Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کالے بادل

عبد العزیز خان

کالے بادل

عبد العزیز خان

MORE BYعبد العزیز خان

    اگر ریکھا کا شوہر جس فیکٹری میں کام کرتا تھا، اس میں تالا بندی نہ ہوتی تو وہ سروگیٹ مدر کبھی نہ بنتی۔ ہڑتال ہوئی، قانونی لڑائی لڑنے میں بچا کھچا اثاثہ برباد ہوگیا۔ رمیش کبھی کمپنی کے گیٹ پر ہڑتالی مزدوروں کے ساتھ بیٹھتا اور کبھی رات کو دارو کے اڈّے پر جا بیٹھتا۔ ریکھا ایس ایس سی پاس تھی۔ وہ گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی۔ ایسے میں فیکٹری کا مقدمہ کھنچتا چلا گیا اور اُن کا بچہ وجے اسکول جانے لائق ہوگیا۔ اخراجات بڑھ گئے۔

    رمیش بے روزگاری، غربت، نااُمیدی اور مایوسی کے سبب بے تحاشہ ٹھرّا پینے لگا۔ پڑوس کے لوگوں نے سمجھایا، خود ریکھا نے قسمیں کھلائیں لیکن رمیش کی لت نہیں چھوٹی۔ اخراجات پورے نہیں پڑے تو قرض لینے لگے۔ رمیش ٹھرّا پی کر کبھی نالی میں گرتا اور محلّے والے ریکھا سے کہتے تو ریکھا دو لڑکوں کی مدد سے اسے گھراُٹھالاتی۔ کبھی رمیش رات دیر سے گھر لوٹتا تو دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر وہ ریکھا کو مارنے پیٹنے لگتا۔ ریکھا نے سوچا۔ اپنی تو گزر گئی لیکن وجے کا کیا ہوگا۔ اسے چاروں طرف اندھیرا نظر آنے لگا۔

    ریکھا محلّے سے باہر روڈ پرکرانے کی دکان پر سامان خریدنے گئی تو اسے اپنی جان پہچان والی موسی مل گئی۔ اس نے ریکھا سے کہا کہ وہ اگر بتّی اور لفافے بنانے کا کام کرے۔ ریکھا نے کام شروع کیا مگر لفافے بنانے کی محنت کے بعد بھی وہ پیسے بچا نہیں پاتی تھی۔ وہ جہاں بھی پیسےچھپا کر رکھتی رمیش پیسے ڈھونڈ لیتا اور ان پیسوں سے ٹھرّا پی کر آتا۔

    ایک دن اسی موسی نے ریکھا سے سروگیسی کے بارے میں بتایا کہ فارین کی کمپنی پانچ چھ لاکھ روپے دیتی ہے۔

    ریکھا نے پوچھا ، ’’موسی! اس کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟‘‘

    موسی نے کہا ، ’’تم کمپنی میں جائو، فارم بھرو اور اپنی کوکھ کرائے پر دے دو۔‘‘

    موسی خود اسے لے کر کمپنی گئی۔ وہاں اس نے فارم بھرا، دو تین جگہ دستخط کیے۔ گھر آکر رمیش سے سروگیسی کے بارے میں بتا کراس کے دستخط لینا چاہا لیکن وہ اس قابل نہ تھا کہ اس کی بات سمجھ سکے۔

    دوسرے دن صبح ریکھا نے رمیش کو بتایا۔ رمیش کی بانچھیں کھِل گئیں۔

    ’’لائوپیسہ۔ دستخط کہاں کرنی ہے جلدی بتائو۔‘‘

    ’’ہاں! تاکہ تم اس کی دارو پی لو۔‘‘

    ’’نہیں ریکھا! آج سے میں دارو چھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے تو کھائووجے کی قسم۔‘‘

    ریکھا نے وجے کو سامنے کردیا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اور قسم کھاتے ہوئے رمیش کانپنے لگا۔ اس نے قسم نہیں کھائی۔

    ریکھا نے سوچا۔ دو لاکھ وہ کمائے گی تو اس کا شوہر دارومیں ختم کردے گا۔ کیا فائدہ۔

    شام ہوئی تو رمیش کا دارو کے اڈّے والا دوست مہادو اسے لے جانے آگیا۔

    ریکھا نے مہادو کو گالی دی کہ اسی نے رمیش کو دارو کی لَت لگائی ہے۔

    مہادو بولا ، ’’بھابھی! گالی مت دے، میں کیا رمیش کو زبردستی پلاتا ہوں، رمیش کیا بچہ ہے؟‘‘

    اب ریکھا اس کا کیا جواب دیتی۔

    شام سات بجے چال کا نل آیا۔ ریکھا پانی بھررہی تھی کہ موسی اس سے ملنے آگئی۔ باتوں باتوں میں موسی نے کہا ، ’’ریکھا! اگر تم نے رمیش کے دستخط لے لیا ہے تو سروگیسی کے لیے جائو۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ کل جائوں گی۔‘‘ ریکھا نے بڑی بے دلی سے کہا۔

    موسی نے وجہ پوچھی تو اس نے رمیش کے بارے میں بتایا کہ وہ خوب پینے لگا ہے۔ اس لیے پیسے کمانے کا اب اس کا من نہیں کرتا۔

    موسی کچھ دیر بعد چلی گئی تو رمیش کمرے میں داخل ہوا۔

    وہ اسے دیکھ کر بولی ، ’’آج اتنی جلدی آگئے؟‘‘

    ’’ہاں! ریکھا میں نے دارو چھوڑ دی ہے۔‘‘

    دوسرے دن شام میں رمیش، ریکھا اور وجے کو لے کر قریب کے پارک میں گھومنے گیا۔ سائوتھ انڈین ہوٹل میں ان لوگوں نے مسالہ ڈوسا اور وڈا سانبھر کے بعد چائے پی۔ رمیش اچھے موڈ میں تھا۔ ریکھا نے اسے سروگیسی کی بات بتائی اور کہا کہ اسے نومہینے گھر سے باہر سروگیسی سینٹر کے نرسنگ ہوم میں رہنا پڑے گا۔

    رمیش نے پوچھا ، ’’لیکن میں تم سے مل سکوں گا نا؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’اور وجے کا کیا ہوگا؟‘‘

    ’’میں نے اس کی نانی سے بات کرلی ہے۔ وہ ہمارے گھر میں آکر رہے گی اور وجے کو سنبھالے گی اوراسے لے کر اسکول بھی جائے گی اور واپس بھی لائے گی۔‘‘

    رمیش نے اطمینان کی سانس لی۔ وہ بولا ، ’’پیسہ ملے گا تو ہم کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریں گے۔‘‘

    جس دن ریکھا سروگیسی کے لیے داخل ہونے جارہی تھی اس دن رمیش نے وعدہ کیا کہ وہ بالکل دارو نہیں پیے گا۔

    سروگیسی سینٹر کسی بیرونی ملک کی کمپنی نے کھولا تھا، یہاں جدید ترین مشینیں اور آلات تھے۔ ریکھا وہاں داخل ہوگئی۔ پانچ لاکھ روپے کا معاہدہ ہوا۔اس کی کوکھ میں کسی غیر ملکی جوڑے کاجنین داخل کیا گیا۔ اب ۹ ماہ اسے یہیں رہنا تھا۔ ٹی وی پر بچوں کے تعلق سے فلمیں دکھائی جاتی تھیں، اسے بہترین مقوی کھانا دیا جاتا تھا، اسے انگریزی میگزین پڑھنے دیے جاتے تھے جن میں بچوں کی تصویریں ہوتی تھیں، وہ جس کیبن میں تھی وہاں دیوار پر بیرون ملک کے گورے بچوں کی تصویریں لگی تھیں۔ سارا ماحول انگریزی تھا۔

    رمیش کچھ دنوں تک ریکھا سے ملنے آتا رہا لیکن وہ ریکھا کے قریب نہیں آسکتا تھا۔ ریکھا کی ماں ملنے آتی اور خوب باتیں کرتی۔ ایک دن وہ روتی ہوئی آئی تو ریکھا نے اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تب ماں نے دھیمی آواز میں کہا کہ رمیش نے میرے کڑے الماری میں سے چرالیے، اب وہ رات دن دارو پینے لگا ہے، محلّے کے لوگوں نے یہ اطلاع دی تھی۔

    ریکھا کچھ نہ بولی، اس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہ نکلا، وہ روتی بھی کیسے، سروگیسی سینٹر میں رونے اور اداس رہنے پر پابندی جو تھی۔ ہمیشہ خوش رہنے اور ہنستے بولنے کی ہدایت تھی کہ کوکھ میں پلنے والے بچے پر خوشگوار اثر پڑے۔

    وقت گزرتا گیا۔

    تین ماہ بعد ریکھا کی ماں نے اسے بتایا کہ رمیش دارو پی پی کر مرگیا ہے۔

    ریکھا کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے جو اس نے جلدی سے پونچھ ڈالے کہ کہیں سروگیسی کی نرس دیکھ نہ لے۔ ریکھا کو حیرت نہیں ہوئی۔ یہ انجام تو طے تھا۔ ریکھا کی ماں بولی ، ’’ایسے مرد سے تو عورت کا اکیلی رہنا اچھا ہے۔‘‘

    وقت مقررہ پر سیزیرین کے ذریعے ریکھا کی کوکھ سے بچے کا جنم ہوا۔ سیزیرین کے بعد ریکھا کو علاج کے لیے مزید دس دن نرسنگ ہوم میں رہنا پڑا۔

    جس دن ریکھا گھر آئی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی زندگی سے کالے بدل چھٹ جائیں گے، اندھیرا ہٹ جائے گا! اس نے گھر کے سارے جالے صاف کروادیے۔ اب وہ زندگی کی دوسری پاری جوش و خروش سے شروع کرے گی۔

    اْس نے طے کرلیا کہ وہ اب کسی پالتو مرد کے ساتھ بِنا شادی کیے ریلیشن شپ میں زندگی گزارے گی۔

    او ر پھر ایک دن اسکول سے لوٹتے وقت دادر ٹی ٹی پر روڈ کراس کرتے ہوئے نانی موبائل پر باتوں میں ایسی مشغول تھی کہ ریکھا کے لڑکے وجے کی پکڑنانی کی ساڑی سے چھوٹ گئی اور وہ تیز رفتار ہِٹ اینڈ رن موٹر بائیک حادثے میں دونوں پیر اور آنکھیں گنوا بیٹھا!

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے