شباہت کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کہیں پتہ نہ تھا اور پھوپھی بچوں میں محو تھیں۔۔۔ چھا جوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات۔۔۔
’’پھوپھی۔ اب سوجائیے۔ سب لوگ سو چکے‘‘۔
’’ارے بیٹی۔ میں بخت ماری تو کب کی سو چکی ہوتی، پر بچے سونے دیں تب نا‘‘۔
’’پھوپھی‘‘۔ شباہت آہستہ سے بولی۔
’’سب بچے سو چکے‘‘۔
’’ایں’’۔ ’’پھوپھی نے چونک کر بچوں کو دیکھا اور خود ہی ہنس دیں۔ دھت تیرا بھلا ہو، میری بھی مت ماری گئی‘‘۔
پھر پھوپھی نے لحاف سر تک کھینچ لی۔۔۔ شباہت کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔
اس نے گھڑی دیکھی دس بج چکے تھے۔ دسمبر کی آخری تاریخوں کی کٹ کٹاتی سردیاں اور اس پر بارش کا زور۔ شباہت نے کان لگائے۔ چاروں طرف برف آلود ہواؤں کی سائیں سائیں اور زور دار بارش، بجلی اور گرج کے ساتھ۔ اس نے ہمت کر کے ذرا سی کھڑکی کھولی۔۔۔
باہر چاروں طرف دو ر دور تک چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات۔۔۔ اس نے پھوپھی کی طرف دیکھا۔ وہ نیند میں رو رہی تھیں۔ شباہت نے ہڑبڑا کر کھڑکی بند کر دی اور لحاف کے اندر گڑ مڑا کر دوہری ہو گئی۔ خوف کی ایک تیز لہر اس کے رگ و پے میں دوڑنے لگی تھی۔ پتہ نہیں نیند میں رونے والے کے اندر سے جو دوسرا آدمی نکل آتا ہے اس کی کیا جون ہو۔ اس نے آنکھیں بند کر کے بے خیال ہونا چاہا تو پھوپھی کی آواز سنائی دی۔ چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات!
اور پھر تمام رات وہ سو نہ سکی۔
ذرا سا نیند کا جھونکا آتا اور پھر جیسے چونک کر وہ جاگ پڑتی۔ رات بھر بھیانک خواب اسے پریشان کرتے رہے۔ ایک سجی سجائی دلہن، ایک لاش کے پاس۔ پھر اس لاش اور سجی سنوری دلہن کے چاروں طرف آگ کے بلند شعلے، وہ چونک کر جاگ پڑتی۔ درود پڑھ کر اپنے کو دم کرتی۔ اٹھ کر بچوں کو دیکھتی۔ پھر ہواؤں پر کان لگاتی۔ وہی چھاجوں برستا پانی۔۔۔ پھر کسی طرح سونے کی کوشش کرتی۔۔۔ نیند کا ایک جھونکا۔ آگ میں گھری دلہن کا چہرہ۔۔۔ پانچ برس کی معصوم بچی۔ بےتحاشا مار کھاتے ہوئے اور روتے ہوئے۔۔۔ لبنان میں اپنے ماں باپ بھائی بہن کی بمباری میں جلی لاشوں کے پاس بیٹھا ایک معصوم۔۔۔ سجی سنوری دلہن لاش کے پاس خموش۔۔۔ ایس! د یس! ساری رات وہ سوتی رہی اور جاگتی رہی۔۔۔ وہی چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات!
شباہت کبھی اپنے بارے میں سوچتی کبھی اس کے بارے میں۔ درد ایک ایسا جھرنا بن چکا تھا جس کا پانی ہوا کے جھونکوں سے چاروں طرف جھوم جھوم کر گرتا ہے۔ اسے پھر وہ یاد آئی۔ راگنی! اس کی دوست اور خود شباہت۔۔۔دونوں کا بچپن ایک ساتھ گزرا۔ ایک ساتھ میٹرک سے بی اے تک۔۔۔ اور اب!
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔۔۔ کیسا تڑپ کر اس نے دیکھا تھا۔ جیسے ڈوبنے والا آخری مرتبہ پانی کی سطح سے دنیا کو دیکھتا ہے۔
’’انکل، اس کو بچا لیجئے انکل!‘‘
’’بیٹی، پرکھوں کی پرمپرا توڑنا بہت مشکل ہے‘‘۔
’’مگر اس کا قصور کیا ہے؟‘‘
’’تم خوش نصیب ہو بیٹی۔ ہم اس سلسلے میں بدقسمت ہیں‘‘۔
وہ انکل کے کندھے سے لگ کر سسک سسک کر رو پڑی۔ سوال راجستھان کی راجپوت پرمپرا کا تھا، سب کچھ اس کے سامنے ہوا۔
راگنی کا شوہر اسے بہت چاہتا تھا۔ مرنے لگا تو خاص طور پر وصیت کی۔۔۔ ’’راگنی کو ستی کرایا گیا تو میری آتما بےچین رہےگی‘‘۔ مگر سوال بیٹے کی آتما کے بھٹکنے کا نہیں تھا۔۔۔ سوال پرمپرا کا تھا۔ شباہت نے ری ایکٹ کیا تو راگنی کے پتا جی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’بیٹی تم مہمان ہو میں یہ پسند نہیں کروں گا کہ یہاں کوئی بھی تمہارے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی کرے‘‘۔
کبوتر حسرت سے دیکھتا رہتا ہے اور چیل اس کا بچہ لے جاتی ہے۔
چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات!
ساری رات اسی عالم میں گزری۔ جانے وہ کب سوئی کب جاگی!
یہ اس رات کی واردات تھی جس رات راگنی نے عام معمولی لڑکی سے ستی ماتا تک کا سفر کیا!
جو کچھ ہوا وہ شباہت کے لیے انتہائی ناقابل برداشت تھا۔ اس لیے نہیں کہ راگنی اس کی دوست تھی بلکہ اس لیے کہ کچھ دن پہلے ہی دکھ اسے بھی دھجی دھجی کر چکا تھا۔ راگنی والا حادثہ اس کی عدت ختم ہونے کے ٹھیک تیسرے دن ہوا اور وہ اندر سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ’’کاش راگنی شباہت ہوتی‘‘۔
اس سمے اس کے اندر ایک بہت منہ زور خواہش نے سر اٹھایا تھا، مگر وقت تو اس کے ہاتھوں سے پہلے ہی پھسل چکا تھا۔ افسوس! اگر اس کا ذرا بھی اندیشہ ہوتا تو وہ راگنی سے زبردستی لکھوا کر رکھ لیتی۔ مگر اس کے شوہر کی وصیت نے اسے مطمئن کر دیا۔ اس کا کسے پتہ تھا کہ معاملہ شوہر اور بیوی کا نہیں دراصل سماج کا ہوتا ہے!
ایسی ہی اوٹ پٹانگ فکروں میں دن پر دن بیتتے رہے۔ ہر رات بچوں کی پسند پر پھوپھی شروع کرتیں۔۔۔ چھاجوں برستا پانی۔۔۔ اور ہر رات شباہت کی نیند اچٹ جاتی اور ہر دن اوٹ پٹانگ کی فکروں میں بیت جاتا۔
اور تب کہیں جاگتی راتوں اور سلگتی دوپہروں کے بعد ایک صبح عجیب سی بات ہو گئی۔ اس کا دیور انتخاب احمد بغیر پکارے اس کے کمرے میں چلا آیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اسے بڑا عجیب سا لگا۔ کسی کے کمرے میں بھی کوئی صبح سویرے بغیر پکارے نہیں جایا کرتا۔ اس نے بڑی حیرت سے پوچھا۔ ’’ارے تم بغیر پکارے کیسے چلے آئے؟‘‘
’’آپ کے کمرے میں کوئی مرد تو نہیں!‘‘ انتخاب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’یعنی شخصی آزادی کے لیے عذر کا ہونا ضروری ہے؟‘‘ اس کے من میں ایک عجیب سے سوال نے سر اٹھایا۔ اس روز تمام دن وہ بےچین رہی اور انتخاب کا جملہ باربار یاد آتا رہا۔’’آپ کے کمرے میں کوئی مرد تو نہیں!‘‘
اور اس رات مہینوں بعد پہلی مرتبہ اس کا دھیان اپنی دیورانیوں کے کمروں کی طرف گیا۔ ان کے کمروں سے سرگوشیاں ابھر رہی تھیں۔۔۔ بیچ بیچ میں بھنچی بھنچی ہنسی۔۔۔ دسمبر کی سرد رات میں اسے شدید گرمی کا احساس ہوا۔ ایسا لگا کہ اس کے بدن پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں یا جیسے کسی نے دونوں کانوں کی لویں پکڑ کر زور سے مسل دی ہوں۔ اس نے ہڑبڑا کر لحاف بدن پر سے پرے پھینک دیا اور تبھی پھوپھی کی آواز کی بازگشت سنائی دی۔ چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات‘‘۔
اس کا جی چاہا کہ وہ پھوپھی سے پوچھے۔۔۔ مگر تبھی اسے یاد آیا کہ پھوپھی سو رہی ہیں۔
پھوپھی گہری نیند سوتی رہی اور وہ جاگتی رہی اور رات رات بھر اوٹ پٹانگ خواب اسے پریشان کرتے رہے۔۔۔ زندگی کے وہ سہانے دن جو انتساب احمد کے ساتھ بیت گئے۔ لپ چھپ کرتے آتے رہے اور جاتے رہے اور ایک عجیب سا رومانی حزن مسلسل اس کے چاروں اور جھوم جھوم کر برستا رہا۔ اٹھارہویں برس اس کی شادی ہوئی اور چوبیسویں برس وہ بیوہ ہو گئی۔ ان چھ برسوں میں انتساب احمد نے اسے ٹوٹ ٹوٹ کر پیار کیا۔ دونوں کے پیار کی نشانی اس کے بچے سامنے پلنگ پر سوئے تھے اور وہ جاگ رہی تھی۔
شباہت کیوں جاگتی رہتی ہے؟ آخر اس کا مسئلہ کیا ہے؟ انتساب احمد کے والدین نے اسے اپنی مرحوم اولاد کی نشانی سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گھر میں جیسا دوسرے کھاتے ویسا ہی وہ کھاتی جیسا دوسرے پہنتے ویسا ہی وہ پہنتی۔ جن اسکولوں میں دوسرے بھائیوں کے بچے پڑھتے انہیں میں اس کے بچے بھی پڑھتے۔ جس کمرے میں وہ انتساب کے ساتھ رہتی تھی اسی میں انتساب کے بعد بھی رہی۔ سسرال اور میکہ دونوں جگہ سے ایک خاص رقم ہر ماہ اسے دی جاتی اور کوئی پلٹ کر اس کا حساب نہ پوچھتا۔ پھر وہ پریشان کیوں ہے؟ رات رات بھر کیوں جاگتی رہتی ہے۔ اس کی دھلی دھلی ہر صبح کسی نہ کسی طرح میلی کیوں ہو جاتی ہے؟
شباہت کے پاس سوال تو ہے مگر جواب نہیں!
اسے نہیں معلوم ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ایسا ہو ہی جاتا ہے۔
اب اسی دن پہلی جنوری کی صبح سب نے اٹھتے ہی ہر سال کی طرح ایک دوسرے کو مبارک باد تو نہ دی۔ مگر دس بجتے بجتے یورانیاں اپنے اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ پکنک پر روانہ ہو گئیں۔۔ نہ انہیں کسی نے روکا نہ اسے کسی نے کہا۔
’’مگر بچے تو جا سکتے تھے؟‘‘
کیا صرف عورت ہی نہیں، بچوں کے لیے بھی پورے گھر کی ضرورت ہے۔
اچانک اس کے اندر ایک بڑے ہی منہ زور اور سرکش جذبے نے سر ابھارا۔ اس نے بچوں کو تیار کرایا اور خود بھی تیار ہو کر جب کمرے سے باہر آئی تو ساس نے بڑی حیرت سے پوچھا ’’کہاں جا رہی ہو بیٹی؟‘‘
’’آج پہلی جنوری ہے امی۔ بچوں کو ذرا گھما لاؤں!‘‘
’’نہ بیٹی نہ‘‘ ساس نے بڑی نرمی محبت اور آہستگی سے اس کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’اچھا نہیں لگتا بیٹی!‘‘
’’مگر عدت تو پوری ہو چکی‘‘۔
’’ہاں بیٹی۔ مگر سال ڈیڑھ سال ہم لوگوں کے یہاں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا‘‘۔
’’پرکھوں کی پرمپرا توڑنا بہت مشکل ہے بیٹی!‘‘ راگنی کے پتا جی کی آ واز آئی۔
شباہت ایسے تڑپی جیسے کسی نے زنگ آلود تلوار الٹی طرف سے اس کے پیٹ میں گھونپنے کی کوشش کی ہو۔۔۔ پورے وجود میں سانپ کے زہر کی طرح پھیلتا اور دوڑتا درد۔۔۔ اس نے بے تاب ہو کر صدیوں پر محیط ناقابل عبور دیوار پھاندنے کی تمنا کی۔۔۔ کوئی ہے؟
اسے آج راگنی بہت یاد آئی اور پھر اس کے پتا جی۔ ’’تم خوش نصیب ہو بیٹی ہم لوگ اس سلسلے میں بدقسمت ہیں‘‘۔ اس نے چھٹپٹاکر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ جانے کیوں اسے شبہ ہو گیا کہ انکل اس کی تڑپ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان نے البم میں سے راگنی کی تصویر نکالی اور بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی۔پھر تصویر البم میں رکھتے ہوئے سوچا ’’اب دوٹوک فیصلہ بہت مشکل ہو گیا ہے‘‘۔
اور پھر یک بارگی بہت سی صبحیں اور شامیں اس پر حملہ آور ہو گئیں۔ انتساب احمد کے انتقال کے بعد سارے فیصلے تو دوسروں نے کر ڈالے۔۔۔ مگر اس سے پوچھا بھی جاتا تو وہ کیا کر لیتی؟ بیوہ ہونے کے بعد لڑکی کی وراثت ماں با پ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ کیا اسے بھی میکے لوٹ جانا چا ہیے تھا۔ لیکن ماں باپ کتنے دن تک؟ ماں باپ کے بعد بھائی بھرجائی کا رویہ صحیح رہےگا۔ اس کی کیا ضمانت؟ تو گویا اسے سسرال ہی میں رہنا چاہیے۔ مگر سسرال میں اس کا کیا ہے۔ اس کا نہ سہی بچوں کا تو آخر یہی گھر ہے۔ مگر بچے تو محجوب ہو چکے؟ لیکن اگر دادا کے گھر سے بھی دور ہو گئے تو مزید محرومی ان کی تقدیر بنےگی؟ مگر یہاں رہے تو ان کی حیثیت کیا ہوگی؟
سوالات چاروں طرف بکھرے پڑے تھے۔ مگر جواب کا کہیں پتہ نہیں تھا۔
وہ اپنے آپ کو مسلسل اندر اندر کاٹتی رہی۔
اس درمیان پاکستان سے خبر آئی کہ شائستہ باجی کی شادی ہو گئی!
شائستہ باجی شباہت سے دس سال بڑی تھیں۔ یہ خبر سن کر اچانک ایک عجیب سے خیال نے سر اٹھایا۔ شائستہ باجی کی شادی چونتیس برس میں ہوئی۔۔۔ میں ابھی چوبیس برس کی ہوں۔۔۔ اور پھر فوراً ہی اندر سے جیسے کانپ گئی۔ عجیب قسم کا بدن پر گندگی لگ جانے کا احساس یا غیر محرم کے آگے ستر کھلنے کی شرم۔۔۔ اس لمحے میں اس کا اپنا آپ بھی اس کا غیر بن گیا۔۔۔ چھی۔۔۔ یہ میں نے کیسے سوچ لیا۔۔۔ مگر سوچ پہ کس کا اختیار۔۔۔ بعد کے دنوں میں بھی شائستہ باجی اسے کئی بار یاد آئیں مگر وہ کیا کر سکتی تھی۔ شائستہ باجی کی خبر کے بعد بھی تو اماں ابا کو وہ یاد نہیں آئی۔۔۔ انتساب احمد کے انتقال کے بعد وہ صرف ایک مرتبہ موضوع گفتگو بنی۔ وونوں سمدھیوں اور سمدھنوں نے گفتگو کی۔ ابا اماں کو اپنی عزت پیاری اور ساس سسر کو اپے بیٹے کی خریدی چیز کو سینت کر اور بچا کر رکھنے کی فکر۔
وہ سسرال میں ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور میکے والے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے روانہ ہو گئے۔
اماں مورے باوا کو بھیجو کہ ساون آیا ری۔۔۔!
باوا تو آئے لیکن اسے لیے بنا چلے گئے۔ ایکے کرس گئی اماں دوئے کرس گئی میں، پردہ اٹھائی کے دیکھا تبروا بڑی دور۔۔۔ تیر وا بڑی دور۔۔۔ اکبر کی جواں لاش پہ بیوہ کا وہ رونا۔ چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات!
اس رات اس نے خواب دیکھا۔
دو کشتی سمندری طوفان کی زد میں، ایک کشتی کچھ ہی دیر میں الٹ گئی اور سمندر کے تھپیڑوں کی نذرہو کر غرقاب ہو گئی۔۔۔ مگر دوسری کشتی بھنور میں گھری ڈوبتی رہی ابھرتی رہی۔۔۔ ابھرتی رہی ڈوبتی رہی۔ اس نے خواب ہی میں بےتاب ہو کر سوچا اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے۔۔۔ مگر کشتی کی عجب قسمت۔ بھنور میں گھری چکر پہ چکر کھاتی رہی اور طوفان کا زور بڑھتا رہا۔۔۔ کشتی اور بھنور۔ بھنور اور کشتی!
وہ چیخ کر جاگ پڑی۔۔۔ اس کی چیخ سن کر پھوپھی بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔۔۔ ’’کیا ہوا بیٹی؟ کیا ہوا؟‘‘۔۔۔ وہ کیا جواب دیتی، وہ تو ابھی تک خواب کے سحر میں گرفتار تھی۔۔۔ اور پھوپھی۔۔۔ انتساب احمد کی پھوپھی، جنہیں شباہت کی تنہائی کے خیال سے اس کے کمرے میں سلایا جاتا تھا۔ اپنا زمانہ یاد کر کے کپکپا گئیں۔اور تب اسی آسیب زدہ حالت میں شباہت نے پھوپھی کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا۔ ’’وہ کہانی پوری سنائیے۔۔۔ چھاجوں برستا پانی۔۔۔‘‘
’’بیٹی بہت رات ہو چکی۔ آج سو جاؤ کل سنا دوں گی‘‘۔
’’نہیں پھوپھی آج سنائیے۔ وہ پھٹی پھٹی آواز میں چیخی‘‘۔
’’اچھا اچھا سناتی ہوں۔ دھیر دھرو۔ دھیرج سے بیٹھو‘‘۔ پھوپھی نے گھبرا کر کہنا شروع کیا۔۔۔ ‘‘ سوتا سنسار، جاگتا پروردگار، سات سمندر پار ایک بادشاہ تھا اس کی سات بیٹیاں تھیں۔ ایک رات کھانا کھاتے ہوئے بادشاہ نے بیٹیوں سے پوچھا ’’تم سب کس کا دیا کھاتی ہو؟‘‘ چھ نے کہا ’’آپ کا دیا‘‘ مگر ساتویں نے کہا ’’خدا کا دیا‘‘۔
بادشاہ ساتویں بیٹی کے جواب پر خفا ہوا اور اس اندھیری رات ہی میں اسے جنگل میں پھنکوا دیا۔ جب بادشاہ کے کارندے اسے جنگل میں چھوڑ کر آ رہے تھے تو جھما جھم بارش شروع ہو چکی تھی۔۔۔ ساتویں بیٹی نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔۔۔ چاروں طرف چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات! پھر مدتوں اس جنگل میں سورج نہیں نکلا۔ چاروں طرف چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی۔۔۔‘‘
’’مگر پھوپھی، کب تک یہ پانی چھاجوں برستا رہےگا اور کب تک وہ لڑکی جنگل کی اندھیری رات سے جھوجھتی رہےگی‘‘۔شباہت نے بے چین ہو کر بیچ میں ٹوکا دیا۔
’’بیٹی۔ اب صبر‘‘۔ پھوپھی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا۔ ’’بیچ میں مت بولو۔ جنگل کی اندھیری رات جس کی تقدیر بنتی ہے اسے جھوجھنا تو پڑتا ہی ہے بیٹی۔۔۔ شہزادی بھی جھوجھتی رہی۔۔۔ اور تب کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ایک دن ایک شہزادہ اس کے جنگل میں آ نکلا‘‘۔
’’مگر پھوپھی۔۔۔؟‘‘ شباہت نے پھر کپکپا کر ان کے ہاتھ پکڑ لیے۔۔ ’’اور جن کے شہزادے آکر چلے گئے؟‘‘
’’امید بنائے رکھنے کے علاوہ چارہ کیا ہے بیٹی؟ اس کے سہارے زندگی تو بیت جاتی ہے!‘‘
پھوپھی کی آواز میں پت جھڑ کے ان گنت موسموں کی ویرانی شامل تھی۔ پھوپھی کو بیس برسوں بعد خود ان کو ان کا اپنا آپ یاد آ گیا۔۔۔ چھاجوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات۔۔۔ وہ بھی تو بادشاہ کی ساتویں بیٹی تھیں۔۔۔ مگر ان کے اندھیرے جنگل میں تو پھر کوئی شہزادہ نہیں آیا‘‘۔
’’پھوپھی۔۔۔ کیا آپ نے؟ کبھی کوئی لو نہیں لگائی۔ کوئی انتظار نہیں کیا‘‘۔
’’بیٹی، تیری تو زندگی پڑی ہے‘‘۔ وہ اس وقت انتساب احمد کی پھوپھی نہیں تھیں۔ گھائل کی گت گھائل جانے۔
’’ہم لوگوں کے یہاں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا‘‘۔ اسے ساس کا جملہ یاد آ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
’’جنگل کی اندھیری رات میں شہزادے ایک ہی مرتبہ کیوں آتے ہیں پھوپھی؟‘‘
’’بیٹی، ہم ہی نا دروازہ بند کر دیتے ہیں؟‘‘
شباہت نے ایک مرتبہ پھر تڑپ کر پھوپھی کو دیکھا اور بیک وقت دو کیفیتوں میں گھر گئی۔ پورے وجود میں سانپ کے زہر کی طرح پھیلتا اور دوڑتا درد۔۔۔ صدیوں پر محیط ناقابل عبور دیوار پھاند لینے کی تمنا۔۔۔کوئی ہے؟ کوئی ہے جو اس کا انگوٹھا چوس لے؟ غیر محرم کے آگے ستر کھلنے کی شرم۔۔ اس نے ہڑ بڑا کر اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چھپا لیا۔
اور تب اچانک ایک عجیب سی خواہش نے سر اٹھایا۔۔۔ کاش وہ راگنی ہوتی۔
وہ پور پور کٹ کر اپنے اندر اندر گر رہی تھی۔۔۔ اور پھوپھی اپنے کٹے پھٹے ٹکڑے ٹکڑے وجود کو چن رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں۔۔۔ حاصل تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ وہی چھاجوں برستا پانی۔
اور شباہت کی آنکھوں میں نیند کا دور دور دتک پتہ نہ تھا۔ وہی جنگل کی اندھیری رات!
شہزادی جنگل کی اندھیری رات سے کب تک جھوجھتی رہےگی۔۔۔؟؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.