Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کفارہ

MORE BYممتاز شیریں

    کہانی کی کہانی

    زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کرتی ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو درد زہ میں مبتلا ہے، مرا ہو بچہ پیدا ہوتا ہے، کسی صورت عورت بچ جاتی ہے۔ خود کو زندہ سلامت پاکر عورت کہتی ہے کہ میں نے کسی زندگی کو نہیں موت کو جنم دینے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوال کرتی ہے اس کفارے کے لیے اسی کا انتخاب کیوں کیا گیا، ایک عورت ہی کیوں، کسی مرد کا انتخاب کیوں نہیں؟

    ایک کاغذ بالکل سادہ اور سپید میرے آگے بڑھایا گیا۔ میری کور ہوتی ہوئی آنکھیں جو تاریک خلا میں بھٹک بھٹک کر تھک رہی تھیں اس مکمل سپیدی پر جم کر رہ گئیں۔

    اچانک میری نظر کے آگے اس سپیدی پر کالا رنگ انڈیل دیا گیا۔ گہرا قطرہ بہ قطرہ گرتا اور پھیلتا ہوا۔ پھر یہ کالا رنگ خشک ہو کر سفید کا غذ پر ایک اچوڑی پٹی کی شکل میں محیط ہو گیا۔

    مشیت کے ہاتھوں نے لکھا اور نقطوں کی لکیر کی طرف اشارہ کیا۔

    جبروقہر کی آواز آئی،

    ’’اس پر دستخط کردو۔‘‘

    سیاہی کی گنجان چوڑی پٹی کے نیچے میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کر دئیے۔

    میں نے اپنی موت کے فرمان پر دستخط کر دئیے تھے۔

    موت دریچے سے لگی ہوئی مجھ سے ذرا سا دور کھڑی تھی اور مجھے اپنے عشوہ انداز سے للچا رہی تھی۔ وہ ہیجان خیز اور شہوت انگیز تھی۔ بھری بھری گدرائی ہوئی رانیں، کولہوں کی گولائیاں جلد سے چپکے ہوئے اسکرٹ سے پھٹی پڑ رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر ریوے لان یا ہیلنارو ہنسٹائن کا میک اپ چڑھا ہوا تھا۔ دہکتے ہوئے سرخ ہوسناک ہونٹوں پر حقارت اور سفاکی کا تبسم لیے وہ کہہ رہی تھی ’’یہ زندہ نہیں رہےگی۔‘‘

    ’’نہیں نہیں ڈاکٹر سپارناکورن ایسا مت کہو۔‘‘ سفید براق فرشتہ رحمت نے چیخ کر کہا۔ اس نے تیز ی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تا کہ میں اس کی چیخ نہ سننے پاؤں۔ وہ سرگوشی میں ملتجیانہ انداز سے کہے جا رہی تھی، نہیں ڈاکٹر اسے بچالو، ہم سب کو اس سے بڑا لگاؤ پیدا ہو گیا ہے۔ کیسی پیاری موہنی سی ہے۔۔۔ اس نے تکلیف سہتے میں کس خاموش طاقت اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تین دن یہ درد کی اذیت میں مبتلا رہی اور مسکراتی رہی۔ ایک چیخ ایک کراہنے کی آواز تک اس کے ہونٹوں سے نہیں نکلی۔‘‘

    گہرے پنسل سے کھنچی ہوئی مصنوعی ابھروؤں کی کمانیں تن گئیں۔ درشت آواز نے کہا ’’تم لڑکیاں کتنی جذباتی بن سکتی ہو۔ علاج میں جانبداری یا تعلق سے کام نہیں لیا جاتا، سمجھیں نا ضابطہ کی پابندی میں جذباتیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ امراض کا علاج ایک سائنس ہے۔ تمہیں ہر مریض پر مکمل بےتعلقی سے خالی از جذبات ہوکر توجہ دینی چاہیے۔ اس مریضہ میں تمہارے لیے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ اس مریضہ کا معاملہ زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔ زندگی کی امید بہت کم ہے۔‘‘

    کوئی جاتے جاتے یہ الفاظ سن کر رک گیا جیسے اسے سخت تکلیف ہوئی ہو اور مڑ کر تلخ لہجے میں پوچھا ’’کیا انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ یہ مریض تمہارے لیے صرف ایک ’’کیس‘‘ ہے؟ خدا کا شکر ہے ڈاکٹر سپاناکورن کہ یہ کیس تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسپنگلر اس مریض کو بچانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں گے اور ہر قیمت پر اس کی زندگی بچانے کی کوشش کریں گے میرے لیے یہ زندگی بہت قیمتی ہے، بہت عزیز۔‘‘

    اور وہ جو موت تھی، اس نے بے پروائی سے اپنے کندھے سکوڑ کر بات سنی ان سنی کر دی۔ ’’زیادہ سے زیادہ دس فیصد امکان ہے ا سکے زندہ بچنے کا‘‘ اس نے حرف آخر کے طور پر اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ کٹمنیٹرا کے ہاتھ تھے جن کے ناخنوں سے خون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔

    جواب کی سفاکی سے مجروح ہو کر پیار میری طرف اس طرح بڑھا جیسے وہ مجھے اپنی آغوش میں لے کر موت کے آگے سپر بن جائےگا۔

    میں نے آنکھیں بند کر لیں اور موت کا انتظار کرتی رہی۔ میری زندگی سبک دوش ہو کر دوبارہ مرگ کا انتظار کرتی رہی۔

    چنانچہ مجھے مرنا تھا۔ ایک بےمعنی اور بےمصرف زندگی ناگہاں اپنے اختتام کو پہونچ جائےگی میں نے زندگی میں کوئی معرکہ سر نہیں کیا، کسی چیز کی تخلیق نہیں کی۔ کوئی ایسا کام نہیں کیا جو میری اب تک کی زندگی کا کوئی جواز بن سکتا لیکن اب ایک نئی زندگی کی تخلیق شاید میری زندگی کا جواز بن جائے۔

    میں نے آنکھیں کھولیں اور محبت کے چہرے پر نگاہ کی اس لمحہ مجھ پر منکشف ہوا کہ مجھے کتنا چاہا گیا ہے۔ میری کتنی قدر کی گئی ہے، میری زندگی بےکار اور بےمصرف ہونے کے باوجود ان کے لیے بہت اہم اور قیمتی تھی جو مجھ سے محبت کرتے تھے۔ اس لمحہ جب موت کا سرد ہاتھ مجھ پر منڈلا رہا تھا، یہ خیال بڑا اطمینان دہ تھا۔

    محبت کا چہرہ مجھ پر جھکا ہوا تھا۔ اس چہرے پر اندرونی کرب اضطراب اور پریشانی کے نشانات مرتسم تھے۔ درد کو چھپا نے کی کوشش میں ایک ایک نس پر نا قابل برداشت بار پڑ رہا تھا اور محبت کے چہرے کو دیکھتے ہوئے موت کا عرفان میرے بہت قریب تھا۔

    کیا موت گناہ کی قیمت اور کرب جرم کا کفارہ تھا؟ میں تو گناہ سے ناآشنا تھی، یاکہیں ایسا تو نہیں کہ میں نے کبھی گناہ کی جھلک دیکھ لی ہو، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو؟ اور پھر گناہ کو چھوٹا یا بڑا قرار دینے کا پیمانہ کس کے پاس ہے؟

    محبت کے چہرے کو دیکھتے ہوئے موت کا عرفان میرے بہت قریب تھا۔

    محبت نے مجھے موت سے بچانے کے لیے اپنا بازو بڑھا رکھا تھا۔ اندر گڑی ہوئی نشتر کی سوئی لال قطرے چوس رہی تھی، سیال سرخی بتدریج بڑھ رہی تھی اور جب سرنج بھر گئی تو سوئی نکال لی گئی ہے۔

    سوئی میرے ہاتھ کی باریک رگ کو ٹٹولتی رہی۔ بےشمار مرتبہ سوئی میری کلائی میں داخل ہوئی اور کہنی کے نیچے نیلی رگوں کے پھیلے ہوئے جال میں سرگرداں رہی۔ میرے پلنگ کے پاس لگے ہوئے دہشت ناک سلنڈروں سے گلوکوس کا محلول سوئی سے ذریعے میرے جسم میں داخل ہوتا رہا۔

    پھر کسی خطرناک دوا کا محلول قطرہ بہ قطرہ آہستہ آہستہ میری رگ میں اترتا رہا۔

    اور جب میں تھکن سے خستہ ہو کر آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹی ہوئی تھی تو میں نے ایک خوفزدہ کرنے والی آواز کو سرزنش کرتے ہوئے سنا،

    ’’یہ بہت خطرناک اور طاقتور عرق ہے اسے بہت آہستہ جانا چاہیے، اگر بہاؤ تیز ہو گیا یا زیادہ مقدار بدن میں چلی گئی تو شدید انقباض پیدا ہو جائے اور اندرونی حصے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا خطرہ ہے۔ ذرا سی لاپروائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ ساری رات مستقل نگہداشت کی ضرورت ہے۔‘‘

    ساری رات نگہداشت کی جاتی رہی اور لمحہ بہ لمحہ میری تکلیف اور درد کا اندراج ہوتا رہا۔

    وہ دوسری رات تھی۔ خوفناک اور ڈراؤنی۔

    اوریہ تیسری رات۔

    اب میری رگوں میں گرم انسانی خون ٹپک رہا تھا۔ بلڈ بینک کے بخ خانوں سے لیا ہوا خون نہیں بلکہ محبت کے بازو سے نکلا ہوا تازہ اور زندہ خون۔ جیسے جیسے یہ خون میرے جسم میں داخل ہو رہا تھا میرا بدن اپنی کھوئی ہوئی حرارت دوبارہ حاصل کر رہا تھا اور مجھ میں زندگی واپس آ رہی تھی۔ زندگی میرے پاس مسکراتی ہوئی محبت کی مضطرب اور بےچین نظروں کو ڈھارس بندھاتی ہوئی کھڑی تھی۔

    ایک ممنون طمانیت کے ساتھ دو نرم محبت بھرے ہاتھوں نے میرے ہاتھوں کو تھپتھپایا۔ ایک ہاتھ نے بڑھ کر شفقت کے ساتھ میرے ماتھے سے بالوں کو پیچھے ہٹایا ’’تم ٹھیک ہو جاؤگی۔‘‘

    ’’تم ٹھیک ہو جاؤگی۔‘‘ زندگی کے فرشتے کے ہونٹوں سے ایک مہربان مسکراہٹ کی شعاعیں پھوٹیں۔ ’’تم طاقتور ہو تم میں بحرانی کیفیتوں کے شدائد برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ خطرے کو بڑھانے والی چیزیں تو خوف اور لاعلمی ہوتی ہیں۔ اس پورے وقفے میں تم نے بڑی بہادری سے کام لیا ہے اور ہم سے پورا پورا تعاون کیا ہے۔ تمہیں صورت حال کا صحیح شعور ہے اور اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے جو ارادے کی قوت چاہیے وہ بھی تم میں موجود ہے اور تم یقیناً اس پر قابو پا جاؤگی۔‘‘

    میں نے سکون اور راضی بہ رضا مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’ہاں، ڈاکٹر اسپنگلر۔‘‘

    اور پھر میں نے محبت کے چہرے کو کھلے ہوئے وسیع دروازوں میں غائب ہوتے ہوئے دیکھا جو اس کے پیچھے بند ہو گئے۔ یہ آرفیوس کا چہرہ تھا، جو روشنی کی دنیا میں غائب ہو گیا۔

    ایک ان دیکھی جبری طاقت مجھے تاریکی کی ابدیت میں کھینچ لے گئی۔

    پھر بھی یہ موت نہیں تھی جو میرے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ یہ زندگی کا فرشتہ تھا۔ اس کے سفیددانت ایک دلاویز اور مسحور کن مسکراہٹ میں ایک ثانیہ کے لیے چمکے اور پھر ایک سفید نقاب میں روپوش ہو گئے۔ سنہرے بالوں والا سر ایک سفید ٹوپ میں چھپ گیا اور نیلی آنکھیں جو شفقت سے جگمگاتی تھیں اب سنجیدہ اور متفکر ہو گئی تھیں۔

    سفید لبادہ اور سفید ٹوپ میں ڈھکے ہوئے اور کئی ایک خاموش سایوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے ایا۔

    میں نے اپنی زندگی خدا کے ہاتھوں میں دے دی۔

    ریڑھ کی ہڈی کے دھانے پر اعصابی مرکز میں اترتی ہوئی سوئی کے ساتھ موت مجھ میں داخل ہوئی اور یکے بعد دیگرے میرے سارے عضلات میرا پورا بدن بےحس، سرد اور بےجان ہوتا گیا۔

    میں نے ساکت اور بے جان پیکر کو میز پر سفید چادروں میں لپٹا ہوا چھوڑ دیا۔

    میں نے اپنے آپ کو آزاد محسوس کیا۔ یک دم آزاد اور بے قید جیسے میں اپنے جسم کے زندان سے رہا ہوکر ایک بےحد و بےکراں وسعت میں داخل ہو گئی تھی۔

    میرے چاروں طرف وسیع زمین پھیلی ہوئی تھی، بنجر اور ویران زمین، دفعتاً میرے پیروں کے نیچے زمین کانپنے لگی۔ زمین کانپتی لرزتی رہی اور اس طر ح تشنج میں مبتلا رہی جیسے درد زہ سے گزر رہی ہو۔ زمین نے اپنے اندر سے بیش بہا خزانے کا مغینہ باہر اگل دیا۔ لیکن زمین کے بطن سے کوئی زندگی نمودار نہیں ہوئی۔

    پونم کی چاند رات کی طرح۔

    وہ سرمستی ورعنائی کا پیکر بن کر جاگ اٹھی ہے۔

    ایک ایک گوشے سے ہر اپسرا زندہ ہوکر نیچے اتر آئی اور سب مل کر رقص میں شامل ہو گئیں۔

    آسمانی جل پریاں ناچتے ناچتے ایک بے حد و بے کراں فضا میں پہنچ گئیں۔

    ان کے ملکوتی جسموں کی تابناکی میں روحانی عظمت کے چراغ روشن تھے۔

    یہ آسمانی اپسرائیں صرف درباری ناچنے والیاں تھیں۔ ناچ فنکارانہ اور مخصوص کھمیر وضع کا تھا۔ ساری اپسرائیں اسی طرح ناچ رہی تھیں جس طرح صدیوں پہلے سوریہ ورمن کے دربار میں انہوں نے ناچا ہوگا۔ نازک ہاتھ مختلف زاوئیے بناتی ہوئی مخروطی انگلیاں بل کھاتے ہوئے اعضا کا نوچ، نرم و نازک ہتھیلیاں جو جڑ کر کھلتے ہوئے کنول بن رہی تھیں۔

    جو اپسرا ناچتی ہوئی گزرتی اس کی طرف جان لیوا ہیرے کی انگلی اٹھتی، جو شیوا نے بدصورت ناقص الخلقت بو نے کو بخش دی تھی اور تمام اپسرائیں ایک ایک کرکے مردہ ہوکر گرتی گئیں۔

    ننھی دبلی پتلی اور نازک جل پریاں برف کی طرح سفید حسین پروقار، سروقد اور راج ہنسوں جیسی BALLERINAS میں بدل گئیں، جو جھیل کے سحر سے آزاد ہوکر چاندنی رات میں چائے کو وسکی کی مسحورکن موسیقی پر ناچ رہی تھیں۔

    راج ہنسوں کی شہزادی سب سے الگ ہو کر اکیلی اپنا آخری رقص کرتی رہی۔ فضا میں اس کی آواز ابھری۔ وہ اپنی موت کا نغمہ گارہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی حرکات مضمحل ہوتی گئیں اور وہ فرش پر گر پڑی اس کے نازک بدن میں ایک آخری تھرتھراہٹ پیدا ہوئی اور اسی حسن و تمکنت کے ساتھ وہ موت کی آغوش میں سو گئی۔

    موت میں بھی ایک وقار اور حسن ہوتا ہے۔

    نہیں نہیں، موت تو بدصورت اور مضحک تھی۔ میں نے اصلی اور حکایاتی جنگوں کے مناظر سے منقوش دیواروں کے درمیان سے گذرتے ہوئے سوچا، خونریزی کے مناظر، موت اور تباہی کے مناظر۔۔۔ اور یہ جہنم تھا، ادی سی، کبھی نہ بجھنے والی آگ سے بھرا ہوا الاؤ جو انسانی جسموں کے ایندھن پر جل رہا تھا۔ شعلوں کی تیز زبانیں گناہ گاروں کے تعاقب میں لپک رہی تھیں۔

    نٹ راجا دیوانہ وار اپنا وحشیانہ موت کا ناچ ناچتا رہا اور پھر اپنی ایک ٹانگ رقص کے انداز میں فضا میں معلق کئے ہوئے دوسری ٹانگ پر کھڑا ہو گیا۔ اس کا پیر انسان کی گردن پر تھا اور انسانی زندگی اس کے پیر کے نیچے دم توڑ رہی تھی۔

    ہندوستانی نٹ راجا، شیوا کے زیادہ شفیق کمبوڈین پیکر میں ڈھل گیا۔ اس کے موٹے ہونٹوں پر ایک مہربان بلکہ ہوسناک تبسم تھا۔ اس کے سر پر بالوں کی جٹائیں بل کھاتے ہوئے سانپوں کی طرح لپٹی ہوئی تھیں، جو نصف چاند کا ہالہ سجا ہوا تھا۔ شیوا تخریب کا دیوتا تھا اور اسی لیے تخلیق کا بھی دیوتا تھا کیونکہ موت ہی کی کوکھ سے زندگی نکلتی ہے۔

    اور وشنو نے اپنے ساتھ سینکڑوں دیوتاؤں اور راکھششوں کو لے کر دودھ کے ساگروں کو آب حیات کے لیے متھ ڈالا۔

    کلدانی تصویروں کی گیلری سے گذرتی ہوئی میں اوپر چڑھنے لگی، مرکزی برج کی عبادت گاہ کی طرف بڑھنے لگی۔ اینگ کور کا مندر درجہ بدرجہ بلند ہوتے ہوئے اتنا حسین اور متناسب لگتا تھا جیسے پتھر میں موسیقی منجمد ہو گئی ہو۔ چار گوشوں کے چار برجوں کی منزلیں مصری اہرام کے سے تکون بناتے، مرکزی برج کے کنول کی طرف اٹھتی تھیں اور یہ کنول نما سربفلک مینار کیلاش یا میرو کے پہاڑ کا اسم تھا۔ کیلاش جو دیویوں دیوتاؤں کا مسکن اور ساری کائنات کا مرکز تھا۔

    لیکن اوپر راستہ تنگ اور تاریک تھا، سیڑھیاں اونچی اور چکنی تھیں اندرونی عبادت گاہ میں اندھیرا تھا اور قدم بڑھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔

    میں آخری زینے پر کھڑی ہوئی تھی، عبادت گاہ سے ایک شبیہہ اگر بتیاں تھامے ہوئے، جو طاق میں جلائی جاتی ہیں، نیچے اتررہی تھی۔ زعفرانی رنگ کی عبامیں ملبوس جو رومی چوغے کی طرح ڈھیلی ڈھالی تھی۔ اس نے مندر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک اور شہ نشین پر بدھ کے مجسموں کی قطار بنی ہوئی تھی۔ یہ منظر بنکاک کے مشہور سنگ مرمر کے مندر کے جانے پہچانے منظر میں تبدیل ہو گیا۔ بدھ کے سنہری مجسموں کی قطاریں بدھ بیٹھے ہوئے مراقبہ میں مستغرق، لیٹے ہوئے، استادہ ہاتھ اٹھا کر سمندروں کو پرسکون کرتے ہوئے۔

    دنیاؤں کی لاعلمی سے بہت اوپر۔

    موسموں کے تغیر و تبدل کے سایوں سے بہت آگے۔

    بدھ کا آئین چمک رہا ہے، اس طرح، جیسے

    چاند موسم خزاں کے آسمان پر چمک کر

    کائنات کو اپنی محبت کی کرنوں سے پوتر بنا کر آغوش میں لے لیتا ہے۔

    جسم ایک بدرو ہے، ہر طرح کی غلاظت اور گندگی کا گھر۔

    جاننے والے کے لیے زندگی۔

    ایک ننھے سے دئیے کی لرزتی ہوئی لو ہے۔

    جو ہوا کے ایک جھونکے میں بجھ جاتی ہے۔

    وہ مقدس اور تمثیلی درخت سامنے تھا جس کے گھنے سائے تلے بدھ کو روشنی ملی تھی میں نے درخت کی طرف دیکھا وہاں روشنی نہیں تھی۔

    شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ عظیم الشان کھمیر تہذیب کے ان شاندار کھنڈرات میں تنہا بھٹکتی ہوئی بڑھتی ہوئی تاریکی سے میں خوفزدہ ہونے لگی۔ راستے سکڑ کر دوبارہ ایک بھول بھلیاں میں بدل گئے۔ ہوا رک گئی تھی۔ میرا دم گھٹ رہا تھا

    ’’آکسیجن کی جالی ٹھیک کرو۔ سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔‘‘ کہیں قریب کسی نے تیزی سے سرگوشی میں کہا’’آکسیجن۔‘‘

    ہوا میں تازگی تھی۔ میرے ارد گرد روشنی تھی۔ میرے اوپر کھلتی ہوئی محرابیں شاندار تھیں، ستون سفید، مر مر کے بنے ہوئے، سنگ مرمر تقدس اور پاکیزگی کی ایک ملکوتی فضا کا حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ یہاں نہ کندہ کی ہوئی شکلیں تھیں، نہ مجسمے اور تصویریں، لیکن پھر بھی اس سادگی اور پاکیزگی کا ایک اپنا تحیر خیز حسن اور جمال تھا۔ یہاں مورتیاں نہیں تھیں، خارجی علامات نہیں تھے۔ کوئی ’’واسطہ حسن قبول‘‘ نہ تھا لیکن ایک غیر مرئی برتر و بالا وجود جاری و ساری تھا۔ اپنے خالق سے ایک خالص اور بالراست تعلق کا احساس تھا۔

    سفید بیضوی گنبد، مرمر کے ستون، پھیلی ہوئی محرابیں شفاف فانوس یہ یقیناً بادشاہی مسجد تھی ان جانی، اجنبی راہوں پر بھٹک کر، میں گھر لوٹ آئی تھی۔ مرکزی قبے کے نیچے میں سجدے میں گر گئی ا ور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے لگی۔ میرا سارا وجود ایک عجیب اور انو کھی مسرت سے لبریز تھا۔ بالاخر مجھے سکون مل گیا۔

    میں نے اٹھ کر اپنے اردگرد سراسیمہ ہو کر نظر ڈالی۔ میں کہاں تھی؟ ایسا معلوم ہو رہا تھا زمان و مکان جہت اور پیمانے سے محروم ہوکر اپنا مفہوم کھو بیٹھے تھے اور میں گویا زمان و مکان سے گزر کر ابدیت میں داخل ہو رہی تھی۔

    یا اس کے برعکس ابدیت سے نکل کر ’’اب‘‘ اور ’’موجود‘‘ کی دنیا میں واپس آ رہی تھی؟

    تمام وقت ازلی اور ابدی ’’حال‘‘ ہے۔

    جن راستوں سے ہم نہیں گزرے۔

    وہاں کے قدموں کی چاپ،

    بازگشت بن کر یادوں میں گونجتی ہے۔

    یہ نہ اینک کور کے سرمئی ستون تھے اور نہ بادشاہی مسجد کے سنگ مرمر کے ستون بلکہ معمولی عام قسم کے گول ستون تھے۔ جن پر سفید اور خاکستری روغن چڑھا ہوا تھا۔ سنگ مرمر کی سیال، شفاف سپیدی صرف اسپتال کی دیواروں میں چنی ہوئی چمکدار ٹائلز میں تھی۔ ہاں، یہ بینکاک کا سیونتھ ڈے اڈونٹسٹ سینی ٹوریم ہاسپٹل تھا۔

    میں گویا ابدیت کی لامتناہی وسعت کے دھندلکو ں سے کھینچ کرقریبی اور متعین زمان و مکان میں واپس لائی گئی تھی۔

    اسپتال کی لفٹ نیچے آئی اور اس سے کوئی باہر نکلا، نہ عفرانی عبا نہیں سفید لباس پہنے ہوئے میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ عیسائی مشن کی عورت تھی جو روزانہ مریضوں کے پڑھنے کے لیے اپنے مشن کا لڑیچر لاتی تھی۔ اس نے ایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ کاغذ پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔

    ’’خدا کی بادشاہت قریب ہے۔

    مسیح موعود کا نزول قریب ہے۔‘‘

    آرمیگڈان کی بین الاقوامی جنگ، دینا کی تمام قوموں کے درمیان زبردست ٹکراؤ اور تقریباً پوری دنیا کے تہس نہس ہونے کے بعد زخموں سے نڈھال زمین کو سکون اور امن نصیب ہوگا۔

    مسیح موعود کی آمد قریب ہے۔

    مسیح کا نورانی شعاعوں میں زمین پر نزول ہوگا۔۔۔ یہ الفاظ ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہو گئے اور میرے ذہن میں دوسری کتابوں کے الفاظ رینگنے لگے جن میں۔۔۔ مسیح کی دوبارہ آمد، ان کی حکومت میں امن اور خوشحالی، یوم حساب کی نزدیکی، مردوں کا زندہ ہو اٹھنا، روزجزا کا آخری انصاف، جی اٹھے ہوئے مردوں کا ایک لامتناہی اندھیرے سے نکل کر حیران و سراسیمہ الوہی نور کی خیرہ کن روشنی کے سامنے جمع ہونا۔۔۔ سب مذکور تھا۔

    مجھے شہادت کی آرزو نہیں،

    مجھے آخری دید کی تمنا نہیں،

    مجھے صرف نفس مطمئنہ بخش دے۔

    میرے سامنے پھیلا ہوا خلا ایک سماوی روشنی سے معمور ہو گیا۔ طمانیت کا احساس میرے وجود میں پھیل گیا۔

    روشنی کے ایک دھارے میں میری ننھی ’’ریشمیں‘‘ کے پیکر میں گھنگریالے بالوں والی گڑیا، گلابی جھالروں کے فراک میں سرجھکا کر اپنے خوبصورت بالوں کے گھونگر ہلاتی ہوئی، ہونٹوں پر ایک شریر مسکراہٹ لیے ہوئے، ۔۔۔ محبت سے بے قابو ہوکر میں نے اس کی طرف اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ لیکن میری ننھی ’’ریشمیں‘‘ گریز پا نکلی۔ وہ روشنی کے تخت پر سوار ہو کر آسمانوں میں غائب ہو گئی۔ میری باہیں خالی کر رہ گئیں۔

    ساری ویرانی اور بنجرپن، ساری تنہائی میرے اپنے اندر تھی۔ سارا درد اور کرب پھر جاگ اٹھا۔ یہ درد اذیت دہ تھا، بہت اذیت دہ تھا۔ لاشعور کی وسعتوں میں آزادانہ گھومتا ہوا ذہن تکلیف دہ آگہی کے ایک نوکیلے نقطہ پر مرکوز کر دیا گیا۔ روح اپنی لاحاصل تلاش کے سفر سے لوٹ کر دوبارہ اپنے زندان میں داخل ہو گئی، جو میرا جسم تھا۔

    میں نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔ روشنی میری کمزور آنکھوں کو تکلیف دے رہی تھی۔ ’’روشنی‘‘ آپریشن کی میز پر پڑتی ہوئی خیرہ کن، بےرحم اور آنکھوں کو اندھا بنانے والی روشنی تھی۔ ’’طمانیت‘‘ مارفیا یا اور کوئی خواب آور، دوا تھی جو میرے درد کی شدت کو کم کرنے کے لیے دی گئی تھی۔ لیکن کوئی مارفیا اس درد کو مٹا نہیں سکتا تھا جو میرے اپنے اندر موجود تھا، میرے وجود کی گہرائی میں زندہ تھا۔

    میرے نفس نے آزاد ہو کر عالمگیر ویرانی اور تنہائی کا جوتصور دیکھا تھا وہ دراصل میرے اپنے شدید اندرونی احساس کا اظہار تھا۔ جیسے جیسے آہستہ آہستہ، میرے حواس مجتمع ہوتے گئے ویرانی اور اجاڑپن کا کائناتی احساس سمٹ کر ایک شدید ذاتی المیے میں ڈھل گیا۔

    جیسے ہی دروازہ کھلا باہر اذیت دہ انتظار کا اعصابی تشنج ختم ہوا اور وہ اندر داخل ہوئے لیکن ڈاکٹر نے ممانعتی انداز میں ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور انہیں الگ لے گیا۔ میں ڈاکٹر کی سرگوشیانہ لہجے میں گفتگو سن سکتی تھی۔ ’’مجھے افسوس ہے، بےحد افسوس بچہ کو بچایا نہیں جا سکا ہم نے دل کے مساج کا طریقہ بھی آزمایا مگر بےکار۔ آخری لمحہ تک ہم نے اس کے دل کی دھڑکن پر کان لگائے رکھے۔ وہ زندہ تھا۔ موت پیدائش کے فوراً بعد ہوئی ایک طرح سے پیدائش اور موت دونوں ایک ساتھ واقع ہوئیں۔‘‘

    صمیم دل سے مانگی ہوئی آخری دعا نے شاید یہ ننھی زندگی ایک دوسری زیادہ ’’قیمتی‘‘ زندگی کے بدلے میں بھینٹ دے دی تھی۔

    کیا دل کی گہرائیوں سے مانگی ہوئی وہ دعا قبول ہوئی تھی؟ ان کی کربناک اور مضطرب آنکھیں میری طرف پلٹیں۔

    ڈاکٹر نے جلدی سے انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کی۔ ’’اب یہ ٹھیک ہیں، آہستہ آہستہ ہوش آ رہا ہے، جلد ہی انہیں ان کے اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا جائےگا اور آپ ان سے بات کر سکیں گے۔ اس ابتلا سے وہ بڑی ہمت سے گزریں۔ بڑا پیچیدہ اور خطرناک کیس تھا لیکن اب خطرے کی سرحد پار ہو گئی ہے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سیزیرین آپریشن بذاتہہ خطرناک نہیں ہوتا گو کہ بڑا آپریشن ہے کیونکہ شگاف براہ راست پیٹ کے اندر اترتا ہے لیکن آج کل سلفا ڈرگس اور اینٹی بائیوٹکس کے اس وور میں سمیت پھیلنے اور موت کے خطرات بالکل دور ہو گئے ہیں۔ وہ خطرے سے باہر ہیں ابھی ان کی حالت بہت نازک ہے اور انتہائی حفاظت اور نگہداشت کی ضرورت ہے۔ بچہ کی موت کے بارے میں انہیں ابھی نہ بتایا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘

    میرے دل پر سردی کی ایک تہہ سی چڑھ گئی۔ میرے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ میرے سینے میں جو نئی محبت کا شعلہ بھڑ کا تھا وہ سرد ہو گیا۔

    موت مجھے چھوتی ہوئی گزر گئی لیکن جاتے جاتے وہ تاوان میں اس ننھی سی زندگی کو لے گئی جو میرے اندر متحرک تھی۔ وہ ننھا وجود جو اپنی نشوونما کی ساری منزلوں میں میرے تخیل میں اتنا واضح طور پر موجود تھا، اس کی تقدیر میں صرف ایک لمحہ کی زندگی تھی۔

    میں نے زندگی کو نہیں، موت کو جنم دینے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ میں ندامت اور غم کے احساس میں ڈوب گئی۔ میری آنکھیں خشک تھیں، آنسوؤں کے پاس بھی اس درد کا علاج نہیں تھا۔

    میں تنہا تھی، اپنے کرب اور غم کے ساتھ، بالکل تنہا۔

    میں اس ساری قیامت سے موت کے لیے گذری تھی یا پیدائش کے لیے؟

    پیدائش ہوئی یقیناً لیکن۔۔۔

    یہ پیدائش میرے لیے موت کی طرح سخت اور تلخ اذیت بن گئی۔

    یہ بہت بڑا کفارہ تھا۔

    اس کفارے کے لیے مجھے کیوں منتخب کیا گیا؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے