Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کام چور

MORE BYکیپٹن سید فیاض محمود

    مئی کے دن تھے۔ صبح تین بجے کا عمل تھا۔ گھر کے سب لوگ صحن میں سورہے تھے۔ رات بھر مارے حبس کے آنکھ نہیں لگی تھی۔ اس وقت کہیں سے بھولی بھٹکی ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آنے لگے تھے۔ اس ہوا میں اگر خنکی نہ تھی توکم از کم حدت بھی نہ تھی۔ لوگ جو کروٹیں لیتے لیتے تھک گئے تھے، اب پاؤں پسار کے سو گئے۔ گزشتہ دن کی تکان جو اس قیامت کی رات میں دور نہ ہوئی تھی، اب تازہ ہوا جسم کے بند بند سے اڑا لیے جا رہی تھی۔ دماغوں پر ایک پرکیف سکون طاری ہو رہا تھا۔ تمام صحن میٹھی نیند میں مدہوش تھا کہ اتنے میں پہلے آہستہ پھر ذرا زور سے اور پھر ذرا اور زور سے اور پھر بلند آواز سے ننھے نے رونا شروع کیا۔ بیوی گہری نیند میں سو رہی تھی، ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ ننھے کی ٹانگیں اور پھر بازو رونے کے ساتھ ہی ہلنے شروع ہو گئے تھے۔رفتہ رفتہ ان کی حرکت میں تیزی پیدا ہو گئی۔ اس کا یہ نتیجہ ہواکہ وہ سرکتا سرکتا ماں کے پیٹ سے نزدیک تر ہو گیا اور اس کی ٹانگیں ماں کے جسم پر پڑنے لگیں۔ ساتھ ساتھ ننھے نے پوری آواز سے چیخنا شروع کر دیا۔ آخر مرغوب جاگ اٹھا۔ پہلے دو ایک منٹ تو اسے اپنی گھبراہٹ کی وجہ معلوم نہ ہوئی پھر اسے ننھے کے رونے نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس نے کہا اماں! اماں! اور پھر اور زور سے ’’اماں‘‘ بارے بیوی کو ہوش آیا۔ ہڑبڑا کے جاگیں ’’کیوں؟ کیا ہے؟‘‘

    ’’ننھا مدت سے رو رہا ہے۔ سونے نہیں دیتا‘‘۔

    بیوی نے پہلے تو ننھے کو نیم خوابی ہی کی حالت میں تھپکنا چاہا۔ مگر ننھا چپ نہ ہوا۔ پھر ایک کہنی کے سہارے ذرا اوپر ہو کر دوسرے ہاتھ سے ننھے کو اٹھایا۔ دیکھا تو کپڑے خراب کئے ہوئے تھا۔ انہوں نے آواز دی ’’کریمن! اری او کریمن! مگر کریمن سب سے دور اپنی چارپائی پر چت لیٹی آرام سے سورہی تھی۔ آخر بیوی نے کہا‘‘ ،’’اس کم بخت پر خدا کی مار لاکھ سر پٹکو جاگتی ہی نہیں۔ خدا جانے اسے سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے۔ اوکریمن، اے، اے کریمن! مگر کریمن کہاں۔‘‘

    تھک کے بیوی بالکل اٹھ بیٹھیں، دونوں ہاتھوں سے ننھے کو اٹھایا۔ سرہانے اسٹول پر لیمپ مدھم سا جل رہا تھا۔ ہاتھ بڑھا کے بتی کو اونچا کیا۔ دیکھا تو ننھے کا بچھونا سب لت پت تھا۔ اپنے جاگنے پر، اس بے وقت کی تکلیف پر اور باقی سب کے سوئے رہنے پر، بیوی کو بہت غصہ آیا،

    آواز دی ’’مرغوب اومرغوب‘‘ وہ بیچارہ ابھی کچی نیند میں تھا پھر چونک پڑا اور ذرا ترشی سے بولا ’’کیا ہے؟‘‘

    ’’ذرا اٹھ کے اس نامراد کو جگا تو دو۔ مردوں سے شرط باندھ کر سوئی ہے‘‘۔ مرغوب طوعاً و کرہاً اٹھا۔ جاکے کریمن کے کندھے کو ہلایا جب اس سے کچھ اثر نہ ہوا تو ذرا زور زور سے اسے جھنجھوڑا اور آوازیں بھی دیں۔ خیر کریمن کی آنکھ کھلی۔ جب چارپائی سے پاؤں نیچے رکھا تو بیوی نے غصے سے کہا ادھر آمردار! میں گھنٹا بھر سے آوازیں دے رہی ہوں تیرے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پانی لامیں ننھے کو دھوؤں۔ کریمن آنکھیں ملتی ہوئی گھڑونچی سے جو صحن میں پڑی تھی لوٹا بھر لائی اور ننھے کو دھلوایا پھر بیوی کے کہنے پر غلیظ پوتڑے بستر سے اٹھائے اور نئے بچھائے۔ باورچی خانے میں جاکر ہاتھ دھوئے اور اپنے بستر پر آکے لیٹ رہی۔

    تقریباً آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ صبح کے چار بج رہے ہوں گے، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ صحن میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سانس لینے کی آوازوں پر بھی سکوت نے غلبہ پا لیا تھا۔ بیوی کے بائیں طرف کی ایک چارپائی پر ایک تین برس کا بچہ اٹھ بیٹھا اور اماں اماں کہہ کر چلانے لگا۔ جب دھیمی آواز سے کچھ نہ بنا تو اونچی آواز سے پکارنا شروع کیا۔ بیوی کی آنکھ کوئی بیس منٹ ہوئے لگی تھی کہ اب اور حملہ شروع ہوا۔ خیر اب کے جلدی جاگ اٹھیں۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب ملا ’’پانی‘‘۔ اس پر بیوی نے آواز دی ’’کریمن او کریمن!‘‘

    ’’جی‘‘۔

    ’’اری تو ایک آواز سے نہیں اٹھ سکتی۔ پہروں کوئی جگاتا رہے پھر کہیں اٹھتی ہے۔ بشیر کو پانی دے دو پیاس سے ہلکان ہو رہا ہے‘‘۔ کریمن نے اٹھ کر بشیر کو پانی پلایا اور پھر گلاس کو گھڑونچی پر رکھ، جاکے سو رہی۔

    اتنے میں پانچ بھی بج گئے۔ ہوا بدستور چل رہی تھی۔ اب تو اس کے جھونکوں میں کچھ خنکی بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس لیے سونے والوں میں سے بعض نے پائنتی سے چادریں اٹھاکر اوڑھ لی تھیں اور بےفکری کی نیند کے مزے لے رہے تھے کہ صحن کے ایک کونے سے کھانسنے کی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں۔ پہلے تو آہستہ جیسے کوئی گلہ صاف کرتا ہو، پھر رک رک کے، پھر پوری آواز سے۔ مگر آواز میں توانائی نہ تھی، کھانسی کے ایک حملے کے بعد حلق سے ایک آدھ تکلیف کا سانس بھی نکل جاتا تھا۔ یہ بیوی کی ساس تھیں۔ جوتی پاؤں سے ٹٹول کر پہنی اور چارپائی کی پٹی پر دونوں ہاتھوں کو دبا کے اپنے بازوؤں کے سہارے اٹھیں۔ اس وقت آسمان سے تاریکی غائب ہو چکی تھی۔ بیوی کے سرہانے لیمپ بدستور جل رہا تھا۔ اسے بجھایا بجھا کے اسے وہاں سے اٹھا کے صحن کی اس الماری میں جہاں لیمپ رکھے جاتے تھے رکھ دیا پھر ادھر ادھر اپنے لوٹے کے لیے نظردوڑائی کیونکہ ان کا لوٹا مخصوص تھا کوئی اسے چھو نہیں سکتا تھا مگر وہ لوٹا نظر نہ پڑا۔ باورچی خانے میں بھی دیکھا، وہاں بھی نہ دکھائی دیا۔ باہر گھڑوں کے پاس بھی نہ تھا۔ حیران ہوئیں کہ لوٹا کہاں گیا۔ پہلے تو کسی اور لوٹے کی فکر میں نظر اٹھائی۔ مگر پھر جی نہ چاہا اس لیے صحن کے دوسری طرف کریمن کی چارپائی کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اسے جگایا۔ وہ اٹھی، اٹھ کے بڑی بی بی کو سلام کیا اور پھر ان سے استفسار کے جواب میں لوٹا ڈھونڈنے چلی۔ صحن میں اس نے دیکھا، کہیں نہ تھا، بڑی بی بی نے پوچھا۔ ’’آخر تم رات برتن دھو کے سوئی تھیں یا نہیں؟‘‘

    ’’جی‘‘۔

    ’’تو میرا لوٹا بھی دھویا ہوگا‘‘۔

    ’’جی ہاں آپ کا لوٹا تو میں نے بہت احتیاط سے صاف کیا تھا۔ دیکھوں تو شاید باورچی خانے میں رکھ دیا ہوگا‘‘۔ باورچی خانے میں گئی اور وہاں سے کچھ کھڑکھڑاہٹ کے بعد بڑی بی بی کا لوٹا نکال لائی۔ صحن اب کافی روشن ہو گیا تھا۔ پہلے تو سوچا کہ تھوڑا سا اور سولیا جائے پھر یاد آیا کہ رات برتن بہت سے تھے۔ اس لیے ان کو دھوتے دھوتے دیر ہوگئی تھی اور گھڑے نہیں بھرکے سوئی تھی۔ نیند تو بہت آ رہی تھی آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں مگر بیوی کی آنکھیں یاد آ گئیں۔ اس لیے اپنا بستر لپیٹ، چارپائی اٹھائی اور دیوار سے لگا دی۔ بستر کو فالتو سامان والی کوٹھڑی میں رکھ آئی۔

    صحن کے ایک کونے میں ہاتھ سے چلا کر پانی نکالنے کا نل لگا تھا اس کے پاس گھڑے اٹھا لائی اور نل سے ایک، دو، تین حتیٰ کہ پانچ گھڑوں کا پانی نکالا۔ اٹھا اٹھا کے انہیں اپنی جگہ پر رکھا پھر صحن میں آئی اور بیوی کے پائنتی سے ننھے کے مستعمل ہوتے ہوئے پوتڑے لیے اور انہیں ایک طرف ایک تسلے میں ڈال آئی پھر ادھر جاکر وہ کپڑے جو رات کو دھلواکے سکھانے کے لیے رسیوں پر ڈال رکھے تھے۔ اٹھا لائی۔ انہیں تہ کر کے بیوی کی پائنتی پر رکھ دیا۔ پھر ہاتھ منہ دھویا۔ گیلے گیلے ہاتھ بالوں پر پھیرکے جو جو بال سوتے میں بکھر گئے تھے انہیں جما دیا، مگر چونکہ رات گرمی کی وجہ سے بہت بےآرامی سے گزری تھی اور کروٹوں اور سر کے ہلنے جلنے سے بال کچھ معمول سے زیادہ بکھر گئے تھے، اس لیے وہ اپنی اسی سامان والی کوٹھڑی میں جہاں اس کا صندوق اور اس کی ایک آدھ دوسری چیز رکھی تھی، گئی اور ایک میلی سی دو تین ٹوٹے ہوئے دندانوں والی کنگھی نکال لائی۔ ابھی وہیں کھڑی کھڑی چوٹی کھول رہی تھی کہ صحن سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔ ’’او کریمن اری او کریمن! کہاں غارت ہو گئی؟‘‘ کنگھی کو وہیں چھوڑ چوٹی کو باندھتی ہوئی ’’جی آئی‘‘ کہہ کر باہر نکل آئی۔ دیکھا تو بڑی صاحبزادی رقیہ اور میاں اصغر جاگے ہوئے ہیں اور وہیں سے چلارہے ہیں ’’او کریمن، او کریمن، ارے کہاں مر گئی؟‘‘ کریمن نے کہا ’’جی میں تو یہیں تھی۔ کمرے میں بستر رکھنے گئی تھی‘‘۔ رقیہ بولیں ’’اری کیوں جھوٹ بکتی ہے، لپاٹن کہیں کی تو تو بال بناتی آئی ہے‘‘۔

    ’’نہیں تو بی بی جی میں نے بالوں سے کنگھی تک نہیں چھوئائی‘‘۔ توبہ کر ری توبہ! تو تو چٹیا لپیٹتی چلی آ رہی تھی، جھوٹی کہیں کی، پانی لا منہ دھوئیں، تومجھے بھول جاتی ہے، مجھے سکول جانا ہے، اب چھے بجے کھلتاہے، چھ بجے!

    دوسری طرف میا ں اصغر بولے ’’کریمن میرے کپڑے نکال لا۔ مجھے بدلنے ہیں؟‘‘

    رقیہ ’’خود اٹھ کے کیوں نہیں پہن لیتا، سستی کا مارا ہوا‘‘۔

    اصغر ’’تو آپا تمہیں کیوں نہیں پانی اٹھ کے لے لیتیں اور ابھی تو کسی نے آگ تک نہیں جلائی، میں آج کھا کے کیا جاؤں گا۔ اماں، اے اماں! اٹھوبھی نا، اب سکول کا وقت ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تو کچھ دیکھائی نہیں دیتا‘‘۔

    بیوی بھی جاگ اٹھیں۔ کہنے لگیں ’’ابھی تو بہت سویرا ہے، کیوں اتنا شور مچایا ہے؟‘‘، ’’شور کس نے مچایا ہے؟ میں تو آپ کو جگا رہا تھا یہ آپا ہی صبح سے چلارہی ہیں‘‘۔ ’’بکو مت اصغر! اٹھتے ہی تو تم نے چیخنا شروع کر دیا۔ میں نے کیا کیا؟‘‘

    ’’تو اماں کریمن سے کہو نا کچھ کرے۔ میں کھاکے کیا جاؤں گا؟‘‘

    ’’اوکریمن‘‘۔

    ’’جی! بیوی!! ابھی آئی۔ میں بی بی جی کے لیے صابن تولیہ لا رہی ہوں‘‘۔

    رقیہ نے کہا ’’اماں یہ کریمن ایک کام میں دس گھنٹے لگاتی ہے۔ آپ اسے کچھ کہتیں بھی نہیں‘‘۔

    بیوی نے رقیہ کو تو کچھ جواب نہ دیا کریمن سے کہا ’’مرغوب کو جگا دے‘‘۔ رقیہ منہ دھورہی تھی کہ اسے محسوس ہوا کہ رات کی گرمی کی وجہ سے کپڑے بدن سے چپک رہے ہیں۔ رات پسینا بہت آتا رہا ہے۔ اس لیے منہ ہاتھ دھونا چھوڑ کر کریمن کو حکم دیا کہ غسل خانے میں صابن اور تولیہ رکھ آئے، وہ ادھر گئی، آپ اندر سے سکول کے کپڑے نکال غسل کرنے چلی گئی۔ مگر اصغر اور مرغوب کو کون نہلائے، انہوں نے منہ ہی دھونے پر اکتفا کیا اور اندر جا کر جلدی جلدی کپڑے پہنے، کریمن نے رقیہ سے فراغت پاکر جلدی جلدی آگ جلائی اور دو چار روٹیوں کا آٹا گوندھ لیا۔ اتنے میں اصغر اور مرغوب ناشتے کے لیے سر ہو گئے۔ انہیں معمول کے مطابق چھوٹے چھوٹے نمکین پراٹھے پکا دیئے اور ساتھ دہی دے دیا۔

    رقیہ کے لیے اب لسی بنانی تھی، کیونکہ وہ پراٹھے کے ساتھ ہمیشہ لسی پیاکرتی تھی۔ مگر کریمن تو روٹی پکا رہی تھی، لسی کون بنائے؟ رقیہ نے شور مچانا شروع کیا۔ ’’میر ی لسی کہاں ہے؟ میری لسی نہیں بنائی؟ کریمن نے پہلے کیوں نہیں بنائی؟‘‘۔۔۔۔ خیر یہ گزری کہ اب تک رقیہ کی دادی نماز سے فارغ ہو چکی تھیں۔ اس لیے بیوی نے ان سے کہا۔ ’’اماں رقیہ کی لسی ذرا بنا دو اس نے شور مچا رکھا ہے‘‘۔ دادی اماں نے کریمن سے پوچھا ’’بلونی کہاں ہے۔ ‘‘ اس نے کہا ’’باورچی خانے میں‘‘۔ وہاں بڑی بی بی کو نہ ملی تو پھر شور ہوا۔ ’’یہ کریمن کبھی چیز جگہ پر رکھتی بھی ہے یا نہیں اس پر خدا کی مار، ابھی کل تو یہاں دیکھی تھی، یہاں پڑی تھی، یہاں۔۔۔‘‘ کریمن نے کہا ’’باورچی خانے میں برتنوں کی الماری کے اوپر کے خانے میں رکھی تھی کسی دیگچی کے پیچھے ہوگئی ہوگی‘‘۔ بارے بلونی ملی، لسی تیار ہوئی۔رقیہ نے ناشتہ کیا۔ ادھر اصغر اور مرغوب نے بھی اپنا اپنا پراٹھا ختم کر لیا۔ اتنے میں رقیہ کے سکول کی ملازمہ آ گئی۔ وہ اس کے ساتھ سکول چلی گئی۔ ادھر لڑکے بھی اپنے سکول کو روانہ ہو گئے۔

    ان کے جانے کے بعد بیوی جی اٹھیں۔ اٹھ کے پہلے شب خوابی کا میلا پاجامہ تبدیل کیا پھر ہاتھ منہ دھو کر اپنی ساس سے بالوں میں کنگھی کرائی۔ اتنے میں کریمن چولہے کے کام سے فارغ ہو چکی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ بستر بڑھائے۔ اس نے سب بستر اندر رکھے اور چارپائیاں اٹھا کر ایک طرف رکھیں پھر دالان کے آگے سے اور چولہے کے قریب قریب سے جھاڑو دی۔ تھوڑی دیر میں مہترانی آ گئی اس نے کہا بی بی پہلے پوتڑے دھلوا لیجئے۔ اس لیے کریمن سے پھر کہا گیا کہ پانی بھر بھر کے مہترانی سے کپڑے دھلوائے۔ چنانچہ آدھ گھنٹے سے زائد وقت اس کام میں صرف ہو گیا۔ بیوی کا اور اپنا ناشتہ بڑی بی بی نے تیار کر لیا تھا کیونکہ بیوی تو فقط تھوڑا بہت گوندوں کا حلوا جو بنا کر رکھا ہوا تھا، کھایا کرتی تھیں، باقی رہیں بڑی بی بی انہوں نے دہی سے ایک آدھ چپاتی کھالی۔

    کریمن نے اس اثنا میں مہترانی کا گھڑا بھر دیا جس سے وہ نالیاں وغیرہ صاف کیا کرتی تھی۔ بعد میں اس نے ہاتھ وغیرہ دھو کے، نوکر کو آواز دی۔ اس سے گوشت اور میتھی پالک کا ساگ لانے کو کہا۔ خود گھر کا آٹا گوندھنے بیٹھ گئی۔ آج اسے کچھ فرصت سی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ بڑے میاں دورے پر جا چکے تھے اور آج ان کے ناشتے کی تیاری کا کام نہیں تھا۔ اتنے میں نوکر سوا سلف لے آیا۔ اس نے آواز دی کہ سودا لے لیجئے۔ کریمن آٹا گوندھ رہی تھی۔ اس لیے نہ اٹھی۔ بیوی نے نوکر کی دوسری آواز پر حفا ہو کر کہا ’’کیوں ری اٹھتی کیوں نہیں اور کون تیرا باوا اٹھ کے جائے۔ سنتی نہیں وہ دیر سے کھڑا آوازیں دے رہا ہے‘‘۔ کریمن اٹھنے کو ہی تھی کہ بڑی بی بی نے کہا ’’میں لے آتی ہوں تو گوندھتی رہ‘‘۔ جب آٹا گوندھ لیا تو مسالہ پیسا، آگ جلائی اور گوشت چڑھا دیا۔ اب میتھی چن رہی تھی کہ آواز آئی ’’کریمن بھاگ کے آئیو، جلدی آ جلدی‘‘۔ کریمن چلی جارہی تھی کہ پھر بیوی جی پکاریں ’’اری آتی ہے کہ نہیں ادھر ننھے نے سارا بستر خراب کر دیا ہے‘‘۔ بارے کریمن نے جا کے ننھے کو دھلوایا۔ نیچے کے کپڑے بدلوائے اور پھر سبزی کاٹنے لگی۔

    کریمن کو اب شدت کی بھوک لگ رہی تھی کیونکہ صحت مند جسم ہونے کے باعث صبح ہی سے پیٹ خالی سا لگتا تھا۔ آج رات کی باسی روٹی بھی کوئی نہ بچی تھی اور صبح کے پراٹھوں کے بعد جو دو ایک چپاتیاں پکائی تھیں۔ وہ بڑی بی بی نے کھا لی تھیں پھر بھی شاید ایک آدھ ٹکڑا بچا کچھا رہ گیا ہو اس لیے میتھی چھوڑ وہ باورچی خانے میں جانے کو تھی کہ بیوی جن کی آنکھیں دن بھر اور لوگوں کے کام میں گڑی رہتی تھیں پکاریں ’’اب کہاں سیر کے لیے جا رہی ہے۔ یہ میتھی جلدی جلدی صاف کر۔ لڑکے آدھی چھٹی میں ابھی آ جائیں گے‘‘۔ کریمن نے کہا ’’جی ذرا دیکھنے چلی تھی کوئی ٹکڑا بچا ہو، بھوک لگ رہی تھی‘‘۔ بولیں ’’تجھے ہر وقت بھوک ہی لگی رہتی ہے‘‘۔

    کریمن نے ساگ کاٹ کر دھویا اور دیگچی میں ڈال دیا۔ اب ذرا ایک لمحے کی فرصت ہوئی تھی کہ بیوی نے کہا ’’کریمن یہ لڑکیوں کے تکیوں کے غلاف بہت میلے ہو گئے ہیں۔ انہیں اتار کے لا اور ان کا ٹرنک بھی اٹھا لا میں تجھے دھلے ہوئے غلاف نکا ل دوں‘‘۔ چنانچہ غلاف بدلے گئے۔ بڑی بی بی نے پوچھا ’’دھوبن کپڑے نہیں لائی بہت عرصہ ہو گیا ہے کیا ہوا اسے؟‘‘ بیوی نے کہا ’’اس کی لڑکی بیمارہے شاید اس لیے دیر ہو گئی ہو۔ کریمن جا تو رحیم کو آواز دے۔ اسے دھوبی کے ہاں بھیجیں اور وہاں اندر سے میلے کپڑے بھی اٹھا لا کپڑوں والی کاپی بھی لاکپڑے لکھوں‘‘۔

    چنانچہ کپڑے لکھے گئے۔ رحیم سے جو کبھی کا ڈیوڑھی میں کھڑا تھا کہا کہ ’’دھوبن سے جا کر کہہ دے کہ آ کے کپڑے لے جائے پندرہ دن ہوئے خبر ہی نہیں لی‘‘۔

    کپڑے رکھ، ابھی چولہے کے پاس بیٹھی ہی تھی کہ بڑی بی بی نے کہا ’’کریمن ذرا میرے بالوں میں کنگھی کردے، اندر سے اٹھا لا میری کنگھی۔ جانے سرمیں کمبخت کھجلی کیوں ہوئی جا رہی ہے‘‘۔ کریمن نے اٹھ کر بڑی بی بی کی کنگھی چوٹی کی۔ خیال آیا کہ اب تو ذرا فرصت ہے۔ اپنے بالو ں میں کنگھی کر لوں۔ اس لیے اپنی کوٹھڑی میں گئی اور وہاں بال بنا کے چوٹی باندھ رہی تھی کہ بی بی جی نے آواز دی ’’کریمن دیکھو سالن کو، کہیں جل نہ جائے‘‘۔ کریمن آکے پھر پکانے کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اب دس بج گئے تھے۔ اصغر اور مرغوب آ گئے، انہیں جلدی سے روٹی پکا کر دی پھرباقی آٹے کی روٹیاں پکائیں۔ آگ بجھائی، پرات دھوئی، پھر بیوی اور بڑی بی بی کو کھانا دیا۔ رقیہ کے لیے الگ سالن نکال کے رکھا اور باہر رحیم کو روٹی دی، بعد اس کے آپ روٹی کھائی۔ اب سورج سر پر آچکا تھا۔ سارا صحن تپنا شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے سب برتن اٹھا وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔

    بڑی بی بی نے اور بیوی نے کھانا کھا کر کریمن سے برتن اٹھانے کو کہا۔ ان کے برتن باہر کے برتن جمع کئے۔ انہیں مانجھا مگر برتنوں کو کریمن آہستہ آہستہ دھورہی تھی اس ڈر سے کہ اگر جلدی جلدی دھوکے فارغ ہو گئی تو دیکھتے ہی بیوی کوئی نہ کوئی کام دے دیں گی لیکن ابھی دھو ہی رہی تھی کہ ننھے میاں کے رونے کی آواز آئی۔ اس نے برتنوں کو ادھر ادھر ذرا زور سے فرش پر رکھنا شروع کیا کہ آواز سن کر بیوی سمجھ جائیں کے برتن مانجھ رہی ہے۔ مگر بیوی کیوں ننھے کو بہلانے کے لیے گود میں لے کر ادھر ادھر پھرتیں، وہیں سے آواز دی ’’او کریمن، او کریمن ادھر آئیو‘‘۔ کریمن ہاتھ دھو کے گئی تو حکم ہوا کہ ننھے کو ذرا لے کر پھر، پنگوڑے میں بھی چپ نہیں ہوتا۔ کریمن نے پوچھا ’’بیوی دودھ کے لیے تو نہیں روتا؟‘‘ بیوی بولیں ’’تو مت مشورے دیا کر، دودھ میں نے اسے دس دفعہ پلایا ہے، اب دودھ نہیں پیتا۔ معلوم نہیں اسے کیا خلل ہے؟ اسے لے کے ٹہل یہیں دلان میں‘‘۔

    یہ تھا دوپہر بھر کاکا۔ بی بی رقیہ جب اسکول سے آئیں توانہیں کھانا دیا کچھ دیر پنکھا جھلتی رہی، مگر بیوی نے کہلا بھیجا۔ کریمن ادھر گئی ہی تھی کہ رقیہ نے پھر چیخنا شروع کیا۔ ’’اور کریمن، کریمن!‘‘ وہ بیوی کے دالان میں، انہیں پنکھا جھل رہی تھی کیونکہ دوپہر کی گرمی میں وہ تو سو گئی تھیں، مگر کریمن کو حکم دے دیا تھا کہ پنکھا جھلتی رہ۔ صبح پانچ بجے سے اٹھی ہوئی تھی۔ ابھی تک سو دفعہ اندر باہر نکلی ہوگی۔ بدن چور ہو رہا تھا۔ پنکھا جھلتے جھلتے ذرا اونگھ گئی تھی کہ رقیہ کی آواز نے چونکا دیا۔ اب جواب دیتی ہے تو خطرہ ہے کہ بیوی جاگ نہ اٹھیں اور نہیں دیتی تو بی بی رقیہ سارا گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ ناچار اٹھی اور رقیہ کے کمرے میں گئی۔ وہاں یہ کام تھا کہ ان کے کمرے کے دروازے بندکر کے باہر سے چکیں چھوڑ دی جائیں اور کہیں سے انہیں پنکھا ڈھونڈھ کے لادیا جائے کیونکہ انکے پنکھے پر تو ہر وقت چور لگے رہتے ہیں۔

    پنکھا تلاش کرتی پھرتی تھی کہ بیوی کو مکھیوں نے تنگ کیا انہوں نے ننھے کے اوپر توململ کا ایک دوپٹا ڈال دیا تھا چونکہ کریمن انہیں پنکھا جھل رہی تھی۔ اس لیے خود ویسے ہی پڑی تھیں۔ اب مکھیاں جو منہ ناک پر بیٹھنے لگیں تو وہ جاگ اٹھیں۔ کریمن کو کٹنی مالزادی سب کچھ بنا دیا۔ خوب خفا ہوئیں۔ خیر گزری کہ ننھا سو رہا تھا۔ آواز بہت اونچی نہیں نکالتی تھیں ورنہ شامت ہی آ جاتی۔ کریمن آئی اور ساری دوپہر بیوی کے سرہانے پیڑی پر بیٹھی اونگھتی ہوئی پنکھا جھلتی رہی۔ بہت دیر ایک جگہ بیٹھنے سے پاؤں بھی سو گئے مگر بیٹھی اونگتی رہی۔

    سہ پہر کے وقت پھر نفل وغیرہ کا سامان کرنا تھا۔ کسی کے لیے لسی بنائی۔ کسی کو خربوزے منگوا کے دئیے اور بیوی کو حریرہ بنا کے دیا پھر شام کو سودا منگوایا۔ مسالا پیسا، ہنڈیا چولہے پر رکھی، سالن پکایا، روٹی پکائی۔ باقی دن اسی طرح گزر گیا۔ اس میں بی بی رقیہ کے کمرے میں جھاڑو دینا بھی شامل تھا کیونکہ ان کی چاندنی پر کسی نے میلا پاؤں رکھ دیا تھا۔ رقیہ نے اس کو اندھی، گدھی اور جو جو کچھ ان کے زبان میں آیا کہا اور یہ بھی کہا کہ ہمارے سر پر یہ عذاب معلوم نہیں کیوں سوار ہے۔ ایک آواز تو کبھی سنی ہی نہیں، دس آوازیں دو تو کچھ سنتی ہے اور پھر کام ایسا بددلی سے کرتی ہے کہ نہ ہونے سے بدتر ہوتاہے۔ معلوم نہیں اماں نے اسے کیوں رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال سرشام کریمن نے صحن میں چارپائیاں بچھا دیں۔ ان پر سب کو کھانا کھلا کے، برتن جمع کرکے انہیں صاف کیا۔

    اب رات کے دس بج چکے تھے۔ کریمن نے ابھی ابھی برتنوں سے فراغت حاصل کی تھی۔ اب کھرا صاف کر رہی تھی۔ ٹانگیں ایسی بوجھل محسوس ہو رہی تھیں جیسے ان میں سیسہ بھرا ہوا ہے۔ آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں لہذا اس نے سوچا کہ پانی صبح اٹھ کے بھروں گی اب تو نل نہیں چلایا جائےگا اور پھر اس کے چلانے سے شور ہوگا اور سوچا کہ گھڑونچی کے گھڑے تو ابھی خالی نہ ہوئے ہوں گے کیونکہ سہ پہر کو دیکھے تھے آدھے آدھے بھرے ہوئے تھے۔ اس لیے اپنی چارپائی بچھانے چلی۔ آج ہوا بند تھی مگر کل جتنا حبس نہ تھا۔ چارپائی تو بچھالی، اندر سے بستر لانا دوبھر ہو گیا۔ بہرحال لے آئی اور بچھانے کے ساتھ جو پڑی تو ایک ہی منٹ میں سو گئی۔

    ابھی رقیہ اور اصغر جاگ رہے تھے۔ اپنے اپنے سکول کی باتیں ہو رہی تھیں۔ میاں اصغر کو پانی کی ضرورت ہوئی۔ وہ اٹھ کر لوٹا بھرنے گیا تو دیکھا کہ گھڑے میں پانی نہیں ہے۔ بس اس نے چلانا شروع کیا۔ ’’گھڑوں میں کبھی پانی ہوتا ہی نہیں۔ معلوم نہیں بہشتی کیوں نہیں رکھ لیتے۔ روز دیکھتا ہوں پانی نہیں ہوتا۔ اب میں کیا کروں؟ ‘‘اصغر کی دادی غالباً جاگ رہی تھیں کہنے لگیں ’’بیٹا باورچی خانے میں سے لے لو‘‘ مگر اصغر کیوں جاتا۔ وہیں سے گیا اپنی والدہ کے سرہانے اور لگا انہیں جھنجوڑنے ’’اماں! اماں! اے اماں!!‘‘ ان کی ابھی ابھی آنکھ لگی تھی یکلخت جو جاگنا پڑا بہت غصہ آیا۔ کہنے لگیں ’’ہے ہے تجھے صبر بھی نہیں پڑتا۔ کسی کو سونے بھی دیتا ہے کہ نہیں؟ سارا دن گرمی سے آنکھوں پر نیند حرام رہی اب ذرا سوئی تھی کہ جلاد سر پر آن سوار ہوا‘‘۔

    ’’تو میں کیا کروں‘‘۔ اصغر نے جھلا کے جواب دیا۔ ’’گھڑوں میں پانی بھی ہو، مجھے صحت خانے جانا ہے‘‘۔

    ’’تو میرے سر کیوں ہوا ہے نامراد، کریمن مردار سے کہہ وہ نواب زادی تو سرشام ہی سو جاتی ہے۔ اسے کہہ تجھے پانی نکال کے دے۔ ایسی کاہل بھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔ توبہ ایسی نیند کی پیاری ہے کہ پانی تک نہیں رات کو بھر سکتی۔ اٹھا اس کام چور کو! او کریمن۔۔۔ او کریمن۔۔۔ اے کریمن‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے