Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفن کی دکان

محمد نہال افروز

کفن کی دکان

محمد نہال افروز

MORE BYمحمد نہال افروز

    سلیم ایک با صلاحیت نوجوان تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے نوکری کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہاتھا۔ اسے نوکری ملنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ سلیم ہی کی طرح ملک کے دیگرنوجوان بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بڑی تعداد میں بے روز گار تھے۔ ہر طرف بے روز گاری کے سبب نوجوان دھرنے پر بیٹھتے اور سرکار سے روزگار کا مطالبہ کرتے تھے۔ وہ اپنا پورا وقت بھوک ہڑتال، چکاجام، سرکاری افسران کا گھیراؤ، سرکار کے خلاف نعرے بازی اور میڈیا کے سامنے گہارلگانے میں صرف کر رہے تھے، لیکن سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ احتجاج کانتیجہ صفر ہی تھا۔ سرکار روزگار کے نام پر نوجوانوں سے پکوڑے تلوارہی تھی۔ نوکری کے نام پرانہیں کچھ مل رہاتھا تو صرف پھیکو جملے، جس کو سن کرملک کا ہرنواجوان جبرو زیادتی کی طرف مائل ہو رہا تھا۔ پورے ملک میں دہشت اور وحشت کا ماحول بنتا جا رہاتھا۔

    سلیم ایک ایسے شہر میں رہتا تھا، جہاں پر مسلمانوں کی کثیر تعداد تھی۔ اس شہر میں اعلیٰ طبقے اور رئیس لوگوں کی تعداد ناکے برابر تھی۔ وہاں کے تمام لوگ چھوٹا موٹا ہی سہی لیکن اپنا خود کا کاروبار کرتے تھے، جس سے ان کی روزی روٹی بحسن خوبی چل رہی تھی۔ تمام شہری تافتان اور سالن نوشی میں مست تھے۔ سلیم کوجب انتھک کوشش کے باوجود بھی نوکری نہیں ملی تو اس نے اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا اور اسی کو اپنا مقدر مان کر محنت ا ور ایماندری سے اپنے کام کو سرانجام دینے لگا۔

    لیکن وقت کی تبدیلی نے انہیں اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا کہ اب ان کا پیٹ پالنا بھی دشوار ہوگیا تھا۔ حکومت کی نئی پایسی اور نئے سیاسی اقدام سے چھوٹے موٹے کاروباری سڑک پر آگئے تھے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی چھوٹے موٹے کاروباریوں پر قہر بن کر ٹوٹی۔ نوٹ بندی کی مار اور جی ایس ٹی کے بھار سے چھوٹی موٹی ملوں اور کمپنیوں پرتالے لگ گئے تھے۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے تھے۔ متوسط طبقے کے لوگ غریب ہوتے گئے اور غریب آدمی غریب تر ہوتا گیا۔ حکومت کی اس نئی پالیسی اورسیاسی اقدام نے سلیم کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اب یہاں اسے رو زگار کی کوئی تدبیر سوجھ نہیں رہی تھی۔ عمیق تدقیق کے بعدبھی جب روزی روٹی کی کوئی تدبیر نہیں سوجھی تو اس نے مجبور ۱ً اپنا پیدائشی شہر چھوڑ کر ایک نئے شہر کا رخ کیا، جہاں وہ اپنا کاروبار نئے سرے سے شروع کرنے کا خواب لے کرگیا۔

    سلیم کے لیے وہ شہر تو نیا تھا، لیکن اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ سلیم وہا ں بھی روزی روٹی کے لیے در در بھٹکتا رہا۔ اسے اپنے خواب کو حقیقی جامہ پہنانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ آخر کاربڑی محنت ِ شاقہ کے بعد اسے ایک آئی ٹی کمپنی میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ سلیم بہت محنت اور ایمانداری سے اپنے کام کو سرانجام دینے لگا۔ سلیم کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے کمپنی کا مالک اس کا متوا ترپرموشن کرتا گیا۔ سلیم بہت کم مدت میں کلرک سے منیجر کے عہدے پر فائز ہوگیاتھا۔ اس کی قابلیت اور ترقی کی وجہ سے کمپنی کے دوسرے ملازم سلیم سے حسد کرنے لگے۔ کمپنی کے سارے ملازم سلیم کے خلاف ہو گئے اور ایک جٹ ہوکرکمپنی کے مالک سے اس کی شکایت کرنے لگے۔ اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ سلیم اپنی ذمے داری کونہیں سمجھتا۔ وہ اکثراپنے چیمبر سے غائب رہتاہے۔ باوجود اس کے اس کو پرموشن پرموشن مل رہاتھا۔ سلیم کو کمپنی جوائن کیے ہوئے ابھی چند مہینے ہی ہوئے تھے اور اسے کلرک سے منیجر تک بنا دیا گیا اور تنخواہ بھی دوسرے ملازمین سے دوگنی کر دی گئی تھی۔

    ملازمین کی شکایت پر کمپنی کے مالک نے سلیم سے کام کے دوران غائب ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا، ”سر میں اپنے کسی ضروری کام کے لیے چیمبر سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکلتا ہوں، لیکن اس سے آپ کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں اپنا کام پورا کرنے کے بعدہی آفس سے باہرجاتا ہوں۔ بلکہ اپنے ساتھیوں سے زیادہ کام کرتا ہوں۔“

    ”وہ تو ٹھیک ہے۔ مجھے تم سے یا تمہارے کام کرنے کے طریقے سے کوئی دقت نہیں ہے۔ مجھے تو تمہارا کام بہت پسند ہے، لیکن کمپنی کے رولز ریگولیشنز کی پاسداری ضروری ہے۔ تمہارے اس طرح کام کے وقت غائب ہونے سے دوسرے ملازمین پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ مجھ کو انہیں جوا ب بھی تو دینا ہوتاہے۔“

    ”سر میں تو ایسے ہی کام کروں گا۔ چونکہ کہ مجھے نماز پڑھنا ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے دن میں دو تین بار تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے اپنے کام کو روکنا پڑتا ہے۔ نماز کے لیے تو آپ کو وقت دینا ہی پڑے گا۔ آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں، نماز سے آپ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ کمپنی کے لیے میں اپنے ساتھیوں سے زیادہ کام کرکے دوں گا۔ جیسا کہ اب تک کرتا آیا ہوں۔“

    سلیم مجھے تمہارے نماز پڑھنے سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن تمہیں کمپنی کے رولز کے تحت ہی کام کرنا ہوگا۔ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک تم کو کام کرنا ہو گا۔ دوپہر میں تمام ملازمین کی طرح تم کو بھی ایک گھنٹے کی چھٹی ملے گی۔ اس وقت میں تم نماز پڑھ لو اور دوسری ضروریات سے بھی فارغ ہو لو۔ اس کے علاوہ میں تمہارے لیے اور کچھ نہیں کر سکتا۔“

    سلیم کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس نے کمپنی کے مالک سے کہا، ”ہرنماز کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اس وقت مجھے اپنا کام روکنا ہی ہوگا۔ اگر آپ مجھے اتنا وقت نہیں دے سکتے تو میں آپ کی کمپنی میں کام نہیں کر سکتا۔“

    ”جیسی تمہاری مرضی۔ تمہیں کمپنی کے رولزکے مطابق ہی کام کرنا ہوگا۔ میں صرف تمہاری وجہ سے کمپنی کے تمام ملازمین کو ناراض نہیں کر سکتا۔“ کمپنی کے مالک نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    سلیم مذہبی قسم کا انسان تھا۔ نماز تو چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اس لیے مجبوراًاس نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ اتنے دن کام کرنے کی وجہ سے اسے اپنے اوپر اعتبار ہو گیا تھااور یہ آئی ٹی کا دور بھی تھا۔ اسی لیے وہ بے فکر تھا کہ کہیں نہ کہیں اسے اچھی نوکری مل جائے گی۔ لیکن اسے خیال آیا کہ ہر کمپنی میں کام کے دوران نماز پڑھنے کا مسئلہ ضرور آئے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے نوکری کرنے کاارادہ اپنے دل سے نکال دیااور اپنا ذاتی کاروبار کرنے کا ارادہ کیا۔

    سلیم کو اتنے دن آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے سے اس میدان میں اچھا خاصہ تجربہ ہو گیا تھااور اتنے پیسے بھی جمع کر لیے تھے کہ اپنا خود کا کام شروع کر سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اسی شہر میں لیز پر روم لے کرایک آئی ٹی شاپ کھول لیا۔ شاپ کا نام اس نے Miracle IT Solution رکھا۔ ساتھ میں سلیم نے یہ بھی درج کرادیا کہs One Stop for All Solution۔ اپنی شناخت کو قائم رکھنے اور اردو سے بے پناہ محبت کی وجہ سے اس نے سائن بورڈ پر اردو میں بھی شاپ کا نام لکھوا دیا۔ ”مراکل آئی ٹی سلوشن“ ایک جگہ رکیے اور آئی ٹی سے متعلق سارے کام کومناسب قیمت پر حل کروایئے۔

    لیکن سلیم یہاں بھی کامیاب نہیں ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس نے کمپنی کی نوکری چھوڑ کراسی شہر میں یہ شاپ کھولی تھی، جس سے کمپنی کے مالک سمیت ملازمین کو بھی اچھانہیں لگا۔ اسی لیے وہ لوگ سلیم کے کام میں آڑے آنے لگے اور اسے شاپ بند کرنے کے لیے طرح طرح کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ دوسری بات یہ کہ شہر میں نفرتیں اتنی بڑھ چکی تھیں کہ ہندو طبقہ کے زیادہ تر لوگ اردو سائن بورڈ دیکھ کر اس کی شاپ پر نہیں جاتے تھے اور مسلمان طبقہ خود کو سیکولر ثابت کرنے کے چکر میں سلیم کی دکان پر جانے سے احترازکرنے لگے۔ تیسری بات یہ کہ سلیم دکان ہی میں نماز پڑھتا اور عبادت بھی کرتا تھا، جس سے لوگوں کو اکثر اپنے کام کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا تھوڑے بہت جو کسٹمرز آتے بھی تھے وہ بھی دھیرے دھیرے بند ہو گئے۔

    شاپ پر کسٹمر زکے نہ آنے کی وجہ سے سلیم کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ آمدنی بالکل نہیں تھی اور خرچ اپنی جگہ قائم تھا۔ ہر مہینے روم کا کرایہ دینا، پاور بل دینا۔ اس کے علاوہ دوسرے اخراجات تو تھے ہی۔ اوپر سے دوسرے شہر میں سلیم کا اپنا خرچ بھی تو تھا۔ کمپنی میں کام کر کے جو پیسے اس نے جمع کیے تھے وہ بھی تھوڑے عرصے میں ختم ہوگئے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا تو دور اس کو اپنی آبرو بچانی مشکل ہوگئی۔ اس لیے مجبور ہو کر سلیم نے شاپ بند کردیا اور اپنے آبائی شہر واپس چلا آیا۔

    واپس آکرسلیم نے دیکھا کہ ملک کے حالات بد تر ہوتے ہوئے بھی یہاں پر امن اور سکون ہے۔ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ضرور ہے، لیکن ہر قوم کے لوگ آپس میں مل جل کررہتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی دونوں میں شامل ہوا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ عید، دیوالی، لوہڑی اور کرسمس ہر تہوار تمام شہریوں کے لیے خوشی کادن ہوتا ہے۔ شہر کے تمام لوگ نئے سال کی خوشیاں بھی ایک ساتھ منایا کرتے ہیں۔ لوگ اس شہر کی گنگاجمنی تہذیب کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ اس شہر میں کسی بھی فرقہ پرست کی دال نہیں گلتی، کیوں کہ لوگ مذہب اور فرقے کے نام پرتفریق نہیں چاہتے۔

    لیکن اچانک ایک عجیب وغریب واقعہ ہو گیا۔ ہوا یہ کہ ایک باریش بزرگ ایک گائے لے کر راستے سے جارہے تھے۔ وہ اتنے ضعیف تھے کہ ان سے گائے کی دیکھ بھال نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس لیے وہ گائے کو اپنے کسی رشتے دارکے حوالے کرنے جارہے تھے۔ راستے میں کچھ نوجوانوں نے اس بزرگ کوروک کر پوچھا، ”او بڈّھے، ہڈی کی دکان، کہاں لیے جا رہاہے گؤ ماتا کو۔“

    ”فلاں جگہ میراایک رشتہ دار رہتاہے، اسی کو دینے جا رہا ہوں۔ اس بڑھاپے میں اب اس کی دیکھ بھال مجھ سے نہیں ہوتی۔“ بزرگ نے ایمانداری سے جواب دیا۔

    ”بڈّھا جھوٹ بول رہاہے۔“ ان میں سے ایک نے کہا۔

    ”سالا بڈّھا یہ گائے قصائی کو بیچنے جارہا ہے۔“ دوسرا فوراً بول پڑا۔

    ”ہاں ہاں تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔“ تیسرے نے دوسرے کی بات پر مہر لگا دی۔

    ”ماروبڈّھے کو۔“ چوتھے نے چلاتے ہوئے کہا۔

    اتنا کہنا تھا کہ سارے نوجوان اس شخص پر ٹوٹ پڑے اوراسے پیٹنے لگے۔ وہ بوڑھا شخص کہتا رہا کہ”میری بات سنئے۔ میں گائے قصائی کو بیچنے نہیں جارہاہوں۔ سچ میں!میں اسے اپنے رشتے دار کو ہی دینے جا رہا ہوں۔ تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو میرے ساتھ چلو اور میرے رشتے دار سے بھی پوچھ لو“ لیکن وہ لوگ اس شخص کو اتنی بے رحمی سے پیٹ رہے تھے کہ ان کی آوازان نو جوانوں کے کانوں تک پہنچ ہی نہیں رہی تھی، بلکہ یوں کہییے کہ وہ نوجوان ان کی باتیں سننا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ ان لوگوں نے اس بزرگ کو صرف اس لیے پیٹ پیٹ کر مارڈالا کہ وہ باریش تھے۔

    بزرگ کو پیٹتے ہوئے دیکھ کر وہاں بھیڑ جمع ہو گئی۔ بھیڑبوڑھے کو بچانے کی بجائے اس بھیانک منظر کا ویڈیو بنانے میں لگ گئی۔ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردیا۔ ویڈیوکے فیس بک، واٹس یپ، ٹویٹر، انسٹا گرام وغیرہ پر پہنچتے ہی یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی۔ رہی سہی کسر پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا نے پوری کر دی۔

    یہ خبر لوگوں تک پہنچتے ہی شہر میں فساد ہو گیا۔ چاروں طرف افرا تفری کا ماحول بن گیا۔ پورا شہر نفسا نفسی میں مبتلا تھا۔ کیا ہندو، کیامسلمان، کیا سکھ اور کیا عیسائی کوئی بھی خودکو محفوظ نہیں سمجھ رہاتھا۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ شہر کی سڑکیں خون سے رنگ گئی تھیں۔ محلّوں کی گلیاں لاشوں سے اٹ گئی تھیں۔ شہر میں اتنی لاشیں جمع ہوگئیں کہ کفن کم پڑنے لگے۔ سلیم شہر کی اس قہر برپا حالات سے پریشان نہیں ہوا، نہ ہی اسے کسی قسم کی بے چینی ہوئی اور نہ ہی اسے خود کو محفوظ کرنے کی فکر ہوئی۔ بلکہ وہ خوش ہوا۔ اس لیے نہیں کہ وہ اس قہر برپاکرنے والے دہشت پسندوں میں سے تھا۔ اس لیے بھی نہیں کہ فساد سے اس کو قلبی سکون مل رہا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھاکہ اسے لوگوں کی جان ومال کی فکر نہیں تھی اورایسا بھی نہیں کہ وہ انسانیت سے بے بہرہ تھا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ خود کو محفوظ سمجھ رہاتھا۔

    بلکہ اس قہر ناک منظرنے سلیم کے سوچ کی دھارا بدل دی۔ اس کی آنکھیں کسی چیز پر ٹکی ہوئی تھیں، لیکن اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسا لگ رہاتھا کہ اس وقت وہ اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ دماغ کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا۔ اسے روزگارتو کیاروزگار فراہم کرنے کی پوری منڈی نظر آرہی تھی۔ وہ خوش تھااس لیے کہ اسے روز گار مل گیا تھا۔ ایسا روز گار، جس سے اس کی روزی روٹی کا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں آیا۔ انسان کوجیتے جی بھر پیٹ کھانا میسر ہو یا نہ ہو، سر چھپانے کے لیے چھت نصیب ہو یا نہ ہو، زندگی میں تن ڈھکنے کے لیے کپڑے میسرہوں کہ نہ ہوں، مگر مرنے کے بعد اسے کفن کی ضرورت ضرور ہوتی ہے۔

    دوسری صبح اس نے اپنے گھر کے صحن میں ایسبسٹاس کی پارٹیشن لگا کر ایک شاندار دکان کھولی اور اوپر جلی حرفوں سے لکھا ہواسائن بورڈ لگا دیا۔۔۔”کفن کی دکان۔“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے