہر کے سؤرگ دروازے کے شمشان میں پتھریاپارا کے سنگ تراش سارتھی مہاپاتر کاجسم بہت پہلے بھسم ہوچکاہے۔
بے چارہ شیکاکائی کا پیڑ۔
اولوکتیشیور کے سرہانے رہ کربھی محفوظ نہ رہ سکا۔ تراشیدہ درخت پراچی ندی کی دھار میں بہنے لگا، نہایت بیزاری، بڑی بے دلی کے ساتھ۔
حواشی
(۱) اڑیسہ سے شائع ہونے والاایک اہم طنزیہ رسالہ
(۲) پہاڑی کوّا۔۔۔ نیاں کھنٹارسالے میں طنز کے اظہارکاوسیلہ
(۳) پانسہ
(۴) اس شخص کوکہتے ہیں جس پردیوتاآئے ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.